Monday, 12 February 2018

شافع محشر صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی امت کےلیئے قیامت کے دن شفاعت اختیار فرمانا

شافع محشر صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی امت کےلیئے قیامت کے دن شفاعت اختیار فرمانا

حضرت عوف بن مالک اشجعی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میرے پاس اللہ کی طرف سے پیغام لے کر آنے والا آیا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے میری آدھی امت کو بغير حساب جنت میں داخل کرنے اور شفاعت کرنے کے درمیان اختیار دیا؟ پس میں نے شفاعت کو اختیار کر ليا کیونکہ یہ ہر اس شخص کے لئے ہے جو اللہ کے ساتھ شرک کرتا ہوا نہیں مرے گا ۔(أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : صفة القيامة، باب : ما جاء في الشفاعة، 4 / 627، الرقم : 2441.)

حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مجھے اختیار دیا گیا کہ چاہے میں (قیامت کے روز) شفاعت کا حق اختیار کروں یا میری آدھی امت بغير حساب کے جنت میں داخل ہو جائے؟ پس میں نے شفاعت کو اختیار کر ليا کیونکہ وہ عام تر اور زیادہ کفایت کرنے والی ہے۔ تمہارے خیال میں وہ پرہیزگاروں کے لئے ہوگی؟ نہیں، بلکہ وہ گناہ گاروں، خطا کاروں اور گناہوں سے آلودہ لوگوں کے لیے ہے ۔
(أخرجه ابن ماجة في السنن، کتاب : الزهد، باب : ذکر الشفاعة، 2 / 1441، الرقم : 4311، والکناني في مصباح الزجاجة، 4 / 260، الرقم : 1549.)

حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مجھے اختیار دیا گیا کہ چاہے میں (قیامت کے روز) شفاعت اختیار کروں یا میری آدھی امت بغير حساب کے جنت میں داخل ہو جائے؟ پس میں نے شفاعت کو اختیار کر ليا کیونکہ وہ عام تر اور زیادہ کفایت کرنے والی ہے۔ تمہارے خیال میں وہ پرہیزگاروں کے لئے ہوگی؟ نہیں، بلکہ وہ گناہوں سے آلودہ لوگوں اور خطاکاروں کے لیے ہے ۔ اسے امام احمد بن حنبل، ابنِ ابی عاصم اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔ امام منذری نے کہا ہے : اس کی اِسناد ٹھیک ہے ۔ (أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 2 / 75، الرقم : 5452، وابن أبي عاصم في السنة، 2 / 368، الرقم : 791، والبيهقی في الإعتقاد، 1 / 202، والمنذري في الترغيب والترهيب، 4 / 242، الرقم : 5518، والهيثمي في مجمع الزوائد، 10 : 378.)

حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ہم کسی غزوہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ سفر پر تھے۔ فرماتے ہیں : حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رات کے آخری حصہ میں ہمارے ساتھ آرام کے لیے اترے، پس میں رات کے ایک حصے میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ڈھونڈتا ہوا آپ کی آرام گاہ کی طرف گیا تو میں نے آپ کو وہاں نہ پایا۔ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ڈھونڈتا ہوا میدان کی طرف نکل گیا تو ایک اور صحابی کو دیکھا کہ وہ بھی میری طرح آپ کی تلاش میں ہے۔ فرماتے ہیں : ہم اسی حالت میں تھے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنی طرف تشریف لاتے دیکھ کر ہم نے عرض کیا : یارسول اﷲ! آپ دارالحرب میں ہیں اور ہمیں آپ کی فکر ہے لہذا اگر آپ کو کوئی حاجت پیش آئی تو کیوں نہ آپ نے کسی غلام کو فرمایا کہ وہ آپ کے ساتھ جاتا؟ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں نے ہوا کی سرسراہٹ یا شہد کی مکھیوں کی بھنبھناہٹ جیسی آواز سنی اس اثناء میں میرے رب کی طرف سے آنے والا (جبرائیل وحی لے کر) آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اس نے مجھے میری تہائی امت (بغير حساب کے) جنت میں داخل کرنے اور شفاعت کے درمیان اختیار دیا؟ تو میں نے ان کے لیے شفاعت کو اختیار فرما ليا اس لئے کہ مجھے معلوم ہے کہ وہ ان کے لیے زیادہ وسیع ہے۔ پھر اس نے مجھے (دوبارہ) میری آدھی امت جنت میں داخل فرمانے اور شفاعت کے درمیان اختیار دیا؟ تو میں نے ان کے لیے اپنی شفاعت کو اختیار کر ليا اور میں جانتا ہوں کہ وہ ان کے لیے زیادہ وسعت کی حامل ہے۔ ان دونوں نے عرض کیا : یا رسول اﷲ! آپ اﷲ تعالیٰ سے دعاکیجئے کہ وہ ہمیں آپ کی شفاعت کا اہل بنائے۔ آپ نے ان دونوں کے لیے دعا فرمائی پھر انہوں نے (دیگر) صحابہ کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس فرمان کے بارے میں آگاہ کیا تو وہ آپ کے پاس آنا شروع ہوگئے اور عرض کرنے لگے : یا رسول اﷲ! آپ اﷲتعالیٰ سے دعا کیجئے کہ وہ ہمیں آپ کی شفاعت سے نوازے تو آپ نے ان کے لیے دعا فرمائی۔ جب آپ کے پاس لوگوں کا کثیر جھرمٹ ہوگیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : یقیناً وہ شفاعت ہر اس شخص کے لیے ہے جو اس حال میں فوت ہوا کہ لَا إِلٰهَ إِلاَّ اﷲُ کی گواہی دیتا ہو ۔ (أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 4 / 415، الرقم : 19724، والروياني في المسند، 1 / 330، الرقم : 501، والهيثمي في مجمع الزوائد، 10 / 368.)

حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ بے شک حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ آپ کی حفاظت کا فریضہ سرانجام دیتے تھے۔ ایک رات میں بیدار ہوا تو آپ کو اپنی آرام گاہ میں نہ دیکھ کر میرے دل میں کسی ناگہانی واقعہ کے پیش آنے کا خیال آیا۔ پس میں حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تلاش میں نکلا تو دیکھا کہ معاذ رضی اللہ عنہ بھی میری طرح اسی لگن میں ہے۔ اسی اثناء میں ہم نے ہوا کی سرسراہٹ جیسی آواز سنی تو اپنی جگہ پر ٹھہر گئے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آواز کی سمت سے تشریف لا کر فرمایا : کیا تم جانتے ہو کہ میں کہاں تھا؟ اور کس حال میں تھا؟ میرے رب عزوجل کی طرف سے ایک پیغام لیکر آنے والا آیا کہ اس نے مجھے میری آدھی امت بغير حساب کے جنت میں داخل کرنے اور شفاعت کے درمیان اختیار دیا ہے؟ میں نے شفاعت کو اختیار کر ليا۔ انہوں نے عرض کیا : یا رسول اﷲ! آپ اﷲتعالیٰ سے دعا کیجئے کہ وہ ہمیں آپ کی شفاعت سے بہرہ مند فرمائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم اور ہر وہ شخص جو اس حال میں فوت ہوا کہ اﷲ کے ساتھ شرک نہ کرتا ہو میری شفاعت کا مستحق ہوگا ۔ اسے امام احمد نے روایت کیا ہے اور اس کی اِسناد حسن ہے ۔ (أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 4 / 404، الرقم : 19618. طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

حضرت معاذ بن جبل اور ابو موسیٰ رضی اﷲ عنہما فرماتے ہیں : حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (سفر کے دوران) جب کسی منزل پر پڑاؤ ڈالتے تو مہاجرین آپ کے ارد گرد (کیمپ) ڈال لیتے۔ فرماتے ہیں : (اسی طرح کسی سفر کے دوران) ہم ایک جگہ پر اترے تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قیام فرمایا اور ہم آپ کے ارد گرد تھے۔ فرماتے ہیں : میں اور معاذ رات کو نیند سے بیدار ہوئے تو (آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو) دیکھا۔ (آپ کو اپنی جگہ پر نہ پاکر) ہم آپ کی تلاش میں نکل پڑے تو ہم نے بادلوں کی گڑگڑاہٹ جیسی آواز سنی، اس اثناء میں آپ کو تشریف لاتے دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تمہارا کیا معاملہ ہے؟ انہوں نے عرض کیا : ہم نیند سے بیدار ہوئے تو آپ کو اپنی جگہ پر نہ دیکھ کر ہم ڈرگئے کہ شاید آپ کے ساتھ کوئی معاملہ پیش آیا ہے لہذا ہم آپ کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : (اﷲ تعالیٰ کی طرف سے) ایک آنے والا حالتِ نیند میں میرے پاس آیا تو اس نے مجھے میری آدھی امت کے بغير حساب کے جنت میں داخل کیے جانے یا شفاعت کرنے کا اختیار دیا؟ پس میں نے ان کے لیے شفاعت کو اختیار کر ليا۔ ہم نے عرض کیا : ہم آپ سے اسلام کے صدقے اور آپ کے ساتھ صحابیت کا شرف پانے کے وسیلہ سے التجا کرتے ہیں کہ آپ ہمیں جنت میں داخل فرمائیں گے۔ فرماتے ہیں : لوگ آپ کے اردگرد جمع ہوگئے اور انہوں نے بھی آپ سے ہمارے کہنے کی طرح عرض کیا اور لوگوں کی تعداد بڑھتی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں اپنی شفاعت ہر اس شخص کے لیے کروں گا جو اس حال میں فوت ہوا کہ اﷲ تعالیٰ کے ساتھ شرک نہ کرتا ہو ۔ اسے امام احمد نے روایت کیا ہے اور اس کی اِسناد حسن ہے ۔ (أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 5 / 232، الرقم : 22025، والهيثمي في مجمع الزوائد، 10 / 368.)

حضرت عوف بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں : حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (دورانِ سفر) ایک رات ہمارے ساتھ آرام کے لیے اترے تو ہم میں سے ہر شخص اپنی سواری پر سو گیا۔ فرماتے ہیں : میں بعض اونٹوں کی طرف گیا تو دیکھا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی اونٹنی پر موجود نہیں ہیں۔ پس میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تلاش میں نکل پڑا تو اس دوران دیکھا کہ معاذ بن جبل اور عبد اﷲ بن قیس بھی جاگ رہے ہیں۔ میں نے پوچھا : رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کہاں ہیں؟ انہوں نے کہا : ہم اس کے علاوہ کچھ نہیں جانتے کہ وادی کے اوپر سے ہم نے بادل کے گڑگڑانے جیسی آواز سنی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تھوڑی دیر یہاں ٹھہرو پھر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہماری طرف تشریف لائے تو فرمایا : میرے رب کی طرف سے آنے والا رات کو میرے پاس آیا تو اس نے مجھے میری آدھی امت کے بغير حساب کے جنت میں داخل کیے جانے اور شفاعت کے درمیان اختیار دیا؟ میں نے شفاعت کو اختیار کر ليا۔ ہم نے عرض کیا : ہم آپ سے اﷲ اور صحابیت کے واسطے سے سوال کرتے ہیں کہ آپ ہمیں اپنی شفاعت سے نوازیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : یقیناً تم میری شفاعت کے حق دار ہو۔ فرماتے ہیں : ہم جلدی سے (دوسرے) لوگوں کی طرف آئے تو وہ بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نہ پا کر پریشان تھے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (ان سے بھی) فرمایا : میرے رب کی طرف سے آنے والے نے رات کو میرے پاس آ کر مجھے اپنی آدھی امت کے (بغير حساب کے) جنت میںداخل کیے جانے اور شفاعت کے درمیان اختیار دیا؟ میں نے شفاعت کو اختیار کر ليا۔ انہوں نے عرض کیا : یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیک وسلم ہم آپ سے اﷲ اور صحابیت کے واسطے سوال کرتے ہیں کہ آپ ہمیں اپنی شفاعت کے حقدار بنائیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں تم کو گواہ بناتا ہوں کہ میری شفاعت میری امت کے ہر اس فرد کے لیے ہوگی جو اﷲ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرتا ہوگا ۔ اسے امام احمد، ابنِ حبان، ابنِ ابی شیبہ، طبرانی اور دیگر ائمہِ حدیث نے روایت کیا ہے۔ علامہ البانی نے ’ظلال الجنۃ في تخریج السنۃ‘ میں کہا ہے : اس حدیث کی اِسناد صحیح ہے اور اس کا ہر راوی شیخین کی شرط پر ثقہ ہے ۔ (أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 6 / 28. 29، الرقم : 24002، وابن حبان في الصحيح، 14 / 388، الرقم : 6470، وابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 320، الرقم : 31751، والطبراني في المعجم الکبير، 18 / 73، الرقم : 134، والطيالسي في المسند، 1 / 134، الرقم، 998، والروياني في المسند، 1 / 391، الرقم : 597، وابن أبي عاصم في السنة، 2 / 389، الرقم : 818.)

حضرت عوف بن مالک اشجعی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ (دورانِ سفر) ایک منزل پر (آرام کے لیے اترے) تو رات کے کسی حصے میں مجھے جاگ آگئی۔ میں نے کسی چیز کو اپنے کجاوہ کے پچھلے حصہ سے بڑھ کر طویل نہ دیکھا، ہر انسان اور اس کا اونٹ زمین کے ساتھ چپکا ہوا تھا۔ میں لوگوں کے درمیان سے گزرتا ہوا حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آرام گاہ تک پہنچا تو آپ وہاں موجود نہ تھے، میں نے اپنا ہاتھ بستر مبارک پر رکھا تو وہ ٹھنڈا تھا۔ پس میں آپ کی تلاش میں لوگوں کے درمیان سے إِنَّا لِلّهِ وَإِنَّـا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ پڑھتا ہوا گزرنے لگا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کوئی لے گیا ہے یہاں تک کہ پورے لشکر سے باہر نکل گیا۔ اسی دوران میںنے ایک سایہ دیکھا تو میں نے آگے بڑھتے ہوئے اسے پتھر مارا۔ میں سایہ کی طرف بڑھا تو دیکھا کہ وہ معاذ بن جبل اور ابوعبیدہ بن جراح تھے۔ ہم نے اپنے آگے بادل کی گڑگڑاہٹ یا ہوا میں بارش کے برسنے جیسی آواز سنی تو ہم میں سے بعض نے بعض سے کہا : لوگو! تم یہی رکے رہو یہاں تک کہ صبح ہوجائے یا حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لے آئیں۔ فرماتے ہیں : جب تک اﷲ تعالیٰ نے چاہا ہم وہیں ٹھہرے رہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے(کہیں سے تشریف لاتے ہوئے) پکارا : کیا (یہاں) معاذ بن جبل، ابو عبیدہ اور عوف بن مالک ہیں؟ ہم نے عرض کیا : جی ہاں! آپ ہماری طرف تشریف لائے تو ہم (واپس لشکر کی طرف) چلنا شروع ہو گئے نہ ہم نے آپ سے کچھ عرض کیا اور نہ آپ نے ہمیں کچھ فرمایا یہاں تک کہ آپ اپنے بچھونے پر تشریف فرما ہو گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کیا تم جانتے ہو کہ اﷲ تعالیٰ نے رات کو مجھے کیا اختیار دیا؟ ہم نے عرض کیا : اﷲ اور اس کا رسول زیادہ جانتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اس نے مجھے آدھی امت کے بغير حساب جنت میں داخل کیے جانے اور شفاعت کرنے کے درمیان اختیار دیا؟ سو میں نے شفاعت کو اختیار کر ليا۔ ہم نے عرض کیا : یا رسول اﷲ! آپ اﷲتعالیٰ سے دعا کیجئے کہ وہ ہمیں اس سے نوازے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : وہ ہر مسلمان کے لیے ہے ۔ اسے امام حاکم اور طبرانی نے روایت کیا۔ حاکم نے کہا ہے : یہ حدیث امام مسلم کی شرط پر صحیح ہے ۔ (أخرجه الحاکم في المستدرک، 1 / 60، 135، الرقم : 36، 221، والطبراني في المعجم الکبير، 18 / 68، الرقم : 126، وابن منده في الإيمان، 2 / 873، الرقم : 932.)(طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

حضرت عوف بن مالک اشجعی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ایک سفر کے دوران منزل پر اترے، یہاں تک کہ رات کو میری آنکھوں سے نیند غائب ہوگئی جس کے باعث میں سو نہ سکا تو اٹھ کھڑا ہوا۔ اس وقت لشکر میں تمام جانور سو رہے تھے کہ (اپنی خوابگاہ) کجاوہ کی پچھلی جانب سے میرے دل میں کچھ خیال ابھرا تو میںنے اپنے آپ سے کہا : میں ضرور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوں گا اور صبح تک آپ کی حفاظت کا فریضہ انجام دوں گا۔ پس میں لوگوں کے کجاووں سے گزرتا ہوا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کجاوے تک پہنچا تو دیکھا کہ آپ اپنے کجاوے میں موجود نہ تھے، لہذا میں کجاووں کو عبور کرتا ہوا لشکر سے باہر نکل گیا تو ایک سایہ دیکھا۔ میں نے اس سایہ کی طرف جانے کا ارادہ کیا تو وہ ابو عبیدہ بن جراح اور معاذ بن جبل تھے۔ انہوں نے مجھ سے کہا : کس چیز نے آپ کو (لشکر سے) باہر نکالا ہے؟ میں نے کہا : جس نے آپ دونوں کو نکالا ہے۔ ہم سے قریب ہی ایک باغ تھا تو ہم اس کی طرف چل پڑے کہ اچانک ہم نے اس میں سے مکھی کی بھنبھناہٹ یا ہوا کی سرسراہٹ جیسی آواز سنی۔ پس (اس میں سے) حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا : کیا یہاں ابو عبیدہ بن جراح ہے؟ ہم نے عرض کیا : جی ہاں! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اور معاذ بن جبل ہے؟ ہم نے عرض کیا : جی ہاں! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : عوف بن مالک ہے؟ ہم نے عرض کیا : جی ہاں! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہماری طرف تشریف لے آئے۔ ہم آپ کے ساتھ چلنے لگے تو نہ ہم نے آپ سے کسی چیز کے بارے عرض کیا اور نہ ہی آپ نے ہم سے کچھ پوچھا یہاں تک کہ آپ اپنے کجاوہ کی طرف لوٹ آئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : کیا میں تمہیں اس چیز کی خبر نہ دوں جس کے بارے میں ابھی مجھے میرے رب نے اختیار دیا؟ ہم نے عرض کیا : کیوں نہیں! یا رسول اﷲ (ضرور بتلائیے)! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میرے رب نے مجھے بغير حساب کتاب اور عذاب کے میری تہائی امت کو جنت میں داخل کرنے اور شفاعت کے درمیان اختیار دیا؟ ہم نے عرض کیا : یا رسول اﷲ! آپ نے کس کو اختیار فرمایا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں نے شفاعت کو اختیار کیا ہے۔ ہم سب نے عرض کیا : یارسول اﷲ! آپ ہمیں اپنی شفاعت کا حق دار بنا لیجئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہم سے فرمایا : بے شک میری شفاعت ہر مسلمان کے لیے ہے ۔ (أخرجه الطبرانی في المعجم الکبير، 18 / 58، الرقم : 107، والهيثمي في مجمع الزوائد، 10 / 369.)

ابو کعب صاحبِ حریر سے روایت ہے کہ میں نے نضر بن انس سے سوال کیا کہ آپ مجھے ایسی حدیثِ مبارکہ بتائیں جس سے اﷲتعالیٰ مجھے نفع دے؟ انہوں نے فرمایا : جی ہاں! میں آپ کو ایسی حدیث بیان کرتا ہوں جو ہم کو مدینہ کی طرف سے لکھی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا : تم اس حدیث کو یاد کرلو کیونکہ یہ احادیث کا خزانہ ہے۔ فرماتے ہیں : حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک غزوہ میں تشریف لے گئے تو سارا دن (سفر میں) رہے پس جب رات ہوئی تو آپ نے(ایک جگہ) پڑاؤ ڈالا اور لوگ آپ کے ارد گرد جمع ہوگئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، امِ انس کے شوہر ابو طلحہ رضی اللہ عنہ، فلاں اور فلاں چار افراد آرام فرمانے لگے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی اونٹنی کے ہاتھ (یعنی اگلے پاؤں) کو سر کے نیچے تکیہ بنا کر رکھ ليا، پھر آپ اور آپ کے پہلو میں موجود چاروں افراد سو گئے۔ رات کا ایک حصہ گزر جانے پر انہوں نے اپنے سروں کو اٹھا کر دیکھا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنی سواری کے پاس نہ پا کر تلاش میں نکل کھڑے ہوئے یہاں تک کہ انہوں نے آپ کو تشریف لاتے دیکھا۔ انہوں نے عرض کیا : اﷲتعالیٰ ہمیں آپ پر فدا کرے! آپ کہاں تشریف لے گئے تھے؟ ہم آپ کو نہ دیکھ کر تو بے چین ہوگئے تھے۔ پس حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں سویا ہوا تھا جیسا کہ تم نے دیکھا تو اپنی نیند میں بادل کی گڑگڑاہٹ جیسی آواز سننے پر بے قرار ہوکر اٹھ بیٹھا۔ (پھر میں اسی بے قراری) میں (باہر) چل پڑا تو جبرئیل سے میرا سامنا ہوا۔ اس نے عرض کیا : اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! اﷲتعالیٰ نے خاص گھڑی میں مجھے آپ کی طرف بھیجا ہے کہ آپ کو اختیار دوں۔ آپ اختیار فرمائیے چاہے آپ کی آدھی امت (بغير حساب کے) جنت میں داخل ہو جائے اور چاہے قیامت کے دن آپ شفاعت کریں؟ پس میں نے اپنی امت کے لیے شفاعت کو اختیار کر ليا ہے۔ اس پر چاروں افراد کے گروہ نے عرض کیا : اﷲ کے نبی! آپ ہمیں اپنی شفاعت کا مستحق بنا لیجئے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم اس کے مستحق ہو۔ پھر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور چاروں آگے بڑھے یہاں تک کہ دس افراد آپ سے آملے تو انہوں نے عرض کیا : ہمارے رحمت والے نبی کہاں ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو بھی ایسا ہی بیان کیا جیسے لوگوں کو بتایا تھا تو انہوں نے عرض کیا : اﷲ تعالیٰ ہمیں آپ پر قربان کرے، آپ قیامت کے دن ہمیں بھی اپنی شفاعت کا مستحق ٹھہرائیں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم بھی اس کے حقدار ہو۔ پس ان سب نے لوگوں کے ایک بڑے گروہ کی طرف آکر لوگوں میں ندا دی : یہ ہمارے نبی رحمت والے نبی ہیں۔ آپ نے انہیں بھی جو قوم کو بیان فرمایا تھا بتایا تو انہوں نے بیک وقت پکارا : اﷲ تعالیٰ ہم کو آپ پر فدا کریں آپ ہمیں بھی قیامت کے دن اپنی شفاعت سے نوازیں پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تین بار فرمایا : میں اﷲتعالیٰ اور ہر سننے والے کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ میری شفاعت ہر اس شخص کو حاصل ہوگی جو مرتے دم تک اﷲ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتا ہو گا ۔(أخرجه الطبرانی في المعجم الأوسط، 4 / 102، الرقم : 1395، والهيثمي في مجمع الزوائد، 10 / 370.)

حضرت عوف بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ہم کسی سفر میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : بے شک جبرئیل نے مجھے آ کر بتایا کہ میرے رب نے مجھے دو خصلتوں میں اختیار دیا : چاہے میری آدھی امت بغير حساب کے جنت میں داخل کر دے یا شفاعت کا حق اختیار کروں؟ پس میں نے شفاعت کو اختیار کر ليا ۔ (أخرجه ابن أبي عاصم في السنة، 2 / 397، الرقم : 829.)(طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)















No comments:

Post a Comment

جاہل قصہ گو واعظین کا رد اور خطباء و مقررین کےلیے شرائط

جاہل قصہ گو واعظین کا رد اور خطباء و مقررین کےلیے شرائط محترم قارئینِ کرام : مقرر کےلیے چار شرائط ہیں ، ان میں ایک بھی نہ پائی جائے تو تقریر...