Sunday, 25 February 2018

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو زمین و آسمان کے خزانوں کی کنجیاں عطاء کی گئیں

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو زمین و آسمان کے خزانوں کی کنجیاں عطاء کی گئیں

کل جہاں ملک اور جو کی روٹی غذا
اس شکم کی قناعت پہ لاکھوں سلام

میرے کریم سے گر قطرہ کسی نے مانگا
دریا بہا دیے ہیں، دُر بے بہا دیے ہیں

حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک روز شہدائے اُحد (کے مزارات پر) نماز پڑھنے کے لئے تشریف لے گئے جیسے میت پر نماز پڑھی جاتی ہے پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منبر پر جلوہ افروز ہوئے اور فرمایا : بے شک میں تمہارا پیش رو اور تم پر گواہ ہوں۔ بیشک خدا کی قسم! میں اپنے حوض کو اس وقت بھی دیکھ رہا ہوں اور بیشک مجھے زمین کے خزانوں کی کنجیاں (یا فرمایا : روئے زمین کی کنجیاں) عطا کر دی گئی ہیں اور خدا کی قسم مجھے یہ ڈر نہیں کہ میرے بعد تم شرک کرنے لگو گے بلکہ مجھے ڈر اس بات کا ہے کہ تم دنیا کی محبت میں مبتلا ہو جاؤ گے ۔
(أخرجه البخاری فی الصحيح، کتاب : الجنائز، باب : الصلاة علی الشهيد، 1 / 451، الرقم : 1279، وفي کتاب : المغازي، باب : أحد يحبنا ونحبه، 4 / 1498، الرقم : 3857، کتاب : المناقب، باب : علامات النُّبُوَّةِ فِي الإِسلام، 3 / 1317، الرقم : 3401، وفي کتاب : الرقاق، باب : مَا يُحْذَرُ مِنْ زَهْرَةِ الدُّنْيَا وَالتَّنَافُسِ فِيها، 5 / 2361، الرقم : 6062، ومسلم في الصحيح، کتاب : الفضائل، باب : إثبات حوض نبينا صلی الله عليه وآله وسلم وصفاته، 4 / 1795، الرقم : 2296، وأحمد بن حنبل فی المسند، 4 / 153، والأصبهاني في دلائل النبوة، 1 / 191، الرقم : 248.)

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں جامع کلمات کے ساتھ مبعوث کیا گیا ہوں اور رعب کے ساتھ میری مدد کی گئی ہے اور جب میں سویا ہوا تھا اس وقت میں نے خود کو دیکھا کہ زمین کے خزانوں کی کنجیاں میرے لیے لائی گئیں اور میرے ہاتھ میں تھما دی گئیں ۔
( أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : الاعتصام بالکتاب والسنة، باب : قول النبي صلی الله عليه وآله وسلم : بعثت بجوامع الکلم، 6 / 2654، الرقم : 6845، وفي کتاب : الجهاد، باب : قول النبي صلی الله عليه وآله وسلم : نُصِرْتُ بِالرُّعْبِ مسيرة شهر، 3 / 1087، الرقم : 2815، وفي کتاب : التعبير، باب : المفاتيح في اليد، 6 / 2573، الرقم : 6611، ومسلم في الصحيح، کتاب : المساجد ومواضع الصلاة، 1 / 371، الرقم : 523، والنسائی فی السنن، کتاب : الجهاد، باب : وجوب الجهاد، 6 / 3. 4، الرقم : 3087. 3089، وفی السنن الکبری، 3 / 3، الرقم : 4295، وأحمد بن حنبل فی المسند، 2 / 264، 455، الرقم : 7575، 9867، وابن حبان فی الصحيح، 14 / 277، الرقم : 6363.)

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مجھے (مختصر اور واضح) کلام کی کنجیاں عطا کی گئیں اور رعب و دبدبہ کے ساتھ میری مدد کی گئی اور میں رات کے وقت سویا ہوا تھا جبکہ میرے پاس روئے زمین کے خزانوں کی کنجیاں لا کر میرے ہاتھ پر رکھ دی گئیں۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو تشریف لے گئے اور آپ لوگ (ابھی تک اُن عطا کردہ) خزانوں کو منتقل (یعنی ان سے نفع حاصل) کر رہے ہیں ۔ (أخرجه البخاری في الصحيح، کتاب : التعبير، باب : رؤيا الليل، 6 / 2568، الرقم : 6597، والعسقلاني في فتح الباري، 12 / 391، والعيني في عمدة القاري، 24 / 142.)

حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بیشک اﷲ تعالیٰ نے زمین کو میرے لئے لپیٹ دیا اور میں نے اس کے مشارق و مغارب کو دیکھا۔ عنقریب میری حکومت وہاں تک پہنچے گی جہاں تک میرے لئے زمین لپیٹی گئی۔ مجھے (قیصر و کسریٰ کے) سرخ اور سفید خزانے عطا کئے گئے۔ میں نے اپنے رب سے اپنی امت کے بارے میں سوال کیا کہ انہیں قحط سالی سے ہلاک نہ کرے اور نہ ہی ان پر ان کے غیر سے دشمن مسلط کرے جو ان کو مکمل طور پر نیست و نابود کر دے اور بے شک میرے رب نے مجھے فرمایا : اے محمد! میں جب ایک فیصلہ کر لیتا ہوں تو اس کو واپس نہیں لوٹایا جا سکتا اور بیشک میں نے آپ کو آپ کی امت کے لئے یہ چیز عطا فرما دی ہے کہ میں انہیں قحط سالی سے نہیں ماروں گا اور نہ ہی ان کے علاوہ کسی اور کو ان پر دشمن مسلط کروں گا جو ان کو مکمل طور پر نیست و نابود کر دے اگرچہ تمام ملکوں کے لوگ جمع ہو جائیں یہاں تک کہ ان (آپ کی امت) میں سے بعض بعض کو ہلاک نہ کریں اور بعض بعض کو قیدی نہ بنائیں ۔ اسے امام مسلم، ترمذی اور ابو داود نے روایت کیا ہے اور امام ترمذی نے فرمایا کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے اور امام حاکم نے بھی فرمایا کہ یہ حدیث صحیح ہے
(أخرجه مسلم فی الصحيح، کتاب : الفتن وأشراط الساعة، باب : هلاک هذه الأمة بعضهم ببعض، 4 / 2215، الرقم : 2889، والترمذی فی السنن، کتاب : الفتن عن رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم ، باب : ما جاء فی سؤال النبي صلی الله عليه وآله وسلم ثلاثًا فی أمته، 4 / 472، الرقم : 2176، وأبو داود فی السنن، کتاب : الفتن والملاحم، باب : ذکر الفتن ودلائلها، 4 / 97، الرقم : 4252، وأحمد بن حنبل فی المسند، 5 / 278، الرقم : 22448، 22505، والبزار فی المسند، 8 / 413، الرقم : 3487، والحاکم فی المستدرک، 4 / 496، الرقم : 8390، وابن أبی شيبة فی المصنف، 6 / 311، الرقم : 31694، وابن حبان فی الصحيح، 15 / 109، الرقم : 6714، والبيهقی فی السنن الکبری، 9 / 181، والديلمی فی مسند الفردوس، 2 / 296، الرقم : 3347.)

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : سب سے پہلے میں (اپنی قبر انور) سے نکلوں گا اور جب لوگ وفد بن کر جائیں گے تو میں ہی ان کا قائد ہوں گا اور جب وہ خاموش ہوں گے تو میں ہی ان کا خطیب ہوں گا۔ میں ہی ان کی شفاعت کرنے والا ہوں جب وہ روک دیئے جائیں گے، اور میں ہی انہیں خوشخبری دینے والا ہوں جب وہ مایوس ہو جائیں گے۔ بزرگی اور جنت کی چابیاں اس روز میرے ہاتھ میں ہوں گی۔ میں اپنے رب کے ہاں اولادِ آدم میں سب سے زیادہ مکرّم ہوں میرے اردگرد اس روز ہزار خادم پھریں گے گویا کہ وہ پوشیدہ حسن ہیں یا بکھرے ہوئے موتی ہیں ۔ اس حدیث کو امام ترمذی اور دارمی نے روایت کیا ہے، مذکورہ الفاظ دارمی کے ہیں ۔
(أخرجه الترمذي فی السنن، کتاب : المناقب عن رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم ، باب : فی فضل النبي صلی الله عليه وآله وسلم ، 5 / 585، الرقم : 3610، والدارمی فی السنن، (8) باب : ما أعطی النبي صلی الله عليه وآله وسلم من الفضل، 1 / 39، الرقم : 48، والديلمی فی مسند الفردوس، 1 / 47، الرقم : 117، والخلال فی السنة، 1 / 208، الرقم : 235، والقزوينی فی التدوين فی أخبار قزوين، 1 / 235، وابن الجوزی فی صفة الصفوة، 1 / 182، والمناوی فی فيض القدير، 3 / 40.)

حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مجھے وہ کچھ عطا کیا گیا جو انبیاء کرام علیھم السلام میں سے کسی کو نہیں عطا کیا گیا۔ ہم نے عرض کیا : یا رسول اﷲ! وہ کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میری رعب و دبدبہ سے مدد کی گئی اور مجھے زمین (کے خزانوں) کی کنجیاں عطا کی گئیں اور میرا نام احمد رکھا گیا اور مٹی کو بھی میرے لئے پاکیزہ قرار دیا گیا اور میری امت کو بہترین امت بنایا گیا ۔ اسے امام ابن ابی شیبہ اور احمد نے اسناد جید کے ساتھ روایت کیا ہے ۔
(أخرجه ابن أبی شيبة فی المصنف، 6 / 304، الرقم : 31647، وأحمد بن حنبل فی المسند، 1 / 98، الرقم : 763، 1361، والبيهقی فی السنن الکبری، 1 / 213، الرقم : 965، واللالکائي في اعتقاد أهل السنة، 4 / 783، الرقم : 1443، 1447، والمقدسی فی الأحاديث المختارة، 2 / 348، الرقم : 728. 729، والهيثمی فی مجمع الزوائد، 1 / 260، 8 / 269.چشتی)

حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مجھے چتکبرے گھوڑے، جس پر ریشمی کپڑے کی جھالر تھی، پر دنیا کی کنجیاں عطا کی گئیں ۔ اس حدیث کو امام احمد اور ابن حبان نے روایت کیا ہے۔ اور امام ہیثمی نے فرمایا کہ اسے امام احمد نے رجال صحیح کے ساتھ روایت کیا ہے ۔
(أخرجه أحمد بن حنبل فی المسند، 3 / 327، الرقم : 14553، وابن حبان في الصحيح، 14 / 279، الرقم : 6364، والأصبهاني في دلائل النبوة، 1 / 191، الرقم : 249، والديلمي في مسند الفردوس، 1 / 400، الرقم : 1619، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 20، وفي موارد الظمآن، 1 / 525، الرقم : 2138، والذهبي في سير أعلام النبلاء، 7 / 104.)

حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ (غزوہ خندق کے موقع پر) حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں خندق کھودنے کا حکم دیا۔ آپ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ خندق کی جگہ ہمیں ایک ایسی چٹان سے واسطہ پڑا جس پر (ہماری) کدالوں نے جواب دے دیا۔ آپ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ تب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس معاملہ کی شکایت کی، تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ میرے خیال میں انہوں نے یہ کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی قیمض مبارک اُتاری پھر چٹان کی طرف اترے، کدال تھامی اور فرمایا : بسم اللہ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک ضرب لگائی اور پتھر کا ایک تہائی حصہ توڑ دیا اور فرمایا : اللہ اکبر! مجھے شام کی کنجیاں عطا کر دی گئیں، اللہ کی عزت کی قسم! بے شک میں اپنی اس جگہ سے شام کے سرخ محلات دیکھ رہا ہوں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بسم اللہ، اور ایک اور ضرب لگائی، پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مزید ایک تہائی پتھر توڑ دیا اور فرمایا : اللہ اکبر، مجھے فارس کی کنجیاں بھی عطا کر دی گئیں، اللہ تعالی کی قسم! بے شک میں اپنی اس جگہ سے مدائن اور اس کے سفید محل کو دیکھ رہا ہوں۔ پھر فرمایا : بسم اللہ، اور ایک اور ضرب لگائی اور باقی ماندہ پتھر کو وہاں سے ہٹا دیا، اور فرمایا : اللہ اکبر، مجھے یمن کی کنجیاں عطا فرما دی گئیں، اللہ تعالیٰ کی قسم! بے شک میں اپنی اس جگہ سے (یمن کے شہر) صنعاء کے دروازے دیکھ رہا ہوں ۔ (أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 4 / 303، الرقم : 18716، والنسائي في السنن الکبری، 5 / 269، الرقم : 8858، وابن أبي شيبة في المصنف، 7 / 378، الرقم : 36820، وأبو يعلی في المسند، 3 / 244، الرقم : 1685، والروياني في المسند، 1 / 276، الرقم : 410، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 1 / 391، والخطيب البغدادي في تاريخ بغداد، 1 / 131، والزيلعي في تخريج الأحاديث والآثار، 1 / 181، والعسقلاني في فتح الباري، 7 / 397، وقال : إسناده حسن، والهيثمي في مجمع الزوائد، 6 / 130. 131، والسيوطي في الدر المنثور، 6 / 575. 576.)

حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ایک دن سورج طلوع ہونے کے بعد حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہماری طرف تشریف لائے اور فرمایا : میں نے فجرسے تھوڑا پہلے خواب میں دیکھا گویا مجھے (زمین و آسمان کی) چابیاں اور ترازو عطاء کیے گئے(نبی کا خواب بھی مبنی بر وحی ہوتا ہے)۔ مقالید تو چابیاں ہیں اور ترازو وہ ہیں جن کے ساتھ تم وزن کرتے ہو۔ پھر مجھے ایک پلڑے میں رکھا گیا اور میری امت کو دوسرے پلڑے میں پھر وزن کیا گیا تو میرا پلڑا بھاری تھا۔ پھر ابو بکر صدیق کو لایا گیا پس ان کا وزن میری امت کے ساتھ کیا گیا تو ان کا پلڑا بھاری تھا۔ پھر عمر کو لایا گیا اور ان کا وزن میری امت کے ساتھ کیا گیا تو ان کا پلڑا بھاری تھا۔ پھر عثمان کو لایا گیا اور ان کا وزن میری امت کے ساتھ کیا گیا پھر وہ پلڑا اٹھا لیا گیا ۔ (چشتی : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 2 / 76، الرقم : 5469، وابن أبی شيبة في المصنف، 6 / 352، الرقم : 31960، 6 / 176، الرقم : 30484، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 58.)

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مجھے پانچ ایسی چیزیں عطا کی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی نبی کو نہیں عطا کی گئیں اور ایسا میں بطور فخر نہیں کہہ رہا، مجھے تمام سرخ و سیاہ لوگوں کی طرف (نبی بنا کر) بھیجا گیا، ایک ماہ کی مسافت سے ہی طاری ہونے والے رعب کے ذریعے میری مدد کی گئی ہے، اور میرے لئے اموالِ غنیمت کو حلال کیا گیا جبکہ مجھ سے پہلے کسی نبی کے لئے یہ حلال نہیں تھے، اور تمام زمین میرے لئے پاک اور سجدہ گاہ بنا دی گئی، اور مجھے شفاعت عطا کی گئی جسے میں نے اپنی امت کے لئے (روز قیامت تک) موخر کر دیا، اور یہ شفاعت اس کے لئے ہو گی جو کسی چیز کو اللہ تعالیٰ کا شریک نہیں ٹھہرائے گا ۔ اس حدیث کو امام احمد اور ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔ اور علامہ ابن کثیر نے کہا کہ اسے امام احمد نے روایت کیا اور اس کی سند عمدہ ہے، اور امام ہیثمی نے کہا کہ امام احمد کی روایت کے رجال صحیح حدیث کے رجال ہیں ۔ (أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 1 / 250، 301، الرقم : 2256، 2742، وابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 303، الرقم : 31643، و عبد بن حميد فی المسند، 1 / 215، الرقم : 643، والهيثمي في مجمع الزوائد، 8 / 258، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 2 / 256.)

حضرت محمد بن علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو بیان کرتے ہوئے سنا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مجھے وہ کچھ عطا کیا گیا ہے جو گزشتہ انبیاء کرام میں سے کسی کو عطا نہیں کیا گیا، ہم نے عرض کیا : یا رسول اﷲ! وہ کون سی چیز ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : رعب کے ذریعے میری مدد کی گئی ہے، اور مجھے روئے زمین (کے خزانوں) کی کنجیاں عطا کی گئیں ہیں، میرا نام احمد رکھا گیا ہے، اور ساری زمین میرے لئے پاک کر دی گئی ہے، اور میری امت تمام امتوں سے بہترین بنائی گئی ہے ۔ اس حدیث کو امام احمد اور ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے، اور علامہ ابن کثیر نے فرمایا کہ اس کی سند حسن ہے ۔
(أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 1 / 98، 158، الرقم : 763، 1361، وابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 304، الرقم : 31647، وابن عبد البر في الاستذکار، 1 / 310، وفي التمهيد، 19 / 291، والفاکهي في أخبار مکة، 3 / 117، الرقم : 1872، والمقدسي في الأحاديث المختارة، 2 / 348، الرقم : 728. 729، وقال : إسناده حسن، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 1 / 392، وابن تمام الرازي في الفوائد، 2 / 109، الرقم : 1276، والهيثمي في مجمع الزوائد، 1 / 260.چشتی)

حضرت سعید بن جبیر کا بیان ہے کہ حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما نے فرمایا : کوثر سے مراد بہت زیادہ بھلائیاں (اور انعامات) ہیں جو اللہ تعالیٰ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کو عطا فرمائی ہیں۔ ابو بشر کا بیان ہے کہ میں نے سعید بن جبیر سے کہا کہ بعض لوگوں کا تو یہ خیال ہے کہ وہ جنت میں ایک نہر ہے۔ حضرت سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جنت کی وہ نہر تو اس خیر کا ایک حصہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عطا فرمائی ہے ۔
(أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : الرقاق، باب : في الحوض، 5 / 2405، الرقم : 6206، والنسائي في السنن الکبری، 6 / 523، الرقم : 11704، وابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 323، الرقم : 31767، والحاکم في المستدرک، 2 / 586، الرقم : 3979، وقال : هذا حديث صحيح علی شرط الشيخين، وابن المبارک في الزهد، 1 / 562، الرقم : 1614.)

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہم میں تشریف فرما تھے، اچانک آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اونگھ آ گئی (جو کہ نزولِ وحی کی کیفیات میں سے ایک کیفیت تھی)، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسکراتے ہوئے سر اٹھایا تو ہم نے عرض کیا : یا رسول اللہ! آپ کس وجہ سے مسکرا رہے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ابھی مجھ پر یہ سورت {بے شک ہم نے آپ کو (ہر خیر و فضیلت میں) بے انتہا کثرت بخشی ہے o پس آپ اپنے رب کے لیے نماز پڑھا کریں اور قربانی دیا کریں (یہ ہدیہ تشکرّہے) oبے شک آپ کا دشمن ہی بے نسل اور بے نام و نشاں ہو گاo} نازل ہوئی پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم جانتے ہو کوثر کیا ہے؟ ہم نے عرض کیا : اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کوثر وہ نہر ہے جس کا میرے رب نے مجھ سے وعدہ کیا ہے، اس میں خیر کثیر ہے، وہ ایک حوض ہے جس پر میری امت کے لوگ قیامت کے دن پانی پینے کے لیے آئیں گے، اس کے برتن ستاروں (کی تعداد) کے برابر ہیں ۔ (أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب : الصلاة، باب : حجة من قال البسملة آية من أول کل سورة، 4 / 557، الرقم : 400، وأبو داود في السنن، کتاب : السنة، باب : في الحوض، 4 / 237، الرقم : 4747، والنسائي في السنن، کتاب : الافتتاح، باب : قراء ة، 2 / 133، الرقم : 904، أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 102، الرقم : 12015، وأبو يعلی في المسند، 7 / 40، الرقم : 3951، والبيهقی في شعب الإيمان، 2 / 434، الرقم : 2317، والقرطبي في الحوض والکوثر، 1 / 98، الرقم : 35.چشتی)

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اﷲ عنہما ’’کوثر‘‘ کی تفسیر بیان فرماتے ہیں کہ اس سے مراد ’’خیر کثیر‘‘ ہے (جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہی اللہ تعالیٰ نے عطا فرمائی ہے)، پس امام محارب نے کہا : سبحان اﷲ، حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے بہت کم کوئی بات چھوٹتی ہے۔ میں نے حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما کو بیان کرتے ہوئے سنا کہ جب ’’اِنَّآ اَعْطَيْنٰـکَ الْکَوْثَرَ‘‘ نازل ہوئی تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کوثر سے مراد جنت کی ایک نہر ہے، جس کے دونوں کنارے سونے کے ہیں اور وہ اعلی قسم کے موتیوں اور یاقوت کے بہاؤ پر چلتی ہے، اس کے پانی کا ذائقہ شہد سے زیادہ میٹھا، اور دودھ سے زیادہ سفید اور برف سے زیادہ ٹھنڈا اور مسک کی خوشبو سے زیادہ خوشبو دار ہو گا۔ امام محارب نے فرمایا کہ حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما نے صحیح فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی قسم واقعی یہ خیر کثیر (میں سے) ہے ۔ اس حدیث کوامام احمد اور حاکم نے روایت کیا ہے اور امام حاکم نے فرمایا کہ یہ حدیث صحیح الاسناد ہے ۔ (أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 2 / 112، الرقم : 5913، والحاکم في المستدرک، 3 / 625، الرقم : 6308.)

اہل ایمان ان احادیث مبارکہ کو پڑھیں اور اپنا ایمان تازہ کریں اور خارجی جل جل کر مریں اللہ فتنہ خارجیت کے شر سے بچائے آمین ۔ دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی ۔

No comments:

Post a Comment

جاہل قصہ گو واعظین کا رد اور خطباء و مقررین کےلیے شرائط

جاہل قصہ گو واعظین کا رد اور خطباء و مقررین کےلیے شرائط محترم قارئینِ کرام : مقرر کےلیے چار شرائط ہیں ، ان میں ایک بھی نہ پائی جائے تو تقریر...