ہر بدعت گمراہی کہنے والوں کو جواب حصّہ اوّل
یہ کہنا کہ دین میں ہر نیا کام بدعت ہے او رہربدعت گمراہی ہے سراسر غلط ہے اور جہالت پر مبنی ہے بلکہ مطلق ہر نیا کام بدعت ہے خواہ وہ دین کا ہو یا دنیا کا اور ہر بدعت بھی گمراہی نہیں بلکہ بدعت کی مختلف صورتیں ہیں ۔
قرآن وحدیث کا مطالعہ کیا جائے تو بدعت کی حقیقت واضح ہوجاتی ہے ۔بدعت کے لغوی معنی ہیں نئی چیز : قرآن مجید فرقان حمید میں اللہ عزوجل ارشاد فرماتاہے ’’ قل ماکنت بدعاً من الرسل ۔ ( سورۃ 46آیت 9) ترجمہ : تم فرماؤ کوئی انوکھا (نیا) رسول نہیں ۔ نیز اراشاد ہوتاہے بدیع السموت والارض : آسمانوں اور زمینوں کا ایجاد کرناوالا ہے ۔ان آیات کریم میں بدعت لغوی معنی میں استعما ل ہوا ہے یعنی ایجادکرنا نیا بنانا وغیرہ ۔
بدعت تین معنی میں استعمال ہوتا ہے
(1) ۔ نیا کام جو نبی کریم رؤف رحیم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے بعد ایجاد ہوا ۔
(2) ۔ خلاف سنت کام جو سنت کو مٹانے والا ہو ۔
(3) ۔ برے عقائد جو بعد میں پیدا ہوئے ۔
پہلے معنی کے اعتبار سے بدعت کی دوقسمیں ہیں ۔ * بدعت حسنہ * بدعت سیۂ او ردوسرے دونوں معنی سے ہر بدعت سیۂ ہی ہے جن بزرگوں نے فرمایا کہ ہر بدعت سیۂ ہوتی ہے وہاں دوسرے معنی مراد ہیں او رجو حدیث مبارکہ میں ہے کہ ہربدعت گمراہی ہے وہاں تیسرے معنی مراد ہیں لہذ ااحادیث واقوال علماء آپس میں متعارض نہیں (یعنی ان میں فرق نہیں )
بدعت کے شرعی معنی ہیں وہ عقیدہ یاوہ عمل جو کہ مدینے کے تاجدار دوجہاں کے سردار صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے زمانہ حیات ظاہری میں نہ ہوں بعد میں نہ ایجاد ہو جیسا کہ مرقات باب الاعتصام میں ہے۔ وفی الشرع احداث مالم یکن فی عھد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم یعنی بدعت شریعت میں اس کا م کا ایجاد کرنا ہے جوکہ حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے زمانہ میں نہ ہو۔ اسی تعریف سے معلوم ہوا کہ نہ تو دینی کام کی قید نہ زمانہ صحابہ کرام کا لحاظ پس جو کام بھی ہو دینی ہو یا دنیاوی حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے بعدجب بھی ہو وہ بدعت ہے ۔
جیسا کہ حضرت فاروق اعظم رضی اللہ تعالہ عنہ نے تراویح کی باقاعدہ جماعت مقرر فرما کر فرمایا نعمت البدعۃ ھذہ ۔یہ تو بہت ہی اچھی بدعت ہے ۔( مشکوۃ شریف 115بخاری شریف )
اسی طرح ایک حدیث پاک میں یوں فرمایا کہ من سن فی الاسلام سنۃ حسنۃ فلہ اجرھا واجرمن عمل بھا من بعدہ من غیر ان ینقض من اجورھم شئی ومن سن فی الاسلام سنۃ سیءۃً فعلیہ وزرُھا ووسرمن عمل بھا من غیر ان ینقص من اوزارھم شئی ۔( مشکوہ شریف 33کتاب العلم مطبوعہ قدیم کتب خانہ کراچی ) یعنی جو کوئی اسلام میں اچھاطریقہ (اچھی بدعت ) جاری کرے اس کو اس کا ثواب ملے گا او راس کابھی جو اس پر عمل کریں گے او ران کے ثواب میں بھی کمی نہ ہوگی اور جو شخص اسلام میں براطریقہ (بری بدعت ) جاری کرے اس پر اس کا گناہ ہوگا او ران کا بھی جو اس پر عمل کریں او ران کے گناہ میں بھی کچھ کمی نہ آئے گی ۔ اس حدیث پاک سے کل بدعۃ ضلالہ والی حدیث کی وضاحت ہوجاتی ہے کہ اسلام میں بدعت حسنہ ایجاد کرنا ثواب کا باعث ہے او ربدعت سیۂ (بری بدعت ) ایجاد کرنا گناہ کا موجب ۔ اسی طرح ایک حدیث پا ک میں مروی ہے ۔راوی عن ابن مسعود ماراہ المومنون حسنا فھو عنداللہ حسن وفی حدیث مرفوع ولا تجتمع امتی علی الضلالۃ (باب الاعتصام مشکوۃ شریف 30)
حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جس کا م کو مسلمان اچھاجانیں وہ اللہ کے نزدیک بھی اچھا ہے او رحدیث مرفوع میں ہے کہ میری امت گمراہی پرمتفق نہ ہوگی۔ اس حدیث پاک سے بھی معلوم ہوتاہے کہ جو جائز کام نیت ثواب سے کیا جائے یا مسلمان اس کو ثوا ب کا کام جانیں وہ عندا للہ بھی کار ثواب ہے ۔
بدعت حسنہ کہتے ہیں اس نئے کام کو جو کسی سنت کے خلاف نہ ہو او رجائز ہو جیسے محفل میلاد او ردینی مدارس ۔ نئے نئے عمدہ کھانے ،دینی کتابوں کا چھا پنا اور بدعت سیۂ ہو ہے جو کسی سنت کو مٹانے والی ہو یا کسی سنت کے خلاف ہو جیسا کہ اردو زبان وغیرہ میں خطبہ جمعہ یا عیدین پڑھنا کہ ا سطرح سنت خطبہ یعنی عربی (میں خطبہ کہنے ) کی سنت اٹھ جاتی ہے۔بدعت حسنہ جائز بلکہ بعض اوقات مستحب اور واجب بھی ہے اور بدعت سئیہ مکروہ تنزیہی یامکروہ تحریمی یا حرام ہے جیساکہ فتاوی شامی میں ہے : ای صاحب بدعۃ محرمۃ والا فقدتکون واجبۃ کنصب الادلۃ وتعلم النحو ومندوبۃ کاحداث نحورباط ومدرسۃ وکل احسان لم یکن فی الصدر الاول ومکروھۃ کزخرفۃ المسجد ومساحۃ کا لتوسع بلذیذ لمأکل والمشارب والثیاب کما فی شرح الجامع الصغیر ۔( ردالمحتا ر299/2باب الامامۃ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت ) یعنی حرام بدعت والے کے پیچھے نماز مکروہ ہے ورنہ بدعت تو کبھی واجب ہوتی ہے جیسے کہ دلائل قائم کرنا اور علم نحو سیکھنا اور کبھی مستحب جیسے مسافر خانہ اور مدرسے او رہروہ اچھی چیز جو کہ پہلے زمانہ میں نہ تھی ان کا ایجاد کرنا اور کبھی مکروہ جیسے کہ مسجدوں کی فخریہ زینت او رکبھی مباح جیسے عمدہ کھانے شربتوں ا ورکپڑوں میں وسعت کرنا ۔اسی طرح جامع صغیر کی شرح میں ہے اس عبارت سے بدعت کی پانچ قسمیں واضح ہوئی اور یہ صرف ہمارے نزدیک نہیں بلکہ جو دیوبندیوں ،غیر مقلدوں وہابیوں کے بہت بڑے علماء شمار ہوتے ہیں انہوں نے بھی بدعت کی مختلف اقسام ذکر کیں ہیں جیساکہ مشہور غیر مقلد عالم وحید الزمان بدعت کی اقسام کے بارے میں لکھتاہے ’’اما البدعۃ اللغویہ فھی تنقسم الی مباحۃ ومکروھۃ وحسنۃ وسئیۃ ‘‘ بہر حال باعتبار لغت کے بدعت کی حسب ذیل اقسام ہیں بدعت مباح ،بدعت مکروہ ،بدعت حسنہ او ربدعت سیۂ ۔( ہدیتہ المہدی 117مطبوعہ میور پریس دہلی )
او رنواب صدیق حسن بھوپال جو غیرمقلد ین کے بہت بڑے عالم تھے انہوں نے کہا کہ بدعت وہ ہے جس سے اس کے بدلہ میں کوئی سنت متروک ہوجائے اور جس بدعت سے کسی سنت کا ترک نہ ہو وہ بدعت نہیں ہے بلکہ وہ اپنی اصل میں مباح ہے ۔( ھدیتہ المھدی )
مشھو ر وہابی غیرمقلد عالم قاضی شوکانی فتح الباری سے نقل کر کے اقسام بدعت کے بارے میں لکھتے ہیں ’’ لغت میں بدعت اس کا م کو کہتے ہیں جس کی پہلے کوئی مثال نہ ہو او راصطلاح شرح میں سنت کے مقابلہ میں بدعت کا اطلاق ہوتاہے اس لئے یہ مذموم ہے او رتحقیق یہ ہے کہ بدعت اگر کسی ایسے اصول کے تحت داخل ہے جو شریعت میں مستحسن ہے تو یہ بدعت حسنہ ہے اور اگر ایسے اصول کے تحت داخل ہے جو شریعت میں قبیح ہے تویہ بدعت سیۂ ہے ورنہ بدعت مباحہ ہے او ربلاشبہ بدعت کی پانچ قسمیں ہیں ۔( نیل الاوطار325/3مکتبۃ الکلیات الازہریۃ ) اسی طرح علامہ شبیر احمد عثمانی دیوبندی نے بھی علامہ نووی کے حوالہ سے بدعت کہ یہ پانچ اقسام ذکر کیں ہیں ۔ ( فتح الملھم 406/2 مطبوعہ مکتبۃ المجار کراچی )
بعت بدعت کہنے والوں کی ان عبارتوں سے معلوم ہے کہ ان کے نزدیک بھی ہر بدعت گمراہی نہیں ہے جیسا کہ علامہ ابن منظور افریقی نے علامہ ابن اثیر کے حوالہ سے یہ لکھاہے کہ حدیث مبارکہ میں جو ہے کہ ہر نیا کام بدعت ہے ا س نئے کام سے مراد وہ کام ہے جو خلاف شریعت ہو لکھتے ہیں ۔’’ و علی ھذالتاویل یحمل الحدیث الاٰخر کل محدثۃ بدعۃ انما یرید ما خالف اصول الشریعہ ولم یوافق السنۃ‘‘( مجمع بحارالانوار 80/1مطبوعہ نو لکشورہند) یعنی ان دلائل کی بنا پر حدیث ’’ ہر نیا کام بدعت ہے ‘‘ کی تاویل کی جائے گی او راس نئے کام سے مراد وہ کام ہیں جو اصول شریعت کے مخالف ہوں اورسنت کے موافق نہ ہوں ۔
اگر آج کل کا وہابی ہربدعت کو گمراہی کہے تووہ خود بھی نہیں بچ سکے گا کیونکہ اسلام کی کوئی عبادت بدعت حسنہ سے خالی نہیں ۔ مثلا مسلمان کا بچہ بچہ ایمان مجمل اور مفصل یاد کرتاہے ہر ایمان کی دوقسمیں او ران کا نام دونوں بدعت ہیں قرون ثلاثہ میں اس کا پتہ نہیں اسی طرح چھے کلمہ او ران کی ترتیب کہ یہ پہلا یہ دوسرا ہے او ران کے یہ نام ہیں سب بدعت ہیں جن کا پہلے کوئی ثبوت نہیں ملتا ہے اسی طرح قرآن شریف کے تیس پارہ بنانا۔ان میں رکوع قائم کرنا ،اس پر اعراب لگانا سب بدعت ۔احادیث کو کتابی شکل میں جمع کرنا ،اس کی قسمیں بنانا کہ یہ صحیح ہے حسن ہے یا ٖضعیف ہے یہ سب بدعت ہے اسی طرح نماز میں زبان سے نیت کرنا بدعت ہر رمضان میں بیس رکعت تراویح پر ہمیشگی کرنا بدعت یہاں تک کہ خود حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا نعمت البدعۃ ھذہ یہ بڑی اچھی بدعت ہے ۔بسوں ،گاڑیوں او رموٹروں میں عرفات شریف جانا بدعت جبکہ ا س زمانہ پاک میں یہ سواریاں نہ تھی نہ ان کے ذریعے ہوتاتھا ۔پھریہ کہنا کہ ہر دینی کا بدعت ہے دنیاوی نہیں یہ کیسے صحیح ہوسکتاہے کیونکہ دینی کام کرنے پر ثواب ملتاہے او ردنیا کا جائز کام بھی نیت خیر سے کیاجائے تو ا سپربھی ثوا ب ملتاہے جیسا کہ مشکوہ فضل الصدقہ میں ص 167پر حدیث پاک میں آتاہے کہ ’’مسلمان سے خندہ پیشانی سے ملنا صدقہ کا ثواب رکھتاہے اپنے بچوں کو پالنا نیت خیر سے ثواب ہے یہاں تک کہ جو لقمہ اپنی زوجہ کے منہ میں دے وہ بھی ثواب لہذا مسلمان کا ہر دنیاوی کا م دینی ہے ۔پھر دینی کام کی قید لگانے سے وہابی خود بھی بدعت کے مرتکب ہوئے کیونکہ وہابیوں کا مدرسہ وہاں کا نصاب دورہ حدیث تنخواہ لے کرپڑھانا مصیبت کے وقت ختم بخاری کرنا ان سب کیلئے چندہ اکٹھا کرنا سب ہی دینی کام ہیں اور بدعت ہیں کیونکہ حضور نبی کریم رؤف الرحیم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے زمانے میں ان سے کوئی کام نہ ہواتھا ۔ پس معلوم ہو اکہ ہربدعت گمراہی نہیں ہے اللہ تعالی سمجھ عطافرمائے ۔آمین۔(طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment