جامع الترمذی کا مختصر جامع تعارف
یہ مضمون استاذی المکرّم حضور غزالی زمان حضرت علامہ سیّد احمد سعید شاہ صاحب کاظمی رحمۃ اللہ علیہ کے افادات پر مشتمل ہے جو فقیر ڈاکٹر فیض احمد چشتی نے زمانہ طالب علمی میں نوٹ کیا تھا آج آپ احباب کی نظر کر رہا ہوں ۔
جامع ترمذی کو سنن ترمذی بھی کہا جاتا ہے۔ کشف الظنون جلد ۱ ص ۲۷۱ میں ہے
’’وقد اشتہر بالنسبۃ الی مؤلفہ فیقال جامع الترمذی ویقال لہ السنن ایضًا والاول اکثر۔ انتہیٰ اور حاکم نے اس پر ’’الجامع الصحیح‘‘ کا اطلاق کیا ہے۔ انتہیٰ۔ خطیب نے ترمذی اور نسائی دونوں کو ’’اسم الصحیح‘‘ کے ساتھ تعبیر کیا (کما فی تدریب الراوی ص ۳۸۵)
ایک شبہ کا ازالہ : ترمذی اور نسائی دونوں میں احادیث ضعیفہ ہونے کے باوجود ان کا نام ’’الصحیح‘‘ کیوں رکھا گیا ؟
اس کا جواب یہ ہے کہ ان کی اکثر احادیث صحیح ہیں اس لئے تغلیباً انہیں صحیح کہا جاتا ہے بلکہ کتب ’’ستہ‘‘ مشہورہ صحیح بخاری، صحیح مسلم، ابو داؤد، ترمذی، نسائی ابن ماجہ سب کو اسی وجہ سے صحاح کہا جاتا ہے کہ ان کی اکثر حدیثیں صحیح ہیں۔
سنن : کتاب الطہارۃ سے کتاب الوصایا تک ترتیب فقہی پر احادیث کے مجموعہ کو ’’سنن‘‘ کہتے ہیں ۔
جامع : محدثین کی اصطلاح میں جامع اس کتاب کو کہتے ہیں جس میں جمیع اقسام حدیث پائے جائیں۔ جنہیں اقسام ثمانیہ کہا جاتا ہے اور وہ اس شعر میں مذکور ہیں :
سیر، آداب، تفسیر و عقائد
فتن، اشراط، احکام و مناقب
جامع ترمذی کی اکثر حدیثیں صحیح ہیں۔ وہ جمیع اقسام حدیث کو جامع ہے اور ابواب الطہارۃ سے لے کر وصایا تک ترتیب فقہی پر احادیث احکام اس میں جمع کی گئی ہیں اس لئے اس کو جامع صحیح اور سنن تینوں ناموں سے یاد کیا جاتا ہے یعنی اسے جامع الترمذی، صحیح الترمذی اور سنن الترمذی کہتے ہیں اور ان تینوں میں جامع الترمذی زیادہ مشہور نام ہے ۔
ترمذی : لفظ ترمذی میں یائے نسبت ہے دیار ہند میں لفظ ترمذ بکسر التاء والمیم قدیم زمانہ سے معروف ہے اور اہل لسان کے نزدیک بفتح التاء وکسر المیم متداول ہے بعض علماء نے بفتح التاء والمیم اور بعض نے بضم التاء والمیم بھی کہا ۔
یہ نسبت شہر ترمذ کی طرف ہے جو نہر بلخ یعنی نہر جیحون کے کنارے پر خوارزم کے قریب واقع ہے۔ ترمذی سے ہماری مراد امام ابو عیسیٰ محمد بن عیسیٰ بن سورہ البوغی ہیں جو حافظ حدیث اور جامع کے مصنف مشہور ہیں جن کے مختصر حالات ہم آگے چل کر بیان کریں گے ۔
امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ سے جامع ترمذی کے رواۃ : حافظ ابو جعفر بن زبیر نے ’’برنامجہ‘‘ میں کہا کہ میرے علم میں امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ کی جامع ترمذی کو روایت کرنے والے چھ آدمی ہیں ۔ (۱) ابو العباس محمد بن احمد بن محبوب (۲) ابو سعید الہیثم بن کلیب الشاشی (۳) ابو ذر محمد بن ابراہیم ـ(۴) ابو محمد الحسن بن ابراہیم القطان (۵) ابو حامد احمد بن عبد اللہ التاجر (۶) ابو الحسن الفزاری ۔
حافظ ابو جعفر نے کہا کہ لوگوں نے جو کہا ہے کہ اس کتاب کا سماع ابو عیسیٰ سے درجہ صحت کو نہیں پہنچا اور نہ ہی ان سے اس کی روایت صحیح ہے اور وہ لوگ اس کلام کو ابو محمد بن عتاب کی طرف منسوب کرتے ہیں کہ انہوں نے ابو عمر و سفاقسی سے روایت کیا انہوں نے عبد اللہ انفسوی سے! تو یہ کلام باطل ہے کیونکہ جامع ترمذی کی روایات اس کے مصنف سے ہر طرف پھیلی ہوئی ہیں اور ایسے لوگوں سے پے در پے منقول ہیں کہ جو مصنف سے اس کتاب کے روایت کرنے میں معروف ہیں پھر یہ کہ عبد اللہ بن عتاب اور ان کے بیٹے ابو محمد مذکور اور حافظ ابو علی عتابی وغیرہ ائمہ حدیث میں سے ہیں اور انہوں نے اس کتاب جامع ترمذی کی سندیں بیان کی ہیں اور اس قسم کی کوئی بات انہوں نے نہیں کی۔ نہ انہوں نے انقطاع روایت کا ذکر کیا ہے اور نہ ایسی بات کسی سے نقل کی ہے ۔
جامع ترمذی میں امام ترمذی کی شرط : حافظ ابو الفضل بن طاہر نے کتاب شروط الائمہ میں کہا کہ ائمہ خمسہ میں سے کسی امام سے منقول نہیں۔ میں نے اپنی کتاب میں روایت حدیث کی یہ شرط مقرر کی ہے لیکن ان کتابوں کو دیکھنے سے ہر ایک کی شرط معلوم ہوتی ہے چنانچہ بخاری و مسلم کی شرط یہ ہے کہ وہ اپنی صحیحین میں ایسی حدیث کا اخراج کرتے ہیں جس کے ناقلین کے ثقہ ہونے پر صحابی مشہور تک محدثین کا اتفاق ہو ۔ ابو داؤد و نسائی کی شرط ان لوگوں کی احادیث کا اخراج ہے جن کے ترک پر اتفاق نہ ہوا ہو جبکہ حدیث بغیر قطع و ارسال کے متصل السند اور صحیح ہو۔ یہ قسم بھی اقسام صحیح سے قرار پائے گی لیکن ایسی حدیث کا طریق وہ نہ ہو گا جو صحیحین میں روایت کی ہوئی حدیث کا طریق کار ہے بلکہ یہ اس حدیث صحیح کا طریق کار قرار پائے گا جسے شیخین نے (باوجود صحیح ہونے کے) ترک کر دیا ہے جیسا کہ انہوں نے خود بیان کیا ہے کہ ہم نے بہت سی حدیثوں کو حفظ کیا اور ان کے صحیح ہونے کے باوجود انہیں صحیحین میں داخل نہیں کیا۔ ابو داؤد اور نسائی کی شرط مذکور کے تحت تین اقسام کی احادیث آتی ہیں ۔
اول وہ احادیث صحیحہ جو صحیحین میں موجود ہوں ۔
دوم وہ صحیح حدیثیں جو بخاری و مسلم کی شرط پر ہوں ۔
سوم وہ احادیث ہیں جنہیں صحت قطعیہ کے بغیر ابو داؤد اور نسائی نے اپنی سنن میں روایت کیا اور اہل معرفت کے بیان کے مطابق ان کی علت کو بیان کر دیا اور ان کے سقم کو پوری طرح ظاہر کر دیا تاکہ کوئی شبہ باقی نہ رہے ۔
رہا یہ امر کہ قطعی صحت مفقود ہونے کے باوجود ان دونوں نے اخراج کیا اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ محدثین کی ایک جماعت نے انہیں روایت کیا اور صرف روایت نہیں بلکہ ان سے حجت بھی پکڑی۔ اس لئے ابو داؤد اور نسائی نے ان احادیث کو اپنی سنن میں وارد کر کے ان کے سقم کو وارد کر دیا تاکہ شبہ زائل ہو جائے اس قسم کی روایات انہوں نے اس وقت وارد کی ہیں جب کہ انہیں اس کے سوا کوئی اقوی اور اصح طریق نہ ملا کیونکہ یہ روایات لوگوں کی رائے سے تو بہر صورت زیادہ قوی ہیں ۔
اور ترمذی کی شرط ایسی احادیث کا اخراج ہے جن سے کسی اہل علم نے استدلال کر کے ان پر عمل کیا ہو عام اس سے کہ ان کا طریق صحیح ہو یا نہ ہو لیکن جو حدیثیں غیر صحیح یا ضعیف ہیں ان کی علت اور سقم کو امام ترمذی نے واضح کر دیا ہے تاکہ وہ خود بری الذمہ ہو جائیں اس شرط کے تحت امام ترمذی کی حدیثیں چار قسم پر منقسم ہوتی ہیں ۔
احادیث جامع ترمذی کے ارکانِ اربعہ : امام ترمذی نے اس کتاب میں چار قسم کی حدیثیں جمع کی ہیں ۔
اول وہ جن کی صحت یقینی ہے اور جو بخاری و مسلم کے موافق ہوں ۔
دوم وہ حدیثیں جو ابو داؤد و نسائی کی شرط پر ہوں جیسا کہ ابو داؤد اور نسائی کی قسم ثانی میں ہم بتا چکے ہیں ۔
تیسری قسم ابو داؤد اور نسائی کی قسم ثالث کی طرح ہے امام ترمذی نے ایسی احادیث کا اخراج کیا اور ان کی علت کو بیان کر دیا ۔
چہارم وہ غیر صحیح اور ضعیف احادیث ہیں جن سے بعض فقہا نے استدلال کر کے ان پر عمل کیا اور ان کی طرف امام ترمذی نے اپنے اس قول میں اشارہ کر دیا کہ میں نے اپنی اس کتاب میں کوئی ایسی حدیث نہیں رکھی جس پر بعض فقہا کا عمل نہ ہو۔
اس اصول کے مطابق ترمذی کی ہر حدیث فی الجملہ قابل استدلال اور معمول بہا ہے عام اس سے کہ اس کا طریق صحیح ہو یا نہ ہو امام ترمذی نے بری الذمہ ہونے کے لئے اس قسم کی احادیث پر کلام کر دیا ہے اور اس کے اسقام کو اچھی طرح واضح فرما دیا ہے ۔
تنبیہ : شرط اخراج سے یہ نہ سمجھ لیا جائے کہ وہ حدیث جو کسی امام کی شرط کے موافق ہو اس کا اخراج اس امام کے لئے ضروری ہے۔ اس کا شرط کے موافق ہونا ضروری ہے ۔
امام ترمذی کا طریق کار : جامع ترمذی میں امام ابو عیسیٰ ترمذی رحمۃ اللہ علیہ کا طریق کار یہ ہے کہ وہ ایک باب کا عنوان قائم کرتے ہیں اس میں کسی صحابی کی مشہور حدیث طریق صحیح کے ساتھ پائی جاتی ہے جس کی تخریج کتب صحاح میں کی گئی ہے اس حدیث سے جو حکم مستفاد ہوتا ہے امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ اسی حکم کو ایک دوسرے صحابی کی حدیث سے وارد کرتے ہیں جس کی تخریج کتب صحاح میں نہیں کی گئی اور جس کا طریق پہلی حدیث کے طریق کی طرح نہیں ہوتا لیکن حکم صحیح ہوتا ہے پھر ’’وفی الباب عن فلاں و فلاں‘‘ کہہ کر چند صحابہ کا نام لیتے ہیں (جن سے اس عنوان باب کے مطابق احادیث مروی ہیں) اور ان میں اس صحابی کا نام بھی ذکر کر دیتے ہیں جس کی حدیث سے حکم مستنبط کیا تھا ۔
خصوصیات و محاسن جامع ترمذی : مجموعی طور پر فوائد حدیثیہ کے لحاظ سے جامع ترمذی تمام کتابوں پر فوقیت رکھتی ہے حسن ترتیب، عدم تکرار، بیان مذاہب، استدلال فقہا، احوال حدیث کی تفصیل، صحیح، حسن، ضعیف، متصل، مرسل وغیرہ ۔
راویوں کے نام، ان کے القاب اور کنیت کے علاوہ ایسے فوائد کثیرہ کو بھی جامع ترمذی میں رکھ دیا گیا ہے جن کا تعلق علم الرجال اور حدیث کے اصول مہمہ سے ہے۔ امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے ’’قوت المغتذی‘‘ میں قاضی ابو بکر بن العربی کا قول ان کی شرح سے نقل کیا ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ کتاب ابو عیسیٰ کی طرح کسی کتاب میں حلاوت و نفاست نہیں پائی جاتی۔ اس کتاب میں چودہ علوم ہیں جس میں سے ہر علم اپنے باب میں اصل کی حیثیت رکھتا ہے جس سے کئی شاخیں نکلتی ہیں وہ علوم حسب ذیل ہیں :
جامع ترمذی کے چودہ علوم : (۱) اصناف فوائد پر کتاب کی تالیف و ترتیب کے ساتھ بیان سند(۲) تصحیح حدیث (۳) سقم روایت کا بیان (۴) تعدد طریق کا ایراد(۵) جرح رواۃ (۶) تعدیل رواۃ (۷) راویوں کے نام(۸) راویوں کی کنیت (۹) بیان وصل (۱۰) بیان قطع(۱۱) معمول بہا کا اظہار (۱۲) متروک کا ایضاح(۱۳) رد و قبول آثار کے بارے میں اختلافِ علماء(۱۴) تاویل حدیث میں اختلافِ اقوال
اس کے بعد امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے جامع ترمذی کی تعریف میں بعض علمائے اندلس کا ایک نہایت بہترین قصیدہ نقل کیا ہے جس کے چند اشعار حسب ذیل ہیں :
کتاب الترمذی ریاض علم
جلت ازہارہ، زہر النجوم
ترجمہ : کتاب ترمذی (کے ابواب) گویا علم کے باغیچے ہیں جن کے پھول روشن ستاروں کے مشابہ ہیں ۔
بہ الآثار واضحۃ ابینت
بالفاظ اقیمت کالرسوم
ترجمہ : اس میں واضح آثار کو بیان کیا گیا ہے، ایسے الفاظ کے ساتھ جو مضبوط نشانات کی طرح قائم کر دئیے گئے ہیں ۔
فاعلاہا الصحاح وقد انارت
نجوما للخصوص وللعموم
ترجمہ : ان میں اعلیٰ و صحیح حدیثیں ہیں جنہوں نے روشن کر دیا ہے ستاروں کو ہر خاص و عام کے لئے۔
ومن حسن یلیہا او غریب
وقد بان الصحیح من السقیم
ترجمہ : ان میں بعض آثار حسن ہیں اور بعض غریب اور ہر صحیح حدیث سقیم سے ممتاز ہو گئی ۔
فعللہ ابو عیسٰی مبینًا
معالمہا لطلاب العلوم
ترجمہ : پھر امام ابو عیسیٰ نے سقیم حدیث کی علت بیان کر کے اس کی علامتوں کو طالبانِ علوم کے لئے ظاہر کر دیا ہے ۔
وطرزہ بآثار صحاح
تخیرھا اولوا النظر السلیم
ترجمہ : اور ایسے ایسے آثار صحیحہ کے ساتھ مزین کیا ہے جنہیں سلیم النظر علماء نے بہت پسند کیا ۔
من العلماء والفقہاء قدما
واہل الفضل والنہج القویم
ترجمہ : اور اسے پسند کرنے والے پرانے علماء اور فقہاء اور اہل فضل و اصحابِ صراطِ مستقیم ہیں۔
فجاء کتابہ علقًا نفیسًا
تفنن فیہ ارباب العلوم
ترجمہ : امام ابو عیسیٰ کی کتاب بڑی بیش بہا عمدہ بن کر آئی جس میں اربابِ علوم نے رغبت کی ہے ۔
ویقتبسون منہ نفیس علم
یفید نفوسہم اسنی الرسوم
ترجمہ : وہ اس سے نہایت عمدہ علم حاصل کرتے ہیں جو ان کی جانوں کو بہترین قیمتی علامات کا فائدہ دیتا ہے ۔
کتبناہ رویناہ لنروی
من التسنیم فی دار النعیم
ترجمہ : ہم نے اس کتاب کو لکھا اس کی روایت کی تاکہ ہم سیراب ہوں تسنیم کے پانی سے جنت میں۔
وغاص الفکر فی بحر المعانی
فادرک کل معنی مستقیم
ترجمہ : فکر نے معانی کے سمندر میں غوطہ لگایا تو اس نے ہر درست معنی کو پالیا۔
فاخرج جوہرًا یلتاح نورًا
فقلد عقدہ اہل الفہوم
ترجمہ : پھر اس نے چمکتے ہوئے نورانی موتی نکالے جن کا ہار علم و خرد والوں کو پہنایا ۔
جزی الرحمٰن خیرًا بعد خیر
ابا عیسٰی علی الفعل الکریم
ترجمہ : خدائے رحمن پے در پے جزائے خیر دے امام ابو عیسیٰ کو ان کے اس بہترین نیک کام پر ۔
نیز امام سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے ’’قوت المغتذی‘‘ شرح ترمذی میں فرمایا کہ امام ابو عبد اللہ محمد بن عمر بن رشید کا قول ہے کہ میرے نزدیک اقرب الی التحقیق یہ ہے کہ جامع ترمذی کا صف وار ابواب کی صورت میں احادیث پر مشتمل ہونا مستقل علم ہے اور فقہ دوسرا علم ہے اور علل حدیث و بیان صحیح و سقیم و مراتب ما بینہما تیسرا علم ہے اور اسماء و کنی چوتھا علم ہے۔ تعدیل و تجریح پانچواں علم ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا زمانہ پانے والوں اور نہ پانے والوں کا بیان اور جن صحابہ کرام سے امام ترمذی نے اپنی احادیث کو مستند کیا ہے ان کا ذکر چھٹا علم ہے اور جن دیگر صحابہ کرام نے اس حدیث کو روایت کیا ہے ان کو شمار کرنا ساتواں علم ہے جامع ترمذی کے یہ سات علم اجمالی ہیں اگر ان کی تفصیل کی جائے تو کثیر ہو جائیں گے۔ حاصل کلام یہ کہ جامع ترمذی کی منفعت بہت کثیر ہے اور اس کے فوائد بڑے مستحکم، قیمتی اور نادر ہیں ۔
حافظ فتح الدین سید الناس نے کہا کہ جن علوم کا ذکر امام ابو عبد اللہ نے نہیں کیا ان میں بیان شذوذ آٹھویں قسم ہے اور بیان موقوف نویں قسم ہے اور مدرج کا بیان جامع ترمذی کے علوم کی دسویں قسم ہے۔ یہ انواع ایسے ہیں جن کے فوائد بے شمار ہیں ان کے علاوہ جامع ترمذی میں وفیات اور تنبیہ علی معرفۃ الطبقات اور اسی جیسے دیگر علوم فوائد تفصیلیہ میں شامل ہیں جن کی طرف امام عبد اللہ محمد بن عمر بن رشید کے اس کلام میں اشارہ گزر چکا ہے کہ یہ ’’سات علم اجمالی ہیں اگر ان کی تفصیل کی جائے تو کثیر ہو جائیں گے ۔
شیخ ابراہیم بیجوری نے مواہب اللدنیہ میں علی الشمائل المحمدیہ میں کہا ’’اے مخاطب جامع صحیح ترمذی تیرے لئے کافی ہے جو فوائد حدیثیہ مسائل فقہیہ اور مذاہب سلفیہ و خلفیہ سب کی جامع ہے یہ کتاب مجتہد اور مقلد دونوں کے لئے کافی ہے۔‘‘ اور شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے حجۃ اللہ البالغہ میں کہا کہ مصنفین محدثین میں جن کا علم وسیع اور تصنیفات نافع ترین اور ذکر کے اعتبار سے زیادہ مشہور ہیں رجال اربعہ ہیں جو زمانہ کے لحاظ سے متقارب ہیں ان میں اول امام ابو عبد اللہ البخاری ہیں جن کی غرض یہ تھی کہ احادیث صحیحہ مستفیضہ، متصلہ کو ان کے غیر سے مجرد کریں اور مسائل فقہیہ کا استنباط اس کے علاوہ احادیث سے سیرت و تفسیر کا بیان ان کا مقصد تھا اسی مقصد کے پیشِ نظر انہوں نے جامع صحیح بخاری تصنیف کی اور اپنی شرائط کو پورا کیا اور لاریب انہوں نے شہرت و قبول کا وہ مقام پایا جس کے اوپر کوئی درجہ متصور نہیں ہو سکتا ۔
دوسرے امام مسلم نیشا پوری ہیں جو ایسی صحیح حدیثوں کی تجرید میں مشغول رہے جن کی صحت پر محدثین کا اتفاق تھا اور وہ متصل و مرفوع تھیں جن سے سنت کریمہ کا استنباط ہو سکتا ہے۔ امام مسلم نے ان سب حدیثوں کو اذہان کے قریب لانے اور ان سے استنباط کو آسان کرنے کے لئے بہترین ترتیب کے ساتھ مرتب کیا اور حدیث کے جمیع طُرُق کو ایک جگہ جمع کر دیا تاکہ اختلاف متون کی وضاحت اور تشعب اسانید کی خوب صراحت ہو جائے ۔
تیسرے ابو داؤد سجستانی ہیں انہوں نے اپنی ہمت کو ان احادیث کے جمع کرنے میں صرف کیا جن سے فقہاء نے استدلال کئے اور علمائے امصار نے ان پر تخریج احکام شرعیہ کی بنیاد قائم کی۔ انہوں نے اپنی سنن تصنیف کی اور اس میں صحیح، حسن، لین، صالح العمل سب حدیثوں کو جمع کر دیا۔ ابو داؤد نے کہا ’’میں نے اپنی سنن میں ایسی کوئی حدیث ذکر نہیں کی جس کے ترک پر لوگوں کا اجتماع ہو۔‘‘ ۱ ھ۔ اس میں ضعیف حدیثیں تھیں امام ابو داؤد نے ان کے ضعف کی تصریح کر دی اور ان میں جو علت تھی اس کو نہایت عالمانہ طریقہ سے بیان کر دیا اور ہر حدیث پر ایسا عنوان قائم کیا جس کے مطابق علماء اور اہل مذاہب نے اپنے مسلک و مذہب کے لئے استنباط کیا ۔
اور چوتھے ابو عیسیٰ ترمذی ہیں۔ جامع ترمذی دیکھنے سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا امام ترمذی نے شیخین کے طریقہ کو پسند کیا کہ انہوں نے ہر اہل مذہب کے مطابق احادیث کو جمع کر دیا۔ امام ابو عیسیٰ ترمذی نے شیخین اور ابو داؤد دونوں کے طریقوں کو اپنی جامع میں جمع کر کے ان پر مذاہب صحابہ و تابعین و فقہائے امصار کے بیان کا اضافہ کر دیا اور ایک جامع کتاب مرتب کر دی اور نہایت لطیف اختصار کے ساتھ طریق حدیث کو مختصر کیا۔ ایک طریق کو ذکر کیا اور باقی کی طرف (وفی الباب فلاں و فلاں کہہ کر) اشارہ کر دیا اور ہر حدیث کے حال کو واضح طور پر بیان کر دیا کہ وہ صحیح ہے یا حسن ہے، ضعیف ہے یا منکر ہے اور ساتھ ہی وجہ ضعف کو بھی ظاہر کر دیا تاکہ طالب حدیث کو بصیرت حاصل ہو جائے اور وہ جان لے کہ کون سی حدیث اعتبار کی صلاحیت رکھتی ہے اور کون سی نہیں رکھتی ۔
امام ترمذی نے حدیث کے مستفیض یا غریب ہونے کا بھی ذکر کر دیا اور مذاہب صحابہ و ائمہ مجتہدین کو بھی بیان کر دیا جو راوی اپنے نام سے مشہور نہ تھے ان کا نام بتا دیا اور جن کی کنیت مشہور نہ تھی ان کی کنیت ظاہر کر دی۔ الغرض اہل علم کے لئے کوئی خفا باقی نہ رکھی اسی لئے یہ مشہور ہے کہ ’’انہ کاف للمجتہد مغن للمقلد‘‘ انتہیٰ ۔
اور شاہ عبد العزیز محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے بستان المحدثین میں فرمایا کہ فن حدیث میں امام ترمذی کی تصانیف کثیر ہیں ان میں سب سے بہتر جامع ترمذی ہے بلکہ کئی وجوہ سے وہ جمیع کتب حدیث سے احسن ہے اول حسن ترتیب اور عدم تکرار کی وجہ سے۔ دوم مذاہب فقہا اور اہل مذہب کے وجوہ استدلال ذکر کرنے کی وجہ سے۔ سوم انواع حدیث، حسن، ضعیف، غریب اور معلل وغیرہ بیان کرنے کی جہت سے۔ چہارم راویوں کے نام، القاب، کنیت اور علم رجال کے متعلق دیگر فوائد بیان کرنے کی وجہ سے ۔
جامع ترمذی کا مرتبہ : جامع ترمذی کے مرتبہ کے بارے میں علماء کا اختلاف ہے۔ بعض نے کہا کہ صحیحین کے بعد اس کا تیسرا مرتبہ ہے بعض نے کہا کہ سنن ابو داؤد کے بعد، ایک قول یہ ہے کہ جامع ترمذی سنن نسائی کے بعد چوتھے مرتبے میں ہے۔ کشف الظنون میں ہے ’’جامع الصحیح للامام الحافظ ابی عیسٰی محمد بن عیسٰی الترمذی وہو ثالث الکتب الستۃ فی الحدیث‘‘ یعنی اس کا مرتبہ صحیحین کے بعد ہے اور امام سیوطی نے تدریب الراوی ص ۵۶ پر فرمایا ’’قال الذہبی انحطت رتبۃ جامع الترمذی عن سنن ابی داؤد ونسائی لاخراجہ حدیث المصلوب والکلبی وامثالہا‘‘ انتہیٰ ۔
اور کتب اسماء الرجال التقریب و تہذیب التہذیب اور خلاصہ وغیرہ کے رموز سے مفہوم ہوتا ہے کہ جامع الترمذی کا مرتبہ سنن ابی داؤد کے بعد اور سنن نسائی سے پہلے ہے کیونکہ ان کتابوں کے مصنفین اپنی رموز میں د۔ ت۔ س لکھتے ہیں اور وہ ان حروف سے سنن ابو داؤد جامع ترمذی اور سنن نسائی کی طرف اشارہ کرتے ہیں ۔
امام سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب جامع صغیر میں بیان رموز میں کہا
’’خ، البخاری۔ م، المسلم۔ ق، لہما۔ د، لابی داؤد۔ ت، الترمذی۔ ن، نسائی‘‘ انتہٰی ۔
امام سخاوی نے اپنی شرح فیض القدیر میں کہا ’’ضیع المؤلف قاض بان جامع الترمذی من ابی داؤد والنسائی فی الرتبۃ‘‘ انتہٰی ۔
لیکن اظہر وہی ہے جو کشف الظنون میں ہے کہ جامع ترمذی کتب صحاح ستہ کی تیسری کتاب ہے اور امام ذہبی کے قول میں نظر ہے کیونکہ ترمذی نے اگرچہ حدیث مصلوب اور کلبی وغیرہ ضعفاء مجروحین کی احادیث کا اپنی جامع میں اخراج کیا ہے لیکن انہوں نے ان کے ضعف کو بھی بیان کر دیا۔ اس لئے اس قسم کی حدیثیں امام ترمذی کے نزدیک باب شواہد اور متابعت سے قرار پائیں گی۔ جیسا کہ امام حازمی نے فرمایا : ان شرط الترمذی ابلغ من شرط ابی داؤد لان الحدیث اذا کان ضعیفًا او من حدیث اہل طبقۃ الرابعۃ فانہ بین وبینہ علیہ فیصیر الحدیث عندہٗ من باب الشواہد و اعتمادہ علی ماصح عن الجماعۃ انتہٰی۔
یعنی ترمذی کی شرط ابو داؤد کی شرط سے ابلغ ہے اس لئے کہ جب کوئی حدیث ضعیف ہوتی ہے یا اس کا راوی اہل طبقہ رابعہ سے ہوتا ہے تو امام ترمذی اسے بیان کر کے پوری طرح اس پر تنبیہ فرماتے ہیں ایسی صورت میں وہ حدیث ان کے نزدیک باب شواہد سے ہوتی ہے اور ان کا اعتماد اسی پرہوتا ہے جو اصحابِ صحاح سے صحت کے ساتھ مروی ہے۔ انتہیٰ ۔
بہرحال جامع ترمذی سنن ابی داؤد اور سنن نسائی سے کہیں زیادہ نافع اور فوائد کی جامع ہے۔
جامع ترمذی کا طبقہ
صحت و شہرت کے اعتبار سے کتب حدیث کے چار طبقے ہیں۔ طبقہ اولیٰ میں صرف چار کتابیں مؤطا، صحیح بخاری اور صحیح مسلم اور طبقہ ثانیہ میں سنن اربعہ ہیں جن میں جامع ترمذی شامل ہے اور طبقہ ثالثہ میں وہ مسانید، جوامع اور مصنفات ہیں جن میں صحیح، حسن، ضعیف، معروف، غریب، شاذ، منکر، ہر قسم کی حدیثیں پائی جاتی ہیں اور علماء میں ان کو شہرت کا وہ درجہ حاصل نہیں ہوا جو پہلے دو طبقوں کی کتابوں کو حاصل ہے جیسے مصنف عبد الرزاق اور مسند عبد بن حمید، طحاوی و طبرانی وغیرہ اور طبقہ رابعہ میں وہ کتابیں ہیں جو عرصۂ دراز کے بعد تصنیف ہوئیں اور ان میں ایسی روایات بھی پائی جاتی ہیں جو طبقتین اولین میں شامل تھیں جیسے مسند فردوس للدّیلمی، کتاب الضعفاء للعقیل و کتاب الکامل لابن عدی ۔ڈاکٹر فیض احمد چشتی۔
No comments:
Post a Comment