درس قرآن موضوع : کافر، فاسق اور مسلمان کے جنازے سے متعلق چند شرعی مسائل
درس قرآن موضوع : کافر، فاسق اور مسلمان کے جنازے سے متعلق چند شرعی مسائل
وَلَا تُصَلِّ عَلٰۤی اَحَدٍ مِّنْہُمۡ مَّاتَ اَبَدًا وَّلَاتَقُمْ عَلٰی قَبْرِہٖ ؕ اِنَّہُمْ کَفَرُوۡا بِاللہِ وَرَسُوۡلِہ وَمَاتُوۡا وَہُمْ فٰسِقُوۡنَ ﴿سورہ توبۃ 84﴾
ترجمہ : اور ان میں سے کسی کی میت پر کبھی نماز نہ پڑھنا اور نہ اس کی قبر پر کھڑے ہونا بیشک وہ اللہ و رسول سے منکر ہوئے اور فسق ہی میں مر گئے ۔
مختصر تفسیر : وَلَا تُصَلِّ عَلٰۤی اَحَدٍ مِّنْہُمۡ مَّاتَ اَبَدًا : اور ان میں سے کسی کی میت پر کبھی نماز جنازہ نہ پڑھنا ۔ اس آیت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو منافقین کے جنازے کی نماز اور ان کے دفن میں شرکت کرنے سے منع فرمایا گیا اور اس کا شانِ نزول یہ ہے کہ عبداللہ بن اُبی بن سلول منافقوں کا سردار تھا ، جب وہ مرگیا تو اس کے بیٹے حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جو مسلمان صالح مخلص صحابی اور کثیرُ العبادت تھے انہوں نے یہ خواہش کی کہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ان کے باپ عبداللہ بن اُبی بن سلول کو کفن کے لئے اپنا قمیص مبارک عنایت فرمادیں اور اس کی نمازِ جنازہ پڑھا دیں ۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی رائے اس کے خلاف تھی لیکن چونکہ اس وقت تک ممانعت نہیں ہوئی تھی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو معلوم تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا یہ عمل بہت سے منافقین کے ایمان لانے کا باعث ہوگا اس لئے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اپنی قمیص بھی عنایت فرمائی اور جنازہ میں شرکت بھی کی ۔ قمیص دینے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے چچا حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو بدر میں اسیر ہو کر آئے تھے تو عبداللہ بن اُبی نے اپنا کرتہ انہیں پہنایا تھا ۔
حضورصلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو اس کا بدلہ دینا بھی منظور تھا لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے قمیص بھی دیا اور جنازہ بھی پڑھایا ۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور اس کے بعد پھر کبھی سرکارِ دو عالَم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے کسی منافق کے جنازہ میں شرکت نہ فرمائی اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی وہ مصلحت بھی پوری ہوئی ۔ چنانچہ جب منافقین نے دیکھا کہ ایسا شدید عداوت والا شخص جب حضورصلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے کرتے سے برکت حاصل کرنا چاہتا ہے تو اس کے عقیدے میں بھی آپ اللہ تعالیٰ کے حبیب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اور اس کے سچّے رسول ہیں یہ دیکھ کرایک بڑی تعدادمسلمان ہوگئی ۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۸۴، ۲/۲۶۸-۲۶۹)
یہ بات احادیث صحیحہ سے ثابت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے عبداللہ بن ابی رئیس المنافقین کا نمازِ جنازہ پڑھا اور اسے اپنا کرتہ مبارک پہنایا۔ سرکار کے اس عمل میں چند حکمتیں تھیں ۔
ایک یہ کہ عبداللہ بن ابی کا بیٹا مومن مخلص تھا اس کی خواہش پر سرکار نے ایسا کیا تاکہ اس کی دلجوئی ہو جائے ۔
دوسری حکمت یہ تھی کہ حضرت عباس ر ضی اللہ تعالی عنہ جب روزِ بدر برہنہ قید ہو کر آئے تھے تو طویل القامت ہونے کے سبب کسی کا کرتہ انہیں پورا نہیں آتا تھا چونکہ ابن ابی بھی طویل القامت تھا اس کا کرتہ انہیں پورا آیا جو اس نے انہیں پہنا دیا تو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اپنا کرتہ پہنا کر وہ بدلہ اُتار دیا تاکہ عدو اللہ کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم پر احسان نہ رہے ۔
تیسری یہ کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم جانتے تھے کہ ان کے عمل سے ابن ابی کا قوم کے ایک ہزار افراد مسلمان ہو جائیں گے اس لیے یہ عمل فرمایا چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ اس کی قوم کے ایک ہزار آدمی داخل اسلام ہو گئے۔ الحاصل آپ کا یہ عمل اسے نفع پہنچانے کے لیے نہیں تھا بلکہ مذکورہ بالا وجوہ کی بنا پر تھاچنانچہ سرکار نے صاف صاف فرما دیا تھا کہ میرا جنازہ پڑھنا اور کرتہ اسے نفع نہیں پہنچائے گا اور یہ عمل آیت کریمہ و لا تصل علی احد منھم مات ابدا ولا تقم علی قبرہ۔(سورۃ التوبۃ آیت۴۸)کے نزول سے قبل کا ہے ۔
اس کے بعد حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے کسی منافق کا جنازہ نہیں پڑھا۔ (لہٰذا یہ خیال قطعاً درست نہیں کہ منافق کا جنازہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے کیوں پڑھا جبکہ قرآن عظیم اس سے منع فرما رہا ہے تو جواب آ گیا کہ یہ عمل اس آیت سے پہلے کا تھا اور تحریم سے قبل فعل کو حرام کہنا جہالت ہے۔ شراب حرام ہونے سے قبل صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی اجمعین نے اسے پیا مگر گناہ نہیں تھا کہ اس وقت وہ حرام نہ تھا جب آیت تحریم آئی تو سب نے چھوڑ دیا ۔
امام ملا علی قاری حنفی رحمۃُ اللہ علیہ مرقاۃ شرح مشکوٰۃ میں فرماتے ہیں ۔ و روی ان النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کلم فیما فعل بعبد اللّٰہ بن ابی فقال رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم و ما یغنی عنہ قمیصی و صلاتی من اللّٰہ واللّٰہ انی کنت ارجو ان یسلم بہ الف من قومہ روی انہ اسلم الف من قومہ لما رأوہ یتبرک بقمیص النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اھ۔ قال الخطابی ھو منافق ظاھر النفاق و انزل فی کفرہ ونفاقہ آیات من القرآن تتلی فاحتمل انہ علیہ الصلوٰۃ والسلام فعل ذالک قبل نزول قولہ تعالیٰ و لا تصل علی احد منھم مات ابدا ولا تقم علی قبرہ و ان یکون تالیفا لابنہ و اکراما لہ و کان مسلما برئیا من النفاق و ان یکون مجازاۃ لہ لانہ کان کسا العباس عم النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم قمیصا فاراد ان یکافۂ لئلا یکون لمنافق عندہ ید لم یجازہ علیھا۔ الخ(مرقاۃ ص۰۵۳ ج۲) ترجمہ : مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے عبد اللہ بن ابی کیساتھ جو معاملہ کیا اس کے بارے میں کلام فرمایا کہ میری قمیص اور نماز ادا کرنا اسے نفع نہ دے گی ۔ خدا کی قسم میں امید کرتا ہوں کہ اس کام سے اس کی قوم کے ہزار آدمی ایمان لے آئیں گے جب انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی قمیص سے اسے برکت حاصل کرتے دیکھا ۔ امام خطابی نے کہا ہے کہ وہ منافق تھا جس کا نفاق ظاہرتھا اور اس کے نفاق وکفرمیں قرآن مجید کی آیات نازل ہوئیں جو تلاوت کی جاتی ہیں اور اس بات کا احتمال ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے یہ کام اللہ تعالی کے فرمان ”ولاتصل علی احد منھم مات ابدا“ کے نزول سے پہلے کیا اور اس کے بیٹے کی دلجوئی اور اس کے اکرام کےلئے کیا اس لئے کہ وہ مسلمان تھا نفاق سے پاک تھا ۔ اور یہ بھی احتمال ہے کہ اسکا بدلہ ہو کہ اس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے چچا حضرت عباس رضی اللہ تعالی عنہ کو قمیض پہنائی تھی توآپ نے اسکا بدلہ دینے کاارادہ کیا تاکہ ”منافق کا آپ پرکوئی حق جسکا آپ نے اسے بدلہ نہ دیا ہو“ باقی رہے ۔
کافر، فاسق اور مسلمان کے جنازے سے متعلق چند شرعی مسائل
اس آیت سے معلوم ہو اکہ اگر کوئی کافر مر جائے تو مسلمان پر لازم ہے کہ وہ اس کے مرنے پر نہ اس کے لئے دعا کرے اور نہ ہی ا س کی قبر پر کھڑا ہو ۔ افسوس! فی زمانہ حال یہ ہے کہ اگر مسلمانوں کے ملک میں کوئی بڑا کافر مر جاتا ہے تو مسلمانوں کی سربراہی کے دعوے دار اس کے مرنے پر اس طرح اظہارِ افسوس کرتے ہیں جیسے اِن کا کوئی اپنا بڑا فوت ہوگیا ہو اور اگر اس کی قبر بنی ہو تو اس پر کھڑے ہو کر دعا ئیں مانگتے ہیں۔ یہ دعا بالکل حرام ہے ۔
کافر، فاسق اور مسلمان کے جنازے سے متعلق چند شرعی مسائل
(1) اس آیت سے ثابت ہوا کہ کافر کے جنازے کی نماز کسی حال میں جائز نہیں اور کافر کی قبر پر دفن و زیارت کے لئے کھڑے ہونا بھی ممنوع ہے اور یہ جو فرمایا ’’ اور فسق ہی میں مرگئے ‘‘ یہاں فسق سے کفر مراد ہے قرآنِ کریم میں اور جگہ بھی فسق بمعنیٰ کفر وارد ہوا ہے جیسے کہ آیت ’’ اَفَمَنۡ کَانَ مُؤْمِنًا کَمَنۡ کَانَ فَاسِقًا‘‘ (1) (توکیا جو ایمان والا ہے وہ اس جیسا ہوجائے گا جو نافرمان ہے) میں ۔
(2) فاسق کے جنازے کی نماز جائز بلکہ فرضِ کِفایہ ہے ، اس پر صحابہ اور تابعین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کا اجماع ہے اور اس پر علماء و صالحین کا عمل اور یہی اہلِ سنت و جما عت کا مذہب ہے ۔
(3) جب کوئی کافر مر جائے اور اس کا ولی مسلمان ہو تو اس کو چاہیے کہ بطریق مَسنون غسل نہ دے بلکہ اس پر پانی بہا دے اور نہ کفن مسنون دے بلکہ اتنے کپڑے میں لپیٹ دے جس سے اس کا ستر چھپ جائے اور نہ سنت طریقہ پر دفن کرے اور نہ بطریقِ سنت قبر بنائے ،صرف گڑھا کھود کر اندر رکھ دے ۔
(ماخوذ : تفسیر قرطبی ، تفسیر خازن ، تفسیر صاوی ، تفسیر کبیر ، تفسیر المینار ، تفسیرطبری ،تفسیر تبیان القرآن)۔(طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment