علم اسماء الرجال اور اس کی خصوصیت
مختلف باطل فرقوں کی طرف سے بپا کی جانے والی شر انگیزیوں کا تدارک کرنے کے لئے محدثین نے کڑے معیار متعین فرمائے اور اپنی زندگیاں ان اصولوں کی پرورش و نگہداشت کے لئے وقف کردیں ۔ علم اسماء الرجال کے تحت کم و بیش 5 لاکھ راویوں کے حالات، پیدائش، وفات ان کے اخلاق، طرز زندگی ، اساتذہ، تلامذہ اور دیگر شواہد پر مشتمل ایسا ذخیرہ علم ہے جس کی وسعت، پختگی اور تسلسل پر غیر مسلم اہل علم آج تک انگشت بہ دندان ہیں۔ یہ دراصل حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معجزات اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فضائل کا حصہ ہے کہ جنہوں نے اپنے آقا نبی آخرالزمان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے افعال اقوال اور سنت کی حفاظت کے لئے خود کو وقف کر دیا اللہ پاک نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فیضان کرم کے طفیل ان پانچ لاکھ افراد کو بھی تاریخ میں زنادہ و جاوید کر دیا۔ ان پانچ لاکھ ’’رجال حدیث‘‘ میں تقریباً 13 ہزار وہ شخصیات ہیں جنہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کا شرف حاصل کیا اور آپ سے روایت سن کر آگے بیان فرمائی، علامہ شبلی نعمانی نے اس حقیقت کی عکاسی کرتے ہوئے بڑا خوبصورت تبصرہ کیا ہے ۔
مسلمانوں کے اس فخر کا قیامت تک کوئی حریف نہیں ہوسکتا کہ انہوں نے اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حالات و واقعات کا ایک ایک حرف استفصار کے ساتھ محفوظ رکھا کہ کسی شخص کے حالات آج تک اس جامعیت اور احتیاط کے ساتھ قلم بند نہیں ہوسکے اور نہ آئندہ اس کی توقع کی جاسکتی ہے ۔ اس سے زیادہ کیا عجیب بات ہوسکتی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اقوال و افعال کی تحقیق کی غرض سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھنے والوں اور ملنے والوں میں سے تقریباً تیرہ ہزار شخصیتوں کے نام اور حالات قلم بند کئے گئے اور یہ اس زمانے میں ہوا جب تصنیف و تالیف کا ابھی آغاز ہی ہوا تھا ۔ (شبلی نعمانی سیرت النبی جلد اول مطبع اردو بازار لاہور)
عظمت تو وہ ہے جس کا اعتراف مخالفین کریں، مشہور جرمن مستشرق ڈاکٹر سپرنگر نے ’’الاصابہ فی تمییز الصحابہ‘‘ کے ایڈیشن طبع 1886 کے مقدمے میں لکھا ۔ کوئی قوم دنیا میں ایسی نہیں گزری اور نہ آج موجود ہے جس نے مسلمانوں کی طرح اسماء الرجال کا عظیم الشان فن ایجاد کیا ہو۔ جس کی بدولت پانچ لاکھ مسلمانوں کا حال معلوم ہوسکتا ہے ۔ (ابن حجر، الاصابہ فی تمییز الصحابہ، مقدمہ سپرنگر مطبوعہ کلکتہ)
متن حدیث کے ساتھ ساتھ سند کی تحقیق کے لئے فنِ علمِ الرجال کا ارتقاء ہوتا رہا اور اس پر تصنیف و تالیف کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا۔ چنانچہ تیسری صدی ہجری میں علی بن المدینی (م234ھ) نے ’’کتاب العلل‘‘ میں، امام احمد بن حنبل (م 241ھ) نے ’’کتاب العلل و معرفۃ الرجال‘‘ میں، امام بخاری (م 256ھ) نے ’’تاریخ‘‘ میں، امام مسلم (م261ھ) نے ’’مقدمہ صحیح مسلم‘‘ میں اور امام ترمذی (م 279ھ) نے ’’کتاب العلل‘‘ میں رجال پر شاندار کام اسی دور میں سرانجام دیا ۔
تیسری صدی ہجری میں علی بن المدینی (م 234ھ) نے ’’کتاب العلل‘‘ میں، امام احمد بن حنبل (م241ھ) نے ’’کتاب العلل و معرفۃ الرجال‘‘ میں، امام بخاری (م256ھ) نے ’’تاریخ‘‘ میں، امام مسلم (م261ھ) نے ’’مقدمہ صحیح مسلم‘‘ میں، امام ترمذی (م279ھ) نے ’’کتاب العلل‘‘ میں اسماء الرجال پر اسی ابتدائی دور میں کام شروع کر دیا تھا ۔
چوتھی صدی ہجری میں اس فن پر کام کرنے والے درج ذیل لوگ ہیں امام نسائی (م303ھ) نے ’’کتاب الضعفاء والمتروکین‘‘ اور محمد بن احمد حماد الدولابی (م310ھ) نے ’’کتاب الاسماء والکنی‘‘ تصنیف کی اس کتاب میں راویان حدیث کے ناموں اور کنیتوں کی وضاحت کی گئی ہے۔ ابو محمد عبدالرحمن بن ابی حاتم الرازی (م327ھ) ’’کتاب الجرح والتعدیل‘‘کے مصنف ہیں اس کا مقدمہ قابل دید ہے اس کے علاوہ ’’کتاب الکنی‘‘ اور ’’کتاب المراسیل‘‘ بھی ان کی تصانیف ہیں جو اسی موضوع پر مشتمل ہیں۔ امام محمد بن حبان بستی (م354ھ) نے ’’کتاب الثقات‘‘ اور ’’کتاب المجروحین‘‘ لکھی ہیں۔ ابو احمد علی بن عدی بن علی قطان (م365ھ) نے فن اسماء الرجال پر ’’الکامل فی ضعفاء الرجال‘‘ کے نام سے کتاب لکھی، دار قطنی (م385ھ) نے اپنی ’’کتاب العلل‘‘ میں رجال پر بہت مفید بحثیں کی ہیں۔ امام دار قطنی نے ’’کتاب الضعفاء‘‘ بھی تالیف کی جو چھپ چکی ہے۔ اسی طرح ان کی کتاب ’’الموتلف والمختلف‘‘ بھی چھپ چکی ہے ۔
پانچویں صدی ہجری میں ابو یوسف بن عمر بن عبدالبر (م463ھ) اور خطیب بغدادی (م463ھ) نے بھی اسماء الرجال پر بہت کام زیادہ کیا ۔
چھٹی صدی ہجری کے مولفین رجال میں سے امام بیہقی (م558ھ) امام ابن جوزی (م597ھ) ہیں۔ اس کے علاوہ معروف محدث عبدالغنی مقدسی (م600ھ) نے ’’الکمال فی اسماء الرجال‘‘ لکھی ۔
ساتویں صدی ہجری میں امام نووی (م676ھ) نے اس فن پر گراں قدر کام کیا۔ ان کی کتاب ’’تہذیب الاسماء واللغات‘‘ بہت معروف ہے ۔
آٹھویں صدی ہجری میں حافظ یوسف بن زکی مزی (م742ھ) اور حافظ ذہبی (م748ھ) نے ’’تاریخ اسلام‘‘، ’’سیر اعلام النبلا‘‘ اور ’’تذکرۃ الحفاظ‘‘ میں اور ابوالفداء عمادالدین ابن کثیر (م774ھ) نے ’’البدایہ والنہایہ‘‘ میں رجال پر شاندار کام کیا ۔
نویں صدی ہجری میں حافظ ابن حجر (م852ھ) نے اس فن پر اس حد تک گراں قدر کام کیا کہ رواۃ پر حکم کے معاملے کو حتمی شکل دے دی۔ ان کی کتب میں ’’الاصابہ فی تمییز الصحابہ‘‘، ’’تہذیب التہذیب‘‘ اور ’’تقریب التہذیب‘‘ بہت معروف ہیں۔ تقی الدین بن فہد (م 871ھ) نے بھی اس فن پر قابلِ ذکر کام کیا ۔
دسویں صدی ہجری میں شمس الدین سخاوی (م902ھ) اور امام سیوطی (م 911ھ) نے بھی اس فن پر کام کیا ۔
گیارھویں صدی ہجری کے رجال کے متعلق محمد المحبی نے ’’خلاصہ الاثرفی اعیان القرن الحادی عشر‘‘ لکھی اور بارہویں صدی ہجری میں اسماء الرجال کے متعلق ابوالفضل محمد خلیل بن علی المرادی (م1206ھ) نے ’’سلک الدررفی اعیان القرآن الثانی عشر‘‘ لکھی ۔ (علوم الحدیث: تاریخی مطالعہ: ڈاکٹر عبدالرؤف ظفر)
چنانچہ اس فن اسماء الرجال پر تحقیق کا یہ سلسلہ پہلی صدی ہجری سے لے کر اب تک جاری ہے۔ اس کی ایک تازہ مثال یہ ہے کہ : شیخ احمد جو کوئی عالم دین نہیں بلکہ ایک ضعیف العمر انجینئر تھے انہوں نے 45 ضخیم جلدوں میں اسماء الرجال کا ایک ’’موسوعہ‘‘ تیار کیا ہے اس کے قلمی نسخے سے محققین استفادہ کر رہے ہیں لیکن یہ کتاب تاحال طبع نہیں ہوسکی ۔
کتب احادیث کے طبقات
محدثین نے روایات کی صحت و قوت کے لحاظ سے ان ادوار میں تیار ہونے والی تمام کتب حدیث کو چار طبقات پر تقسیم کیا ہے ۔
طبقہ اولیٰ میں موطا امام مالک، صحیح بخاری اور صحیح مسلم تینوں کتابیں شامل ہیں جو صحت سند اور راویوں کی ثقاہت کے اعتبار سے اعلیٰ مقام رکھتی ہیں۔
طبقہ ثانیہ میں سنن ابوداؤد، سنن ترمذی، سنن نسائی شامل ہیں کیونکہ ان کتابوں کے بعض راوی ثقاہت کے اعتبار سے طبقہ اولیٰ کے مقابلے میں کمزور ہیں لیکن ان کو بہر حال قابل اعتماد مانا جاتا ہے۔ شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ (م1176ھ) نے موطا امام مالک کو اپنی تحقیق کے مطابق صحیحین سے بھی بہتر درجہ دیا ہے۔
(ملاحظہ ہو حجۃ اﷲ البالغہ ج: 1)
طبقہ ثالثہ میں سنن دارمی (225ھ)، سنن ابن ماجہ (273ھ)، سنن بیہقی (457)، سنن دار قطنی (385ھ) طبرانی کی معاجم (360ھ) امام طحاوی کی کتب (221ھ) مسند شافعی (204ھ) اور مستدرک حاکم (405ھ) شامل کی جاتی ہیں۔ ان کتابوں میں صحیح، حسن اور ضعیف ہر قسم کی روایات موجود ہیں لیکن قابل اعتماد روایات کا عنصر غالب ہے ۔
طبقہ رابعہ میں ابن جریر طبری (310ھ) خطیب بغدادی (463ھ) ابو نعیم (403ھ) ابن عساکر (371ھ) دیلمی (509ھ) ابن عدی (365ھ) ابن مردویہ (410ھ) واقدی (207ھ) اور اسی نوع کے دوسرے مصنفین کی کتابیں شامل ہیں۔ ائمہ جرح و تعدیل کے نزدیک یہ تالیفات زیادہ تر کمزور اسناد سے مروی روایات کا مجموعہ ہیں لیکن ان کمزوریوں اور تسامحات سے ہٹ کر یہی کتب، تاریخ، اخلاقیات اور علوم و معارف کا بیش بہا خزانہ ہیں۔ عصر حاضر میں یہ کتب بھی نئی تحقیق و تخریج کے ساتھ چھپ کر مکتبوں کی زینت بن چکی ہیں اور ان کے حواشی پر محققین نے ان کی صحت و ضعف کی نشاندہی کردی ہے ۔
کتب احادیث کی اقسام
تدوین احادیث کا چوتھا دور پانچویں صدی ہجری کے نصف آخر کے بعد شروع ہوتا ہے اس دور کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں سند کی تحقیق کا کام مکمل ہوچکا تھا اس لئے اس دور میں مرتب کی جانے والی کتب میں سند اور مکررات کو حذف کر دیا گیا ہے ۔
اپنی روایت اور سند کے ساتھ احادیث جمع کرنے والے محدیثین کرام علیہم الرّحمہ میں آخری کڑی کے طور پر امام بہقی رحمۃ اللہ علیہ (م457ھ) بطور خاص قابل ذکر ہیں یعنی ان پر روایت و تخریج کا سلسلہ ختم ہوتا ہے اوران کے بعد جتنے ائمہ نے کام کیا انہوں نے مندرجہ بالا مرتب مجموعوں سے ہی نئی تبویب و ترتیب اور ضرورت کے تحت احادیث جمع کیں اور مذکورہ بالا علوم حدیث کے تحت مزید بہتر مجموعے تیار ہوئے ۔ اہم کتب کی شروعات، حواشی اورتلخیص پر کتب کا آغاز ہوا اور الگ موضوعات پر مستقل کتب وجود میں آنے لگیں ۔
کتب حدیث کو ہم درج ذیل عنوانات دے سکتے ہیں مثلاً کتب المسانید، کتب السنن، کتب المستدرکات، کتب المستخرجات، کتب غریب الحدیث، کتب الاطراف، کتب الامالی، کتب الزھد، کتب التشریحات، کتب المختصرات، کتب المنتخبات اور کتب الابعین۔ ان کتب احادیث کی ہرقسم میں درجنوں کتب ہیں ۔ (طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment