نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے بول وبراز فضلات مبارکہ پاک ہیں
اُمِ ایمن رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک رات نبی اکرم صلّی اللہ علیہ و سلّم مٹی کے برتن کے پاس اُٹھ کر تشریف لائے اور اس میں پیشاب کیا۔ اسی رات میں اُٹھی اور مجھے پیاس لگی ہوئی تھی۔ میں نے جو اس میں تھا، پی لیا۔ جب صبح ہوئی تو میں نے رسول اللہ صلّی اللہ علیہ و سلّم کو اس واقعہ کی خبر دی تو آپ صلّی اللہ علیہ و سلّم نے فرمایا : اما اِ نّک لا یتجعن بطنک أبدا ۔
ترجمہ : خبردار! بے شک آپ آج کے بعد کبھی اپنے پیٹ میں بیماری نہ پاو گی۔’’
(المستدارک علی الصحیحین للحاکم : ۶۴،۶۳/۴، حلیۃ الاولیائ لا بی نعیم الاصبھانی: ۶۸/۲،الائل النبوۃ لا بی نعیم الاصبھانی ۳۸۱،۳۸۰/۲،المعجم الکبیر للطبرانی: ۹۰،۸۹/۲۵،التلخیص الحبیر لابن حجر: ۳۱/۱،البدایۃ والنھایۃ لابن کثیر : ۳۲۶/۵،الاصابۃ فی تمیز الصحابۃ لا بن حجر: ۴۳۳/۴ )
امیمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے : اِنّ النبیّ صلّی اللہ علیہ و سلّم کان لہ قدح من عید ان یبول فیہ، ثمّ یوضع تحت سریرہ ، فجا ئت امرأۃ یقال لھا برکۃ ۔ جائت مع أمّ حبیبۃ من الحبشۃ، فشربتہ برکۃ، فسألھا، فقالت : شربتہ ، فقال: لقد احتضرنی من النار بحضار، أو قال: جُنّۃ، أو ھذا معناہ ۔
ترجمہ : نبی اکرم صلّی اللہ علیہ و سلّم کے پاس لکڑی کا ایک پیالا تھا جس میں آپ پیشاب کرتے تھے، پھر اسے چارپائی کے نیچے رکھ د یا جاتا ۔ ایک برکتہ نامی عورت آئی ۔ وہ سیدنا امِ حبیبہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ حبشہ سے آئی تھی ۔ اس نے وہ پیالا نوش کر لیا ۔ سید نا زینب رضی اللہ عنہا نے اس سے پوچھا تو اس نے کہا: میں نے اسے پی لیا ہے۔ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ و سلّم نے فرمایا: تو نے آگ سے بچاو حاصل کر لیا ہے یا فرمایا ڈھال بنا لی ہے یا اس طرح کی کوئی بات کہی ۔
(الآحاد والمثانی لابن ابی عاصم: ۳۳۴۲،و سندہ حسن، الاستیعاب فی معرفۃ الصحابۃ لابن عبد البر: ۲۵۱/۴، و سندہ حسن، المعجم الکبیر للطبرانی: ۱۸۹/۲۴، السنن الکبری للبھیقی ۶۷/۷ و سندہ صحیح )۔(طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم رات کو اُٹھے ایک برتن میں پیشاب فرمایا حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کی ایک خادمہ جن کا نام اُم ایمن یا برکہ ہے وہ فرماتی ہیں کہ مجھے پیاس لگی تو میں نے پانی سمجھ کر حضور ﷺ کا پیشاب مبارک پی لیا، صبح کو حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے دریافت فرمایا تو میں نے عرض کیا کہ حضور وہ میں نے پی لیا، حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام نے فرمایا کہ تجھے کبھی پیٹ کی بیماری نہ ہوگی۔
(نسیم الریاض شرح شفاء قاضی عیاض، جلد۱، ص۴۴۸، ۴۴۹)
محدثین کرام ملا علی قاری، علامہ شہاب الدین خفاجی نے فرمایا کہ یہ حدیث بخاری ومسلم کی شرط پر صحیح ہے اور اسی لئے دارقطنی محدّث نے امام بخاری اور امام مسلم پر الزام عائد کیا کہ جب یہ حدیث بخاری ومسلم کی شرط کے موافق صحیح تھی تو انہوں نے اس کو اپنی صحیحین میں کیوں درج نہ کیا، اگرچہ یہ الزام صحیح نہیں اس لئے کہ شیخین نے کبھی اس بات کا التزام نہیں کیا کہ جو حدیث ہماری مقرر کی ہوئی شرط پر صحیح ہوگی ہم ضرور اس کو اپنی صحیحین میں لائیں گے، لیکن دارقطنی کے اس الزام سے یہ بات ضرور ثابت ہوگئی کہ یہ حدیث علی شرط الشیخین صحیح ہے۔
(دیکھئے نسیم الریاض، جلد۱، ص۴۴۸ اور شرح شفاء ملا علی قاری، جلد۱، صفحہ ۱۶۳)
اس حدیث سے اور اسی مضمون کی دیگر احادیثِ صحیحہ سے جلیل القدر ائمہ دین اور اعلام اُمت محدثین کرام اور فقہاء نے حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے بول مبارک بلکہ جمیع فضلات شریفہ کی طہارت کا قول کیا جیسا کہ بالتفصیل عبارات نقل کی جائیں گی بلکہ بعض روایات حضرات محدثین وشارحین کرام نے اس مضمون میں وارد فرمائی ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کا بول وبراز مبارک مشک وعنبرسے زیادہ خوشبودار تھا چنانچہ ملا علی قاری رحمۃ ﷲ تعالی علیہ شرح شفاء میں حسب ذیل روایت نقل فرماتے ہیں :
(1) وروی ان رجلًا قال رایت النبی صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم أبعد فی المذھب فلما خرج نظرت فلم أر شیئاً ورایت فی ذلک الموضع ثلاثۃ الاحجار اللا تی استنجی بھن فأخذ تھن فاذا بھن یفوح منھن روائح المسک فکنت اذا جئت یوم الجمعۃ المسجد اخذ تھن فی کمی فتغلب رائحتھن روائح من تطیب وتعطر۔
(صحابہ کرام میں سے) ایک مرد سے روایت ہے کہ میں نے دیکھا حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم ضرورت رفع فرمانے کے لئے بہت دُور تشریف لے گئے جب واپس تشریف لائے تو میں نے اس جگہ نظر کی کچھ نہ پایا البتہ تین ڈھیلے پڑے تھے جن سے حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے استنجا فرمایاتھا میں نے انہیں اُٹھالیا، ان ڈھیلوں سے مشک کی خوشبوئیں مہک رہی تھیں، جمعہ کے دن جب مسجد میں آتا تو وہ ڈھیلے آستین میں ڈال کر لاتا ان کی خوشبو ایسی مہکتی کہ وہ تمام عطر اور خوشبو لگانے والوں کی خوشبو پرغالب آجاتی۔
(2) علامہ ابن حجر عسقلانی شارح بخاری، فتح الباری شرح بخاری میں طہارت فضلات شریفہ کا مضمون یوں ارقام فرماتے ہیں:وقد تکاثرت الادلۃ علی طہارۃ فضلاۃ وعد الائمۃ ذلک فی خصائصہ فلا یلتفت الی ماوقع فی کتب کثیر من الشافعیۃ مما یخالف ذلک فقد استقر الامر بین أئمتھم علی القول بالطہارۃ۔(فتح الباری شرح صحیح بخاری، جلد۱، ص۲۱۸ باب الماء الذی یغسل بہ شعر الانسان۔)
بے شک بڑی کثرت سے دلیلیں قائم ہیں حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے فضلات شریفہ کے طاہر ہونے پر اور ائمہ نے اس کو حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے خصائص سے شمار کیا ہے لہٰذا اکثر شافعیہ کی کتابوں میں جو اس کے خلاف واقع ہوا ہے قطعاً قابل التفات نہیں اس لئے کہ ان کے ائمہ کے درمیان پختہ اور مضبو ط قول طہارت فضلات ہی کا ہے۔
(3) اسی طرح علامہ بدرالدین عینی حنفی شارح بخاری عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری میں حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے فضلات شریفہ کی طہارۃ کا قول کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں : وقد وردت احادیث کثیرۃ ان جماعۃ شربوا دم النبی صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم منھم ابو طیبۃ الحجام وغلام من قریش حجم النبی علیہ الصلوٰۃ والسلام وعبد ﷲ ابن الزبیر شرب دم النبی صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم رواہ البزار والطبرانی والحاکم والبیہقی وابونعیم فی الحلیۃ ویروی عن علی رضی ﷲ تعالیٰ عنہ انہ شرب دم النبی علیہ الصلوٰۃ والسلام وروی ایضًا ان اُم ایمن شربت بول النبی صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم رواہ الحاکم والدارقطنی وابو نعیم واخرج الطبرانی فی الاوسط فی روایۃ سلمی امرأۃ ابی رافع انہا شربت بعض ماء غسل بہ رسول ﷲ علیہ الصلوٰۃ والسلام فقال لہا حرم ﷲ بدنک علی النار وقال بعضہم الحق ان حکم النبی علیہ الصلوٰۃ والسلام کحکم جمیع المکلفین فی الاحکام التکلیفیۃ الافیما یخص بدلیل قلت یلزم من ھذا ان یکون الناس مساویًا للنبی علیہ الصلوۃ والسلام ولا یقول ذلک الاجاھل غبییٌ واین مرتبتہٗ من مراتب الناس والایلزم ان یکون دلیل الخصوص بالنقل دائمًا والعقل لہٗ مدخل فی تمیز النبی علیہ الصلوٰۃ والسلام من غیرہ فی مثل ھذا الاشیاء وانا اعتقد انہ لا یقاس علیہ غیرہ وان قالوا غیر ذلک فاذنی عنہ صما۔ انتہیٰ ۔
ترجمہ : بے شک بہت سی حدیثیں اس بارہ میں وارد ہوئیں کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت نے حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کا خون مبارک پیا ان میں حضرت ابو طیبہ حجام ہیں اور ایک قریشی لڑکا ہے جس نے حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے پچھنے لگائے تھے اور حضرت عبداﷲ بن زبیر نے بھی حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کا خون اقدس پیا، روایت کیا ہے اسے بزار نے اور طبرانی نے اور حاکم نے اور بیہقی نے اور ابو نعیم نے حلیہ میں اور حضرت علی مرتضیٰ سے بھی مروی ہے انہوں نے بھی حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کا خون اقدس پیا،نیز مروی ہے کہ حضرت اُم ایمن نے حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کا پیشاب مبارک پیا اس حدیث کو حاکم نے دارقطنی نے اور ابو نعیم نے روایت کیا اور طبرانی نے اوسط میں ابو رافع کی عورت سلمیٰ کی روایت میں اخراج کیا کہ سلمیٰ نے حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کا غسل میں استعمال کیا ہوا پانی پیا تو حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے ارشاد فرمایا ﷲ تعالی نے اس پانی کی وجہ سے تجھ کو دوزخ پر حرام فرمادیا بعض کا قول ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم احکام تکلیفیہ میں دیگر مکلفین کی طرح ہیں سوائے اس چیز کے جو دلیل سے خاص ہو، میں کہتا ہوں کہ اس قول سے تو لازم آتا ہے کہ (معاذ اﷲ) عام لوگ رسول ﷲ ﷺ کے مساوی ہوجائیں اور ایسی بات سوائے جاہل غبی کے اور کوئی نہیں کہہ سکتا، بھلا حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے مرتبہ کو لوگوں کے مرتبہ سے کیا نسبت اور یہ کوئی ضروری نہیں کہ دلیل خصوص ہمیشہ نقل ہی سے ہو حقیقت یہ ہے کہ ان چیزوں میں حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کا اپنے غیروں سے ممتاز ہونا ایسی بات ہے جس میں عقل کو بھی دخل ہے اور میرا اعتقاد تو یہی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم پر غیر کا قیاس نہیں کیا جاسکتا، اور اگر کوئی شخص اس کے خلاف کچھ کہتا ہے تو میرے کان اس کے سننے سے بہرے ہیں۔(عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری، جلد۱، ص۷۷۸)
(4) اسی طرح امام قسطلانی شارح صحیح بخاری مواہب اللدنیہ شریف میں حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے تمام فضلات شریفہ کی پاکی اور طہارت کا حسب ذیل عبارت میں نورانی بیان فرماتے ہیں: وروی انہ کان یتبرک ببولہ ودمہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم ۔ مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے پیشاب اور خون مبارک سے برکت حاصل کی جاتی تھی۔ (مواہب اللدنیہ، جلد۱، ص۲۸۴)
آگے چل کرفرماتے ہیں :وفی کتاب الجوھر المکنون فی ذکر القبائل والبطون: أنہ لما شرب، ای عبد ﷲ ابن الزبیر، دمہ تضوع فمہ مسکًا، وبقیت رائحتہ موجودۃ فی فمہ الی أن صلب رضی ﷲ عنہ۔ (مواہب اللدنیہ، جلد۱، ص۲۸۴) ۔ کتاب جوہر مکنون فی ذکر القبائل والبطون میں ہے کہ عبداﷲ بن زبیر رضی ﷲ تعالی عنہما نے جب حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کا خون مبارک پیا تو ان کے منہ سے مشک کی خوشبو مہکی اور وہ خوشبو ان کے منہ میں انہیں سولی دئیے جانے تک باقی رہی(رضی اﷲ عنہ)۔
آگے چل کر اسی حدیث کے تحت فرماتے ہیں : قال النووی فی شرح المہذب واستدلال من قال بطہارتہما بالحدیثین المعروفین ان ابا طیبۃ الحجام حجمہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم وشرب دمہ ولم ینکر علیہ، وان امرأۃ شربت بولہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم فلم ینکر علیھا، وحدیث ابی طیبۃ ضعیف، وحدیث شرب البول صحیح رواہ الدارقطنی وقال ھو حدیث حسن صحیح وذلک کاف فی الاحتجاج لکل الفضلات قیاساً، ثم ان القاضی حسیناً قال الاصح القطع بطہارۃ الجمیع انتہٰی۔(مواہب اللدنیہ، جلد۱، ص۲۸۵)
علامہ نووی نے شرح مہذب میں فرمایا اور استدلال کیا ان لوگوں نے جو حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّمکے حدیثین معروفین یعنی بول وبراز(پیشاب پاخانہ) کی پاکی اور طہارت کے قائل ہیں اس حدیث سے کہ حضرت ابو طیبہ حجام نے حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے پچھنے لگائے اور حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام کا(پچھنوں سے نکلا ہوا) خون پی گئے، اور حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام نے ان پر انکار نہ فرمایا، نیز ایک عورت نے حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کا پیشاب مبارک پی لیا اور اس پر بھی حضور نے انکار نہ فرمایا، ابو طیبہ والی حدیث ضعیف ہے اور بول مبارک پینے کی حدیث صحیح ہے، اسے دارقطنی نے روایت کیا اور کہا یہ حدیث حسن صحیح ہے، اور یہ حدیثیں ایک کا دوسرے پر قیاس کرکے تمام فضلات شریفہ کی طہارۃ ثابت کرنے کے لئے کافی ہیں، اس کے بعد علامہ نووی نے فرمایا کہ قاضی حسین کا قول اس مسئلہ میں یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے تمام فضلات شریفہ کو قطعاً طاہر مانا جائے۔
اسی طرح نسیم الریاض، جلد ۱، صفحہ ۴۴۸، زرقانی شرح مواہب، جلد۴، ص۲۳۱، مدارج النبوۃ،ص وغیرہ معتبر کتابوں میں حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے فضلات شریفہ کی طہارۃ منصوص ومرقوم ہے، علامہ شامی رحمۃ اﷲ علیہ نے بھی اس مسئلہ کو شامی میں ارقام فرمایا : وصحح بعض ائمۃ الشافعیۃ طہارۃ بولہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم وسائر فضلاتہ وبہ قال ابوحنیفۃ کما نقلہ فی المواہب اللدنیۃ عن شرح البخاری للعینی وصرح بہ الببری فی شرح الاشباہ وقال الحافظ ابن الحجر تظافرت الادلۃ علی ذلک وعد الائمۃ ذلک من خصائصہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم ونقل بعضہم عن شرح مشکوٰۃ لملاعلی القاری انہ قال اختار کثیر من اصحابنا واطال فی تحقیقہ فی شرحہ علی الشمائل فی باب ماجاء فی تعطرہ علیہ الصلوٰۃ والسلام۔ انتہی ۔ اور صحیح قرار دیا بعض ائمہ شافعیہ نے حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے پیشاب مبارک اور باقی تمام فضلات شریفہ کی طہارت اور پاکیزگی کو اور یہی قول ہے امام ابوحنیفہ رضی ﷲ تعالی عنہ کا جیسا کہ مواہب میں عینی شرح بخاری سے نقل کیا ہے اور اس کی تصریح علامہ ببری نے شرح اشباہ میں فرمائی اور حافظ ابن حجر عسقلانی شارح بخاری نے کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے بول مبارک اور تمام فضلات شریفہ کی پاکی اور طہارۃ پر قوی دلیلیں قائم ہیں اور ائمہ نے اسے حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے خصائص کریمہ میں شمار کیا ہے اور بعض علماء نے ملا علی قاری کی شرح مشکوٰۃ سے نقل کیا، انہوں نے فرمایا کہ ہمارے اکثر اصحاب حنفیہ کا اس مسئلہ میں پسندیدہ قول یہی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے جمیع فضلات شریفہ طیب وطاہر اور پاک ہیں اور ملا علی قاری نے اپنی شرح علی الشمائل باب ما جاء فی تعطرہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم میں طہارت فضلات شریفہ کو ثابت کرنے کے لئے پوری تحقیق کے ساتھ طویل کلام فرمایا ہے۔ انتہی ۔
طہارتِ فضلات شریفہ کے ثبوت میں جلیل القدر علماء محدثین کی اتنی بے شمار عبارتیں ہیں کہ اگر ان تمام کو جمع کیا جائے تو ایک ضخیم جلد تیار ہوجائے، بخوف طوالت ہم قدرِ ضرورت پر اکتفا کرتے ہیں اور ان تمام دلائل کے بعد اتمام حجت کے لئے مکتبہ فکر دیوبند کے صرف دو مقتدائوں کی دو مختصر عبارتیں نقل کرکے اس بحث کو آخری نتیجہ پر ختم کرتے ہیں۔
ملاحظہ کیجئے! علامہ محمد انور شاہ صاحب کشمیری دیوبندی نے فیض الباری میں ارقام فرمایا جس کا خلاصہ اُردو زبان میں حسب ذیل ہے : امام بخاری نے باب استعمال فضل وضوء الناس، منعقد کرکے ماء مستعمل کی طہارت کا قول فرمایا، اس قول کے ثبوت میں حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے ماء مستعمل کی طہارۃ سے استدلال کیا مگر یہ استدلال میرے نزدیک محلِ نظر ہے، اگرچہ فی نفسہٖ مسئلہ درست ہے، استدلال کے صحیح نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ علماء اُمت حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے فضلات شریفہ کی طہارت کی طرف گئے ہیں، جب حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے فضلات پاک ہیں تو وضو سے بچا ہوا پانی کیوں پاک نہ ہوگا؟ لہٰذا حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام کے ماء مستعمل کے پا ک ہونے سے مطلقاً ہر ایک کے مستعمل پر حجت قائم نہیں ہوسکتی۔ الخ ۔ (فیض الباری، جلد اوّل، صفحہ ۲۸۹)۔(انوار الباری جلد 7 صفحہ 511 طبع جدید)
دیکھئے! علامہ انور شاہ صاحب کشمیری دیوبندی نے طہارت فضلات نبی اکرم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کو علماء اُمت کا مذہب بتایا۔
اس کے بعد نشرالطیب اُٹھا کر دیکھئے علامہ اشرف علی صاحب تھانوی دیوبندی لکھتے ہیں : اور مروی ہے کہ آپ جب بیت الخلاء میں جاتے تھے تو زمین پھٹ جاتی اور آپ کے بول وبراز کو نگل جاتی اور اس جگہ نہایت پاکیزہ خوشبو آتی، حضرت عائشہ نے اسی طرح روایت کیا ہے اور اسی لئے علماء آپ کے بول و براز کے طاہر ہونے کے قائل ہوئے ہیں، ابوبکر بن سابق مالکی اور ابو نصر نے ان کو نقل کیا ہے اور مالک بن سنان یوم اُحد میں آپ کا خون (زخم کا) چوس کر پی گئے، آپ نے فرمایا اس کو کبھی دوزخ کی آگ نہ لگے گی اور عبداﷲ بن زبیر نے آپ کا خون جو پچھنے لگانے سے نکلا تھا پی لیا تھا، اور آپ کی خادمہ برکہ اُم ایمن نے آپ کا بول پی لیا تھا سو ان کو ایسا معلوم ہوا جیسا شیریں نفیس پانی ہوتا ہے۔ (نشرالطیب، صفحہ 162 مطبوعہ تاج کمپنی)
علامہ اشرف علی تھانوی دیوبندی نے حدیثوں سے ثابت کیا ہے کہ جس جگہ حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے بول وبراز فرمادیا وہاں نہایت پاکیزہ خوشبو آتی تھی اور آپ کے تھانوی صاحب ہی فرمارہے ہیں کہ اُم ایمن نے جب حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کا بول مبارک پیا تو انہیں ایسا محسوس ہوا کہ جیسے شیریں نفیس پانی ہوتا ہے۔
غیر مقلد اہلحدیث حضرات کے علامہ وحید الزمان لکھتے ہیں : حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے فضلات مبارکہ طیب و طاہر ۔ (صحیح بخاری کتاب الوضو پہلا پارہ صفحہ 124 )
خدا لگتی کہئے : حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے فضلات شریفہ کے یہ پاکیزہ اوصاف مادی کثافتیں ہیں یا نورانی لطافتیں؟(طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک دن میں نے رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں عرض کیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ بیت الخلاء تشریف لے جاتے ہیں آپ کے واپس آنے پر جب کبھی میں اندر جاتی ہوں
فلا اری شیئا الا انی کنت اشم رائحۃ الطیب
تو وہاں کچھ بھی نظر نہیں آتا مگر کستوری سے بڑھ کر خوشبو پاتی ہوں
اس پر آقا صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا
انا معاشر الانبیاء نبتت اجادنا علی ارواح اھل الجنۃ فما خرج منھا ابتلعہ الارض
ہم انبیاء ہیں ہمارے اجسام اہل جنت کی ارواح کی مانند بنائے گئے ہیں ان سے جو کچھ بھی خارج ہوتا ہے زمین اسے نگل لیتی ہے بحوالہ زرقانی علی المواہب جلد ۴ ص ۲۲۹)
بعض علماء نے مذکورہ روایت کو موضوع قرار دیا ہے کیونکہ اس کے رواۃ میں حسن بن علوان ہے جس کا کذب مسلم ہے۔ امام قسطلانی اور امام زرقانی اس رائے کا رد کرتے ہوئے فرماتے ہیں
لکن للحدیث طرق غیر طریق ابن علوان فلا ینبغی دعوی وضعہ مع وجودھا
جب یہ روایت ابن علوان کے علاوہ دیگر طرق سے مروی ہے تو اس پر موضوع کا حکم لگانا کسی طرح درست نہیں ۔( زرقانی علی المواہب جلد ۴ ص ۲۲۹)
حضرت ملا علی قاری نے یہی تصریح فرمائی ہے ان الحکم علیہ بالوضع خاص بتلک الطریق دون بقیۃ الطرق
ابن علوان کے لحاظ سے اسے موضوع قرار دیا گیا ہے دوسرے طرق کے لحاظ سے یہ موضوع نہیں ہے ۔( جمع الوسائل جلد ۲ ص ۲)
امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے الخصائص الکبری میں اس کے دیگر سات طرق کا بھی بیان کیا ہے ۔
امام دارقطنی رحمۃ اللہ علیہ نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے انہی الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے۔
قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں اذا اراد یتغوط انشقت الارض فابتلعت غائطہ و بولہ و فاحت لذلک رائحۃ طیبۃ
جب آپ رفع حاجت کا ارادہ فرماتے تو زمین پھٹ جاتی اور آپ کے بول و براز کو نگل جاتی وہاں سے خوشبوؤں کے حلے آتے۔ ( الشفاء جلد ۱ ص ۸۸)
شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ اس خصوصیت کا ذکر ان الفاظ میں کرتے ہیں : چوں آنحضرت می خواست تغوط کند یعنی قضائے حاجت نماید شگافیہ تیشد زمین و فرومی برد بول او را و فائح میشد ازاں بوئے خوش مطلع نمیشد برانچہ بیروں می آمد از وے ہیچ بشرے ۔
جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بول و براز کا ارادہ فرماتے تو زمین میں شگاف واقع ہو جاتا اور بول و براز کو نگل جاتی وہاں سے خوشبو کے حلے آتے اور کوئی بھی انسان آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جسم اطہر سے خارج ہونے والی شے کو نہ دیکھ پاتا تھا۔ ( مدارج النبوۃ جلد ۱ ص ۲۵)
حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : و ہیچ کس اثر فضلہ ایشان را بروئے زمین ندیدہ زمین می شگافت و فرو میرود دازاں مکان بوئے مشک می شمیدند ۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک فضلہ کا اثر کسی نے زمین پر نہیں دیکھا ۔ زمین پھٹ جاتی تھی اور اسے نگل جاتی اور اس مقام سے ہر کوئی خوشبو کی مہک پاتا۔
احادیث میں متعدد ایسے واقعات بھی ہیں کہ بعض صحابہ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فضلات مبارکہ کو استعمال کیا جس کی وجہ سے ان کے اجسام کو مختلف برکات کا حصول ہوا۔
مشہور صحابیہ حضرت ام ایمن رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ ایک رات حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک برتن میں پیشاب فرمایا ۔ مجھے پیاس محسوس ہوئی ، میں اٹھی : فشربت ما فیھا وانا لا اشعر انہ بول لطیب رائحۃ ۔
میں نے اس پیشاب کو پانی سمجھ کر پی لیا وہ اپنی پیاری پیاری مہک کی وجہ سے مجھے پیشاب محسوس تک نہ ہوا۔ (المواہب مع الزرقانی جلد ۱ ص ۲۳۱) صبح حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے مجھے بلا کر حکم دیا کہ فلاں برتن میں پیشاب ہے اسے باہر پھینک دو ۔ میں نے عرض کیا یار سول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسے میں نے پانی سمجھ کر پی لیا ہے۔
فضحک رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم حتی بدت نواجذہ ثم قال واللہ لا یبجعن بطنک ابدا ۔
یہ سن کر رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اتنے مسکرائے کہ آپ کی مبارک داڑھیں نظر آنے لگیں اور پھر فرمایا اے ام ایمن آج کے بعد تیرے پیٹ کو بیماری لاحق نہ ہو گی۔ بحوالہ اشرف الوسائل الی فہم الشمائل ص ۷۷)
ام المومنین حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کی خادمہ ام یوسف برکت نامی خاتون نے بھی اسی طرح آپ کا مبارک پیشاب پی لیا ۔ جس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : یا ام یوسف فما مرضت قط حتی کان مرضھا الذی ماتت فیہ ۔
اے ام یوسف تجھے کوئی مرض لاحق نہ ہو گی سوائے اس مرض کے کہ جس سے تیری موت واقع ہو جائے ۔( الخصائص الکبری)
قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ مذکورہ روایت کے بارے میں فرماتے ہیں۔
و حدیث ھذہ المراۃ التی شربت بولہ صحیح
یہ حدیث جس میں اس خاتون کے پیشاب مبارک پینے کا ذکر ہے صحیح ہے ۔( الشفا ء جلد ۱ ص ۹۰)
اما م قسطلانی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : حدیث شرب البول صحیح رواہ الدارقطنی و قال ھو حدیث حسن صحیح ۔
یہ حدیث صحیح ہے امام دارقطنی نے روایت کر کے اسے صحیح قرار دیا ہے بحوالہ المواہب اللدنیہ جلد ۱ ص ۲۸۵)
امام دارقطنی نے امام مسلم اور امام بخاری پر اعتراض کیا ہے کہ انھوں نے اس حدیث کو اپنی صحیح میں درج کیوں نہیں کیا جب کہ یہ حدیث ان کی شرط کے مطابق ہے ۔ ( شرح صحیح مسلم جلد ۴ ص ۷۸۲)
البرہان فی خصائص حبیب الرحمان ص ۳۹۸ میں طبرانی اور بیہقی کے حوالے سے بیان کیا گیا ہے کہ برہ نامی خاتون نے بھی آپ کا بول مبارک پیا تھا جس پر رحمت دوجہان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ یہ خاتون آتش جہنم سے چاروں طرف سے محفوظ ہو گی ۔
امام قسطلانی مذکورہ روایات ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بول مبارک بطور تبرک بھی صحابہ نے استعمال کیا ۔
و روی انہ کان یتبرک ببولہ و دمہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم
مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بول اور خون مبارک کو بطور تبرک استعمال کیا جاتا تھا۔ بحوالہ المواہب اللدنیہ جلد ۱ ص ۲۸۴)
عظیم محدث شارح مسلم امام نووی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خصائص مبارکہ کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں
و کان بولہ و دمہ یتبرک بھما
آپ کے مبارک بول اور خون کو متبرک سمجھا جاتا تھا۔ بحوالہ تہذیب الاسماء واللغات جلد ۱ ص ۴۲)
شیخ الاسلام والمسلمین امام ابو یحیی زکریا الانصاری الشافعی روض الطالب میں رقمطراز ہیں :
و کان یتبرک و لیستشفی ببولہ و دمہ
آپ کے مبارک خون اور بول کو بطور تبرک استعمال کیا جاتا اور اس کی برکت سے بیماروں کو شفاء نصیب ہو ئی۔ بحوالہ شرح روض الطالب من السنی المطالب جلد ۳ ص ۱۰۶)
حافظ ابن حجر عسقلانی بول شریف کی طہارت کو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خصوصیت قرار دیتے ہوئے بیان کرتے ہیں : و قد تکاثرت الادلۃ علی طہارۃ فضلاتہ وعدہ الائمۃ ذلک فی خصائصہ ۔
آپ کے فضلات مبارکہ کے پاک ہونے پر کثیر دلائل ہیں ۔ ائمہ نے اسے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خصوصیت قرار دیا ہے۔ ( فتح الباری شرح صحیح البخاری جلد ۱ ص ۲۱۸)
شرح شمائل میں روایات شرب بول ذکر کرنے کے بعد رقم طراز ہیں
و بھذا استدل جمع من ائمتنا المتقدمین وغیرھم علی طھارۃ فضلاتہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم و ھو المختار و فاقا بجمع من المتاخرین فقد تکاثرت الادلۃ علیہ وعدہ الائمۃ من خصائصہ ۔
انہی روایات کو مد نظر رکھتے ہوئے ہمارے ائمہ متقدمین کی ایک جماعت نے یہ قول کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بول و براز پاک ہے اور یہی قول مختار ہے اور تمام متاخرین کا اسی قول پر اتفاق ہے اس پر کثیر دلائل شاہد ہیں اور ائمہ نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خصوصی شمائل میں شمار کیا ہے۔ بحوالہ اشرف الوسائل الی فہم الشمائل ص ۷۷)
امام شامی فتاوی شامی میں تحریر کرتے ہیں : صح بعض ائمۃ الشافعیۃ طھارۃ بولہ علیہ السلام و سائر فضلاتہ و بہ قال ابوحنیفہ
بعض شوافع اس بات کے قائل ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مبارک بول بلکہ تمام فضلات پاک ہیں اور امام ابوحنیفہ کی رائے بھی یہی ہے۔ بحوالہ فتاوی شامی جلد ۱ ص ۲۱۲)
قاضی عیاض بول و براز کی طہارت پر دلیل قائم کرتے ہوئے لکھتے ہیں
ولم یامر واحدا منھم غسل فم و لا نھاہ من عودہ
آپ نے نہ تو ان کو یعنی بول استعمال کرنے والے صحابہ کو منہ دھونے کا حکم دیا اور نہ ہی ایسا عمل دوبارہ کرنے سے منع فرمایا۔ بحوالہ الشفاء شریف جلد ۱)
اشرف علی تھانوی دیوبندی لکھتا ہے : علماء آپ کے بول و براز کے پاک ہونے کے قائل ہیں ۔ ابو بکر بن سابق مالکی اور ابو نصر نے اس کو نقل کیا ہے ۔( نشر الطیب ص ۱۹۳)
انور شاہ کشمیری دیوبندی لکھتا ہے : ان العلماء ذھبوا الی طھارۃ فضلاتہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم : علماء اسلام کا مذہب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تمام فضلات پاک ہیں ۔( فیض الباری شرح البخاری جلد ۱ ص ۲۸۹)
امت کے عظیم محدث حافظ ابن حجر کے استاد شیخ الاسلام سراج البلقینی کے بارے میں امام عبدالوہاب شعرانی بیان کرتے ہیں کہ وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت و عقیدت کا اظہار ان کلمات سے کرتے
واللہ لو وجدت شیئا من بول النبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم و غائطہ لا کلمتہ و شربتہ
اللہ کی قسم کاش مجھے آپ کا بول و براز نصیب ہو جائے تو میں اسے محبت سے کھاؤں اور پیوں ۔( الیواقیت والجواھر فی بیان عقائد الاکابر جلد ۲ ص ۶۱)
اب آخر میں امام عشق و محبت اما م اہل سنت عاشقانہ انداز میں امام عینی رحمۃ اللہ علیہ کا قول نقل فرماتے ہیں کہ یہ سب کچھ ابحاث ہیں جو شخص طہارت کا قائل ہو اس کو میں مانتا ہوں اور جو اس کے خلاف کہے اس کے لئے میرے کان بہرے ہیں میں سنتا ہی نہیں ۔ ( سیرت مصطفی جان رحمت جلد ۲ ص ۵۴۶)اعلیٰ حضرت فرماتے ہیں کہ ان کی یہ بات ان کے کمال عشق کی دلیل ہے اور میرے دل میں ان کا یہ قول ایسا اثر کر گیا کہ ان کی وقعت بہت زیادہ دل میں پیدا ہو گئی۔(طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment