Friday 23 February 2018

پاؤں اُٹھا اور ٹھوکر کھائی کچھ سنبھلا پھر اوندھے مونھ

0 comments
پاؤں اُٹھا اور ٹھوکر کھائی کچھ سنبھلا پھر اوندھے مونھ
مینھ نے پھسلن کردی ہے اور دُھر تک کھائی نالی ہے

حل لغات : ٹھوکر کھائی ، ٹھوکر کھانا ، پتھر سے پاؤں ٹکرانا ، پاؤں کی چوٹ کھانا ، الجھ کر گر پڑنا ، نقصان اُٹھانا ، بھولنا چوکنا، دھوکہ کھانا ۔ اوندھے منہ ، اُلٹے منہ۔مینھ ، بارش ۔ پھسلن ، رپٹن ، لغزش۔ کھائی ، خندق ، وہ گڑھا جو قلعہ یا شہر کے ارد گرد کھودتے ہیں ۔ نالی ، موری ، ورزش کرنے کا گڑھا ۔

شرح : ایسے سخت اور غلیظ ماحول میں احیائے دین کے لئے امام احمد رضا قدس سرہ خود کو میدان میں لے آئے تو ابھی پاؤں اُٹھا تو ہزاروں مصائب کے پہاڑ ٹکرائے جن سے ذرا سی پریشانی آئی اس سے سنبھلے ہی تھے کہ اور شدید مصائب سامنے آئے ان سے مقابلہ پر سخت بحران میں مبتلاہوئے لیکن جہاں بارش نے ماحول کو سراپا پھسلن بنارکھا ہے اس کا کیا کیا جائے اور پھر بچنا بھی مشکل ہی ہے کہ منزل تک پہنچنے کے آگے بڑا گھڑا اور اتنا گہرا کہ گرتے ہی ڈوب جانے کا خطرہ ہے ۔

مردِ میدان : اس شعر میں امام احمد رضا قدس سرہ نے اپنی ساری زندگی کی پُر کٹھن داستان کو سمیٹا ہے اور یہ حقیقت ہے کہ جس ماحول میں امام احمد رضا قدس سرہ نے آنکھ کھولی اس کا حال یہ ہے کہ برطانوی سامراج برصغیر پاک وہند پر اپنے استبدادی پنجے گاڑچکا ہے ، مسلمان غلامی کی شب دیجور کو اپنا مقدر سمجھ کر انگریز کی اطاعت کو مشیت ایزدی سے تعبیر کررہے ہیں ، احساسِ زیاں دلوں سے رخصت ہوچکا ہے ، انگریز اپنی استبدادیت کو مضبو ط تر کرنے کے لئے مسلمانوں پر بار بار ضربِ کاری لگا رہا ہے ، امام فضل حق خیر آبادی ، مفتی عنایت احمد کاکوری ، مولانا کفایت علی کافی ، مولانا احمد اللہ مدراسی جیسے آزادی پسند علماء کے تصور سے اسے دہشت آتی ہے ۔ وہ وقت کے ابوالفضل اور فیضی ڈھونڈ رہا ہے ۔ ملت اسلامیہ برصغیر کے اجتماعی ضمیر پر ضربِ کاری لگانے کے لئے وہ قادیانیت کی صورت میں ایک پودا لگاتا ہے کہ ایک روز یہ نخل ثمر آور بنے گا ۔ رافضیت و خارجیت مسلمہ عقائد کا وجود خطرے میں ڈالے ہوئے ہیں ۔ عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے جذبہ لاہوتی کو ختم کرنے کے لئے نجد کے صحراؤں سے ایک آندھی اُٹھتی ہے جسے محمد بن عبدالوہاب کی تائید حاصل ہوتی ہے اور بہت سے سادہ لوح مسلمان توحید پرستی کے زعم میں محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو فراموش کربیٹھتے ہیں جو کہ ایمان کی اساس ہے ۔ مسلم زعماء ڈھڑا دھڑ ایسی تصانیف پیش کررہے ہیں جن سے جہاد کی مذمت اور انگریزکی اطاعت کی تعلیم ملتی ہے ۔ انگریزی سامراج کے سائے میں پرورش پانے والا ہندو مسلمانوں کو زبردستی ہندو بنانے کے لئے فرقہ وارانہ فسادات کی آگ بھڑکا رہاہے ۔ وطن پرستی کے نام پر ہندو مسلم زعماء کے ایک طبقے کو شیشے میں اتا رکر ہندو مسلم سکھ بھائی بھائی کا نعرہ لگا کر دو قومی نظریہ اسلام کی دھجیاں بکھیرنے پر تلاہوا ہے۔ مسلم زعماء کی اسلامی بے حسی کا یہ عالم ہے کہ خلافت کی تحریک چلاتے ہیں تو برصغیر کے سب سے بڑے اسلام دشمن مسٹر گاندھی کو منبر ومحراب کی زینت بنانے لگتے ہیں ۔ مصلحت آمیز کے اسیر ان مسلمانوں کو سبھاش چندر بوس اور پٹیل میں عظمت اسلاف کی جھلکیاں نظر آتی ہیں ۔ مسلم تہذیبی اداروں کو ہندو سیاست کا مرکز بنایا جارہا ہے ۔ اصلاحِ عقائد کے نام پر حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت ، آپ کے کردار اور لامتناہی علم کو چیلنج کیا جارہا ہے حتیٰ کہ امکانِ کذب باری کے سلسلے میں خدا کی ذات بھی احتساب سے بالاتر نظر نہیں آتی ۔ یہ دور کٹھن بھی ہے اور پُرفتن بھی ، تحریک ترک موالات کے نام پر پہلے سے پسماندہ مسلمانوں کے گھر لٹوائے جارہے ہیں ۔ مسائل بے شمار ہیں مگر اتنے مصلحین ایک ہی وقت میں کس طرح دستیاب ہوسکتے ہیں ؟

اہلِ ایمان روشنی کی کرن کے لئے تڑپ رہے ہیں۔ ۱۰ شوال المکرم ۱۲۷۲ھ؁ کو حضرت مولانا نقی علی خان کے گھر جنم لینے والے امام احمد رضا محدث بریلوی کی صورت میں برصغیر کے مسلمانوں کو وہ شخصیت عطا ہوتی ہے جو گفتار کی غازی اور کردار کی دھنی ہے ۔ جس کی زبان محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تاثیر سے فیض ترجمان بن چکی ہے ۔ اس دانائے راز کی نظر مسلمانوں کی سیاسی ، اخلاقی اور مذہبی ابتری کے ساتھ ساتھ اسلام دشمن تحریکات پر بھی پڑتی ہے ۔ اس کے ارادوں میں سنگ خارا کی سختی اور سمندروں کی فراخی ہے اور اس کا حوصلہ پہاڑوں سے سربلند اور فہم انسانی کی وسعتوں سے ماورا ہے۔ اسے احساس ہے کہ اسے چومکھی جنگ لڑنا ہے اسے ایک ہی وقت میں کئی دشمنوں سے جنگ کرنا ہے وہ مدافعت کا ہی نہیں بلکہ غنیم کی صفوں پر آگے بڑھ کر حملہ کرنے کے انداز بھی جانتا ہے ۔

امام احمد رضا محدث بریلوی نے امت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دلوں کو عقیدت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تپش سے آشنا کرنے کے لئے اپنی تمام فکری ، نظری ، علمی ، عملی ، روحانی ، قلمی اور ادبی وشعری صلاحیتوں سے کام لیا ۔ اعلیٰ حضرت بجاطور پر سمجھتے تھے کہ جب تک امت اسلامیہ عشقِ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا خضرراہ نہیں بنائے گی اُس وقت تک منزل آشنا نہیں ہوسکے گی ۔ عشق مصطفویٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی شمعیں ضوفگن کرتے ہوئے جب آپ نے ماحول پر ایک نظر ڈالی تو ایسی کتب کثیر تعدا د میں نظر آئیں جن میں سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی تنقیص اور گستاخی کے پہلو غالب تھے اس پر اعلیٰ حضرت کا دل تڑپ اُٹھا آپ نے ان کتب کے مصنفین کی توجہ کفریہ عبارات کی طرف مبذول کروائی تو بجائے اس کے کہ یہ حضرات بارگاۂ مصطفویٰ صلی اللہ علیہ وسلم میں معذرت کے طالب ہوتے انہوں نے اسے اناکا مسئلہ بنالیا او ر اپنی گستاخانہ عبارات کی حمایت میں کتب پیش کرنے لگے۔ اب اعلیٰ حضرت کا قلم حرکت میں آچکا تھا اس دور میں جب کہ ہمارے بیشتر علماء ’’رات بہت تھے جاگے صبح ہوئی آرام کیا‘‘کے مصداق غفلت کی نیند سو رہے تھے اعلیٰ حضرت نے کاروانِ عشق مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام و مرتبہ اور خصائل و فضائل واضح کرنے کے لئے درجنوں تحقیقی اور تاریخی کتب تصنیف فرمائیں ۔ آپ کا نعتیہ مجموعہ’’حدائق بخشش‘‘ عشق حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی کامل دستاویز ہے ۔ عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ضمن میں آپ کے بدترین مخالف بھی آپ کی رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کو آپ کے لئے توشۂ آخرت جانتے تھے ۔ اعلیٰ حضرت کے وصال پر جناب اشرف علی تھانوی کا اظہارِ تعزیت اور آپ کے عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے جذبہ کو خراجِ عقیدت پیش کرتا ہے کہ میرے دل میں احمد رضا کا بے حد احترام ہے وہ ہمیں کافر کہتا ہے لیکن عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بناء پر کہتا ہے کسی اور غرض سے تو نہیں کہتا۔(چٹان لاہور ۲۳ اپریل ۱۹۶۲ء؁)

خلاصہ یہ کہ وہ ایک فردِ واحد تھا مگر پوری ملت کا ترجمان وہ ایک مردِ حق تھا مگر پوری ملت اسلامیہ کے عقائد کا پاسبان و ہ غوث الاعظم کا پرچم بردار ، امام اعظم ابو حنیفہ کے مسلک کا پاسدار ، غزالی کے تدبر کا افتخار ، رازی کی گرہ کشائیوں کا امانت دار ، شیخ عبدالحق محدث دہلوی کی تعلیمات کا شارح ، مجددالف ثانی شیخ احمد سرہندی کی شانِ تجدید کا آئینہ دار، امام فضل حق خیرآبادی کی حق گوئی کا علمبردار اور علامہ کفایت علی کافی کے عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا درِ شاہوار تھا ۔ اس کا اپنا کوئی نہیں تھا وہ تو عمر بھر عظمت وشانِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے مصروفِ جہاد رہا ۔ وہ کسی نئے فرقے کا بانی نہیں تھا بلکہ وہ تو زندگی کی آخری ساعتوں تک اسلام کی نشاط ثانیہ کے لئے محوعمل رہا ۔ وہ کسی جدید نظریئے کا خالق نہیں تھا بلکہ اس کے دل کی دھڑکنیں گنبدخضراء کی نورانی طلعتوں سے حیاتِ نو لیتی ہیں مگر اس کے باوجود اس کا نام برصغیر پاک وہند میں ہی نہیں بلکہ پورے عالم اسلام میں سنیت کا اظہار اور عشق رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کا اعزاز بن چکا ہے ۔ اب وہ محض ایک شخص ہی نہیں رہا بلکہ اس کا نام لیتے پوری صدی کی داستان عشق وعقیدت کا ایک ایک ورق ہماری عقیدتوں کا خراج لے کر اس کے وجودِ تنہا کو پوری صدی پر محیط کردیتاہے۔ آخروہ مجددِ ملت جو ٹھہرا ۔ آخر وہ ہمہ صفت موصوف جو ٹھہرا ۔ (معارفِ رضا کراچی ۱۹۹۲ء؁ ملخصاً)

(فقیر ڈاکٹر فیض احمد چشتی نے یہ مضمون شرح حدائق بخشش علامہ فیض احمد اویسی رحمۃ اللہ علیہ اور شرح کلام رضا مفتی غلام حسن صاحب سے استفادہ کر کے ترتیب دیا ہے ۔ (طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔