برطانوی سلطنت میں امام احمد رضا بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کا فتوی
خلاصہ فتویٰ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے نصرانی کے کھانے سے ممانعت فرمائی ہے ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ ،ابو داؤ د،ترمذی ،مسنداحمد)
اگر ظاہری نجاست نہ ہو تو کافر کا جھوٹا ناپاک نہیں ، مگر لازمی نہیں کہ جو چیز ناپاک نہ ہو ،وہ طیب بھی ہو ، جیسے ناک کی رینٹھ ناپاک نہیں ، مگر کون عقلمند اسے اپنی زبان سے لگانا پسند کرے گا ، بحمد اللہ کافر کے جھوٹے سے بھی مسلمانوں کو ایسی ہی نفرت ہے ، یہ نفرت دور کرنا ، مسلمانوں کی نظروں میں کافروں کی برائی کو ختم کرنا ہے ، یا کم کرنا ، علماء نے تصریح فرمائی ہے ، مفتی کو وہی فتوی دینا چاہیئے ، جو عوام کیلئے مفید ہو ، عوام کا فائدہ اسی میں ہے کہ کافروں کی نفرت ان کے دلوں میں باقی رہے ، دلائل شرعیہ سے ثابت ہےکہ کافر کے جھوٹے سے بچنا ضروری ہے ، یہاں نصاری کا حکم ہنود سے سخت تر ہے ، کیونکہ یہاں ان کی سلطنت ہے ، نفرت میں کمی سے تبدیل مذہب یا کم ازکم ضعف ایمان کا اندیشہ ہے ، یہاں اسلام کے صدر اول پر قیاس کرنا جہالت ہے ، کیونکہ اس وقت وہ کمزور اور ہمارے ماتحت تھے ، انہیں اسلام کی طرف آنے کی دعوت دینا مقصود تھی ، اب تو معاملہ ہی الٹ ہوگیا ہے ، میرے نزدیک یہی ہے ، اور میں نے اس پر کئی مرتبہ فتوی دیا ہے ، اللہ میرا رب ہے، اسی پر اعتماد اور اسی پر بھروسہ ہے ۔ (فتاوی رضویہ ، ،جلد نمبر 2 ، صفحہ نمبر 314 تا 317 )۔(طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
مفصل و مکمل فتویٰ : مسئلہ ۴۷ : مسئولہ شیخ شوکت علی صاحب ۶ ربیع الآخر شریف ۱۳۰۲ ہجریہ قدسیہ کیا فرماتے ہیں علمائے ملّت اہلسنّت وجماعت اس مسئلہ میں کہ جُوٹھا ہندو یانصرانی وغیرہ کا پاک ہے یا ناپاک، اُس کے کھانے کا کیا حکم ہے اگر کوئی کافر سہواً یا قصداً حقّہ یا پانی پی لے تو اس کا کیا حکم ہے بینوا توجروا۔
الجواب : حکم اللہ ورسول کیلئے ہے رسول (۱) اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے نصرانی کے کھانے سے ممانعت فرمائی، سُنن ابی داؤد وجامع ترمذی ومصنف ابو بکر بن ابی شیبہ ومسند امام احمد میں ہُلب رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ہے:
واللفظ لابی بکر قال رأیت النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم نھی عن طعام النصاری فقال لایتخلجن فی صدرک طعام ضارعت فیہ نصرانیۃ ۲؎۔ الفاظ ابی بکر کے ہیں فرمایا میں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو دیکھا کہ طعامِ نصرانی سے نہی فرمائی اور ارشاد کیا زنہار تیرے سینے میں وہ کھانا جنبش نہ کرے جس میں نصرانیت کا اشتراک ہو۔(۲؎ سنن ابی داؤد باب کراھیۃ التقذر للطعام مجتبائی لاہور ۲/۷۵،چشتی)
اقول: بھذا اللفظ اوردہ الامام الجلیل السیوطی فی الجامع الکبیر وقال حسن اھ وھو صریح فی رد مازعم الھروی فی تاویل الحدیث انہ نظیف کما نقلہ عنہ فی مجمع البحار ثم ردہ بقولہ وسیاق الحدیث لایناسبہ ۱؎ اھ اقول: انہی الفاظ سے اس کو امام سیوطی نے جامع کبیر میں ذکر کیا اور حسن کہا اھ اور یہ ہروی کی واضح تردید ہے انہوں نے حدیث کی تاویل کی کہ یہ صاف ستھرا ہے،یہ مجمع البحار میں اُن سے منقول ہے , پھر انہوں نے اس کو اپنے اس قول سے رد کیا اور حدیث کا سیاق اس کے مناسب نہیں۔ (ت)
(۱؎ مجمع البحار لفظ ضرع منشی نولکشور لکھنؤ ۲/۲۸۸،چشتی)
اقول: وایضا(۱) یبعد مانقلہ عن الطیبی من تفسیرہ بقولہ شابھت النصرانیۃ والرھبانیۃ فی تشدیدھم وتضییقھم وکیف وانت علی الحنفیۃ السھلۃ ۲؎ اھ کیف وھذا لایلائم النھی۔
(۲؎ طیبی شرح مشکوٰۃ)
میں کہتا ہوں یہ بھی بعید ہے کہ انہوں نے طیبی سے اس کی تفسیر یہ نقل کی ہے کہ یہ نصرانیت اور رہبانیت کے مشابہ ہے ان کی شدت اور سختی میں اور تم دین حنیف پر ہو جو سہل اور آسان ہے اھ کیسے اور یہ نہی کے مناسب نہیں۔ (ت)
اقول: وکذا(۲) یبعد مافھم منہ ابو داؤد اذ اوردہ فی باب کراھیۃ التقذر للطعام وانما تأتی لہ ذلک لان لفظ روایتہ سمعت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم وسألہ رجل فقال ان من الطعام طعاما اتحرج منہ فقال لایتخلجن فی صدرک شیئ ضارعت فیہ النصرانیۃ ۳؎ اھ فھذا لفظ محتمل والذی ذکرناہ نص صریح فتثبت وباللّٰہ التوفیق ورحم اللّٰہ الامام اباحاتم الرازی حیث یقول ماکنا نعرف الحدیث مالم نکتبہ من ستین وجہا ۴؎۔
میں کہتا ہوں اسی طرح وہ بھی بعید ہے جو ابو داؤد نے اس سے سمجھا ہے کیونکہ انہوں نے اس کو باب کراہیۃ التقذر الطعام میں وارد کیا ہے، اور انہوں نے ایسا اس لئے کیا ہے کیونکہ ان کی روایت کے لفظ یہ ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو سنا،اورآپ سے ایک شخص نے سوال کیا تو آپ نے فرمایا ان کھانوں میں سے ایک کھانا ایسا ہے جس سے میں حرج محسوس کرتا ہوں، توآپ نے فرمایا تمہارے دل میں کوئی ایسی چیز خلش پیدا نہ کرے جو نصرانیت کے ساتھ ملی ہے اھ اب ان الفاظ میں احتمال ہے اور جو ہم نے ذکر کیا ہے وہ صریح نص ہے،اوراللہ ابو حاتم الرازی پر رحم فرمائے وہ فرمایا کرتے تھے کہ ہم اُس وقت تک حدیث کو نہیں پہچانتے تھے جب تک کہ اس کو ساٹھ طریقوں سے نہ لکھ لیں۔ (ت) (۳؎ سنن ابی داؤد باب کراھیۃ التقذر الطعام مجتبائی دہلی ۲/۱۷۵،چشتی)
ابو ثعلبہ خشنی(۳) رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں:قلت یارسول اللّٰہ انا نغزو ارض العدو فنحتاج الی اٰنیتھم فقال استغنوا عنھامااستطعتم فان لم تجدوا غیرھا فاغسلوھاوکلوامنھاواشربوا ۱؎۔ اوردہ الامام فی الجامع وعزاہ لابن ابی شیبۃ۔
میں نے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم! ہم دشمن کے ملک میں جہاد کو جاتے ہیں اُن کے برتنوں کی حاجت پڑتی ہے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایاجہاں تک بَن پڑے اُن برتنوں سے دُوررہو اور اگر اور برتن نہ ملے تو انہیں دھو کرپاک کرلو اس کے بعد ان میں کھاؤ پیو۔(۱؎ مصنف ابن ابی شیبہالاکل فی اٰنیۃ الکفار ادارۃ القرآن کراچی ۸/۹۰)
اقول: قد رواہ(۱)احمد والبخاری ومسلم وابو داؤد والترمذی واٰخرون وفی لفظ للترمذی قال انقوھا غسلا ۲؎۔ میں کہتا ہوں احمد، بخاری، مسلم، ابو داؤد، ترمذی اور دوسروں نے بھی اس کو روایت کیا ہے اورترمذی کا لفظ فاغسلوھا کی جگہ انقوھا غسلا ہے۔ (ت)
(۲؎ جامع للترمذی الاکل فی اٰنیۃ الکفار امین کمپنی دہلی ۲/۲)
اللہ عزوجل فرماتا ہے: اِنَّمَا الْمُشْرِکُوْنَ نَجِس ۔۳؎ کافر نرے ناپاک ہیں۔
(۳؎ القرآن ۹/۲۸)
یہ ناپاکی ان کے باطن کی ہے پھر اگر شراب وغیرہ نجاستوں کا اثر ان کے منہ میں باقی ہو تو ناپاکی ظاہری بھی موجود ہے اوراس وقت ان کا جھوٹا ایسا ہی ناپاک ہے جیسا کُتّے کا،بلکہ اُس سے بھی بدتر لخلاف مالک فی الکلب(کیونکہ کتّے کے بارے میں امام مالک کا اختلاف ہے۔ ت) اور حُقّے وغیرہ جس چیز کو اُن کا لعاب لگ جائیگا ضرور ناپاک ہوجائے گی۔
تنویر الابصار میں ہے:سؤر شارب خمرفور شربھا وھرۃ فور اکل فأرۃ نجس ۴؎۔ شرابی کا شراب پینے کے بعد فوری جھوٹا اور بلّی کا چوہا کھانے کے بعد فوری جھوٹا نجس ہے۔ (ت)(۴؎ الدرالمختار فصل فے البئر مجتبائی دہلی ۱/۴۰)
ہنود ونصاریٰ وغیرہم اکثر شراب خور ہوتے ہیں اور مونچھیں بڑھانا اُن کا شعار اور شراب(۲) خور کی مونچھیں بڑی بڑی ہوں کہ شراب مونچھ کو لگ گئی تو جب تک مُونچھ دُھل نہ جائے گی پانی وغیرہ جس چیز کو لگے گی ناپاک کر دے گی،
درمختار میں ہے:لوشاربہ طویلا لایستوعبہ اللسان فنجس ولوبعد زمان ۱؎۔ اگر شراب خور کی مونچھیں لمبی ہوں کہ زبان ان تک نہ پہنچ سکے تو اس کا جھوٹا نجس ہے اگرچہ وہ طویل وقت کے بعد پانی پئے۔ (ت)(۱؎الدرالمختار فصل فے البئرمجتبائی دہلی ۱/۴۰)
اور اگر ظاہری نجاستوں سے بالکل جُدا ہو جس کی اُمید کافروں میں بہت کم ہے تو اس کے جُوٹھے کو اگرچہ کُتّے کے جُوٹھے کی طرح صریح ناپاک نہ کہا جائے۔
فی التنویر والدر سؤرادمی مطلقا ولوجنبااوکافرطاھر الفم طاھرا مختصرا ۲؎۔ تنویر اور در میں ہے آدمی کا جھُوٹا چاہے وہ جنبی ہو یا کافر ہو پاک ہے کیونکہ منہ پاک ہے۔ مختصرا (ت)(۲؎الدرالمختار فصل فے البئر مجتبائی دہلی ۱/۴۰)
اقول: مگر ہر چیز کہ ناپاک نہ ہو طیب وبے دغدغہ ہونا ضرور نہیں رینٹھ بھی تو ناپاک نہیں پھر کون عاقل اُسے اپنے لب و زبان سے لگاناگوارا کرے گا کافر کے جُوٹھے سے بھی بحمداللہ تعالٰی مسلمانوں کو ایسی ہی نفرت ہے اور یہ نفرت اُن کے ایمان سے ناشیئ ہے۔
وفی رفعہ عن قلوبھم اسقاط شناعۃ الکفرۃ عن اعینھم اوتخفیفھا وذلک غش بالمسلمین وقد صرح العلماء کما فی العقود الدریۃ وغیرھا ان(۱) المفتی انما یفتی بما یقع عندہ من المصلحۃ ومصلحۃ المسلمین فی ابقاء النفرۃ عن الکفرۃ لافی القائھا ۳؎۔
اور اس کو ان کے دلوں سے اٹھانے میں کافروں کی بُرائی کو ان کی نگاہوں میں ختم کرنا ہے یا کم کرنا ہے، اور یہ مسلمانوں کو دھوکا دینا ہے اور علماء نے تصریح کی ہے جیسا کہ عقود الدریۃ وغیرہا میں ہے کہ مفتی کو وہی فتوٰی دینا چاہئے جس میں اس کے نزدیک مصلحۃ ہو اور مسلمانوں کو مصلحۃ اس میں ہے کہ ان کے دلوں میں کافروں سے نفرت باقی رہے نہ یہ کہ نفرت ختم ہوجائے۔ (ت) (۳؎ الاشباہ والنظائر کتاب القضاء الخ ادارۃ القرآن کراچی ۱/۳۵۴،چشتی)
جو شخص دانستہ اُس کا جوٹھا کھائے پئے مسلمان اُس سے بھی نفرت کرتے ہیں وہ مطعون ہوتا ہے اُس پر محبّت کفار کا گمان جاتا ہے اور حدیث(۱) میں ہے من کان یؤمن باللّٰہ والیوم الاٰخر فلا یقفن مواقف التھم ۴؎۔ جو اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتا ہو تہمت کی جگہ کھڑا نہ ہو۔
(۴؎ مراقی الفلاح مع الطحطاوی قبیل باب سجود السہو نور محمد کتب خانہ کراچی ص۲۴۹)
متعدد(۲) حدیثوں میں ہے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں: ایاک وما یسؤ الاذن ۵؎ اُس بات سے بچ جو کان کو بُری لگے ۔ (۵؎ مسند امام احمد عن ابی العادیۃ بیروت ۴/۷۶) ۔ (طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment