صحیح قول کے مطابق تراویح کی کل بیس (20) رکعات ہیں
صحیح قول کے مطابق تراویح کی کل بیس (20) رکعات ہیں اور یہی سوادِ اَعظم یعنی اہل سنت و جماعت کے چاروں فقہی مذاہب کا فتویٰ ہے ۔
اُمّ المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے مروی ہے کہ ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسجد میں (نفل) نماز پڑھی تو لوگوں نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اگلی رات نماز پڑھی تو اور زیادہ لوگ جمع ہوگئے، پھر تیسری یا چوتھی رات بھی اکٹھے ہوئے لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کی طرف تشریف نہ لائے۔ جب صبح ہوئی تو فرمای : میں نے دیکھا جو تم نے کیا اور مجھے تمہارے پاس (نماز پڑھانے کے لئے) آنے سے صرف اس اندیشہ نے روکا کہ یہ تم پر فرض کر دی جائے گی۔ یہ واقعہ رمضان المبارک کا ہے ۔ (بخاری، الصحيح، کتاب التهجد، باب : تحريض النبي صلی الله عليه وآله وسلم علی صلاة الليل والنوافل من غير إيجاب، 1 : 380، رقم : 1077) (بخاري، الصحيح، کتاب صلاة التروايح، باب فضل من قام رمضان، 2 : 708، رقم : 1908،چشتی)(مسلم، الصحيح، کتاب صلاة المسافرين وقصرها، باب الترغيب في قيام رمضان وهو التراويح، 1 : 524، رقم : 761)(ابو داؤد، السنن، کتاب الصلاة، باب في قيام شهر رمضان، 1 : 49، رقم : 1373)(نسائي، السنن، کتاب قيام الليل وتطوع النهار، باب قيام شهر رمضان، 2 : 337، رقم : 1604،چشتی)
امام ابن خزیمہ اور امام ابن حبان علیہما الرّحمہ نے ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی روایت میں ان الفاظ کا اضافہ کیا ہے : حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انہیں قیامِ رمضان (تراویح) کی رغبت دلایا کرتے تھے لیکن حکماً نہیں فرماتے تھے۔ چنانچہ (ترغیب کے لئے) فرماتے کہ جو شخص رمضان المبارک میں ایمان اور ثواب کی نیت کے ساتھ قیام کرتا ہے تو اس کے سابقہ تمام گناہ بخش دیے جاتے ہیں۔ پھر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال مبارک تک قیام رمضان کی یہی صورت برقرار رہی اور یہی صورت خلافتِ ابوبکر رضی اللہ عنہ اور خلافتِ عمررضی اللہ عنہ کے اوائل دور تک جاری رہی یہاں تک کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں حضرت اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ کی اقتداء میں جمع کر دیا اور وہ انہیں نمازِ (تراویح) پڑھایا کرتے تھے۔ لہٰذا یہ وہ پہلا موقع تھا جب لوگ نمازِ تراویح کے لئے (باقاعدہ با جماعت) اکٹھے ہوئے تھے۔(ابن حبان، الصحيح، 1 : 353، رقم : 141)(ابن خزيمة، الصحيح، 3 : 338، رقم : 2207،چشتی)
امام ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ نے ’’التلخیص‘‘ میں بیان کیا ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لوگوں کو دو راتیں 20 رکعت نماز تراویح پڑھائی، جب تیسری رات لوگ پھر جمع ہوگئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کی طرف (حجرۂ مبارک سے باہر) تشریف نہیں لائے۔ پھر صبح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمای : مجھے اندیشہ ہوا کہ (نمازِ تراویح) تم پر فرض کردی جائے گی لیکن تم اس کی طاقت نہ رکھوگے۔(عسقلاني، تلخيص الحبير، 2 : 21،چشتی)
حضرت عبد اﷲ بن عباس رضي اﷲ عنہماسے مروی ہے فرمایا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رمضان المبارک میں وتر کے علاوہ بیس رکعت تراویح پڑھا کرتے تھے ۔ (طبراني، المعجم الاوسط، 1 : 243، رقم : 798)(طبراني، المعجم الاوسط، 5 : 324، رقم : 5440)(طبراني، المعجم الکبير، 11 : 311، رقم : 12102)(ابن أبي شيبة، المصنف، 2 : 164، رقم : 7692،چشتی)
حضرت سائب بن یزید رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں بیس (20) رکعت تراویح اور وتر پڑھتے تھے ۔ (بيهقي، السنن الکبری، 2 : 699، رقم : 4617) ۔
تراویح، ترویحہ کی جمع ہے جس کا معنی ہے: ایک دفعہ آرام کرنا جبکہ تراویح کے معنی ہے: متعدد بار آرام کرنا۔ نمازِ تراویح کی تعداد چونکہ بیس ہے اس لیے ہر چار رکعت کے بعد کچھ دیر ٹھہر کر اور سکون کرنے کے بعد نماز کا شروع کرنا مستحب ہے کیونکہ صحابہ کرام l ایسا کیا کرتے تھے اور اسی وجہ سے اس نماز کا نام تراویح رکھا گیا ہے ۔
نماز تراویح کا پڑھنا مرد و عورت سب کے لئے سنت مؤکدہ ہے۔ اس کا چھوڑنا جائز نہیں اور تراویح کی جماعت سنت علی الکفایہ ہے۔ یعنی اگر تمام لوگ باجماعت نہ پڑھیں تو گناہگار ہوں گے اور اگر کچھ لوگ باجماعت ادا کر لیں تو گناہ نہیں ۔
قیامِ رمضان کی بڑی فضیلت ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لوگوں کو رمضان کی راتوں میں نماز پڑھنے کی ترغیب دیا کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جس نے رمضان المبارک میں حصول ثواب کی نیت اور حالتِ ایمان کے ساتھ قیام کیا تو اس کے سابقہ (تمام) گناہ بخش دیے جاتے ہیں ۔ (بخاری، الصحيح، کتاب الايمان، باب تطوع قيام رمضان من الايمان، 1:22، رقم: 37،چشتی)
نماز تراویح کا وقت عشاء کی نماز کے بعد وتر سے پہلے ہوتاہے اور رات کے آخری حصے میں پڑھنا افضل ہے ۔
بعض لوگ کہتے ہیں کہ تراویح کی کل آٹھ رکعات ہیں، جب کہ صحیح قول کے مطابق تراویح کی کل بیس (20) رکعات ہیں ۔
اُمّ المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسجد میں (نفل) نماز پڑھی تو لوگوں نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی. پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اگلی رات نماز پڑھی تو اور زیادہ لوگ جمع ہوگئے، پھر تیسری یا چوتھی رات بھی اکٹھے ہوئے لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کی طرف تشریف نہ لائے۔ جب صبح ہوئی تو فرمایا: میں نے دیکھا جو تم نے کیا اور مجھے تمہارے پاس (نماز پڑھانے کے لئے) آنے سے صرف اِس اندیشہ نے روکے رکھا کہ یہ تم پر فرض کر دی جائے گی. یہ واقعہ رمضان المبارک کا ہے ۔ (صحيح بخاری، کتاب التهجد، 1: 380، رقم: 1077، صحيح مسلم، کتاب صلاة المسافرين وقصرها، باب الترغيب فی قيام رمضان وهو التراويح، 1: 524، رقم: 721،چشتی)
امام ابن خزیمہ اور امام ابن حبان نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت میں ان الفاظ کا اضافہ کیا ہے: حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انہیں قیامِ رمضان (یعنی تراویح) کی رغبت دلایا کرتے تھے لیکن حکماً نہیں فرماتے تھے۔ چنانچہ (ترغیب کے لئے) فرماتے کہ جو شخص رمضان المبارک میں ایمان اور ثواب کی نیت کے ساتھ قیام کرتا ہے تو اس کے سابقہ تمام گناہ بخش دیے جاتے ہیں۔ پھر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال مبارک تک قیام رمضان کی یہی صورت برقرار رہی اور یہی صورت خلافتِ ابوبکر رضی اللہ عنہ اور خلافتِ عمر رضی اللہ عنہ کے اوائل دور تک جاری رہی یہاں تک کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں حضرت اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ کی اقتداء میں جمع کر دیا اور وہ انہیں نمازِ (تراویح) پڑھایا کرتے تھے۔ لہٰذا یہ وہ ابتدائی زمانہ ہے جب لوگ نمازِ تراویح کے لئے (با جماعت) اکٹھے ہوتے تھے۔(صحيح ابن حبان، 1: 353، رقم: 141؛ صحيح ابن خزیمة، 3: 338، رقم: 2207،چشتی)
حافظ ابن حجر عسقلانی نے ’التلخیص (2:21)‘ میں بیان کیا ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لوگوں کو دو راتیں بیس (20) رکعت نماز تراویح پڑھائی، جب تیسری رات لوگ پھر جمع ہوگئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کی طرف (حجرۂ مبارک سے باہر) تشریف نہیں لائے۔ پھر صبح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: مجھے اندیشہ ہوا کہ (نمازِ تراویح) تم پر فرض کردی جائے گی لیکن تم اس کی طاقت نہ رکھوگے۔
حضرت عبد اﷲ بن عباس سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رمضان المبارک میں وتر کے علاوہ بیس رکعت تراویح پڑھا کرتے تھے ۔ (المعجم الآوسط، 1: 243، رقم: 798؛ مصنف ابن ابی شيبة، 2: 124، رقم: 7292،چشتی)
حضرت سائب بن یزید رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ وہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں بیس (20) رکعت تراویح اور وتر پڑھتے تھے۔(سنن کبری، 2: 492، رقم: 4393،چشتی)
تسبیح تراویح : نمازِ تروایح میں ہر چار رکعت ادا کرنے کے بعد کچھ توقف کیا جاتا ہے، جس میں تسبیح تراویح، اَذکار اور صلوٰۃ و سلام پڑھا جاتا ہے۔ تسبیح تراویح یہ ہے:
سُبْحَانَ ذِی الْمُلْکِ وَالْمَلَکُوْتِ ط سُبْحَانَ ذِی الْعِزَّةِ وَالْعَظَمَةِ وَالْهَيْبَةِ وَالْقُدْرَةِ وَالْکِبْرِيَآئِ وَالْجَبَرُوْتِ ط سُبْحَانَ الْمَلِکِ الْحَيِ الَّذِی لَا يَنَامُ وَلَا يَمُوْتُ ط سُبُّوحٌ قُدُّوْسٌ رَبُّنَا وَرَبُّ الْمَلَائِکَةِ وَالرُّوْحِ ط اَللّٰهُمَّ اَجِرْنَا مِنَ النَّارِ يَا مُجِيْرُ يَا مُجِيْرُ يَا مُجِيْر.
ترجمہ : پاک ہے (وہ اﷲ) زمین و آسمان کی بادشاہی والا۔ پاک ہے (وہ اﷲ) عزت و بزرگی، ہیبت و قدرت اور عظمت و رُعب والا۔ پاک ہے بادشاہ (حقیقی، جو) زندہ ہے، سوتا نہیں اور نہ مرے گا۔ بہت ہی پاک (اور) بہت ہی مقدس ہے ہمارا پروردگار اور فرشتوں اور روح کا پروردگار۔ اِلٰہی ہم کو دوزخ سے پناہ دے۔ اے پناہ دینے والے! اے پناہ دینے والے! اے پناہ دینے والے ۔ مذکورہ بالا روایات صراحتاً اِس اَمر پر دلالت کرتی ہیں کہ تراویح کی کل رکعات بیس ہوتی ہیں ۔ اِسی پر اہل سنت و جماعت کے چاروں فقہی مذاہب کا اِجماع ہے اور آج کے دور میں بھی حرمین شریفین میں یہی معمول ہے ۔ وہاں کل بیس رکعات تراویح پڑھی جاتی ہیں ، جنہیں پوری دنیا میں براہِ راست ٹی۔ وی سکرین پر دکھایا جاتا ہے ۔ (طالب دعا و دعا گوڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment