Wednesday, 29 January 2025

مالک بن نویرہ منکرِ زکواة و منکرِ ختمِ نبوت کا تعارف

مالک بن نویرہ منکرِ زکواة و منکرِ ختمِ نبوت کا تعارف

محترم قارئینِ کرام ارشادِ باری تعالیٰ ہے : يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا مَنۡ يَّرۡتَدَّ مِنۡكُمۡ عَنۡ دِيۡـنِهٖ فَسَوۡفَ يَاۡتِى اللّٰهُ بِقَوۡمٍ يُّحِبُّهُمۡ وَيُحِبُّوۡنَهٗۤ ۙ اَذِلَّةٍ عَلَى الۡمُؤۡمِنِيۡنَ اَعِزَّةٍ عَلَى الۡكٰفِرِيۡنَ يُجَاهِدُوۡنَ فِىۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ وَلَا يَخَافُوۡنَ لَوۡمَةَ لَاۤئِمٍ‌ ؕ ذٰ لِكَ فَضۡلُ اللّٰهِ يُؤۡتِيۡهِ مَنۡ يَّشَآءُ‌ ؕ وَاللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِيۡمٌ ۔ (سورہ المائدہ آیت نمبر 54)

ترجمہ : اے ایمان والو ! تم میں سے جو شخص اپنے دین سے مرتد ہوجائے گا ‘ تو عنقریب اللہ ایسی قوم کو لے آئے گا جس سے اللہ محبت کرے گا اور وہ اللہ سے محبت کرے گی ‘ وہ مومنوں پر نرم ہوں گے اور کافروں پر سخت ہوں گے، وہ اللہ کی راہ میں جہاد کریں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں ڈریں گے یہ اللہ کا فضل ہے وہ جس کو چاہے عطا فرماتا ہے اور اللہ بڑی وسعت والا بہت حلم والا ہے ۔


اس سے پہلے اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا جو کافروں کے ساتھ دوستی رکھے گا ، اس کا ان ہی میں شمار ہوگا اور اس آیت میں صراحتا فرما دیا ، جو شخص دین اسلام سے مرتد ہوجائے گا ، اس سے اللہ کو کوئی نقصان نہیں ہوگا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عہد میں بھی کچھ لوگ مرتد ہوئے اور کچھ آپ کے بعد مرتد ہوئے ۔


علامہ جار اللہ محمود بن عمر زمحشری متوفی ٥٢٨ ھ لکھتے ہیں : مرتدین کے گیارہ فرقے تھے ، تین نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عہد میں تھے ۔ ایک فرقہ بنو مدلج تھا ‘ ان کا رئیس ذوالحمار تھا اور یہی اسود عنسی تھا۔ یہ شخص کاہن تھا ‘ اس نے یمن میں نبوت کا دعوی کیا اور ان شہروں پر غلبہ پالیا ‘ اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعض عاملوں کو نکال دیا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ اور یمن کے سرداروں کے نام خط لکھا ۔ اللہ تعالیٰ نے فیروز دیلمی کے ہاتھوں میں اس کو ہلاک کرا دیا ‘ انہوں نے اس کو قتل کر دیا ۔ جس رات وہ قتل ہوا ‘ اسی رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کے قتل کی خبر مسلمانوں کو دے دی تھی ‘ جس سے مسلمان خوش ہوئے ‘ پھر اس کے دوسرے روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رفیق اعلی سے واصل ہوگئے ‘ اور وہاں سے اس کی خبر ربیع الاول کے آخر میں پہنچی تھی ۔ 


دوسرا فرقہ بنوحنیفہ ہے ۔ یہ مسیلمہ کی قوم تھی ‘ اس نے نبوت کا دعوی کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف مکتوب لکھا ‘ ” از مسیلمہ رسول اللہ برائے محمد رسول اللہ ‘ بعد ازیں یہ کہنا ہے کہ یہ زمین آدھی آپ کی ہے اور آدھی میری ہے “۔ رسول اللہ نے اس کا جواب دیا ‘ از محمد رسول اللہ برائے مسیلمہ کذاب ‘ بعد ازیں یہ کہنا ہے کہ تمام زمین اللہ کی ملکیت ہے ‘ وہ اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے ‘ اس کا وارث بناتا ہے ‘ اور نیک انجام متقین کے لیے ہے “۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے مسلمانوں کے ساتھ اس سے جنگ کی اور یہ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے قاتل حضرت وحشی رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں قتل ہوا ۔ حضرت وحشی رضی اللہ عنہ کہتے تھے میں نے اپنی جاہلیت کے زمانہ میں سب سے نیک شخص کو قتل کیا اور اپنے اسلام کے زمانہ میں سب سے بدتر شخص کو قتل کیا ۔ 


تیسرا فرقہ بنو اسد تھا ‘ یہ علیحہ بن خویلد کی قوم تھی ‘ اس شخص نے بھی نبوت کا دعوی کیا تھا ‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے جنگ کے لیے حضرت خالد بن ولید کو بھیجا ‘ یہ شکست کھانے کے بعد شام بھاگ گیا ‘ پھر مسلمان ہوگیا اور اس نے نیک عمل کیے ۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے عہد میں مرتدین کے سات فرقے تھے ۔ (1) عینہ بن حصن کی قوم فزارہ ۔ (2) قرہ بن قشیری کی قوم غطفان ۔ (3) فجاء ۃ بن عہد یالیل کی قوم بنو سلیم ۔ (4) مالک بن نویرہ کی قوم بنویربوع ۔ (5) سجاح بنت المنذر۔ یہ وہ عورت تھی جس نے نبوت کا دعوی کیا اور مسیلمہ کذاب سے نکاح کیا اور اس کی قوم تمیم کے بعض لوگ ۔ (6) اشعث بن قیس کی قوم کندہ ۔ (7) حطیم بن زید کی قوم بنوبکربن وائل ‘ یہ بحرین میں تھے ۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں ان ساتوں مرتد فرقوں کا مکمل استیصال کرا دیا ۔ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے عہد میں ایک شخص مرتد ہوا تھا ‘ یہ غسان کی قوم کا جبلہ بن ایہم تھا ‘ اس کو ایک تھپڑنے نصرانی بنادیا اور یہ اسلام سے مرتد ہو کو روم کے شہروں کی طرف نکل گیا ‘ جبلہ کی چادر پر ایک شخص کا پیر پڑگیا ‘ اس نے اس کے تھپڑ مارا ‘ اس شخص نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے شکایت کی ‘ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا اب یہ تمہارے تھپڑ مارے گا ‘ اس نے تھپڑ کے بدلہ میں دس ہزار درہم کی پیشکش کی ‘ مگر وہ شخص نہ مانا ۔ جبلہ نے مہلت طلب کی اور روم جا کر مرتد ہو گیا ۔ (تفسیر الکشاف جلد ١ صفحہ ٦٤٦۔ ٦٤٤ مطبوعہ نشر البلاغہ ایران ١٤١٣ ھ،چشتی)


مالک بن نویرہ بنو تمیم کی شاخ بنو یربوع  کا سردار تھا ۔ کنیت ابوحنظلہ تھی ۔ عرب کے مشہور شعرا اور شہسواروں میں اس کا شمار ہوتا تھا ۔ یہ مسلمان کب ہوا اس کی صحیح تاریخ دستیاب نہیں ۔ غالباً 8 یا 9 ھجری میں ہوا ہوگا ۔ حیرت کی بات ہے روافض کے ساتھ ساتھ اُن کے فضلہ خور تفضیلی رافضی ہر اُس شخص کو اپنا ہیرو بنا لیتے ہیں جو منکر ارکانِ اسلام اور منکرِ ختمِ نبوت ہو جیسے مختار ثقفی مدعی نبوت بالکل اسی طرح مالک بن نویرہ جو کہ منکرِ زکواة اور منکرِ ختمِ نبوت تھا کو اپنا ہیرو بنا لیا ۔ پھر یہ لوگ ایسے مرتدین کو صحابی ثابت کر کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے خلاف زہریلا گھٹیا پرپیگنڈا کرتے ہیں کہ صحابی کو قتل کر دیا ۔ نعوذ بااللہ ۔ اس فقیر کو حضرت علامہ پیرزادہ محمد اویس قادری صاحب نے حکم فرمایا کہ اس کا جواب دیں ۔ وقت کی قلت کے پیشِ نظر مختصر جواب لکھا ہے ۔ اہلِ علم توجہ بھی فرماٸیں اور اگر کہیں غلطی پاٸیں تو اس فقیر کی اصلاح فرماٸیں ۔


أَخْبَرَنَا أَبُو الْحُسَیْنِ بْنُ الْفَضْلِ الْقَطَّانُ بِبَغْدَادَ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا یَعْقُوبُ بْنُ سُفْیَانَ حَدَّثَنَا الْحَجَّاجُ بْنُ أَبِی مَنِیعٍ حَدَّثَنَا جَدِّی عَنِ الزُّہْرِیِّ قَالَ : لَمَّا اسْتَخْلَفَ اللَّہُ أَبَا بَکْرٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ وَارْتَدَّ مَنِ ارْتَدَّ مِنَ الْعَرَبِ عَنِ الإِسْلاَمِ خَرَجَ أَبُو بَکْرٍ غَازِیًا حَتَّی إِذَا بَلَغَ نَقْعًا مِنْ نَحْوِ النَّقِیعِ خَافَ عَلَی الْمَدِینَۃِ فَرَجَعَ وَأَمَّرَ خَالِدَ بْنَ الْوَلِیدِ بْنِ الْمُغِیرَۃِ سَیْفَ اللَّہِ وَنَدَبَ مَعَہُ النَّاسَ وَأَمَرَہُ أَنْ یَسِیرَ فِی ضَاحِیَۃِ مُضَرَ فَیُقَاتِلَ مَنِ ارْتَدَّ مِنْہُمْ عَنِ الإِسْلاَمِ ثُمَّ یَسِیرَ إِلَی الْیَمَامَۃِ فَیُقَاتِلَ مُسَیْلِمَۃَ الْکَذَّابَ فَسَارَ خَالِدُ بْنُ الْوَلِیدِ فَقَاتَلَ طُلَیْحَۃَ الْکَذَّابَ الأَسَدِیَّ فَہَزَمَہُ اللَّہُ وَکَانَ قَدِ اتَّبَعَہُ عُیَیْنَۃُ بْنُ حِصْنِ بْنِ حُذَیْفَۃَ یَعْنِی الْفَزَارِیَّ فَلَمَّا رَأَی طُلَیْحَۃُ کَثْرَۃَ انْہِزَامِ أَصْحَابِہِ قَالَ وَیْلَکُمْ مَا یَہْزِمُکُمْ قَالَ رَجُلٌ مِنْہُمْ أَنَا أُحَدِّثُکَ مَا یَہْزِمُنَا إِنَّہُ لَیْسَ مِنَّا رَجُلٌ إِلاَّ وَہُوَ یُحِبُّ أَنْ یَمُوتَ صَاحِبُہُ قَبْلَہُ وَإِنَّا لَنَلْقَی قَوْمًا کُلُّہُمْ یُحِبُّ أَنْ یَمُوتَ قَبْلَ صَاحِبِہِ وَکَانَ طُلَیْحَۃُ شَدِیدَ الْبَأْسِ فِی الْقِتَالِ فَقَتَلَ طُلَیْحَۃُ یَوْمَئِذٍ عُکَّاشَۃَ بْنَ مِحْصَنٍ وَابْنَ أَقْرَمَ فَلَمَّا غَلَبَ الْحَقُّ طُلَیْحَۃَ تَرَجَّلَ ثُمَّ أَسْلَمَ وَأَہَلَّ بِعُمْرَۃٍ فَرَکِبَ یَسِیرُ فِی النَّاسِ آمِنًا حَتَّی مَرَّ بِأَبِی بَکْرٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ بِالْمَدِینَۃِ ثُمَّ نَفَذَ إِلَی مَکَّۃَ فَقَضَی عُمْرَتَہُ وَمَضَی خَالِدُ بْنُ الْوَلِیدِ قِبَلَ الْیَمَامَۃِ حَتَّی دَنَا مِنْ حِیٍّ مِنْ بَنِی تَمِیمٍ فِیہِمْ مَالِکُ بْنُ نُوَیْرَۃَ وَکَانَ قَدْ صَدَّقَ قَوْمَہُ فَلَمَّا تُوُفِّیَ رَسُولُ اللَّہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم أَمْسَکَ الصَّدَقَۃَ فَبَعَثَ إِلَیْہِ خَالِدُ بْنُ الْوَلِیدِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ سَرِیَّۃً فَذَکَرَ الْحَدِیثَ فِی قَتْلِ مَالِکِ بْنِ نُوَیْرَۃَ قَالَ وَمَضَی خَالِدٌ قِبَلَ الْیَمَامَۃِ حَتَّی قَاتَلَ مُسَیْلِمَۃَ الْکَذَّابَ وَمَنْ مَعَہُ مِنْ بَنِی حَنِیفَۃَ فَاسْتَشْہَدَ اللَّہُ مِنْ أَصْحَابِ خَالِدٍ أُنَاسًا کَثِیرًا مِنَ الْمُہَاجِرِینَ وَالأَنْصَارِ وَہَزَمَ اللَّہُ مُسَیْلِمَۃَ وَمَنْ مَعَہُ وَقَتَلَ مُسَیْلِمَۃَ یَوْمَئِذٍ مَوْلًی مِنْ مَوَالِی قُرَیْشٍ یُقَالَ لَہُ وَحْشِیٌّ ۔ (حدیث حسن)

ترجمہ : زہری کہتے ہیں کہ جب حضرت ابوبکر خلیفہ بنے اور عرب مرتد ہونے لگے تو حضرت ابوبکر نے ان کے خلاف جہاد شروع کیا ۔ جب ان کی گردن تک پہنچے تو مدینہ کی طرف سے خوف ہوا واپس آئے اور خالد بن ولید کو امیر بنایا اور انھیں لوگوں کی ایک فوج دی اور حکم دیا کہ مضر کی طرف جاؤ اور وہاں جو مرتدین ہیں ان سے قتال کرو۔ پھر یمامہ کی طرف مسیلمہ کذاب سے قتال کریں اور پھر خالد بن ولید طلیحہ اسدی کذاب سے لڑے اور اسے اللہ کے حکم سے شکست دی۔ جب طلیحہ نے دیکھا کہ اس کے ساتھ کثرت سے قتل ہو رہے ہیں تو کہنے لگا : تمہیں کیا ہوگیا ہے ؟ کیوں شکست کھا رہے ہو ؟ تو ان میں سے ایک شخص کہنے لگا : میں تمہیں اس کا سبب بتاتا ہوں کہ ہم میں سے ہر شخص یہ چاہتا ہے کہ میں بچ جاؤں، دوسرا مارا جائے اور ان میں سے ہر شخص یہ چاہتا ہے کہ پہلے میں شہید ہو جاؤں۔ طلیحہ کو اس جنگ میں بہت مصیبت اٹھانی پڑی اور اس نے اس دن عکاشہ بن محصن اور ابن اقرم کو شہید کیا۔ جب حق غالب آگیا تو طلیحہ پیدل بھاگ گیا ، پھر مسلمان ہوگیا اور عمرہ کے لیے مدینہ میں تلبیہ کہا حضرت ابوبکر کے پاس سے گزرا اور مکہ پہنچ کر اپنا عمرہ ادا کیا اور خالد بن ولید یمامہ سے لوٹے اور قبیلہ بنو تمیم کے پاس پہنچے۔ ان میں مالک بن نویرہ بھی تھا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد اس نے صدقہ دینا بند کر دیا تھا تو حضرت خالد نے ان کی طرف ایک سریہ بھیجا ۔ الحدیث ۔ مالک بن نویرہ اس میں قتل ہوگیا اور خالد نے یمامہ میں مسیلمہ سے لڑائی کی اور اسے شکست دی اور مسیلمہ ایک قریشی شخص کے ایک غلام کے ہاتھوں مارا گیا جس کا نام وحشی تھا ۔ (سنن الکبریٰ بیہقی حدیث نمبر ١٦٧٢٨،چشتی)


روافض کے ساتھ ساتھ اُن کے فضلہ خور تفضیلی رافضیوں کا یہ دعویٰ کہ مالک بن نویرہ جلیل القدر صحابی تھے جبکہ واقعات اور تاریخ اس بات کو ثابت نہیں کرتے ۔ مورخین نے یہ ثابت کیا ہے کہ مالک بن نویرہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال مبارک کے بعد مرتد ہو گیا تھا اور وہ زکوٰۃ ادا نہیں کرتا تھا اس نے اموال صدقات اپنی قوم میں تقسیم کر دیے تھے ۔ جب اسے لایا گیا تو وہ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ سے اس بارے میں جھگڑا کرنے لگا ۔ اس نے کہا : تمہارے ساتھی کا یہ خیال تھا ۔ اس جملہ میں دو باتیں اہم ہیں : ⏬


اوّل : وہ زکوٰۃ کی فرضیت کا منکر تھا ۔

دوم : اس نے صاحبکم کہہ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف اشارہ کیا اور ایسا کرنا مشرکین کا وطیرہ تھا جو کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت کا اقرار نہیں کرتے تھے ۔ اس کا صرف زکوٰۃ کا انکار کرنا ہی اس کے قتل کےلیے کافی تھا ۔ یہ روایت تمام مورخین نے ذکر کی ہے ، جیسا کہ اصفہانی نے الامانی میں ، اور ابن خلکان نے تاریخ میں بخلاف یعقوبی کے وہ جھوٹ بولنے میں مشہور تھا ۔ تو اس کے بعد یہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ مالک بن نویرہ ایک جلیل القدر صحابی تھا ۔ بلکہ مورخین نے مالک کے مرتد مرنے پر ایک اور دلیل بھی ذکر کی ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی ملاقات متمم بن نویرہ برادر حقیقی مالک بن نویرہ سے ہوئی ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس سے وہ شعر پڑھنے کو کہا جو اس نے اپنے بھائی کے مرثیہ میں لکھے تھے ۔ متمم نے وہ اشعار پڑھے جو اس نے اپنے بھائی کے مرثیہ میں لکھے تھے ۔ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ اشعار سنے تو فرمایا : میری بھی چاہت تھی کہ اگر مجھے سلیقہ سے شعر کہنے آتے تو میں اپنے بھائی زید پر بھی ایسا ہی مرثیہ کہتا جیسے تم نے اپنے بھائی پر کہا ہے ۔ تو متمم بولا : اگر میرا بھائی اس چیز پر مرتا جس پر آپ کا بھائی مرا ہے تو میں کبھی اس کا مرثیہ نہ کہتا ۔ تو حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اس بات پر بہت خوش ہوئے اور فرمایا : جیسے میرے بھائی پر تعزیت متمم نے کی ہے ایسے کسی اور نے مجھ سے تعزیت نہیں کی ۔ (الکامل لابن الاثیر جلد ۲ صفحہ ۲۱۸،چشتی)


ایک دوسری روایت میں صراحت کے ساتھ آیا ہے کہ متمم نے کہا : آپ کا بھائی مومن مرا ہے اور میرا بھائی مرتد مرا ہے ۔ تو اس پر حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا : مجھ سے میرے بھائی پر کسی نے ایسی تعزیت نہیں کی جیسی تعزیت تم نے اس بارے میں کی ہے ۔ (الامانی لابی عبداللّٰہ صفحہ ۲۵)


تو کیا مالک کے مرتد ہونے پر اس سے بڑی دلیل کوئی اور ہو سکتی ہے ؟


جہاں تک مالک کی بیوی سے شادی اور اسی رات اس کے ساتھ شب باشی کا تعلق ہے تو یہ حق کے خلاف ہے ۔ علامہ ابن کثیر نے لکھا ہے کہ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے مالک کی بیوی کو اپنے لیے چن لیا تھا اور جب اس کی عدت پوری ہو گئی تو تب اس کے پاس چلے گئے ۔ (البدایۃ و النہایۃ جلد ۶ صفحہ ۳۲۲)


طبری نے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی اس شادی کا ذکر ان الفاظ میں کیا ہے : حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے ام تمیم بنت منہال سے شادی کی اور اسے پاک ہونے کےلیے چھوڑ دیا ۔ (الطبری جلد ۲ صفحہ ۲۷۳)


الکامل میں ہے : حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے ام تمیم سے شادی کی جو کہ مالک کی بیوی تھی ۔ (الکامل جلد ۲ صفحہ ۳۵۸)


ابن خلکان جس کا کلام تنقید نگار نے بطور دلیل کے پیش کیا ہے وہ کہتا ہے : اور حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے اس کی بیوی کو اپنے قبضہ میں لے لیا اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ : اسے مال غنیمت میں سے خرید لیا تھا تاکہ اس کے ساتھ شادی کر سکیں اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ جب اس کی عدت تین ماہ پوری ہو گئی تو آپ نے اسے شادی کا پیغام بھیجا جو اس نے قبول کر لیا ۔ (وفیات الاعیان جلد ۶ صفحہ ۱۴،چشتی)


حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے مالک بن نویرہ کی بیوی سے عدت گزرنے کے بعد نکاح و شادی کی تھی جس کی صراحت تمام کتبِ تاریخ نے کی ہے ، عدت کے اندر شادی کرنے کا قول محض من گھڑت اور رافضیوں اور اُن کے فضلہ خور نیم رافضیوں کا افتراء اور بغضِ صحابہ رضی اللہ عنہم پر مبنی ہے ۔ واصطفی خالد امرأة مالك بن نویرة ، وهی أم تمیم أبنة المنهال ، وکانت جمیلة ، فلما حلت بنی بها ۔ ((البدایة والنهایة جلد ۵ صفحہ ۲۷)


تاریخ کی اس متنازعہ شخصیت کے متعلق اہلِ تشیع پر یقین ہیں کہ : مالک بن نویرہ مرتد نہیں ہوا تھا ۔ مالک بن نویرہ نے زکوات ادا کرنے سے منع نہیں کیا تھا ۔ مالک بن نویرہ نے دعوی نبوت کرنے والی عورت سجاح بنت حارث کی حمایت بھی نہیں کی تھی ۔


تاریخ اسلام کی کتب میں مالک بن نویرہ کی شخصیت کو بعد از وصالِ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اچھے الفاظ میں  بیان نہیں کیا گیا ۔ 


نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے اپنے قبیلے بنو تمیم کی زکوات وصولی کےلیے مقرر کیا تھا ۔ جیسے ہی اسے معلوم ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وصال ہوگیا ہے تو اس نے اپنے قبیلے سے زکوات وصول کرنا بند کر دی ۔ اس کے علاوہ پہلے سے جمع شدہ رقم کو بھی واپس ان کے مالکان کو لوٹا دیا ۔ تاریخ کی کئی کتب میں نبوت کی دعویدار ”سجاح بنت حارث“ اور ”مالک بن نویرہ“ کی ملاقات اور اس کی تائید و حمایت کے قصے بیان کیے گئے ہیں ۔ 


حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے منکرین زکوات سے جنگ و جہاد کا اعلان کیا اور پھر حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی گرفت میں مالک بن نویرہ بھی آگیا ، زکوات کا منکر اور مرتد ثابت ہونے ہر اسے قتل کر دیا گیا تاکہ عرب قبائل میں منکرین زکوات تک سخت پیغام پہنچ سکے ۔ (تاریخ ابن کثیر جلد ششم صفحہ425،چشتی)


مزید روایات میں مالک بن نویرہ اور اس کے قبیلے کے قتل کی تفصیلات مختلف بیان کی گئی ہیں ۔ تاریخ طبری مترجم اردو میں بھی کم و بیش یہی تفصیل موجود ہے ۔ (تاریخ طبری جلد دوم صفحہ 79 - 80)


مالک بن نویرہ کا ذکر اوپر آچکا ہے کہ اُس نے وفات نبوی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خبر سن کر اظہار مسرت کیا تھا ، پھر سجاح کے ساتھ بھی اُس نے مصالحت کی تھی،مگر بعد میں اُس کے لشکر سے جدا ہوکر چلاگیا تھا، اب جب کہ مالک بن نویرہ گرفتار ہوکر آیا اور حضرت خالد بن ولیدؓ کے سامنے پیش کیا گیا تو بعض مسلمانوں نے کہا کہ مالک بن نویرہ کی بستی سے اذان کی آواز جوابا ً آئی تھی،اس لئے اس کو قتل نہیں کرنا چاہئے بعض نے کہا کہ انہوں نے جواباً اذان نہیں کہی، یہ خلیفہ رسول اللہ کے حکم کے موافق واجب القتل ہے، حضرت خالد بن ولیدؓ نے جہاں تک تحقیق و تفتیش کیا یقینی اور قطعی شہادت اس معاملہ میں دستیاب نہ ہوئی، اس پر طُرہ یہ ہوا کہ مالک بن نویرہ نے جب حضرت خالد بن ولیدؓ سے گفتگو کی تو اس کی زبان سے اثناء گفتگو میں کئی بار یہ نکلا کہ تمہارے صاحب نے ایسا فرمایا، تمہارے صاحب کا ایسا حکم ہے وغیرہ اس تمہارے صاحب سے مراد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تھے،حضرت خالد بن ولیدؓ نے یہ لفظ سن کر غصہ سے فرمایا : کہ کیا وہ تیرے صاحب نہ تھے،اس پر اُ س نے کوئی جواب مناسب نہیں دیا،طبری کی روایت کے موافق حضرت ضرار بن الازورؓ اُس وقت شمشیر بدست کھڑے تھے،انہوں نے حضرت خالدؓ کا اشارہ پاتے ہی اُس کا سر اُڑادیا،یہ میدان جنگ کا ایک نہایت معمولی سا واقعہ تھا؛ لیکن مؤرخین کو اس کا خاص طورپر اس لئے ذکر کرنا پڑا کہ ابو قتادہ بھی حضرت خالد بن ولیدؓ کی فوج میں شامل تھے اور وہ انہیں لوگوں میں تھے جو یہ کہتے تھے کہ مالک بن نویرہ کی بستی سے اذان کی آواز آ ئی تھی، لہذا مالک بن نویرہ کو قتل نہیں کرنا چاہئے، بعض مؤرخین نے یہ بھی لکھا ہے کہ مالک بن نویرہ کو حضرت خالد بن ولیدؓ نے قتل نہیں کرایا؛بلکہ انہوں نے مزید تحقیق حال کے لئے مالک بن نویرہ کو ضراراؓ بن ازورؓ کی حراست میں دےدیا تھا اور اتفاقاً رات کے وقت دھوکے سےمالک بن نویرہ ضرار بن ازور کے ہاتھ سے قتل ہوا ،بہرحال حضرت ابو قتادہؓ بہت ناراض ہوئے اور انہوں نے اپنی ناراضگی کا اظہار اس طرح کیا کہ وہ خالد بن ولیدؓ سے بلا اجازت لئے خفا ہوکر مدینے میں چلے آئے اوریہاں آکر شکایت کی کہ خالد بن ولیدؓ مسلمانوں کو قتل کرتا ہے،حضرت عمرفاروقؓ اوردوسرے مسلمانوں نے مدینے میں جب یہ بات سُنی تو خالد بن ولیدؓ کے متعلق حضرت ابوبکر صدیقؓ سے شکایت کی اورکہا کہ خالد کو معزل کرکے اس سے قصاص لینا چاہئے،مدینہ منورہ میں خالد بن ولیدؓ کے متعلق عام ناراضی اس لئے بھی پھیل گئی اور قتل مسلم کا الزام اس لئے اور بھی اُن پر تُھپ گیا کہ حضرت خالد بن ولیدؓ نے بعد میں مالک بن نویرہ کی بیوی سے نکاح کرلیا تھا،حضرت ابوبکر صدیقؓ نے یہ سب کچھ سن کر حضرت ابوقتادہؓ کو مجرم قرار دیا کہ خالدؓ کی بلا اجازت کیوں لشکر سے جُدا ہوکر چلے آئے،اُن کو حکم دیا گیا واپس جائیں اور خالد کے لشکر میں شامل ہوکر اُن کے ہر ایک حکم کو بجالائیں؛چنانچہ اُن کو واپس جانا پڑا،حضرت عمر فاروقؓ اور دوسرے صحابہ کو سمجھایا کہ خالد پر زیادہ سے زیادہ ایک اجتہادی غلطی کا الزام عائد ہوسکتا ہے ،فوجی نظام اور آئین جنگ کو مد نظر رکھتے ہوئے خالد کو سیفٌ من سیوف اللہ میں نہ زیر قصاص لایا جاسکتا ہے نہ معزول کیا جاسکتا ہے،صدیق اکبرؓ نے مالک بن نویرہ کا خوں بہا بیت المال سے ادا کردیا، ایک اسی واقعہ سے اندازہ ہوسکتا ہے کہ صحابہ کرام کو اپنے دشمنوں کے قتل کرنے میں کس قدر احتیاط مد نظر رہتی تھی اور وہ کسی معمولی شخص کے لئے ایک قیمتی سپہ سالار کو بھی حق وانصاف کی عزت قائم رکھنے کے واسطے قتل کرنا اور زیر قصاص لانا ضروری سمجھتے تھے ۔


اس میں زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ ایک اجتہادی مسئلہ تھا۔ اس میں ابو بکر رضی اللہ عنہ کی رائے یہ تھی کہ خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو قتل نہ کیا جائے۔ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی رائے تھی کہ آپ کو قتل کیا جائے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے بڑے عالم نہیں تھے۔ اہل سنت اور شیعہ دونوں اس بات کو تسلیم کرتے ہیں ۔اس وجہ سے ابو بکر رضی اللہ عنہ پر واجب نہیں تھا کہ وہ اپنی رائے چھوڑ کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی رائے کی اتباع کریں ۔ اور کسی شرعی دلیل کی روشنی میں یہ ظاہر نہیں ہورہا تھا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی رائے راجح ہے۔تو اب کسی کے لیے کیسے جائز ہوسکتاہے کہ وہ اس معاملہ کو ابوبکر رضی اللہ عنہ کی شان میں عیب شمار کر ے؟ ایسا وہی شخص کرسکتا ہے جو لوگوں میں سے سب سے کم علم و دین رکھتا ہو ۔


ہمارے ہاں کسی طرح بھی یہ ثابت نہیں ہو سکا کہ معاملہ کی صورتحال ایسی تھی جس کی وجہ سے خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو قتل کرنا واجب ہورہا ہوتا ۔


رافضی مصنف کا یہ کہنا کہ : انہوں نے مالک بن نویرہ کے قتل کی رات ہی اس کی بیوی سے شادی کرلی ۔


اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے ۔بالفرض اگر اسے ثابت مان بھی لیا جائے تو تاویل اس بنا پر رجم کرنے میں مانع ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ : فقہاء کرام رحمہم اللہ کا اختلاف ہے کہ فوتگی[بیوگی] کی عدت کیا ہے؟ اورکیا یہ عدت کافر کے لیے بھی ہے ؟ اس میں دو قول ہیں ۔ ایسے ہی ذمی عورت کی عدت وفات کے بارے میں اختلاف ہے۔اس میں بھی مسلمانوں کے ہاں دو قول مشہور ہیں ۔ بخلاف طلاق کی عدت کے ۔ اگر طلاق میں وطی کا سبب موجود ہو تو برأت رحم تک انتظار واجب ہے۔ جبکہ وفات کی عدت صرف عقد نکاح کرلینے سے واجب ہوجاتی ہے۔لیکن پھر اگر دخول سے پہلے شوہر مر جائے تو کیا کافر کی عدت بھی ہوگی یا نہیں ؟ اس میں اختلاف ہے۔ اور ایسے ہی اگر کافر نے دخول بھی کیا اور دخول کے بعد ایک حیض آگیا ہو (تو کیا اس پر عدت ہوگی یا نہیں ؟) ۔


یہ مسائل اس وقت ہیں جب کافر اصلی کافر ہو (یعنی مرتدنہ ہو) ۔ جب کہ مرتد اگر قتل کردیا جائے؛ یا اپنے ارتداد پر ہی مر جائے ؛ تواس صورت میں امام شافعی؛ امام احمد ؛ ابو یوسف؛ اورمحمد رحمہم اللہ کے ہاں اس پر کوئی عدت وفات نہیں ۔ بلکہ وہ اسے فُرقہء بائنہ شمار کرتے ہیں ۔ اس لیے کہ شوہر کے مرتد ہونے سے نکاح باطل ہوگیا تھا۔ یہ جدائی امام شافعی اور امام احمد رحمہما اللہ کے ہاں طلاق نہیں ہے ۔ جب کہ امام ابو حنیفہ اورامام مالک رحمہم اللہ کے ہاں طلاق ہے۔اسی وجہ سے اس پر عدت وفات کو واجب نہیں سمجھتے ۔ بلکہ اس پر دائمی جدائی کی عدت شمار کرتے ہیں ۔اور اگر اس مرتد نے عورت کے ساتھ دخول نہیں کیا تھا تو پھر اس پر کوئی عدت نہیں ہے۔ جیسا کہ اگر وہ دخول سے پہلے طلاق دے دیتا تواس پر کوئی عدت نہ ہوتی۔یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے مالک بن نویرہ کو مرتد سمجھ کر قتل کیا تھا۔ اگر مالک بن نویرہ نے اپنی بیوی سے اس سے پہلے دخول نہیں کیا تھا تو پھر تمام علماء کے نزدیک اس پر کوئی عدت نہیں تھی۔اوراگر اس کے ساتھ دخول کیا تھا تو پھر بھی بعض علماء کرام کے نزدیک اس پر ایک حیض کی عدت تھی؛ اس لیے کہ استبراء رحم واجب ہے۔ تو ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ اسے اس سے پہلے حیض آچکا ہو۔ اور بعض فقہاء کہتے ہیں کہ کچھ دن کا حیض آجانا بھی کافی ہے ۔ اس لحاظ سے اگر وہ حیض کے آخری ایام میں بھی تھی تو تب بھی برأت رحم ہوچکی تھی ۔ خلاصہ کلام ! ہم اس معاملہ کی گہرائیوں سے واقف نہیں ۔ کیا یہ ایسا معاملہ تھا کہ اس میں اجتہاد جائز ہے یا نہیں ؟ ایسی باتوں میں طعن کرنا بغیر علم کے بات کہنا ہے ۔ اور بغیر علم کے بات کہنے کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام قراردیا ہے ۔ (منہاج السنہ النبویہ جلد 5 ، 6 صفحہ 382)


خلاہ کلام : اول حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے حکم پر مالک بن نویرہ کو قتل نہیں کیا گیا ۔ آپ کے سپاہی نے اسے قتل کیا اور وہ بھی اپنی ایماء پر اور حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو اس کی خبر بدیر ملی ۔ مالک بن نویرہ پر سجاع بن حارث کی حمایت کا الزام تھا ۔ مالک بن نویر پر زکوۃ کا مال واپس کرنے کا بھی الزام تھا ۔ یہ تاریخی واقعات ہیں جو مختلف کتب میں آپس میں متصادم ہو سکتے ہیں مگر ان کی وجہ سے جید اور قابل احترام اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے باکردار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر کیچڑ اچھالنا ایک بدترین عمل اور پرلے درجے کی جہالت ہے ۔ اللہ عزوجل ایسے فتنہ باز بغضیوں اور شر پھیانے والوں کو ہدایت عطاء فرماۓ آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

مالک بن نویرہ منکرِ زکواة و منکرِ ختمِ نبوت کا تعارف

مالک بن نویرہ منکرِ زکواة و منکرِ ختمِ نبوت کا تعارف محترم قارئینِ کرام ارشادِ باری تعالیٰ ہے : يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا مَنۡ يَّرۡ...