نوجوانوں کا معاشرے میں عملی کردار
کسی بھی قوم کی تعمیر و ترقی میں طلبہ ہر اول دستے کا کردار ادا کرتے ہیں“. بلاشبہ کسی بھی قوم کی باگ دوڑ اس کے نوجوانوں کے ہاتھ میں ہوتی ہے. جس طرح ایک عمارت کی تعمیر میں اینٹ ایک بنیادی حیثیت رکھتی ہے کہ اینٹ سے اینٹ مل کر عمارت وجود میں آتی ہ ، ہراینٹ کی اپنی ایک جگہ ہوتی ہے، ایک بھی اینٹ کو نکال دیا جائے تو عمارت ڈھے جائے گی، بالکل اس ہی طرح ملک کی تعمیر میں طلبہ کو اہمیت حاصل ہے. معاشرے کی ترقی میں طلبہ کی اہمیت کا اندازہ کسی لڑی میں پروۓ موتیوں کی مالا سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ آگر ایک بھی موتی نکال دیا جائے تو پوری مالا ٹوٹ جائے گی. کسی بھی معاشرے کی تعمیر کے لیے ایک ایک فرد اہمیت کا حامل ہے.
”افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملّت کے مقدّر کا ستارہ“
نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ محنت کو اپنا شعار بنائیں. انتھک محنت ہی سے کامیابی قدم چومتی ہے. محنت سےگھبرانا مؤمن کا شیوہ نہیں ہے. ہر انسان کے اندر ایک گوہر نایاب چھپا ہوتا ہے، جس طرح ایک جوہری کو پتا ہوتا ہے کہ کون سا ہیرا کتنی مالیت کا ہے، وہ اپنی دکان میں موجود ہر ہیرے کو پرکھنا جانتا ہے، بالکل اس ہی طرح ہر نوجوان کے اندر بھی کچھ جواہر پوشیدہ ہوتے ہیں، بس ان کو پرکھنے اور تراش کر نکھارنے کی ضرورت ہوتی ہے.
اقبال نے کیا خوب کہا تھا
نو مید نہ ہو ان سے اے رہبر فرزانہ
کم کوش تو ہیں لیکن بے ذوق نہں راہی
نوجوانوں کو چاہیے کہ کتاب دوستی کو فروغ دیں. مطالعہ علم کے رجحان کو بڑھاتا ہے. مطالعے سے ذہن کھلتا ہے، انسان کی سوچ پختہ ہوتی ہے، اس کے اندر شعور پیدا ہوتا ہے. جو جنگ تلوار سے نہیں جیتی جا سکتی وہ جنگ قلم سے جیتی جا سکتی ہے. قلمی جہاد کے ذریعے معاشرے میں پھیلی بے حیائی کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے. قلم کے ذریعے صفحہ قرطاس پر خوبصورتی سے پھیلائے جانے والے الفاظ دلوں پر گہرا اثر چھوڑتے ہیں .
اقبال نے کہا تھا :
خدا تجھے کسی طوفاں سے آشنا کر دے
کہ ترے بحرکی موجوں میں اضطراب نہیں
تجھے کتاب سے ممکن نہیں فراغ
کہ تو کتاب خواں ہے صاحب کتاب نہیں
آج ہماری نوجوان نسل کا زیادہ تر وقت میڈیا کے آگے گزرتا ہے، جہاں انھیں مغربی تہذیب کی چمک دمک اپنی طرف گھیرتی نظر آتی ہے. نوجوان اردو بولنے کے بجائے انگریزی بولنے میں فخر محسوس کرتے ہیں. مشرقی طرز زندگی اپنانے کے بجائے، مغربیت کی طرف راغب ہیں. اور تو اور آج کل شادی بیاہ تک پر ہندوانہ رسم و رواج کو فروغ دیا جا رہا ہے، جو کہ سرا سر غلط ہے. مسلمان ہونے کے ناطے ہم جانتے ہیں کہ نکاح جتنی سادگی سے کیا جائے، اس میں اتنی ہی برکت ہوتی ہے. اور کوئی بھی قوم کسی کی نقل کر کے کبھی بھی ترقی کی منازل طے نہں کر سکتی:
”نظر کو خیرہ کرتی ہے چمک تہذیب حاضر کی
یہ صناعی مگر جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری ہے“
کسی بھی منزل پر پہنچنے کے لیے مسلسل چلتے رہنا اور باہمّت ہونا بہت ضروری ہے. سستی سے کوسوں دور بھاگنا چاہیے. آج کی نوجوان نسل کا المیہ ہے کہ وہ سست اور آرام طلب ہو گئی ہے. طرز زندگی ہی کچھ ایسا بنا بیٹھے ہیں کہ بیٹھے بٹھائے سب پا لینے کی طلب ان کے اندر پیدا ہوگئی ہے. اور اپنے ملک کی چیزوں پر فخر کرنے کے بجائے بیرون ملک سے خریدی گئی چیزوں پر فخر کرتے ہیں. اس سے نہ صرف اپنے ملک کی ساخت کو نقصان پہنچتا ہے بلکہ ہم خود اپنی عوام کے اندر اپنی ہی چیزوں کے لیے منفی جذبات پیدا کرتے ہیں. ڈاکٹر اقبال صاحب نے انہی جذبات کی خوبصورت عکاسی کرتے ہوئے کیا خوب فرمایا تھا :
ترے صوفے ہیں افرنگی، ترے قالیں ہیں ایرانی
لہو مجھ کو رلاتی ہے جوانوں کی تن آسانی
مہنگائی اور غربت کے اس دور میں نوجوانوں کو اسلام کے سنہری اصول یاد رکھنے چاہییں. چاہے کچھ بھی ہو جائے سیدھا راستہ اپنانا ہے. حلال اور حرام میں نہ صرف خود تمیز کرنی ہے بلکہ دوسروں کو بھی سمجھانا ہے کیوں کہ:
اے طائر لا ہوتی اس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی
آج امّت مسلمہ ہر طرف سے دشمنوں کے نرغے میں ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم پھر سے اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کریں. ایک دوسرے کے لیے نفرت و بغض جیسے جذبات نہ رکھیں. آپس میں بھائی چارے اور محبّت جیسے جذبات بانٹیں. پھر سے انصار و مہاجرین والی مثال بن کر سامنے آئیں. ایک ایسا معاشرہ تشکیل دیں کہ کوئی کسی کا استحصال کرنے والا نہ ہو، ایک دوسرے کے دکھ درد محسوس کریں غرض ایک ایسا معاشرہ وجود میں آئے
نوجوانوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ قرآن کو اپنی زندگی کا حصّہ بنائیں کیوں کہ یہ نوجوان ہی ہیں، انہوں نے آگے جا کر اس ملک کی باگ دوڑ سنبھالنی ہے. اس کے لیے قرآن کا گہرا مطالعہ ضروری ہے، اس کے ساتھ سیرت النبی (صلی اللہ علیہ وسلم )، اور سیرت خلفائے راشدین کا بھی مطالعہ بھی کرنا چاہیے. اقبال صاحب نے اپنی شاعری میں نوجوانوں کو شاہین کی صفات اپنانے کی ترغیب دی ہے. شاہیں بلند پرواز ہوتا ہے، جو ہمیشہ چوٹی پر رہتا ہے، وہ گھر نھیں بناتا اور بلند پرواز کرتا ہے.
پرواز ہے دونوں کی اسی اک فضا میں
اور ہے شاہین کا جہاں اور کرگس کا جہاں
آج کل بہار کا موسم جوبن پر ہے ، ہم نے اپنے ملک میں پھول ہی پھول کھلانے ہیں، اور خزاں کے کانٹوں سے اس کو بچانا ہے، ان شاء اللہ. میری اور سب نوجوانوں کی دعا ہے کہ :
خدا کرے کہ میر ی ارض پاک پہ اترے
وہ فصل گل جسے اندیشہ زوال نہ ہو
یہاں جو پھول کھلے وہ کھلا رہے برسوں
یہاں خزاں کو گزرنے کی بھی مجال نہ ہو
آج نوجوان چاہیں تو وہ ہمّت و بہادری سے دریاؤں کے منہ موڑ سکتے ہیں، سمندروں کے سینے چیر سکتے ہیں ، ہواؤں کے رخ تبدیل کر سکتے ہیں. اس کی بہت سی مثالیں ماضی میں بھی ملتی ہیں
نوجوانوں کے لیے ضروری ہے کہ ان کے سامنے ان کا مقصد واضح ہو، کیوں کہ آگر کوئی مقصد ہی نہیں ہوگا تو پھر زندگی انھیں بہت پیچھے چھوڑ جائے گی. اپنے تو اپنے غیروں کا خیال کرنے کی روش اپنانی ہے. ذرا ذرا سی نیکیاں معاشرے میں نکھار پیدا کر سکتی ہیں اور ذرا سی برائی معاشرے کو بگاڑنے کا سبب بن سکتی ہے، راہ چلتے کوئی پتھر ہٹا دینا، گزرتے ہوئے لوگوں کو سلام کرنا، مسکرا کر ملنا اور بہت سے ایسے کام ہیں جو نہ صرف صدقہ میں شمار ہوتے ہیں بلکہ معاشرے میں امن پیدا کرنے کا باعث ہیں. نوجوان اپنے سے چھوٹوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کر سکتے ہیں. جو استطاعت رکھتے ہیں وہ غریبوں کے لیے مفت تعلیم کا انتظام کر سکتے ہیں، تاکہ تعلیم حاصل کر کے وہ بھی ملک و قوم کی ترقی میں حصّہ لے سکیں، کیا پتا کتنے ہی ذرخیز ذہن ایسے لوگوں میں پائے جاتے ہوں جو تعلیمی اخراجات نہں اٹھا سکتے.
طالب علموں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے والدین کا احترام کریں اور اپنے اساتذہ کو عزت کی نگاہ سے دیکھیں. حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا کہ جس نے مجھے ایک لفظ پڑھایا، وہ میرا آقا قرار پایا. یہ تھی ان کے نزدیک استاد کی اہمیت. استاد کو روحانی ماں باپ کہا جاتا ہے کیونکہ وہ بچوں کو اچھے برے کی تمیز کرواتے ہیں. اور والدین کے درجات سے تو ہم سب واقف ہیں کہ والدین کی خوشنودی میں اللہ کی خشنودی پوشیدہ ہے اور والدین کی نارضگی میں اللہ کی ناراضگی ہے.
جددید تعلیم کے ساتھ قرآن کی تعلیم بھی بہت ضروری ہے، ایک اچھا تعلیم یافتہ انسان اگر حافظ قرآن بھی ہو تو وہ معاشرے کی اصلاح میں کلیدی کردار ادا کر سکتا ہے. دین اور دنیا کو ساتھ لے کر چلنے کی ضرورت ہے ، چاہے وہ سیاست کا میدان ہو، معاشی میدان ہو یا کوئی بھی یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ ہمارے ہر مسئلے کا حل قرآن میں پوشیدہ ہے .
یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ یہ ملک ہم نے بے شمار قربانیوں کے بعد حاصل کیا ہے، ہمارے آباؤ اجداد نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا تھا، ماؤں بہنوں کو عزت و آبرو کی قربانی دینا پڑی تھی، تب کہیں جا کر یہ ملک حاصل ہوا تھا. اب ہم نے ایک ایسا معاشرہ تشکیل دینا ہے جہاں حق دار کو اس کا حق ملے، جہاں ایک دوسرے کو امن و محبّت کا پیغام دیا جائے، انصاف کا بول بالا ہو، اسلام ہی کو رہنمائی کا ذریعہ بنایا جائے، ایک دوسرے کا احترام کیا جائے، جہاں نفرت اور کدورت نہ ہو ، جہاں بھائی چارے کا رویہ اپنایا جائے.
ان شاءاللہ وہ وقت دور نہیں جب یہ معاشرہ ایک مضبوط اسلامی معاشرہ بن جائے گا. بس ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم میں سے ہر ایک اپنا حصّہ ڈالتا جائے اور امید کے دیے روشن رکھے جائیں. اللہ ہمیں ہمارے مقاصد میں کامیاب فرمائے. آمین.(طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment