علمائے کرام کے احترام اور توہین کے شرعی احکام
محترم قارئینِ کرام : علماءِ کرام داعیانِ حق و صداقت ، ہادیانِ راہ ہدایت ، پاسبانِ مذہب و شریعت ، مہمانانِ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، خیابانِ علم و حکمت ، رہبرانِ انسانیت ، پیشوایانِ امت ، مربیانِ علم و معرفت ، حاملینِ علومِ نبوت ، معلمینِ کتاب و حکمت ، مصلحینِ قوم و ملت ہیں ۔ اسی بناء پر رب العزت نے ان کا درجہ و مرتبہ بلند فرمایا ہے : آپ فرما دیجیے کیا علم والے اور بے علم برابر ہیں ؟ ۔ (سورہ زمر آیت نمبر 9)
مذکورہ آیتِ مبارکہ سے علم اور علماءِ کرام کی فضیلت معلوم ہوئی کہ اللہ تعالیٰ نے علم والوں کو بے علموں سے ممتاز فرمایا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے بہت ہی محکم انداز میں اس کائنات کو رچایا اور بسایا ۔ اس کائنات میں جن و انس کی خلقت فرمائی اور ان کی ہدایت و رہنمائی کےلیے نبیوں اور رسولوں علیہم السّلام کا سلسلہ جاری فرمایا ۔ رسولوں علیہم السّلام کی آمد کا یہ سلسلہ آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کے ساتھ منقطع ہوگیا تو اللہ تعالیٰ نے انبیاء کرام علیہم السّلام کے مشن کی انجام دہی کے لئے علمائے کرام کی جماعت تیار فرمائی ۔ علمائے کرام حقیقی معنوں میں سماج و معاشرہ کی اصلاح کے اولین ذمہ دار اور انسانیت کے حقیقی بہی خواہ ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے کاندھوں پر عوام کو سیدھی راہ دکھانے کی ذمہ داری رکھی ہے اور کتاب و سنت کی توضیح و تفسیر اور دعوت و ارشاد کا فریضہ عائد کیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کی زبانی یہ لوگ اللہ تعالیٰ سے حقیقی معنوں میں خوف کھاتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : انما یخشی اللہ من عبادہ العلماء ، بلکہ رب تعالیٰ نے ببانگ دہل قرآن مجید میں یہ وضاحت فرمادی ہے کہ عالم اور جاہل بہرصورت برابر نہیں ہوسکتے ۔ فرمایا : قُلْ هَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَعْلَمُوْنَ وَ الَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ ۔ (سورة الزمر آیات نمبر9)
ترجمہ : آپ فرما دیجیے کیا علم والے اور بے علم برابر ہیں ؟
احادیث مبارکہ کی ورق گردانی سے معلوم ہوتا ہے کہ علمائے کرام کا مقام و مرتبہ انتہائی بلند و بالا ہے ۔ اللہ تعالیٰ جسے علم شرعی کے حصول کی توفیق بخشتا ہے گویا اس کے حق میں خیر کا ارادہ فرماتا ہے ۔ (صحیح بخاری ؍71، صحیح مسلم؍1037،چشتی)
احادیثِ مبارکہ میں وارد ہے کہ ایک عالم جتنے انسانوں کو علم سکھاتا ہے ، وفات کے بعد بھی اس کا ثواب اسے ملتا رہتا ہے ۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جب انسان مرجاتا ہے تواس کے لئے نیکیوں کا سلسلہ بند ہوجاتا ہے ، سوائے تین اعمال کے ۔ ان میں سے ایک عمل یہ ہے کہ انسان نے اپنے پیچھے ایسا علم چھوڑا ہو جس سے لوگ فائدہ اٹھارہے ہوں ۔ (صحیح مسلم؍1631)
غرضیکہ علمائے کرام کی قدر و منزلت ، رفعت شانی اور بلند مکانی کے بیان سے کتاب و سنت کے نصوص بھرے ہوئے ہیں ۔ آج ہم اس مختصر مضمون میں علمائے کرام کے ایسے ہی چند فضائل کو ذکر کرنے کی سعادت حاصل کر رہے ہیں کیونکہ موجودہ دور میں ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہر طرف لوگ علمائے کرام کی شان میں گستاخی کے مرتکب ہو رہے ہیں اور ان کی تنقیص کر رہے ہیں ۔ یقینی طور پر اس کے ذمہ دار بہت حد تک علمائے کرام کی جماعت بھی ہے کیونکہ انہوں نے بھی اپنے وقار کو مجروح کیا ہے ، نیز لوگوں کا رشتہ بھی اپنے دین سے انتہائی کمزور ہوا ہے ، اس کی وجہ سے بھی ان کے دلوں میں علماء کی عزت کم ہوئی ہے ۔ اللہ کرے یہ چند سطور علماء کرام کی عزت و وقار کی بحالی کے سلسلے میں معاون ثابت ہوں ۔ بلاشبہ علماء کا گوشت زہر آلود ہے اور اپنے حریف کی پردہ دری سنت الہی ہے اورجو شخص علماء پر زبان طعن دراز کرے گا اللہ اس کو اس کی موت سے قبل اس کے دل کو مردہ کرکے گرفتار مصیبت کردے گا ـ اس لئے علماء پر لعن و طعن کبھی اور کسی حال میں جائز و حلال نہیں ۔
حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : علم کی فضیلت عبادت کی فضیلت سے زیادہ ہے اور تمہارے دین کی بھلائی تقویٰ و پرہیز گاری (میں ) ہے ۔ (معجم الاوسط باب العین من اسمہ علی جلد ۳ صفحہ ۹۲ حدیث نمبر ۳۹۶۰)
حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : عالم کی عابد پر فضیلت ایسی ہے جیسے چودھویں رات کے چاند کی تمام ستاروں پر فضیلت ہے ۔ (سنن ابو داؤد کتاب العلم باب الحث علی طلب العلم جلد ۳ صفحہ ۴۴۴ حدیث نمبر ۳۶۴۱،چشتی)
حضرت ابو امامہ باہلی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں دو آدمیوں کا ذکر کیا گیا ، ان میں سے ایک عالِم تھا اور دوسرا عبادت گزار ، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : عالم کی فضیلت عبادت گزار پر ایسی ہے جیسے میری فضیلت تمہارے ادنیٰ پر ہے ، پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اللہ تعالیٰ ، اس کے فرشتے ، آسمانوں اور زمین کی مخلوق حتّٰی کہ چیونٹیاں اپنے سوراخوں میں اور مچھلیاں لوگوں کو (دین کا) علم سکھانے والے پر درود بھیجتے ہیں ۔ (سنن ترمذی کتاب العلم باب ما جاء فی فضل الفقہ علی العبادۃ جلد ۴ صفحہ ۳۱۳ حدیث نمبر ۲۶۹۴)
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : (قیامت کے دن) عالم اور عبادت گزار کو لایا جائے گا اور عبادت گزار سے کہا جائے گا ’’ تم جنت میں داخل ہو جاؤ جبکہ عالم سے کہا جائے گا کہ تم ٹھہرو اور لوگوں کی شفاعت کرو کیونکہ تم نے ان کے اَخلاق کو سنوارا ہے ۔ (شعب الایمان السابع عشر من شعب الایمان ۔۔۔ الخ فصل فی فضل العلم وشرفہ جلد ۲ صفحہ ۲۶۸ حدیث نمبر ۱۷۱۷،چشتی)
ایک ساعت علم حاصل کرنا ساری رات قیام کرنے سے بہتر ہے ۔ (مسند الفردوس، باب الطائ، ۲/۴۴۱، الحدیث: ۳۹۱۷)
علم عبادت سے افضل ہے ۔ (کنز العمال، حرف العین، کتاب العلم، قسم الاقوال، الباب الاول، ۵/۵۸، الجزء العاشر، الحدیث: ۲۸۶۵۳)
علم اسلام کی حیات اور دین کا ستون ہے ۔ (کنز العمال، حرف العین، کتاب العلم، قسم الاقوال، الباب الاول، ۵/۵۸، الجزء العاشر، الحدیث: ۲۸۶۵۷)
علماء زمین کے چراغ اور انبیاء ِکرام عَلَیْہِ مُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے وارث ہیں ۔ (کنز العمال، حرف العین، کتاب العلم، قسم الاقوال، الباب الاول، ۵/۵۹، الجزء العاشر، الحدیث: ۲۸۶۷۳)
مرنے کے بعد بھی بندے کو علم سے نفع پہنچتا رہتا ہے ۔ ( مسلم، ص۸۸۶، الحدیث : ۱۴(۱۶۳۱))
ایک فقیہ شیطان پر ہزار عابدوں سے زیادہ بھاری ہے ۔ ( ترمذی، کتاب العلم، باب ما جاء فی فضل الفقہ علی العبادۃ، ۴/۳۱۱، الحدیث: ۲۶۹۰،چشتی)
علم کی مجالس جنت کے باغات ہیں ۔ ( معجم الکبیر، مجاہد عن ابن عباس، ۱۱/۷۸، الحدیث: ۱۱۱۵۸)
علم کی طلب میں کسی راستے پر چلنے والے کے لئے اللّٰہ تعالیٰ جنت کا راستہ آسان کر دیتا ہے ۔ ( ترمذی، کتاب العلم، باب فضل طلب العلم، ۴/۲۹۴، الحدیث: ۲۶۵۵)
قیامت کے دن علماء کی سیاہی اور شہداء کے خون کا وز ن کیا جائے گا تو ان کی سیاہی شہداء کے خون پر غالب آجائے گی ۔ (کنز العمال، حرف العین، کتاب العلم، قسم الاقوال، الباب الاول، ۵/۶۱، الجزء العاشر، الحدیث: ۲۸۷۱۱)
عالِم کےلیے ہر چیز مغفرت طلب کرتی ہے حتّٰی کہ سمندر میں مچھلیاں بھی مغفرت کی دعا کرتی ہیں ۔ (کنز العمال، حرف العین، کتاب العلم، قسم الاقوال، الباب الاول، ۵/۶۳، الجزء العاشر، الحدیث: ۲۸۷۳۵،چشتی)
علماء کی صحبت میں بیٹھنا عبادت ہے ۔ (مسند الفردوس، باب المیم، ۴/۱۵۶، الحدیث: ۶۴۸۶)
علماء کی تعظیم کرو کیونکہ وہ انبیاءِ کرام علیہم السلام کے وارث ہیں ۔ (ابن عساکر، عبد الملک بن محمد بن یونس بن الفتح ابو قعیل السمر قندی ، ۳۷/۱۰۴)
اہلِ جنت ، جنت میں علماء کے محتاج ہوں گے ۔ ( ابن عساکر، محمد بن احمد بن سہل بن عقیل ابوبکر البغدادی الاصباغی، ۵۱/۵۰)
علماء آسمان میں ستاروں کی مثل ہیں جن کے ذریعے خشکی اور تری کے اندھیروں میں راہ پائی جاتی ہے ۔ (کنز العمال، حرف العین، کتاب العلم، قسم الاقوال، الباب الاول، ۵/۶۵، الجزء العاشر، الحدیث: ۲۸۷۶۵)
قیامت کے دن انبیاء ِکرام علیہم السلام کے بعد علماء شفاعت کریں گے ۔ (کنز العمال، حرف العین، کتاب العلم، قسم الاقوال، الباب الاول، ۵/۶۵، الجزء العاشر، الحدیث: ۲۸۷۶۶)
کیا علماء کا قوم کےلیے ہونا ضروری ہے یا نہیں ؟ اگر نہیں ہے تو اس کا قائل ہونا پڑے گا کہ پھر اسلام کی بھی ضرورت نہیں کیونکہ بدوں علماء کے اسلام قائم نہیں رہ سکتا کیونکہ کوئی پیشہ بدون اس کے ماہرین کے چل نہیں سکتا ۔ یہ اور بات کہ تھوڑی بہت دینی معلومات سب کو ہوجائیں اور اس سے وہ محدود وقت تک کچھ ضرورت رفع کریں مگر اس سے اس مقدار ضرورت کا بقا نہیں ہوسکتا ۔
بقاء کسی شے کا ہمیشہ اس کے ماہرین سے ہوتا ہے تو ماہرین علماء کی ضرورت ٹھہری ۔ پھر یہ ماہرین کیسے پیدا ہوں ؟ سو تجربہ سے اس کی صرف یہی صورت ہے کہ ساری قوم پر واجب ہے کہ چندہ سے کچھ سرمایہ جمع کرکے علماء کی خدمت کرکے آئندہ نسل کو علوم دینیہ پڑھائیں اور برابر یہی سلسلہ جاری رکھیں ۔
سو عقلا تو یہ بات واجب تھی کہ ساری قوم اس کی کفیل ہوتی مگر ایک طالب علم بیچارہ آپ ہی ہر مصیبت جھیل کے تحصیل علوم دینیہ میں مشغول ہوا تو چاہئے تو یہ تھا کہ آپ اس کی قدر کرتے بجائے اس کے رہزنی کرتے ہیں کہ عربی پڑھوگے تو کھاؤ گے کیا ؟ کیا مسجد کے مینڈھے بنو گے ؟ ہاں صاحب دنیا کا کتا بننے سے اچھا ہے ۔ تاریخ اس امر کی شہادت دے رہی ہے کہ مسلمانوں کی دنیا دین کے ساتھ درست ہوتی ہے ۔ یعنی جب ان کے دین میں ترقی ہوتی ہے تو دنیا میں بھی ترقی ہوتی اور جب دین میں کوتاہی ہوتی ہے تو دنیا بھی خراب ہوجاتی ہے تو جب ہم دین سکھلاتے ہیں معاملات معاشرت اخلاق کو درست کرتے ہیں تو گویا ہم دنیا کی ترقی کی تدابیر بھی کرتے ہیں ۔
علماء کرام کی قدر و منزلت کا اندازہ لگانا ہے تو آپ سیر و مغازی اور تاریخ کی کتابیں پڑھیں ۔ آپ کو معلوم ہوجائے گا کہ ہر دور میں علماء کو کس قدر عزت و تکریم حاصل ہوئی، نیز امراء و خلفاء نے عالموں کو دیگر افراد پر فوقیت بخشی ۔چنانچہ عبدالرحمن بن ابزی کو دیکھیں کہ حضرت فاروق اعظم عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے انہیں اہل وادی کا گورنر متعین کیا تھا حالانکہ وہ ایک غلام تھے اور جب اس بارے میں ان سے سوال ہوا تو انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ اس مقدس کتاب کے ذریعہ بہت سارے لوگوں کو سربلندی عطا کرتا ہے ۔ (صحیح مسلم؍817)
ایک بار کا واقعہ ہے کہ زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے جنازے میں شرکت کی اور اس کے بعد اپنے خچر پر سوار ہونا چاہا تو عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے ان کی سواری کا رکاب تھام لیا جسے دیکھ کر زید بن ثابت رضی اللہ عنہ گویا ہوئے : رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بھتیجے ! یہ کیا کررہے ہو؟ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے عرض کیا : ہمیں علماء کے ساتھ ایسے ہی پیش آنے کا حکم دیا گیا ہے ۔ اس کے بعد زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے ہاتھ کا بوسہ لیا اور کہا کہ ہمیں بھی اہل بیت کے ساتھ اسی عزت کا حکم دیا گیا ہے ۔ (مدارج السالکین لابن قیم الجوزیۃ2؍330،چشتی)
علماء کا مقام امت میں نائبین انبیاء علیہم السّلام کا ہے ۔ علماء انبیاء علیہم السّلام کے وارث ہیں یہ وراثت علمی ہ ے۔ ہمارے معاشرے کا ایک بہت بڑا طبقہ علماء کی شان میں گستاخی کرنا اپنا مقصد سمجھتا ہے ۔ کچھ طبقات جان بوجھ کر اور سمجھ رکھتے ہوئے یہ لعن و طعن کرتے ہیں ۔ جبکہ کچھ لوگ انجانے میں اور نا سمجھی کی وجہ سے ایسا کرتے ہیں۔ علماء اور صلحاء کی شان میں گستاخی کرنا ، ان کی اہانت کرنا ، ان کا مذاق اڑانا اور تحقیر کرنا یہ سب انتہائی نقصان کا باعث ہے ان باتوں سے ایمان جانے کا خطرہ ہے ۔ غیر سیاسی علماء کے تو اکثر لوگ معتقد ہوتے ہیں ان کی تعریفیں کرتے ہیں لیکن سیاسی علماء جو سیاست میں حصہ لیتے ہیں ان کے بارے میں بیباک لہجہ اپنانا ہمارا شیوہ بن چکا ہے کیونکہ ان کی رائے ہماری رائے سے مختلف ہوتی ہے یا کچھ جماعتوں کی یہ خصلت و جبلت ہے کہ ان جماعتوں میں کام کرنے والوں کا ذہن ہی بغض علماء پر بنایا جاتا ہے ان کی مجلسوں اور محفلوں میں سوائے علماء کی غیبت کے باقی کچھ نہیں ملتا ۔
ایک مسلمان کےلیے یہ باتیں تعجب خیز ہیں اور ہلاکت کا سبب ہیں ۔ سوشل میڈیا پر یہ وبا عام ہے اپنے سوچ اور نظریہ سے متصادم اگر کوئی عالم ہو تو عوام اس کی عزت افزائی اس انداز میں کرتی ہے کہ سر شرم سے جھک جاتا ہے ۔ بلکہ بعض تو اس حد تک چلے جاتے ہیں کہ سنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ( داڑھی) کا مذاق اڑانے سے بھی گریز نہیں کرتے ۔ علماء کی توہین اور بدنامی کے لیے مختلف بے دین دانشوروں کے اقوال اور شاعروں کے اشعاربڑے فخر سے پیش کیے جاتے ہیں ۔
ان سب باتوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اور لوگوں کی رہنمائی کےلیے فقیر ڈاکٹر فیض احمد چشتی نے اس مضمون میں چند احادیث جمع کی ہیں جو اوپر آپ نے پڑھی ہیں ۔ ان کی روشنی میں ہم اپنی اصلاح کر سکتے ہیں ۔ بھٹکے ہوؤں کو راستہ مل سکتا ہے ، پھسلے ہوئے سنبھل سکتے ہیں ، راہ سے ہٹے ہوئے راہ پا سکتے ہیں ۔ ایک مسلمان کےلیے قرآن و احادیث سے بڑی رہنمائی کسی اور کتاب میں نہیں ۔ لہٰذا ہمیں ان احادیثِ مبارکہ کی روشنی میں اپنی سمت بدلنی چاہیے اور گزشتہ گناہوں پر توبہ کر کے آئندہ احتیاط سے چلنا چاہیے ۔ اختلاف ضرور رکھیں لیکن تحقیر نہ کریں ، کم نظر سے نہ دیکھیں ، اور علماء سے محبت کرنے والے بن جائیں ۔
حضرت خواجہ حسن بصری علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : الفتنةُ إذا أقبلت عرفها كل عالم ، وإذا أدبرت عرفها كل جاهل ’’ فتنہ جب سر اٹھاتا ہے تو ہر عالم اسے پہچان لیتا ہے ، اور جب چلا جاتا ہے تو جاہل کو پتہ چلتا ہے کہ یہ فتنہ تھا ۔ (التاریخ الکبیر بخاری جلد ۴ صف ۳۲۲)(طبقات ابن سعد جد ۹ صفحہ ۱۶۶)
علماءِ کرام کا مذاق اڑانا اور ان پر طعن و تشنیع کوئی نئی بات نہیں ، صدیوں سے یہ کھیل کھیلا جا رہا ہے ، البتہ دورِ حاضر میں خصوصاً سوشل میڈیا کے ذریعہ اس کا احاطہ عمل وسیع ہو گیا ہے ، چنانچہ اس کے اثرات پہلے سے کہیں زیادہ محسوس کیے جاتے ہیں ، لہٰذا علماء کو تمسخرانہ انداز میں ملّا اور جاہل مولوی وغیرہ جیسے القاب سے پکارا جاتا ہے ، حالانکہ علماءِ کرام کی توہین و تحقیر پر سخت وعیدیں وارد ہیں ، چنانچہ علماء سے دشمنی اللہ سے جنگ ہے ، حدیثِ قدسی میں فرمانِ الہٰی ہے : جس نے میرے کسی ولی سے دشمنی کی اسے میری طرف سے اعلانِ جنگ ہے ۔ (صحیح بخاری حدیث نمبر ۶۵۰۲،چشتی)
اس کی تشریح میں حافظ ابن حجر علیہ الرحمہ لکھتے ہیں : اللہ کے ولی سے مراد عالم باللہ (جو اللہ کی معرفت رکھتا ہو) ہے ، جو اس کی اطاعت میں ہمیشگی اور دوام برتتا ہے اور اس کی عبادت میں مخلص ہے ۔ (فتح الباری جلد ۱۱ صفحہ ۳۴۲)
اکابرینِ امت نے علماء کی توہین و تحقیر اور ان پر طعن و تشنیع سے ڈرایا ہے امام طحاوی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : سابقین علماء سلف اور ان کے بعد تابعین اہل خیر اور علم و فقہ والے ہیں ، علماء کا صرف ذکرِ جمیل کیا جائے گا اور جو ان کا ذکر برے طریقہ سے کرتا ہے وہ راہِ راست سے بھٹکا ہوا ہے ۔ (شرح العقیدہ الطحاویہ بتحقیق الارنؤوط صفحہ ۷۴۰)
حضرت امام ابن مبارک علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : من استخف بالعلماء ذهبت آخرته، ومن استخف بالأمراء ذهبت دنياه، ومن استخف بالإخوان ذهبت مروء ته ‘‘ جس نے علماء کی توہین کی اس کی آخرت برباد ہو گئی اور جس نے امراء کی اہانت کی اس کی دنیا چلی گئی اور جس نے بھائیوں کی ناقدری کی اس کی مروء ت ختم ہو گئی ۔ (سیر اعلام النبلاء للذھبی جلد ۸ صفحہ ۴۰۸)
امام احمد بن اذرعی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : الوقيعة في أهل العلم ولا سيما أكابرهم من كبائر الذنوب ‘‘ اہلِ علم کی مذمت و توہین خاص طور سے ان کے اکابر کی ، کبیرہ گناہوں میں سے ہے ۔ (الرد الوافر لابن ناصر الدین الدمشقی صفحہ ۲۸۳)
عالم کی توہین کی تین صورتیں اور ان کے بارے میں شرعی حکم بیان کرتے ہوئے امام اہلسنت امام احمد رضا خان قادری علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : (1) اگر عالمِ (دین) کو اس لیے بُرا کہتا ہے کہ وہ عالم ہے جب تو صریح کافر ہے ۔ (2) اور بوجہِ علم اس کی تعظیم فرض جانتا ہے مگر اپنی کسی دُنْیَوی خُصومت (دشمنی) کے باعث برا کہتا ہے گالی دیتا (ہے اور) تحقیر کرتا ہے تو سخت فاجر ہے ۔ (3) اور اگر بے سبب (بلا وجہ) رنج (بغض) رکھتا ہے تو مَرِیْضُ الْقَلْب وَخَبِیْثُ الْبَاطِن (دل کا مریض اور ناپاک باطن والا ہے) اور اس (خواہ مخواہ بغض رکھنے والے) کے کفر کا اندیشہ ہے ۔ خلاصہ (کتاب) میں ہے : مَنْ اَبْغَضَ عَالِماً مِنْ غَیْرِ سَبَبٍ ظَاھِرٍخِیْفَ عَلَیْهِ الْکُفْر ۔
ترجمہ : جو بلا کسی ظاہری وجہ کے عالمِ دین سے بغض رکھے اس پر کفر کا خوف ہے ۔ (خلاصۃ الفتاویٰ جلد 4 صفحہ 388 مطبوعہ مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ،چشتی)(فتاویٰ رضویہ، جلد 21 صفحہ 129 مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاہور)
یہاں پر بین الطرفین اہلسنت عوام کو عبرت حاصل کرنی چاہیے کہ کوئی کسی سنی عالمِ دین پر اعتراضات و بکواسات کر رہا ہے تو کوئی کسی کے خلاف باتیں کر رہا ہے بہر کیف ان لوگوں کو سوچ لینا چاہیے کہ اگر علمِ دین کی توہین کہ نیت سے کچھ کہا تو کافر ہو جائے گا ۔ اگر علمِ دین کی توہین تو مقصود نہیں مگر تحریکی اختلاف کی بنا پر برا کہتا ہے گالی دیتا ہے تحقیر کرتا ہے تو بھی فاسق و فاجر ہے ۔ اگر بلا وجہ بُغض رکھتا ہے تو ایمان کی خیر منائے کہ فقھاء نے لکھا کہ صحیح العقیدہ عالمِ دین سے بغض رکھنے والے کا کفر پر خاتمے کا اندیشہ ہے ۔
امام اہلسنت امام احمد رضا خان قادری علیہ الرحمہ عُلَمائے دین کی توہین کرنے سے متعلق مزید فرماتے ہیں کہ علماء کی توہین سخت حرام ، سخت گُناہ ، اَشَدّ کبیرہ ۔ عالمِ دین سُنّی صحیح العقیدہ کہ لوگوں کو حق کی طرف بلائے اور حق بات بتائے محمّد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نائِب ہے۔ اس کی تحقیر (توہین) مَعَاذَ اللہ محمّد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی توہین ہے اور محمّد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جناب میں گستاخی مُوجِبِ لعنتِ الٰہی و عذابِ الیم ہے ۔ (فتاویٰ رضویہ جلد 23 صفحہ 649 مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاہور،چشتی)
علم اللہ عزوجل کی صفت ہے اور اللہ عزوجل اپنی اس صفت سے اپنے پسندیدہ بندوں کو ہی نوازتا ہے ، تاکہ وہ نائبِین رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بن کر لوگوں کو راہِ شریعت بتلائیں ، اور کسی سبب یا عداوت کے بغیر کسی عالمِ دین یا حافظِ قرآن کی اہانت درحقیقت علمِ دین کی اہانت ہے ، اور علمِ دین کی اہانت کو کفر قرار دیا گیا ہے ، اور اگر کوئی شخص کسی دنیاوی دشمنی یا بغض کی وجہ سے عالمِ دین کو برا بھلا کہتا ہےتو یہ گناہ گار ہے ۔ عالمِ دین کی اہانت سے سلبِ ایمان کا اندیشہ ہے ، لہذا اس سے مکمل اجتناب ضروری ہے ۔ ماخوذ : (لسان الحكام صفحہ 415 )(البحر الرائق شرح كنز الدقائق جلد 5 صفحہ 134،چشتی)(مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر جلد 1 صفحہ 695 )
اللہ ان لوگوں کو ہدایت دے جو علماءِ کرام کے بارے بکواسات کرتے ہیں ۔ غور سے پڑھیں کہ امام اہلسنت امام احمد رضا خان قادری علیہ الرحمہ نے فرمایا کہ صحیح العقیدہ سنی عالم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نائب ہے اور اس کی توہین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی توہین و گستاخی ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی توہین کرنے والا لعنتی ہے ۔ تو خدا را : باہم صحیح العقیدہ سنی علماء کے خلاف بولنے سے گریز کیجیے ۔ بالفرض آپ علمِ دین کی توہین کی نیت سے کچھ نہیں کہتے بلکہ تنظیمی و تحریکی اختلافات کی بنا پر تحقیر کرتے ہیں تو بھی ناجائز و گناہ ہے ۔
صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ : عوام کو علماء سے بدظن کرنا بہت سخت گناہ ہے کہ جب بدظن ہونگے (تو) اُن (یعنی علما) سے بیزار ہونگے اور ہلاکت میں پڑیں گے ۔ (فتاویٰ امجدیہ جلد 4 صفحہ 515 مطبوعہ مکتبہ رضویہ کراچی)
اگر آپ کی وجہ سے کوئی صحیح العقیدہ سنی عالم سے بدظن ہو گیا تو دنیا و آخرت میں ہلاکت ہی ہلاکت ہو گی ۔ اللہ تعالیٰ ہمارے ایمان کی حفاظت فرمائے اور ہمیں صدا بے ادبی سے محفوظ رکھے آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment