ہر بدعت گمراہی کہنے والوں کو جواب حصّہ دوم
قرآن و سنت کے اصولوں کے مطابق جو قول و فعل ہے جائز اور جو اس کے خلاف ہے بدعت سیئہ ہے یعنی بری بدعت۔ جس کی مذمت حدیث پاک میں یوں فرمائی گئی ہے:من ابتدع بدعه ضلاله لا يرضاها الله و رسوله کان عليه من الاذم مثل اثام من عمل بها لا ينقص ذلک من اوزارهم شياء.
ترجمہ : جس نے گمراہ کن بدعت نکالی جسے اللہ اور اس کے رسول پسند نہیں کرتے اس پر ان لوگوں کے گناہوں جتنا (مجموعی) گناہ ہوگا اور اس کا گناہ ان کے گناہوں میں کچھ بھی کمی نہ کریں گے۔(مشکوة، 30 بحواله ترمذی، ابن ماجه)
قال رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم ما احدث قوم بدعه الارفع مثلها من السنه فتمسک بسنه خير من احدث بدعه.
ترجمہ : جب بھی کسی قوم نے کوئی بدعت نکالی اس کے برابر سنت ختم ہوئی سو سنت پر عمل پیرا ہونا بدعت پیدا کرنے سے بہتر ہے۔(مشکوة 31، بحواله مسند احمد)
بری بدعت کی علامت : حضرت حسان سے روایت ہے فرمایا : ما ابتدع قوم بدعه فی دينهم الا نزع الله من سنتهم مثلها ثم لا بعيدها اليهم الی يوم القيامه.
ترجمہ : جب بھی کسی قوم نے اپنے دین میں بدعت نکالی اللہ ان کی سنت میں سے اتنی سنت ختم کر دیتا ہے۔ پھر قیامت تک اللہ اس سنت کو نہیں لوٹائے گا۔(مشکوة، 31 بحواله دارمی)
یہ اور ان جیسے متعدد دوسرے ارشادات نبوی اس حقیقت کی نقاب کشائی کرتے ہیں کہ مذموم بدعت وہ ہے جو سنت یعنی اسلامی ہدایت کے خلاف ہو۔ جو اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ناپسندیدہ ہو۔ ہر بدعت یعنی نئی چیز شرعاً ممنوع نہیں ہوتی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں۔
من سن فی الاسلام سنة حسنة فله اجرها و اجر من عمل بها من بعده من غير ان ينقص من اجورهم شيئی و من سن فی الاسلام سنه شيئه کان عليه وزرها و وزر من عمل بها من بعده من غير ان ينقص من اوزارهم شئی.(مسلم بحواله، مشکوة، 33)
ترجمہ : اسلام میں جس نے کوئی اچھا طریقہ نکالا اور اس کے لیے اس کا اجر بھی ہے اور اس کے بعد جو کوئی اس پر عمل کرے اس کا بھی، عمل کرنے والوں کے اجر میں کوئی کمی کئے بغیر اور جس نے اسلام میں کوئی بری رسم ایجاد کی اس پر اس کا گناہ بھی ہوگا اور ان لوگوں کا بھی جو اس کے بعد اس پر عمل پیرا کریں گے ان کے گناہ میں کمی کئے بغیر۔
ہر وہ نیا کام جس کی کوئی شرعی دلیل، شرعی اصل مثال یا نظیر پہلے سے کتاب و سنت اور آثارِ صحابہ میں موجود نہ ہو وہ ’’بدعت‘‘ ہے لیکن ہر بدعت غیر پسندیدہ یا ناجائز و حرام نہیں ہوتی بلکہ صرف وہی بدعت ناجائز ہوگی جو کتاب و سنت کے واضح احکامات سے متعارض و متناقص (contradictory) ہو۔دوسرے لفظوں میں بدعتِ سیئہ یا بدعتِ ضلالہ صرف اُس عمل کو کہیں گے جو واضح طور پر کسی متعین سنت کے ترک کا باعث بنے اور جس عمل سے کوئی سنت متروک نہ ہو وہ نا جائز نہیں بلکہ مباح ہے۔ اِسی مؤقف کی تائید کرتے ہوئے معروف غیر مقلد عالم نواب صدیق حسن خان بھوپالی (1307ھ) لکھتے ہیں کہ ہر نئے کام کو بدعت کہہ کرمطعون نہیں کیا جائے گا بلکہ بدعت صرف اس کام کو کہا جائے گا جس سے کوئی سنت متروک ہو۔ جو نیا کام کسی امرِ شریعت سے متناقص نہ ہو وہ بدعت نہیں بلکہ مباح اور جائز ہے۔ شیخ وحید الزماں اپنی کتاب ’’ہدیۃ المہدی‘‘ کے صفحہ نمبر 117 پر بدعت کے حوالے سے علامہ بھوپالی کا یہ قول نقل کرتے ہیں :البدعة الضّلالة المحرّمة هی التی ترفع السّنة مثلها والتی لا ترفع شيئا منها فليست هی من البدعة بل هی مباح الاصل.
ترجمہ : بدعت وہ ہے جس سے اس کے بدلہ میں کوئی سنت متروک ہو جائے اور جس بدعت سے کسی سنت کا ترک نہ ہو وہ بدعت نہیں ہے بلکہ وہ اپنی اصل میں مباح ہے۔
رہی وہ بدعت جو مستحسن اُمور کے تحت داخل ہے اور وہ قرآن و حدیث کے کسی حکم سے ٹکراتی بھی نہیں تو وہ مشروع، مباح اور جائز ہے، اسے محض بدعت یعنی نیا کام ہونے کی بنا پر مکروہ یا حرام قرار دینا کتاب و سنت کے ساتھ نا اِنصافی ہے۔
ذیل میں ہم جشنِ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شرعی حیثیت اور اُس کے فضائل و ثمرات کے حوالے سے تصورِ بدعت کے مختلف پہلوؤں پر غور کریں گے۔ بہ طورِ خاص اس بے بنیاد تصور کا اِزالہ کریں گے کہ ہر وہ کام جو عہدِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں نہیں تھا اور نہ خلفائے راشدین و صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے زمانے میں اس کا ثبوت ملتا ہے، اسے اگر بعد میں کیا جائے تو - قطعِ نظر اچھائی یا برائی کے - وہ بدعت (یعنی نیا کام) ہونے کی بناء پر کلیتاً ناجائز اور حرام تصور ہوگا۔ اِس خود ساختہ تصور کو قرآن و حدیث کی روشنی میں پرکھا جائے گا اور کتاب وسنت کے واضح دلائل سے ثابت کیا جائے گا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد پر فرحت و اِنبساط کا اِظہار کرنا ایک مشروع، مباح اور جائز عمل ہے۔
بدعت کا لغوی مفہوم : ’’بدعت‘‘ کا لفظ بَدَعَ سے مشتق ہے۔ اس کا لغوی معنی ہے :
’’کسی سابقہ مثال کے بغیر کوئی نئی چیز ایجاد کرنا اور بنانا۔‘‘
ابن منظور افریقی (630۔711ھ) لفظِ بدعت کے تحت لکھتے ہیں :
اَبدعت الشيئ : اخترعته لا علی مثال.(ابن منظور، لسان العرب، 8 : 6)
ترجمہ : میں نے فلاں شے کو پیدا کیا یعنی اُسے بغیر کسی مثال کے ایجاد کیا۔‘‘
حافظ ابن حجرعسقلانی (773۔852ھ) بدعت کا لُغوی مفہوم بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :البدعة أصلها ما أحدث علی غير مثال سابق.
ترجمہ : اَصلِ بدعت یہ ہے کہ اُسے بغیر کسی سابقہ نمونہ کے ایجاد کیا گیا ہو۔
(عسقلانی، فتح الباری، 4 : 253)(شوکانی، نيل الأوطار شرح منتقی الأخبار، 3 : 63)
معنی بدعت کی قرآن حکیم سے توثیق
قرآنِ مجید میں مختلف مقامات پر لفظِ بدعت کے مشتقات بیان ہوئے ہیں جن سے مذکورہ معنی کی توثیق ہوتی ہے۔ صرف دو مقامات درج ذیل ہیں :
اللہ تعاليٰ نے زمین و آسمان بغیر کسی مثالِ سابق کے پیدا فرمائے، اس لیے خود کو بدیع کہا۔ فرمایا :بَدِيْعُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ط وَاِذَا قَضٰی اَمْراً فَاِنَّمَا يَقُوْلُ لَهُ کُنْ فَيَکُوْنُo ۔ (البقرة، 2 : 117)
ترجمہ : وہی آسمانوں اور زمین کو عدم سے وجود میں لانے والا ہے، اور جب وہ کسی چیز (کے ایجاد) کا فیصلہ فرما لیتا ہے تو پھر اس کو صرف یہی فرماتا ہے : تو ہو جا، پس وہ ہوجاتی ہے ۔
ایک دوسرے مقام پر فرمایا : بَدِيْعُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ. ترجمہ : وہی آسمانوں اور زمین کا مُوجد ہے ۔ (الانعام، 6 : 101)
درج بالا آیات سے ثابت ہوا کہ کائناتِ اَرضی و سماوی کی تخلیق کا ہر نیا مرحلہ بدعت ہے اور اِسے عدم سے وجود میں لانی والی ذاتِ باری تعاليٰ ’’بدیع‘‘ہے۔
بدعت کا اِصطلاحی مفہوم : اہلِ علم کے نزدیک بدعت کی اِصطلاحی تعریف درج ذیل ہے :
اِمام نووی (631۔ 677ھ) بدعت کی تعریف اِن الفاظ میں کرتے ہیں :البدعة هی إحداث مالم يکن فی عهد رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم .
ترجمہ : بدعت سے مراد ایسے نئے کام کی ایجاد ہے جو عہد رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں نہ ہو۔(تهذيب الأسماء واللغات، 3 : 22)
شیخ ابن رجب حنبلی (736۔795ھ) بدعت کی اِصطلاحی تعریف درج ذیل الفاظ میں کرتے ہیں : المراد بالبدعة ما أحدث مما لا أصل له فی الشريعة يدل عليه، وأما ما کان له أصل من الشّرع يدل عليه فليس ببدعة شرعاً، وإن کان بدعة لغة.
ترجمہ : بدعت سے مراد ہر وہ نیا کام ہے جس کی شریعت میں کوئی اصل موجود نہ ہو جو اس پر دلالت کرے، لیکن ہر وہ معاملہ جس کی اصل شریعت میں موجود ہو وہ شرعاً بدعت نہیں اگرچہ وہ لغوی اعتبار سے بدعت ہوگا۔
(ابن رجب، جامع العلوم والحکم فی شرح خمسين حديثاً من جوامع الکلم : 252)(عظيم آبادی، عون المعبود شرح سنن أبی داود، 12 : 235)(مبارک پوری، تحفة الأخوذی شرح جامع الترمذی، 7 : 366)
حافظ ابنِ حجر عسقلانی (773۔852ھ) بدعتِ حسنہ اور بدعتِ سیّئہ کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں : والتحقيق أنها إن کانت مما تندرج تحت مستحسن فی الشّرع فهی حسنة، وإن کانت مما تندرج تحت مستقبح فی الشّرع فهی مستقبحة.
ترجمہ : تحقیق یہ ہے کہ اگر بدعت کوئی ایسا کام ہو جو شریعت میں مستحسن اُمور میں شمار ہو تو وہ حسنہ ہے اور اگر وہ شریعت میں ناپسندیدہ اُمور میں شمار ہو تو وہ قبیحہ ہوگی۔(عسقلانی، فتح الباری، 4 : 253)(شوکانی، نيل الأوطار شرح منتقی الأخبار، 3 : 63)
اِن تعریفات سے واضح ہوتا ہے کہ ہر نئے کام یعنی بدعت کو محض نیا کام ہونے کی وجہ سے مطلقاً حرام یا ممنوع قرار نہیں دیا جا سکتا بلکہ اُس کے جواز یا عدمِ جواز کو پرکھنے کا پیمانہ یہ ہے کہ اگر وہ نیا کام شریعت میں مستحسن و مباح ہے تو اُسے بدعتِ حسنہ کہیں گے اور اگر وہ نیا کام شریعت میں غیر مقبول و ناپسندیدہ ہو تو اُسے بدعتِ سیئہ یا بدعتِ قبیحہ کہیں گے۔
اِس اُصولی بحث کے بعد یہ اَمر واضح ہو گیا کہ جشنِ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اگرچہ قرونِ اُوليٰ میں اِس شکل میں موجود نہیں تھا جس ہیئت میں آج موجود ہے،لیکن چوں کہ قرآن حکیم کی تلاوت، ذِکرِ اِلٰہی، تذکارِ رسالت، ثنا خوانی مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، صدقہ و خیرات کرنا، فقراء و مساکین کو کھانا کھلانا جیسے اَعمال اِس جشن کے مشتملات ہیں، اور اِن میں سے کوئی اَمر بھی شریعت میں ممنوع نہیں، لہٰذا یہ ایک جائز، مشروع اور مستحسن عمل ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ سابقہ اَدوار کے لوگ اپنے رسوم و رواج اور ثقافت کے مطابق نعمتِ عظميٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ملنے کے دن شکرِ اِلٰہی بجا لاتے تھے، جب کہ موجودہ دور میں جس طرح زندگی کے ہر گوشہ میں تبدیلی رُونما ہوئی ہے اُسی طرح جشن میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منانے کے اَطوار بھی تبدیل ہوئے ہیں۔ ذیل میں ہم اِس اَمر کی وضاحت کرتے ہیں : کیا علاقائی ثقافت کا ہر پہلو بدعت ہے ؟
ہم اپنی روز مرّہ زندگی میں جوکچھ کرتے ہیں اُسے قرآن و سنت کی روشنی میں شرعاً ثابت کرنے پر زور دینا ہمارا مزاج بن چکا ہے۔ ہم ہر چیز کو بدعت اور ناجائز کہہ دیتے ہیں۔ اس میں میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جلوس اور بہت سے مستحسن اُمور جو ہمارے ہاں رواج پا چکے ہیں ان کو معترضین بدعت سے تعبیر کرتے نہیں تھکتے۔ کچھ چیزیں اصلاً دینی ہوتی ہیں ان کی اصل توضیح اور استدلال کو کتاب وسنت میں تلاش کرنا چاہیے کہ وہ احکامِ دین کا حصہ ہوتی ہیں۔ اس کے ثبوت یاعدمِ ثبوت پر تو حکم شرعی ہونا چاہیے کہ ثابت ہے تو حکم ہے اور اگر غیر ثابت ہے تو حکم نہیں اور باقی چیزوں کی تقسیم کر سکتے ہیں :
(1) : کچھ چیزیں ایسی ہوتی ہیں کہ ان میں علاقائی اور سماجی رواج شامل ہوجاتے ہیں۔ یہ ایک اہم اور نئی جہت ہے کہ علاقائی رواج دینی اُمور نہیں بن جاتے اور وہ چیزیں کلچر یعنی تہذیب و ثقافت کا رُخ اختیار کرلیتی ہیں۔
(2) : کچھ چیزیں ایسی ہوتی ہیں جو وقتی مصالح، بدلتے ہوئے حالات، لوگوں کے رُجحانات اور اجتماعی میلانات کی آئینہ دار ہوتی ہیں۔
(3) : بعض علاقائی، سماجی اور کلچرل ضرورتیں اور تقاضے بعض چیزوں کو ناگزیر بنا دیتے ہیں۔
ثقافتی اِعتبار سے دورِ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا دور ثقافتی اِعتبارسے سادہ تھا۔ اس دور کا ثقافتی اور تاریخی نقطہ نظر سے جائزہ لیں تو اس دور میں مسجدیں سادگی سے بنائی جاتی تھیں، گھر بھی بالعموم سادہ اور کچے بنائے جاتے تھے، کھجور کے پتوں اور شاخوں کو استعمال میں لایا جاتا، جب کہ خانہ کعبہ پتھروں سے بنا ہوا موجود تھا۔ وہ چاہتے تو مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی پختہ بنا سکتے تھے مگر اس دور کے معاشرے کی ثقافت اور رسم رواج سادہ اور فطرت سے انتہائی قریب تھے۔ ابتدائی تہذیب کا زمانہ تھا۔ کپڑے بھی ایسے ہی تھے جیسے انہیں میسر تھے۔ کھانا پینا بھی ایسا ہی تھا۔ یعنی ہر ایک عمل سادگی کا انداز لیے ہوئے تھا۔ ان کے کھانے پینے، چلنے پھرنے، رہن سہن الغرض ہر چیز میں سادگی نمایاں طور پر جھلکتی نظر آتی تھی۔ توجب ہر چیز میں یہ انداز واضح طور پر جھلکتا تھا تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کی خوشی منانے میں بھی اُن کا اپنا انداز اس دور کے کلچر کی انفرادیت کا آئینہ دار تھا۔(طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment