Saturday 10 February 2018

حصّہ اوّل : فساد بالا کوٹ کی اصل تصویر انگریز کا وفادار کون ؟

0 comments
حصّہ اوّل : فساد بالا کوٹ کی اصل تصویر انگریز کا وفادار کون ؟


جعفر تھانسیری دیوبندی وہابی تواریخ عجیبہ میں لکھ رہا ہے : لاچار میں نے لارڈ ڈفرن صاحب بہادر گورنر جنرل ہند کو عرض کیا تھا کہ یہ کیسا انصاف ہے نہ مجھکو قید سے چھوڑتے ہو نہ کھانے کو دیتے ہو، نہ مجھ کو کالے پانی میں رہنے دیا، نہ میرا مال منضبط واپس دیا، اگر میرے ساتھ کچھ نیک سلوک کرنا خلافِ انصاف و اخلاق ہے تو صاحبو مجھکو پوری رہائی دیکر مطلق العنان کردو اس وقت میں اپنا گذارہ آپ کرلوں گا قید میں بھی رکھنا اور کھانے کو بھی نہ دینا یہ تو نوابی قانون ہے مگر لاڑد ڈفرن صاحب نے جواب تک نہیں دیا۔ اب میرا اللہ مالک ہے جب سے کپتان ٹمپل صاھب ولایت کو چلے گئے میں بھوکا نہیں مرتا، میرا پچاس روپیہ ماہوار کا خرچ خداوند تعالیٰ اپنی قدرتِ کاملہ سے آپ پورا کردیتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں نے جب انگریزی پڑھ کر طرح طرح کی کتابیں دیکھیں اور رات دن صدہا صاحب لوگوں کے ساتھ رہنے اور طرح طرح کی بات چیت کرنیکا اتفاق ہوا تو مجھکو معلوم ہوا کہ سرکار انگریزی کا ہرگز ہرگز ارادہ نہیں ہے کہ کسی ہندو یا مسلمان کو نصرانی بنا دیں بلکہ بیسیوں صاحب لوگوں کو میں نے دیکھا کہ وہ خود نصرانیت کو ایک لغو اور بچوں کا کھیل سمجھتے ہیں 1857ء میں جو ہندوستانی فوج کو یہ خیال تھا کہ سرکار انگریز بذریعہ کارتوس وغیرہ ہمکو کرستان (کرسچن) کرنا چاہتی ہے بالکل (صفحہ 98 کا اختتام ہوا)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ صفحۃ 99 شروعات۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اسے بالکل ایک لغو اور پوچ وسوسہ شیطانی تھا جس سے طرفین کے ہزاروں خون ہوگئے۔ اور صدھا رئیس اور امیر اور معزز عہدہ دار بگڑ گئے۔ جہاں تک مجھے معلوم ہے دنیا کے موجودہ بادشاہوں میں انگریزی سلطنت ایک لامذہب اور آزاد اور عمدہ راج ہے۔ اگر یہ لوگ موجودہ بے بنیاد تعصب کو دل سے دور کردیویں (دیں) تو میرے خیال مین زمانہ حال کے مسلمان ترکوں، اور مغلوں اور افغانیوں سے بھی یہ لوگ اس بارے میں بہترہیں۔ ان بادشاہوں کی عملداری میں کوئی آدمی کھلا کھلا قرآن و حدیث پر عمل نہیں کرسکتا اور اپنی خیالات اور عقائد کو سوائے معمولی لکیر کے دوسرے طور پر ظاہر نہیں کرسکتا۔ دیکھو یہ فقط انگریزی راج کی بدولت ہے کہ میں نے یہ رسالہ سچ سچ لکھ دیا اور اپنے رنج و تکلیف کو ظاہر کردیا مگر اسمیں کوئی شک نہیں کہ انگریزی راج سے فقط ہماری سلطنت اور حکومت ہی نہیں جاتی رہی جسکے چلے جانے کا سوائے خاندانِ تیموری کے کسی دوسرے کو ایسا رنج نہیں ہے، بلکہ ہماری حرفت و تجارت و نوکری، مععاش وغیرہ سب برباد ہوگئے اور ہم فقیر بن گئے اور زبان دراز مکار دغا بازوں نےا پنی زبان درازی اور چالاکی سے واسطے اظہار اپنی خیرخواہی کے ہماری طرف سے سرکار کو ایسا بھڑکایا اور ایسے صریح دروغ الزام ہم پر قائم کئے کہ جنکی تردید میں مجھ کو ایک دوسری کتاب لکھنی پڑی۔ اب انگریز لوگ بجائے ہمدردی اور دستگیری کے ہمارے دشمن ہورہے ہیں اب تیرے حضور میں ہماری فریاد ہے کہ تو ہماری فاتح قوم کے دل میں انصاف اور رحم ڈال کہ وہ بیجا تعصب و مابیت کو دل سے دور کر کے اور خود غرضوں کی بات کو بلا دریافت تسلیم نہ کرکے اس فرقہ سینٹ موحدین مہذبین کی قدر کرے اور انکی عداوت سے باز آئے اور اپنی کل رعایا گوری کالی کو بلا لحاظ مذہب و لباس (کوٹ پتلون) ورنگ کے حسب وعدہ سنہ 58ء کے ایک ہی آنکھ سے دیکھے تو پھر یہ سب موجودہ تکالیف سرکار کی رفع ہوجاویگی (جائے گی)۔ لاکھوں آدمیوں کے دلوں کو بے وجہ دکھانا اور انکی دعا لینا اچھا نہیں ہے آگے سرکار مختیار ہے ۔ بررسولان بلاغ باشدوبس۔ (اختتام صفحہ 99 ، تواریخ عجیبہ)


شروعات صفحہ تواریخ عجیبہ 100؛۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اب آخیر بار ی میں لارڈ رین صاحب بہادر و جنرل ڈونلڈ اسٹیوارٹ صاحب بہادر اور کپتان ٹمپل صاحب بہادر و ڈاکٹر بٹسن صاھب اور عموماً کل افسران جزائر انڈیمان کا اور خصوصاً کرنل بی فورڈ اور جرنل ایچہ مین صاحب اور میجر پلیفیر صاحب اور کرنیل پرات صاحب، اور مستراہی ایچہ مین صاحب اسسٹنٹ کمشنر اور مسٹر بروکس صاحب اور سردار مگھیل صاحب، اکسٹرا اسسٹنٹ کمشنران کا دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں کہ جنکی بدولت میری قید سخت بہ آسانی طے ہوگئی اور پھر اپنے وطن مالوفہ کو آکر دیکھا اور اسی طرح ان متعصب صاحب لوگوں کے حق میں بھی دعا کرتا ہوں کہ اس خداوند آتش تعصب کو ان کے دلوں سے دور کرتاکہ وہ فاتح اور مفتوح کے درمیان اتفاق اور محبت کرانیکی کوش کریں اور ناحق اشتعال کو دیکر جلتے کو نہ جلائیں۔ آمین یا رب العالمین ۔ دستخط محمد جعفر تھانسیری صدر بازار کیمپ انبالہ۔ (اختتام صفحہ تواریخ عجیبہ 100)۔

حاصل کلام اور چند اہم نکات

(1) یہ وہی وہابی دیوبندی نام نہاد جہادی ہیں جو دعوے کرتے ہیں کہ غیراللہ سے مدد شرک ہے لیکن کود لارڈ ڈفرن سے پچاس روپیہ ماہوار پر امت مین تفریق ڈالتے رہے اور جہاد کے نام پر بالاکوٹ کے غیور مسلمانوں کو شہید کرتے رہے، ان کے نزدیک کپتان ٹمپل کے ولایت جانے سے پہلے ان کا پالن ھار یعنی پالنے والا اللہ نہیں تھا وہ جب ولایت گیا تو انکو اللہ کی یاد آئی اور یہ بھی کہ اسکے بعد پچاس روپیہ کی قیمت وصول کرنے کے لیئے انہوں نے (جہاد) کا راستہ اپنایا تھا اور امت میں تفریق ڈالی ۔

(2) تواریخ عجیبہ صفحہ ۹۸ پر یہ بھی انکشاف ہوتا ہے کہ یہ جاہل غیرتعلیم یافتہ طبقہ جب انگریزی پڑھ گیا تو انگلش کتایں دیکھیں اور ان کو اندازہ پھر بھی نہ ہوا کہ ان کا واسطہ کن سے پڑا ہے۔ کیونکہ برطانوی راج میں سب لوگ اصل میں صیہونی شیطان پرست تھے جس کو ہم لوگ آج بہ آسانی فری میسن اور ایلومناٹی کے نام سے جانتے ہیں یا زائیونسٹس۔ اسی لیئے تو وہ نصرانی مذہب یعنی عیسائیت کے بھی خلاف تھے۔ اور اسکو لغو اور بچوں کا کھیل اسی لیئے تو سمجھتے تھے نیز اس سے یہ بھی ثبوت ملتا ہے کہ ۱۸۵۷ کی جنگ آزادی یعنی غدر میں یہ لوگ انگریز کے پالے ہوئے پٹھو اور حمایتی تھے اور جو کوئی انگریز کے مخالف تھا یہ ہندو نواز طبقہ اسکو باغی کہتا تھا اور اسی لیئے امت کو بریلوی کا نام دیا اور خود مامے خاں بن بیٹھے ۔

(3) تواریخ عجیبہ صفحہ ۹۹ پر ثبوت دے دیا رہتی نسلوں تک کہ یہ لوگ اصل مین لادین تھے اسی لیئے تو انگریزی حکومت کو مسلمانوں کی ہرحکومت سے اچھا بتا رہے ہیں اور لکھ بھی رہے ہیں کہ یہ لادین تھے ۔
(4) پھر ان کا یہ لکھنا کہ بادشاہوں کی عملداری میں کوئی آدمی کھلا کھلا قرآن و حدیث پر عمل نہیں کرسکتا اور اپنے خیالات اور عقائد کو سوائے معمولی لکیر کے دوسرے طور ظاہر نہیں کرسکتا۔ اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ وہابی شاہ اسماعیل دہلوی اور سید احمد بریلوی وہابی کے چاہنے والے اصل میں قرآن و حدیث کے نام پر اپنی لادینیت اور کفر شرک بدعت پھیلانا چاہتے تھے جو ظاہر ہے کہ کسی مسلمان بادشاہ کے دور میں ممکن نہ تھا، ورنہ ایک مسلمان کا مسلم بادشاہ کے دور میں کھلا کھلا قرآن و حدیث پر عمل نہ کرسکنا تو کسی انگریز نے بھی بیان نہیں کیا۔ بلکہ یہ اس بات کا بھی ثبوت ہے کہ یہ لوگ ماضی کے جاہل گمراہ لوگ تھے جو ان کے ٹکڑوں پر پل رہے تھے اور ۱۸۵۷ کی جنگ آزادی میں انگریز کے حمایتی تھے اور ان کو کسی طور اپنے گمراہ خیالات کی اشاعت نہیں تھی تیموری دور میں ورنہ انہوں نے ایک اور حسن بن صباح کھرا کردینا تھا یا ایک اور مرزا قادیانی ۔

(5) اس جعفر تھانسیری (عرف میر جعفر پارٹ دوم) کا یہ لکھنا کہ راج جانے سے ہمیں کوئی فرق نہیں پڑا صاف صاف اظہار ہے کہ ان کے دلوں میں مسلم راج کے ختم ہونے کی کوئی تکلیف نہیں ہوئی کیونکہ ہی اسلام سے ہیں ہی نہیں خوارج اسی لیئے تو ان کو رسول اللہ علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ یہ لوگ دین سے نکل جائیں گے۔ بلکہ ان کے پیٹ پرستی پیسہ اور ہوس اقتدار کی بھوک کا ان لائینوں میں کھلم کھلا اقرار موجود ہے۔ مجھے حیرت ہے وہ کیسے جاہل لوگ ہیں جو ان وہابیوں دیوبندیوں کے ان جھوٹے انگریزی ہنودی صیہونی بیوقوفون کو علماٗ سمجھ کر پیروی کرتے ہیں ۔

(6) اسی صفحہ پر یہ بھی لکھا ہے کہ اب انگریز لوگ بجائے ہمدردی اور دستگیری کے ہمارے دشمن ہورہے ہیں۔ یعنی جیسے ایک طوائف اپنے یار کو بتاتی ہے کہ دیکھو میں نے تمہاری راتیں جوان رکھیں اور اب تم میری طرف توجہ ہی نہیں دے رہے قسم سے یہی ڈرامہ یہاں پر دیا گیا ہے اور یہی محسوس ہوتا ہے ان الفاظ سے، یہ لوگ جو غیراللہ سے مدد کا پراپیگنڈہ چھوڑ کر امت کو مشرک بکتے ہیں خود انگریزوں کے ہرخاص و عام ٹٹ پونجیئے کو (ہمدرد اور دستگیر) کھلم کھلا مان رہے ہیں ۔ خود دیکھیئے ۔

(7) پھر اس پر کوئی شرم نہیں کہ ان کے ہاتھوں مسلمانوں کی ۹۰۰ سالہ راج کی تاریخ ختم ہوئی بلکہ ترکوں افغانوں سب کی بے عزتی کرکے لکھتے ہیں کہ اس فاتح قوم کے دلوں مین ہمارے لیئے رحم ڈال کہ وہ ہم پر بیجا تعصب نہ کرین بلکہ ہمیں لادین حکومت کا حمایتی اور وفادار سمھیں ۔

(8) فرقہ سینٹ موحدیث مہذبین ۔ کی قدر کرے سے مراد جعفر کی یہ ہے کہ انگریزوں کی سینٹ ِ صیہونیہ ان نام نہاد جدید موحدین مہذیبن کی قدر کرے۔ غور فرمائیے اس جملے پر بار بار نیز اس کا لکھنا کہ حسبِ وعدہ ۵۸ سن آپ ہم سب سے ایک جیسا سلوک کریں یعنی انہوں نے ہندووں کی طرح انگریز کی جو غلامی قبول کی تھی تو ۵۷ کی جنگ آزادی میں ان سے انگریز نے ویسے ہی کچھ وعدے کئے تھے جیسے آج ان کی نسل سے ٹی ٹی پی اور احرار وغیرہ سے انگریز اور ہنود نے وعدے کررکھے ہیں اور جو این ڈی ایس کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں۔ نیز یہ دیکھیں کہ اسی صفحہ کی بالکل آخری لائن میں اس نے انگریزی لادینی سرکار کو (مختار) مانا ہے لیکن یہی وہابی دیوبندی فرقہ دجال نبی کریم علیہ السلام کو مختار ماننے کا انکاری ہے ۔ منافق

(10) اور تواریخ عجیبہ صفحۃ ۱۰۰ پر انگریزوں کے جتنے بھی اور ہندو سرداروں کے جتنے بھی نام دیئے وہ بھی یہ ثبوت ہیں کہ ان کا جزائر انڈیمان میں جانا فقط جھوٹا افسانہ ہے۔ وہاں پر ان کو ویسے ہی اپر کلاس دی گئی تھی جیسے آج کے غدارِ قوم خوارج یا سیاستدان کو (اے) کلاس دی جاتی ہے جہاں سے وہ ہرقسم کی آزادی میں رہتا ہے مگر کہنے کو وہ قید ہوتی ہے۔ جن کو کالے پانی کی اصلی سزائیں ہوئیں تھیں ان کو تو انگریز نے شہادتیں دی تھیں جیسے مولانا فضل حق خیرآبادی رحمتہ اللہ علیہ، مولانا کفایت علی کافی رحمتہ اللہ علیہ وغیرہ۔ اور یہ لوگ جو آج بڑا الحاد کے خلاف اپنے آپ کو بتاتے ہیں یہی تو الحادیوں کے پکے ساتھی اور حمایتی ہیں۔ تو کاہے کا جہاد اور کاہے کا بالاکوٹ ؟(بقیہ حصّہ دوم میں ان شاء اللہ)(پیشکش : ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔