نوافل کی جماعت اور خواتین کی امامت کا شرعی حکم
محترم قارئین : کچھ احباب نے نوافل کی جماعت اور عورت کی امامت کے متعلق
سوال کیا اور حکم فرمایا کہ اس کے متعلق شرعی حکم کیا ہے اس پر لکھیں سو
وقت کی قلت اور فقیر کی مصروفیات کی کثرت کی وجہ سے فی الحال مختصر مضمون
پیش خدمت ہے فقیر ڈاکٹر فیض احمد چشتی نے اس کے متعلق دونوں مؤقف پیش کر
دیئے ہیں اللہ تعالیٰ ہمیں عمل کرنے کی توفیق عطاء فرمائے آمین ۔
نفلی نماز سے مراد وہ نماز ہے جس کا پڑھنا کسی شخص پر لازم نہیں بلکہ یہ پسندیدہ فعل ہے ۔ نوافل نہ پڑھنے سے انسان ان کے اجر سے محروم ہوجاتا ہے ۔ اور نوافل کی جماعت کے متعلق دو مؤقف ہیں :
پہلا مؤقف نوافل کی جماعت جائز ہے اس کے دلائل
نفل نماز کا باجماعت ادا کرنا درست ہے اور صلوٰۃ الستبیح بھی نفل ہے ، بخاری شریف میں ہے کہ ایک نابینا صحابی حضرت عتبان رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اپنے گھر لے گئے اور حضور علیہ السلام نے برکت کے لیے دو رکعت نفل باجماعت ادا فرمائے۔(صحیح بخاری جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 40 مطبوعه کراچی،چشتی)
شرح بخاری عمدۃ القاری میں علامہ بدرالدین عینی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں : و فيه صلوة النافلة فی جماعة بالنهار.
ترجمہ : اور اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوگا کہ نفل نماز دن کو باجماعت ادا کرنا درست ہے ۔ (عمدة القاری جلد نمبر 4 صفحہ نمبر 170، مطبوعه کوئته،چشتی)
شریعت مطہرہ کی رو سے ماہ رمضان میں نفل نماز جماعت کے ساتھ پڑھنے کی اجازت ہے درالمختارج1ص524میں ہے : (ولا يصلي الوتر و) لا (التطوع بجماعة خارج رمضان) أي يكره ذلك لو على سبيل التداعي، بأن يقتدي أربعة بواحد ۔
اس سے معلوم ہوا باجماعت نوافل یا صلوٰہ التسبیح پڑھنا درست ہے ۔ تسبیحات مکمل طور پر بلند آواز سے پڑھنا درست نہیں ، بلکہ عوام کی سہولت کے لیے صرف ایک دفعہ "سبحان اللہ" پڑھے تو کافی ہے ۔
صلوۃ تسبیح کی فضیلت اوعر طریقہ ادائیگی
سنن ابن ماجہ شریف ’ص۹۹‘ میں حدیث پاک ہے عن ابن عباس قال قال رسول صلی اللہ علیہ وسلم للعباس بن عبدالمطلب یا عباس یا عماہ (الااعطیک الاامنحک الااحبوک الاافعل لک عشرخصال اذاانت فعلت ذلک غفراللہ ذنبک اولہ و اٰخرہ و قدیمہ و حدیثہ و خطا ہ و عمدہ و صغیرہ و کبیرہ و سرہ وعلانیۃ عشرفعال‘ ترجمہ:۔ سیدناابن عباس رضی اللہ عنھما سے روایت ہے حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے حضرت عباس بن عبدالمطلب سے فرمایااے عباس اے میرے چچاجان! کیا میں آپ کو عطانہ کروں کیا میں آپ کو سرفراز نہ کروں کیا میں آپ کے ساتھ احسان نہ کروں کیا میں آپ کو ایسی دس خصلتیں نہ بتاؤں جب آپ ان کو کرینگے تو اللہ تعالی آپ کے سب گناہ معاف فرمادے گا چاہے اگلے ہوں یا پچھلے نئے ہوں یا پرانے بھول کر کئے ہوں یا جان بوجھ کر‘ چھوٹے ہوں یا بڑے ‘پوشیدہ ہوں یا ظاہر‘آپ چار رکعت پڑھئے پھر آپ نے صلوۃ تسبیح پڑھنے کا طریقہ ذکر فرمایا۔
ترمذی شریف میں صلوۃ تسبیح پڑھنے کی تفصیل مذکور ہیکہ چاررکعت نفل صلوۃ تسبیح کی نیت کرے تکبیر تحریمہ اور ثناء کے بعد پندرہ مرتبہ یہ تسبیح پڑھے سبحان اللہ والحمد للہ ولا الہ الا اللہ واللہ اکبر پھر تعوذ،تسمیہ،سورہ فاتحہ اور ضمِ سورہ کے بعد دس مرتبہ یہی تسبیح پڑھے پھر رکوع کرلے اور سبحان ربی العظیم کے بعد دس مرتبہ تسبیح پڑھے رکوع سے سراٹھا کر تسمیع وتحمید کے بعد دس بار تسبیح بڑھے پھر پہلے سجدے میں سبحان ربی الاعلی کے بعد دس مرتبہ تسبیح پڑھے اور دونوں سجدوں کے درمیان کے وقفہ میں بیٹھ کر دس مرتبہ تسبیح پڑھے اور دوسرے سجدہ میں بھی دس مرتبہ تسبیح پڑھے اور دوسرے سجدے سے کھڑے ہوکر سورہ فاتحہ پڑھنے سے پہلے پندرہ مرتبہ تسبیح پڑھے اس طرح ہر رکعت میں پچھتر اور چاررکعتوں میں تین سو تسبیحات ہو تے ہیں۔اسی طرح چار رکعتیں مکمل کرکے سلام پھیر دے۔ صلوٰۃ التسبیح کسی بھی غیر مکروہ وقت پڑھی جاسکتی ہے‘ رات و دن میں ایک مرتبہ پڑھے یا ہفتہ بھر میں ایک مرتبہ یا مہینہ میں ایک مرتبہ یا عمر بھر میں ایک مرتبہ پڑھے۔ رد المحتار ج 1‘ کتاب الصلوٰۃ‘ مطلب فی صلوٰۃ التسبیح میں ہے: یفعلہا فی کل وقت لا کراہۃ فیہ أو فی کل یوم أو لیلۃ مرۃ وإلا ففی کل أسبوع أو جمعۃ أو شہر أو العمر وحدیثہا حسن لکثرۃ طرقہ ، چشتی)
دوسرا مؤقف نوافل کی جماعت منع و مکروہ ہے اس کے دلائل
فتاویٰ بزازیہ میں ہے : ولاینبغی ان یتکلف الالتزام مالم یکن فی الصدر الاول کل ھذا التکلف لاقامۃ امرمکروہ وہو اداء النفل باالجماعۃ علی سبیل ا لتداعی فلو ترک امثال ھذہ الصلوٰت تارک لیعلم الناس انہ لیس من الشعائر فحسن اھ وظاھرہ انہ بالنذرلم یخرج عن کونہ اداء النفل بالجماعۃ ۔ (بحوالہ شامی ج ۱ ص ۶۶۴،چشتی)
شرح منیۃ کبیری میں تحیۃ الوضوء ۔ تحیۃ المسجد اوربعد المغرب کے نوافل، استخارہ کی نمازاور صلوٰ ۃ التسبیح ، صلوٰۃ الحاجۃ نیز چاشت اورتہجد کی نماز کے ذکر کرنے کے بعد فرمایا ہے : فالصلوٰۃ خیر موضوع مالم یلزم منھا ارتکاب کراہۃ واعلم ان النفل بالجماعۃ علی سبیل التداعی مکروہ علی ماتقدم ماعدا التراویح وصلوٰۃ الکسوف والاستسقاء فعلم ان کلا من الصلوۃ الرغائب لیلۃ اول جمعۃ من رجب وصلوۃ البراء ۃ لیلۃالنصف من شعبان وصلوٰۃ القدر لیلۃ السابع والعشرین من رمضان بالجماعۃ مکروھۃ (کبیری صفحہ ۴۱۱ ، چشتی)
مانعین کا مؤقف یہ ہے کہ فقہاء کرام کی ایسی عبارات سے ثابت اورواضح ہے کہ تراویح ، صلوٰۃ الکسوف ، صلوٰۃالاستسقاء کے علاوہ تمام نوافل میں تداعی کے ساتھ جماعت مکروہ اور ممنوع ہے ، یہاں تک کہ وتر کی جماعت بھی صرف رمضان میں ہے غیر رمضان میں وہ بھی مکروہ ہے ، جبکہ تداعی کے ساتھ ہو ۔
بعض مساجد میں لوگ باجماعت صلوٰۃ التسبیح کے نوافل پڑھتے ہیں، فقہائے کرام نے ان کے لیے تداعی کو مکروہِ تنزیہی یعنی خلافِ اولیٰ قرار دیا ہے اور بعض نے فرمایا کہ جو لوگ پڑھ رہے ہوں، اُن کو منع نہ کیا جائے۔ امام احمد رضا قادری لکھتے ہیں : تراویح کے سوا دیگر نوافل میں امام کے سوا تین آدمیوں تک تو اجازت ہے ہی، چار کی نسبت کتب فقہیہ میں کراہت لکھتے ہیں، یعنی مکروہِ تنزیہی، جس کا حاصل خلافِ اَولیٰ ہے، نہ کہ گناہ وحرام (جیساکہ ہم نے اس کی تفصیل اپنے فتاویٰ میں دی ہے)۔ مگر مسئلہ مختلف فیہ ہے، بہت اکابر دین سے نوافل کی جماعت کی تداعی ثابت ہے اور عوام فعلِ خیر سے منع نہ کیے جائیں، علمائے امت وحکمائے ملت نے ایسی ممانعت سے منع فرمایا ہے، درمختار میں ہے: ’’عوام کو تکبیرات اور نوافل سے کبھی بھی منع نہ کیا جائے، کیونکہ پہلے ہی نیکیوں میں اُن کی رغبت کم ہوتی ہے، بحوالہ البحر الرائق، اسی میں ہے: ’’عوام کو ان (ذوالحجہ کے) دس دنوں میں بازار میں تکبیرات پڑھنے سے منع نہ کیا جائے، اسی پر ہمارا عمل ہے، (بحر اورمجتبیٰ وغیرہ)‘‘۔ حدیقہ ٔندیّہ میں ہے: ’’صلوٰۃالرغائب کا جماعت کے ساتھ ادا کرنا اور لیلۃ القدر کے موقع پر نماز وغیرہ بھی اسی قبیل سے ہیں، اگرچہ علماء نے ان کی جماعت کے بارے میں کراہت کی تصریح کی ہے، مگر عوام میں یہ فتویٰ نہ دیا جائے تاکہ نیکیوں میں ان کی رغبت کم نہ ہو، علماء نے اس مسئلہ میں اختلاف کیا ہے اور متاخرین میں سے بعض نے اس کے جواز پر لکھابھی ہے، عوام کو نماز کی طرف راغب رکھنا انہیں نفرت دلانے سے کہیں بہتر ہوتا ہے، (فتاویٰ رضویہ، ج:7، ص: 465 - 466،چشتی)
اعلیٰحضرت امام احمد رضا قادری رحمۃ اللہ علیہ مزید لکھتے ہیں: ”شیطان کا بڑا دھوکا ہے کہ آدمی کو نیکی کے پردے میں ہلاک کرتا ہے، نادان سمجھتا ہی نہیں، نیک کام کر رہا ہوں اور نہ جانا کہ نفل بے فرض نرے دھوکے کی ٹٹی ہے، اِس کے قبول کی امید تو مفقود اور اس کے ترک کا عذاب گردن پر موجود۔ اے عزیز! فرض، خاص سلطانی قرض ہے اور نفل گویا تحفہ و نذرانہ۔ قرض نہ دیجیے اور بالائی بیکار تحفے بھیجیے، وہ قابلِ قبول ہوں گے؟، خصوصاً اس شہنشاہ غنی کی بارگاہ میں جو تمام جہان والوں سے بے نیاز ہے، (فتاویٰ رضویہ، جلد:10 ص:178، مطبوعہ: رضا فائونڈیشن، لاہور)
عورتوں کی امامت کا شرعی حکم
اہل سنت و جماعت کے نزدیک عورت کی امامت درست نہیں ‘ شریعت کا یہ حکم عورت کے حاجات و ضروریات کی مناسبت سے دیا گیا ہے (اس میں عورت کی تنقیص کا کوئی پہلو نہیں) عورت کے لئے پنجگانہ فرض نمازیں گھر میں پڑھنے کی تاکید کی گئی ہے ، جب فرض نماز کے لئے ان کی جماعت نہیں رکھی گئی تو سنت و نفل کے لئے ان کی جماعت کیسے درست ہوگی ؟ عورتوں کے لئے جماعت کا مقرر نہ کیا جانا ان کے لئے اللہ کی ایک رحمت ہے اور اس میں بے شمار فوائد و مصالح ہیں ۔ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے ، اس نے معاشرے کے ہر فرد کیلئے حدود اور علیحدہ دائرہ کار متعین کردیا ہے ، خواتین کیلئے تدبیر منزل ، امور خانہ داری اور تربیت اولاد کی ذمہ داری سونپی گئی ہے اور مرد کو من جملہ اسکی ذمہ داریوں کے ایک منصب امامت بھی دیا گیا ہے ۔ جہاں تک خواتین کی امامت کا مسئلہ ہے توچونکہ عورتوں کیلئے امامت اصلاً نہیں ہے اسی لئے خواتین کی امامت مرد حضرات کیلئے درست نہیں اور خواتین کیلئے کسی خاتون کی امامت خواہ فرائض میں ہو یا نوافل میں مکروہ تحریمی ہے ۔ فتاوی عالمگیری ج1ص 75 میں ہے : ویکرہ امامۃ المراء ۃ للنساء فی الصلوۃ کلھامن الفرائض والنوافل اورفتاوی عالمگیری ج 1ص 75میں ہے : وصلو تھن فرادی افضل ترجمہ :عورتوں کیلئے نماز باجماعت ادا کرنے سے بہتر و افضل ہے کہ وہ تنہا بغیر جماعت ادا کریں ۔ (طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment