میت کو قبر میں دفن کرنے کے بعد قبر پر کھڑے ہو کر دعا کرنا
محترم قارئین : ہمارے ایک دوست نے بار بار میسج کیئے کہ میت کےلیئے ہاتھ اٹھا کر یا دفن کے بعد دعا کرنے کو بعض لوگ ناجائز کہتے ہیں اس کے متعلق رہنمائی فرمائیں ، فقیر ڈاکٹر فیض احمد چشتی عرض گزار ہے کہ مختصر وقت میں یہ مضمون لکھا ہے اہل علم کہیں غلطی پائیں تو فقیر کو ضرور آگاہ فرمائیں شکریہ ۔
دفن کرنے کے بعد میت کیلئے دعا کرنا نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم سے ثابت ہے ۔ امیر المؤمنین حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب کسی میت کو دفن کرنے سے فارغ ہوتے تو آپ اس پر کھڑے ہو کر فرماتے کہ اپنے بھائی کے لیے بخشش مانگو، پھراس کے لیے ثابت قدمی کا سوال کرو۔ اس سے اب سوال و جواب کیا جا رہا ہے ۔ (سنن ابو داوؤد، صحیح الترغیب و الترھیب ، ح:۳۵۱۱)
ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے ایک طویل حدیث مبارکہ روایت کی ہے جس میں ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گھر سے اٹھ کر باہر نکل جانے کے بارے میں فرماتی ہیں : حَتَّی جَاءَ الْبَقِیعَ فَقَامَ فَأَطَالَ الْقِیَامَ ثُمَّ رَفَعَ یَدَیْهِ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ.
ترجمہ : یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بقیع (قبرستان) تشریف لے گئے وہاں کافی دیر تک کھڑے رہے پھر تین بار اپنے ہاتھ اٹھائے ۔ (مسلم، الصحیح، 2: 670، رقم: 974، بیروت، لبنان: دار احیاء التراث العربي)(أحمد بن حنبل، المسند، 6: 221، رقم: 25897، مصر: مؤسسة قرطبة)
میت کو قبرستان میں دفن کرنے کے بعد قبر پر کھڑے ہو کر دعا کرنا حدیث مشکوٰۃ وغیرہ میں موجود ہے۔ اس کے الفاظ ہیں : وعنہ قال کان النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اذا فرغ من دفن المیت وقف علیہ فقال استغفروا لاخیکم ثم سلوا لہ بالتثبیت فانہ الان یسئال۔
ترجمہ : حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم دفن میت سے فارغ ہو کر قبر پر کھڑے ہوتے اور فرماتے اپنے بھائی کے لیے دعاء بخشش کرو۔ اور اس کے لیے بارگاہ ایزدی میں ثابت قدمی کی درخواست کرو۔ وہ اس وقت سوال کیا جاتا ہے ۔ (مشکوٰۃ باب اثبات عذاب القبر)
امیر المؤمنین حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب غزوہ بدر کے دن حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مشرکین کی طرف دیکھا تو وہ ایک ہزار تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تین سو تیرہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین تھے : فَاسْتَقْبَلَ نَبِيُّ اﷲِ الْقِبْلَةَ ثُمَّ مَدَّ یَدَیْهِ فَجَعَلَ یَهْتِفُ بِرَبِّهِ اللَّهُمَّ أَنْجِزْ لِي مَا وَعَدْتَنِي اللَّهُمَّ آتِ مَا وَعَدْتَنِي اللَّهُمَّ إِنْ تُهْلِکْ هَذِهِ الْعِصَابَةَ مِنْ أَهْلِ الْإِسْلَامِ لَا تُعْبَدْ فِي الْأَرْضِ فَمَا زَالَ یَهْتِفُ بِرَبِّهِ مَادًّا یَدَیْهِ مُسْتَقْبِلَ الْقِبْلَةِ حَتَّی سَقَطَ رِدَاؤُهُ عَنْ مَنْکِبَیْهِ.
ترجمہ : نبی اکرم نے قبلہ کی طرف منہ کیا اور ہاتھ اٹھا کر باآواز بلند اپنے رب سے یہ دعا کی: اے اللہ تو نے مجھ سے جو وعدہ کیا ہے اس کو پورا فرما، اے اللہ! تو نے جس چیز کا مجھ سے وعدہ کیا ہے وہ عطا فرما، اے اللہ! اہل اسلام کی یہ جماعت اگر ہلاک ہو گئی تو پھر روئے زمین پر تیری عبادت نہیں کی جائے گی۔ آپ ہاتھ پھیلا کر باآواز بلند مسلسل دعا کرتے رہے حتیٰ کہ آپ کے شانوں سے چادر گر گئی ۔
(مسلم، الصحیح، 3: 1384، رقم: 1763)
ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی حدیث ہے ۔ جس کے اندر یہ الفاظ ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میرے پاس جبرئیل امین تشریف لائے اور کہا کہ آپ کا پروردگار آپ کو حکم دیتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بقیع (مدینے کا قبرستان) جائیں اور بقیع والوں کے لیے بخشش مانگیں ۔ (صحیح مسلم، کتاب الجنائز، باب ما یقال عند دخول المقابر)
عبداللہ بن مسعود کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ کو عبداللہ ذوالبجادین کی قبر میں دیکھا ۔۔۔ اس میں ہے کہ جب آپ اس کے دفن سے فارغ ہوئے اور آپ نے منہ قبلے کی طرف کیا اور آپ نے دونوں ہاتھ اٹھا کر دعا کی۔
(فتح الباری، کتاب الدعوات، باب الدعا مستقبل القبلۃ،ح:۵۸۶۷ کی شرح میں بحوالہ مسند ابی عوانہ)
قبرستان میں اور میت کو دفن کرنے کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنا رسول اللہ کی صحیح سنت سے ثابت ہے۔
امام نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : نماز سے باہر کسی دعا میں ہاتھ اٹھانا مستحب ہے ۔ اس کے بعد آپ نے ایسی بہت سی روایات ذکر کی ہیں جو کہ نماز سے باہر ہاتھ اٹھا کے دعا کرنے کے جواز کی دلیل ہیں ۔ اس کے بعد آپ فرماتے ہیں : اس مسئلے میں اس کے علاوہ بھی بہت سی احادیث ہیں ، تاہم جتنی احادیث میں نے ذکر کردی ہیں یہ کافی ہیں ، اور مقصد یہ ہے : دعا میں ہاتھ اٹھانے کے متعلق تمام مواقع کو یکجا جمع کرنے کا مدعی شخص سنگین غلطی پر ہے ( یعنی: مدعی ان مواقع کا مکمل طور پر شمار نہیں کرسکتا ۔ الخ (شرح المهذب 3/489)
غیر مقلد علماء لکھتے ہیں : عام طور پر لوگ دعا اس کو سمجھتے ہیں جس میں ہاتھ اٹھائے جائیں ، حالاں کہ دعا ء ہاتھ اٹھائے اور بغیر ہاتھ اٹھائے دونوں صورتوں میں ہوتی ہے۔ مثلاً نماز کے اندر، سجدہ میں اور بین السجدتین اور بعض دفہ قیام میں بلا ہاتھ اٹھائے دعا ہوتی ہے ۔ اس طرح قبر پر اختیار ہے ہاتھ اُٹھا کر دعا ء کرے یا بغیر ہاتھ اُٹھائے، ہاں ہاتھ اٹھانا آداب دعا سے ہے، اس لیے اُٹھانا بہتر ہے، مگر لازم نہ سمجھے ، اور اگر کوئی ہاتھ نہ اٹھائے تو اس پر اعتراض بھی نہ کرے ۔ جیسے فرضوں کے بعد کی دعا میں کوئی ہاتھ نہ اُٹھائےتو ناواقفط لوگ اعتراض کرتے ہیں ۔ (عبد اللہ امر تسری روپڑی فتاویٰ اہل حدیث جلد نمبر ۲ ص۴۶۷) ۔(فتاویٰ علمائے حدیث جلد 05 ص 254)
فتویٰ دارالعلوم دیوبند
سوال # 54953 کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس بارے کہ قبر پرہاتھ اٹھا کر دعا مانگنی چاہیے یا ہاتھ چھوڑ کر.مسنون طریقہ کیا ہے قبر پر دعا ما نگنے کا اور کیا پڑھنا چاہیے۔ اکابر علمائے دیوبند کا طرز عمل کیا تھا ؟
Published on: Sep 13, 2014
جواب # 54953 بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 1389-933/L=11/1435-U
قبرستان میں داخل ہوتے وقت ان الفاظ کے ساتھ سلام کرنا چاہیے، السلام علیکم یا دار قومٍ موٴمنین أنتم سلفنا ونحن بالأثر وإنا إن شاء اللہ بکم لاحقون یغفر اللہ لنا ولکم أجمعین وصلی اللہ علی سیدنا ومولانا محمد وبارک وسلم سلام علیکم بما صبرتم فنعم عقبی الدار پھر جو قرآن سے آسان معلوم ہو، سورہٴ فاتحہ، سورہٴ بقرہ کی ابتدائی آیتیں مفلحون تک، آیة الکرسی، آمن الرسول، سورہ یاسین سورئہ الملک سورہ تکاثر، سورہٴ اخلاص بارہ یا گیارہ مرتبہ یا سات مرتبہ یا تین مرتبہ پڑھ کر بخش دے۔ (شامی: ۳/۱۵۱) قبر پر ہاتھ اٹھاکر یا بغیر ہاتھ اٹھائے دعا کرسکتے ہیں، البتہ ہاتھ اٹھاکر دعا کرنے کی صورت میں رخ قبلہ کی طرف ہو، اس طور پر کھڑا نہ ہو کہ مردے سے مانگنے کا گمان پیدا ہو۔
واللہ تعالیٰ اعلم دارالافتاء ، دارالعلوم دیوبند
فتاویٰ ھندیہ المعروف فتاویٰ عالگیری میں ہے : یستحب اذا دفن المیت ان یجلسوا ساعۃ عند القبر بعد الفراغ بقدر مایخرجھم و یقسم لحملھا یتلون القران ویدعون للمیت کذا فی الجوھرۃ الینزۃ ۔
ترجمہ : میت کی تدفین کے بعد تھوڑی دیر ٹھہرنا ، قرآن پاک کی تلاوت کرنا اور میت کے لیے ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا مستحب ہے ۔ دعا کا طریقہ یہ ہے کہ منہ قبلے کی طرف ہو۔ (فتاویٰ ھندیہ :1/167 )۔(طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment