روایت یا محمد پر ابن وہاب نجدی کے پیروکاروں کے اعتراض کا جواب
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے پکارا یا محمداہ اور یہ دلیل ہے استغاثہ کی ۔ شرح شفاء للقاضی عیاض مالکی صفحہ 41 امام ملا علی قاری حنفی رحمۃُ اللہ تعالیٰ علیہ ۔
نداء یا محمد صلی اللہ علیہ وسلّم حدیث کے راویوں پر خارجیوں کے اعتراض کا جواب
امام بخاری روایت کرتے ہیں : حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَعْدٍ قَالَ: خَدِرَتْ رِجْلُ ابْنِ عُمَرَ، فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ: اذْكُرْ أَحَبَّ النَّاسِ إِلَيْكَ، فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ ۔
ترجمه : امام بخاری نے کہا کہ ہم سے ابو نعیم (فضل بن دکین) نے بیان کیا ہے اور ان سے امام سفیان (الثوری) نے بیان کیا ہے اور ان سے امام ابو اسحاق (عمرو بن عبداللہ السبیعی) نے اور ان سے عَبدالرحمن بن سعد (جو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کے غلام تھے) نے کہا کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کا پیر سن ہوگیا، ایک شخص نےکہا (آپ )ان کو یاد کرو جو آپ کو سب سے زیادہ محبوب ہو، پس آپ رضی اللہ عنہ نے کہا یا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)۔ الادب المفرد للبخاري بَابُ مَا يَقُولُ الرَّجُلُ إِذَا خَدِرَتْ رِجْلُہ جلد نمبر 1، صفحہ نمبر 335 الرقم الحدیث 994 الناشر: دار البشائر الإسلاميہ – بيروت)
منکرین یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم کی منافقت تو دیکھیئے صحابہ رضی اللہ عنھم یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم پکاریں تو یہ سندیں مانگیں سندوں پر جرح کریں اہل ایمان پر شرک کے فتوے لگائیں مگر خود ابن تمیہ کو یا ابن تیمیہ یا امام العلوم پکاریں تو جائز ہو جائے کسی سند کی کسی دلیل کی ضرورت نہیں ھے میں اسے بغض رسول صلی اللہ علیہ وسلّم نہ کہوں تو اور کیا کہوں میں اسے منافقت کی زندہ مثال نہ کہوں تو اور کیا کہوں کوئی نجدی مجھے دلیل سے جواب دے گا یا ابن تیمیہ پکارنا کس دلیل سے جائز ھے ؟
اس حديث کی سند پر تحقیق
(1) اس حدیث کے پہلے راوی خود امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ ہیں جو تعارف کے محتاج نہیں ۔
(2) دوسرے راوی امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے استاد ابو نعیم الفضل بن دکین رحمۃ اللہ علیہ ہیں جو بہت بڑے حافظ الحدیث تھے اور یہ بخاری شریف کے راوی بھی ہیں جن کے بارے میں امام ابن حجر العسقلانی لکھتے ہیں : الفضل ابن دكين الكوفي واسم دكين عمرو ابن حماد ابن زهير التيمي مولاهم الأحول أبو نعيم الملائي بضم الميم مشهور بكنيته ثقة ثبت من التاسعة مات سنة ثماني عشرة وقيل تسع عشرة وكان مولده سنة ثلاثين وهو من كبار شيوخ البخاري ۔ (تقريب التہذیب لابن حجر، جلد نمبر 1، صفحہ نمبر 446 الرقم 5401)
(3) اس ميں تیسرے راوی امام سفیان الثوری رحمۃ اللہ علیہ ہیں جو بہت بڑے حافظ الحدیث تھے اور یہ بخاری اور مسلم شریف کے راوی بھی ہیں ان کے بارے میں امام ذہبی لکھتے ہیں : هُوَ شَيْخُ الإِسْلاَمِ، إِمَامُ الحُفَّاظِ، سَيِّدُ العُلَمَاءِ العَامِلِيْنَ فِي زَمَانِهِ، أَبُو عَبْدِ اللهِ الثَّوْرِيُّ، الكُوْفِيُّ، المُجْتَهِدُ، مُصنِّفُ كِتَابِ (الجَامِعِ) ۔ (سيراعلام النبلاء جلد نمبر 7 – صفحہ#نمبر 230 الرقم 82)
(4) اس ميں چوتھے راوی امام ابو اسحاق رحمۃ اللہ علیہ ہیں جو بہت بڑے حافظ الحدیث تھے اور یہ بخاری اور مسلم شریف کے راوی بھی ہیں ان کے بارے میں امام ذہیی لکھتے ہیں : أَبُو إِسْحَاقَ السَّبِيْعِيُّ عَمْرُو بنُ عَبْدِ اللهِ ابْنِ ذِي يُحْمِدَ . وَقِيْلَ: عَمْرُو بنُ عَبْدِ اللهِ بنِ عَلِيٍّ الهَمْدَانِيُّ، الكُوْفِيُّ، الحَافِظُ، شَيْخُ الكُوْفَةِ، وَعَالِمُهَا، وَمُحَدِّثُهَا ۔
(سیراعلام النبلاء جلد نمبر 5- صفحہ نمبر 392 رقم 180)
(5) اس ميں پانچویں راوی عَبْد الرَّحْمَن بن سعد القرشی العدوی كوفی رحمۃ اللہ علیہ ہیں جو بہت بڑے تا بعی تھے اور ان کو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کے غلام ہونے کا شرف بھی حاصل ہے اور یہ ثقہ تابعی تھے اور ان کی توثیق میں امام ذہی کے استاد امام مزی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : ذكره ابنُ حِبَّان في كتاب "الثقات . روى له البخاري في كتاب"الأدب"، حديثا واحدا موقوفا. وقد وقع لنا عاليا عنه .
(تہذیب الکمال جلد نمبر 17 – صفحہنمبر 143 رقم 3832)
اور امام ابن حجرالعسقلانی لکےان ہیں : عبد الرحمن بن سعد القرشي كوفي روى عن مولاه عبد الله بن عمر وعنه أبو إسحاق السبيعي ومنصور بن المعتمر وأبو شيبة عبد الرحمن بن إسحاق الكوفي وحماد بن أبي سليمان ذكره بن حبان في الثقات قلت وقال النسائي ثقة . (تذايب التذليب جلد نمبر 6 – صفحہ نمبر 186 رقم 376)
(6) چھٹے راوی تو خود صحابی رسول حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ہیں ۔
تحقیق سے ثابت ہوا اس روایت میں کوئی راوی ضعیف نہیں ہے ۔
اب آتے ہیں غیر مقلد محدث ناصر البانی کے اعتراضات کی طرف پھر ان کا رد چن چن کرکر تے ہیں ۔
ناصر البانی نے اسی روایت کو اپنی دو کتابوں میں ضعیف لکھا جن کی تفصیل یہ ہے ۔
(1) ضعیف ادب المفرد رقم الحدیث 964 میں یہ علت بتائی کہ امام ابو اسحاق رحمۃ اللہ علیہ مدلس ہے وہ عن سے روایت کر رہے ہیں لہذا یہ ضعیف ہے ۔
(2) تخریج الکلم الطیب رقم الحدیث 236 میں یہ علت بتائی کہ اس میں الھیثم بن حنش مجہول ہے جس کی توثیق ثابت نہیں لہذا یہ بھی ضعیف ہے ۔
ناصرالبانی کا ادب المفرد والی حدیث پر اعتراض اور اس کا رد بلیغ : ناصر البانی نے اس حدیث کے ایک طرق کو ذکر کر کے امام ابو اسحاق رحمۃ اللہ علیہ کی عن والی روایت کو اس لیے رد کیا ہے کہ اس میں امام ابواسحاق رحمۃ اللہ علیہ نے سماع کی تصریح نہیں کی لیکن ناصرالبانی یہ بھول گیا کہ اس حدیث کا ایک اور طرق بھی ثابت ہے جو امام شعبہ بن الحجاج رحمۃ اللہ علیہ کا طرق ہے اور محدثین علیہم الرّحمہ کا اس بات پر اجماع ہے کہ امام شعبہ رحمۃ اللہ علیہ کی روایت مدلسین سے سماع پر محمول ہوتی ہے ۔ امام شعبہ رحمۃ اللہ علیہ مدلسین سے وہ روایت لیتے ہیں جومدلسین نے اپنے شیخ سے سنی ہوئی ہوتی ہیں ۔
چنانچہ امام حربی رحمۃ اللہ علیہ روایت کرتے ہیں : حَدَّثَنَا عَفَّانُ , حَدَّثَنَا شُعْبَةُ , عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ , عَمَّنْ سَمِعَ ابْنَ عُمَرَ , قَالَ: خَدِرَتْ رِجْلُهُ , فَقِيلَ: اذْكُرْ أَحَبَّ النَّاسِ , قَالَ: يَا مُحَمَّدُ
ترجمہ : ہم سے عفان (بن مسلم) رحمۃ اللہ علیہ نے حدیث بیان کی ان سے امام شعبہ (بن الحجاج) رحمۃ اللہ علیہ نے حدیث بیان کی اور انہوں نے امام ابو اسحاق رحمۃ اللہ علیہ سے اور انہوں نے ان سے جس نے حضرت ابن عمر (رضی اللہ عنہ) سے سنا ہے فرمایا (ابن عمر رضی اللہ عنہ) کا پاؤں سن ہو گیا (تو) آپ سے کہا گیا کہ ان کو یاد کریں جو آپ کو لوگوں میں سب سے زیادہ پیارا ہو (تو) آپ نے کہا : یامحمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ۔
(غريب الحديث المؤلف: إبراهيم بن إسحاق الحربي أبو إسحاق (198 – 285ھ) بَابُ: خدر
الْحَدِيثُ الثَّانِي وَالسِّتُّونَ جلد نمبر 2 صفحہ نمبر 673)
اس روایت کی سند پر تحقیق : اس روایت کے پہلے راوی امام ابراہیم بن اسحاق الحربی ہے جن کی وفات 285 ہجری کو ہوئی ہے ان کی توثیق درج ذیل ہے ۔
خطیب البغدادی لکھتے ہیں : كان إماماً في العلم، رأساً في الزهد، عارفاً بالفقه، بصيراً بالأحكام، حافظاً للحديث، مميزاً لِعِلَلِه قَيِّمًا بالأدب، جماعاً للغة، صنف غريب الحديث، وكتباً كثيرة ۔ (تاریخ البغداد (6/ 519)
امام دارقطنی فرماتے ہیں : وَإِبْرَاهِيْم إِمَام بَارِع فِي كُلِّ عِلْم، صَدُوْقٌ . (سیر اعلام النبلاء (13/260)
حافظ الحدیث الحسین بن فہم فرماتے ہیں : لاَ تَرَى عَينَاك مِثْل إِبْرَاهِيْم الحَرْبِيّ، إِمَام الدُّنْيَا، لَقَدْ رَأَيْتُ، وَجَالَسْتُ العُلَمَاء، فَمَا رَأَيْتُ رَجُلاً أَكملَ مِنْهُ.(سیر اعلام النبلاء (13/268)
امام حاکم فرماتے ہیں : سَمِعْتُ مُحَمَّدَ بنَ صَالِحٍ القَاضِي يَقُوْلُ: لاَ نعِلْم بَغْدَاد أَخرجتْ مِثْل إِبْرَاهِيْم الحَرْبِيّ فِي الأَدب وَالفِقْه وَالحَدِيْث وَالزُّهْد ۔(سیر اعلام النبلاء (13/268)
امام ذہبی لکھتے ہیں : هُوَ الشَّيْخُ، الإِمَامُ، الحَافِظُ، العَلاَّمَةُ، شَيْخُ الإِسْلاَمِ، أَبُو إِسْحَاقَ إِبْرَاهِيْمُ بنُ إِسْحَاقَ بنِ إِبْرَاهِيْمَ بنِ بَشِيْرٍ البَغْدَادِيُّ، الحَرْبِيُّ، صَاحِبُ التَّصَانِيْفِ.(سیر اعلام النبلاء (13/256)
امام سبکی شافعی لکھتے ہیں : إِبْرَاهِيم بن إِسْحَاق بن إِبْرَاهِيم بن بشر الحربى أَبُو إِسْحَاق
الْفَقِيه الْحَافِظ ۔ (طبقات الشافعیہ الكبرى (2/256)
اس روایت میں دوسرا راوی عفان بن مسلم رحمۃ اللہ علیہ ہے جو ثقہ ہے اور یہ بخاری اور مسلم شریف کا راوی ہے ۔ ان کی توثیق درج ذیل ہے۔
امام ابن سعد فرماتے ہیں : وَكَانَ ثِقَةً ثَبَتًا كَثِيرَ الْحَدِيثِ حُجَّةً ۔(طبقات الکبری (7/218)
امام کلاباذی نے عفان بن مسلم کو صحیح بخاری کی راویوں میں درج کیا ہے ۔
(رجال صحیح البخاری رقم 955)
امام ابو حاتم نے کہا : هو ثقة إمام. (تاریخ البغداد (12/265)
ابن خراش نے کہا : ثقة من خيار المسلمين ۔ (تذةيب التذليب 7 /234)
امام ابن مانع نے کہا : ثقة مأمون ۔ (تذةيب التذ يب 7 /234)
امام ابن معین نے کہا : أصحاب الحديث خمسة، مالك، وابن جريج، والثوري، وشعبة، وعفان ۔ (تاریخ البغداد (12/269)
تیسرے راوی امام شعبہ بن الحجاج رحمۃ اللہ علیہ ہیں جو بہت بڑے حافظ الحدیث تھے ویسے یہ تعارف کے محتاج نہیں ان کے بارے میں امام سفیان الثوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : شعبة أمير المؤمنين فى الحديث ۔ (تہذیب الکمال رقم 2790)
امام ذہبی لکھتے ہیں : الإِمَامُ، الحَافِظُ، أَمِيْرُ المُؤْمِنِيْنَ فِي الحَدِيْثِ ، (سیر اعلام النبلاء (7/202) ان کی توثیق بہت زیادہ ہے لہذا اتنا ہی کافی ہے۔
چوتھے راوی امام ابو اسحاق رحمۃ اللہ علیہ کی توثیق اوپر ثابت کر آئے ہیں
شعبہ عن ابی اسحاق عن (فلاں راوی) کی سند کے بارے میں محدثین کا نظریہ
محدثین علیہم الرّحمہ کا اس بات پر اجماع ہے کہ امام شعبہ رحمۃ اللہ علیہ مدلسین سے وہ حدیث لیتے ہیں جس میں تدلیس نہیں ہوتی بلکہ مدلسین نے وہ حدیث اپنے شیخ سے سنی ہو ئی ہوتی ہے اس لیے امام شعبہ کی مدلسین سے عن والی روایت محمول علی السماع ہوتی ہے ۔
امام یحیی بن سعید القطان نے کہا : كل شئ يحدث (به) شعبة عن رجل فلاتحتاج أن تقول عن ذاك الرجل أنه سمع فلانا، قد كفاك أمره ۔
ترجمہ : ہر ایسی (حدیث کی تمام ) شئ جس کو امام شعبہ نے کسی مرد سے بیان کیا ہو تو اس میں اس بات کی محتاجی نہیں کہ وہ اس مرد کے بارے میں کہیں کہ اس نے فلاں سے سنا ہے تمہارے لیے یہ حکم کافی ہے۔(الجرح التعدیل لابی حاتم (1/162)
غیر مقلد زبیر زئی نے امام یحیی بن سعید القطان رحمۃ اللہ علیہ کی اس بات کی سند کو صحیح قرار دے دیا ۔ (فتح المبین علی تحقیق طبقات المدلسین صفحہ 224)
امام شعبہ بن الحجاج خود فرماتے ہیں : كل شئ حدثتكم به فذلك الرجل حدثني به أنه سمعه من فلان إلا شيئا أبينه لكم ۔
ترجمہ : ہر ایسی (حدیث کی تمام) شئ جو میں نے تم سے بیان کی ہو کسی مرد سے تو وہ مرد ہے جس نے مجھے بیان کیا ہے کہ اس نے فلاں سے سنا ہے ۔
(الجرح التعدیل لابی حاتم (1/173)
غیر مقلد زبیر زئی نے امام شعبہ بن الحجاج رحمۃ اللہ علیہ کی اس بات کی سند کو صحیح قرار دے دیا ۔ (فتح المبین علی تحقیق طبقات المدلسین صفحہ#224)
خود گستاخ المحدثین والفقہاء نام نہاد اہل حدیث وہابی زبیر زئی اوپر دی گئی دلیل کو لکھ کر کہتا ہے : قلت : فیہ دلیل علی ان حدیث شعبۃ عن المدلسین محمول علی السماع ۔
ترجمہ : میں (وہابی زبیر زئی) کہتا ہوں اس میں اس بات پر دلیل ہے کہ امام شعبہ رحمۃ اللہ علیہ کی حدیث مدلسین سے وہ محمول علی السماع ہوتی ہیں ۔ ( فتح المبین علی تحقیق طبقات المدلسین صفحہ 224)
امام ابن حجر العسقلانی لکھتے ہیں : وإنما جزمت بشعبة، لأنه كان لا يأخذ عن أحد ممن وصف بالتدليس إلا ما صرح فيه ذلك المدلس بسماعه من شيخه.
ترجمہ : اور میں (یعنی امام عسقلانی) نے امام شعبہ پر اس لئے یقین کیا ہے کہ وہ ان (محدثین) سے حدیث نہیں لیتے جو تدلیس کے ساتھ موصوف ہوں سوائے اس کے جس میں اس مدلس (راوی) نے اس حدیث کی اپنے شیخ سے سماع کی ہو ( یعنی سنی ہو)۔
النکت علی کتاب ابن الصلاح ، (1/259)
اور گستاخ المحدثین والفقہاء نام نہاد اہل حدیث وہابی زبیر علی زئی امام شعبہ کی امام ابو اسحاق سے عن والی روایت کے بارے میں لکھتا ہے : وکذلک حدیث شعبۃ عن ابی اسحاق محمول علی السماع ۔
ترجمہ : اور اسی طرح شعبہ کی حدیث ابو اسحاق سے سماع پر محمول ہوگی ۔
( فتح المبین علی تحقیق طبقات المدلسین صفحہ 110)
ان تمام دلائل سے ثابت ہوا کہ اس حدیث کو امام ابو اسحاق رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے شیخ سے سماع کی ہے لہٰذا اس میں تدلیس کا شبہ باطل ثابت ہو گیا ۔
باقی رہا اس روایت میں مبہم راوی کا مسئلہ اس کو جانےے کا طریقہ یہ ہے ۔
ڈاکٹر طحان مصری استاذالحدیث مدینہ یونیورسٹی مبہم راوی کو جانے کے دو طریقے لکھے ہیں : (1) بعض دیگر روایات میں اس (راوی) کا نام ذکر کیا گیا ہوتا ہے ۔
(2) یا سیرت و سوانح کی کتابوں میں بالعموم ان کی تصریح مل جاتی ہے ۔
(تیسیر مصطلح الحدیث اردو ترجمہ تیسیر اصول حدیث صفحہ نمبر 152)
(نوٹ: تیسیر اصول حدیث کے نام سے تیسیر مصطلح الحدیث کا ترجمہ غیر مقلد وہابی ابو عمار عمر فاروق سعیدی نے کیا ہے ۔ اور یہ سعیدی سنی نہیں ہے لہٰذا خیال سے اس کی کتابوں کو خریدہ کریں )
اس سے ثابت ہو گیا کہ اور سند سے مبہم راوی کی شناحت کی جا سکتی ہے اور امام ابو اسحاق رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی دوسری مضبوط سند میں اس مبہم راوی کی نام کی تصریح بھی کردی جس سے یہ حدیث سنی تھی وہ امام بخاری کی ادب المفرد والی سند جو یہ ہے ۔
حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَعْدٍ قَالَ: خَدِرَتْ رِجْلُ ابْنِ عُمَرَ، فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ: اذْكُرْ أَحَبَّ النَّاسِ إِلَيْكَ، فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ ۔
اس سے ثابت ہو گیا وہ مبہم راوی عبدالرحمن بن سعد ہے اور وہ ثقہ تابعی ہے۔ لہذا اس حدیث میں تمام شک و شبہ کا قلع قمع ہوا لہذا اس کی سند صحیح ثابت ہو گئی ۔
اسی لیے امام یعقوب بن سفیان الفارسی لکھتے ہیں : وَحَدِيثُ سُفْيَانَ وَأَبِي إِسْحَاقَ وَالْأَعْمَشِ مَا لَمْ يُعْلَمْ أَنَّهُ مُدَلِّسٌ يَقُومُ مَقَامَ الْحُجَّةِ ۔
ترجمہ : اور سفیان (ثوری) ، ابو اسحاق اور اعمش کی حدیث جب تک اس کی تدلیس کا علم نہ ہو تو وہ حجۃ (یعنی قبول کرنے) کے قائم مقام ہو گی ۔(المعرفۃ التاریخ (2/637)
ناصر البانی غیر مقلد خود لکھتا ہے : وأبوإسحاق هو عمرو بن عبيد الله السبيعي وهو ثقة لكنه مدلس، وكان قد اختلط، فهو لا بأس به في الشواهد، إلا من رواية سفيان الثوري وشعبة فحديثهما عنه حجة ۔
ترجمہ : اور ابو اسحاق یہ عمرو بن عبید اللہ السبیعی ہیں اور یہ ثقہ ہیں لیکن مدلس ہے۔ اور کبھی اختلاط بھی ہو جاتا تھا۔پس یہ شواہد میں کچھ حرج نہیں مگر سفیان الثوری اور شعبہ کی روایت میں (تدلیس نہ ہونے کی وجہ) دونوں کی حدیث امام ابو اسحاق سے حجت ہے ۔(سلسلة الأحاديث الصحيحة جلد نمبر 4 ، صفحہ نمبر 15 رقم الحدیث 1509)
ناصرالبانی غیر مقلد کی خود کی تحریر سے ثابت ہو گیا کہ امام سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ اور امام شعبہ رحمۃ اللہ علیہ کی امام ابو اسحاق رحمۃ اللہ علیہ سےآ گے والے راوی سے عن والی روایت حجت (مقبول) ہوتی ہے اس میں تدلیس کا شبہ نہیں ہوتا ۔
ناصر البانی کا ردبلیغ جمہورمحدثین علیہم الرّحمہ سے اور خود اس کی اپنی تحریر سے ثابت کردیا ہے لہذا یہ روایت جمہور محدثین سے اور خود ناصرالبانی کی تحریر سے صحیح ثابت ہو گئی ۔
دعویٰ اضطراب سند اور اس کا رد بلیغ
وہابی دلائل یہ ہیں : اضطراب سند کی دلائل : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خَالِدِ بْنِ مُحَمَّدٍ الْبَرْذَعِيُّ، ثنا حَاجِبُ بْنُ سُلَيْمَانَ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ مُصْعَبٍ، ثنا إِسْرَائِيلُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنِ الْهَيْثَمِ بْنِ حَنَشٍ، قَالَ: كُنَّا عِنْدَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، فَخَدِرَتْ رِجْلُهُ، فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ: " اذْكُرْ أَحَبَّ النَّاسِ إِلَيْكَ. فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. قَالَ: فَقَامَ فَكَأَنَّمَا نَشِطَ مِنْ عِقَالٍ ۔
(عمل اليوم والليلة لابن السنی جلد نمبر1، صفحہ نمبر 141رقم الحدیث 170)
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْأَنْمَاطِيُّ، وَعَمْرُو بْنُ الْجُنَيْدِ بْنِ عِيسَى، قَالَا: ثنا مُحَمَّدُ بْنُ خِدَاشٍ، ثنا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ، ثنا أَبُو إِسْحَاقَ السَّبِيعِيُّ، عَنْ أَبِي شُعْبَةَ، قَالَ: كُنْتُ أَمْشِي مَعَ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، فَخَدِرَتْ رِجْلُهُ، فَجَلَسَ، فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ: اذْكُرْ أَحَبَّ النَّاسِ إِلَيْكَ. فَقَالَ: «يَا مُحَمَّدَاهُ فَقَامَ فَمَشَى»(عمل اليوم والليلة لابن السنی جلد 1، صفحہ 141 رقم الحدیث 168)
أَخْبَرَنِي أَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ الصُّوفِيُّ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْجَعْدِ، ثنا زُهَيْرٌ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ: " كُنْتُ عِنْدَ ابْنِ عُمَرَ، فَخَدِرَتْ رِجْلُهُ، فَقُلْتُ: يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ، مَا لِرِجْلِكَ؟ قَالَ: اجْتَمَعَ عَصَبُهَا مِنْ هَاهُنَا. قُلْتُ: ادْعُ أَحَبَّ النَّاسِ إِلَيْكَ. فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ. فَانْبَسَطَتْ " ۔(عمل اليوم والليلة لابن السنی جلد 1، صفحہ 142 رقم الحدیث 172)
امام ابو اسحاق رحمۃ اللہ علیہ نے اس روایت میں تین اشخاص کا ذکر کیا ہے جن کے نام یہ ہیں : (1) الْهَيْثَمِ بْنِ حَنَشٍ ۔ (2) أَبِي شُعْبَةَ ۔ (3) عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَعْدٍ ۔
جس سے ثابت ہوتا ہے اس حدیث کی سند میں اضطراب ہے لہٰذا یہ حدیث سند میں اضطراب کی وجہ سے استدلال کرنے کے لائق نہیں ۔
وہابی دعویٰ اضطراب سند کا جواب : وہابی بے چاروں کو اضطراب سند کی تعریف کا پتہ تک نہیں ورنہ ایسی جہالت بھری باتیں نہ کرتے ۔
اب آتے ہیں ان کے دیئے گئے دلائل کی طرف جن کو ہم اصول حدیث کی روشنی میں مردود اور باطل ثابت کرتے ہیں : مضطرب کی تعریف کی شرح میں ڈاکٹر طحان مصری استاذالحدیث مدینہ یونیورسٹی میں لکھتا ہے : تفصیل اس تعریف کی یہ ہے کہ وہ حدیث جو کئی مختلف سندوں اور متون سے مروی ہو مگر ان میں ایسا تعارض ہو کہ کسی طرح مطابقت نہ دی جا سکے۔ اور ساتھ ہی یہ تمام اسانید و متون قوت و مرتبہ میں ایک دوسرے کے برابر ہوں اور کسی بھی اعتبار سے ان میں ترجیح ممکن نہ ہو۔"
(تیسیر مصطلح الحدیث اردو ترجمہ تیسیر اصول حدیث صفحہ 133)
اس تعریف سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اضطراب کی صورت میں تمام اسانید کا صحت میں برابر ہونا لازمی ہے اور وہابی کے دیئے گے دلائل میں دی گی تمام اسانید کا درجہ برابر نہیں ہے ۔
اب آتے ہیں خارجی کی دی گی پہلی سند پر جو یہ ہے : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خَالِدِ بْنِ مُحَمَّدٍ الْبَرْذَعِيُّ، ثنا حَاجِبُ بْنُ سُلَيْمَانَ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ مُصْعَبٍ، ثنا إِسْرَائِيلُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنِ الْهَيْثَمِ بْنِ حَنَشٍ، قَالَ: كُنَّا عِنْدَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، فَخَدِرَتْ رِجْلُهُ، فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ: " اذْكُرْ أَحَبَّ النَّاسِ إِلَيْكَ. فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. قَالَ: فَقَامَ فَكَأَنَّمَا نَشِطَ مِنْ عِقَالٍ ۔(عمل اليوم والليلة لابن السنی جلد 1، صفحہ 141رقم الحدیث 170)
یہ حدیث سند کے اعتبار سے ضعیف ہے محمد بن مصعب بن صدقة القرقسانى ہے جو کہ ضعیف ہے امام عسقلانی تمام محدثین کے اقوال کو اس راوی کے بارے میں نقل کر کے لکھتے ہیں : قال صالح بن محمد : عامة أحاديثه عن الأوزاعى مقلوبة ، و قد روى عن الأوزاعى غير حديث كلها مناكير ، و ليس لها أصول .
و قال ابن عدى : ليس عندى برواياته بأس .
و قال ابن حبان : ساء حفظه ، ( فكان ) يقلب الأسانيد و يرفع المراسيل ; لا يجوز الاحتجاج به .
و قال الحاكم أبو أحمد : روى عن الأوزاعى أحاديث منكرة ، و ليس بالقوى عندهم .
و قال الإسماعيلى : سألت عبد الله بن محمد بن سيار : من أوثق أصحاب الأوزاعى ؟
فذكر القصة ، و قال : و محمد بن مصعب من الضعفاء ، و ابن أبى العشرين ليس بقوى .
و قال النسائى : ضعيف .
و قال عبد الرحمن بن يوسف بن خراش : منكر الحديث .
و قال أبو عبد الله محمد بن عبيد الله الزهرى عن يحيى بن معين : لا شىء .
و قال ابن الغلابى عن يحيى بن معين : ليس بشىء
(تہذیب التہذیب (9/459))
لہذا اس سے اضطراب کا دعویٰ مردود ہے۔
دوسری روایت اور اس کا جواب : حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْأَنْمَاطِيُّ، وَعَمْرُو بْنُ الْجُنَيْدِ بْنِ عِيسَى، قَالَا: ثنا مُحَمَّدُ بْنُ خِدَاشٍ، ثنا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ، ثنا أَبُو إِسْحَاقَ السَّبِيعِيُّ، عَنْ أَبِي شُعْبَةَ، قَالَ: كُنْتُ أَمْشِي مَعَ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، فَخَدِرَتْ رِجْلُهُ، فَجَلَسَ، فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ: اذْكُرْ أَحَبَّ النَّاسِ إِلَيْكَ. فَقَالَ: «يَا مُحَمَّدَاهُ فَقَامَ فَمَشَى»
(عمل اليوم والليلة لابن السنی جلد 1، صفحہ 141 رقم الحدیث 168)
اس روایت میں محمد بن خداش سے مراد کون ہے ؟ اور اس کا تعین درکار ہے مجھے ابوبکربن عیاش کے شاگردوں میں محمد بن خداش نام کا کوئی راوی نہیں ملا ۔لہٰذا بنا راوی کی توثیق کے اس سے اضطراب کا دعویٰ کرنا مردود ہے ۔ اور خود ابو بکر بن عیاش کی اس روایت میں اس کا کوئی متابع بھی موجود نہیں ہے ۔ اور اوثق راوی امام سفیان ثوری اور زہیر بن معاویہ نے خود ابوبکر بن عیاش کی اس سند میں مخالفت کی ہے ۔ لہٰذا اس سند سے اضطراب ثابت کرنا باطل ہے ۔
نوٹ : امام سنی رحمۃ اللہ علیہ کی اس کتاب میں ابی شعبہ کی جگہ ابی سعید چھپ گیا ہے جو کہ تصحیف ہے (یعنی مخطوطہ میں غلطی ہے) ورنہ اصل ابی شعبہ ہے ۔
اور تیسری روایت یہ ہے : أَخْبَرَنِي أَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ الصُّوفِيُّ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْجَعْدِ، ثنا زُهَيْرٌ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ: " كُنْتُ عِنْدَ ابْنِ عُمَرَ، فَخَدِرَتْ رِجْلُهُ، فَقُلْتُ: يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ، مَا لِرِجْلِكَ؟ قَالَ: اجْتَمَعَ عَصَبُهَا مِنْ هَاهُنَا. قُلْتُ: ادْعُ أَحَبَّ النَّاسِ إِلَيْكَ. فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ. فَانْبَسَطَتْ " ۔
(عمل اليوم والليلة لابن السنی جلد 1، صفحہ 142 رقم الحدیث 172)
اور یہ سند ہماری دلیل ہے اور یہ صحیح بھی ہے اور اس روایت میں زہیر بن معاویہ کا متابع امام سفیان الثوری بھی ہے جس کا امام بخاری نے ادب المفرد میں روایت کیا ہے ۔ جو یہ ہے : حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَعْدٍ قَالَ: خَدِرَتْ رِجْلُ ابْنِ عُمَرَ، فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ: اذْكُرْ أَحَبَّ النَّاسِ إِلَيْكَ، فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ ۔
اور بعض جاہل خارجی وہابی اعتراض کرتے ہیں کہ : امام سفیان الثوری رحمۃ اللہ علیہ امام ابو اسحاق رحمۃ اللہ علیہ سے عن سے روایت کر رہے ہیں اس لئیے یہ ضعیف ہے ان جاہل وہابیوں سے ہمارا یہ کہنا ہے کہ امام سفیان رحمۃ اللہ علیہ امام ابو اسحاق رحمۃ اللہ علیہ سے تدلیس نہیں کرتے وہ ان کی حدیث میں ثابت ہیں : امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ کے استاد امام مزی رحمۃ اللہ علیہ امام ابو اسحاق السبیعی رحمۃ اللہ علیہ کے ترجمہ میں ان کے شاگردوں کے نام لکھتے ہوئے فرماتے ہیں : وسفيان الثوري، وهو أثبت الناس فيه ، ترجمہ : اور سفیان الثوری امام ابو اسحاق کی (حدیث میں) لوگوں میں سب سے زیادہ ثابت ہیں ۔ (تہذیب الکمال جلد 22 ، صفحہ 109رقم 4400)
اور اس روایت میں امام سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ کا متابع زہیر بن معاویہ بھی موجود ہے ۔ لہٰذا خارجی وہابیوں کا تدلیس والا یہ اعتراض بھی باطل ثابت ہوا ۔
کچھ خارجی وہابی یہ اعتراض کرتے ہیں کہ : زہیر بن معاویہ کا سماع امام ابو اسحاق سے ان کے حافظہ خراب ہونے کے بعد کا ہے لہذا یہ ضعیف ہے ۔
ان خارجیوں سے میرا یہ کہنا ہے کہ زہیر بن معاویہ کا متابع امام سفیان ثوری بھی ہیں جو قدیم السماع ہیں امام ابو اسحاق سے ۔ لہٰذا تمہارا یہ اعتراض بھی باطل ثابت ہوا ۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے خود زہیر بن معاویہ کی حدیث کی سند خود امام ابو اسحاق کے طرق سے لی ہے جو یہ ہے : حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، قَالَ: - لَيْسَ أَبُو عُبَيْدَةَ ذَكَرَهُ - وَلَكِنْ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الأَسْوَدِ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ سَمِعَ عَبْدَ اللَّهِ يَقُولُ: «أَتَى النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الغَائِطَ فَأَمَرَنِي أَنْ آتِيَهُ بِثَلاَثَةِ أَحْجَارٍ، فَوَجَدْتُ حَجَرَيْنِ، وَالتَمَسْتُ الثَّالِثَ فَلَمْ أَجِدْهُ، فَأَخَذْتُ رَوْثَةً فَأَتَيْتُهُ بِهَا، فَأَخَذَ الحَجَرَيْنِ وَأَلْقَى الرَّوْثَةَ» وَقَالَ: «هَذَا رِكْسٌ» وَقَالَ إِبْرَاهِيمُ بْنُ يُوسُفَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ ۔
(صحیح البخاری (1/43) رقم الحدیث 156)
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو جَعْفَرٍ، أَنَّهُ كَانَ عِنْدَ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ هُوَ وَأَبُوهُ وَعِنْدَهُ قَوْمٌ فَسَأَلُوهُ عَنِ الغُسْلِ، فَقَالَ: «يَكْفِيكَ صَاعٌ»، فَقَالَ رَجُلٌ: مَا يَكْفِينِي، فَقَالَ جَابِرٌ: «كَانَ يَكْفِي مَنْ هُوَ أَوْفَى مِنْكَ شَعَرًا، وَخَيْرٌ مِنْكَ» ثُمَّ أَمَّنَا فِي ثَوْبٍ ۔ (صحیح البخاری (1/60) رقم الحدیث 252)
حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، قَالَ: حَدَّثَنِي سُلَيْمَانُ بْنُ صُرَدٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي جُبَيْرُ بْنُ مُطْعِمٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «أَمَّا أَنَا فَأُفِيضُ عَلَى رَأْسِي ثَلاَثًا، وَأَشَارَ بِيَدَيْهِ كِلْتَيْهِمَا» ۔ (صحیح البخاری (1/60) رقم الحدیث 254) ۔ اور بھی کافی روایتیں ہیں فقیر نے صرف دلائل کے لئیے کچھ نقل کر دیں ہیں ۔ لہٰذا اب جو ان اسانید پر ضعیف کہنے کی جرات کرے گا تو پھر بخاری کی ان احادیث کو بھی ضعیف کہنا پڑے گا جو کہ یہ بات غیر مقلدوں کا گوارہ نہیں ۔ اللہ پاک دورِ فتن میں ہمارے ایمان و عقیدہ کی حفاظت فرمائے. آمین ۔ ( طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی )
پاؤں سُن ہونے پر : حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے پکارا یا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے پکارا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم ۔ (لغات الحدیث جلد اوّل صفحہ 564 علامہ وحید الزّمان غیر مقلد اہلحدیث وہابی)
بڑی مزے کی بات : علامہ وحید الزّمان غیر مقلد اہلحدیث وہابی لکھتے ہیں مطلقا غیب کی نداء شرک نہیں ہے جیسا کہ بعض متشدد کہتے ہیں ۔ کیوں جی شرک کے ٹھیکدارو اب کیا کہو گے ؟ لگاؤ فتویٰ اے آل نجد ؟
No comments:
Post a Comment