یہ پہلا سبق تھا کتاب ہدیٰ کا ، کہ ساری مخلوق ہے کنبہ خدا کا
فقیر ڈاکٹر فیض احمد چشتی نے ایک مختصر پیغام کےلیئے یہ شعر : یہ پہلا سبق تھا کتاب ہدیٰ کا ، کہ ساری مخلوق ہے کنبہ خدا کا ۔ پوسٹ کیا تو الامان والحفیظ مفتیان فیس بک کے فتوے ، جملے ، طعن تشنیع اور یہ ہے جی وہ ہے جی کے کمنٹ شروع ہوگئے اے کاش فیس بک پر بیٹھے بغیر علم کے دینی و شرعی مسائل پر طبع آزمائی کرنے والے ذرا سا سوچ لیں کہ بغیر علم کے ہر بات پر فتوے و تبصرے کرنا کتنا بڑا گناہ ہے اللہ تعالیٰ ہمیں علم و شعور عطاء فرمائے آمین ۔ آیئے مضمون پڑھتے ہیں :
مخلوق الله کا کنبہ ہے ، جو اس کے بندوں کے ساتھ حسن سلوک کرتا ہے ، ان کے لئے اپنا دل صاف شفاف اور کھلا رکھتا ہے ، ان کی ہمدردری و خیر خواہی کرتا ہے تو الله تعالیٰ بھی اس کے ساتھ اچھا ہی معاملہ کرتے ہیں .
عَنْ أَنَسٍ وَعَبْدِ اللّٰہِ رَضِيَاللّٰہُ عَنْھُمَا قَالَا: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم : ’’اَلْخَلْقُ عِیَالُ اللّٰہِ، فَأَحَبُّ الْخَلْقِ إِلَی اللّٰہِ مَنْ أَحْسَنَ إِلٰی عِیَالِہ‘‘۔ (رواہ البیہقی فی شعب الإیمان، مشکوٰۃ/ص:۴۲۵/ باب الشفقۃ والرحمۃ علی الخلق/الفصل الثالث)
ترجمہ : حضرت انس اور حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہماسے روایت ہے کہ رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’ساری مخلوق اللہ تعالیٰ کی عیال یعنی کنبہ ہے، پس اللہ تعالیٰ کو اپنی ساری مخلوق میں زیادہ محبت اس شخص سے ہے جو اس کے عیال (مخلوق) کے ساتھ حسن سلوک کرتا ہو ۔
اسلام کے نزدیک ساری مخلوق اللہ کی ایک کنبہ ہے اورسب کے ساتھ بھلائی کا حکم دیتا ہے: اَلْخَلْقُ کُلُّہُمْ عِیَالُ اللّٰہِ فَأحَبُّ الْخَلْقِ عِنْدَ اللّٰہِ مَنْ اَحْسَنَ الٰی عِیَالِہ ۔ ساری مخلوق اللہ کا کنبہ ہے اور اللہ کے نزدیک سب سے پیاری وہ مخلوق ہے ، جو اس کے کنبہ کے ساتھ حسنِ سلوک کرے ۔ اسلام سارے انسانوں کو انسانیت کے رشتہ سے بھائی مانتا ہے اور ان کو بھائیوں کی طرح باہمی اتحاد و اتفاق کے ساتھ رہنے کی تلقین کرتا ہے: ”لَا تَقَاطَعُوا وَلاَ تَدَابَرُوْا وَلاَ تَبَاغَضُوْا وَلاَ تَحَاسَدُوْا وَکُوْنُوا عِبَادَ اللّٰہِ اخْوَانًا“ ترجمہ : ایک دوسرے سے تعلقات نہ توڑو، ایک دوسرے سے منھ نہ پھیرو، ایک دوسرے سے کینہ نہ رکھو، ایک دوسرے سے حسد نہ کرو اور خدا کے بندو بھائی بھائی بن جاؤ ۔
انسان تو انسان ہیں، اسلام جانوروں کو بھی ایذا پہنچانے اور تکلیف دینے کی بہ تاکید ممانعت کرتا ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم فرماتے ہیں کہ ایک عورت کو محض اس بناپر عذاب ہوا کہ اس نے ایک بلی کو باندھ کر اس کا کھانا پینا بند کردیا تھا، جس سے وہ مرگئی، جانوروں پر شفقت کی یہ انتہا ہے کہ غصہ اور جھنجھلاہٹ میں بھی انھیں کوسنے اور ان پر لعنت بھیجنے تک کی ممانعت ہے۔ اسلام کی ہدایت ہے کہ جو جانور جس کام کے لیے پیدا کیاگیا ہے، اس سے وہی کام لینا چاہیے ۔ ہر چیز کا کمال اس کے اوصاف کے اعتبار سے مختلف ہوتا ہے، مثلاً پتھر کا کمال یہ ہے کہ وہ سخت اور مضبوط ہو، لیکن ریشم کا کمال یہ ہے کہ وہ نرم اور لطیف ہو، نیز آگ کا کمال یہ ہے کہ وہ گرم ہو، مگر برف کا کمال یہ ہے کہ وہ ٹھنڈا ہو، اس اصول کے مطابق ایک انسان کا اور سچے مسلمان کاکمال یہ ہے کہ اس میں (1) اللہ جل شانہ کی عبادت، (2) اتباعِ سنت، (3) اور مخلوق کی خدمت کا جذبہ اور اہتمام ہو ۔ ’’خِدْمَۃٌ‘‘ عربی زبان کا لفظ ہے، جس ہے اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے دوسروں کی دینی اور دنیوی ضروریات میں کام آنا۔ اس اعتبار سے خدمتِ خلق کا مفہوم نہایت وسیع ہے، اس میں ہر وہ عمل داخل ہے جو بلا کسی فرق کے اللہ تعالیٰ کی کسی بھی مخلوق کی بھلائی، خیر خواہی اور ضرورت پوری کرنے یا تعاون کرنے کی نیت سے بلا اجرت وغرض کے انجام دیا جائے، نیز اس میں مالی تعاون کی تمام شکلیں اور جسمانی تعاون کی تمام صورتیں داخل ہیں ، اس کے بعد اب اگر غور کیا جائے تو قرآن وحدیث کی تعلیمات وہدایات کا لبِ لباب اور خلاصہ بھی یہی تین چیزیں ہیں ، اس لیئے اس پر عمل کیئے بغیر ایک انسان دنیا وعقبیٰ میں کمالات اور اعلیٰ مراتب ودرجات حاصل نہیں کر سکتا، کتاب وسنت میں اللہ جل شانہ کی عبادت اور اتباعِ سنت کے ساتھ مخلوق کی خدمت کے بھی بڑے فضائل وارد ہوئے ہیں ۔
سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ خدمت خلق بھی خوشنودیٔ خلق کے علاوہ رضائے الٰہی کا ذریعہ ہے، اور یہی بڑی کامیابی ہے، اس لیے فرمایا گیا : وَ افْعَلُوْا الْخَیْرَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ} (الحج : ۷۷) بھلائی کے کام کرو، تاکہ تمہیں (بھلائی) کامیابی حاصل ہو ۔
مطلب یہ ہے کہ خیر کی نیت سے خیر کے کام کرو تو تمہیں خالق و مخلوق کی خوشنودی ملے گی، جو بڑی کامیابی ہے ۔
عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم : السَّاعِیْ عَلیٰ الْأَرْمَلَۃِ وَالْمِسْکِیْنِ کَالسَّاعِیْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ، وَأَحْسِبُہٗ قَالَ: ’’کَالْقَائِمِ لَا یَفْتُرُ وَکَالصَّائِمِ لَا یُفْطِرُ‘‘۔ (متفق علیہ، مشکوٰۃ:۴۲۲/ باب الرحمۃ والشفقۃ علی الخلق)
یعنی : اللہ کا جو بندہ بیوہ اور کسی بے سہارا عورت، اسی طرح کسی مسکین حاجتمند کے کاموں میں دوڑ دھوپ کرتا ہو، ان کی خدمت کا کوئی کام کرتا ہو تو وہ عمل بھی عبادت ہے، اور اجر وثواب میں اس مجاہد کی طرح ہے جو اللہ تعالیٰ کے راستہ میں جد وجہد کرنے والا ہے، دونوں کا اجر وثواب برابر ہے ۔ آگے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میرا خیال یہ ہے کہ اس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم نے یہ بھی ارشاد فرمایا : ’’خدمت خلق پر وہ اجر وثواب ملتا ہے جو صائم النہار اور قائم اللیل کو دیا جاتا ہے ۔
یعنی خدمت خلق کرنے والا بھی اس شب بیدار بندہ کی طرح ہے جو رات بھر نماز پڑھتا ہے اور تھکتا نہیں ، اور اس دائمی روزہ دار کی طرح ہے جو کبھی بے روزہ نہیں رہتا، ظاہر ہے کہ رات بھر نمازیں پڑھنا اور دن بھر روزے رکھنا یہ سب کے بس کی بات نہیں ، مگر خدمت خلق ایک ایسی آسان عبادت ہے جسے اپنی بساط کے مطابق ہر کوئی صاحب توفیق بندہ انجام دے کرصائم النہار اور قائم اللیل کی فضیلت کا مستحق بن سکتا ہے؛ کیوں کہ عبادت صرف نمازوروزہ ہی کا نام نہیں ، بلکہ خلوص سے خدمت خلق کا کوئی کام کرنا بھی عبادت ہے، جس طرح ایک مومن عبادت کر کے اللہ تعالیٰ کی رضا وجنت کا حقدار بن سکتا ہے اسی طرح خدمت کے ذریعہ بھی اس کا مستحق بن سکتا ہے ۔
بعض خدمت گزار عبادت گزار سے بہتر ہوتے ہیں : حضرت عارف شیرازی رحمۃ اللہ علیہ اسی لیے فرماتے ہیں کہ :
ز تسبیح وسجادہ و دلق نیست
طریقت بجز خدمت خلق نیست
اس کا مطلب یہ ہے کہ تسبیح ہاتھ میں لے کر،مصلیٰ پر بیٹھ کر گوشہ میں بیٹھ کر اللہ اللہ کرنے اور گدڑی پہننے کا نام ہی عبادت نہیں ، بلکہ خیر کی نیت سے خیر کے کام انجام دینا نیز ضرورت کے موقع پر مخلوق کے کام آنا اور ان کی اپنے علم وعمل اور مال کے ذریعہ خدمت کرنا بھی نہایت اہم عبادت ہے ۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے ایک شخص کو عبادت میں مشغول پاکر دریافت فرمایا کہ ’’تمہارا مشغلہ کیا ہے؟‘‘ اس نے عرض کیا کہ’’ عبادت کے علاوہ اور کچھ نہیں ‘‘ دریافت فرمایا: ’’تمہاری کفالت کون کرتا ہے؟‘‘ عرض کیا:’’ میرا بھائی‘‘ ارشاد فرمایا: ’’تمہارا جو بھائی تمہاری خدمت کرتا ہے وہ تم سے زیادہ عبادت گزار (اور اجر وثواب کا حقدار) ہے۔‘‘ واقعی بعض خدمت گزار عبادت گزار سے بہتر ہیں ۔ ( فضائل زراعت /ص: ۵۳)
احادیث مبارکہ میں خدمت خلق کے بے شمار فضائل ہیں ، خواہ وہ کسی کے لیے کسی بھی طرح کی اور کتنی ہی معمولی خدمت کیوں نہ ہو،اس لیے کہ معمولی خدمت کی توفیق بھی بہت بڑی سعادت بلکہ نجات کاذریعہ بن سکتی ہے، ایک حدیث میں ہے : عَنْ أَنَسٍ رَضِيَاللّٰہُ عَنْہُ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِﷺ:’’یُصَفُّ أَہْلُ النَّارِ، فَیَمُرُّ بِہِمْ الرَّجُلُ مِنْ أَہْلِ الْجَنَّۃِ، فَیَقُوْلُ اَلرَّجُلُ مِنْہُمْ:’’یَافُلَانُ! أَمَاتَعْرِفُنِیْ؟ أَنَا الَّذِیْ سَقَیْتُکَ شَرْبَۃً‘‘، وَقَالَ بَعْضُہُمْ:’’ أَنَا الَّذِیْ وَہَبْتُ لَکَ وَضُوْئً‘‘، فَیُشَفَّعُ لَہٗ، فَیُدْخِلُہُ الْجَنَّۃَ‘‘۔ (ابن ماجہ، مشکوٰۃ/ص:۴۹۴/ باب الحوض والشفاعۃ، شرح السنۃ للبغوی/ ص:۱۸۴)
قیامت کے دن جب علماء و صلحاء اور ابرارو اخیار کے جنت والے راستہ میں اہل دوزخ(مراد فاسق و گنہگار مسلمان) صف بناکر کھڑے کیے جائیں گے (جس طرح فقراء اور مساکین اہل دولت کی گذرگاہوں پر بھیک مانگنے کے لیے (دنیا میں کھڑے ہوتے ہیں ) اس وقت ان کے پاس سے ایک جنتی گذرے گا تو ایک دوزخی کہے گا:’’اے فلاں ! کیاتومجھے جانتانہیں ؟میں وہی ہوں جس نے تجھے ایک مرتبہ پانی (شربت یادودھ وغیرہ) پلایا تھا‘‘ اور ان ہی میں سے ایک کہے گا کہ’’ میں وہ ہوں جس نے تجھے ایک مرتبہ وضو کے لیے پانی پیش کیا تھا‘‘(یعنی دوزخی اپنی خدمت کاحوالہ دے گا تو اس پروہ جنتی خدمت کے بدلہ میں اللہ تعالیٰ کے حضور) اس (خدمت کرنے وا لے) کے لیے شفاعت کرے گااوراس کو جنت میں داخل کرادے گا۔(انوارالسنن ص:۱/۹۷،الفیۃ الحدیث)
اس سے معلوم ہواکہنیک لوگوں کی تومعمولی خدمت بھی قیامت میں شفاعت و مغفرت کا سبب ہوگی۔
ایک اور حدیث میں ہے : عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ رَضِيَاللّٰہُ عَنْہُ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم :’’مَنْ نَفَّسَ عَنْ مُؤْمِنٍ کُرْبَۃً مِّنْ کُرَبِ الدُّنْیَا، نَفَّسَ اللّٰہُ عَنْہُ کُرَبَۃً مِّنْ کُرَبِ یَوْمِ الْقِیَامَۃِ، وَمَنْ یَسَّرَ عَلٰی مُعْسِرٍ یَسَّرَ اللّٰہُ عَلَیْہِ فِیْ الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ، وَمَنْ سَتَرَ مُسْلِمًا سَتَرَہُ اللّٰہُ فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ، وَاللّٰہُ فِیْ عَوْنِ الْعَبْدِ مَا کَانَ الْعَبْدُ فِیْ عَوْنِ أَخِیْہِ ۔ (رواہ مسلم والترمذی:۲/۳۶۲، مشکوٰۃ/ص:۳۲/کتاب العلم/الفصل الأول)
جو شخص دنیا کی پریشانی میں سے کوئی معمولی پریشانی بھی کسی مسلمان (یا اللہ تعالیٰ کے کسی بھی بندے اور بندی) سے دور کردے تو یہ ایک بڑی خدمت ہے، جس کا اجر قیامت میں یہ ملے گا کہ حق تعالیٰ قیامت کی تکلیف اس سے دور کر دیں گے، اور جو شخص کسی تنگدست کے ساتھ کسی بھی طرح سے آسانی کا معاملہ کرے گا تو یہ بھی ایک زبردست خدمت ہے، جس کا صلہ یہ ہے کہ رب العالمین اس کے لیے دونوں جہاں میں آسانی پیدا کر دیں گے اور جو شخص دنیا میں کسی کی پردہ پوشی کرے گا، جس کی ایک ظاہری صورت یہ بھی ہے کہ کسی ننگے کو کپڑا پہنا کر اس کی ستر پوشی کا انتظام کرنا اور دوسری صورت یہ ہے کہ کسی کی برائی پر مطلع ہونے کے بعد اسے لوگوں میں بلا وجہ ظاہر کرکے رسوا نہ کرنا، یہ بھی تو عظیم خدمت ہے، اس لیے حق تعالیٰ کی طرف سے اس کا بدلہ یہ ملتا ہے کہ وہ دنیا وآخرت میں اس کی پردہ پوشی فرماتے ہیں ۔ایک حدیث میں ہے کہ اگر کوئی شخص کسی کا ایک عیب چھپاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے ستّر عیوب پر پردہ ڈالتے ہیں ، اور اگر کوئی کسی کے ایک عیب کا افشا کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے ستّر عیوب ظاہر فرماتے ہیں ، (پھر جس کے عیوب اللہ تعالیٰ نے دنیا میں ظاہر نہ کیے ہوں گے اسے) قیامت کے دن اللہ تعالیٰ بلا کر آہستہ سے کہیں گے کہ تم نے فلاں وقت فلاں جگہ فلاں گناہ کیا تھا، وہ بندہ اقرار کرے گا، حق تعالیٰ فرمائیں گے کہ ہم نے دنیا میں اسے چھپایا، اس لیے آج بھی چھپاتے ہیں اور تمہیں اجر عظیم سے نوازتے ہیں ۔ ( مرآۃ شرح مشکوٰۃ:۲/۳۴۵)
لیکن اگر کوئی ظالم یا فتنہ انگیز علانیہ ظلم اور فتنہ وفساد کے درپے ہو اور تنبیہ کے باوجود اس سے باز نہ آئے تو حکومت یا اس کے ذمہ دار تک اس کی اطلاع پہنچانی چاہیے، اس وقت اس کے اس عیب اور گناہ کو ظاہر کرنے میں کوئی حرج نہیں ، البتہ اگر اس میں کسی فساد کا خطرہ ہو تو پھر خاموشی بہتر ہے ۔
آگے فرمایا کہ اللہ رب العزت بندہ کی مدد کرتے رہتا ہے جب تک بندہ اپنے بھائی کی نصرت (اور خدمت) میں رہتا ہے، ظاہر ہے کہ جس کا معاون ومددگار خود اللہ جل شانہ ہو جائے اس کی ضروریات کیسے رک سکتی ہیں ؟ یقینا ایسے آدمی کی ہر حاجت وضرورت پوری ہوتی ہے،بلکہ اس کا پردۂ غیب سے انتظام ہوتا ہے۔ اس لیے عاجز کا خیالِ ناقص یہ ہے کہ بڑوں کی بڑی بڑی خدمت کے بجائے چھوٹوں کی معمولی حاجت پوری کرنا بھی بہت بڑی خدمت اور اللہ تعالیٰ کی رضا و محبت کا سبب ہے ۔
خدمت خلق سے مقبولیت ملتی ہے : حدیث مذکور میں فرمایا گیا : ’’اَلْخَلْقُ عِیَالُ اللّٰہِ‘‘۔ ساری مخلوق اللہ تعالیٰ کا کنبہ ہے، اس کا ایک مطلب یہ ہے کہ جس طرح ایک شخص بظاہر اپنے اہل و عیال کی روزی ، روٹی اور ضروریاتِ زندگی کا کفیل ہوتاہے اسی طرح ساری مخلوق کی روزی ، روٹی اور ضروریاتِ زندگی کا حقیقی کفیل اللہ تعالیٰ ہی ہے ، اس لیے قرآنِ کریم نے’’اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ‘‘ کہا:کہ وہ ’’رَبُّ المُسْلِمِیْنَ، رَبُّ المُؤْمِنِیْنَ، رَبُّ الْمُتَّقِیْنَ‘‘ ہی نہیں ، بلکہ وہ رب العالمین ہے، یہ قرآن کا صاف اعلان ہے ۔
یہ پہلا سبق ہے کتابِ ُہدیٰ کا
کہ مخلوق ساری ہے کنبہ خدا کا
مخلوق کو اللہ تعالیٰ کی عیال کہا گیا تو اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ عیال کے معنیٰ متعلقین کے ہیں ، اور اپنے عیال و متعلقین سے ہر ایک کو محبت ہوتی ہے، بلکہ ان کے ساتھ محبت و سلوک کرنے والوں سے بھی محبت ہوتی ہے، لہٰذا اس حدیث میں فرمایا گیا کہ اللہ تعالیٰ کا معاملہ بھی یہی ہے : ’’فَأَحَبُّ الْخَلْقِ إِلیَ اللّٰہِ مَنْ أَحْسَنَ إِلٰی عِیَالِہ‘‘ کہ جو کوئی خدمت خلق کا کام کرے ، اللہ تعالیٰ کی مخلوق کے ساتھ احسان کا برتاؤ کرے ، ان کی دینی ودنیوی ضروریات میں کام آئے تووہ اللہ تعالیٰ کی محبت حاصل کرلیتاہے، اس کے بعد اسے خلوص کے ساتھ خدمت کے نتیجہ مقبولیت نصیب ہوجاتی ہے اوروہ خادم سے مخدوم بن جاتاہے ۔ (طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment