رافضی فرقہ کے بانی عبد اللہ بن سباء یہودی کے مختصر حالات
عبد اللہ بن سبا یہودی یمن کے دار الحکومت صنعاء کا رہنے والا تھا ، والدہ کا نام جشن تھا ، اس کا باپ سازش، منصوبہ بندی اور پروپیگندہ میں اپنی مثال آپ تھا ، یہ ابتداء میں یمن میں تھا، مگر بعد میں مدینہ منورہ آگیا اور پھر اس نے سیاسی اور مذہبی دونوں طرح سے اسلام کو کمزور کرنے کی کوشش کی ۔
اس سلسلہ میں صاحبِ کشف الحقائق فرماتے ہیں : سیاسی محاذ اس طرح قائم کیا کہ مصر کے امیر، امیر حسین حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور ان کے عاملین کے خلاف جھوٹا اور بے بنیاد پروپیگنڈہ کرکے عوام کے دلوں میں ان کے خلاف نفرت و عدایت کے جذبات اس طرح مشتعل کئے کہ انہیں معزول کردیا گیا، نظامِ حکومت مملکت کے اس اضمحلال کے بعد اسلامی سلطنت کمزور ہوتی گئی، مسلمانوں میں باہمی انتشار و تفرقہ پیدا ہوگیا، مذہبی محاذ اس طرح قائم کیا کہ سیدھے سیدھے دین فطرت کے صاف اور واضح عقیدوں میں تبدیلی کی جائے ، توحید اور رسالت پر حملہ کیا جائے ، اسلام کے بنیادی حقائق کو مسخ کرکے عوام کو گمراہ کیا جائے ، اس طرح مسلمانوں کی وحدت پارہ پارہ کی جائے اور ان میں اعتقادی تفرقہ ڈال کر فرقہ بندی کا بیج بویا جائے تاکہ یہ علیحدہ علیحدہ فرقوں اور گروہوں میں بٹ جائیں ۔ (کشف الحقائق:۲۷)
اس طرح عبد اللہ بن سباء نے یہ کام بصرہ میں شروع کیا ، پھر کوفہ میں اور پھر مصر میں یہ کام شروع کیا ۔ (طبری ابن جریر:۳/۳۷۸،چشتی)
آہستہ آہستہ یہ پھیلتے چلے گئے اور پھر یہ ایک فرقہ بن کر روئے زمین پر ابھرا ، اس کی سوچ انقلابی تھی ، جس کی وجہ سے اس کوئی بار کوفہ، دمشق میں جلا وطنی کے دن گذارنے پڑے ، آخر میں اس نے مصر میں سکونت اختیار کی ، وہاں سے اس نے اسلام کے خلاف نظریاتی جنگ شروع کردی اور اس نے اعلان کیا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم بھی واپس آئیں گے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے وصی تھے ، جن سے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے خلافت چھین لی تھی ، اب انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ ان کی حکومت کا تختہ الٹ دیا جائے ، نیز ابن سباء نے ہی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو شہید کرنے کے لئے اہل مصر کو آمادہ کیا تھا ۔
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے ابتدائی دورِ خلافت تک تمام امت متحد و متفق تھی، پھر آہستہ آہستہ انتشار آنا شروع ہوا، اس انتشار پھیلانے والوں سے ایک یہودی عالم عبد اللہ بن سباء بھی تھا، اس نے ابتداء میں یہ کہنا شروع کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم دوبارہ دنیا میں تشریف لائیں گے ، مگر حجاز، شام اور عراق والوں نے بالکل اس کی بات کو نہ مانا، اس کے بعد وہ شخص مصر چلا گیا، وہاں اس نے یہ باتیں کہنا شروع کیں اور ساتھ ساتھ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں غلو اور مبالغہ کرنا شروع کردیا اور اس نے یہی بات لوگوں کے ذہن میں ڈالی کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ خلافت کے مستحق تھے ، مگر ان کو یہ حق نہیں دیا گیا، پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے خلاف مختلف شکایات شروع کردیں ، یہاں تک کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی مظلومانہ شہادت ہوگئی اور پھر اسی انتشار میں جنگ جمل اور جنگ صفیں ہوئی اور ہزاروں مسلمان شہید ہوئے اور آخر میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بھی شہید کردیا گیا ۔
یہودی عبد اللہ بن سبا کی شروع کردہ تحریک میں ایک طرف حضرت علی رضی اللہ عنہ کی محبت میں مبالغہ اور دوری طرف حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے بغض اور ساتھ ساتھ یہ نظریہ کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بعد ان کی اولاد خلافت کی مستحق ہے ۔
کتاب الملل و النحل میں امام شہرستانی لکھتے ہیں کہ ابن سباء اور اس کی جماعت نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو خدا کہنا شروع کیا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس کو مدائن میں قید کردیا اور اس نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد کہنا شروع کیا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ شہید نہیں ہوئے بلکہ وہ تو نورِ الٰہی کا حصہ تھے ، وہ تو بادلوں میں زندگی گذار رہے ہیں ۔
بادلوں کی گرج یہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی امارت ہے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی چمک ان کا کوڑا ہے ، وہ جب زمین میں دوبارہ آئیں گے تو دنیا کے مظالم کا خاتمہ کرکے عدل و انصاف کا بول بالا کریں گے ۔ (الملل و النحل:۱/۲۰۴،چشتی)
وفات : حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت کے بعد اس کا انتقال ہوا ۔
فرقۂ شیعہ کے نظریات و عقائد
اہل سنت و جماعت کا فرقہ شیعہ سے اختلاف تو بہت سی چیزوں میں ہے ، مگر چند اختلاف بنیادی ہیں :
(1) قرآن مجید کو اصل نہ ماننا۔
(2) امامت کا درجہ نبوت سے بڑھ کر ہے۔
(3) نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد چار صحابہ رضی اللہ عنہم کے سواء (معاذ اللہ) سب مرتد ہوگئے تھے ۔
(4) کلمہ طیبہ میں تبدیلی ۔
(5) متعہ (زنا) جائز ہے بلکہ باعثِ اجر و ثواب ہے ۔
(6) عقیدۂ رجعت پر ایمانا لانا بھی واجب ہے ۔
نوٹ : اس کے علاوہ اور بھی کئی عقائد اور نظریات میں فرقہ شیعہ کا اہل سنت و جماعت سے اختلاف ہے ، مگر بنیادی نظریات و عقائد ہی ہیں جو اوپر گذرے ۔
شیعہ( روافض) کے بارے میں اہلِ فتاویٰ کی رائے
حضرت علی رضی اللہ عنہ کا فتویٰ : اگر میں اپنے شیعوں کو جانچوں تو یہ زبانی دعویٰ کرنے والے ہیں اور باتیں بنانے والے نکلیں گے ، اور ان کا امتحان لوں تو یہ سب مرتد نکلیں گے ۔ (ارضہ کلینی:۱۰۷۔ بحوالہ احسن الفتاویٰ:۱/۸۴،چشتی)
حضرت امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کا فتویٰ : لیغیظ بھم الکفار کے تحت فرماتے ہیں کہ رافضیوں کے کفر کی قرآنی دلیل یہ ہے کہ یہ صحابہ رضی اللہ عنہم کو دیکھ کر جلتے ہیں، اس لئے کافر ہیں ۔ (الاعتصام:۲/۱۲۶۱۔ روح المعانی:پارہ۲۶،چشتی)
حضرت قاضی عیاض مالکی رحمۃ اللہ علیہ کا فتویٰ : ’’کتاب الشفاء میں قاضی عیاض فرماتے ہیں : جو شخص ایسی بات کرے کہ جس سے امت گمراہ قرار پائے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تکفیر ہو ، ہم اسے قطعیت کے ساتھ کافر کہتے ہیں ، اسی طرح جو قرآن میں تبدیلی یا زیادتی کا اقرار کرے ۔ (کتاب الشفاء:۲/۲۸۶،۸۲۱ وغیرہ)
حضرت غوث الاعظم شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کا فتویٰ : غنیۃ الطالبین منسوب شیخ عبد القادر جیلانی میں حضرت غوث الاعظم شیخ عبد القادر جیلانی فرماتے ہیں کہ : شیعوں کے تمام گروہ اس بات پر اتفاق رکھتے ہیں کہ امام کا تعین اللہ تعالیٰ کے واضح حکم سے ہوتا ہے ، وہ معصوم ہوتا ہے ، حضرت علی رضی اللہ عنہ تمام صحابہ رضی اللہ عنہم سے افضل ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے بردہ فرمانے کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ کو امام ماننے کی وجہ سے چند ایک کے سوا تمام صحابہ رضی اللہ عنہم مرتد ہوگئے ۔ (غنیۃ الطالبین:۱۵۶۔۱۶۲،چشتی)
حضرت امام فخر الدین رازی رحمۃ اللہ علیہ کا فتویٰ : تفسیر کبیر میں فرماتے ہیں : رافضیوں کی طر ف سے قرآن مجید کی تحریف کادعویٰ اسلام کو باطل کردیتا ہے ۔
(تفسیر کبیر:۱۱۸،چشتی)
علامہ کمال الدین ابن عصام رحمۃ اللہ علیہ کا فتویٰ : فتح القدیر میں علامہ کمال الدین فرماتے ہیں : اگر رافضی ابوبکر صدیق و عمر رضی اللہ عنہما کی خلافت کا منکر ہے تو وہ کافر ہے ۔ (فتح القدیر، باب الامامت:۸،چشتی)
علامہ ابن تیمیہ کا فتویٰ : الصارم المسلول میں فرماتے ہیں کہ : ’’اگر کوئی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی شان میں گستاخی کو جائز سمجھ کر کرے تو وہ کافر ہے ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی شان میں گستاخی کرنے والا سزائے موت کا مستحق ہے ، جو صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی شان میں گالی دے تو وہ کافر ہے ، رافضی کا ذبیحہ حرام ہے ، حالانکہ اہل کتاب کا ذبیحہ حلال ہے ، روافض کا ذبیحہ کھانا اس لئے جائز نہیں کہ شرعی حکم کے لحاظ سے یہ مرتد ہیں ۔ (الصارم المسلول:۵۷۵،چشتی)
صاحبِ فتاویٰ بزازیہ کا فتویٰ : ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کی خلافت کا منکر کافر ہے ۔ حضرت علی ، طلحہ، زبیر اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہم کو کافر کہنے والے کو کافر کہنا واجب ہے ۔ (فتاویٰ بزازیہ:۳/۳۱۸،چشتی)
امام ملا علی قاری حنفی رحمۃ اللہ علیہ کا فتویٰ : شرح فقہ اکبر میں فرماتے ہیں : جو شخص ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کی خلافت کا انکار کرے تو وہ کافر ہے ، کیونکہ ان دونوں کی خلافت پر تو صحابہ رضی اللہ عنہم کا اجماع ہے ۔ (شرح فقہ اکبر:۱۹۸)
حضرت مجدِّد الف ثانی شیخ احمد سرہندی رحمۃ اللہ علیہ کا فتویٰ : مختلف مکتوبات میں روافض کو کافر فرماتے ہیں ، ایک رسالہ مستقل ان پر لکھا ہے جس کا نام رد روافض ہے ، اس میں تحریر فرماتے ہیں : اس میں شک نہیں کہ ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما صحابہ رضی اللہ عنہم میں سب سے افضل ہیں ، پس یہ بات ظاہر ہے کہ ان کو کافر کہنا ان کی کمی بیان کرنا کفر و زندیقیت اور گمراہی کا باعث ہے ۔ (ردّ روافض:۳۱،چشتی)
اللہ تعالیٰ ہم سب مسلمانوں کو یہودیوں کے پھیلائے اس فتنہ روافض کے شر سے بچائے آمین بجاہ نبی الکریم الامین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment