پیچھے اِس امام کے ، منصبِ امامت اور امام کا مقام و مرتبہ
محترم قارئین کرام : ہر صاحبِ عقل جانتا ہے کہ جس کو اپنا امام ، بڑا ، لیڈر یا امیر مان لیا جائے پھر اس کا ادب و احترام بھی کرنا چاہیے ، لہٰذا آپ اپنی نمازیں خراب نہ کیا کریں ۔ امام صاحب کے بارے میں برا بھلا کہنا چھوڑ دیں ۔ شریعت میں امام کا بڑا مقام و مرتبہ رکھا گیا ہے ، وہ قوم کا مقتدا ہوتا ہے ، اس کے ساتھ ادب واحترام اور اکرام کا معاملہ کرنا ہر شخص کی ذمہ داری ہے ، مسجد کا متولی یا ذمہ دار بھی امام صاحب کے اکرام کا مکلف ہوتا ہے ، وہ اگر اپنی جہالت یاتکبر کی وجہ سے امام صاحب کے ساتھ بے ادبی کا معاملہ کرتا ہے یا امام صاحب پر صحیح غلط حکم رانی کرتا ہے تو سب نمازیوں کی ذمہ داری ہے کہ اس پر روک لگائیں ؛ بلکہ جو شخص جاہل و ناخواندہ ہو اور امام کے مقام و مرتبہ سے ناواقف ہو ، اسے مسجد کا ذمہ دار ہی نہیں بناناچاہیے ، مسجد کا ذمہ دار تو اسے بنانا چاہیے کہ جو نماز ، روزہ کا پابند ، دین دار ، امانت دار اور باشرع ہو اور امام اور موذن وغیرہ کے مقام سے واقف ہوکر ان کے ساتھ اکرام کا معاملہ کرے اور وہ خود کو مسجد کا خادم سمجھے ، حاکم نہ سمجھے ۔
مسجد کو آباد کرنا بڑا عظیم کام ہے ۔ اللہ پاک نے ارشاد فرمایا : اِنَّمَا یَعْمُرُ مَ جسٰجِدَ اللّٰهِ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ اَقَامَ الصَّلٰوةَ وَ اٰتَى الزَّكٰوةَ وَ لَمْ یَخْشَ اِلَّا اللّٰهَ فَعَسٰۤى اُولٰٓىٕكَ اَنْ یَّكُوْنُوْا مِنَ الْمُهْتَدِیْنَ ۔
ترجمہ : اللہ کی مسجدوں کو وہی آباد کرتے ہیں جو اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان لاتے ہیں اور نما ز قائم کرتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے تو عنقریب یہ لوگ ہدایت والوں میں سے ہوں گے ۔ (سورہ توبۃ آیت نمبر 18)
اور ایسے لوگوں کو ہدایت یافتہ قرار دیا ۔ مسجد کی آباد کاری میں سب سے بڑا کردار امام مسجد کا ہے اور امامت ایسا عظیم منصب ہے کہ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، صحابۂ کرام ، اولیائے کرام ، علمائے کرام ، بزگانِ دین نے امامت فرمائی ۔حدیث مبارکہ میں فرمایا : ثلاثةٌ على كُثبانٍ من المسك يوم القيامة” ، و ذُكر أنّ منهم رجلا أم قومًا و هم به راضون ترجمہ : آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : روزِقیامت تین قسم کے آدمی کستوری کے ٹیلوں پر ہوں گے ان میں سے ایک وہ شخص ہو گا جس نے قوم کی امامت کی اور وہ اس (امام )سے خوش تھے ۔ (جامع الترمذی البروالصلۃ باب ماجاء فی فضل المملوک الصلح حدیث نمبر 1986،چشتی)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امام کے لیے دعا فرمائی (الإمام ضامن ، والمؤذِّنُ مؤتَمنٌ، اللہمَّ أرشِدِ الأئمَّةَ واغفِر للمؤذِّنينَ ۔
ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : امام ضامن ہے اور مؤذن امین ہے ، اے اللہ! تو اماموں کو راہِ راست پر رکھ اور مؤذنوں کی مغفرت فرما ۔ (مسند احمد بن حنبل حدیث نمبر 6996)
اس سے امامِ مسجد کی اہمیت و مقام و مرتبہ کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے لیکن فی زمانہ ائمہ و علما کی تعظیم و توقیر کے بجائے ایک ملازم کی حیثیت سے دیکھا جاتا ہے کوئی اہمیت نہیں دی جاتی ۔ اسی کے پیشِ نظر امام کے چند حقوق پیشِ خدمت ہیں تاکہ ہم ان پر عمل کرکے بہتری لا سکیں ۔
عن ابن عمر : أكرموا حملة القراٰن ، فمن أكرمهم فقد أكرم اللّٰہ ۔
ترجمہ : حاملین قراٰن (حفاظ و علمائے کرام) کا اکرام کرو ، جس نے ان کا اکرام کیا ، اس نے اللہ کا اکرام کیا ۔ (كنز العمال جلد 1 صفحہ 523 حديث نمبر 2343)
عن أبي أمامة : حامل القراٰن حامل راية الإسلام ، من أكرمه فقد أكرم الله ، ومن أهانه فعليه لعنة الله ۔
ترجمہ : حاملین قراٰن اسلام کا جھنڈا اٹھانے والے ہیں ، جس نے ان کی تعظیم کی ، اس نے اللہ کی تعظیم کی اور جس نے ان کی تذلیل کی ، اس پر اللہ تعالی کی لعنت ہے ۔ (كنز العمال جلد 1 صفحہ 523 حديث نمبر 2344)
آج کے اس پرفتن دور میں کچھ لوگ امام کو حقیر و ذلیل سمجھ کر ان کی توہین کرتے ہیں ، بلا وجہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر ٹوکتے رہتے ہیں اور کبھی کبھی نازیبا کلمات کہہ کر دل شکنی کرتے ہیں ایسے لوگوں کو چاہیے کہ امام کو اپنا پیشوا ، دین کا رہبر ، نائبِ انبیا سمجھے اور ادب و احترام کے دائرے میں رہ کر ان سے کلام کرے۔
بلاوجہ شرعی کسی مسلمان کے پیچھے پڑنا ، اس کی خامیوں اور کمیوں کی تلاش میں لگا رہنا اور برا بھلا کہنا گناہ ہے ۔ حدیث شریف میں ہے قَالَ رسولُ اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : لَيْسَ الْمُؤْمِنُ بِالطَّعَّانِ، وَلَا اللَّعَّانِ، وَلَا الْفَاحِشِ، وَلَا الْبَذِيءِ ، یعنی مسلمان لعن طعن کرنے والا ، فحش گو اور بے ہودہ گو نہیں ہوتا ۔ (سنن ترمذی باب ما جاء فی اللعنۃ حدیث نمبر 1977)
پیچھے اِس امام کے : ⏬
فقیر ایک دن سوچ رہا تھا کہ آخر ، "پیچھے اس امام کے"، اس کا مطلب عوام کیا سمجھتی ہے ۔ شاید عوام سوچتی ہے کہ "پیچھے اس امام کے" کا مطلب ہے اس امام کے پیچھے پڑ جاؤ ۔
کہاں جاتا ہے ؟
کیا کرتا ہے ؟
کب سوتا ہے ؟
اکثر یہ سنت پڑھتا نظر نہیں آتا ، اس سے پہلے کہاں نماز پڑھاتا تھا ؟
وہاں سے کیوں نکالا گیا ؟
اب وہاں کیوں جاتا ہے ؟
فلاں سے کیوں بات کرتا ہے ؟
نمازیوں کے ساتھ کیوں بیٹھتا ہے ؟
نمازی بالخصوص نوجوان اس سے ملنے کیوں آتے ہیں ؟
اس کے پاس موبائل کون سا ہے ؟
گاڑی بہت تیز چلاتا ہے ؟
اس کے پاس گاڑی کہاں سے آگئی ؟
کھا کھا کر موٹا ہوگیا ہے ، جب آیا تھا تو پتلا تھا ۔ اس کو چربی چڑھ گئی ہے ، یہ بازار ۔ مارکیٹ کیوں جاتا ہے ؟
اگر محفل ، میلاد ، جلسہ ، پروگرام میں یا کسی ضروری کام سے چلا جائے تو کہا جاتا ہے : یہ امام بہت غیر حاضر ہونے لگا ۔
ابھی جماعت کھڑی ہو نے میں 3 / 4 منٹ باقی ہوتے ہیں لوگ پیچھے مڑ مڑ کر دیکھتے کہ امام آیا یا نہیں ! سالوں سال گھر نہ جائے اپنے والدین ، بیوی بچوں سے دور رہے اگر مہینے دو مہینے بعد دوچار دن اپنے گھر ، گاؤں چلا جاۓ تو بعض فتنہ پرور شور مچاتے ہیں : لو جی امام صاحب بڑے غیر ذمہ دار ہوگئے ہیں ۔ خود کو مہینے میں چار یا آٹھ چھٹیاں درکار مگر امام بندہ بشر تھوڑی ہے اسے چھٹی کا کیا حق پہنچتا ہے ؟ خود روز گھر جائیں مگر امام ؟ نہ بھئی نہ ، امام کبھی بیمار ہوجاۓ تو بجاۓ عیادت و بیمار پرسی کے اس پر بھی اعتراضات شروع کردیئے جاتے ہیں ، بس جی ان کو تو کوئی بہانہ چاہیے ہوتا ہے وغیرہ وغیرہ ۔
آج اکثر جگہ اماموں کو حسد ، بغض ، ذاتی انتقام کی وجہ سے نکالا جاتا ہے ، امام بیچارہ بھی اپنا بیگ اٹھا کر چل پڑتا ہے ۔ وہ اپنا دکھڑا کہیں تو کس سے کہیں ، ان کا کوئی حامی اور مدد گار نہیں ، قوم جب چاہتی ہے اماموں کو نکال دیتی ہے ۔
یاد رکھیں مصلے پر کھڑا ہو کر ہمیں نمازیں پڑھانے والا ہمارے اور رب تعالی کے درمیان "سفیر اورنمائندہ" ہوتا ہے اور یہی وہ عظیم شخصیت ہوتا ہے جسے ہم نائب رسول کہتے ہیں ۔
دوسری طرف امام حضرات بھی اپنے منصب کے ساتھ پوری وفاداری کریں اور اپنی ذمہ داریوں کو حتی الامکان پورا کریں ۔ کیونکہ امام اپنے علاقے کا بے تاج بادشاہ ہوتا ہے ۔
آپ اگر کسی مسجد کے امام ہیں اور امامت کے منصب پر فائز ہیں ، لوگوں کو نماز پڑھاتے ہیں ، آپ کی اقتدا میں لوگ نماز پڑھتے ہیں ، تو یہ آپ کےلیے بڑی خوش نصیبی کی بات ہے کہ اللہ رب العزت نے آپ کو اپنی بارگاہ میں روزانہ پانچ مرتبہ سر بسجود ہونے والوں کا رہبر و امام بنایا ہے ۔ یقینا امامت کا منصب ملنا من جانب اللّہ ایک نعمتِ عظمی سے سرفراز ہونا ہے ۔
اور یہ امامت امام الانبیاء نائبِ خالقِ کائنات حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیاری سنت بھی ہے ۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا امام و مؤذن کو ان کے برابر ثواب ہے جنہوں نے ان کے ساتھ نماز پڑھی ہے ۔ (بہار شریعت جلد ١ صفحہ ٥٥٨ مطبوعہ المکتبۃ المدینہ،چشتی)
مذکورہ حدیث سے اندازہ لگائیں اور تنہائی میں بیٹھ کر سوچیں کہ شریعت میں امام کا مقام و مرتبہ کتنا عظیم ہے ! کوئی شخص اگر نماز پڑھتا ہے یا کوئی نیک کام کرتا ہے تو صرف اور صرف وہی عابد اور صالح نیکی و ثواب سے ہمکنار ہوتا ہے مگر امامت ایک ایسا نیک عمل ہے کہ جس کے کرنے سے صرف اپنی ہی نماز کا ثواب نہیں بلکہ سب نمازیوں کے برابر کا ثواب ملتا ہے اور اللّہ تعالٰی اس کے نامہ اعمال میں بے حساب نیکیوں کا اضافہ فرماتا ہے ، اور ان شاء اللہ امام بروزِ قیامت ضرور کامیابی سے سرفراز ہوگا ، جنت الفردوس میں اعلی مقام کا مستحق ہوگا ۔
اور ایک دوسری حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : مَنْ صَلَّی خَلْفَ عَالِمٍ تَقِیٍ فَکَانَّمَا صَلّی خَلْفَ نَبِیٍ ۔ جس نے کسی پرہیزگار عالم دین کے پیچھے نماز پڑھی تو وہ ایسا ہے کہ جیسے اس نے کسی نبی کے پیچھے نماز پڑھی ۔ (بدائع الصنائع جلد ١ صفحہ ٢٣٥)(امام اور مقتدی صفحہ ١٣ مطبوعہ اسلامی کتب خانہ بریلی شریف،چشتی)
دیکھیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کتنا عظیم درجہ سے نوازا ہے امام کو ، ایک متقی ، پرہیزگار ، باعمل عالم دین امام کی اقتدا میں نماز ادا کرنے کو انبیائے کرام کی اقتدا میں نماز ادا کرنے کے جیسا بتادیا ۔ حدیث مذکور سے معلوم ہوا کہ امام کا مقام و مرتبہ شریعت میں بہت ہی ارفع و اعلی ہے ۔
فقیہ ملت حضرت علامہ مفتی جلال الدین احمد امجدی علیہ الرحمہ ایک سوال کے جواب میں رقم طراز ہیں کہ : اگر امام فاسقِ معلن نہیں ہے تو برائی کرنے والا سخت گنہگار حق العباد میں گرفتار ہوگا ۔ (فتاوی فیض الرسول جلد ١ صفحہ ٢٧٢)
آپ ہی سے سوال ہوا کہ : امام کیسا ہونا چاہئے ؟خوبی بتلائیے ۔ تو آپ اس کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ : امام سنی صحیح العقیدہ ہو ، وہابی دیوبندی وغیرہ بد مذہب نہ ہو ، صحیح الطھارہ یعنی وضو ، غسل اور کپڑے وغیرہ کی طہارت رکھتا ہو ، صحیح القراءت ہو مثلاً : ا ، ع ، ت ، ط ، ث ، س ، ش ، ص ، ہ، ح ، ذ ، ض اور ز ، ض ، میں فرق کرتا ہو فاسقِ معلن نہ ہو اسی طرح اور امور جو منافی امامت ہیں ان سے پاک ہو ۔ (فتاوی فیض الرسول جلد ١ صفحہ ٢٦٧)
مذکورہ عبارت سے یہ بات واضح ہوئی کہ وہی شخص امامت کے لائق ہوں گے جن کے اندر مذکورہ خوبیاں موجود ہوں گی اور الحمد للہ ! ہمارے اکثر ائمہ کرام کے اندر یہ خوبیاں بدرجہ اتم موجود ہوتی ہیں اور یقینا جو ان خوبیوں کا حامل ہوگا وہ ضرور متقی و پرہیز گار اور مکرم ہوگا ۔
قرآن کریم میں اللہ رب العزت مکرمین و متقین لوگوں سے متعلق ارشاد فرماتا ہے : اِنَّ اَکْرَمَکُمُ عِنْدَ اللّہِ اَتْقَاکُمْ ۔ بےشک تم میں اللہ تعالی کے نزدیک سب سے مکرم وہ ہیں جو زیادہ پرہیز گار ہیں ۔
اور ایک دوسری جگہ فرماتا ہے : اِنْ اَوْلِیا٘ءہ اِلا الْمُتقُون ۔ یعنی اللہ کے محبوب صرف وہی لوگ ہوتے ہیں جو متقی و پرہیزگار ہوا کر تے ہیں ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ : میں جنت میں گیا ، اس میں موتی کے گنبد دیکھے ، اس کی خاک مشک کی ہے ، فرمایا "اے جبریل ! یہ کس کےلیے ہے ؟ عرض کی حضور کی امت کے مؤذنوں اور اماموں کےلیے ۔ (بہار شریعت جلد ١ صفحہ ٤٦٠ مطبوعہ المکتبۃ المدینہ)
مذکورہ بالا دونوں آیات اور حدیث سے یہ بات امس و شمس کی طرح لائح ہوگئی کہ اللہ تبارک و تعالی کے نزدیک امام کا مقام و مرتبہ نہایت ہی بلند و بالا ہے ، ان کی حقیقی شان و عظمت کیا ہے ؟ اسے اللہ عزوجل اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی بہتر جانتے ہیں ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں : اگر لوگوں کو معلوم ہوتا کہ اذان کہنے میں کتنا ثواب ہے ، تو اس پر باہم تلوار چلتی ۔ (بہار شریعت جلد ١ صفحہ ٤٦٠ مطبوعہ المکتبۃ المدینہ)
اس حدیث سے بھی اس بات کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جب اذان دینے میں اتنا ثواب تو امامت میں کتنا ثواب ملتا ہوگا! اور امامت کا رتبہ کتنا ارفع و اعلی ہوگا ! بلا ریب جو لوگ منصب امامت کی اہم ذمہ داری کو بحسن و خوبی ادار کر رہے ہیں وہ قابل مبارکباد بھی ہیں اور لائق صد توقیر و تعظیم بھی اور عند اللہ با کرامت و با عظمت ہونے کے ساتھ ساتھ بے شمار اجر کے مستحق بھی ہوں گے ۔
مزید مرتبہ امامت کی وضاحت فرماتے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں : کوئی شخص کسی مقرَرہ امام کے ہوتے ہوئے امام نہ بنے اور کسی کے گھر میں اس کی مسند پر نہ بیٹھے ہاں جب کہ اجازت دے ۔ (صحیح مسلم جلد نمبر ١ صفحہ نمبر ٢٣٦،چشتی)
اس حدیث کی شرح میں امام نوی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : وَاِنْ کَانَ ذلِکَ الْغَیْرُ افقہُ وَ اقراءُ وَ اَورَعُ وَ اَفضَلُ مِنہُ ۔ اگر چہ یہ دوسرا شخص اس سے علم و قراءت ، پرہیزگاری اور فضیلت میں زیادہ ہو ۔ (امام اور مقتدی صفحہ ٢٣)
فتاوی بحر العلوم جلد اول صفحہ ٣٥٧ میں ہے : امام کی اجازت کے بغیر امامت کرنا مقررہ امام کی حق تلفی اور غلط ہے ۔
آج کے اس پرفتن دور میں کچھ لوگ امام کو حقیر و ذلیل سمجھ کر ان کی توہین کرتے ہیں ، بلا وجہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر ٹوکتے رہتے ہیں اور کبھی کبھی نازیبا کلمات کہہ کر دل شکنی کرتے ہیں ۔ ایسے جاہل ، احمق اور بے ہودہ لوگوں کو چاہیے کہ امام کو اپنا پیشوا ، دین کا رہبر ، نائبِ انبیا اور ایک عالمِ دین سمجھے اور ادب و احترام کے دائرے میں رہ کر ان سے کلام کرے ۔
اس تعلق سے فتاوی فقیہ ملت جلد ١ صفحہ ١٤٧ پر ایک فتوی ہے جس کو پڑھ کر ایسے لوگوں کو نصیحت حاصل کرنی چاہیے ۔
کتاب مذکور میں سوال ہوا کہ : بعض لوگ عوام میں ایسے پائے جاتے ہیں جو امام صاحب کی بلاوجہ خامیوں اور کمیوں کی تلاش میں لگے رہتے ہیں اور کوئی کمی نظر نہیں آتی تو صرف اتنی ہی بات پر کہ امام صاحب اگر ہفتہ یا عشرہ میں گھر یا کہیں اور اپنی ضرورت سے چلے گئے تو اس بات کو لے کر مسجد یا دوکان یا روڈ پر چند لوگوں کی جمی مجلس میں امام صاحب کو برا بھلا کہنا اور اس طرح بولنا کہ یہ بہت آزاد ہوگئے ہیں یا یہ شخص رکھنے کے قابل نہیں ہے اسی طرح بعض نازیبا کلمات بکنا کیا شرعاً یہ باتیں درست ہیں ؟ اگر نہیں تو جو لوگ افعال مذکورہ کے مرتکب ہیں ان کےلیے شرعاً کیا حکم ہے ؟
اور ظاہر ہے امام صاحب انسان ہیں ان کی اپنی ذاتی گھریلو وغیرہ بہت سی ضروریات ہیں کیا ان کی فراہمی کےلیے ان کا ناغہ کرنا شرعاً گرفت کا سبب ہے ؟ اگر نہیں تو جو لوگ اس بنیاد پر امام کو ہدف ملامت یا مورد طعن و تنقید بنائیں ان کےلیے شریعت مطہرہ کیا حکم رکھتی ہے ؟
تو شاگردِ حضور فقیہ ملت حضرت علامہ مفتی حبیب اللّہ مصباحی صاحب قبلہ اس کا جواب دیتے ہوئے یوں رقم طراز ہیں : بلاوجہ شرعی کسی مسلمان کے پیچھے پڑنا ، اس کی خامیوں اور کمیوں کی تلاش میں لگا رہنا اور برا بھلا کہنا خصوصاً بر سرِبازار فسق و گناہ ہے ۔ حدیث شریف میں ہے ۔ لیس المؤمن بالطعان و لا اللعان و لا الفاحش و لا البذا ۔ یعنی مسلمان لعن طعن کرنے والا ، فحش گو اور بے ہودہ گو نہیں ہوتا ۔ (ترمذی شریف جلد ٢ صفحہ ١٨،چشتی)
اور جو شخص مسجد کا امام ہے ظاہر ہے کہ وہ بھی انسان ہی ہے اس کی اپنی بھی کچھ ضروریات ہیں جن کےلیے اسے گھر جانا ہوگا اس پر لوگوں کا برا بھلا کہنا بد تمیزی سے پیش آنا قطعاً درست نہیں بلکہ ایک مسلمان کو تکلیف دینا ہے اور مسلمان کو تکلیف پہونچانا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تکلیف پہونچانا ہے ۔ حدیث شریف میں ہے ۔ مَنْ اَذی مسلماً فقد اذانی و من اذانی فقد اذی اللّہ ۔ ہاں اگر امام مسجد کے متولی کو آگاہ کیے بغیر ناغہ کرے تو اسے پوچھنے کا حق ہے نہ کہ ہر شخص کو ۔ اور امام کو رسوا کرنے والے یہ جان لیں کہ وہ جیسا امام کے ساتھ کریں گے اللّہ تعالٰی ان کے ساتھ بھی ویسا ہی برتاؤ کرے گا ۔ حدیث شریف میں ہے ۔ کَما تدینُ تدان ۔ یعنی جیسا تو دوسرے کے ساتھ کرے گا ویسا ہی اللّہ تیرے ساتھ کرے گا ۔ (کنزالعمال جلد ١٥ صفحہ ٧٧٢) ۔ لہٰذا عوام پر لازم ہے کہ وہ امام کو رسوا کرنے او اس کو برا بھلا کہنے سے باز آئیں اور اس سے معافی مانگیں اور آئندہ ایسا نہ کرنے کا عہد کریں ۔
منصبِ امامت ایک جلیل القدر منصب ہے جو گویا کہ نیابتِ رسالت (یعنی انبیاء علیہم السلام کے نائب) ہیں ، جس کی بناء پر ائمہ حضرات کا کرام و احترام لازم ہے ۔ امامت ، مٶذنی اور علمِ دین کی تدریس اللہ تعالٰی کے نزدیک نہایت مؤقر عمل ہے ، اور ان لوگوں کےلیے اللہ تعالٰی کی خاص رحمت و انعام مقدرہے ۔ ان فضائل کو جان لینے کے بعد ایک مسلمان کے دل میں بلاشبہ یہ حسرت پیدا ہوتی ہے کہ کاش وہ بھی امام ، مؤذن یا مدرس ہوتا لیکن دوسری جانب جب ہم موجودہ دور میں اپنے معاشرے کے ائمہ اور مٶذنین ، و مدرسین کے حالات اور ان کے ساتھ لوگوں کے سلوک و رویّوں کا جائزہ لیں تو بہت افسوس اور تکلیف ہوتی ہے ، آج حالات یہاں تک پہنچ چکے ہیں کہ دیندار اور باشعور سمجھے جانے والے مسلمان بھی امامت بالخصوص مٶذنی اور مکاتب کی مدرسی کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ۔ بعض مساجد و مدارس کے ذمہ داران مختلف طریقوں سے ان حضرات کو ہراساں کرتے رہتے ہیں ، جھوٹے الزامات لگانا ، چھوٹی چھوٹی غلطیوں پر سخت رویہ اختیار کیا جاتا ہے ، خصوصاً مؤذنین کو بالکل بھی خاطر میں نہیں لایا جاتا ، بلاشبہ ان سے غلطیاں و کوتاہیاں بھی ہوتی ہوں گی ، لیکن ایسے وقت میں ان کا ادب و احترام ملحوظ رکھتے ہوئے انہیں تنہائی میں تنبیہ کی جائے ، لوگوں کے سامنے ان سے سخت کلامی کرنا بالکل بھی جائز نہیں ہے ، ذمہ داران کے علاوہ اکثر نمازی حضرات بھی مؤذنین سے الجھ جاتے ہیں ، ایسے لوگوں کے متعلق کہا جاتا ہے کہ جن کی گھر میں نہیں چلتی وہ مسجد میں آکر اپنی چلاتے ہیں ، چنانچہ یہ سب دیکھنے کے بعد ایک عام مسلمان ، امام باالخصوص موٴذن اور مکتب کا مدرس بننے کی حسرت اور خواہش کو دل میں ہی دبا دیتا ہے ۔ اور دیگر دنیاوی مشاغل کے ذریعے اپنی روزی روٹی کا انتظام کرتا ہے ۔ لہٰذا ایسے لوگوں کو اپنے اِس غیر شرعی فعل سے باز آجانا چاہیے ، ورنہ ان سے بروزِ حشر سخت مؤاخذہ ہوگا ، جہاں ان کی ایک ایک زیادتی کا حساب چُکتا کیا جائے گا ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نےفرمایا : تمہارے امام تمہارے سفارشی ہیں ،، یا یوں فرمایا : تمہارے امام الله تعالٰی کے یہاں تمہارے نمائندہ ہیں ۔ (اتحاف السادة المتقین)
ذخیرہ احادیث میں مؤذن کی بہت فضیلت آئی ہے ، مثال کےلیے دو حدیثیں پیشِ خدمت ہیں : ⏬
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نےفرمایا : اگر تمہیں اذان دینے کی فضیلت اور خیروبرکت کا علم ہو جائے تو تم مؤذن بننے کےلیے قرعہ اندازی کرنے لگو ۔ (صحیح بخاری)
یعنی ہر ایک اذان دینے کا اتنا شوقین ہو جائے گا کہ جھگڑے کو ختم کرنے کےلیے قرعہ کی ضرورت پیش آئے گی ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نےفرمایا : مؤذن کو الله کے راستہ میں شہید کی طرح ثواب ملتا ہے اور دفن کے بعد اس کا جسم کیڑوں کی غذا نہیں بنتا ۔ (طبرانی کبیر)
امام اور مؤذن صاحبان کو نوکر سمجھنا یا نوکروں جیسا برتاؤ ان کے ساتھ کرنا بہت غلط بات ہے اور ان کی حق تلفی ہے ۔ یہ خیال تکبر سے پیدا ہوتا ہے ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نےفرمایا : جس کے دل میں ذرہ برابر تکبر ہوگا ، جب تک اس کو دوزخ میں جلا کر نکال نہ دیا جائے گا، وہ جنت میں نہیں جا سکتا ۔ (صحیح مسلم)
اس لیے جو حضرات ایسا کرتے ہیں ان کےلیے ضروری ہے کہ وہ اس سے باز آئیں اور اپنی اصلاح کریں اور آئندہ امام و مؤذن صاحبان کا اکرام و احترام کریں ۔
دینِ اسلام میں امامت کا منصب بڑا ہی معزز و محترم منصب ہے ۔ امامت وہی کرتا ہے جو قوم کا معزز اور صاحب علم شخص ہوتا ہے ۔ اس بات سے بلکل واضح ہے کہ امامت اس دنیا کا ایک عظیم نصب ہے ، اس لیے کہ یہ منصب بڑا نازک اور حساس ہے ۔ اس کے تقاضے بہت اہم ہیں اور توقعات بہت زیادہ ۔ اگر معاشرے کا جائزہ لیا جائے وہ ائمہ کرام میں اقدار مفقود نظر آتی ہے جو اس منصب کےلیے نہایت ضروری ہے تاہم رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس عہدے کو جو عزت بخشی اور اس کی جو راہ عمل متعین کی ہے اس نے اس کی عظمت کو ختم نہیں ہونے دیا ۔ اسلام نے اس کے شرائط و ضوابط متعین کردیے تاکہ ہر کوئی اسے اپنا حق نہ سمجھے ۔
لیکن یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ کوئی منصب کیسا بھی جلیل القدر ہو اس کی عظمت خود عہدیدار کو ہی قائم رکھنی پڑتی ہے ۔ اس سے جڑا ہوا انسان اس کی عظمت سے اسی وقت معظم بن سکتا ہے کہ وہ خود اس کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہو وہ خود اگر اس عہدے کے تقاضوں اور نزاکت کا خیال نہیں کرتا تو اس منصب کی عظمت بلکہ اندیشہ ہے کہ وہ اپنی کوتاہی اور بے حسی سے اس منصب کی اقدار کو ہی پامال کردے گا ۔
امام کو لازمی طور پر ان خامیوں کو جاننا ہوگا جن کی وجہ سے مقتدیوں کی نگاہ میں اس کی عظمت میں کمی آئی ہے اور مقتدی حضرات اپنے آپ کو امام کا آقا و مولا سمجھتے ہیں ۔ مقتدی حضرات کو بھی امام کا حق جاننا چاہیے اس کا خیال رکھنا چاہیے ۔ امامت کا منصب بےحد بزرگی والا ہے جس کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا؛عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے سنا جس نے لوگوں کی امامت کی اور وقت پر اسے اچھی طرح ادا کیا تو اسے بھی اس کا ثواب ملے گا اور مقتدیوں کو بھی اور جس نے اس میں کچھ کمی کی تو اس کا وبال صرف اسی پر ہوگا یعنی ان (مقتدیوں) پر نہیں ۔ (سنن ابن ماجہ صفحہ ۹۸۳)
آج ائمہ مساجد کے ساتھ عوام کے رویوں کو دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ حالات کتنے افسوسناک ہیں ۔ وہ شخص جو لوگوں کی نمازوں کی قبولیت کا وسیلہ و ذریعہ ہے ، آج وہ مسجد میں ایک نوکر کی زندگی گزار رہا ہے ۔ جس کی تنخواہ محض چند ہزار ہوتی ہے اور وہ بھی اتنی دھونس کی کہ وہ نمازوں کے ساتھ ساتھ نیاز، دسویں کی فاتحہ ، نماز جنازہ ، نکاح ، مسجد کی صفائی وغیرہ کرنے پر مجبور ہوتا ہے ۔ مسجد کے باہر تھڑوں پر اور بازاروں بیٹھنے والے لوگ جن کو نماز سے کوئی سروکار نہیں اماموں کے حالات پر بحث کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔
نئے نئے مشورے کرتے ہیں کہ امام صاحب کو ایسا کرنا چاہیے ، ان کو ایسا نہیں کرنا چاہیے ، امام صاحب کی ذمہ داری ہے وغیرہ ۔ بہت سی جگہوں پر ایسا ہوتا ہے کہ لوگ اماموں پر دباؤ بناتے ہیں جس کی وجہ سے ائمہ مساجد حق گوئی سے گریز کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ حتیٰ کہ وہ شخص بھی جس کے اپنے بچے نہیں سنتے ہو وہ بھی امام صاحب پر فرمانروا ہوتا ہے ۔ یہ کوئی نہیں پوچھتا کہ امام صاحب کو کوئی پریشانی تو نہیں ۔ انہیں کسی چیز کی ضرورت تو نہیں ۔ ان تمام چیزوں کی پرواہ بھی نہیں ہوتی ۔ جو بھی آتا ہے وہ اعتراض اور زبان طعن دراز کرتے ہے ۔
اب بات کرتے ہیں امام صاحب کی تنخواہ پر جو ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ناکافی ہے ۔ اس تنخواہ میں ایک عام آدمی زندگی گزار نہیں سکتا اور اتنے اخراجات ہوتے ہیں جو اتنی مختصر سی تنخواہ میں ممکن نہیں ۔ اماموں کے معاملات پر تو بہت بڑے زورشور پر ہوتی ہے ۔ ان کی غلطیوں کو اجاگر کرنے کےلیے تو بڑی محفل منعقد ہوتی ہیں۔ کیا کبھی اس بات کو لے کر کوئی سنجیدہ ہوا کہ امام صاحب کو نذرانہ کتنا دینا چاہیے ؟ ۔
کیا کسی نے اس بات کو اٹھایا کہ امام صاحب نے یہاں ایک عرصہ گزار دیا سب تعاون کرکے ان کو گھر مہیا کروا دیں ؟ مسجدوں میں لاکھوں کروڑوں لگانے کے لئے تو تیار رہتے ہیں کہ مسجد طرح طرح کے نقش و نگاری سے مزین ہو جائے کیوں کہ یہ اللہ کا گھر ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ائمہ مساجد کے احوال سدھارنے کی بھی اشد ضرورت ہے ۔ اس لیے کہ وہ مسجد کا ایسا ستون ہیں جن کے بغیر جماعت کے ساتھ اللہ تبارک و تعالیٰ کی عبادت ممکن نہیں ۔ اور معاشرے میں امامت کی اہمیت کو اتنا کم سمجھا جاتا ہے کہ امام صاحب کا نام لیتے ہیں ایک عجیب و غریب تصور ذہن میں گردش کرنے لگتا ہے ۔ کہ امام وہی ہوتا ہے جو غریب ہوتا ہے ۔ سادہ زندگی گزارنے والا جس کا اپنا کوئی گھر نہیں ہوتا ۔ جو ساری زندگی ایک چھوٹے سے حجرے میں گزار کر اس دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ اپنے بچوں کو امام بناتے ہوئے ڈرتے ہیں کہ ان کا بچہ امام بن گیا تو کھائے گا کیا وہ اپنے بچے کو غربت کے سمندر میں دھکیلتے ہوئے ڈرتے ہیں ۔ کہ وہ اپنے مسجد کے امام کے حالات سے اچھی طرح واقف ہیں ۔
اب ہمیں غور کرنا چاہیے کہ وہ منصب جو نیابت رسول سے منسلک ہے، اس کےلیے ہم نے کیا لائحہ عمل تیار کیا ہے ۔ امامت کے مسائل پر گفتگو ہونی چاہیے اس کی عظمت لوگوں کے دلوں میں بٹھانی چاہیے ۔ غرض اس مضمون سے یہ ہے کہ ائمہ کرام کے مسائل حل کیے جائیں ۔ ان کو معاشی طور پر مضبوط بنایا جائے ۔ ان کو تجارت کے مواقع فراہم کیے جائیں ، تاکہ وہ خوش دلی سے اس منصب کی انجام دہی کریں ۔ ائمہ حضرات کو بھی چاہیے کہ دین کی تبلیغ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا کریں ، نوجوانوں کو دینی مسائل سے آگاہ کریں ۔ ان کو دین پڑھانا بھی بہت بڑی تبلیغ ہے ۔ جب ائمہ حضرات ان باتوں پر سنجیدگی سے غور کریں اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کریں تو حالات بدل جائیں گے ان شاء اللہ ۔ اس سے اصلاح کی امید ہے اللہ عزوجل ہمیں عمل کی توفیق عطا فرماۓ آمین ۔
فقہائے کرام رحمہم الله علیہم نے اس بات کی وضاحت کی ہے کہ :
مسجد کے متولی اور مدرسہ کے مہتمم کو لازم ہے کہ خادمانِ مساجد اور مدارس کو ان کی حاجت کے مطابق اور ان کی علمی قابلیت اور تقویٰ و صلاح کو ملحوظ رکھتے ہوئے وظیفہ و مشاہرہ (تنخواہ) دیتے رہیں ۔ باوجود گنجائش کے کم دینا بُری بات ہے اور متولی خدا کے یہاں جواب دہ ہوں گے ۔ (درمختار و شامی)
صرف امامت کی تنخواہ دے کر امام پر اذان کی ذمہ داری ڈالنا ، ان سے جھاڑو دینے ، نالیاں صاف کرنے وغیرہ امور کی خدمت لینا ظلم شدید اور توہین ہے ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نےفرمایا : حاملین قرآن (یعنی حفاظ و قراء و علمائے کرام) کی تعظیم کرو ، بےشک جس نے ان کی تکریم کی اس نے میری تکریم کی ۔ (الجامع الصغیر)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نےفرمایا : حاملین قرآن (یعنی حفاظ و قراء و علمائے کرام) اسلام کے علمبردار ہیں اور اسلام کا جھنڈا اُٹھانے والے ہیں ۔ جس نے ان کی تعظیم کی اس نے الله کی تعظیم کی اور جس نے ان کی تذلیل کی اس پر الله کی لعنت ہے ۔ (کنز العمال و مشکواة،چشتی)
مسجد کی انتظامیہ کو اس کا بھی خیال رکھا چاہیے کہ امام و مؤذن کی شکل و صورت مسنون ہو اور ان کا تلفظ بھی تجوید کے مطابق درست ہو ۔
آٸمہ و مٶذننین کا تنخواہوں کے ذریعے بھی استحصال کیا جارہا ہے ، خطیر رقم مسجد و مدرسے میں جمع ہونے اور آمدنی کے متعدد ذرائع ہونے کے باوجود قلیل تنخواہیں دی جارہی ہیں ، بعض ذمہ داران اس غلط فہمی میں بھی مبتلا ہیں کہ تنخواہ کم دے کر ہم مسجد ، مدرسہ کا پیسہ بچا رہے ہیں ، جب کہ یہ حضرات سخت غلطی پر ہیں ، اس طرح وہ ان حضرات کا استحصال کرکے مسجد کا پیسہ نہیں بچا رہے ہیں بلکہ اپنے لیے آخرت کی مصیبت مول لے رہے ہیں ، ان حضرات کو احمقوں کی جنت سے نکلنے کی ضرورت ہے ۔ چندہ دہندگان چندہ مسجد کے اخراجات کو پورا کرنے کےلیے دیتے ہیں جن میں سرِ فہرست امام و مؤذن کی تنخواہ ہوتی ہے ، اور اکثر چندہ دہندگان کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ امام و مؤذن کی تنخواہ بہتر سے بہتر ہو ، چنانچہ ان رقومات پر ذمہ داران کا سانپ بن کر بیٹھ جانا اور غیر معقول تنخواہ دینا قطعاً ناجائز ہے ، انہیں اپنی اس روِش کو ترک کرنا ضروری ہے ۔
فقیر ڈاکٹر فیض احمد چشتی نے لاہو شہر میں دیکھا ہے کہ ایسے بھی ذمہ دارانِ مساجد ہیں جو خود امام و مؤذن کی مکمل اور معقول تنخواہ کا نظم کرتے ہیں ، یا تنخواہ کا ایک حصہ اپنی جیبِ خاص سے ادا کرتے ہیں ۔ اللہ تعالٰی انہیں جزائے خیر عطا فرمائے ، اور دیگر ذمہ داران کےلیے انہیں مشعلِ راہ بنائے آمین ۔
لیکن فقیر نے دیگر مختلف شہروں و قصبوں کی تمام مساجد اور مکاتب کا پروگرانوں کے سلسلے میں جا جا کر مشاہدہ کیا ہے تو وہاں ائمہ و مؤذنین کی ہفتہ واری تنخواہیں بارہ سو سے دو ہزار کے درمیان ہیں ، چند مساجد ہوں گی جہاں معقول یعنی دو ہزار سے پچیس سو تک تنخواہ دی جاتی ہیں ۔ اکثر مضافاتی شہروں اور گاٶں کی مساجد کی حالت اس سے بھی زیادہ بدتر ہے ، وہاں اب تک ائمہ و مؤذنین کی تنخواہیں ماہانہ تین ہزار تا پانچ ہزار ہیں ۔ وہاں کے لوگوں کو اس طرف خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔
مدارس و مکاتب میں پانچ سے سات گھنٹہ پڑھانے والے مدرسین کی تنخواہیں عموماً تین ہزار تا پانچ ہزار دی جارہی ہیں ۔ حیرت اور درد کا ایک جھٹکا آپ کو اس وقت بھی لگے گا جب آپ دینی مکاتب و مدارس میں خدمات انجام دینے والی معلمات یہاں تک کہ فقہ اور حدیث شریف کا درس دینے والی جید عالمات کی تنخواہوں کے متعلق معلومات حاصل کریں گے ، پانچ سے سات گھنٹہ تعلیم دینے والی ان معلمات کی تنخواہیں ماہانہ دو ہزار سے چار ہزار کے درمیان ہیں ۔
کیا اسے استحصال نہیں کہا جائے گا ؟
اب آپ خود موازنہ کرلیں کہ ایک مزدور بھی کم از کم بیس سے تیس سے چالیس ہزار ماہانہ کمالیتا ہے ، جبکہ دینِ متین کی حفاظت اور اس کی ترویج و اشاعت اور امت کی آخرت سنور جائے اس کوشش میں اپنا بچپن اور جوانی کے ایام جھونک دینے والے ان سعادت مند نفوس کے ساتھ امت کا کیا سلوک ہے ؟ ۔ اس امت کے بعض افراد نے آج اسے ایک مزدور کے مقام سے بھی نچلے مقام پر کھڑا کر دیا ہے ۔ لہٰذا ذمہ دارانِ مساجد و مدارس کو اس پر توجہ دینے کی سخت ضرورت ہے ، اسی طرح نوجوانانِ ملت کو بھی محلہ کی مسجد کے امام و مؤذن و مدرسین کی خبر گیری کرتے رہنا چاہیے ، اور مسجد مدرسے کی آمدنی کے سلسلے میں ذمہ داران کا تعاون بھی کرتے رہنا چاہیے ، تب جاکر یہ معاملہ قابو میں آئے گا ، اور ان حضرات کی تنخواہوں کا معیار بلند ہوگا ان شاءاللہ ۔ اللہ عزوجل ہم سب اہلِ اسلام کو ان نفوس قدسیہ کی قدردانی کی توفیق ، بقدرِ استطاعت ان حضرات کی خدمت کرنے کی اور اٸمہ کرام کے مراتب سمجھ کر ان کی عزت و احترام بجا لانے کی توفیق توفیق عطا فرمائے آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment