Sunday 6 May 2018

مسلہ عورت کا امامت کروانا

مسلہ عورت کا امامت کروانا

ہمارے ایک محترم قاری جوکہ خود ایک جگہ خطیب ہیں اور عالم دین ہیں انہوں نے اس مسلہ پر لکھنے کےلیئے خصوصی حکم فرمایا کہ اس مسلہ پر لازمی لکھیں بہت ہی کم وقت میں جتنا ممکن ہو سکا فقیر ڈاکٹر فیض احمد چشتی نے مکمل حوالہ جات کے ساتھ اس موضوع پر یہ مختصر مضمون لکھا ہے اہل علم کہیں غلطی پائیں تو ضرور اصلاح بھی فرمائیں اور فقیر کو بھی مطلع فرمائیں تاکہ اصلاح کی جا سکے ۔

عورت کا دیگر عورتوں کی امامت کرانا خواہ پنجگانہ نمازیں یا جمعہ ہو یا عیدین ہوں خواہ نماز تراویح ہو یا عظمت والی راتوں ۔ (لیلۃ القدر ،شب برأت ،شب معراج وغیرہ ) کے نوافل کی ہو مکروہ تحریمی ہے ۔ امامت کا حق دراصل مرد کے لیئے ہے ۔ اہل سنت و جماعت کے نزدیک عورت کی امامت درست نہیں ‘ شریعت کا یہ حکم عورت کے حاجات و ضروریات کی مناسبت سے دیا گیا ہے (اس میں عورت کی تنقیص کا کوئی پہلو نہیں) عورت کے لئے پنجگانہ فرض نمازیں گھر میں پڑھنے کی تاکید کی گئی ہے ، جب فرض نماز کے لئے ان کی جماعت نہیں رکھی گئی تو سنت و نفل کے لئے ان کی جماعت کیسے درست ہوگی ؟ عورتوں کے لئے جماعت کا مقرر نہ کیا جانا ان کے لئے اللہ کی ایک رحمت ہے اور اس میں بے شمار فوائد و مصالح ہیں ۔ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے ، اس نے معاشرے کے ہر فرد کیلئے حدود اور علیحدہ دائرہ کار متعین کردیا ہے ، خواتین کیلئے تدبیر منزل ، امور خانہ داری اور تربیت اولاد کی ذمہ داری سونپی گئی ہے اور مرد کو من جملہ اسکی ذمہ داریوں کے ایک منصب امامت بھی دیا گیا ہے ۔ جہاں تک خواتین کی امامت کا مسئلہ ہے توچونکہ عورتوں کیلئے امامت اصلاً نہیں ہے اسی لئے خواتین کی امامت مرد حضرات کیلئے درست نہیں اور خواتین کیلئے کسی خاتون کی امامت خواہ فرائض میں ہو یا نوافل میں مکروہ تحریمی ہے ۔ فتاوی عالمگیری ج1ص 75 میں ہے : ویکرہ امامۃ المراء ۃ للنساء فی الصلوۃ کلھامن الفرائض والنوافل اورفتاوی عالمگیری ج 1ص 75میں ہے : وصلو تھن فرادی افضل ترجمہ :عورتوں کیلئے نماز باجماعت ادا کرنے سے بہتر و افضل ہے کہ وہ تنہا بغیر جماعت ادا کریں ۔

اگر عورت کا مردوں کی امامت کرنا جائز ہوتا ، تو کم از کم ایک آدھ مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیانِ جواز کے طور پر ثابت ہونا چاہیئے تھا ، حالانکہ ایسا نہیں ہے (مذکورہ بالا روایت سے جواز ثابت نہیں ہوتا جیسا کہ واضح ہوچکا) نیز حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے زمانہ میں بھی کسی نے اس پر عمل نہیں کیا ۔ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس طرح کی بات ثابت ہوتی، تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے زمانہ میں کوئی تواس پر عامل پایا جاتا۔ اس کے بالمقابل حسبِ ذیل روایات سے معلوم ہوتا ہے، کہ عورت، مردوں کی امامت نہیں کرسکتی یا عورت کو مردوں کی امامت نہیں کرنا چاہئے : عن عبد اللّٰہ (بن مسعود) عن النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: صلوة المرأة فی بیتہا افضل من صلوتہا فی حجرتہا، وصلوتہا فی مخدعہا افضل من صلوتہا فی بیتہا․ (سنن ابی داود، ص: ۸۴، ج:۱،چشتی)
ترجمہ : حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں، کہ آپ نے ارشاد فرمایا: عورت کا صحنِ کمرہ میں نماز پڑھنے سے کمرہ کے اندر نماز پڑھنا بہتر ہے، اور بڑے کمرہ میں نماز پڑھنے سے کوٹھری میں نماز پڑھنا بہتر ہے ۔

اس روایت سے مستفاد ہوتا ہے کہ عورتوں کو امامت نہیں کرنا چاہئے ۔ کیونکہ کوٹھری بہت تنگ و مختصر جگہ ہوتی ہے ، جس میں عادةً جماعت قائم کرنا متعذر اور دشوار ہوتا ہے ۔

ام الموٴمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا ارشاد ہے : لو ادرک النبی صلی اللّہ علیہ وسلم ما حدث النساء، لمنعہن المسجد کما منعت نساء بنی اسرائیل ․ (صحیح البخاری، ص: ۱۲، ج:۱،چشتی)
ترجمہ : اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے یہ صورت حال ہوتی، جو اب عورتوں نے نئی پیدا کی ہے، تو آپ ان کو ضرور مسجد میں آنے سے روک دیتے، جیسا کہ بنی اسرائیل کی عورتوں کو روک دیاگیا ۔ روایتِ بالا کی دلالت مدعا پر نہایت واضح ہے ۔

عن ابی ہریرة عن النبی صلی اللّہ علیہ وسلم قال : التصفیق للنساء والتسبیح للرجال ․۔(صحیح بخاری، ص: ۱۶۰، ج:۱،چشتی)
ترجمہ : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: تصفیق (خاص طریقے سے ایک ہاتھ دوسرے ہاتھ پر مارنا) عورتوں کے لیے ہے اور تسبیح (سبحان اللہ کہنا) مردوں کے لیے ہے ۔

حضرات محدثین رحمہم اللہ فرماتے ہیں کہ نماز میں امام کو غلطی پر متنبہ کرنے کے لیئے عورتوں کو سبحان اللہ کہنے سے اس لیئے منع کیا گیا تاکہ ان کی آواز نہ سنی جائے ۔ جب امام کو غلطی پر متنبہ کرنے میں صرف سبحان اللہ کہنے میں اس قدر لحاظ کیا گیا ، تو مردوں کی امامت میں تکبیراتِ انتقالات کہنے اور جہری نمازوں میں قرأت کرنے کی اجازت کیسے ہو سکتی ہے ؟ ماٰل اس کا یہ ہے کہ وہ مردوں کی امامت نہ کریں ۔

ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا اور دیگر صحابیات نماز میں امامت کراتی تھیں۔ امام حاکم نے المستدرک میں سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا کے حوالے سے یہ روایت بیان کی ہے : انها کانت تؤذن وتقيم وتؤم النساء، فتقوم وسطهن . (المستدرک، 1 : 320، رقم : 731،چشتی)
ترجمہ : حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا اذان دیتی تھیں، نماز کے لئے اقامت کہتی تھیں اور صف کے درمیان میں کھڑی ہو کر عورتوں کی امامت کراتی تھیں ۔

اس روایت کی رُو سے ثابت ہے کہ دینی تربیت اور عبادت الہٰی میں رغبت اور شوق پیدا کرنے کے لئے اگر عورتیں جمع ہو کر باجماعت نماز ادا کریں تو اجازت ہے۔ اس صورت میں امامت کرانے والی خاتون صف کے درمیان میں کھڑی ہوں گی۔ عیدین کے موقع پر خطبہ عید بھی پڑھے گی کیونکہ عورت کا عورتوں کے سامنے خطبہ پڑھنا درست ہے ۔

فقہا کرام علیہم الرّحمہ نے لکھا ہے کہ عورت عورتوں کی اور نابالغ نابالغوں کا امام ہو سکتا ہے ۔ (فتاویٰ عالمگيری، 1 : 84،چشتی)

جمعہ ، جماعت اور عیدین کی نماز عورتوں کے ذمہ نہیں ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا بابرکت زمانہ چونکہ شر و فساد سے خالی تھا، ادھر عورتوں کو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے اَحکام سیکھنے کی ضرورت تھی، اس لئے عورتوں کو مساجد میں حاضری کی اجازت تھی ، اور اس میں بھی یہ قیود تھیں کہ باپردہ جائیں ، میلی کچیلی جائیں، زینت نہ لگائیں، اس کے باوجود عورتوں کو ترغیب دی جاتی تھی کہ وہ اپنے گھروں میں نماز پڑھیں ۔

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : لا تمنعوا نسائکم المساجد، وبیوتھن خیر لھن ۔ (رواہ ابوداوٴد، مشکوٰة ص:۹۶،چشتی) ۔ ترجمہ : اپنی عورتوں کو مسجدوں سے نہ روکو، اور ان کے گھر ان کے لئے زیادہ بہتر ہیں ۔

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : صلٰوة المرأة فی بیتھا افضل من صلٰوتھا فی حجرتھا، وصلٰوتھا فی مخدعھا افضل من صلٰوتھا فی بیتھا۔“ (رواہ ابوداوٴد، مشکوٰة ص:۹۶،چشتی)
ترجمہ : عورت کا اپنے کمرے میں نماز پڑھنا ، اپنے گھر کی چاردیواری میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے ، اور اس کا پچھلے کمرے میں نماز پڑھنا اگلے کمرے میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے ۔

مسندِ احمد میں حضرت اُمِّ حمید ساعدیہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میں آپ کے ساتھ نماز پڑھنا پسند کرتی ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : قد علمت انک تحبین الصلٰوة معی وصلٰوتک فی بیتک خیر لک من صلٰوتک فی حجرتک، وصلٰوتک فی حجرتک خیر من صلٰوتک فی دارک، وصلٰوتک فی دارک خیر لک من مسجد قومک، وصلٰوتک فی مسجد قومک خیر لک من صلٰوتک فی مسجدی۔ قال: فأمرت فبنی لھا مسجد فی اقصی شیٴ من بیتھا واظلمہ، فکانت تصلی فیہ حتی لقیت الله عز وجل۔“ (مسندِ احمد ج:۱ ص:۳۷۱، وقال الھیثمی ورجالہ رجال الصحیح غیر عبدالله بن سوید الأنصاری، وثقہ ابن حبان، مجمع الزوائد ج:۲ ص:۳۴،چشتی)
ترجمہ : مجھے معلوم ہے کہ تم کو میرے ساتھ نماز پڑھنا محبوب ہے، مگر تمہارا اپنے گھر کے کمرے میں نماز پڑھنا گھر کے صحن میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے، اور گھر کے صحن میں نماز پڑھنا گھر کے احاطے میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے، اور احاطے میں نماز پڑھنا اپنے محلے کی مسجد میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے، اور اپنے محلے کی مسجد میں نماز پڑھنا میری مسجد میں (میرے ساتھ) نماز پڑھنے سے بہتر ہے۔ راوی کہتے ہیں کہ: حضرت اُمِّ حمید رضی اللہ عنہا نے یہ ارشاد سن کر اپنے گھر کے لوگوں کو حکم دیا کہ گھر کے سب سے دُور اور تاریک ترین کونے میں ان کے لئے نماز کی جگہ بنادی جائے، چنانچہ ان کی ہدایت کے مطابق جگہ بنادی گئی، وہ اسی جگہ نماز پڑھا کرتی تھیں، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ سے جاملیں ۔

وفی خلاصۃ الفتاوی : ۱[۱۴۷] امامۃالمراہ للنساء جائزہ الا ان صلاتھن فرادی افضل،
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) – (1 / 565) ۔ (و) يكره تحريما (جماعة النساء) ولو التراويح في غير صلاة جنازة (لأنها لم تشرع مكررة) ، فلو انفردن تفوتهن بفراغ إحداهن؛ ولو أمت فيها رجالا لا تعاد لسقوط الفرض بصلاتها إلا إذا استخلفها الإمام وخلفه رجال ونساء فتفسد صلاة الكل، طحطاوي علي الدرر:ص245 ،ج1 ۔ قوله؛ويكره تحريما جماعة النساء، لان الامام ان تقدمت لزم زيادة الكشف وان وقفت وسط السف لزم ترك المقام مقامه وكل منهما مكروه كما في العناية وهذا يقتضي عدم الكراهة لو اقتدت واحدة محاذية لفقد الامرين ۔

ان عبارات کا مفہوم و خلاصہ یہ ہے کہ عورتوں کی نماز با جماعت كے بارے اصل حكم یہی ہے کہ ان کی جماعت نا جائز اورمکروہِ تحریمی ہےاگرچہ نمازِ تراويح کی جماعت ہو ، اس لئے عورتوں کو تراویح اور وتر کی نماز بغیر جماعت کے الگ الگ پڑھنی چاہیئے ۔

حاشیہ طحطاوی علی مراقی الفلاح میں ہے : (وکرہ جماعۃ النساء) تحریم للزوم احد المحظورین ،قیام الامام فی الصف الاول وھو مکروہ ،او تقدم الامام وھو ایضاً مکروہ ‘‘یعنی،’’ عورتوں کی جماعت مکروہ تحریمی ہے کیونکہ اس سے دو ممنو ع چیزوں میں سے ایک ضرورصادر ہو گی ایک امام عورت کا پہلی صف میں ہونا یا امام عورت کا آگے امام کی جگہ پر کھڑا ہونا بھی مکروہ تحریمی ہے ۔ (حاشیہ طحطاوی علی مراقی الفلاح ،ص:۳۰۴،مطبوعہ قدیمی کراچی،چشتی)

الجوھرۃ النیرہ میں ہے : (یکرہ للنساء ان یصلین وحدھن جماعۃ )یعنی بغیر رجال ،وسواء فی ذلک الفرائض والنوافل والتراویح‘‘یعنی،’’ اکیلے عورتوں کا جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا مکروہ ہے فرائض ،نوافل اور تراویح سب کا ایک حکم ہے ۔ (الجوھرۃ النیرۃ، ج:۱،ص:۱۶۲،مکتبہ رحمانیہ ،لاہور،چشتی)

فتح القدیر میں ہے : (یکرہ للنساء ان یصلین جماعۃ لانھن فی ذلک لا یخلون عن ارتکاب محرم )ای مکروہ لان امامتھن اما ان تتقدم علی القوم او تقف وسطھن ،وفی الاول زیادۃ الکشف وھی مکروھۃ ،وفی الثانی ترک الامام مقامہ وھو مکروہ والجماعۃسنۃ وترک ماھو سنۃ اولی من ارتکاب مکروہ ‘‘یعنی،’’ اکیلی عورتوں کی جماعت حرام(کراہت تحریمی) کے ارتکاب سے خالی نہیں ہوگی کیونکہ امام عورت تما م نماز پڑھنے والیوں کے آگے ہوگی یا صف کے درمیان میں کھڑی ہو گی ۔پہلی میں تو بے پردگی ہے اور وہ مکروہ ہے اور دوسری میں امام کی جگہ کو چھوڑ دینا ہے وہ بھی مکروہ تحریمی ہے ۔ جماعت سنت ہے اور مکروہ تحریمی کے ارتکاب کے وقت سنت کو چھوڑ دینا افضل ہے ۔ (فتح القدیر ،ج:۱،ص:۳۶۲،مکتبہ،رشیدیہ ،کوئٹہ،چشتی)

اگر عورت کے امام بننے سے مراد مرد کی امامت کرانا ہے تو وہ کسی صورت میں بھی مرد کی امام نہیں بن سکتی کیونکہ امام بننا مرد کا کام ہے عورت کا نہیں فتاوی عالمگیری میں ہے : لایجوز اقتداء رجل بامرأۃ ھکذا فی الھدایۃ‘‘یعنی،’’ مرد کسی عورت کی اقتدء نہیں کر سکتا اسی طرح ھدایہ میں ہے ۔ (فتاوی عالمگیری ،ج:۱،ص:۹۴،مکتبہ قدیمی ،کراچی)
خلاصہ کلام یہ ہے کہ عورت کاصرف عورتوں کی امامت کرانا مکروہ تحریمی ہے اور مردوں کی امامت اصلاً کرہی نہیں سکتی ۔(طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

غیر مقلدین کو وہابی کیوں کہا جاتا ہے اور دیوبندی بھی وہابی ہی ہیں

غیر مقلدین کو وہابی کیوں کہا جاتا ہے اور دیوبندی بھی وہابی ہی ہیں محترم قارئینِ کرام : بعض لوگ سوال کرتے ہیں کہ وہابی تو اللہ تعالیٰ کا نام ...