Saturday, 17 February 2018

نمازِ جنازہ کا طریقہ و شرعی احکام (حصّہ دوم)

نمازِ جنازہ کا طریقہ و شرعی احکام (حصّہ دوم)

غائبانہ نَمازِ جنازہ نہیں ہو سکتی

میِّت کا سامنے ہونا ضَروری ہے ، غائبانہ نمازِ جنازہ نہیں ہو سکتی ۔ مُستَحَب یہ ہے  کہ امام میِّت کے سینے کے سامنے کھڑا ہو ۔ (دُرِّمُختار ج ۳ص۱۲۳،۱۳۴)

چند جنازوں کی اکٹّھی نَماز کا طریقہ

چند جنازے ایک ساتھ بھی پڑھے جاسکتے ہیں ، اس میں اِختیار ہے کہ سب کو آگے پیچھے رکھیں یعنی سب کا سینہ امام کے سامنے ہو یا قِطار بند ۔ یعنی ایک کے پاؤں کی سیدھ میں دوسرے کا سرہانا اور دوسرے کے پاؤں کی سیدھ میں تیسرے کا سرہانا وَعَلٰی ھٰذَا الْقِیَا س ( یعنی اسی پرقِیاس کیجئے) ۔ (بہارِشریعت ج۱ص۸۳۹،عالمگیری ج۱ص۱۶۵)

جنازے میں کتنی صَفیں ہوں ؟

بہتر یہ ہے کہ جنازے میں تین صَفیں ہوں کہ حدیثِ پاک میں ہے : جس کی نَماز ( جنازہ) تین صَفوں نے پڑھی اُس کی مغفِرت ہو جا ئے گی ۔ اگر کُل سات ہی آدَمی ہوں تو ایک امام بن جائے اب پہلی صَف میں تین کھڑے ہو جائیں دوسری میں دو اور تیسری میں ایک ۔ (غُنْیہ ص۵۸۸) جنازے میں پچھلی صَف تمام صَفوں سے اَفضل ہے ۔                                 (دُرِّمُختار ج۳ص۱۳۱)

جنازے کی پوری جَماعت نہ ملے تو ؟

مَسبوق ( یعنی جس کی بعض تکبیریں فوت ہو گئیں وہ ) اپنی باقی تکبیریں امام کے سلام پھیرنے کے بعد کہے اور اگر یہ اَندیشہ ہو کہ دُعاء وغیرہ پڑھے گا تو پوری کرنے سے قَبل لوگ جنازے کو کندھے تک اُٹھالیں گے توصِرف تکبیریں کہہ لے دُعاء وغیرہ چھوڑ دے ۔ چوتھی تکبیر کے بعد جو شخص آیا تو جب تک امام نے سلام نہیں پھیرا شامِل ہو جائے اور امام کے سلام کے بعد تین بار ’’ اللہُ اَکْبَرْ ‘‘  کہے ۔ پھر سلام پھیردے ۔ (دُرِّمُختار ج۳ص۱۳۶)

پاگل یا خود کُشی والے کا جنازہ

جو پیدائشی پاگل ہو یا بالِغ ہونے سے پہلے پاگل ہو گیا ہو اور اسی پاگل پن میں موت واقِع ہوئی تو اُس کی نَمازِ جنازہ میں نابالِغ کی دعا پڑھیں گے ۔ (جوہرہ ص۱۳۸،غُنیہ ص ۵۸۷) ۔ جس نے خودکُشی کی اُس کی نَمازِ جنازہ پڑھی جائے گی ۔ (دُرِّمُختار ج۳ص۱۲۷)

مُردہ بچّے کے احکام

مسلمان کا بچّہ زِندہ پیدا ہوا یعنی اکثر حصّہ باہَر ہونے کے وقت زندہ تھا پھر مر گیا تو اُس کوغُسل و کفن دیں گے اور اس کی نَماز پڑھیں گے ،ورنہ اُسے وَیسے ہی نہلا کر ایک کپڑے میں لپیٹ کر دفْن کر دیں گے ۔ اس کیلئے سنّت کے مطابِق غسل و کفن نہیں ہے اورنَماز بھی اس کی نہیں پڑھی جائے گی ۔ سَر کی طرف سے اکثر کی مقدار سر سے لے کرسینے تک ہے ۔ لہٰذا اگر اس کا سر باہَر ہوا تھا اور چیختا تھا مگر سینے تک نکلنے سے پہلے ہی فوت ہو گیا تو اس کی نَماز نہیں پڑھیں گے۔ پاؤں کی جانِب سے اکثر کی مقدار کمر تک ہے۔ بچہ زندہ پیدا ہوا یا مُردہ یا کچّا گر گیا اس کا نام رکھا جائے اور وہ قِیامت کے دن اُٹھایا جائے گا ۔ (دُرِّمُختار ورَدُّالْمُحتار ج۳ص۱۵۲۔۱۵۴، بہارِ شریعت ج۱ص۸۴۱)

جنازے کو کندھا دینے کا ثواب

حدیثِ پاک میں ہے : ’’جو جنازے کو چالیس قدم لے کر چلے اُ س کے چالیس کبیرہ گناہ مٹا دیئے جائیں گے۔‘‘ نیز حدیث شریف میں ہے :جو جنازے کے چاروں پایوں کو کندھا دے اللہ عَزَّ وَجَلَّ اُس کی حَتْمی (یعنی مُستَقِل )  مغفِرت فر ما دے گا ۔
(اَلْجَوْہَرَۃُ النَّیِّرَۃص۱۳۹،دُرِّمُختار ج۳ص۱۵۸۔۱۵۹، بہارِ شریعت ج۱ص۸۲۳)

جنازے کو کندھا دینے کا طریقہ

جنازے کو کندھا دینا عبادت ہے۔سنّت یہ ہے کہ یکے بعد دیگرے چاروں پایوں کو کندھا دے اور ہر بار دس دس قدم چلے ۔پوری سنّت یہ ہے کہ پہلے سیدھے سِرہانے کندھا دے پھر سیدھی پائنتی (یعنی سیدھے پاؤں کی طرف ) پھر اُلٹے سِرہا نے پھر اُلٹی پائِنتی اور دس دس قدم چلے تو کُل چالیس قدم ہوئے ۔ (عالمگیری ج۱ص۱۶۲،بہارِ شریعت ج ۱ ص۸۲۲) بعض لوگ جنازے کے جُلوس میں اِعلان کرتے رہتے ہیں ، دو دو قدم چلو! ان کو چاہئے کہ اس طرح اعلان کیا کریں : دس دس قدم چلو ۔

بچّے کا جنازہ اُٹھانے کا طریقہ

چھوٹے بچّے کے جَنازے کو اگر ایک شَخص ہاتھ پر اُٹھا کر لے چلے تو حَرَج نہیں اور یکے بعد دیگرے لوگ ہاتھوں ہاتھ لیتے رہیں ۔ (عالمگیری ج۱ص۱۶۲) عورَتوں کو ( بچّہ ہو یا بڑا کسی کے بھی) جنازے کے ساتھ جانا نا جائز و ممنوع ہے ۔ (بہارِ شریعت ج۱ص۸۲۳،دُرِّمُختار ج۳ص۱۶۲)

نمازِ جنازہ کے بعد واپَسی کے مسائل

جو شخص جَنازے کے ساتھ ہو اُسے بِغیر نَماز پڑھے واپَس نہ ہونا چاہئے اورنَماز کے بعد اولیائے میِّت( یعنی مرنے والے کے سرپرستوں ) سے اجازت لے کر واپَس ہو سکتا ہے اور دَفن کے بعد اجازت کی حاجت نہیں ۔ (عالمگیری ج۱ص۱۶۵)

کیا شوہر بیوی کے جنازے کو کندھا دے سکتا ہے ؟

شوہر اپنی بیوی کے جنازے کو کندھا بھی دے سکتا ہے، قَبْر میں بھی اُتار سکتا ہے اورمُنہ بھی دیکھ سکتا ہے ۔ صِرف غسل دینے اوربِلا حائل بدن کو چھُونے کی مُمانَعَت ہے ۔ عورَت اپنے شوہر کو غسل دے سکتی ہے ۔ (بہارِ شریعت ج۱ص۸۱۲،۸۱۳)

مُرتَد کی نَمازِ جنازہ کا حُکمِ شَرعی

مُرتد اور کافر کے جنازے کا ایک ہی حکم ہے۔مذہب تبدیل کرکے عیسائی (کرسچین) ہونے والے کا جنازہ پڑھنے والے کے بارے میں کئے گئے ایک سُوال کا جواب دیتے ہوئے امام احمد رضا خان محدث بریلوی رحمۃ اللہ علیہ فتاوٰی رضویہ جلد 9 صَفْحَہ  170 پرارشاد فرماتے ہیں : اگر بہ ثُبوتِ شَرعی ثابِت ہو کہ میِّت ’’عِیاذًا بِاللہ‘‘ (یعنی خدا کی پناہ) تبدیلِ مذہب کرکے عیسائی (کرسچین) ہوچکا تھا تو بیشک اُس کے جنازے کی نماز اور مسلمانوں کی طرح اِس کی تَجہیز وتکفین سب حرامِ قَطعی تھی۔قالَ اللہُ (اللہ تَعَالٰیفرماتا ہے) : (وَلَا تُصَلِّ عَلٰۤی اَحَدٍ مِّنْہُمۡ مَّاتَ اَبَدًا وَّلَاتَقُمْ عَلٰی قَبْرِہٖ  (پ۱۰،التوبہ:۸۴)
ترجَمہ : اور ان میں سے کسی کی میِّت پر کبھی نَماز نہ پڑھنا اور نہ اس کی قَبْر پر کھڑے ہونا ۔

مگر نماز پڑھنے والے اگر اس کی نصرانیت (یعنی کرسچین ہونے) پرمُطَّلَع نہ تھے اور بربِنائے علمِ سابِق (یعنی پچھلی معلومات کے سبب) اسے مسلمان سمجھتے تھے نہ اس کی تجہیز وتکفین و نَماز تک اُن کے نزدیک اس شخص کا نصرانی(یعنی کرسچین) ہوجانا ثابِت ہوا، توان اَفعال میں وہ اب بھی معذور وبے قُصُور ہیں کہ جب اُن کی دانِست(یعنی معلومات) میں وہ مسلمان تھا، اُن پر یہ اَفعال بجالانے بَزُعْمِ خود شَرعاً لازم تھے، ہاں اگر یہ بھی اس کی عیسائیت سے خبردار تھے پھرنَماز وتجہیز وتکفین کے مُرتکِب (مُر۔تَ ۔ کِب ) ہوئے قَطعاً سخت گنہگار اور وبالِ کبیرہ میں گرفتار ہوئے، جب تک توبہ نہ کریں نَماز ان کے پیچھے مکروہ ۔ مگرمُعامَلۂ مُرتَدین پھر بھی برتنا جائز نہیں کہ یہ لوگ بھی اس گناہ سے کافر نہ ہوں گے ۔ ہماری شَرعِ مُطَہَّرصِراطِ مُستقیم ہے ، اِفراط وتَفریط (یعنی حدِّ اعتِدال سے بڑھانا گھٹانا) کسی بات میں پسند نہیں فرماتی، البتّہ اگر ثابِت ہو جائے کہ اُنہوں نے اُسے نصرانی جان کر نہ صِرف بوجِہ حَماقت وجَہالت کسی غَرَضِ دُنیوی کی نیّت سے بلکہ خوداِسے بوجہِ نصرانیّت مستحقِ تعظیم وقابلِ تجہیز وتکفین ونَمازِ جنازہ تصوُّر کیا تو بیشک جس جس کا ایسا خیال ہوگا وہ سب بھی کافِر ومُرتَد ہیں اور ان سے وُہی مُعامَلہ برتناواجِب جو مُرتدین سےبرتا جائے۔(فتاوٰی رضویہ )

اللہ تَبارکَ وَتعالٰی پارہ 10 سُورَۃُ  التوبۃ کی آیت نمبر 84 میں ارشاد فرماتا ہے : وَلَا تُصَلِّ عَلٰۤی اَحَدٍ مِّنْہُمۡ مَّاتَ اَبَدًا وَّلَاتَقُمْ عَلٰی قَبْرِہٖ ؕ اِنَّہُمْ کَفَرُوۡا بِاللہِ وَرَسُوۡلِہٖ وَمَاتُوۡا وَہُمْ فٰسِقُوۡنَ ﴿۸۴﴾
ترجَمہ : اور ان میں سے کسی کی میِّت پر کبھی نَماز نہ پڑھنا اور نہ اس کی قَبر پر کھڑے ہونا بیشک وہ اللہ و رسول سے منکر ہوئے اور فسق (کفر) ہی میں مر گئے۔

عظیم مفسر قرآن علاّمہ سیّد محمد نعیم الدّین مُراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ اس آیت کے تَحت فرماتے ہیں :اس آیت سے ثابِت ہوا کہ کافِر کے جنازے کی نَماز کسی حال میں جائز نہیں اور کافِر کی قبر پر دفن وزیارت کے لیے کھڑے ہونا بھی ممنوع ہے ۔
(خَزا ئِنُ الْعِرفان ص۳۷۶ )

حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اِرشاد فرمایا : اگر وہ بیمار پڑیں تو پوچھنے نہ جاؤ ، مر جائیں تو جنازے میں حاضِر نہ ہو ۔ ( اِبنِ ماجہ ج۱ص۷۰حدیث۹۲)

میِّت نے وصیّت کی تھی کہ میری نَماز فُلاں پڑھائے یا مجھے فُلاں شخص غسل دے تو یہ وصیّت باطِل ہے یعنی اِس وصیّت سے (مرنے والے کے) ولی (یعنی سرپرست) کا حق جاتا نہ رہے گا، ہاں ولی کو اختیار ہے کہ خود نہ پڑھائے اُس سے پڑھوا دے ۔ (بہارِ شریعت ج۱ص۸۳۷،عالمگیری ج۱ص۱۶۳ وغیرہ) اگر کسی متّقی بُزُرگ یا عالِم کے بارے میں وصیّت کی ہو تو وُرَثاء کو چاہیے کہ اِس پر عمل کریں ۔

امام میِّت کے سینے کی سیدھ میں کھڑا ہو : مُستَحب یہ ہے کہ میِّت کے سینے کے سامنے امام کھڑا ہو اور میِّت سے دُور نہ ہو میِّت خواہ مرد ہو یا عورت بالِغ ہو یا نابالِغ، یہ اُس وَقت ہے کہ ایک ہی میِّت کی نَماز پڑھانی ہو اور اگر چند ہوں تو ایک کے سینے کے مقابِل (یعنی سامنے) اورقریب کھڑا ہو۔  (دُرِّمُختارو رَدُّالْمُحتارج۳ص۱۳۴)

نمازِ جنازہ پڑھے بِغیر دفنا دیا تو ؟ : میِّت کوبِغیرنَماز پڑھے دفن کر دیا اورمِٹّی بھی دے دی گئی تو اب اس کی قَبْر پر نَماز پڑھیں جب تک پھٹنے کا گمان نہ ہو، اور مِٹّی نہ دی گئی ہو تو نکالیں اور نَماز پڑھ کر دفن کریں ، اور قَبْر پرنَماز پڑھنے میں دنوں کی کوئی تعداد مقرَّر نہیں کہ کتنے دن تک پڑھی جائے کہ یہ موسِم اور زمین اور میِّت کے جسم و مَرَض کے اِختِلاف سے مختلف ہے، گرمی میں جلد پھٹے گا اور جاڑے(یعنی سردی) میں بدیر(یعنی دیر میں ) تر(یعنی گیلی) یا شور(یعنی کھاری) زمین میں جلد خشک اور غیرِ شَور میں بدیر، فَربہ(یعنی موٹا) جسم جلد لاغر (یعنی دُبلا پتلا)دیر میں ۔ ( دُرِّمُختارو رَدُّالْمُحتارج۳ص ۱۴۶)

مکان میں دبے ہوئے کی نمازِ جنازہ : کوئیں میں گِرکر مر گیا یا اس کے اوپر مکان گِر پڑا اورمُردہ نکالا نہ جا سکا تو اُسی جگہ اُس کی نَماز پڑھیں ،اور دریا میں ڈوب گیا اور نکالا نہ جاسکا تو اُس کی نَماز نہیں ہو سکتی کہ میِّت کا مُصَلّی(یعنی نَماز پڑھنے والے) کے آگے ہونا معلوم نہیں ۔ (رَدُّالْمُحتار ج۳ص۱۴۷)

نَمازِجنازہ میں تعداد بڑھانے کیلئے تاخیر : جُمُعہ کے دن کسی کا انتِقال ہوا تو اگر جُمُعہ سے پہلے تجہیز و تکفین ہو سکے تو پہلے ہی کر لیں ، اس خیال سے روک رکھنا کہ جُمُعہ کے بعد مجمع زیادہ ہوگا مکروہ ہے ۔ (بہارِ شریعت ج۱ص۸۴۰، رَدُّالْمُحتار ج۳ص ۱۷۳ وغیرہ )۔

بالِغ کی نَمازِ جنازہ سے قَبْل یہ اِعلان کیجئے

مرحوم کے عزیز و اَحباب توجُّہ فرمائیں : مرحوم نے اگر زندَگی میں کبھی آپ کی دل آزاری یا حق تَلَفی کی ہو یا آپ کے مقروض ہوں تو ان کو رِضائے الٰہی کیلئے معاف کردیجئے ، اِنْ شَآءَ اللہ مرحوم کا بھی بھلا ہوگا اور آپ کو بھی ثواب ملے گا ۔ نَمازِ جنازہ کی نیّت اور اس کا طریقہ بھی سن لیجئے : میں نیّت کرتا ہوں اِس جنازے کی نَماز کی ، واسِطےاللہ تعالیٰ کے ،دُعا اِس میِّت کیلئے پیچھے اِس امام کے ۔ اگر یہ اَلفاظ یاد نہ رہیں تو کوئی حَرَج نہیں ، آپ کے دل میں یہ نیّت ہونی ضروری ہے کہ : میں اِس میِّت کی نَمازِ جنازہ پڑھ رہا ہوں ‘‘جب امام صاحب’’اللہُ اَکْبَرْ ‘‘ کہیں تو کانوں تک ہاتھ اُٹھانے کے بعد ’’ اللہُ اَکْبَرْ ‘‘ کہتے ہوئے فوراً حسبِ معمول ناف کے نیچے باندھ لیجئے اور ثَناء پڑھئے ۔ دوسری  بار امام صاحب ’’ اللہُ اَکْبَرْ ‘‘ کہیں تو آپ بِغیرہاتھ اُٹھائے ’’ اللہُ اَکْبَرْ ‘‘ کہئے، پھر نمازوالا دُرُودِ ابراہیم پڑھئے ۔ تیسری بار امام صاحب ’’ اللہُ اَکْبَرْ  ‘‘ کہیں توآپ بِغیر ہاتھ اُٹھائے ’’ اللہُ اَکْبَرْ ‘‘کہئے اور بالِغ کے جنازے کی دعا پڑھئے (اگر نابالغ یا  نابالغہ کا جنازہ ہو تو اس کی دعا  پڑھنے کا اعلان کیجئے) جب چو تھی بار امام صاحب’’اللہُ اَکْبَرْ ‘‘ کہیں تو آپ’’اللہُ اَکْبَرْ ‘‘ کہہ کر دونوں ہاتھوں کو کھول کر لٹکا دیجئے اور امام صاحب کے ساتھ قاعِدے کے مطابق سلام پھیر دیجئے ۔ (طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...