حضرت سیّدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اور وحدانیت الہی
حضرت سیّدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ہمیشہ سے مسلمان تھے
اعلی حضرت، امام اہلسنت، مجدددین وملت حضرت علامہ مولانا شاہ امام احمد رضاخان قادری محدث بریلوی رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں : حضرت امیر المومنین ، مولی المسلمین ، امام الواصلین ، سیدناعلی المرتضی رضی اللہ عنہ اورحضرت امیر المومنین ، امام المشاہدین ، افضل الاولیاء المحمدیین ، سیدنا ومولانا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ دونوں حضرات عالمِ ذُریت سے روزِ ولادت ، روزِولادت سے سن تمیز، سن تمیزسے ہنگام ظہورپرنورآفتاب بعثت، ظہوربعثت سے وقت وفات ، وقت وفات سے اَبَدُالْآبَاد تک بِحَمْدِاللہِ تَعَالٰی موحد موقن ومسلم ومومن وطیب وزکی وطاہر ونقی تھے اورہیں اوررہیں گے ، کبھی کسی وقت کسی حال میں ایک لحظہ ایک آن کو لوثِ (گندگیٔ) کفروشرک وانکار اُن کے پاک ، مبارک ، ستھرے دامنوں تک اصلاً نہ پہنچا ، نہ پہنچے ۔ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن ۔ (سب تعریفیں اللہ تعالٰی کےلئے ہیں جو پروردگار ہے تمام جہانوں کا) عالم ذریت سے روزِ ولادت تک اسلام میثاقی تھا کہا : ’’اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ، قَالُوْا بَلٰی کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں ؟ انہوں نے کہا : کیوں نہیں ۔ روز ولادت سے سن تمیز تک اسلام فطری کہ کُلُّ مَوْلُوْدٍ یُوْلَدُ عَلَی الْفِطْرَۃِ ہر بچہ فطرت اسلام پر پیداہوتاہے ۔ (صحیح البخاری، کتاب الجنائز، باب ماقیل فی اولادالمشرکین ،الحدیث: ۱۳۸۵، ج۱، ص۴۶۶)
کبھی بت کو سجدہ نہ کیا : سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نےسن تمیزسے روز بعثت تک اسلام توحیدی کہ ان حضرات والاصفات نے زمانہ فترت میں بھی کبھی بت کو سجدہ نہ کیا ، کبھی غیر خدا کو خدا نہ قراردیا ہمیشہ ایک ہی جانا ، ایک ہی مانا ، ایک ہی کہا ، ایک ہی سے کام رہا ۔ ذٰلِکَ فَضْلُ اللہِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَاءُ وَاللہُ ذُوْالْفَضْلِ الْعَظِیْم یہ اللہ کا فضل ہے جسے چاہے عطا فرماتا ہے اوراللہ عظیم فضل والا ہے ۔ پھر ظہور بعثت سے ابدالآبادتک حال تو ظاہر وقطعی ومتواتر ہے ۔ (فتاوی رضویہ، ج۲۸، ص۴۵۸)
کبھی ذات باری تعالی میں شک نہ ہوا
امام ابن عساکر رحمۃ اللہ علیہ حضرت سیدنا امام زُہری رحمۃ اللہ علیہ سےجو حضرت سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے شاگرد رشید ہیں روایت کرتے ہیں کہ ’’مِنْ فَضْلِ اَبِیْ بَکْرٍ اَنَّہ لَمْ یَشُکَّ فِی اللہِ سَاعَۃً یعنی حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے فضائل سے ایک یہ بھی ہے کہ انہیں کبھی اللہ1میں شک نہ ہوا ۔ (معرفۃ الصحابۃ ،ج۱،ص۵۲)
ہمیشہ ہمیشہ تک سردارِ مسلمین
امام عبدالوہاب شعرانی رحمۃ اللہ علیہ الیواقیت والجواہرمیں فرماتے ہیں : حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّم نے حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے ارشاد فرمایا : اَ تَذْکُرُ یَوْمَ یَوْمٍ کیا تمہیں اُس دن والا دن یا د ہے ۔ عرض کی : ہاں یاد ہے اور یہ بھی یاد ہے کہ اس دن سب سے پہلے حضور نے بَلٰی فرمایا تھا ۔ بالجملہ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ روزِ اَلَسْتُ سے روزِولادت اور روز ولادت سے روزوفات اور روزوفات سے ہمیشہ ہمیشہ تک سردارِ مسلمین ہیں ۔ (ملفوظات اعلی حضرت، ص۶۲)
روزِ ’’ اَلَسْتُ‘‘ کیا ہے ؟
’’روز اَلَسْتُ ‘‘سے مراد وہ دن ہے جس میں اللہ تعالی نے تمام روحوں سے سوال کیا تھا کہ’’ اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ‘ ۔ کیا میں تمہارا رب نہیں ؟ اور روحوں نے جواب میں کہا تھا : ’’بَلٰی‘‘ : کیوں نہیں ۔ (پ ۹، الاعراف: ۱۷۲)
توحید میں سب سے بلند کلام ، فرمانِ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ
امام الصوفیاء حضرت سیدنا شیخ جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : توحید میں سب سے بلند کلام امیرالمؤمنین حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا یہ فرمان ہے : سُبْحَانَ مَنْ لَّمْ یَجْعَلْ لِّخَلْقِہ سَبِیْلًا اِلَّا بِالْعِجْزِ عَنْ مَعْرِفَتِہ ۔ یعنی پاک ہے وہ ذات جس نے اپنی مخلوق کے لیئے اپنی معرفت کی سوائے عاجز ہونے کے کوئی راہ نہیں بنائی ۔ (ازالۃ الخفاء عن خلافۃ الخلفاء، ج۳، ص۷۹)
سیّدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ اور وحدانیت الہٰی بزبان اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ
حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی وحدانیت الٰہی سے معمور حیات طیبہ پر مشتمل ’’فتاوی رضویہ‘‘ جلد ۲۸، صفحہ ۴۵۶ سے ایک جامع فتوی بتصرف پیش خدمت ہے ۔ چنانچہ اعلی حضرت عظیم البرکت مجدددین وملت حضرت علامہ مولانا شاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : بحمداللہ تعالٰی یہی فضل اجل واجمل ، بلکہ اس سے بھی اعلی واکمل ، نصیب حضرت امیر المومنین ، امام المشاہدین ، افضل الاولیاء المحمدیین ، سیدنا و مولانا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ ہے ۔ چند برس کی عمر شریف ہوئی کہ پَرتَوشانِ خلیل اللہ بت خانہ میں بت شکنی فرمائی ۔ (یعنی حضرت سیدنا ابراہیم خلیل اللہ عَلٰی نَبِیِّنَاوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے جس طرح بت شکنی فرمائی تھی ویسے ہی انہوں نے بھی بت شکنی فرمائی) ان کے والد ماجد حضرت سیدنا ابو قحافہ رضی اللہ عنہ کہ وہ بھی صحابی ہوئے اس زمانۂ جاہلیت میں انہیں بت خانے لے گئے اور بتوں کو دکھا کر کہا : ھٰذِہٖ اٰلِھَتُکَ الشَّمُّ الْعُلٰی فَاسْجُدْلَھَا ۔ یعنی یہ تمہارے بلند وبالا خدا ہیں انہیں سجدہ کرو ۔ وہ تو یہ کہہ کر باہر گئے ، سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ قضائے مبرم کی طرح بت کے سامنے تشریف لائے اور براہ اظہار عجز صنم و جہل صنم پرست (یعنی بتوں کی لاچاری اور بت پرستوں کی جہالت کو ظاہر کرنے کے لیئے) ارشادفرمایا : اِنِّیْ جَائِعٌ فَاَطْعِمْنِیْ ۔ میں بھوکا ہوں مجھے کھانا دے ۔ وہ کچھ نہ بولا۔ فرمایا : اِنِّیْ عَارٍفَاکْسِنِیْ ۔ میں ننگاہوں مجھے کپڑا پہنا ۔ وہ کچھ نہ بولا ۔ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے ایک پتھر ہاتھ میں لے کرفرمایا : میں تجھ پر پتھر ڈالتا (مارتا) ہوں ۔ فِاِنْ کُنْتَ اِلٰھاً فَامْنَعْ نَفْسَکَ ۔ اگر توخدا ہے تو اپنے آ پ کو بچا ۔ وہ اب بھی نرابت بنارہا ۔ آخر بقوت صدیقی پتھر پھینکا کہ وہ خدائے گمراہاں منہ کے بل گرا ۔ والد ماجد واپس آتے تھے یہ ماجرا دیکھا تو کہا : اے میرے بچے !یہ کیا کیا ؟ فرمایا : وہی جو آپ دیکھ رہے ہیں ؟ وہ انہیں ان کی والدہ ماجدہ حضرت سیدتنا اُمّ الخیر رضی اللہ عنہا کے پاس کہ وہ صحابیہ ہوئیں لے کر آئے اور سارا واقعہ ان سے بیان کیا انہوں نے فرمایا : اس بچے سے کچھ نہ کہو ، جس رات یہ پیدا ہوئے میرے پاس کوئی نہ تھا ، میں نے سنا کہ ہاتف (یعنی غیب سے کوئی) کہہ رہا ہے : یَا اَمَۃَ اللہِ عَلَی التَّحْقِیْق! اِبْشِرِیْ بِالْوَلَدِ الْعَتِیْق اِسْمُہٗ فِی السَّمَاءِ الصِّدِّیْق لِمُحَمَّدٍ صَاحِبٌ وَرَفِیْقٌ ۔ یعنی اے اللہ کی سچی باندی ! تجھے خوشخبری ہو اس آزاد بچے کی ، اس کا نام آسمانوں میں صدیق ہے محمد صَلَّی اللہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّم کا یار ورفیق ہے ۔ (ارشاد الساری، کتاب مناقب الانصار، باب اسلام ابی بکر، ج۸، ص ۳۷۰ تا ۳۷۱، مرقاۃ المفاتیح، مناقب ابی بکر، تحت الحدیث:۶۰۳۴، ج۱۰، ص۳۸۵،طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
صدیق اکبر رضی اللہ عنہ ہمیشہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی خوشنودی میں رہے : سولہ برس کی عمر میں حضور پرنورسید عالم صَلَّی اللہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّم کے قدم پکڑے کہ عمر بھرنہ چھوڑے ، اب بھی پہلوئے اقدس میں آرام کرتے ہیں ، روزِ قیامت دست بدست حضور (ہاتھ میں ہاتھ ڈالے) اٹھیں گے ، سایہ کی طرح ساتھ ساتھ داخل خلد بریں ہوں گے ۔ جب حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّم مبعوث ہوئے فورًا بے تامل (بغیر غوروفکر کے) ایمان لائے ، ولہٰذا سید نا امام ابوالحسن اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : لَمْ یَزَلْ اَبُوْبَکْرٍبِعَیْنِ الرِّضَا مِنْہُ ۔ یعنی حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ہمیشہ سرکار اقدس صَلَّی اللہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّم کی خوشنودی میں رہے ۔ (فتاوی رضویہ، ج۲۸، ص ۴۵۷)
قبل بعثت بھی مومن، بعد بعثت بھی مومن
امام قسطلانی رحمۃ اللہ علیہ ارشاد الساری شرح صحیح البخاری میں فرماتے ہیں : اِخْتَلَفَ النَّاسُ فِیْ مُرَادِہٖ بِھٰذَا الْکَلَامِ فَقِیْلَ لَمْ یَزَلْ مُؤْمِناً قَبْلَ الْبِعْثَۃِ وَبَعْدَھَا وَھُوْ الصَّحِیْحُ الْمُرْتَضٰی ۔ یعنی اس کلام سے اِمام اشعری رحمۃ اللہ علیہ کی مراد میں لوگوں کا اختلاف ہے ۔ بیان مراد میں ایک قول یہ ہے کہ وہ ہمیشہ مومن رہے ، قبل بعثت بھی ، بعد بعثت بھی ۔ یہی قول صحیح وپسندیدہ ہے ۔ (ارشاد الساری، کتاب مناقب الانصار، باب اسلام ابی بکر رضی اللہ عنہ ،ج۸، ص۳۷۰)(طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
آپ سے کوئی حالت کفر ثابت نہیں
اِمام اجل سید ابوالحسن علی بن عبدالکافی تقی الدین سبکی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : اَلصَّوَابُ اَنْ یُّقَال انَّ الصِّدِّیْقَ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ لَمْ یَثْبُتْ عَنْہُ حَالَۃُ کُفْرٍبِاللہِ کَمَا ثَبَتَتْ عَنْ غَیْرِہ مِمَّنْ اٰمَنَ وَ ھُوَ الَّذِیْ سَمِعْنَاہُ مِنْ اَشْیَاخِنَا وَمَنْ یُقْتَدٰی بِہ وَھُوَ الصَّوَابُ اِنْ شَاءَ اللہُ تَعَالٰی ۔ یعنی صحیح یہ کہنا ہے کہ حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے متعلق کوئی حالت کفر ثابت نہ ہوئی جیسا کہ دوسرے ایمان والوں سے متعلق ثابت ہوئی ۔ یہی ہم نے اپنے شیوخ اورپیشواؤں سے سنا ہے اوریہی حق ہے اِنْ شَآءَ اللہ ۔ (ارشاد الساری، کتاب مناقب الانصار، باب اسلام ابی بکر رضی اللہ عنہ ،ج۸، ص۳۷۰)
محبت الہٰی اور فرمان صدیق اکبر رضی اللہ عنہ
سیدنا امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ سے منقول ہے کہ امیر المؤمنین حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا : مَنْ ذَاقَ خَالِصَ مَحَبَّۃِ اللہِ یُشْغِلُہُ ذٰلِکَ مِنْ طَلَبِ الدُّنْیَا وَاَوْحَشَہُ عَنْ جَمِیْعِ الْبَشَر ۔ یعنی جس نے خالص محبت الہٰی کا مزہ چکھ لیا وہ اس کو دنیا کی طلب سے متنفر کردے گی اور اس میں رہنے والے تمام انسانوں سے متوحش(یعنی متنفر) کردے گی ۔ (ازالۃ الخفاء عن خلافۃ الخلفاء، ج۳، ص۸۰)
اسلام لانے میں کوئی تردد نہ کیا
حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا دل پہلے ہی ایمان قبول کرنے کی صلاحیت سے پوری طرح معمور تھا۔ صرف دعوت ملنے کی دیر تھی اورجوشمع جلنے کے لیے بیتاب تھی فورا جل اٹھی۔ چنانچہ ، حضرت سیدنا محمد بن عبد الرحمن بن عبد اللہ بن حصین تمیمی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا : میں نے جس شخص کو بھی اسلام کی دعوت دی اس نے تر دد اورتھوڑا بہت غور و فکر ضرور کیا ، مگر ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ایسے ہیں کہ جب میں نے انہیں اسلام کی دعوت دی تو انہوں نے بغیر کسی تردد اور غور و فکر کے فورًا کلمہ پڑھ لیا اور اسلام میں داخل ہو گئے ۔ (اسد الغابہ، عبد اللہ بن عثمان اسلامہ، ج۳،ص۳۱۷، تاریخ مدینہ دمشق، ج۳۰،ص۴۴)
قبول اسلام میں عدم تردد کی وجہ
واقعی حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی یہ بہت ہی عظیم خوبی ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ نے اسلام کی دعوت سنتے ہی نہ توکوئی سوال کیا اور نہ ہی اسلام کے بارے میں کوئی بات سمجھنے کی کوشش کی حالانکہ اس وقت جن لوگوں کو اسلام کی دعوت دی جاتی تھی تو اولاً اس میں تردد یا سکوت کرتے اور ثانیا اسلام کے فوائد جاننے کی لازماً کوشش کرتے تھے لیکن آپ رضی اللہ عنہ نے کسی قسم کا کوئی تردد ، سکوت یاسوال نہ کیا بلکہ اِدھر اسلام کی دعوت کانوں میں پڑی اور اُدھر کلمہ شہادت پڑھ کر دائرہ اسلام میں داخل ہوگئے ، آپ کے اس بلا تردد اسلام قبول کرنے کی وجہ بیان کرتے ہوئےعلامہ بیہقی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : آپ کے بلا تردد قبول اسلام کی وجہ یہ ہے کہ آپ سرکار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّم کے اسلام کی دعوت دینے سے قبل ہی تمام دلائل اور شواہد ملاحظہ کرچکے تھے، اس لیے جیسے ہی آپرضی اللہ عنہ کو اسلام کی دعوت دی گئی فوراً ہی اسلام قبول فرمالیا ۔ (دلائل النبوۃ للبیھقی، باب من تقدم اسلامہ، ج۲، ص۱۶۴، تاریخ الخلفاء، ص۲۷)
ایک اور حیرت انگیز بات
آپ رضی اللہ عنہ کا بلاچون وچراں اسلام قبول کرنا اگرچہ عجیب بات ہے لیکن اس سے زیادہ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اسلام قبول کرنے سے قبل نبیٔ کریم رؤف رحیم صلی اللہ علیہ و علیٰ و آلہ و صحبہ وسلّم کے ساتھ پیش آنے والے کئی واقعات جیسے غار حرا میں سیدنا جبریل امین عَلَیْہِ السَّلَام کا وحی لے کر حاضر ہونا، غیبی آوازوں کا سننا، حیوانات وجمادات کا آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ و آلہ و صحبہ وسلّم کو سلام کرنا وغیرہ پیش آئے کہ جن کو سن کرایک عام آدمی اپنی سوچ کے مطابق انہیں کبھی تسلیم نہ کرے ، لیکن آپ رضی اللہ عنہ نے ایسے واقعات سن کربھی ذرہ بھرشک کا اظہار نہ کیا بلکہ آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ و آلہ و صحبہ وسلّم کی تمام باتوں پربغیر کسی تامل کے صحیح ہونے کا یقین کرلیا ۔ (طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment