Friday 16 February 2018

چہرہ انور اتنا حسین اور تاباں تھا جیسے قرآن پاک کا ورق ہو

0 comments
چہرہ انور اتنا حسین اور تاباں تھا جیسے قرآن پاک کا ورق ہو

آخری ایام میں مرض کے باعث حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، مسجد میں تشریف نہیں لا رہے تھے، اس لئے باجماعت نماز پڑھانے کا فریضہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو سونپ دیا گیا تھا، وہ تین دن سے مسجد نبوی میں مصلیٰ پر کھڑے ہو کر نماز پڑھا رہے تھے۔
اپنے محبوب نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تشریف نہ لانے کے باعث صحابہ کرام بے حد اداس اور غمگین تھے، سارے کاروبار ٹھپ ہو کر رہ گئے تھے، ہر وقت تمام حضرات مسجد شریف میں بیٹھے رہتے تاکہ حضور کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طبیعت مبارک کی تازہ صورت حال سے آگاہ رہیں، انہیں کھانا پینا، لین دین، میل ملاپ اور بیوی بچے سب بھولے ہوئے تھے ان پر ایک ہی دھن سوار تھی اور وہ یہ کہ صحت مند حالت میں اپنے محبوب پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرہ دیکھ لیں اور انہیں اسی طرح ہنستا مسکراتا، جاتا آتا اور باتیں کرتا دیکھیں جس طرح پہلے دیکھا کرتے تھے، اسی خیال میں مستغرق تھے اور یہی آرزو ان کی آخری منزل بن کر رہ گئی تھی۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ راوی ہیں :پیر کا دن تھا، فجر کی نماز باجماعت ادا کرنے کے لئے شیدایان حق تیزی سے مسجدنبوی میں جمع ہو رہے تھے، اتنے میں حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے تکبیر پڑھی اور حاضرین نے صفیں درست کر لیں، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ، معمول کے مطابق امامت کے فرائض انجام دینے کے لئے آگے بڑھے اور انہوں نے اللہ اکبر کہہ کر نماز کی نیت باندھ لی، باقی نمازیوں نے بھی ان کی اقتداء کی اور نماز شروع ہوگئی۔
مدینہ طیبہ میں قبلہ جنوب کی طرف ہے، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حجرہ مبارک مشر ق کی طرف تھا جس کی ایک کھڑکی مسجد کی جانب کھلتی تھی، اسی سے نکل کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسجد میں تشریف لایا کرتے تھے۔
دامن رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے وابستگی کے باعث اطاعت حق کے رسیا، یہ مسجد نبوی کے نمازی خشوع و خضوع اور انہماک و توجہ کے ساتھ اپنی نماز میں مصروف تھے کہ اچانک انہوں نے محسوس کیا کہ مشرق کی جانب کچھ ہلچل ہے اور کھڑکی کے پردے کو جنبش ہو رہی ہے۔
اسی پردے کی جنبش کے ساتھ ان لازوال محبت کی ناقابل فراموش یادیں وابستہ تھیں، یہیں سے انہیں عشق کی معراج نصیب ہوا کرتی تھی اور یہیں سے وہ اپنے مضطرب جذبات کی تسکین کا سامان کیا کرتے تھے، اس لئے ان کی گردنیں سامنے ہٹ کر، مشرق کی طرف مڑگئیں اور پردے پر مرکوز ہوگئیں۔
اب ان کے سینوں کا رخ جنوب کی جانب یعنی قبلے کی طرف تھا اور وہ نمازکی حالت میں صف بستہ کھڑے تھے، مگر ان کے چہرے مشرق کی جانب مڑے ہوئے تھے اور نگاہیں کھڑکی کے پردے پر جمی ہوئی تھیں۔
پردے کی ہر تار کے ساتھ ان کا دل اٹکا ہوا تھا اور ہر جنبش کے ساتھ تیزی کے ساتھ دھڑک رہا تھا، وہ متمنی تھے کہ اچانک پردہ ہٹے اور انہیں وہ ماہِ مبین نظر آئے جس کے انوار ان کے دلوں کو قرار اور جس کی طلعت ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہے، وہ رخ زیبا دکھائی دے جس کی دید، قرارِ دل و جاں اور عشرتِ قلب حزیں ہے، وہ محبوب طلعت بارہو جس کا سراپا جانِ آرزو اور روحِ مراد ہے آخر ان کی آرزو کی کلی چٹکی اور دل کی مراد پوری ہوئی۔
فَکَشَفَ النَّبِیّ صلی الله عليه وآله وسلم سِتْرَالْحُجْرَةِ يَنْظُرُ اِلَيْنَا وَهُوَ قَائِمٌ کَاَنَّ وَجْهَه وَرَقَةُ مُصْحَفٍ ثُمَّ تَبَسَّمَ يَضْحَکُ.
ترجمہ : حضور محبوب کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حجرے کا پردہ ہٹایا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمیں دیکھنے لگے، اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھڑے تھے، چہرہ انور اتنا حسین اور تاباں تھا جیسے قرآن پاک کا ورق ہو، پھر سرکار خوشی سے اس طرح مسکرائے کہ دانتوں کے آبدار موتی نمایاں ہوگئے۔
اب جانِ گلستان، روحِ بہاراں، باعثِ کن فکاں، مرادِ دلِ مشتاقاں، شاہکارِ حسن وجمال، پیکرِ جلال و کمال، مقتدائے شہر یاراں، صدر نشینِ بزمِ خوباں، نشانِ حجتِ حق، کعبۂ ایمان، برہانِ صادق، مظہرِ شانِ قدرت حضور احمد مجتبیٰ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا رخِ زیبا ہمارے سامنے تھا، جس کے حسن و جمال کے بارے میں حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ نے رائے دی تھی کہ کسی ماں نے اس سے زیادہ حسین جنا ہی نہیں اور کسی آنکھ نے ایسا خوبرو دیکھا ہی نہیں۔ ۔ ۔ حضرت علی شیر خدا نے کہا تھا : ماضی و مستقبل میں ایسے حُسن کی کہیں مثال ہی نہیں۔ ۔ ۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ گویا ہوئے تھے : کہ آپ شاہکار قدرت ہیں۔ ۔ ۔ حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ نے کہا تھا : آپ کا حسن چاند سے زیادہ تاباں اور قرار بخش ہے۔ ۔ ۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے دل کی بات یوں کہی تھی : کہ رخ پرنور کے عکس سے دیواریں منور ہوجاتی ہیں اور ان پر حسن کی شعاعیںباقاعدہ رقصاں دکھائی دیتی ہیں۔ ۔ ۔ حضرت جبریل امین علیہ السلام نے اپنا تجربہ بیان کیا تھا کہ میں نے آفاق گھومے ہیں، مشرق و مغرب کے تھالے چھان ڈالے ہیں، بڑے بڑے کجکلاہ اور شہر یارِ حسن و خوبی دیکھے ہیں مگر آپ جیسا کوئی نظر نہیں آیا، آپ یکتا اور بے مثل ہیں، جن کا ثانی ہی نہیں۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : مَانَظَرْنَا مَنْظَرًا کَانَ اَعْجَبَ اِلَيْنَا مِنْ وَجْهِ النَّبِیِ صلی الله عليه وآله وسلم حِيْنَ وَضَحَ لَنَا.
اس وقت جس انداز سے سرکار قیام فرما تھے، اس سے زیادہ خوبصورت اور پُرکشش منظر ہماری نگاہوں نے کبھی دیکھا ہی نہیں تھا ۔
ہم شانِ حسن و زیبائی کے رعب و جلال اور انداز محبوبی و دلبری کے کمال میں اتنے مگن ہوگئے کہ قریب تھا سب کچھ بھول جائیں اور یہ یاد ہی نہ رہے کہ ہم نماز پڑھ رہے ہیں۔
حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے سمجھا کہ شاید آپ باہر تشریف لانا چاہتے ہیں۔ اس لئے انہوں نے پیچھے ہٹنے کا ارادہ کیا لیکن حضور مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اپنی نماز مکمل کرو، پھر اچانک پردہ گرادیا، اسی روز آپ کا وصال ہوگیا ۔ (بخاری شریف، 1 : 93، 94)۔(طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔