Tuesday, 6 February 2018

سورة يوسف آیت نمبر 106 کی مختصر تفسیر اور خارجی وہابیوں کو مدللّ جواب

سورة يوسف آیت نمبر 106 کی مختصر تفسیر اور خارجی وہابیوں کو مدللّ جواب

ایسا ممکن ہی نہیں ہوں خارجی اور وہ مسلمانان اہلسنت و جماعت پر کفر و شرک کے فتوے نہ لگائیں اگر یہ فتوہ کفر و شرک نہیں لگائیں گے تو معلوم کیسے ہوگا کہ یہ خارجی ہیں جبکہ خارجی جہنم کے کتے ہیں ۔ احدیث مبارکہ :

سنن ترمذی میں امام ابو غالب نے حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے : فَقَالَ أَبُوْ أُمَامَةَ رضی الله عنه : کِلَابُ النَّارِ شَرُّ قَتْلَی تَحْتَ أَدِيْمِ السَّمَائِ خَيْرُ قَتْلَی مَنْ قَتَلُوْهُ ثُمَّ قًرَأَ : ﴿يَوْمَ تَبْيَضُّ وُجُوْهٌ وَّتَسْوَدُّ وُجُوْهٌ﴾ إِلَی آخِرِ الآيَةِ قُلْتُ لِأَبِي أُمَامَةَ : أَنْتَ سَمِعْتَهُ مِنْ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم ؟ قَالَ : لَوْ لَمْ أَسْمَعْهُ إِلَّا مَرَّةً أَوْ مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا أَوْ أَرْبَعًا حَتَّی عَدَّ سَبْعًا مَا حَدَّثْتُکُمُوْهُ .
ترجمہ : حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : (یہ خوارج) جہنم کے کتے ہیں، آسمان کے نیچے بدترین مقتول ہیں اور وہ شخص بہترین مقتول ہے جسے انہوں نے قتل کیا۔ پھر آپ نے یہ آیت پڑھی : (جس دن کئی چہرے سفید ہوں گے اور کئی چہرے سیاہ ہوں گے۔) حضرت ابو غالب کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے عرض کیا : کیا آپ نے یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے؟ انہوں نے فرمایا : اگر میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے (یہ فرمان) ایک، دو، تین، چار یہاں تک کہ سات بار بھی سنا ہوتا تو تم سے بیان نہ کرتا (یعنی میں نے یہ بات خود حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے متعدد بار سنی ہے)۔
(. ترمذی، السنن، کتاب تفسير القرآن، باب ومن سورة آل عمران، 5 : 226، رقم : 3000)(أحمد بن حنبل، المسند، 5 : 256، رقم : 22262)(حاکم، المستدرک، 2 : 163، رقم : 2655)(بيهقي، السنن الکبری، 8 : 188)(طبراني، مسند الشاميين، 2 : 248، رقم : 1279)

امام ابن ابی شیبہ، بیہقی اور طبرانی نے حضرت ابو غالب سے روایت کیا کہ حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ نے خوارج اور حروریہ کے متعلق بیان فرمایا : کِلَابُ جَهَنَّمَ، شَرُّ قَتْلَی قُتِلُوْا تَحْتَ ظِلِّ السَّمَاءِ، وَ مَنْ قَتَلُوْا خَيْرُ قَتْلَی تَحْتَ السَّمَاءِ . . . إلی الآخر .
ترجمہ : یہ جہنم کے کتے ہیں اور زیرِ آسمان تمام مقتولوں سے بدترین مقتول ہیں اور ان کے ہاتھوں شہید ہونے والے زیر آسمان تمام شہیدوں سے بہترین شہید ہیں ۔
(ابن أبي شيبة، المصنف، 7 : 554، رقم : 37892)(طبراني، المعجم الکبير، 8 : 267، 268، رقم : 8034، 8035)(بيهقي، السنن الکبری، 8 : 188)

جبکہ واضح حدیث موجود ہے : حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شہداءِ اُحد پر (دوبارہ) آٹھ سال بعد اس طرح نماز پڑھی گویا زندوں اور مُردوں کو الوداع کہہ رہے ہوں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منبر پر جلوہ افروز ہوئے اور فرمایا : میں تمہارا پیش رو ہوں، میں تمہارے اُوپر گواہ ہوں، ہماری ملاقات کی جگہ حوضِ کوثر ہے اور میں اس جگہ سے حوضِ کوثر کو دیکھ رہا ہوں اور مجھے تمہارے متعلق اس بات کا ڈر نہیں ہے کہ تم (میرے بعد) شرک میں مبتلا ہو جاؤ گے بلکہ تمہارے متعلق مجھے دنیاداری کی محبت میں مبتلا ہو جانے کا اندیشہ ہے۔ حضرت عقبہ فرماتے ہیں کہ یہ میرا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا آخری دیدار تھا (یعنی اس کے بعد جلد ہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وصال ہو گیا)(أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : المغازي، باب : غزوة أحد، 4 / 1486، الرقم : 3816)

حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بے شک میں تمہارا پیش رو اور تم پر گواہ ہوں۔ بیشک خدا کی قسم! میں اپنے حوض (کوثر) کو اس وقت بھی دیکھ رہا ہوں اور بیشک مجھے زمین کے خزانوں کی کنجیاں (یا فرمایا : زمین کی کنجیاں) عطا کر دی گئی ہیں اور خدا کی قسم! مجھے یہ ڈر نہیں کہ میرے بعد تم شرک کرنے لگو گے بلکہ مجھے ڈر اس بات کا ہے کہ تم دنیا کی محبت میں مبتلا ہو جاؤ گے ۔ (أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : المناقب، باب : علامات النَّبُوَّةِ فِي الإِسلام، 3 / 1317، الرقم : 3401)

حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے ہی مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مجھے تمہارے متعلق اس بات کا تو ڈر ہی نہیں ہے کہ تم میرے بعد شرک کرو گے بلکہ مجھے ڈر ہے کہ تم دنیا کی محبت میں گرفتار ہو جاؤ گے اور آپس میں لڑو گے اور ہلاک ہو گے جیسا کہ تم سے پہلے لوگ ہوئے۔ حضرت عقبہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ یہ آخری بار تھی جب میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو منبر پر جلوہ افروز دیکھا (یعنی اس کے بعد جلد ہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وصال ہو گیا) ۔ (أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب : الفضائل، باب : اثبات حوض نبينا صلي الله عليه وآله وسلم وصفاته، 4 / 1796)

جبکہ ان دو ٹکے کے جاہلوں کو شرک کا خوف ستانے لگا ہے اور یہ خارجی جس آیت کو مسلمانان اہلسنت پر فٹ کرتے ہیں اسکا سیاق وسباق اور پس منظر ماحظہ کریں :

وَ مَا یُؤۡمِنُ اَکۡثَرُہُمۡ بِاللّٰہِ اِلَّا وَ ہُمۡ مُّشۡرِکُوۡنَ (سورة يوسف 106)
وہابی کا ترجمہ : ان میں سے اکثر لوگ باوجود اللہ پر ایمان رکھنے کے بھی مشرک ہی ہیں ۔
اہلسنت کا ترجمہ : اور ان میں اکثر وہ ہیں کہ الله پر یقین نہیں لاتے مگر شرک کرتے ہیں ۔
مختصر تفسیر : جمہور مفسرین علیہم الرّحمہ کے نزدیک یہ آیت مشرکین کے رد میں نازل ہوئی جو کہ الله تعالٰی کی خالقیت رازقیت یعنی کی الله کو خالق بھی مانتے اور رزق دینے والا بھی بھی مانتے تھے اور ساتھ بُت پرستی بھی کر کے غیروں کو عبادت میں اس کا شریک بھی کرتے تھے ۔
اس پوری سورة کو پڑھا جائے یعنی اس کے سیاق و سباق کو پڑھا جائے تو اس آیت سے واضع تور پر ثابت ہو جاتا ہے کہ یہ کفار پر نازل ہوئی ۔
تفسیر مدارک ، تفسیر مظہری : اور باقی تفاسیر اٹھا کر دیکھ لے ۔

تفسیر ابن عباس کا خوالہ : اور اکثر اہل مکہ جو دل میں الله کی عبودیت کو مانتے بھی ہیں مگر علانیہ وحدانیت خداوندی میں شرک کرتے ہیں ۔ ( تفسیر ابن عباس صفحہ:۔ ۱۰۳ آیت:۔۱۰۶)
اگر خارجی واقع حلالی ہں تو مجھے بتائے اس وقت کون سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تھے جو معاذالله ایمان لا کر بھی شرک کرتے تھے ؟ خاری اس بات کا جواب دے دیں تو بحث ہی ختم ہو جاتی ۔
جتنی بھی تفاسیر موجود ہیں سب کو اٹھا کر دیکھ لیں یہاں اس آیت کے محاطب کفار ہی ہیں ۔
اب میں چلتا خارجیوں کے گھر کی طرف تانکہ خارجی کسی کو آئندہ یہ آیت دکھا کر گمراہ نہ کر سکیں اس لئے میں ان کے گھر سے ہی اس آیت کو کفار پر نازل ہونا ثابت کروں گا ۔
فضائل صحابہ کتاب امام احمد بن خنبل رحمتہ الله علیہ کی ہے اس کا ترجمہ خارجی وہابی نوید احمد بشار نے کیا ہے ۔(اسکن ہم ساتھ پوسٹ کر رہے ہیں)

مطلب بن عبدالله رحمتہ الله علیہ سے روایت ہے کہ سیدنا عبدالله بن زبیر رضی الله عنہما نے نماز تہجد میں ایک آیت پڑھی ، اس کو بار بار پڑھتے رہے یہاں تک کہ صبح ہو گئی، انہوں نے کہا:اس امت کا بڑا عالم کون ہے؟ میں نے کہا: سیدنا عبدالله بن عباس رضی الله عنہما ہیں ۔ پھر انہوں نے مجھے سیدنا عبدالله بن عباس رضی الله عنہما کو بلانے بیجھا (جب ابن عباس آئے) تو سیدنا عبدالله بن زبیر رضی الله عنہما نے ان سے پوچھا : میں نے آج رات ایک آیت کو پڑھا ہے ، میں اس سے آگے نہیں بڑھ سکا ، مجھے اس آیت نے بے چین کر دیا ہے یہاں تک کہ صبح ہو گئی ہے (یعنی اسی ایک آیت کو بار بار پڑھتا رہا ہوں) (ومایومن اکثرھم بالله الاوھم مشرکون) (سورة یوسف:۱۰۶) (ان میں سے اکثر لوگ باوجود ایمان لانے کےبھی مشرک ہی ہیں) سیدنا عبدالله بن عباس رضی الله عنہما نے فرمایا : آپ بے چین نہ ہوں اس آیت سے ہم (مسلمان) مراد نہیں ہیں بلکہ اہل کتاب مراد ہیں جیسا کہ الله فرماتا ہے : ( ولئن سالتھم من خلق السماوات والارض لیقولن الله) (سورة لقمان:۲۵) ترجمہ : (اگر ان سے پوچھو زمین اور آسمان کا خالق کون ہے ؟ کہیں گے الله ہے) ( بیدہ ملکوت کل شئء وھویجیرولا یجار علیه) (سورة المومنون:۸۸) الله کے ہاتھ ہر چیز کا اختیار ہے وہ پناہ دیتا ہے اور اس کے مقابلے میں کوئی پناہ دینے والا نہیں ہے ۔ (سیقولون الله) (سورة المومنون: ۸۹) ترجمہ:(یہ کہیں گے الله ہے) پس اہل کتب یہاں الله پر ایمان لاتے ہیں اور حالانکہ شرک بھی کرتے ہیں ۔

اگے نیچے خارجی وہابی اس حدیث کی صحت کے بارے میں لکھتا ہے کہ :

تحقیق : اسناد حسن ؛ تخریج : جامع البیان فی ای القرآن للطبری:۵۰/۳)

یہیں حدیث تفسیر مظہری یا تفسیر مدارک میں بھی موجود ہے ۔

اب ان لوگوں کو شرم سے ایک پیالے میں پانی ڈال کر اور وہاں ڈوب کر مر جانا چاہیئے ۔ یہ خارجی وہابی کفار کے متعلق نازل شدہ آیات مسلمانوں کو دکھا کر انہیں گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔
بخاری شریف کی ہی ایک حدیث ہے جو ان الفاظ میں ہے کہ : بد ترین ہیں وہ لوگ جو کفار کے متعلق نازل شدہ آیات مسلمانوں پر فٹ کرتے ہیں ۔ ( صحیح بخاری،باب قتل الخوارج، جلد 2 ص 1024)

اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا ہے کہ وہ مسلمانان اہلسنت کو خارجی نجدی وہابی فتہ کے شر و فساد سے محفوظ رکھے آمین ۔ (طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

جاہل قصہ گو واعظین کا رد اور خطباء و مقررین کےلیے شرائط

جاہل قصہ گو واعظین کا رد اور خطباء و مقررین کےلیے شرائط محترم قارئینِ کرام : مقرر کےلیے چار شرائط ہیں ، ان میں ایک بھی نہ پائی جائے تو تقریر...