Friday, 9 February 2018

شش کلمے بدعت ہیں ؟ اعتراض کا جواب

شش کلمے بدعت ہیں ؟ اعتراض کا جواب

چھ کلمے بدعت نہیں ہیں ، یہ کلمے سب رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے احادیث میں ثابت اور موجود ہیں۔ بچوں کو یاد کرانے کے لیے سہولت کی وجہ سے پہلا دوسرا تیسرا کلمہ نام رکھ دیا گیا ہے، جیسا کہ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے اس کی کوئی تقسیم نہیں کی، بعد میں لوگوں نے پڑھنے اور حفظ کرنے کی سہولت سے پہلا پارہ، دوسرا پارہ، تیسرا پارہ، حتی کہ تیس پاروں میں تقسیم کردیا۔ اسے بدعت نہیں کہیں گے ۔

چھ کلمے جو معروف ہیں اور یہ الله کا ذکر ہیں ان کو یاد کرنے کے لئے علماء کرام رحم اللہ علیہم نے ایک جگہ جمع کر دیا ہے ۔

مثلا کلمہ طیب

لَآ اِلٰهَ اِلَّا اﷲُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اﷲِ
ترجمہ : اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، محمد ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے رسول ۔

یہ ألفاظ کسی صحیح سند روایت سے نہیں آئے لیکن حدیث میں ہے لوگوں سے قتال کرو حتی کہ لَآ اِلٰهَ اِلَّا اﷲُ کا اقرار کریں اور میں جو لایا ہوں اس پر ایمان لائیں ۔

لہذا امت میں ان الفاظ کو کلمہ کہا جاتا ہے یعنی وہ جو ایمان ہے ۔

صحیح بخاری ميں ہے : حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمُسْنَدِيُّ قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو رَوْحٍ الْحَرَمِيُّ بْنُ عُمَارَةَ قَالَ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ وَاقِدِ بْنِ مُحَمَّدٍ قَالَ سَمِعْتُ أَبِي يُحَدِّثُ عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّی يَشْهَدُوا أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ وَيُقِيمُوا الصَّلَاةَ وَيُؤْتُوا الزَّکَاةَ فَإِذَا فَعَلُوا ذَلِکَ عَصَمُوا مِنِّي دِمَائَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ إِلَّا بِحَقِّ الْإِسْلَامِ وَحِسَابُهُمْ عَلَی اللَّهِ ۔
ترجمہ : عبد اللہ بن محمد مسندی، ابوروح حرمی بن عمارہ، شعبہ، واقد بن محمد، ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا مجھے یہ حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے اس وقت تک جنگ کروں جب تک کہ وہ اس بات کی گواہی نہ دینے لگیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ محمد اللہ کے رسول ہیں اور نماز پڑھنے لگیں اور زکوۃ دیں، پس جب یہ کام کرنے لگیں تو مجھ سے ان کے جان ومال محفوظ ہوجائیں گے، علاوہ اس سزا کے جو اسلام نے کسی جرم میں ان پر مقرر کردی ہے، اور ان کا حساب و کتاب اللہ کے ذمے ہے ۔

صحیح مسلم میں ہے : حَدَّثَنَا أَبُو غَسَّانَ الْمِسْمَعِیُّ مَالِکُ بْنُ عَبْدِ الْوَاحِدِ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِکِ بْنُ الصَّبَّاحِ عَنْ شُعْبَةَ عَنْ وَاقِدِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ زَيْدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّی يَشْهَدُوا أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ وَيُقِيمُوا الصَّلَاةَ وَيُؤْتُوا الزَّکَاةَ فَإِذَا فَعَلُوا عَصَمُوا مِنِّي دِمَائَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ إِلَّا بِحَقِّهَا وَحِسَابُهُمْ عَلَی اللَّهِ ۔
ترجمہ : ابوغسان مسمعی، مالک بن عبدالواحد، عبدالملک بن الصباح، شعبہ، واقد بن محمد بن زید بن عبد اللہ، ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ مجھے لوگوں سے اس وقت تک لڑنے کا حکم ہے جب تک کہ وہ اس بات کی گواہی نہ دینے لگیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ محمد اللہ کے رسول ہیں اور نماز قائم کرنے لگیں اور زکوۃ ادا کرنے لگیں اگر وہ ایسا کریں گے تو مجھ سے اپنی جان اور اپنا مال بچالیں گے ہاں حق پر جان ومال سے تعرض کیا جائے گا باقی ان کے دل کی حالت کا حساب اللہ تعالی کے ذمہ ہے ۔

بیہقی میں ہے : أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللهِ الْحَافِظُ ، حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ صَالِحٍ الْوُحَاظِيُّ ، حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ يَحْيَى الْكَلْبِيُّ ، حَدَّثَنَا الزُّهْرِيُّ ، حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيَّبِ ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، أَخْبَرَهُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : أَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى فِي كِتَابِهِ ، فَذَكَرَ قَوْمًا اسْتَكْبَرُوا فَقَالَ : إِنَّهُمْ كَانُوا إِذَا قِيلَ لَهُمْ لا إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ يَسْتَكْبِرُونَ ، وَقَالَ تَعَالَى : إِذْ جَعَلَ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي قُلُوبِهِمُ الْحَمِيَّةَ حَمِيَّةَ الْجَاهِلِيَّةِ فَأَنْزَلَ اللَّهُ سَكِينَتَهُ عَلَى رَسُولِهِ وَعَلَى الْمُؤْمِنِينَ وَأَلْزَمَهُمْ كَلِمَةَ التَّقْوَى وَكَانُوا أَحَقَّ بِهَا وَأَهْلَهَا ، وَهِيَ لا إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللهِ اسْتَكْبَرَ عَنْهَا الْمُشْرِكُونَ يَوْمَ الْحُدَيْبِيَةِ يَوْمَ كَاتَبَهُمْ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي قَضِيَّةِ الْمُدَّةِ ۔
ترجمہ : ہمیں ابوعبداللہ الحافظ نے خبردی(کہا):ہمیں ابوالعباس محمدبن یعقوب نے حدیث بیان کی (کہا):ہمیں محمد بن اسحاق نے حدیث بیان کی (کہا):ہمیں یحیی بن صالح الوحاظی نے حدیث بیان کی (کہا):ہمیں اسحاق بن یحیی الکلبی نے حدیث بیان کی (کہا): ہمیں الزہری نے حدیث بیان کی (کہا): مجھے سعید بن المسیب نے حدیث بیان کی،بے شک انہیں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے حدیث بیان کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں نازل فرمایاتوتکبرکرنے والی ایک قوم کاذکرکیا: یقیناجب انہیں لاالہ الااللہ کہا جاتاہے توتکبرکرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا: جب کفرکرنے والوں نے اپنے دلوں میں جاہلیت والی ضد رکھی تواللہ نے اپنا سکون واطمینان اپنے رسول اورمومنوں پراتارااوران کے لئے کلمة التقوی کولازم قراردیا اوراس کے زیادہ مستحق اوراہل تھے اوروہ (کلمة التقوی) ’’لا إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللهِ‘‘ہے۔حدیبیہ والے دن جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدت (مقرر کر نے) و الے فیصلے میں مشرکین سے معاہدہ کیا تھا تو مشرکین نے اس کلمہ سے تکبر کیا تھا ۔ (کتاب الاسماء والصفات للبیہقی:ـ جلد نمبر 1صفحہ نمبر263حدیث نمبر195۔ ناشر:مکتبة السوادی، جدة ،الطبعة الأولی)

سندا یہ روایت حسن ہے کیونکہ اس میں محمد بن اسحاق بن یسار المطلبی ہے جو کہتا تھا کہ قرآن کی آیات بکری کھا گئی ۔ اس پر جرح بھی ہے اور ثقہ بھی کہا گیا ہے ۔
دوسرا کلمہ شہادت کہا جاتا ہے جو ایمان کا لفظی اقرار ہے

اَشْهَدُ اَنْ لاَّ اِلٰهَ اِلاَّ اﷲُ وَحْدَهُ لَا شَرِيْکَ لَهُ وَاَشْهَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُوْلُهُ
ترجمہ : میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ بیشک محمد ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) اللہ کے بندے اور رسول ہیں ۔ یہ احادیث سے ثابت ہے

تیسرا کلمہ الله کی تعریف ہے

سُبْحَانَ اﷲِ وَالْحَمْد ﷲِ وَلَآ اِلٰهَ اِلَّا اﷲُ وَاﷲُ اَکْبَرُ ط وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ اِلَّا بِاﷲِ الْعَلِيِ الْعَظِيْمِ
ترجمہ : اللہ پاک ہے اور سب تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں اور اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور اللہ سب سے بڑا ہے۔ گناہوں سے بچنے کی طاقت اور نیکی کی توفیق نہیں مگر اللہ کی طرف سے عطا ہوتی ہے جو بہت بلند عظمت والا ہے ۔

یہ الفاظ مختلف احادیث سے ثابت ہیں - پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ، یہ الفاظ الگ الگ دو مختلف احادیث میں آئے ہیں : مسند احمد کی حدیث ہے : حدثنا عبد الرحمن بن مهدي، حدثنا إسرائيل، عن أبي سِنَان، عن أبي صالح الحنفي، عن أبي سعيد الخدري، وأبي هريرة، أن رسول الله -صلي الله عليه وسلم – قال: “إن الله اصطفى من الكلام أربعاً: “سبحان الله” و “الحمد لله” و”لا إله إلا الله” و”الله أكبر”، فمن قال: “سبحان الله” كتب الله له عشرين حسنة أو حط عنه عشرين سيئة، ومن قال: “الله أكبر” فمثل ذلك، ومن قال: “لا إله إلا الله” فمثل ذلك، ومن قال: “الحمد لله رب العالمين” من قِبَل نفسه كُتبت له ثلاثون حسنة وحُط عنه ثلاثون سيئة”.

چوتھا کلمہ جس کو توحید کہا جاتا ہے وہ الله کا ذکر ہے

لَآ اِلٰهَ اِلاَّ اﷲُ وَحْدَهُ لَاشَرِيْکَ لَهُ لَهُ الْمُلْکُ وَلَهُ الْحَمْدُ يُحْی وَيُمِيْتُ وَهُوَ حَيٌّ لَّا يَمُوْتُ اَبَدًا اَبَدًا ط ذُوالْجَلَالِ وَالْاِکْرَامِ ط بِيَدِهِ الْخَيْرُ ط وَهُوَعَلٰی کُلِّ شَيْئٍ قَدِيْر.
ترجمہ : اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، اسی کے لیے بادشاہی ہے اور اسی کے لئے تعریف ہے، وہی زندہ کرتا اور مارتاہے اور وہ ہمیشہ زندہ ہے، اسے کبھی موت نہیں آئے گی، بڑے جلال اور بزرگی والا ہے۔ اس کے ہاتھ میں بھلائی ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے ۔
یہ قرآن کے الفاظ سے الله کے تعریفی کلمات ہیں پڑھنے میں اور یاد رکھنے کوئی حرج نہیں ۔

پانچواں کلمہ اِستغفار

اَسْتَغْفِرُ اﷲَ رَبِّيْ مِنْ کُلِّ ذَنْبٍ اَذْنَبْتُهُ عَمَدًا اَوْ خَطَاً سِرًّا اَوْ عَلَانِيَةً وَّاَتُوْبُ اِلَيْهِ مِنَ الذَّنْبِ الَّذِيْ اَعْلَمُ وَمِنَ الذَّنْبِ الَّذِيْ لَآ اَعْلَمُ ط اِنَّکَ اَنْتَ عَلَّامُ الْغُيُوْبِ وَسَتَّارُ الْعُيُوْبِ وَغَفَّارُ الذُّنُوْبِ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ اِلَّا بِاﷲِ الْعَلِيِّ الْعَظِيْمِ.
ترجمہ : میں اپنے پروردگار اللہ سے معافی مانگتا ہوں ہر اس گناہ کی جو میں نے جان بوجھ کر کیا یا بھول کر، چھپ کر کیا یا ظاہر ہوکر۔اور میں اس کی بارگاہ میں توبہ کرتا ہوں اس گناہ کی جسے میں جانتا ہوں اور اس گناہ کی بھی جسے میں نہیں جانتا۔(اے اللہ!) بیشک تو غیبوں کا جاننے والا، عیبوں کا چھپانے والا اور گناہوں کا بخشنے والا ہے۔ اور گناہ سے بچنے کی طاقت اور نیکی کرنے کی قوت نہیں مگرا للہ کی مدد سے جو بہت بلند عظمت والا ہے ۔

یہ توبہ کے الفاظ ہیں اس میں الله کی تعریف ہے ، البتہ الستار، الله کا نام قرآن و حدیث میں نہیں لہٰذا عبد الستار نام مناسب نہیں الستار یعنی چھپانے والا ۔

چھٹا کلمہ ردِّ کفر

اَللّٰهُمَّ اِنِّيْ اَعُوْذُ بِکَ مِنْ اَنْ اُشْرِکَ بِکَ شَيْئًا وَّاَنَا اَعْلَمُ بِهِ وَاَسْتَغْفِرُکَ لِمَا لَآ اَعْلَمُ بِهِ تُبْتُ عَنْهُ وَتَبَرَّاْتُ مِنَ الْکُفْرِ وَالشِّرْکِ وَالْکِذْبِ وَالْغِيْبَةِ وَالْبِدْعَةِ وَالنَّمِيْمَةِ وَالْفَوَاحِشِ وَالْبُهْتَانِ وَالْمَعَاصِيْ کُلِّهَا وَاَسْلَمْتُ وَاَقُوْلُ لَآ اِلٰهَ اِلَّا اﷲُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اﷲِ.
ترجمہ : اے اللہ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں اس بات سے کہ میں کسی شے کو جان بوجھ کر تیرا شریک بناؤں اور بخشش مانگتا ہوں تجھ سے اس (شرک) کی جسے میں نہیں جانتا اور میں نے اس سے (یعنی ہر طرح کے کفر و شرک سے) توبہ کی اور بیزار ہوا کفر، شرک، جھوٹ، غیبت، بدعت اور چغلی سے اور بے حیائی کے کاموں سے اور بہتان باندھنے سے اور تمام گناہوں سے۔ اور میں اسلام لایا۔ اور میں کہتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، محمد ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں ۔

یہ بھی تعریفی کلمات ہیں جن کا مصدر معلوم نہیں

یہ صرف عربی میں قرانی الفاظ پر مشتمل الله کی تعریف پر منبی کلمات ہیں ایسا عرب لوگ کرتے ہی رہتے ہیں کہ وہ اپنے الفاظ میں الله سے مغفرت طلب کرتے ہیں - چھ کلموں کو بر صغیر میں علماء نے مشھور کیا کیونکہ عوام عربی سے ناواقف تھے لہٰذا ان کو مختصر الفاظ میں دعائیں سکھا دیں ۔ ان کو جو یاد نہ کرے اس پر کوئی عیب نہیں اور جو حدیث میں دیکھ کر نبی صلی الله علیہ وسلم کی دعائیں یاد کرے تو وہ بھی بہتر ہے کلمات میں جو الفاظ و دعائیں ہیں وہ حدیث میں موجود ہیں جو نبی سے ثابت ہیں لہٰذا ان کویاد کرنا چاہیئے ۔ (طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

1 comment:

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...