والدین یا کسی اور کی طرف سے حج و عمرہ کرنے کا شرعی حکم
سعودی عرب میں مقیم ہمارے ایک محترم قاری جناب سعید رضا گجر صاحب نے ایک سوال کیا کہ کچھ مطوے سعودی وہابی مولوی کہتے ہیں کسی کی طرف سے حج عمرہ نہیں کر سکتے اس کے متعلق رہنمائی فرمائیں اس سوال کا جواب مستند دلائل کی روشنی میں پیش خدمت ہے پڑھیئے اور دعاؤں میں یاد رکھیئے جزاکم اللہ خیرا ۔
اگر کوئی شخص کسی کی طرف سے عمرہ کرنا چاہے تو یہ جائز ہے، اسے عمرہ بدل کہتے ہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ عمرہ بدل کرنے والا اپنا عمرہ ادا کرچکا ہو۔ حضرت ابو رزین عقیلی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سوال کیا : يا رسول الله! إن أبي شيخ كبير لايستطيع الحج و لا العمرة و لا الظعن، قال: حج عن أبيك واعتمر .
ترجمہ : اے اللہ کے رسول (صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرے باپ بہت بوڑھے ہیں، حج و عمرہ نہیں کرسکتے اور نہ ہی سواری پر بیٹھ سکتے ہیں (تو کیا میں ان کی طرف سے حج و عمرہ کروں؟) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنے باپ کی طرف سے حج و عمرہ کرو ۔ (ابوداؤد، سنن، 1810،چشتی)
عن ابن عباس رضی اﷲ عنھا ان امراۃ من جھینۃ جاء ت الی النبی (صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم) فقالت إن أمی نذرت أن تحج فلم تحج حتی ما تت أفاحج عنھا ؟ قال جحی عنھا ۔
ترجمہ : حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنھما سے روایت ہے کہ قبیلہ جہنہ کی ایک عورت نبی کریم (صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا کہ میری والدہ نے حج کی منت مانی تھی، اور وہ منت پوری کرنے سے پہلے فوت ہوگئیں کیا میں اس کی طرف سے حج کروں؟ فرمایا اس کی طرف سے حج کر ۔ (بخاری ج ۱ ص ۲۵۰،چشتی) ۔ اس حدیث سے ثابت ہوا کہ میت کی طرف سے حج کرکے اس کو اس کا ثواب پہنچانا صحیح ہے اور یہ ایصال ثواب ہے ۔
اگر کسی کی طرف سے عمرہ کرنا مقصود ہو تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ احرام باندھتے وقت نیت کی جائے کہ اے اللہ! میں فلاں شخص کی طرف سے عمرے کا احرام باندھتا ہوں، توں اسے میرے لیے آسان فرما اور فلاں کی طرف سے اسے قبول فرما ۔
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ایک عورت نے حجۃ الوداع کے موقعہ پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر حج فرض کیا ہے۔ میرا باپ بوڑھا ہے، سواری پر سوار نہیں ہوسکتا۔ کیا میں ان کی طرف سے حج ادا کرسکتی ہوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں ۔ کرسکتی ہو۔ (مسلم ، کتاب الحج،چشتی)
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو شبرمہ کی طرف سے لبیک کہتے ہوئے سنا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص سے پوچھا: شبرمہ کون ہے؟ اس شخص نے عرض کیا : میرا بھائی یاکہا: میرا رشتہ دار۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کیا تم نے اپنا حج ادا کرلیا ہے؟ اس شخص نے عرض کیا : نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : پہلے اپنا حج ادا کرو پھر شبرمہ کی طرف سے حج ادا کرنا ۔ (ابوداؤد ۔ کتاب المناسک، ابن ماجہ، صحیح بن حبان،چشتی)
حضرت ابو رزین عقیلی رضی اللہ عنہ )لقیط بن عامر( سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا۔ میرا باپ بوڑھا ہے، حج کی طاقت نہیں رکھتا ہے، نہ عمرہ کی اور نہ ہی اونٹ پر سوار ہونے کی ۔ (ان کے لئے کیا حکم ہے؟) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اپنے باپ کی طرف سے حج اور عمرہ ادا کرو ۔ (نسائی۔ کتاب الحج، ترمذی،چشتی)
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ قبیلہ جہینہ کی ایک عورت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا : میری ماں نے حج کی نذر مانی تھی لیکن مرنے سے قبل حج نہیں کرسکی ، کیا میں ماں کی طرف سے حج کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ہاں۔ ان کی طرف سے حج کرو۔ ہاں، دیکھو اگر تمہاری ماں پر قرض ہوتا تو کیا تم ادا نہیں کرتیں؟ پس اللہ کا قرض ادا کرو۔ اللہ اس بات کا زیادہ حق دار ہے کہ اس کا قرض ادا کیا جائے ۔ (بخاری،الحج والنذور عن ا لمیت،چشتی)
حضرت عبداللہ بن بریدہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ ایک عورت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور سوال کیا کہ میری ماں کا انتقال ہوگیا ہے اور انہوں نے زندگی میں کوئی حج ادا نہیں کیا۔ کیا میں ان کی طرف سے حج ادا کرلوں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ہاں۔ اپنی ماں کی طرف سے حج ادا کرو۔ (ترمذی)
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ (حج بدل میں) ایک حج کی وجہ سے تین آدمیوں کو جنت میں داخل فرماتے ہیں، ایک مرحوم (جس کی طرف سے حج بدل ادا کیا جارہاہے)، دوسرا حج کرنے والا اور تیسرا وہ شخص جو حج کو بھیج رہا ہو (یعنی جو رقم خرچ کررہا ہے) ۔ (الترغیب والترھیب،چشتی)
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی : 3047 : سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا: میرا باپ فوت ہو گیا ہے اور اس نے حج نہیں کیا، کیا میں اس کی طرف سے حج ادا کر سکتا ہوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(اس کے بارے میں) تیرا کیا خیال ہے کہ اگر تیرے باپ پر قرض ہوتا تو کیا تو اس کی طرف سے اس کی ادائیگی کرتا؟ اس نے کہا: جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(یہی معاملہ حج کا ہے، اس لیے) اپنے باپ کی طرف سے حج ادا کرو ۔ (حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 2448،چشتی)
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جھینہ کی ایک عورت آئی اور اس نے کہا میری ماں نے حج کی نذر مانی تھی اور وہ حج کرنے سے پہلے فوت ہوگئیں کیا میں انکی طرف سے حج کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں۔ اس کی طرف سے حج کرو یہ بتاؤ کہ اگر تمہاری ماں پر قرض ہوتا تو کیا تم ادا کرتی (اس نے کہا ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا) اللہ کا قرض اداکرو کیونکہ وہ ادا کیا جانے کا زیادہ حقدار ہے ۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کسی کی طرف سے قرض کی ادائیگی جیسا عمل کرےتووہ ہوجاتا ہے تو نیکی کا عمل کیوں نہیں ادا ہوسکتا ۔
حج کی طرح کسی غیر کی طرف سے نفل نماز ادا کرنا بھی جائز ہے اور اسکا ثواب پہنچتا ہے ایک روایت میں آتا ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ مسجد عشاء جوبصرہ کی ایک بستی میں واقع ہے سے ایسے شہیدوں کو اٹھائےگا کہ شہدائے بدر کے سوا کوئی ان کے ساتھ کھڑا نہ ہوگا‘‘ ایک وفد وہاں جانےلگا حضرت ابوہریرہ رحمتہ اللہ علیہ اس وقت حرم کعبہ میں تھے اوروہ نہیں جاسکتے تھے لہٰذا آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد گرامی کی وجہ سے کہا کہ تم میں سےکون ہے جو مجھے اس بات کی ضمانت دیتا ہے جو مسجد عشاء میں میرےلئے دو چار رکعتیں پڑھے اور یہ کہے کہ یہ (دو نفل) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کیلئے ہیں ۔ (سنن ابی داؤد،چشتی)
حج یا عمرہ بدل میں احرام کس میقات سے باندھا جائے؟ حج یا عمرہ بدل کرنے والا اپنی میقات سے احرام باندھے یا پھر جس شخص کی جانب سے حج یا عمرہ ادا کیا جارہا ہے، اس کی میقات سے احرام باندھے ؟
مثلاً کوئی شخص سعودی عرب میں مقیم ہے، اپنے بوڑھے والد جو ہندوستان یا پاکستان میں ہیں ان کی طرف سے حج یا عمرہ کرنا چاہتا ہے تو کیا حج یا عمرہ بدل کرنے والے کے لئے ہندوستان یا پاکستان میں رہنے والوں کی میقات یعنی یلملم سے احرام باندھنا ضروری ہے یا وہ اپنی میقات سے بھی احرام باندھ سکتا ہے ۔ مسئلہ مختلف فیہ ہے ، مگر اختلافات اور ایک میقات سے دوسری میقات پر جانے کی مشقت کو سامنے رکھ کر علماء کرام نے اجازت دی ہے کہ حج یا عمرہ بدل کرنے والا اپنی میقات سے بھی احرام باندھ سکتا ہے ۔ (طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment