ترجمہ قرآن میں مشکلات
قرآن شریف عربی زبان میں اترا ،عربی زبان نہایت گہر ی زبان ہے ۔ اولاً توعربی زبان میں ایک لفظ کے کئی معنے آتے ہیں جیسے لفظ ''ولی'' کہ اس کے معنی ہیں دو ست، قریب،مددگار،معبود،ہادی،وارث، والی،اورقرآن میں یہ لفظ ہر معنے میں استعمال ہوا ہے ۔ اب اگر ایک مقام کے معنی دوسرے مقام پر جڑ دیئے جائیں تو بہت جگہ کفر لازم آجاوے گا پھر ایک ہی لفظ ایک معنی میں مختلف لفظوں کے ساتھ ملکر مختلف مضامین پیدا کرتا ہے مثلاً شہادت بمعنی گواہی اگر''عَلٰی'' کے ساتھ آئے تو خلاف گواہی بتاتا ہے اور اگر'' لام'' کے ساتھ آئے توموافق گواہی کے معنی دیتا ہے ۔ لفظ''قَالَ'' بمعنی کہا ۔ اگر ''لام'' کے ساتھ آوے تو معنی ہوں گے اس سے کہا۔ اگر ''فِیْ'' کے ساتھ آوے تو معنی ہوں گے اس کے بارے میں کہا ۔ اگر''مِنْ''کے ساتھ آوے تو معنی ہوں گے اس کی طر ف سے کہا ، ایسے ہی ''دعا''کہ قرآن میں اس کے معنی پکارنا ، بلانا ، مانگنا اور پوجنا ہیں۔جب مانگنے او ر دعا کرنے کے معنی میں ہو تو اگر'' لام'' کے ساتھ آوے گا تو اس کے معنی ہوں گے اسے دعا دی اور جب''عَلٰی'' کے ساتھ آوے تو معنی ہونگے اسے بد دعا دی ۔
اسی طر ح عربی میں لام ،مِنْ،عَنْ، ب، سب کے معنی ہیں ''سے'' لیکن ان کے موقع استعمال علیحدہ ہیں اگر اس کا فر ق نہ کیا جائے تو معنی فاسد ہوجاتے ہیں پھر محاورہ عرب، فصاحت وبلاغت وغیرہ سب کا لحا ظ رکھنا ضروری ہے اور ظاہر ہے کہ علم کا مل کے بغیر یہ نہیں ہوسکتا اور جب عوام کے ہاتھ یہ کام پہنچ جائے تو جو کچھ ترجمہ کا حشر ہوگا وہ ظاہر ہے۔ اس لئے آج اس ترجمہ کی بر کت سے مسلمانوں میں بہت فرقے بن گئے ہیں ۔ یہ مترجم حضرات اس حد تک پہنچ گئے ہیں کہ جو ان کے کیے ہوئے ترجمہ کو نہ مانے ، اسے مشرک مرتد ، کافر کہہ دیتے ہیں ۔ تمام علما ء وصلحاء کو کافر سمجھ کر اسلام کو صرف اپنے میں محدود سمجھنے لگے ہیں ، چنانچہ مولوی غلام اللہ خاں صاحب نے اپنی کتاب''جواہر القرآن''کے صفحہ ۱۴۱ ، ۱۴۳ پر لکھا کہ جو کوئی نبی ، ولی ، پیر ، فقیر کو مصیبتوں میں پکارے وہ کافر، مشرک ہے۔ اس کا کوئی نکاح نہیں اور صفحہ ۱۵۲ پر تحریر فرمایا ہے کہ اس قسم کی نذر نیاز شرک ہے۔ اس کا کھانا خنزیر کی طر ح حرام ہے ۔ اس فتویٰ سے سارے مسلمان بلکہ خود دیوبندوں کے اکابر مشرک ہوگئے بلکہ خود مصنف صاحب کی بھی خیر نہیں وہ بھی اس کی زد سے نہیں بچے چنانچہ گجرات سے ایک صاحب نے تحریری استفتاء مولوی غلام اللہ خاں صاحب کی خدمت میں بذریعہ جوابی ڈاک بھیجا جس میں سوال کیا کہ آپ نے اپنی کتاب ''جواہر القرآن ''کے صفحات مذکورہ پر لکھا ہے کہ پیرو ں کے پکارنے والے کا نکاح کوئی نہیں اور نذر نیاز کا کھانا خنزیر کی طر ح حرام ہے آپ کے محترم دوست اور دیوبندیوں کے مقتداء عالم عنایت اللہ شاہ صاحب گجراتی کے والد مولوی جلال شاہ صاحب ساکن دو لتا نگر ضلع گجرات ، اور سنا گیا ہے کہ آپ کے والدین بھی گیارہویں کھاتے تھے اور کھلاتے تھے ''ختم غوثیہ'' پڑھتے تھے جس میں یہ شعر موجود ہے ۔
امدادکن امدادکن از بحر غم آزادکن در دین و دنیاشاد کن یا شیخ عبدالقادر
جلال شاہ کے عینی گواہ ایک نہیں دو نہیں بہت زیادہ موجود ہیں فرمایا جاوے کہ ان کا نکاح ٹوٹا تھایا نہیں اور اگر نکاح ٹوٹ گیا تھا تو آپ کے کیسے ہوئے کیونکہ آپ اس ٹوٹے ہوئے نکاح کی اولاد ہیں نیز گیارہویں کا کھانا جب خنزیر کی طرح حرام ہوا تو جو کوئی اسے حلال جانے وہ مرتد ہوا او رمرتد کا نکاح فوراً ٹوٹ جاتا ہے تو آپ دونوں بزرگو ں کے والد صاحبان اسے حلال جان کر کھاتے کھلاتے تھے ۔ اب آپ کے۔۔۔۔۔۔ ہونے کی کیا صورت ہے بصورت دیگر آپ دونوں بزرگو ں کے پیچھے نماز جائز ہے یا نہیں ؟ اس کا جواب ابھی تک نہیں ملا اور امید بھی نہیں کہ ملے کیونکہ عربی کا مقولہ ہے : مَنْ حَفَرَ لِاَخِیْہِ وَقَعَ فِیْہِ جو دو سرے کے گر نے کو گڑھا کھودتا ہے خود اس میں گرتا ہے دو سرے مسلمانوں کے نکاح تو بعد میں ٹوٹیں گے پہلے اپنے والدین کے نکاح کی خبر لیں ۔ کوئی صاحب ان بزرگوں سے اس معمہ کو حل کرادیں اور اس کا جواب دلوادیں ہم مشکور ہوں گے ۔
غرض کہ بے دھڑک ترجمے بڑی خرابیوں کی جڑ ہیں اس سے قادیانی ، نیچر ی ، چکڑالوی ، غیرمقلد وہابی ، دیوبندی ، مودودی بابی ، بہائی وغیرہ فرقے بنے ۔ ان سب فرقوں کی جڑ خود ساختہ ترجمے ہیں ۔ (ماخوذ علم القرآن حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ )۔(طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment