Friday, 9 February 2018

اللہ سے معافی مانگو پھر اس کے حضور توبہ کرو

اللہ سے معافی مانگو پھر اس کے حضور توبہ کرو

اللہ کی طرف رجوع اور توبہ یہ انسانیت کی ابتدا بھی ہے ، توبہ انسان کی پہلی ،درمیانی اور آخری منزل ہے، بندہ سا لک اسے کبھی اپنے سے جدا نہیں کرتا، مدت تک توبہ اور رجوع کی حالت میں رہتا ہے، اگر ایک مقام سے دوسرے مقام کی طرف سفر اختیار کرتا ہے تو توبہ اس کی رفیق ہوتی ہے، جہا ں وہ جائے، پس توبہ بندہ کی ابتدا بھی ہے اور انتہا بھی ،بلکہ ابتدا کی طرح موت کے وقت اس کی ضرورت اور بھی بڑھ جاتی ہے ۔ (مدارج السالکین صفحہ 141)

توبہ دل کا نور ہے ، نفس کی پاکیزگی ہے ، توبہ انسان کو اس حقیقی زندگی کی طرف راہ نمائی کرتی ہے ۔ اے غافل انسانو ! آوٴ ! قبل اس کے کہ زندگی کا قافلہ کوچ کر جائے اور موت اپنی تمام تر حشر سامانیوں کے ساتھ آ موجود ہو ، توبہ کرنے والوں کی ہم نشینی اختیار کر لو ، کیوں کہ یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ قبر محض ایک مٹی کا گڑھا نہیں ، بلکہ جنت کے باغو ں میں سے ایک باغ ہے یا جہنم کے گڑھوں میں سے ایک گڑھا ہے ۔ (چشتی ، کما رواہ الترمذي في سننہ عن أبي ھریرة رضی الله عنہ، کتاب صفة القیامة: 4/639،640، رقم الحدیث : 2460 )

فرمان باری تعالیٰ ہے : وَمَن تَابَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَإِنَّهُ يَتُوبُ إِلَى اللَّهِ مَتَابًا ۔
ترجمہ : اور جس نے توبہ کر لی اور نیک عمل کیا تو اس نے اللہ کی طرف (وہ) رجوع کیا جو رجوع کا حق تھا ۔ (سورہ الفرقان، 25 : 71)

فرمان باری تعالیٰ ہے : إِنَّ اللّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ .
ترجمہ : بیشک اﷲ بہت توبہ کرنے والوں سے محبت فرماتا ہے اور خوب پاکیزگی اختیار کرنے والوں سے محبت فرماتا ہے ۔ (البقرۃ، 2 : 222)

فرمان الہٰی ہے : وَمَن يَعْمَلْ سُوءًا أَوْ يَظْلِمْ نَفْسَهُ ثُمَّ يَسْتَغْفِرِ اللّهَ يَجِدِ اللّهَ غَفُورًا رَّحِيمًا.
ترجمہ : اور جو کوئی برا کام کرے یا اپنی جان پر ظلم کرے پھر اللہ سے بخشش طلب کرے وہ اللہ کو بڑا بخشنے والا نہایت مہربان پائے گا ۔ ( سورہ النساء، 4 : 110)

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : فَاسْتَغْفِرُوهُ ثُمَّ تُوبُواْ إِلَيْهِ إِنَّ رَبِّي قَرِيبٌ مُّجِيبٌ ۔
ترجمہ : سو تم اس سے معافی مانگو پھر اس کے حضور توبہ کرو۔ بیشک میرا رب قریب ہے دعائیں قبول فرمانے والا ہے ۔ (ھود، 11 : 61)

ان آیات کے علاوہ بہت سی آیات ہیں جن میں اللہ تعالی نے اپنے بندوں کو توبہ کی طرف رغبت دلائی ہے اور توبہ قبول کرنے کا وعدہ فرمایا ہے ۔ لیکن توبہ سچے دل سے ہونی چاہیے اور پکی ہونی چاہیے تاکہ دوبارہ بندہ پھر اسی گندگی میں نہ گر جائے جس سے اٹھ کر اس نے صفائی کی تھی ۔

توبہ کے فضائل احادیث مبارکہ کی روشنی میں

حارث بن سوید کا بیان ہے کہ حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے ہم سے دو حدیثیں بیان فرمائیں، ایک حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کی اور دوسرا اُن کا اپنا قول ہے۔ اپنا قول یہ بیان فرمایا کہ مومن اپنے گناہوں کو اس طرح دیکھتا ہے جیسے کوئی آدمی پہاڑ کے نیچے بیٹھا ہو اور وہ ڈرے کہ کہیں یہ اوپر نہ آ گرے جبکہ فاسق و فاجر آدمی اپنے گناہوں کو اس طرح دیکھتا ہے جیسے ناک کے اوپر سے مکھی گزرتی ہوئی چلی گئی اور فرمایا کہ اس طرح ابو شہاب نے اپنے ہاتھ کے ذریعے ناک کے اوپر سے گزرنا بتایا۔ پھر حدیث بیان فرمائی کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی توبہ پر اس سے بھی زیادہ خوش ہوتا ہے جیسے کوئی آدمی پر خطر منزل پر ٹھہرے اور اس کے پاس سواری ہو جس کے اوپر کھانے پینے کی چیزیں ہوں۔ چنانچہ وہ اپنا سر رکھ کر سو جاتا ہے اور جب بیدار ہوتا ہے تو اس کی سواری کہیں جا چکی ہوتی ہے پھر گرمی اور پیاس کی شدت اُسے تڑپاتی ہے یا جو اللہ نے چاہا۔ اس نے کہا کہ میں اپنی جگہ کی طرف لوٹ جاتا ہوں۔ چنانچہ وہ واپس لوٹتا اور سو جاتا ہے۔ جب (بیدار ہو کر) سر اٹھاتا ہے تو اس کی سواری پاس ہوتی ہے۔ اسی طرح ابو عوانہ اور جریر نے اعمش سے روایت کی۔ شعبہ، ابو مسلم، اعمش، ابراہیم، تیمی نے حارث بن سوید سے روایت کی۔ ابو معاویہ، اعمش، عمارہ، اسود نے حضرت عبداﷲ بن مسعود سے اس کو روایت کیا۔ ابراہیم تیمی، حارث بن سوید نے حضرت عبداﷲ بن مسعود سے روایت کی ۔
(بخاري، الصحیح، 5 : 2324، رقم : 5949، دار ابن کثیر الیمامۃ بیروت،چشتی)

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی توبہ پر اس سے بھی زیادہ خوش ہوتا ہے جیسے تم میں سے کسی کا اونٹ جنگل میں گم ہونے کے بعد دوبارہ اُسے مل جائے ۔
(بخاري، الصحیح، 5 : 2325، رقم : 5950)

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں اپنے بندے کے گمان کے ساتھ ہوں اور جہاں وہ ذکر کرتا ہے میں اسی کے ساتھ ہوتا ہوں اور بخدا اللہ کو اپنے بندے کی توبہ پر اس سے زیادہ خوشی ہوتی ہے کہ جب تم میں سے کسی شخص کی جنگل میں گم شدہ سواری مل جائے اور جو شخص بقدر ایک بالشت میرا قرب حاصل کرتا ہے میں بقدر ایک ہاتھ اس کے قریب ہوتا ہوں اور جو بقدر ایک ہاتھ میرے قریب ہوتا ہے میں بقدر چار ہاتھ اس کے قریب ہوتا ہوں، اور جو شخص میرے پاس چل کر آتا ہے میں اس کے پاس دوڑتا ہوا آتا ہوں ۔ (مسلم، الصحیح، 4 : 2102، رقم : 2675، درا احیاء التراث العربي بیروت،چشتی)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ تمہاری توبہ سے اتنا ہی خوش ہوتا ہے جیسے کوئی شخص اپنی گم شدہ چیز کے ملنے سے خوش ہو ۔ (ابن ماجہ، السنن، 2 : 1419، رقم : 4247، دار الفکر بیروت)

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا اگر تم اتنے گناہ کرو کہ وہ آسمان تک پہنچ جائیں اور پھر خدا سے توبہ کرو تو خدا تمہاری توبہ قبول فرمائے گا ۔ (ابن ماجہ، السنن، 2 : 1419، رقم : 4248)

توبہ ہے کیا ؟

ابن معقل رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں میں ایک دن اپنے والد کے ساتھ حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ کی خدمت میں گیا وہ فرما رہے تھے ۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا شرمندگی اور پشیمانی کا نام توبہ ہے ۔ معقل نے عرض کیا کیا واقعی آپ نے یہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے ۔ انہوں نے فرمایا ہاں ۔ (ابن ماجہ، السنن، 2 : 1420، رقم : 4252)

بندہ اپنے گناہوں سے نادم وپشیمان ہو کر سچے دل سے توبہ کر لے تو اللہ تعالی کو خوشی ہوتی ہے اور اللہ تعالی معاف فرماتا ہے ، لہٰذا گنہگار کو مایوس نہیں ہونا چاہیے ۔ سچے دل سے پچھلے گناہوں پر نادم ہو کر آئندہ کے لیے پکی توبہ کرنی چاہیے ، اللہ تعالی معاف فرمائے گا ۔ (طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

جاہل قصہ گو واعظین کا رد اور خطباء و مقررین کےلیے شرائط

جاہل قصہ گو واعظین کا رد اور خطباء و مقررین کےلیے شرائط محترم قارئینِ کرام : مقرر کےلیے چار شرائط ہیں ، ان میں ایک بھی نہ پائی جائے تو تقریر...