Wednesday, 7 February 2018

اسلام میں اہل کتاب سے نکاح کا حکام

اسلام میں اہل کتاب سے نکاح کا حکام

بسم اللہ الڑّحمٰن الرّحیم : السّلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ ۔ محترم قارئین بہت سے احباب نے فقیر کو میسج کیئے کہ اہل کتاب سے نکاح کے بارے میں لکھیں مصروفیات کی وجہ سے تاخیر ہوتی رہی جس کےلیئے معذرت چاہتا ہوں ۔ پچھلے دو دن سے تمام مکاتب فکر کی کتب تفاسیر و فقہ و فتاویٰ جات کا مطالعہ کیا ان میں سے مختصر مگر جامع مضمون اس مسلہ کے متعلق فقیر ڈاکٹر فیض احمد چشتی اہل اسلام کی خدمت میں پیش کر رہا ہے اہل علم اگر کہیں غلطی پائیں تو فقیر کو آگاہ فرمائیں شکریہ ۔

اہل کتاب عورتوں سے نکاح کے بارے میں بھی شریعت میں تفصیلات موجود ہیں ، اہل کتاب سے نکاح اس وقت جائز ہے جب حقیقتاً وہ آسمانی کتاب کے ماننے والے اور اس کے تابعدار ہوں ۔ دھریے نہ ہوں ۔ فی زمانہ یہودونصاریٰ کی اکثریت آسمانی کتاب سے کوئی تعلق نہیں رکھتی لہٰذا ان سے نکاح جائز نہیں ۔ البتہ اگرتحقیق سے کسی عورت کا اہل کتاب ہون اثابت ہوجائے توا س سے اگرچہ نکاح جائز ہے تاہم چند مفاسد کی وجہ سے مکروہ ہے ۔

قرآن کریم میں غیر مسلموں کی دو بڑی قسمیں بتائی ہیں ۔ (1) کافر غیر کتابی ۔ (2) کافر کتابی ۔

دونوں اقسام میں کچھ احکامِ شرعی کے لحاظ سے فرق رکھا ہے۔ ہم اس فرق کو نظر انداز نہیں کرسکتے۔ غیر کتابی غیر مسلم مثلاً ہندو، سکھ، دھرئیے، بدھ مت وغیرہ کی عورت سے مسلمان مرد کا نکاح جائز نہیں، اور نہ ہی ان کے مردوں سے ہماری عورتوں کا نکاح جائز ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : لَا یَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُوْنَ الْکٰفِرِیْنَ اَوْلِیَآء مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَ الخ ۔ (سورہ آل عمران، 3: 28)
ترجمہ : مسلمان کافروں کو اپنا دوست نہ بنا لیں مسلمانوں کے سوا اور جو ایسا کرے گا اسے اللہ سے کچھ علاقہ نہ رہا مگر یہ کہ تم ان سے کچھ ڈرو اور اللہ تمہیں اپنے غضب سے ڈراتا ہے اور اللہ ہی کی طرف پھرنا ہے ۔

وَلاَ تَنكِحُواْ الْمُشْرِكَاتِ حَتَّى يُؤْمِنَّ وَلَأَمَةٌ مُّؤْمِنَةٌ خَيْرٌ مِّن مُّشْرِكَةٍ وَلَوْ أَعْجَبَتْكُمْ وَلاَ تُنكِحُواْ الْمُشْرِكِينَ حَتَّى يُؤْمِنُواْ َلَعَبْدٌ مُّؤْمِنٌ خَيْرٌ مِّن مُّشْرِكٍ وَلَوْ أَعْجَبَكُمْ أُوْلَـئِكَ يَدْعُونَ إِلَى النَّارِ وَاللّهُ يَدْعُوَ إِلَى الْجَنَّةِ وَالْمَغْفِرَةِ بِإِذْنِهِ وَيُبَيِّنُ آيَاتِهِ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُونَ ۔ (البقره ، 2 ۔ 221)
ترجمہ : اور شرک وا لی عورتوں سے نکاح نہ کرو جب تک مسلمان نہ ہو جائیں اور بیشک مسلمان لونڈی مشرکہ سے اچھی ہے اگرچہ وہ تمہیں بھاتی ہو اور مشرکوں کے نکاح میں نہ دو جب تک وہ ایمان نہ لائیں اور بیشک مسلمان غلام مشرک سے اچھا ہے اگرچہ وہ تمہیں بھاتا ہو، وہ دوزخ کی طرف بلاتے ہیں اور اللہ جنت اور بخشش کی طرف بلاتا ہے اپنے حکم سے اور اپنی آیتیں لوگوں کے لئے بیان کرتا ہے کہ کہیں وہ نصیحت مانیں ۔

مگر اہل کتاب کیلئے حکم یہ نہیں ، بلکہ فرق ہے۔ ارشاد ہے

اَلْیَوْمَ اُحِلَّ لَکُمُ الطَّیِّبٰتُط وَطَعَامُ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ حِلٌّ لَّکُمْص وَطَعَامُکُمْ حِلٌّ لَّهمْز وَالْمُحْصَنٰتُ مِنَ الْمُوْمِنٰتِ وَالْمُحْصَنٰتُ مِنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ مِنْ قَبْلِکُمْ اِذَآ اٰتَیْتُمُوْهنَّ اُجُوْرَهنَّ مُحْصِنِیْنَ غَیْرَ مُسٰفِحِیْنَ وَلَا مُتَّخِذِیْٓ اَخْدَانٍط وَمَنْ یَّکْفُرْ بِالْاِیْمَانِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُهز وَهوَ فِی الْاٰخِرَة مِنَ الْخٰسِرِیْنَ ۔ (المائده، 5: 5)
ترجمہ : آج تمہارے لئے پاک چیزیں حلال ہوئیں ، اور کتابیوں کا کھانا تمہارے لیے حلال ہوا، اور تمہارا کھانا ان کے لئے حلال ہے ، اور پارسا عورتیں مسلمان اور پارسا عورتیں ان میں سے جن کو تم سے پہلے کتاب ملی جب تم انہیں ان کے مہر دو قید میں لاتے ہوئے نہ مستی نکالتے اور نہ ناآشنا بناتے اور جو مسلمان سے کافر ہو اس کا کیا دھرا سب اکارت گیا اور وہ آخرت میں زیاں کار ہے ۔

قرآن کریم کی رو سے کفار میں بھی بعض امور میں فرق کیا گیا ہے ۔ کتابی کافر اور دوسرے کافروں میں فرق ہے ۔ کتابی عورت سے مسلمان مرد کا نکاح جائز ، جبکہ دوسری قسم سے حرام ہے ۔ کتابی غیر مسلم سے مراد وہ شخص ہے جو اللہ تعالیٰ ، اس کے فرشتوں ، اس کی کتابوں ، انبیاء علیہم السلام اور روز قیامت پر ایمان رکھنے کا دعویدار ہو ۔ ایسی کتابیہ سے مسلمان کا نکاح جائز ہے ۔
پہلی آیت کے مطابق مسلمان مردوں کا نکاح مشرک عورتوں سے اور مسلمان عورتوں کا نکاح مشرک مردوں سے ممنوع قرار دے دیا گیا جب تک کہ وہ مسلمان نہ ہو جائیں ۔ دوسری آیت کے مطابق صرف مردوں کو اہلِ کتاب عورتوں سے نکاح کی اجازت دی گئی بشرطیکہ وہ پاکدامن ہوں لیکن پہلی آیت والی شرط بہرصورت موجود رہے گی یعنی وہ مشرک نہ ہوں اور اگر تھیں تو نکاح سے قبل مسلمان ہو جائیں ۔

یحل للمومن ان یتزوج الکتابیته ولا یحل للمسلمه ان تزوج الکتابي کما لا یحل لها ان تزوج غیره فالشرط فی صحته نکاح المسلمه ان یکون الزوج مسلما ۔
ترجمہ : مسلمان کتابی عورت سے نکاح کر سکتا ہے لیکن مسلمان عورت کتابی مرد سے نکاح نہیں کر سکتی۔ جیسے کسی اور غیر مسلم سے شادی نہیں کر سکتی۔ پس مسلمان عورت کے نکاح کے لئے شرط یہ ہے کہ خاوند مسلمان ہو ۔

کسی عیسائی یہودی یا اہل کتاب لڑکی سے شادی کرنے کی شرط یہ ہے کہ وہ کسی نبی پر ایمان رکھتی ہو منزل من اللہ صحیفہ کا اعتراف کرتی ہو : وصح نکاح کتابیة مومنة بنبی مرسل مقرة بکتاب منزل ۔ (الدر المختار مع الشامی :۴/۱۲۵/۱۳۴/) لیکن آج کل کے اکثر عیسائی اور یہودی دہریہ ہیں اوردہریہ عورت سے مسلمان مرد کا نکاح نہیں ہوسکتا اگر کسی عیسائی یا یہودی عورت کے بارے میں تحقیق سے معلوم ہوجائے کہ یہ دہریہ نہیں ہے تو اس سے نکاح ہو جائے گا مگردوسرے خطرات کی بنا پر اس سے پرہیز واجب ہے مثلا اولاد کے کافر ہونے کا سخت خطرہ ہے بلکہ خود شوہر کا دین بھی خطرہ سے خالی نہیں ۔

اہل کتاب کے کفر کے باوجود ، ان کا ذبیحہ ، مسلمان کے لئے حلال ہے بشرطیکہ ذبح کرتے وقت صرف اﷲ کا نام لیں اور جانور حلال ہو ۔ ذبیحہ کے علاوہ گندم اور باقی غلے، دالیں، سبزیاں ، دودھ وغیرہ ہر چیز حلال ہے ۔ کتابی عورت سے مسلمان مرد کا نکاح جائز ہے ۔ بشرطیکہ مسلمان سے کتابی نہ بنی ہو ۔

محترم قارئین : جمہور صحابہ کرام اور تابعین رضی اللہ عنہم ان سے نکاح کے نتیجے میں پیدا ہونے والی خرابیوں کے باعث اس کو ناپسند فرماتے تھے ۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما تو اس کو ناجائز ہی سمجھتے تھے ، اور کوئی اس بابت دریافت کرتا تو جواب دیتے ہوئے کہتے کہ اس مسئلے میں اللّٰہ تعالی کا ارشاد واضح ہے کہ مشرک عورتوں سے اس وقت تک نکاح نہ کرو جب تک کہ وہ ایمان نہ لے آئیں ، اور میں نہيں جانتا کہ اس سے بڑا کونسا شرک ہوگا کہ وہ عیسیٰ بن مریم یا کسی دوسرے بندۂ خدا کو اپنا رب اور خدا قرار دے ۔ ( احکام القرآن جصاص)
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما تو دارالکفر کی کتابیہ عورتوں سے نکاح کو ہی منع کرتے تھے ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا واقعہ تو اس تعلق سے مشہور ہےکہ جب ان کو اطلاع ملی کہ حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ نے مدائن پہنچ کر ایک یہودی عورت سے نکاح کرلیا ہے تو آپ رضی اللہ عنہ نے خط لکھ کر ان کو طلاق دینے کا حکم دیا ۔حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے جواب میں لکھا کہ کیا وہ میرے لیئے حرام ہے ؟ تو دوبارہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس مضمون کا خط حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کو تحریر فرمایا : آپ کو قسم دیتا ہوں کہ میرا یہ خط اپنے ہاتھ سے رکھنے سے پہلے ہی اس کو طلاق دے کر آزاد کردو ۔ کیوں کہ مجھے یہ خطرہ ہےکہ دوسرے مسلمان بھی آپ کی اقتدا نہ کریں ۔ اور اہل ذمّہ اہل کتاب کی عورتوں کو ان کے حسن و جمال کی وجہ سے مسلمان عورتوں پر ترجیح دینے لگے تو مسلمان عورتوں کےلئے اس سے بڑی مصیبت کیا ہوگی ۔ ( کتاب الاثار )

اسی وجہ سے عام فقہائے کرام اس کی کراہت کے قائل ہیں : حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کا زمانہ خیرالقرون کا زمانہ ہے ۔ جب اس کا کوئی احتمال نہ تھا کہ کوئی یہودی ، نصرانی عورت کسی مسلمان کی بیوی بن کر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف کوئی سازش کرسکے ۔ اس وقت تو صرف یہ خطرات سامنے تھے کہ کہیں ان میں بدکاری ہوتو ان کی وجہ سے ہمارے گھرانے گندے ہوجائیں ۔ یا ان کے حسن و جمال کی وجہ سے لوگ اس کو ترجیح دینے لگیں ۔ جس کا نتیجہ یہ ہو کہ مسلمان عورتیں تکلیف میں پڑ جائیں ۔ مگر فاروقی نظر دوربیں اتنے ہی مفاسد کو سامنے رکھ کر ان حضرات کو طلاق پر مجبور کرتی ہے ۔ اگر آج کا نقشہ ان حضرات کے سامنے ہوتا تو اندازہ کیجیے کہ ان کا اس کے متعلق کیا عمل ہوتا ۔ اول تو وہ لوگ جو آج اپنے نام کے ساتھ مردم شماری کے رجسٹروں میں یہودی یا نصرانی لکھواتے ہیں ۔ ان میں سے بہت سے وہ لوگ ہیں جو اپنے عقیدہ کی رو سے یہودیت و نصرانیت کو ایک لعنت سمجھتے ہیں ۔ نہ ان کا تورات و انجیل پر عقیدہ ہے نہ حضرت موسیٰ و عیسیٰ علیہما السلام پر ۔ وہ عقیدہ کے اعتبار سے بالکل لامذہب اور دہریئے ہیں ۔ محض قومی یا رسمی طورپر اپنے آپ کو یہودی اور نصرانی کہتے ہیں ۔ ظاہر ہےکہ ان لوگوں کی عورتیں مسلمان کےلئے کسی طرح حلال نہيں ۔ اور بالفرض اگر وہ اپنے مذہب کے پابند بھی ہوں تو ان کو کسی مسلمان گھرانہ میں جگہ دینا اپنے پورے خاندان کےلئے دینی اور دنیوی تباہی کو دعوت دیناہے ۔ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف جو سازشیں اس راہ سے اس آخری دور میں ہوئیں اور ہوتی رہتی ہیں ، جن کے عبرتنامے روز آنکھوں کے سامنے آتے ہیں کہ ایک لڑکی نے پوری مسلم قوم اور سلطنت کو تباہ کردیا ۔ یہ ایسی چیزیں ہیں کہ حلال و حرام سے قطع نظر بھی کوئی ذی ہوش انسان اس کے قریب جانے کےلئے تیار نہيں ہوسکتا ۔ الغرض قرآن و سنت اور اسوۂ صحابہ کی رو سے مسلمانوں پر لازم ہےکہ آج کل کی کتابی ( یہودیوں ، عیسائیوں کی ) عورتوں کو نکاح میں لانے سے کلّی پرہیز کریں ۔

محترم قارئین : اس تفصیل سے اندازہ ہوگیا ہوگا کہ اسلام کا غیر مسلموں سے نکاح کے منع کا حکم کس قدر عدل پر مبنی ہے ۔ اور ان سے نکاح کرنا کس قدر سنگین اور خطرناک ہے ۔ اور اہل کتاب کی عورتوں سے نکاح کرنا بھی کسی خطرے سے کم نہيں ہے ۔ اس سنگین صورتحال سے بچنے کےلئے ضروری ہے کہ ہم اسلام اور احکام اسلام کے شجر ہائے سایہ دار کی پناہ کو لازم پکڑ لیں اور اس کی پناہ کو عزیر از جان، مال و عیال سمجھیں ۔ گو کہ ہمیں یہ ناگوار ہی کیوں نہ محسوس ہو ۔ کیوں کہ بہت ممکن ہےکہ جسے ہم اپنے لیئے اچھا سمجھ رہے ہوں در حقیقت وہ ہمارے لیئے اچھا نہ ہو کیوں کہ ہمارا علم ، ہماری عقل اور ہمارے تجربات خدائے علیم و حکیم و برتر کے سامنے ہیچ ہیں ۔ (ماخوذ : قرآن کریم ۔ تمام مکاتب فکر کی تفاسیر و کتب فقہ سے یہ مضمون اخذ کیا گیا ہے ) ۔ ( طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

جاہل قصہ گو واعظین کا رد اور خطباء و مقررین کےلیے شرائط

جاہل قصہ گو واعظین کا رد اور خطباء و مقررین کےلیے شرائط محترم قارئینِ کرام : مقرر کےلیے چار شرائط ہیں ، ان میں ایک بھی نہ پائی جائے تو تقریر...