Sunday, 4 February 2018

آل نجد کا اعتراض کہ مردے نہیں سنتے کا مدلّل جواب

آل نجد کا اعتراض کہ مردے نہیں سنتے کا مدلّل جواب


بسم اللہ الرّحمٰن الرّحیم : کثیر صحیح وقوی احادیث اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ بعدِ موت مردے شعور رکھتے ہیں، اور انہیں جو کچھ سنایا جائے وہ اسے سنتے ہیں۔

صحیح بخاری میں حضرت سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے:رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جب میت کو چارپائی پہ رکھاجاتا ہےاور اسے لوگ اپنے کندھوں پر اٹھا لیتے ہیں، اگر وہ مردہ نیک ہوتا ہےتو وہ کہتا ہے: مجھے جلدی آگئے لیے چلو۔ لیکن اگر وہ نیک نہ ہو تو وہ اپنے گھر والوں سے کہتا ہے: ہائے بربادی! مجھے کہاں لیے جارہے ہو؟اس کی یہ آواز انسانوں کے سوا ہر مخلوقِ خدا سنتی ہے اور اگر یہ آواز انسان سن لے تو بے ہوش ہو جائے۔
(صحيح البخاري، کتاب الجنائز، باب قول الميت وهو علی الجنازة: قدموني رقم الحدیث ۱۲۳۲)

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ حَدَّثَنَا سَعِيدٌ عَنْ أَبِيهِ أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ إِذَا وُضِعَتْ الْجِنَازَةُ فَاحْتَمَلَهَا الرِّجَالُ عَلَى أَعْنَاقِهِمْ فَإِنْ كَانَتْ صَالِحَةً قَالَتْ قَدِّمُونِي وَإِنْ كَانَتْ غَيْرَ صَالِحَةٍ قَالَتْ لِأَهْلِهَا يَا وَيْلَهَا أَيْنَ يَذْهَبُونَ بِهَا يَسْمَعُ صَوْتَهَا كُلُّ شَيْءٍ إِلَّا الْإِنْسَانَ وَلَوْ سَمِعَ الْإِنْسَانُ لَصَعِقَ

صَحیحیَن (یعنی بخاری اور مسلم) میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میت لوگوں کے قدموں کی چاپ تک سنتی ہے جب وہ اسے دفنا کر لوٹتے ہیں۔ایسے ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بھی ثابت ہے کہ انہوں نے بدر میں قتل ہونے والوں (کی لاشوں )کوتین دن تک چھوڑے رکھا، اور پھران کے پاس تشریف لائے پھر فرمایا: يا ابا جهل بن هشام، يا اُمية بن خلف، يا عتبة بن ربيعة، يا شعبة بن ربيعة، کیا تم نے اپنے رب کے وعدے کو سچا پایا جو اس نے تم سے کیا تھا؟ بے شک میں نے اپنے رب کے وعدے کو سچا پایا جو اس نے مجھ سے کیا، جب حضرت سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ سنا تو عرض کی، یارسول اللہ! وہ کیونکر سنیں گے اور جواب دیں گے؟ یہ تو مردارہو کر سڑ گئے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:قسم اس ذاتِ پاک کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے تم اس بات کو ان سے زیادہ نہیں سنتے جو میں ان سے کہہ رہا ہوں، لیکن یہ جواب دینے کی قدرت نہیں رکھتے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم فرمایا اور وہ کھینچے گئے اور بدر کے کنوؤں میں ڈال دیئے گئے۔ صحيح مسلم، کتاب الجنة وصفة نعيمها وأهلها، باب عرض مقعد الميت رقم الحدیث۵۱۲۱)

حَدَّثَنَا هَدَّابُ بْنُ خَالِدٍ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَرَكَ قَتْلَى بَدْرٍ ثَلَاثًا ثُمَّ أَتَاهُمْ فَقَامَ عَلَيْهِمْ فَنَادَاهُمْ فَقَالَ يَا أَبَا جَهْلِ بْنَ هِشَامٍ يَا أُمَيَّةَ بْنَ خَلَفٍ يَا عُتْبَةَ بْنَ رَبِيعَةَ يَا شَيْبَةَ بْنَ رَبِيعَةَ أَلَيْسَ قَدْ وَجَدْتُمْ مَا وَعَدَ رَبُّكُمْ حَقًّا فَإِنِّي قَدْ وَجَدْتُ مَا وَعَدَنِي رَبِّي حَقًّا فَسَمِعَ عُمَرُ قَوْلَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ كَيْفَ يَسْمَعُوا وَأَنَّى يُجِيبُوا وَقَدْ جَيَّفُوا قَالَ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ مَا أَنْتُمْ بِأَسْمَعَ لِمَا أَقُولُ مِنْهُمْ وَلَكِنَّهُمْ لَا يَقْدِرُونَ أَنْ يُجِيبُوا ثُمَّ أَمَرَ بِهِمْ فَسُحِبُوا فَأُلْقُوا فِي قَلِيبِ بَدْرٍ حَدَّثَنِي يُوسُفُ بْنُ حَمَّادٍ الْمَعْنِيُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى عَنْ سَعِيدٍ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ عَنْ أَبِي طَلْحَةَ ح و حَدَّثَنِيهِ مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي عَرُوبَةَ عَنْ قَتَادَةَ قَالَ ذَكَرَ لَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ عَنْ أَبِي طَلْحَةَ قَالَ لَمَّا كَانَ يَوْمُ بَدْرٍ وَظَهَرَ عَلَيْهِمْ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَ بِبِضْعَةٍ وَعِشْرِينَ رَجُلًا وَفِي حَدِيثِ رَوْحٍ بِأَرْبَعَةٍ وَعِشْرِينَ رَجُلًا مِنْ صَنَادِيدِ قُرَيْشٍ فَأُلْقُوا فِي طَوِيٍّ مِنْ أَطْوَاءِ بَدْرٍ وَسَاقَ الْحَدِيثَ بِمَعْنَى حَدِيثِ ثَابِتٍ عَنْ أَنَسٍ

امام بخاری اپنی "صحیح " میں حضرت سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کا قول نقل فرماتے ہیں کہ وہ خوارج کو بد ترین مخلوق سمجھتے تھے اور فرماتے کہ یہ وہ لوگ ہیں جو کافروں کے حق میں نازل شدہ آیات مسلمانوں پر چسپاں کرتے ہیں۔(صحيح البخاري، کتاب استتابة المرتدين، باب قتل الخوارج والملحدين…)

یہ ترجمۃ الباب ہے ۔ بَاب قَتْلِ الْخَوَارِجِ وَالْمُلْحِدِينَ بَعْدَ إِقَامَةِ الْحُجَّةِ عَلَيْهِمْ وَقَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُضِلَّ قَوْمًا بَعْدَ إِذْ هَدَاهُمْ حَتَّى يُبَيِّنَ لَهُمْ مَا يَتَّقُونَ وَكَانَ ابْنُ عُمَرَ يَرَاهُمْ شِرَارَ خَلْقِ اللَّهِ وَقَالَ إِنَّهُمْ انْطَلَقُوا إِلَى آيَاتٍ نَزَلَتْ فِي الْكُفَّارِ فَجَعَلُوهَا عَلَى الْمُؤْمِنِينَ

ابن تیمیہ کہتا ہے:"إنك لا تسمع الموتى"، اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم آپ مردوں کو نہیں سنا سکتے، سے مراد ایسا سننا ہے کہ جسے سننے کے بعد قبول کر لیا جائے اور اس پر عمل کیا جائے، اللہ تعالیٰ نے کافروں کو میت کی طرح کہا جو کہ پکارنے والے کا جواب نہیں دیتی، اور کافروں کو جانوروں کی طرح کا کہا، جو کہ آواز تو سنتے ہیں لیکن بات کا مطلب ومقصود نہیں سمجھتے۔ اور میت، اگر چہ کلام سنتی اور اس کا مطلب سمجھتی ہے لیکن اس کے لیے ممکن نہیں کہ وہ پکارنے والے کا جواب دے سکے اور اس کے امر و نہی کا امتثال کرسکے ، میت کو امر ونہی سے کچھ فائدہ نہیں ہوتا، اسی طرح کافر کو بھی امر ونہی کا کچھ فائدہ نہیں ہوتا اگرچہ وہ خطاب سنتا ہے اور اس کا معنی سمجھتا ہے، جیسا اللہ تعالیٰ نے فرمایا:"ولو علم الله فيهم خيراً لأسمعهم" یعنی اگر اللہ تعالیٰ ان میں کچھ بھلائی جانتا توا نہیں سنا دیتا۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)(مجموع الفتاوٰی، کتاب الجنائز، باب زيارة القبور، ج:24، ص:364، دار الوفاء)

او اعتقد ان الميت لا يسمع خطاب الحي لاعتقاده ان قوله انك لا تسمع الموتى يدل على ذلك أو اعتقد ان الله لا يعجب كما اعتقد ذلك شريح لاعتقاده ان العجب انما يكون من جهل السبب والله منزه عن الجهل أو اعتقد ان عليا أفضل الصحابة لاعتقاده صحة حديث الطير وان النبى صلى الله عليه وسلم قال اللهم ائتنى بأحب الخلق اليك يأكل معى من هذا الطائر أو اعتقد ان من جس للعدو وعلمهم بغزو النبى صلى الله عليه وسلم فهو منافق كما اعتقد ذلك عمر فى حاطب وقال دعنى اضرب عنق هذا المنافق او اعتقد ان من غضب لبعض المنافقين غضبة فهو منافق كما اعتقد ذلك اسيد بن حضير فى سعد بن عبادة وقال انك منافق تجادل عن المنافقين او اعتقد ان بعض الكلمات او الآيات انها ليست من القرآن لان ذلك لم يثبت عنده بالنقل الثابت كما نقل واحد من السلف انهم انكروا الفاظا من القران كانكار بعضهم وقضى ربك وقال انما هى ووصى ربك وإنكار بعضهم قوله واذ أخذ الله ميثاق النبيين وقال انما هو ميثاق بنى اسرائيل وكذلك هى فى قراءة عبد الله وانكار بعضهم او لم ييئس الذين آمنوا انما هي او لم يتبين الذين آمنوا وكما انكر عمر على هشام بن الحكم لما رآه يقرا سورة الفرقان ماقرأها وكما انكر طائفة من السلف على بعض القراء بحروف لم يعرفوها حتى جمعهم عثمان على المصحف الامام وكما أنكر طائفة من السلف والخلف ان الله يريد المعاصى لاعتقادهم أن معناه أن الله يحب ذلك ويرضاه ويأمر به وانكر طائفة ۔ (كتب ورسائل وفتاوى ابن تيمية في الفقه ج: 20 ص: 34,35) اسم الكتاب :: كتب ورسائل وفتاوى ابن تيمية في الفقه اسم المؤلف :: أحمد عبد الحليم بن تيمية الحراني أبو العباس ولادة المؤلف :: 661 وفاة المؤلف :: 728 دار النشر : مكتبة ابن تيمية اسم المحقق : عبد الرحمن محمد قاسم العاصمي النجدي الحنبلي ۔ (طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

جاہل قصہ گو واعظین کا رد اور خطباء و مقررین کےلیے شرائط

جاہل قصہ گو واعظین کا رد اور خطباء و مقررین کےلیے شرائط محترم قارئینِ کرام : مقرر کےلیے چار شرائط ہیں ، ان میں ایک بھی نہ پائی جائے تو تقریر...