Wednesday, 7 February 2018

سجدہ کی تعریف اور اور کن اعضاء پر سجدہ ہوتا ہے شرک کے فتوے لگانے والو

سجدہ کی تعریف اور اور کن اعضاء پر سجدہ ہوتا ہے شرک کے فتوے لگانے والو

محترم قارئین : خارجی فتنہ اسلام کےلیئے ایک ایسا خطرناک فتنہ ہے کہ اس جیسا مسلم دشمن کوئی فتنہ نہیں ہے ۔ اسلام کے بیرونی دشمن پہچانے جاتے ہیں مگر خارجی اسلام ، قرآن اور حدیث کا لبادہ اڑھے ہوئے اہل اسلام کے خلاف سازشوں میں مصروف عمل ہیں اور بھولے بھالے مسلمان ان کی ظاہری شکل و صورت اور قرآن و حدیث کے دعوؤں کے فریب میں پھنسے ہوئے ہیں ۔ فقیر ڈاکٹر فیض احمد چشتی نے سوشل میڈیا اور سوشل میڈیا سے باہر ان فتنہ پروروں کی طرف سے ایک فتنہ یہ بھی دیکھا کہ قدم بوسی ، دست بوسی یا مزارات مقدسہ کو چومنا ان سب کو یہ قرآن و حدیث کا فریب دے کر سجدے سے تشبیہ دے کر اہل اسلام پر شرک کے فتوے لگاتے اور مشرک کہہ کر فتنہ و انتشار پھیلاتے ہیں سو اس پر فقیر نے مختصر مضمون لکھا ہے پڑھیئے :

پیشانی زمین پر جمانے کو سجدہ کہتے ہیں اور پاؤں کی ایک انگلی کا پیٹ زمین پر لگنا سجدہ میں شرط ہے اور ہر پاؤں کی تین تین انگلیوں کے پیٹ زمین پر لگنا واجب اور دسوں کا قبلہ رو ہونا یعنی دونوں پاؤں کی دسوں انگلیوں کے پیٹ زمین پر لگنا سنت ہے

سات اعضاء کو زمین یا اس کے حکم کی چیز پر ٹیک دینا شرعاً سجدہ کہلاتا ہے، وہ اعضا یہ ہیں: (۱) پیشانی اور ناک (۲-۳) دونوں قدم (۴-۵) دونوں ہاتھ (۶-۷) دونوں گھٹنے۔ (ان میں سے پیشانی یا ناک رکھنا بالاتفاق فرض ہے، دونوں ہاتھ اور دونوں گھٹنے رکھنا سنت ہے، اور قدم کے بارے میں فرضیت اور وجوب کا اختلاف ہے)

عن العباس بن عبد المطلب أنہ سمع رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقول: إذا سجد العبد سجد معہ سبعۃ أطراف: وجہہ وکفاہ ورکبتاہ وقدماہ۔ (صحیح مسلم، الصلاۃ / باب أعضاء السجود والنہي عن کف الشعر رقم: ۴۹۱، سنن الترمذي، الصلاۃ / باب ما جاء في السجود علی سبعۃ أعضاء ۱؍۶۲ رقم: ۲۷۱) فہو بوضع الجبہۃ والأنف والقدمین والیدین والرکبتین لما فی الصحیحین من قولہ علیہ الصلاۃ والسلام أمرت أن أسجد علی سبعۃ أعظمٍ: علی الجبہۃ والیدین والرکبتین وأطراف القدمین والأنف داخل في الجبہۃ؛ لأن عظمہما واحد، وہٰذہ الصفۃ المذکورۃ ہي الکمال۔ وإن وضع جبہتہ دون أنفہ جاز سجودہ بالإجماع، ولکن إن کان ذٰلک من غیر عذر الخ یکرہ۔ (حلبي کبیر ۲۸۲-۲۸۳، طحطاوي ۲۲۹)

عن عبد الله بن عباس رضي الله عنهما قال : قال النبي r ، أمرت أن أسجد على سبعة أعظم على الجبهة ( وأشار بيده على أنفه ) واليدين والركبتين وأطراف القدمين ۔
ترجمہ : حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ نبی r نے ارشاد فرمایا : مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں سات ہڈیوں [ جوڑں ] پر سجدہ کروں ، پیشانی پر [ ساتھ ہی آپ r نے اپنی ناک کی طرف اشارہ کیا ] دونوں ہاتھوں پر ، دونوں گھٹنوں پر اور دونوں پیروں پر ۔ ( صحيح البخاري : 812 ، الأذان)(صحيح مسلم : 490، السجود )

غیر اللہ کو سجدہ عبادت یا سجدہ تعظیمی کرنا حرام ہے۔ اولیاء اللہ کی قبروں کے سامنے نہیں جھکنا چاہیے۔ جو بھی ایسا کرتا ہے وہ جاہل ہے۔ ایسے شخص کو روکنا چاہے اور اسے سمجھانا چاہیئے ۔

تقبیلِ رِجلین یعنی بزرگ اور صالح شخصیات کے پاؤں چومنا نہ صرف ثابت شدہ شرعی اَمر ہے ، بلکہ براہِ راست صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے عمل سے ثابت ہے کہ وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دست اَقدس کو بوسہ دیتے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاؤں مبارک چومتے ۔

کیا قدم بوسی سجدہ ہے ؟

کیا قدم بوسی شرک ہے ؟

اِس کے بارے میں اِسلامی تعلیمات کیا ہیں ؟

اِس بات کا جائزہ لینا بھی ضروری ہے تاکہ اگر بعض حالات میں کسی نے تقبیلِ رِجلین (قدم بوسی) کر بھی لی تو اس پر کیا حکمِ شرعی لاگو ہوگا ۔ ذیل میں اس سے متعلقہ چند احادیث و آثار درج کیے جاتے ہیں :

(1) زارع بن عامر رضی اللہ عنہ جو وفدِ عبد القیس کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوئے تھے سے مروی ہے : لَمَّا قَدِمْنَا الْمَدِيْنَةَ فَجَعَلْنَا نَتَبَادَرُ مِنْ رَوَاحِلِنَا، فَنُقَبِّلُ يَدَ رَسُولِ اﷲِصلی الله عليه وآله وسلم وَرِجْلَهُ .
ترجمہ : جب ہم مدینہ منورہ حاضر ہوئے تو اپنی سواریوں سے کود کر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دستِ اقدس اور پاؤں مبارک کو چومنے لگے ۔
( سنن ابی داود (کتاب الادب، باب قبلۃ الجسد، 4 : 357، رقم: 5225) میں روایت کیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں اسے امام بیہقی نے السنن الکبری (7: 102) میں اور امام طبرانی نے اپنی دو کتب المعجم الکبیر (5 : 275، رقم : 5313) اور المعجم الاوسط (1 : 133، رقم : 418)

(2) امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ''الادب المفرد'' میں باب تقبيل الرِّجل قائم کیا ہے یعنی ''پاؤں کو بوسہ دینے کا بیان۔ '' اس باب کے اندر صفحہ نمبر 339 پر حدیث نمبر 975 کے تحت انہوں نے مذکورہ بالا حدیث کو حضرت وازع بن عامر رضی اللہ عنہ سے ان الفاظ میں روایت کیا ہے، وہ فرماتے ہیں : قَدِمْنَا, فَقِيْلَ: ذَاکَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم. فَأَخَذْنَا بِيَدَيْهِ وَرِجْلَيْهِ نُقَبِّلُهَا .
ترجمہ : ہم مدینہ حاضر ہوئے تو (ہمیں) کہا گیا: وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔ پس ہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک ہاتھوں اور قدموں سے لپٹ گئے اور اُنہیں بوسہ دینے لگے ۔
یہ الفاظ خاص مفہوم کے حامل ہیں ۔ راوی کہتے ہیں کہ ہم نے صرف ہاتھ مبارک پکڑنے پر ہی اکتفا نہ کیا بلکہ ہاتھوں کے علاوہ پاؤں مبارک کو بھی بوسہ دینے کا عمل جاری رکھا درآں حالیکہ ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ اور پاؤں مبارک پکڑ رکھے تھے ۔

(3) امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے اس مضمون پر ایک حدیث حضرت صفوان بن عسّال ‏رضی اللہ عنہ سے بیان کی ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ قومِ یہود کے بعض افراد حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سوال کرنے کے بعد اعلانیہ گواہی دی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے سچے رسول ہیں : فَقَبَّلُوْا يَدَيْهِ وَرِجْلَيْهِ. وَقَالُوا: نَشْهَدُ أَنَّکَ نَبِيٌّ .
ترجمہ : انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ اور پاؤں مبارک کو بوسہ دیا، اور کہا: ہم گواہی دیتے ہیں کہ بے شک آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نبی ہیں ۔
( سنن نسائی (کتاب تحریم الدم، 7 : 111، رقم : 4078) میں اور امام ابن ماجہ نے السنن (کتاب الادب، باب الرجل یقبّل ید الرجل، 2: 1221، رقم: 3705) میں روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے اس حدیث کو الجامع میں دو جگہ روایت کیا ہے: پہلی بار ابواب الاستئذان والآداب میں باب فی قبلۃ الید والرجل (5: 77، رقم: 2733) میں اور دوسری بار ابواب التفسیر کے باب ومن سورۃ بنی اسرائیل (5: 305، رقم: 3144) میں۔ امام احمد بن حنبل نے المسند (4: 239، 240) میں، امام حاکم نے المستدرک (1: 52، رقم: 20) میں، امام طیالسی نے المسند (ص: 160، رقم: 1164) میں اور امام مقدسی نے الاحادیث المختارہ (8: 29، رقم: 18) میں روایت کیا ہے۔)

اتنے اجل محدثین علیہم الرّحمہ کے اس حدیث کو روایت کرنے اور اس سے استشہاد کرنے کے باوجود بھی کوئی متعصب کہہ سکتا ہے کہ یہ ایک یہودی کا فعل تھا ، ہم اسے کس طرح لازمی شہادت کا درجہ دے سکتے ہیں ۔ اس سوچ پر سوائے افسوس کے کیا کہا جا سکتا ہے کہ معترض کو یہودی کا عمل تو نظر آگیا مگر جس کے ساتھ کیا جا رہا ہے وہ بابرکت ہستی نظر نہیں آئی ۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہود کو تقبیل سے منع نہیں فرمایا تو یہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنتِ تقریری ہوا ۔

(4) علامہ ابن تیمیہ کے جلیل القدر شاگرد حافظ ابن کثیر سورۃ المائدہ کی آیت نمبر 101 کی تفسیر میں ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ایک بار حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی بات پر خفا ہو کر جلال میں آگئے تو : فَقَامَ إِلَيْهِ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رضي الله عنه فَقَبَّلَ رِجْلَهُ وَقَالَ: يَا رَسُوْلَ اﷲِ، رَضِيْنَا بِاﷲِ رَبًّا وَبِکَ نَبِيًّا وَبِالإِْسْلَامِ دِيْنًا وَبِالْقُرْآنِ إِمَامًا فَاعْفُ عَنَّا عَفَا اﷲُ عَنْکَ فَلَمْ يَزَلْ بِهِ حَتَّی رَضِيَ .
ترجمہ : حضرت عمر رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدم مبارک چوم کر عرض کیا : یا رسول اﷲ! ہم اﷲ تعالیٰ کے رب ہونے ، آپ کے نبی ہونے اور اسلام کے دین ہونے اور قرآن کے امام و راہنما ہونے پر راضی ہیں ، ہمیں معاف فرما دیجئے ۔ اﷲ تعالیٰ آپ سے مزید راضی ہو گا ۔ پس حضرت عمر رضی اللہ عنہ مسلسل عرض کرتے رہے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم راضی ہو گئے ۔ اس روایت کو دیگر مفسرین نے بھی متعلقہ آیت کی تفسیر میں بیان کیا ہے ۔

اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ جیسے اجل صحابی کا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدم مبارک چومنا اور خود تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا انہیں منع نہ فرمانا کیا (معاذ اللہ) عقیدہ توحید کی خلاف ورزی تھا ۔

(5) امام مقری رحمۃ اللہ علیہ (م 381ھ) اپنی کتاب تقبیل الید (ص: 64، رقم: 5) میں حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے ایک واقعہ نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ایک مرتبہ ایک اعرابی بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حاضر ہوا اور اس نے آکر عرض کیا : میں نے اسلام قبول کر لیا ہے لیکن میں کچھ مزید چاہتا ہوں تاکہ میرے یقین میں اضافہ ہوجائے ۔ پھر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اجازت دی تو اعرابی کے بلاوے پر ایک درخت اس کے پاس آیا اور اس نے کہا : یا رسول اللہ! آپ پر سلام ہو ۔ اس کے بعد طویل روایت ہے اور آخر میں اعرابی نے تمام نشانیاں دیکھنے کے بعد عرض کیا : يا رسول الله! أئذن لي أن أقبل رأسك ورجلك.
ترجمہ : اے اللہ کے رسول! مجھے اجازت دیجیے کہ میں آپ کاسر اقدس اور قدم مبارک چوم لوں ۔
اس کے بعد روایت میں ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس اعرابی کو اجازت مرحمت فرمائی ۔ اور پھر اس اعرابی نے سجدہ کرنے کی اجازت مانگی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اجازت نہ دی ۔ امام مقری رحمۃ اللہ علیہ کی روایت کردہ اس حدیث کو حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ نے فتح الباری (11: 57) میں نقل کیا ہے ۔ نیز مسلک دیوبند کے نام ور عالم اور جامع الترمذی کے شارح علامہ ابو العلاء عبد الرحمان بن عبد الرحیم مبارک پوری نے بھی تحفۃ الاحوذی (7: 437) میں اس روایت کو نقل کیا ہے ۔

یہ روایت بڑی وضاحت کے ساتھ بیان کر رہی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قدم چومنے کی اجازت تو دی لیکن سجدہ کرنے کی اجازت نہیں دی ۔ اگر قدم چومنا اور سجدہ کرنا برابر ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کبھی ان کے مابین فرق نہ فرماتے اور دونوں سے منع فرما دیتے ۔

یہاں تک آقائے نام دار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاؤں مبارک چومے جانے پر چند احادیث کا حوالہ دیا گیا ، جس سے یہ ثابت ہوگیا ہے کہ قدم بوسی ہرگز کوئی شرکیہ عمل نہیں ۔ اگر ایسا ہوتا تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود اپنی ذات اقدس کے لیے بھی کبھی اس کی اجازت نہ دیتے ۔

کیا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اُنہیں اِس عمل سے نہ روکنا اور سکوت فرمانا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے اس کی اجازت نہ تھی ؟

کیا صحابہ کرام ‏رضی اللہ عنھم کا یہ عمل سنتِ تقریری نہ قرار پایا ؟

اگر پاؤں چومنا نعوذ باﷲ سجدہ ہے تو کیا صحابہ کرام ‏رضی اللہ عنھم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سجدہ کر رہے تھے ؟

کیا (معاذ اﷲ) حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو توحید کا پیغام عام کرنے اور شرک کے خاتمے کے لیے مبعوث ہوئے خود شرک کے عمل کی اجازت دے رہے تھے ؟

کاش : قدم بوسی پر اعتراض کرنے والے پہلے کچھ مطالعہ ہی کر لیتے ۔

کسی کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوسکتا ہے کہ قدم بوسی صرف حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے مخصوص ہے۔ لہٰذا ذیل میں ہم اِس اَمر کا جائزہ لیتے ہیں کہ غیر انبیاء صالحین اور مشائخ عظام اور اکابر اسلام کی دست بوسی و قدم بوسی کی کیا حقیقت ہے ؟
یہ ایک حقیقت ہے کہ علماے ‏کرام اور مشائخ عظام کی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آ پ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دین کی خدمت کی نسبت سے تعظیم و احترام بجا لانا منشاء اِسلام ہے ۔ اِن کی تعظیم کو شرک کہنا باطل اور ان سے بغض رکھنا نفاق کی علامت ہے ۔ کتب سیر و احادیث کا مطالعہ کرنے والا ہر شخص یہ بات جانتا ہے کہ اکابرین کی قدم بوسی ہمیشہ اہل محبت و ادب کا معمول رہی ہے ۔

اِس سلسلے میں چند نظائر پیش خدمت ہیں

(1) حضرت صہیب رضی اللہ عنہ، حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے غلام تھے، وہ بیان کرتے ہیں : رَأَيْتُ عَلِيًّا يُقَبِّلُ يَدَ الْعَبَّاسِ وَرِجْلَيْهِ وَيَقُوْلُ: يَا عَمِّ ارْضَ عَنِّي .
ترجمہ : میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے ہاتھ اور پاؤں چومتے دیکھا اور آپ ساتھ ساتھ کہتے جاتے تھے: اے چچا! مجھ سے راضی ہوجائیں ۔
( اسے امام بخاری نے الادب المفرد (ص: 339، رقم: 976) میں، امام ذہبی نے سیر اعلام النبلاء (2: 94) میں، امام مزی نے تہذیب الکمال (13: 240، رقم: 2905) میں اور امام مقری نے تقبیل الید (ص: 76، رقم: 15) میں روایت کیا ہے۔)

(2) آسمان علم کے روشن ستارے اور ہر مسلک و مکتبہ فکر کے متفقہ محدث امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اپنی کتاب الادب المفرد میں ہاتھ چومنے پر ایک پورا باب (نمبر 444) قائم کیا ہے ۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے باب تقبيل اليد میں ''ہاتھ چومنے'' کے حوالے سے تین احادیث بیان کی ہیں ۔ صاف ظاہر ہے کہ اس سے مراد یہی ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ، حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دست مبارکہ کو چوما کرتے تھے ؛ اور جس طرح صحابہ کرام رضی اللہ عنھم ، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ چومتے تو اسی طرح تابعین ، صحابہ کرام کے ہاتھ چومتے ۔ ان احادیث کو ذکر کر کے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ آدابِ زندگی بتا رہے ہیں کہ بزرگوں کی سنت یہ تھی کہ شیوخ اور اکابر کا ہاتھ چوما کرتے تھے ۔ یہاں تک کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے دین میں اس کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے اس کا الگ باب قائم کیا ۔ صرف یہی نہیں بلکہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اِس باب کے فوری بعد پاؤں چومنے کا باب - بَابُ تَقْبِيْلِ الرِّجْل - لائے ہیں ۔

ظاہر ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب الادب میں ان ابواب کو ترتیب دے کر یہ واضح کیا ہے کہ ان کے نزدیک ہاتھ چومنا اور قدم چومنا آداب میں سے ہے ۔ اگر وہ اس عمل کو شرک یا سجدہ سمجھتے تو کبھی بھی آداب زندگی کے بیان پر مشتمل اپنی کتاب میں یہ ابواب قائم نہ کرتے اور نہ ہی ایسی احادیث لاتے ۔

(3) اسی طرح امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے بعد امت مسلمہ کے نزدیک ثقہ ترین محدث امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ کے شہر نیشاپور میں جب امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ تشریف لائے اور امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ ان کے پاس حاضر ہوئے تو اَئمہ علیہم الرّحمہ کے اَحوال پر مبنی تمام کتب میں درج ہے کہ امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا ماتھا چوما اور پھر ان سے اجازت مانگی کہ : دعني حتی أقبّل رجليک، يا أستاذ الأستاذين وسيد المحدّثين وطبيب الحديث في علله .
ترجمہ : اے استاذوں کے استاذ، سید المحدّثین اور عللِ حدیث کے طبیب! آپ مجھے اجازت دیں تو میں آپ کے پاؤں کا بوسہ لے لوں ۔
اِمام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اور امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ کا یہ واقعہ ابن نقطہ نے 'التقیید لمعرفۃ رواۃ السنن والمسانید (1: 33)'میں، امام ذہبی نے 'سیر اعلام النبلاء (12: 432، 436)' میں، امام نووی نے 'تہذیب الاسماء واللغات (1: 88)' میں، حافظ ابن حجر عسقلانی نے مقدمۃ فتح الباری (ص: 488)' میں اور برصغیر کے نام ور غیر مقلد نواب صدیق حسن قنوجی نے 'الحطۃ فی ذکر الصحاح الستۃ (ص: 339)' میں روایت کیا ہے ۔

(4) علامہ شروانی شافعی رحمۃ اللہ علیہ 'حواشی (4: 84)' میں لکھتے ہیں : قد تقرّر أنه يسنّ تقبيل يد الصالح بل ورجله .
ترجمہ : یہ بات پایہ تحقیق کو پہنچ چکی ہے کہ صالح شخص کے ہاتھ اور پاؤں چومنا مسنون عمل ہے ۔

(5) مسلک دیوبند کے نام ور عالم اور جامع الترمذی کے شارح علامہ ابو العلاء عبد الرحمان بن عبد الرحیم مبارک پوری کا علم الحدیث میں ایک نمایاں مقام ہے ۔ انہوں نے تحفۃ الاحوذی شرح جامع الترمذی کی جلد سات کے صفحہ نمبر 437 پر ہاتھ اور پاؤں چومنے پر مذکورہ بالا تمام روایات بطور استشہاد درج کی ہیں، جس کے ان کے مسلک و مشرب کا واضح پتا چلتا ہے ۔

اِس طرح کی بے شمار روایات بطور حوالہ پیش کی جاسکتی ہیں ، مگر چند ایک کے حوالہ جات دینے پر ہی اکتفا کیا گیا ہے ، جوکہ اِس بات کا بین ثبوت ہے کہ صلحاء اور اَتقیاء کی دست بوسی و قدم بوسی کرنا جائز اور پسندیدہ عمل ہے ۔ اہل تصوف و روحانیت مانتے ہیں کہ قدم بوسی معمول کا عمل نہیں ہے ، بلکہ ایسا کرنے والا عقیدت و محبت سے کرتا ہے ۔ اور ایسا عمل بالخصوص قدم بوسی کا عمل ایسی شخصیت کے لیئے بجا لایا جاتا جو علم و عمل میں اپنے دور کے امام کی حیثیت رکھتی ہو ۔ لہٰذا ہمیں مسلک و جانب داریت کی عینک اُتار کر قرآن و سُنّت، عمل صحابہ رضی اللہ عنہم اور عمل سلف صالحین علیہم الرّحمہ کا مطالعہ کرکے کوئی فتویٰ صادر کرنا چاہیئے اور بلا تحقیق و بلا مطالعہ کسی بات کو نہیں اُچھالنا چاہیئے کیوں کہ بلا تحقیق کوئی بات آگے بیان کرنے سے تو قرآن حکیم بھی منع فرماتا ہے اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی اس کی مذمت بیان فرمائی ہے۔ سورۃ الحجرات کی آیت نمبر 6 میں ارشاد باری تعالی ہے : يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِن جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُوا .
ترجمہ : اے ایمان والو! اگر تمہارے پاس کوئی فاسق (شخص) کوئی خبر لائے تو خوب تحقیق کرلیا کرو ۔
اس آیت کریمہ میں اللہ رب العزت نے اہلِ ایمان کوحکم دیا کہ وہ کسی معاملے میں کوئی رائے قائم کرنے سے پہلے اُسے اچھی طرح چھان پھٹک لیں کہ اُس میں حقیقت کیا ہے اور فسانہ کیا ہے ۔ پھرجب شرح صدر سے کسی نتیجے پر پہنچ جائیں تو اس کے بعد عملی اقدام اُٹھائیں ۔ اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ارشاد فرمایا : کَفٰی بِالْمَرْءِ کَذِبًا اَنْ يُحَدِّثَ بِکُلِّ مَا سَمِعَ .
ترجمہ : آدمی کے جھوٹا ہونے کے لیے یہی بات کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات کو (بغیر تحقیق کیے) آگے بیان کر دے ۔ (صحيح مسلم, كتاب الايمان, 1: 10, رقم: 5)

گویا یہاں مومنوں سے کہا جا رہا ہے کہ وہ کسی بھی سنی سنائی بات کو بغیر تحقیق کے نہ مانیں ، بلکہ مختلف ذرائع سے تصدیق کرنے کے بعد جب کسی بات کامبنی بر حق ہونا یقینی ہو جائے تو پھر ہی اُسے تسلیم کریں اور آگے روایت کریں کیوں کہ بغیر تحقیق کے کسی بات کو آگے بیان کردینا گویا جھوٹ بولنا ہے اور اس پر بھی بہت سی احادیث ہیں کہ مومن سب کچھ ہوسکتا ہے مگر جھوٹا نہیں ہوسکتا ۔ لہٰذا ہم کہ سکتے ہیں کہ کوئی شخص ایسے فرامین مقدسہ صرف اسی صورت فراموش کرسکتا ہے جب اس کی آنکھوں پر پٹی بندھی ہو اور اسے روز روشن کی طرح واضح حقیقت نظر نہ آرہی ہو ۔ اپنے عقائد ، مذموم عزائم اور مفادات پر زد پڑنے کے خوف سے بے بنیاد الزامات وضع کرتا ہے ۔ علمی سطح پر شکست خوردہ ذہنیت بہتان تراشی کا سہارا لیتی ہے ۔

اللہ تعالی ہمیں ایسی جہالت اور فتنہ پروری سے محفوظ فرمائے اور ہمیں حق بات سننے و سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ۔(طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...