Friday, 5 December 2014
گستاخ رسولﷺکی سزا سر تن سے جُدا اور ھماری سرعی ذمے داریاں
گستاخ رسولﷺکی سزا سر تن سے جُدا اور ھماری سرعی ذمے داریاں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترتیب و پیشکش:۔ڈاکٹر فیض احمد چشتیّبرائے کرم کھیں غلطی پائیں تو ضرور اعلاع فرمائیں تاکہ اصلاح کی جا سکے جزاک اللہ خیرا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمد للہ الکافی لمستھزئین والصلاۃ والسلام علی خیر الخلق و اشرف المرسلین ۔۔۔۔ اما بعد
اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا فرمان ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا بِطَانَةً مِنْ دُونِكُمْ لَا يَأْلُونَكُمْ خَبَالًا وَدُّوا مَا عَنِتُّمْ قَدْ بَدَتِ الْبَغْضَاءُ مِنْ أَفْوَاهِهِمْ وَمَا تُخْفِي صُدُورُهُمْ أَكْبَرُ قَدْ بَيَّنَّا لَكُمُ الْآَيَاتِ إِنْ كُنْتُمْ تَعْقِلُونَ (11 هَا أَنْتُمْ أُولَاءِ تُحِبُّونَهُمْ وَلَا يُحِبُّونَكُمْ وَتُؤْمِنُونَ بِالْكِتَابِ كُلِّهِ وَإِذَا لَقُوكُمْ قَالُوا آَمَنَّا وَإِذَا خَلَوْا عَضُّوا عَلَيْكُمُ الْأَنَامِلَ مِنَ الْغَيْظِ قُلْ مُوتُوا بِغَيْظِكُمْ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ (119)
ترجمہ: اے ایمان والو! اپنے سے باہر کے کسی شخص (دوسرے ادیان والوں اور منافقوں) کو رازدار نہ بناؤ ، یہ لوگ تمہاری بدخواہی میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے۔ ان کی دلی خواہش یہ ہے کہ تم تکلیف اٹھاؤ، بغض ان کے منہ سے ظاہر ہوچکا ہے اور جو کچھ (دشمنی) ان کے سینے چھپائے ہوئے ہیں، وہ کہیں زیادہ ہے۔ ہم نے پتے کی باتیں تمہیں کھول کھول کر بتا دی ہیں، بشرطیکہ تم سمجھ سے کام لو ۔ دیکھو! تم تو ایسے ہو کہ ان سے محبت رکھتے ہو مگر وہ تم سے محبت نہیں رکھتے، اور تم تو تمام (آسمانی) کتابوں پر ایمان رکھتے ہو، اور (ان کا حال یہ ہے کہ) وہ جب تم سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم (قرآن پر) ایمان لے آئے، اور جب تنہائی میں جاتے ہیں تو تمہارے خلاف غصے کے مارے اپنی انگلیاں چباتے ہیں۔ (ان سے) کہہ دو کہ "اپنے غصے میں خود مر رہو۔ اللہ سینوں میں چھپی ہوئی باتیں خوب جانتا ہے" (آل عمران:118،119)
بے شک سمجھ سے کام لینے والوں کیلئے یہود و نصاریٰ کی اسلام و مسلم دشمنی کا اندازہ بے شمار دیگر باتوں کے علاوہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ ان میں سے بعض بد بخت ترین وقتاً فوقتاً ہر سچے مومن کے محبوب حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے قولی، فعلی اور عملی استہزاء کا نشانہ بناتے ہیں اور کبھی کوئی دریدہ دہن اور ملعون اٹھ کر قرآن مجید کو اپنے دلی غصے اور بغض کے اظہار کیلئے نشانہ بناتا ہے۔ یہ بات بلا شک و شبہ ثابت ہے کہ یومِ محشر ہم ضرور بالضرور انہیں بد ترین ذلت و رسوائی اور عذاب میں مبتلا دیکھ کر اپنی آنکھیں ٹھنڈی کریں گے اور دنیا میں بھی ایسے لوگوں، گروہوں پر اللہ کے قہر و غضب کے واقعات کچھ کم نہیں ہیں۔ نہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرنے والوں سے بدلہ لینے سے عاجز ہیں۔ بلکہ قرآنِ کریم میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ان الفاظ میں اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دی ہے کہ:
إِنَّا كَفَيْنَاكَ الْمُسْتَهْزِئِينَ
ترجمہ: یقین رکھو کہ ہم تمہاری طرف سے ان لوگوں سے نمٹنے کیلئے کافی ہیں جو (تمہارا) مذاق اڑاتے ہیں۔ (الحجر:95)
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مکانت و منزلت اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے نزدیک بہت بڑی ہے، اس کا اندازہ قرآن کریم کی ان متعدد آیات سے ہوتا ہے جن میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر اپنے ذکر کے فوراً بعد کیا ہے، علامہ ابنِ تیمیہ ان علمائے اسلام میں سے ہیں جنہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرنے والوں اور ان کو برا کہنے والوں کی سزا اور شرعی حکم کے بیان میں کتاب لکھی ہے، یہ ضخیم کتاب اس موضوع پر لکھی جانے والی سرفہرست کتابوں میں شمار ہوتی ہے اور اس کا نام انہوں نے "الصارم المسلول علی شاتم الرسول" (گستاخ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ننگی تلوار) رکھا ہے۔ اس میں ایک مقام پر لکھا ہے:
"قرآن مجید میں کئی مقامات پر اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اپنی ایذا کو رسول کی ایذا اور اپنی اطاعت کو رسول کی اطاعت کے ساتھ مقرون و متصل کرکے بیان کیا ہے۔ یہ بطریق منصوص بھی آپ سے منقول ہے اور جو شخص اللہ کو ایذا دے وہ کافر اور مباح الدم (جس کا قتل جائز ہو) ہے۔ اس سے مستفاد ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی اور رسول کی محبت، اپنی اور رسول کی رضامندی، اپنی اطاعت اور رسول کی اطاعت کو ایک ہی چیز قرار دیا ہے"
(الصارم المسلول)
اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا قرآن مجید میں یکجا ذکر:
قُلْ إِنْ كَانَ آَبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ وَإِخْوَانُكُمْ وَأَزْوَاجُكُمْ وَعَشِيرَتُكُمْ وَأَمْوَالٌ اقْتَرَفْتُمُوهَا وَتِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَمَسَاكِنُ تَرْضَوْنَهَا أَحَبَّ إِلَيْكُمْ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَجِهَادٍ فِي سَبِيلِهِ فَتَرَبَّصُوا حَتَّى يَأْتِيَ اللَّهُ بِأَمْرِهِ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفَاسِقِينَ (24)
ترجمہ: (اے پیغمبر! مسلمانوں سے) کہہ دو کہ: "اگر تمہارے باپ، تمہارے بیٹے، تمہارے بھائی، تمہاری بیویاں، اور تمہارا خاندان اور وہ مال و دولت جو تم نے کمایا ہے، اور وہ کاروبار جس کے مندا ہونے کا تمہیں اندیشہ ہے، اور وہ رہائشی مکان جو تمہیں پسند ہیں، تمہیں اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم سے، اور اُس کے راستے میں جہاد کرنے سے زیادہ محبوب ہیں، تو انتظار کرو، یہاں تک کہ اللہ اپنا فیصلہ صادر فرمادے، اور اللہ نا فرمان لوگوں کو منزل تک نہیں پہنچاتا۔ (التوبہ:24)
ایک اور مقام پر لکھا:
يَحْلِفُونَ بِاللَّهِ لَكُمْ لِيُرْضُوكُمْ وَاللَّهُ وَرَسُولُهُ أَحَقُّ أَنْ يُرْضُوهُ إِنْ كَانُوا مُؤْمِنِينَ (62) أَلَمْ يَعْلَمُوا أَنَّهُ مَنْ يُحَادِدِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَأَنَّ لَهُ نَارَ جَهَنَّمَ خَالِدًا فِيهَا ذَلِكَ الْخِزْيُ الْعَظِيمُ (63) يَحْذَرُ الْمُنَافِقُونَ أَنْ تُنَزَّلَ عَلَيْهِمْ سُورَةٌ تُنَبِّئُهُمْ بِمَا فِي قُلُوبِهِمْ قُلِ اسْتَهْزِئُوا إِنَّ اللَّهَ مُخْرِجٌ مَا تَحْذَرُونَ (64) وَلَئِنْ سَأَلْتَهُمْ لَيَقُولُنَّ إِنَّمَا كُنَّا نَخُوضُ وَنَلْعَبُ قُلْ أَبِاللَّهِ وَآَيَاتِهِ وَرَسُولِهِ كُنْتُمْ تَسْتَهْزِئُونَ (65) لَا تَعْتَذِرُوا قَدْ كَفَرْتُمْ بَعْدَ إِيمَانِكُمْ إِنْ نَعْفُ عَنْ طَائِفَةٍ مِنْكُمْ نُعَذِّبْ طَائِفَةً بِأَنَّهُمْ كَانُوا مُجْرِمِينَ (66)
(مسلمانو!) یہ لوگ تمہارے سامنے اللہ کی قسمیں اس لئے کھاتے ہیں تاکہ تمہیں راضی کریں، حالانکہ اگر یہ واقعی مومن ہوں تو اللہ اور اُس کے رسول اس بات کے زیادہ مستحق ہیں کہ یہ اُن کو راضی کریں۔ کیا اُنہیں نہیں معلوم کہ جو شخص اللہ اور اُس کے رسول سے ٹکر لے تو یہ بات طے ہے کہ اُس کیلئے دوزخ کی آگ ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا؟ یہ بڑی بھاری رُسوائی ہے! منافق لوگ اس بات سے ڈرتے ہیں کہ مسلمانوں پر کہیں کوئی ایسی سورت نازل نہ کردی جائے جو انہیں اِن (منافقین) کے دلوں کی باتیں بتلا دے۔ کہہ دو کہ: "(اچھا!) تم مذاق اڑاتے رہو، اللہ وہ بات ظاہر کرنے والا ہے جس سے تم ڈرتے تھے" اور اگر تم ان سے پوچھو تو یہ یقیناً یوں کہیں گے کہ: "ہم تو ہنسی مذاق اور دل لگی کر رہے تھے" کہو کہ: "کیا تم اللہ اور اُس کی آیتوں اور اُس کے رسول کے ساتھ دل لگی کررہے تھے؟" بہانے نہ بناؤ، تم ایمان کا اظہار کرنے کے بعد کفر کے مرتکب ہوچکے ہو۔ اگر ہم تم میں سے ایک گروہ کو معافی دے بھی دیں، تو دوسرے گروہ کو ضرور سزا دیں گے، کیونکہ وہ مجرم لوگ ہیں"
(التوبۃ: 62 تا 66)
رسول سے بیعت کو خود اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے بیعت قرار دیا گیا:
إِنَّ الَّذِينَ يُبَايِعُونَكَ إِنَّمَا يُبَايِعُونَ اللَّهَ يَدُ اللَّهِ فَوْقَ أَيْدِيهِمْ فَمَنْ نَكَثَ فَإِنَّمَا يَنْكُثُ عَلَى نَفْسِهِ وَمَنْ أَوْفَى بِمَا عَاهَدَ عَلَيْهُ اللَّهَ فَسَيُؤْتِيهِ أَجْرًا عَظِيمًا (10)
ترجمہ: (اے پیغمبر!) جو لوگ تم سے بیعت کررہے ہیں، وہ درحقیقت اللہ سے بیعت کررہے ہیں۔ اللہ کا ہاتھ اُن کے ہاتھوں پر ہے۔ اس کے بعد جو کوئی عہد توڑے گا، اُس کے عہد توڑنے کا وبال اُسی پر پڑے گا، اور جو کوئی اُس عہد کو پورا کرے گا جو اُس نے اللہ سے کیا ہے، تو اللہ اُس کو زبردست ثواب عطا کرے گا۔
(الفتح:10)
يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْأَنْفَالِ قُلِ الْأَنْفَالُ لِلَّهِ وَالرَّسُولِ فَاتَّقُوا اللَّهَ وَأَصْلِحُوا ذَاتَ بَيْنِكُمْ وَأَطِيعُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ (1)
(اے پیغمبر!) لوگ تم سے مالِ غنیمت کے بارے میں پوچھتے ہیں۔ کہہ دو کہ مالِ غنیمت (کے بارے میں فیصلے) کا اختیار اللہ اور رسول کو حاصل ہے۔ لہٰذا تم اللہ سے ڈرو اور آپس کے تعلقات درست کرلو، اور اللہ اور اُس کے رسول کی اطاعت کرو اگر تم واقعی مومن ہو۔ (الانفال:1)
ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ شَاقُّوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَمَنْ يُشَاقِقِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَإِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ (13)
ترجمہ: یہ اس لئے کہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول سے دشمنی مول لی ہے، اور اگر کوئی شخص اللہ اور اس کے رسول سے دشمنی مول لیتا ہے تو یقیناً اللہ کا عذاب بڑا سخت ہے۔ (الانفال:13)
إِنَّ الَّذِينَ يُحَادُّونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ أُولَئِكَ فِي الْأَذَلِّينَ (20) كَتَبَ اللَّهُ لَأَغْلِبَنَّ أَنَا وَرُسُلِي إِنَّ اللَّهَ قَوِيٌّ عَزِيزٌ (21)
ترجمہ: بے شک جو لوگ اللہ اور اُس کے رسول کی مخالفت کرتے ہیں، وہ ذلیل ترین لوگوں میں شامل ہیں۔ اللہ نے یہ بات لکھ دی ہے کہ میں اور میرے پیغمبر ضرور غالب آئیں گے۔ یقین رکھو اللہ بڑی قوت والا، بڑے اقتدار والا ہے۔(المجادلہ:20،21)
أَلَمْ يَعْلَمُوا أَنَّهُ مَنْ يُحَادِدِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَأَنَّ لَهُ نَارَ جَهَنَّمَ خَالِدًا فِيهَا ذَلِكَ الْخِزْيُ الْعَظِيمُ (63)
ترجمہ: کیا انہیں یہ معلوم نہیں کہ جو شخص اللہ اور اُس کے رسول سے ٹکر لے تو یہ بات طے ہے کہ اُس کیلئے دوزخ کی آگ ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا۔ یہ بڑی بھاری رُسوائی ہے۔(التوبہ:63)
وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَتَعَدَّ حُدُودَهُ يُدْخِلْهُ نَارًا خَالِدًا فِيهَا وَلَهُ عَذَابٌ مُهِينٌ (14)
ترجمہ: اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا اور اس کی مقرر کی ہوئی حدود سے تجاوز کرے گا، اسے اللہ دوزخ میں داخل کرے گا جس میں وہ میشہ رہے گا، اور اس کو ایسا عذاب ہوگا جو ذلیل کرکے رکھ دے گا۔ (النساء:14)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایذا دینا اللہ تعالیٰ کو ایذا دینے کے برابر ہے
اہلِ ایمان کی ایذا اور اللہ اور رسول کی ایذا میں اللہ تعالیٰ نے تفریق کی:
إِنَّ الَّذِينَ يُؤْذُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ لَعَنَهُمُ اللَّهُ فِي الدُّنْيَا وَالْآَخِرَةِ وَأَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًا مُهِينًا (57) وَالَّذِينَ يُؤْذُونَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ بِغَيْرِ مَا اكْتَسَبُوا فَقَدِ احْتَمَلُوا بُهْتَانًا وَإِثْمًا مُبِينًا (5
ترجمہ: جو لوگ اللہ اور اُس کے رسول کو تکلیف پہنچاتے ہیں، اللہ نے دُنیا اور آخرت میں اُن پر لعنت کی ہے، اور ان کیلئے ایسا عذاب تیار کررکھا ہے جو ذلیل کرکے رکھ دے گا۔ اور جو لوگ مومن مردوں اور مومن عورتوں کو اُن کے کسی جرم کے بغیر تکلیف پہنچاتے ہیں، انہوں نے بہتان طرازی اور کھلے گناہ کا بوجھ اپنے اوپر لاد لیا ہے۔
(الاحزاب: 57،5
ان آیات میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے پہلے اپنی ذاتِ باری، پھر رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یکجا ذکر کرکے انہیں ایذا پہنچانے پر لعنت اور سخت عذاب کا وعدہ کیا ہے جبکہ عام مسلمانوں کو اذیت پہنچانے کو الگ ذکر کیا ہے اور اسے کم درجے میں رکھا ہے۔
گستاخِ رسول کی شرعی سزا کیا ہے؟
یہ مختصر مضمون اس پر مفصل بحث کا متحمل نہیں ہوسکتا، علمائے اسلام کا اس بارے میں جو مؤقف ہے، اس کا مختصراً جائزہ لیتے ہیں:
علامہ ابنِ تیمیہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
"عام اہلِ علم کا مذہب ہے کہ جو آدمی چاہے مسلمان ہو یا کافر، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دیتا ہے تو اسے قتل کرنا واجب ہے۔ ابن منذر کہتے ہیں کہ عموماً سبھی اہلِ علم کا اس بات پر اجماع ہے کہ جو آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دیتا ہے اُس کی حد قتل کرنا ہے اور اسی بات کو امام مالک، لیث، احمد، اسحاق رحمہم اللہ نے بھی اختیار کیا ہے اور امام شافعی رحمہ اللہ کا مذہب بھی یہی ہے۔ ابوبکر فارسی نے امام شافعی کے اصحاب سے مسلمانوں کا اجماع نقل کیا ہے کہ شاتم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حد قتل ہے۔ محمد بن سحنون کہتے ہیں کہ علماء کا اس بات پر اجماع ہے کہ گستاخ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی (کسی بھی طرح) توہین و تنقیص کرنے والا کافر ہے اور حدیث میں اس کیلئے سخت سزا کی وعید آئی ہے اور تمام امتِ مسلمہ کے نزدیک اس کی حد قتل کرنا ہے اور جو آدمی اس شخص کے کفر اور عذاب کے بارے میں شک و شبہ کرے گا وہ بھی کافر ہوجائے گا"
(ایک اور مقام پر لکھتے ہیں) "قاضی عیاض رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
اس بات پر امت کا اجماع منعقد ہے کہ اگر مسلمانوں میں سے کوئی شخص رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کرے یا آپ کو گالی دے تو اسے قتل کیا جائے، اسی طرح دیگر علماء سے بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کرنے والے کے واجب القتل اور کافر ہونے کے بارے میں اجماع نقل کیا گیا ہے۔ "
امام خطابی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"میرے علم کی حد تک کسی بھی مسلمان نے اس (گستاخ رسول صلی اللہ علیہ وسلم) کے واجب القتل ہونے میں اختلاف نہیں کیا۔"
ابنِ سحنون کے حوالے سے شیخ الاسلام لکھتے ہیں:
"اگر گالی دینے والا مسلمان ہے تو وہ کافر ہوجائے گا اور بلا اختلاف اسے قتل کردیا جائے گا اور یہ ائمہ اربعہ وغیرہم کا مذہب ہے"
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کہتے ہیں:
جو آدمی بھی خواہ مسلمان ہو یا کافر اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دیتا ہے یا ان کی توہین و تنقیص کرتا ہے اس کو قتل کرنا واجب ہے اور میری یہ رائے ہے کہ اسے توبہ کرنے کی مہلت نہ دی جائے فوراً ہی قتل کردیا جائے"
الصارم المسلول)
اسی طرح فتاویٰ شامی میں منقول ہے:
"حضرت عبد اللہ بن عمر اور حضرت علی رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ جو آدمی زندیق کی مانند بار بار مرتد ہوتا ہے اس کی توبہ قبول نہیں ہے اور یہ امام مالک، احمد، اور لیث رحمہم اللہ کا مذہب ہے۔ امام ابو یوسف رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ اگر کوئی آدمی بار بار مرتد ہونے کا جرم کرتا ہے تو اسے حیلہ سے اس کی بے خبری میں قتل کردیا جائے۔ "
شامی کی ایک اور عبارت میں ہے:
"ہر وہ مسلم جو (نعوذ باللہ) مرتد ہوجاتا ہے اس کی توبہ قبول ہوتی ہے مگر وہ جماعت جن کا ارتداد مکرر (بار بار) ہوتا ہو ان کی توبہ قبول نہیں ہوتی اور جو آدمی انبیاء میں سے کسی کو گالی دینے کی وجہ سے کافر ہوجائے اس کو قتل کردیا جائے گا اور اس کی توبہ کسی حال میں بھی قبول نہیں کی جائے گی"
اس امر میں (بالکل بجا طور پر) یہاں تک شدت اختیار کی گئی ہے کہ امام ابو بکر الفارسی جو علمائے شافعیہ میں سے ہیں، اپنی کتاب "الاجماع" میں گستاخ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ صرف یہ کہ واجب القتل قرار دیتے ہیں بلکہ کہتے ہیں کہ اگر وہ توبہ بھی کرلے تب بھی قتل ساقط نہیں ہوگا کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر قذف کی سزا قتل ہے اور حدِ قذف توبہ سے ساقط نہیں ہوتی۔
تاریخی شواہد:
"تاریخ کے اوراق شاہد ہیں کہ جو بھی شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دیتا تھا اس کو قتل کردیا جاتا تھا۔ قاضی عیاض نے اپنی کتاب "الشفاء" میں ایسے کئی افراد کا ذکر کیا ہے۔ جن میں کعب بن اشرف، ابو رافع، ابن خطل اور اس کی لونڈی، نضر بن حارث، عقبہ بن ابی معیط، یہودیہ عورت اور قبیلہ خطمہ کی عورت وغیرہ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے امر یا ایماء پر قتل ہوئے۔ کسی کو حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے قتل کیا، کسی کو حضرت زبیر رضی اللہ عنہ نے، کسی کو حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ایک ایسے شخص کو زندہ جلوادیا جس نے خود ان کو خدائی صفات سے موصوف کرکے اور اس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اونچا دکھا کے امت میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی مرکزیت کو ختم کرنے کی کوشش کی تھی۔"
(بحوالہ کتاب: توہین رسالت کی شرعی سزا)
علامہ ابنِ تیمیہ اپنی کتاب "الصارم المسلول" میں لکھتے ہیں:
"اس میں شبہ نہیں کہ جو ذمی (مسلمان ملک میں معاہدہ کے تحت رہنے والا غیر مسلم، ان کے احکامات میں بہت نرمی کے باوجود دیکھیے کہ مؤلف کیا کہتے ہیں) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سبّ و شتم کرتا ہے تو وہ اہلِ ایمان کو ناراض کرتا ہے اور انہیں ایسا دکھ پہنچاتا ہے جو ان کا خون بہانے اور ان کا مال لینے سے بھی زیادہ المناک ہے۔ اس لئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دینے سے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حمایت میں دل میں غصہ اور حمیت کے جذبات پیدا ہوتے ہیں اور اس سے بڑا غیظ و غضب مومن کے دل میں اور کسی چیز سے نہیں بھڑکتا بلکہ صراط مستقیم پر چلنے والا مومن صرف اللہ کیلئے ہی اس قدر غضبناک ہوسکتا ہے۔ شارع چاہتا ہے کہ اہلِ ایمان کے سینہ کو شفا حاصل ہو اور اس کا غم و غصہ دور ہوجائے اور یہ مقصد صرف گالی دینے والے کو قتل کرنے سے حاصل ہوتا ہے۔ اس کی حسب ذیل وجوہ ہیں:
پہلی وجہ: اگر کافر کسی مسلم کو گالی دے تو اس کی تعزیر و تادیب سے مسلمان کا غصہ دور ہوجاتا ہے۔ جبکہ اگر وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دے اور اس کی تعزیر و تادیب سے مسلمان کا غصہ رفع ہوجائے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دینے سے اتنا ہی غصہ آیا جو ایک مومن کو گالی دینے سے آتا ہے۔ اور یہ باطل ہے۔
دوسری وجہ: کافر کو گالی دی جائے تو اسے اس قدر غصہ آتا ہے کہ اگر کوئی اس کا مال لے تو اسے اتنا غصہ نہیں آئے گا۔ اگر کوئی مسلمان کسی کافر کو قتل کردے تو ان کا غصہ تبھی دور ہوگا اگر قاتل کو قتل کیا جائے، اسی طرح ایک مسلم کا غصہ تبھی دور ہوگا جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دینے والے کو قتل کیا جائے۔ یہی وجہ اولیٰ و افضل ہے۔
حدیثِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں ہے کہ ایک شخص رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیا کرتا تھا، یہ سن کر آپ نے فرمایا: "کون میرے دشمن کیلئے کافی ہوگا؟" (یعنی مجھے اس کی ایذا سے بچائے گا اسے قتل کرکے)
(مصنف عبد الرزاق، بحوالہ الصارم المسلول)
احادیث سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ایذا پہنچانے والے کی سزا
شعبی نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ ایک یہودی عورت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیا کرتی تھی، ایک شخص نے اس کا گلا گھونٹ کر اسے ہلاک کردیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت کے خون کو رائیگاں قرار دیا۔ (سنن ابی داود) (الصارم المسلول)
کعب بن اشرف یہودی کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کون کعب بن اشرف کو ٹھکانے لگائے گا؟ اس نے اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کو ایذا پہنچائی ہے" اس پر محمد بن مسلمہ تیار ہوگئے اور ہتھیار کعب بن اشرف کے پاس رہن رکھنے کے بہانے لے گئے اور اسے قتل کردیا۔ مفصل واقعہ صحیح بخاری و مسلم دونوں نے روایت کیا ہے۔
قبیلہ خطمہ کی ایک عورت کا واقعہ جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو گوئی کرتی تھی
عصماء بنت مروان بنو امیہ بن زید کے خاندان سے تھی اور یزید بن زید کی بیوی تھی۔ یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایذا دیا کرتی تھی، اسلام میں عیب نکالتی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف لوگوں کو بھڑکایا کرتی تھی۔ عمیر بن عدی الخطمی کو جب اس کی باتوں اور اشتعال بازی کا علم ہوا تو اس نے کہا: "اے اللہ! میں تیرے حضور نذر مانتا ہوں کہ اگر تُو نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو (بخیر و عافیت) مدینہ لوٹا دیا تو میں اس عورت کو قتل کردوں گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت بدر میں تھے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم بدر سے واپس آئے تو عمیر بن عدی آدھی رات کے وقت اس عورت کے گھر میں داخل ہوئے۔ اس کے ارد گرد اس کے بچے سوئے ہوئے تھے۔ ایک بچہ اس کے ساتھ چمٹا ہوا تھا اور وہ اسے دودھ پلا رہی تھی۔ عمیر نے بچے کو الگ کیا اور اس کے سینے پر تلوار رکھ کر پشت کے پار کردیا۔
پھر صبح کی نماز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ادا کی۔ جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو عمیر بن عدی کی طرف دیکھ کر فرمایا: "کیا تُو نے بنت مروان کو قتل کردیا؟" عرض کیا جی ہاں! میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں۔" عمیر اس بات سے ڈرے کہ کہیں انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مرضی کے خلاف کچھ نہ کیا ہو۔ پوچھا: "یا رسول اللہ! کیا اس ضمن میں مجھ پر کوئی چیز واجب ہے؟ فرمایا: "نہیں، دو بکریاں اس میں سینگوں سے نہیں ٹکراتیں" (اس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصود یہ تھا کہ اس سے فتنہ پروری کا ظہور نہیں ہوگا خواہ وہ کم ہو یا زیادہ) یہ فقرہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس موقع پر پہلی بار سنا گیا۔ عمیر کہتے ہیں کہ پھر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اردگرد دیکھا اور فرمایا: "اگر تم ایسا شخص دیکھنا چاہو جس نے اللہ اور اس کے رسول کی غیبی مدد کی ہے تو عمیر بن عدی کو دیکھ لو"
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس موقع پر فرمایا: "اس اندھے کو دیکھو جس نے رات اللہ کی اطاعت میں گزاری ہے" تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اسے اندھا نہ کہو، وہ بینا ہے۔"
(کتاب المغازی للواقدی)
علاّمہ ابن تیمیہ اس واقعہ پر تبصرہ میں لکھتے ہیں:
"اس عورت کے قاتل کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اگر تم ایسے شخص کو دیکھنا چاہتے ہو جس نے اللہ اور اس کے رسول کی مدد کی ہے تو اس شخص کو دیکھ لو" اس سے ثابت ہوا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو اور مذمت کفر کے بغیر بھی قتل کی موجب ہے، اور گالی دینے والا واجب القتل ہے، چاہے وہ حلیف اور معاہد کیوں نہ ہو جبکہ ایسی حالت میں ان لوگوں کا خون محفوظ ہوتا ہے جو گالی نہ دیتے ہوں اگرچہ معاہدہ بھی نہ کیا ہو۔
حاملہ عورت کو قتل کرنا جائز نہیں، الا یہ کہ وہ جنگ میں عملی حصہ لیتی ہو اس لئے کہ ایک جنگ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک عورت دیکھی جسے قتل کیا گیا تھا تو فرمایا: "یہ تو جنگ نہیں لڑتی تھی" پھر آپ نے عورتوں اور بچوں کو قتل کرنے سے منع فرمایا (سنن ابی داود و سنن ابن ماجہ) مگر اس کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت کو قتل کرنے کا حکم دیا حالانکہ وہ اپنے ہاتھ سے نہیں لڑتی تھی۔ اگر گالی دینا قتل کا موجب نہ ہوتا تو اس عورت کو قتل کرنا جائز نہ ہوتا۔"
(الصارم المسلول)
ایک اور وجۂ استدلال اس واقعہ سے یہ بھی ہے کہ اس عورت کے پورے یہودی قبیلے کو کچھ بھی نہیں کہا گیا صرف اسی کو قتل کیا گیا، اگر کفر کی بنیاد پر قتل کیا جاتا تو سارا قبیلہ واجب القتل ہوتا، مگر صرف اسی عورت کا خون اس بناء پر مباح ہوا کہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کیا کرتی تھی۔
صحیح بخاری میں اللہ جل و علا کا یہ فرمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہے:
"جس نے میرے ولی کے ساتھ دشمنی رکھی اس نے میرے ساتھ جنگ کا اعلان کردیا"
(صحیح بخاری)
جب اللہ سبحانہ و تعالیٰ اپنے ولی کے بارے میں یہ فرما رہے ہیں تو اُس کے رسول اور پھر ان میں بھی افضل سے دشمنی کرنے والا اور ان کی شان میں گستاخی کرنے والا اللہ کا کتنا بڑا دشمن ہوگا؟
دوسرا رُخ
میرے نزدیک مسئلہ یہ نہیں کہ ایسے لوگ اپنی سزا سے اب تک بچے ہوئے ہیں، یہ سزا آکر رہے گی اور اس کا ہونا برحق ہے۔ غور طلب بات یہ ہے کہ اس تمام معاملے میں ہمارا بحیثیتِ مسلمان کردار کیا ہے؟؟؟ ہم نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نصرت کیلئے کیا قدم اٹھایا ہے؟؟؟ ہم کس منہ سے قیامت کے دن ان کی شفاعت کی امید رکھیں گے؟؟؟ کیا ایسی قوم اور ایسے متبع مزید ذلت و رسوائی کے حقدار نہیں جن کے پیشوا و مقتدیٰ کی شان میں گستاخی کی جارہی ہو اور ان کا بالخصوص حکمران طبقہ بحیثیتِ مجموعی ادنیٰ ترین درجے میں بھی کوئی ردِ عمل ظاہر نہ کرتا ہو؟؟؟ سب سے پہلے اپنے آپ سے سوال پوچھیے، آپ کا کیا کردار رہا ہے اب تک اس معاملے میں؟ کیا آپ اس سے مطمئن ہیں؟ کیا آپ کے دل میں یہ خبر سن کر کوئی تڑپ اُٹھی؟ اگر ہاں تو آپ نے کوئی عملی قدم بھی اٹھایا؟ کیا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ آپ کے اختیار میں کچھ نہیں، اگر آپ صدر یا وزیر اعظم ہوتے تو یہ کردیتے وہ کردیتے؟؟ نہیں، یہ شیطان کا دھوکہ ہے۔ اگر ہم نے اب کچھ نہیں کیا تو تب بھی کچھ نہیں کریں گے۔ ہر شخص اپنے اپنے دائرہ کار اور استطاعت کے مطابق مکلف (ذمہ دار) ہے۔ آپ کے پاس جو ہتھیار ہے آپ اسے استعمال کیجیے۔ انٹرنیٹ کی مثال لیں، جن ویب سائٹس کے آپ ممبر ہیں وہاں ایسے ملعونوں کی مذمت کیجیے، اپنا احتجاج ریکارڈ کرائیے، ان کے خلاف لکھیے، ایسے گستاخوں کے شرعی حکم اور انجام پر مشتمل احادیث اور اسلامی تاریخ کے واقعات کو نشر کیجیے۔ صاحبِ قلم ہیں تو افسانوں اور داستانوں، خاکوں اور طنز و مزاح پر خامہ فرسائی کو بالائے طاق رکھ کر اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نصرت اور ان کی محبت میں قلم اٹھائیے اور کچھ لکھیے اور اسے جتنا ممکن ہوسکے پھیلائیے۔ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ مبارکہ کی کتب، سیرت کے موضوع پر تقاریر کی سی ڈیز اور اسی طرح دیگر دعوتی مواد کی خریداری کرکے اپنی گلی و محلہ میں اسے تقسیم کیجیے تاکہ ہماری نئی نسل کو، جو گویوں اور اداکاروں، کھلاڑیوں کو تو بہت اچھی طرح جانتی ہے مگر اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت سے بے خبر ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے آگاہی ہو۔ مگر یہ سب کرنا تبھی ممکن ہے جب دل میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمتِ شان و رفعتِ قدر کا مکمل احساس موجود ہو۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ اگر ہمارے ملک کے جھنڈے کی توہین کی جائے، ہمارے والدین میں سے کسی کو کوئی گالی دے، جس پارٹی سے وابستگی ہو اس کے لیڈر کو کوئی برے الفاظ سے یاد کرے، خود ہماری کوئی اہانت کرے تو ان سب صورتوں بلکہ ان سے ادنیٰ میں ہمارے غصے کی کوئی حد نہیں رہے گی مگر جس ذاتِ طیبہ و مطہرہ سے اپنے تمام رشتہ داروں، اولاد، والدین، حتیٰ کہ اپنی جان سے بھی زیادہ محبت کو کامل ایمان کی شرط قرار دیا گیا ہے، اُن کی شان میں گستاخی پر ہم خاموش تماشائی ہیں۔ اپنا کردار ادا کیجیے اور اس معاملے کو ہلکا مت سمجھیے ورنہ روزِ محشر (معاذ اللہ) ہمارے پاس اپنی اس بے حسی اور بزدلانہ خاموشی کا کوئی جواب نہیں ہوگا۔
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
انبیاءِ کرام علیہم السلام کی میراث درہم و دینار نہیں ہوتا
انبیاءِ کرام علیہم السلام کی میراث درہم و دینار نہیں ہوتا محترم قارئینِ کرام ارشادِ باری تعالیٰ ہے : وَ وَرِثَ سُلَیْمٰنُ دَاوٗدَ وَ قَالَ ...
-
شوہر اور بیوی ایک دوسرے کے اعضاء تناسلیہ کا بوسہ لینا اور مرد کو اپنا آلۂ مردمی اپنی بیوی کے منہ میں ڈالنا اور ہمبستری سے قبل شوہر اور...
-
درس قرآن موضوع آیت : قُلۡ ہَلۡ یَسۡتَوِی الَّذِیۡنَ یَعۡلَمُوۡنَ وَ الَّذِیۡنَ لَا یَعۡلَمُوۡنَ قُلْ هَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَ...
-
شانِ حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ قرآن و حدیث کی روشنی میں محترم قارئینِ کرام : قرآن پاک میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے : وَ یُطْعِمُوْ...
No comments:
Post a Comment