Wednesday, 31 January 2018

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کی داڑھی مبارک کا حُسین تذکرہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کی داڑھی مبارک کا حُسین تذکرہ

آج کے پر فتن دور میں جہاں اور فتنے ہیں وہاں ایک فتنہ نبی کریم صلي الله عليه وآله وسلم محبوب سنت داڑھی مبارک کی مختلف انداز میں توہین کرنے کا فتنہ بھی موجود ہے کبھی خشخشی داڑھی رکھ کر توہین کرتے ہیں ، کبھی داڑھی کے توہین آمیز ڈیزائن بنا کر توہین کرتے ہیں ان حالات میں فقیر ڈاکٹر فیض احمد چشتی نے اپنے تئیں مختصر سی کوشش کی ہے کہ ایسی احادیث مبارکہ جمع کردوں جن میں نبی کریم صلي الله عليه وآله وسلم ریش مبارک کا حُسین و جمیل تذکرہ موجود ہے سو یہ گلدستہ پیش خدمت ہے پڑھیئے پیارے نبی صلي الله عليه وآله وسلم کی مبارک داڑھی کا تذکرہ اور اس فقیر پُر تقصیر کو دعاؤں میں یاد رکھیئے گا ۔

نبی کریم رؤف الرّحیم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ریش مبارک گھنی اور گنجان ہوتے ہوئے بھی باریک اور خوبصورت تھی، ایسی بھری ہوئی نہ تھی کہ پورے چہرے کو ڈھانپ لے اور نیچے گردن تک چلی جائے۔ بالوں کا رنگ سیاہ تھا، سرخ و سفید چہرے کی خوبصورتی میں ریشِ مبارک مزید اِضافہ کرتی ۔ عمر مبارک کے آخری حصہ میں کل سترہ یا بیس سفید بال ریش مبارک میں آگئے تھے لیکن یہ سفید بال عموماً سیاہ بالوں کے ہالے میں چھپے رہتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ریش مبارک کے بالوں کو طول و عرض سے برابر کٹوا دیا کرتے تھے تاکہ بالوں کی بے ترتیبی سے شخصی وقار اور مردانہ وجاہت پر حرف نہ آئے ۔

حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ - رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کے سر کے اگلے بال اور داڑھی کے ( کچھ) بال سفید ہوگئے تھے،جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم تیل لگاتے تو وہ سفیدی معلوم نہیں ہوتی تھی اور جب بال بکھرے ہوئے ہوتے تھے تو سفیدی ظاہر ہوتی تھی ، وَكَانَ كَثِيرَ شَعْرِ اللِّحْيَةِ ۔ آپکی داڑھی مبارک بہت گھنی تھی ،ایک شخص نے کہا کہ آپ کا چہرہ تلوار کی طرح تھا؟انہوں نے کہا، نہیں!بلکہ سورج اور چاند کی طرح تھا ،آپ کا چہرہ گول تھا،میں نے آپ کے کندھے کے پاس کبوتر کے انڈے کے برابر مہرِ نبوت دیکھی، جس کا رنگ جسم مبارک کے رنگ کے مشابہ تھا۔ (صحیح مسلم:۲۳۴۴)

حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے : كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْسَ بِالطَّوِيلِ وَلا بِالْقَصِيرِ، ضَخْمُ الرَّأْسِ وَاللِّحْيَةِ ۔
ترجمہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کا قد مبارک نہ بڑا تھا نہ چھوٹا ، آپ کا سر مبارک بڑا اور داڑھی مبارک بھی بڑی تھی ۔ (مسند الامام احمد :۱؍ ۹۶،۱۲۷، وسندہ حسن) اس حدیث کو امام حاکم رحمہ اللہ (۲؍۶۰۲) نے ’’صحیح الاسناد‘‘ اور حافظ ذہبی نے ’’صحیح‘‘ کہا ہے ۔
حضرت ہشام بن حبیش بن خویلد سے روایت ہے کہ : حضرت امِّ معبد رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : وفي لحيته كثاثة : ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کی داڑھی مبارک گھنی تھی ۔ (المستدرک للحاکم :۳؍۹،۱۱،وسندہ حسن) اس حدیث کو امام حاکم رحمہ اللہ نے ’’صحیح الاسناد‘‘ اور حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔

یزید الفارسی کہتے ہیں کہ :میں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے زمانہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کو خواب میں دیکھا تو اس کا ذکر حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کیا ، آپ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم فرمایا : شیطان میری مشابہت اختیار کرنے کی طاقت نہیں رکھتا ، جس شخص نے مجھے خواب میں دیکھا ، اس نے مجھے ہی دیکھا ، تو اس شخص کی صفت بیان کرسکتا ہے ، جس کو تو نے خواب میں دیکھا ہے ؟ کہا ، ہاں درمیانے قد والا ، گندمی رنگ سفیدی کی طرف مائل ، آنکھیں بڑی بڑی گویا کہ سرمہ ڈالا ہوا ہو ، خوبصو رت مسکراہٹ اور شکل ، گول چہرہ قَدْ مَلَأَتْ لِحْيَتُهُ، مِنْ هَذِهِ إِلَى هَذِهِ قَدْ مَلَأَتْ نحرہ داڑھی جو سینے کو بھرے ہوئے تھی ، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرمانے لگے ، اگر تو جاگتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کو دیکھتا تو ان صفات کے سوا اور صفات بیان نہیں کر سکتا تھا ۔
(طبقات ابن سعد:۱؍۴۱۷،مصنف ابن ابی شیبہ:۱۱؍۵۱۵،۵۶،مسند ابن ابی شیبہ: (الاتحاف:۸۵۰۷)،مسند الامام احمد:۱؍۳۶۲۔۳۶۱،مسند ابی یعلیٰ: (الاتحاف:۵۸۰۸) الشمائل للترمذی:۳۹۳،ابن عساکر(السیرۃ النبویۃ:۱؍۲۳۰۔۲۲۹)،وسندہ حسن)
اس کا روای یزید الفارسی ’حسن الحدیث‘ ہے،اس کے بارے میں امام ابو حاتم الرازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:لا بأس به ’’ اس میں کوئی حرج نہیں۔‘‘ (الجرح والتعدیل:۹؍۲۹۴(
امام ترمذی رحمہ اللہ (۳۰۸۶) ،امام ابن حبان رحمہ اللہ (۴۳) اور امام حاکم رحمہ اللہ ۲؍۲۲۱،۳۳۰) نے اس کی ایک حدیث کو ’’صحیح‘‘ کہا ہے ،یہ اس کی ’’توثیق‘‘ ہے۔ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے۔ حافظ ہیثمی اس روایت کے بارے میں لکھتے ہیں :رجاله ثقات .اس کے راوی ثقہ ہیں۔‘‘(مجمع الزوائد:۸؍۲۷۲)

حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے : کان رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ضخم الرأس و اللحية.
ترجمہ : حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اِعتدال کے ساتھ بڑے سر اور بڑی داڑھی والے تھے ۔
(حاکم، المستدرک، 2 : 626، رقم : 4194)(احمد بن حنبل، المسند، 1 : 96)(بيهقي، دلائل النبوه، 1 : 216)(ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 1 : 411)(طبري، تاريخ الامم والملوک، 2 : 221)(ابن کثير، البدايه و النهايه (السيرة)، 6 : 17)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے : کان رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم أسود اللحية.
ترجمہ : حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ریش مبارک سیاہ رنگ کی تھی ۔
(بيهقي، دلائل النبوه، 1 : 217)(ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 1 : 433)(سيوطي، الخصائص الکبريٰ، 1 : 125، رقم : 4194)

حضرت اُمِ معبد رضی اللّٰہ عنھا جنہیں سفرِ ہجرت میں والی کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی میزبانی کا شرفِ لازوال حاصل ہوا، اپنے تاثرات اِن الفاظ میں بیان کرتی ہیں : کان رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم کثيف اللحية.
ترجمہ : رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ریشِ اقدس گھنی تھی ۔
(ابن جوزي، الوفا : 397)(حاکم، المستدرک، 3 : 10)(ابن عساکر، السيرة النبويه، 3 : 184)(سيوطي، الجامع الصغير، 1 : 38)(مناوي، فيض القدير، 5 : 77)

حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت ہند بن ابی ہالہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صفت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : کان رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم کث اللحية ۔
ترجمہ : حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی داڑھی مبارک گھنی تھی ۔
(نسائي، السنن، 8 : 183، کتاب الزينه، رقم : 5232)(ترمذي، الشمائل المحمديه1 : 36، رقم : 8)(احمد بن حنبل، المسند، 1 : 101، رقم : 796)(بزار، المسند، 2 : 253، 660
5. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 1 : 422)

حضرت سعید بن مسیب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعریف میں یوں گویا ہوئے : کان . . . أسود اللحية حسن الشعر . . . مفاض اللحيين.
ترجمہ : (حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی) ریش مبارک سیاہ، بال مبارک خوبصورت، (اور ریش مبارک) دونوں طرف سے برابر تھی ۔
(ابن عساکر، تهذيب تاريخ دمشق الکبير، 1 : 320)(هيثمي، مجمع الزوائد، 8 : 280)

عمر مبارک میں اضافے کے ساتھ ریش مبارک کے بالوں میں کچھ سفیدی آ گئی تھی۔ حضرت وہب بن ابوجحیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : رأيتُ النبي صلي الله عليه وآله وسلم، و رأيتُ بياضاً من تحت شفته السفلٰي العنفقة.
ترجمہ : میں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کی اور میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لبِ اقدس کے نیچے کچھ بال سفید تھے ۔
(بخاري، الصحيح، 3 : 1302، کتاب المناقب، رقم : 3352)(احمد بن حنبل، المسند، 3 : 216)(ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 1 : 434)

صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اپنے کریم آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہر ادا پر قربان ہو ہو جاتے تھے، حیاتِ مقدسہ کی جزئیات تک کا ریکارڈ رکھا جا رہا تھا۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے : و ليس في رأسه و لحيته عشرون شعرة بيضآءَ ۔
ترجمہ : حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ریش مبارک اور سر مبارک میں سفید بالوں کی تعداد بیس سے زائد نہ تھی ۔
(بخاري، الصحيح، 3 : 1302، کتاب المناقب، رقم : 3354)(مسلم، الصحيح، 4 : 1824، کتاب الفضائل، رقم : 3347)(ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 592، کتاب المناقب، رقم : 3623)(امام مالک، الموطا، 2 : 919، رقم : 1639)(احمد بن حنبل، المسند، 3 : 130)(عبدالرزاق، المصنف، 3 : 599، رقم : 6886)(ابن حبان، الصحيح، 14 : 298، رقم : 6378)(ابو يعلي، المعجم، 1 : 55، رقم : 25)(طبراني، المعجم الصغير، 1 : 205، رقم : 328)(شعب الايمان، 2 : 148، رقم : 1412)(ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 2 : 308)

کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ریش مبارک میں لب اقدس کے نیچے اور گوش مبارک کے ساتھ گنتی کے چند بال سفید تھے جنہیں خضاب لگانے کی کبھی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوئی یہی وجہ ہے کہ آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خضاب وغیرہ استعمال نہیں کیا اس حوالے سے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے : و لم يختضب رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ، إنما کان البياض في عنفقته و في الصَّدغين وفي الرأس نبذ ۔
ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کبھی خضاب نہیں لگایا، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نچلے ہونٹ کے نیچے، کنپٹیوں اور سر مبارک میں چند بال سفید تھے ۔ (مسلم، الصحيح، 4 : 1821، کتاب الفضائل، رقم : 2341)(بيهقي، السنن الکبريٰ، 7 : 310، رقم : 14593)(بيهقي، دلائل النبوه، 1 : 232)

ریشِ اقدس طویل تھی نہ چھوٹی ، بلکہ اِعتدال ، توازُن اور تناسب کا اِنتہائی دلکش نمونہ اور موزونیت لئے ہوئے تھی ۔

کان النبي صلي الله عليه وآله وسلم کان يأخذ من لحيته من عرضها وطولها ۔
ترجمہ : حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ریش مبارک کے طول و عرض کو برابر طور پر تراشا کرتے تھے ۔
(ترمذي، الجامع الصحيح، 2 : 100، ابواب الادب، رقم : 2762)(عسقلاني، فتح الباري، 10 : 350)(زرقاني، شرح المؤطا، 4 : 426)(سيوطي، الجامع الصغير، 1 : 263) (محمد بن عبدالرحمن مباکفوري، تحفة الاحوذي، 8 : 38)(قرطبي، تفسير، الجامع الأحکام القرآن، 2 : 105)(ابن جوزي، الوفا : 609)(مقريزي، امتاع الاسماع، 2 : 161) (نبهاني، الانوار المحمديه : 214)( شوکاني، نيل الاوطار، 1 : 142)

یا اللہ ہم مسلمانوں کی نبی کریم صلي الله عليه وآله وسلم کی مبارک سنتوں سے محبت عطاء فرما اور آپ صلي الله عليه وآله وسلم کی جملہ سنتوں پر عمل کرنے کی توفیق عطاء فرما نبی کریم صلي الله عليه وآله وسلم کی سنت کی مخالفت کرنے اور مذاق اڑانے والوں کے فتنہ و شر سے بچا آمین ۔(طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)









شرعی طور پر داڑھی کی حد

شرعی طور پر داڑھی کی حد

اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے : لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنۃ ۔ (الاحزاب۳۳/۲۱)
ترجمہ : بیشک تمہیں رسول اللہ کی پیروی بہتر ہے ۔

امام مالک و احمد و بخاری و مسلم و ابو داؤد و ترمذی و نسائی و طحاوی علیہم الرّحمہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے راوی ، حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم فرماتے ہیں : خالفو المشرکین احفوا الشوارب و اوفروا اللحیۃ ۔
ترجمہ : مشرکوں کے خلاف کرو، مونچھیںخوب پست کرو، اور داڑھیاں بڑھاؤ ۔
(صحیح البخاری ،کتاب اللباس،۲/۸۷۵،صحیح مسلم ،کتاب الطہارۃ،باب خصال الفطرۃ،۱/۱۲۹،سنن الترمذی،۵/۹۵،سنن النسائی المجتبی،۱/۱۶،سنن ابی داؤد،۴/۸۴،مسند احمد،۲/۱۶،شرح معانی الآثار،۴/۲۳۰،مؤطا ،۲/۹۴۷)

داڑھی ایک مشت یعنی چار انگل تک رکھنا واجب ہے (بعض نے سنت مؤکدہ لکھا ہے) اور اس سے کم کرنا نا جائز ہے ۔
شیخ محقق شاہ عبد الحق محدث دھلوی (۱۰۵۲ھ) لکھتے ہیں : گذاشتن آں بقدر قبضہ واجب است و آنکہ آنرا سنت گیند بمعنی طریقہ مسلو ک دین است یا بجہت آنکہ ثبوت آں بسنت است ، چنانکہ نماز عید را سنت گفتہ اند ۔
ترجمہ : داڑھی بمقدار ایک مشت رکھنا واجب ہے اور جو اسے سنت قرار دیتے ہیں وہ اس معنی میں ہے کہ یہ دین میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کا جاری کردہ طریقہ ہے یا اس وجہ سے کہ اس کا ثبوت سنت نبوی سے ہے جیسا کہ نماز عید کو سنت کہا جاتا ہے ۔ (اشعۃ اللمعات،کتاب الطہارۃ ، باب السواک ،۱/۲۱۲،فتاوی رضویہ،۲۲/۵۸۱،مطبوعہ جدید)

اور حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ تعالی عنہما سے مروی ہے : ان النبی صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کان یاخذ من لحیتہ من عرضھا و طولھا ۔
ترجمہ : حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم اپنی ریش مبارک کے بال عرض و طول سے لیتے تھے ۔ (جامع الترمذی،ابواب الآداب ، باب ما جاء فی الاخذ من اللحیۃ،۲/ ۱۰۰،امین کمپنی دھلی)

اعلی حضرت امام اھل سنت مولانا الشاہ احمد رضا خان محدث بریلوی رحمۃ اللہ علیہ (۱۳۴۰ھ) لکھتے ہیں : علماء فرماتے ہیں یہ اس وقت ہوتا تھا کب ریش اقدس ایک مشت سے تجاوز فرماتی بلکہ بعض نے یہ قید نفس حدیث میں ذکر کی ۔ (فتاوی رضویہ، ۲۲/ ۵۹۰،مطبوعہ جدید)

اعلی حضرت امام اھل سنت مولانا الشاہ احمد رضا خان محدث بریلوی رحمۃ اللہ علیہ (۱۳۴۰ھ) مزید لکھتے ہیں : اس سے زائد اگر طول فاحش حد اعتدال سے خارج بے موقع بد نما ہو تو بلا شبہہ خلاف سنت و مکروہ کہ صورت بد نما بنانا، اپنے منہ پر دروازہ طعن مسخریہ کھولنا ،مسلمانوں کو استہزاء و غیبت کی آفت میں ڈالنا ، ہرگز مرضی شرع مطہر نہیں ۔ (فتاوی رضویہ، ۲۲/ ۵۸۲،مطبوعہ جدید)

ان عبارات سے واضح ہوگیا کہ ایک مشت کی مقدار داڑھی رکھنا واجب ہے ، نیز حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کی داڑھی مبارک ایک مشت تھی ،جب تجاوز کرجاتی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم طول و عرض میں سے کم فرماتے ،لیکن ایک مشت ہمیشہ رہی،نیز اس قدر لمبی رکھنا کہ بد نما صورت ہوجائے مکروہ ہے ۔ (طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

داڑھی کی توہین کُفر ہے

داڑھی کی توہین کُفر ہے

سوال : ایک شخص نے مسلمان کی داڑھی کی توہین کر دی اس کو سمجھایا گیا کہ یہ سنت ہے اور سنت کی توہین کفر ہے آپ توبہ کر لیں مگر وہ نہ مانا ۔ پھر کچھ عرصے کے بعد اسے اچھی صحبت مل گئی ۔ اُس نے توبہ تو نہیں کی مگر داڑھی بڑھا لی اور نَمازی بھی بن گیا، تو کیا اس کا داڑھی کی توہین کرنے والا گناہ مُعاف ہو چکا ؟

جواب : داڑھی کی توہین کفر ہے اور جو مسلمان معاذ اللہ کفر بک کر مرتد ہو گیا تو اُس کے پچھلے تمام نیک اَعمال مثلاً نَماز، روزہ اور حج وغیرہ ضائِع ہو گئے اور آئندہ بھی کوئی نیک عمل مقبول نہیں جب تک سچی توبہ نہ کر لے لہٰذا اسے چاہیئے کہ وہ توبہ کر کے تجدیدِ ایمان ، تجدید نکاح اور تجدید بیعت کرے ۔ اسی طرح کے ایک سوال کے جواب میں اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان محدث بریلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : یہ (داڑھی) سنَن سے ہے اور اس کی سنیت قطعی الثبوت ، ایسی سنت کی تو ہین و تحقیر اور اس کے اِتباع پر اِستہزا(ہنسی مذاق) بالاجماع کُفر۔ عورت اس کے نکاح سے نِکل جائے گی اور بعد اس کے جو بچّے ہوں گے اولادِ حرام ہوں گے،اہلِ اسلام کو اس سے معاملۂ کفّار برتنا لازِم ، بعدِمرگ اس کے جنازہ کی نماز نہ پڑھیں اور مَقابرِ مسلمین(یعنی مسلمانوں کے قبرستان)میں دَفن نہ کریں بلکہ جہاں تک ممکن ہو اس جنازۂ ناپاک کی تذلیل کریں کہ اس نے ایسے عزّت والے نبی صلی اللہ علیہ وسلّم کی سُنَّت کو ذلیل سمجھا ۔ اَلْعِیَاذُ بِاللّٰہ ۔ (فتاویٰ رضویہ ،۲۲/۵۷۴)(طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

حضرت عدی بن حاتم طائی رضی اﷲ عنہ کے ایمان لانے کا واقعہ اور عقیدہ علم غیب

حضرت عدی بن حاتم طائی رضی اﷲ عنہ کے ایمان لانے کا واقعہ اور عقیدہ علم غیب

احادیث صحیحہ سے ثابت ہے کہ عدی بن حاتم کے اسلام قبول کرنے کے اسباب علم غیب کی باتیں ہوئیں جو انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم میں دیکھیں تو مسلمان ہوگئے ۔

وہ 9 ھجری میں مسلمان ہوئے ۔ ان کے اسلام لانے کا واقعہ بھی بڑا عجیب ہے ۔ وہ اپنی قوم کے سردار تھے۔ قوم پیداوار اور مال غنیمت کا چوتھائی حصہ ان کی نذر کیا کرتی تھی ۔ انہیں مسلمانوں سے سخت عداوت تھی، عیسائی تھے اور اسلام کو عیسائیت کا رقیب سمجھتے تھے اور سردار ہونے کی وجہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کا اقتدار ان کی آنکھوں میں کھٹکتا تھا ۔ ان کی سازش سے یمن کے قبیلے ’’طے‘‘ نے بغاوت کی۔ حضرت علی رضی اﷲ عنہ ان دنوں یمن کے گورنر تھے۔ انہوں نے بغآوت کو ختم کیا اور بغاوت کے لیڈروں کو گرفتار کرکے مدینہ بھیج دیا۔ ان میں عدی کی بہن سفانہ بنت حاتم بھی تھی، وہ بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کے سامنے پیش ہوئی تو اس نے کہا کہ میں سخی حاتم طائی کی بیٹی ہوں، میرا باپ بھوکوں کا پیٹ بھرتا تھا اور غریبوں پر رحم کرتا تھا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم نے فرمایا : تیرے باپ میں مسلمانوں کی سی خوبیاں تھیں۔ عدی کی بہن نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم سے پھر عرض کیا کہ میری آپ سے ایک درخواست ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم اس کو قبول فرماکر مجھ کوشکریہ کا موقع دیجئے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم نے فرمایا وہ کیا۔ عدی کی بہن نے کہا کہ : ملک الوالد وغاب الوافد، فامنن علی من اﷲ علیک ۔
یعنی میرا والد فوت ہوا میرا محافظ یعنی بھائی) بھاگ گیا آپ مجھ پر احسان فرمائیں (یعنی آزاد کردیں) اﷲ تعالیٰ آپ پر احسان فرمائے گا۔ (معرفۃ الصحابۃ لابی نعیم الاصبہانی باب السین، سفانۃ بنت حاتیم طائی، الجزء ۲۳)

میرا بھائی آپ کی فوج سے خوفزدہ ہوکر شام کے علاقہ میں بھاگ گیا ہے۔ آپ مجھ کو اجازت دیں کہ میں اس کو لے آئوں اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم اس کے لئے ایک امن نامہ لکھ دیجئے۔ یہ سن کر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم چپکے سے چلے گئے اور کچھ جواب نہیں دیا۔ دوسرے روز پھر وہاں سے آپ کا گزر ہوا تو پھر اس نے وہی درخواست دہرائی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم نے فرمایا۔ تم جلدی کیوں کرتی ہو، جب تمہارے علاقہ سے کوئی آئے گا جس پر تم کو اعتماد ہو، اس کے ساتھ چلی جانا۔ چنانچہ چند یوم بعد ان کے رشتہ داروں میں سے چند اشخاص آگئے۔ عدی کی بہن کہتی ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم سے عرض کیا کہ میرے رشتہ داروں میں سے ایسے لوگ آگئے ہیں جن پر مجھ کو اعتماد ہے، یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم نے میرے لئے کپڑے کے جوڑے بھیج دیئے اور میرے لئے زادراہ اور سواری مہیا فرمائی ۔ میں اپنے قرابت داروں کے ساتھ بھائی کے پاس پہنچ گئی۔ عدی فرماتے ہیں کہ میں اپنے بال بچوں میں بیٹھا ہوا تھا کہ دور سے مجھ کو چند سواریاں نظر آئیں، وہ دیکھتا کیا ہوں کہ میری بہن ہے۔ ابھی سواری سے اتری بھی نہ تھی۔ کہ مجھ کو برا بھلا کہنا شروع کیا کہ تو بڑا ظالم ہے، قاطع رحم ہے۔ اپنے بال بچوں کو اٹھا کر لے گیا اور بہن کو یہاں چھوڑ گیا۔ چونکہ باتیں سچ تھیں اور میرے پاس کوئی عذر بھی نہ تھا، میں بہت شرمندہ ہوا میں نے کہا۔ مجھ کو معاف کردے پھر میں نے اپنی بہن سے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کے متعلق استفسار کیا۔ انہوں نے کہا کہ میرا تو خیال ہے کہ تم جلدی ان کی خدمت میں حاضر ہوجائو۔ اگر وہ نبی ہیں تو تم کو جلدی سبقت کرنی چاہئے اور اگر وہ بادشاہ ہیں تو تمہاری عزت میں کوئی فرق نہیں آئے گا۔ میں نے کہا ٹھیک ہے اور میں ان کے ساتھ سوار ہوکر مدینہ پہنچ کر مسجد نبوی میں داخل ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم مسجد نبوی میں تشریف فرما تھے۔ میں نے سلام کیا ۔
آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم نے فرمایا عدی بن حاتم طائی ہ و۔ آپ مجھکو اپنے ساتھ گھر لے چلے ، راہ میں ایک بڑھیا نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم سے باتیں شروع کریں ۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم وہیں کھڑے رہے۔ جب تک بڑھیا کی داستان ختم نہ ہوئی، میں نے سوچا کہ بادشاہ اس طرح ضعیفہ بڑھیا عورتوں کے روکنے سے نہیں رکا کرتے۔ محمد بادشاہ نہیں ہیں۔ گھر میں داخل ہوئے جس گدے پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم بیٹھا کرتے تھے، میری طرف سرکا دیا۔ گدا ایک ہی تھا۔ میں نے عرض کیا۔ نہیں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم اس پر بیٹھئے ! فرمایا ، نہیں آپ بیٹھیں چنانچہ میں گدی پر بیٹھ گیا ۔ اور رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم زمین پر بیٹھ گئے۔ اب مجھے یقین ہوگیا کہ آپ بادشاہ ہرگز نہیں ہیں۔ بیٹھتے ہی فرمایا کہ عدی تم رکوسی ہو (رکوسی عیسائیوں کا ایک فرقہ تھا)
میں نے جواب دیا ہاں پھر فرمایا تم اپنی قوم سے پیداوار اور مال غنیمت لیتے ہو، میں نے کہا جی ہاں ۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم نے فرمایا کہ یہ تمہارے دین کے تو خلاف ہے۔ عدی نے کہا بے شک۔ اب میں نے دل میں سوچا کہ ہو نہ ہو، یہ نبی ہیں پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم نے فرمایا۔ اے عدی تم کو یہ امر مانع ہوا کہ مسلمان نہایت مفلس، قلاش اور غریب ہیں، عدی وہ وقت آنے والا ہے کہ مسلمانوں کے پاس اتنا مال آئے گا کہ کوئی زکوٰۃ لینے والا نہیں ملے گا۔ اے عدی شاید تم کو یہ چیز مانع ہے کہ مسلمانوں کے مقابلہ میں بڑی بڑی زبردستی سلطنتیں ہیں۔ دشمنوں کے پاس بے شمار فوجیں اور وہ ہر طرح کے ہتھیاروں سے مسلح ہیں۔ عدی وہ وقت آنے والا ہے کہ مسلمانوں کی سلطنت اتنی وسیع ہوجائے گی اور ایسا زبردست انتظام ہوگا کہ ایک عورت تن تنہا قادسیہ (کوفہ سے کئی میل دور فاصلہ پر ہے) سے چلے گی اور خوفناک جنگلوں کو طے کرتی ہوئی مدینہ میں داخل ہوجائے گی۔ عدی شاید تم کو یہ مانع ہے کہ سردست مسلمانوں کی سلطنت بہت تھوڑی ہے۔ عدی خدا کی قسم ایک وقت آنے والا ہے کہ اسلامی فوجیں کسریٰ جیسی سلطنت کو پاش پاش کر ڈالیں گی۔ عدی! کیا ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ تم پڑھو (اﷲ اکبر) اﷲ بہت بڑا ہے۔ حضرت عدی کہتے ہیں کہ یہ تقریر سن کر میں اسی وقت مسلمان ہوگیا اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کا چہرہ خوشی سے چمک اٹھا ۔

عقائد علم غیب کی تصدیق

یہی حضرت عدی رضی اﷲ عنہ جو حاتم طائی مشہور سخی کے صاحبزادے ہیں ، خود علم غیب کی تصدیق فرماتے ہیں کہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم نے اس وقت جو تین امور (علم غیب) بیان فرمائے، وہ میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا (تیسری بات بھی پوری ہوگی) ان شاء اﷲ
(1) میرے سامنے کسریٰ کی زبردست سلطنت پاش پاش ہوگئی ۔

(2) میری آنکھوں کے سامنے قادسیہ سے ایک عورت تن تنہا خطرناک جنگلوں کو طے کرتی ہوئی صحیح و سلامت مدینہ طیبہ پہنچ گئی ۔

مجھے یقین ہے کہ تیسری بات بھی پوری ہوگی ۔

(3) چنانچہ یہ تیسرا امر (غیبی) حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے دور خلافت میں پوراہوا کہ لوگوں کو زکوٰۃ لینے والا نہیں ملتا تھا۔
وفات
حضرت عدی رضی اﷲ عنہ نے 120 سال کی عمر پاکر 68 ھجری میں مختار ثقفی کے دور میں کوفہ میں انتقال فرمایا (الاصابۃ فی تمیز الصحابۃ لابن حجر، ج 2)
فوائد و عقائد
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کا خلق عظیم ایسا ہے کہ نہ صرف غیر معترف ہیں بلکہ اس کے اثر سے سخت مخالفین بھی قبول اسلام پر مجبور ہوئے جو کہتے ہیں کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا، اس واقعہ سے ان کی تردید ہوتی ہے کہ حاتم طائی کی بیٹی کے تاثرات بتاتے ہیں کہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم نے اسلام تلوار کے زور سے نہیں، خلق و کمال سے پھیلایا ۔

عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ کے تعارف کے بغیر ان کے حالات خود بتائے کہ رکوسی ہو اور قوم سے پیداوار اور غنیمت وصول کرتے ہو اور ساتھ فرمایا یہ تمہارے دین کے خلاف ہے اور ان کے دل کی بات بھی ظاہر کردی کہ تم کو دین اسلام میں داخل ہونے سے فلاں امر مانع ہے ۔ حضرت عدی رضی اﷲ عنہ کو انہی امور کی تصدیق نے اسلام لانے پر مجبور کردیا اور یہی علم غیب کی تصدیق ہے جس نے کافروں کو مسلمان بلکہ صحابی جیسا مرتبہ عطا فرمایا لیکن بدقسمتی سے آج اسلام کا ٹھیکیدار بن کر ایک گروہ علم غیب کی تصدیق کرنے والوں کو مشرک بنائے جارہا ہے ۔ عجب رنگ ہیں زمانے کے ۔

حضرت عدی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم نے مستقبل کی تین باتیں بتائیں ۔ جو علم غیب (مافی غد یعنی کل کیا ہوگا) سے متعلق تھیں ، حضرت عدی بن حاطم رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے دو آنکھوں سے دیکھی ہیں تیسری بھی ہوکر رہے گی ۔ یہ ہے صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم کا عقیدہ (عقائد صحابہ، ص37)۔(طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

داڑھی مبارک کا مذاق اڑانا کفر ہے

داڑھی مبارک کا مذاق اڑانا کفر ہے

محترم قارئین : فقیر ڈاکٹر فیض احمد چشتی نے آج کے پر فتن دور میں دیکھا اور سوشل میڈیا پر لوگوں کے کمنٹس و بعض تحریریں پڑھیں ۔ ایک شخص داڑھی نہیں رکھتا یہ ترک سنت کے گناہ کا مرتکب ہے مگر بعض جہلاء نام نہاد لبرل مسلمان جو خود بھی داڑھی نہیں رکھتے اور داڑھی مبارک کا مذاق اڑاتے ہیں ایسے لوگوں کے جواب اور سادہ لوح مسلمانوں کے ایمان کے تحفظ کےلیئے فقیر ڈاکٹر فیض احمد چشتی نے سر دست یہ مختصر مضمون ترتیب دیا ہے پڑھیں اور دعاؤں میں یاد رکھیں :

مردوں کے لیئے داڑھی رکھنا واجب ‘ اس کی شرعی مقدار ایک قبضہ یعنی ایک مشت اور داڑھی رکھنا اسلامی اور مذہبی شعار ‘ تمام انبیاء کرام علیہم السلام کی متفقہ سنت اور قومی شعار، اور شرافت و بزرگی کی علامت ہے اسی سے مردانہ شکل وصورت کی تکمیل اور صورت نورانی ہوتی وتی ہے‘ آنحضرت صلی اللہ کا دائمی عمل ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فطرت سے تعبیر فرمایا ہے‘ لہذا داڑھی رکھنا ضروری ہے اور منڈانا یا ایک مٹھی سے پہلے کترانا حرام اور گناہ ہے ۔

داڑھی تمام انبیاء کرام علیہم الصلوات والتسلیمات کی متفقہ سنت ، مردانہ فطرت اور شعارِ اسلام ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم نے بار بار داڑھی رکھنے کا حکم فرمایا ہے او راسے صاف کرانے پر غیظ وغضب کا اظہار فرمایا ہے ، یہی وجہ ہے کہ داڑھی رکھنا تمام ائمہ اربعہ علیہم الرّحمہ کے ہاں متفقہ طور پر واجب ہے اور منڈانا ایک مٹھی سے کم ہونے کی صورت میں کترانا بالاتفاق حرام، گناہ کبیرہ ، فسق، فطرتِ انسانی کی خلاف ورزی، شرافتِ انسانی کی توہین، جملہ انبیائے کرام علیہم السلام کی مخالفت اور اغوا ئے شیطان سے الله تعالیٰ کی تخلیق کو بگاڑنا ہے ، عورتوں کے ساتھ مشابہت کی بنا پر موجبِ لعنت ہے، مجوس، مشرکین، یہود ونصاری، فساق وفجار اور مغاربہ کا شیوہ ہے، تمام اولیاء الله او راکابر امت کی عملاً مخالفت ہے ، نماز، روزہ، حج غرض ہر عبادت کے دوران ساتھ رہنے والا گناہ ہے وغیرہ وغیرہ ۔

باقی یہ کہنا کہ” داڑھی تو اتنی رکھنا ضروری ہے کہ جس کا چالیس قدم کے فاصلے سے پتہ چل جائے اور داڑھی کی کم مقدار متعین نہیں جتنی بھی ہو بس داڑھی ہو او رحضرت عمر رضی الله عنہ کی داڑھی ایک مٹھی سے کم تھی وغیرہ “ بے بنیاد اور بے دلیل ہے ، دشمنانِ دین کا پروپیگنڈہ ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم او رحضرات صحابہ کرام رضوان الله تعالی علیہم اجمعین پر بہتان تراشی ہے ۔

حدیث شریف میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک نقل فرماتی ہیں : ”عشر من الفطرة قص الشارب واعفاء اللحیة․․․ الخ“ ۔ (مسلم ج:۱‘ص:۱۲۹)
ترجمہ : دس چیزیں فطرت میں سے ہیں : (1) مونچھوں کا کتروانا ۔ (2) داڑھی بڑھانا ۔ (3) مسواک کرنا ۔ (4) ناک میں پانی ڈال کرناک صاف کرنا ۔ (5) ناخن تراشنا ۔ (6) بدن کے جوڑوں کو دھونا ۔ (7) بغل کے بال اکھاڑنا ۔ (8) زیر ناف بال صاف کرنا ۔ (9) پانی سے استنجاء کرنا‘ راوی کو دسویں چیز یاد نہ رہی‘شارحین فرماتے ہیں : ممکن ہے کہ وہ کلی کرنا ہ و۔ اس حدیث میں جوکہ سنداً نہایت قوی حدیث ہے‘ دس چیزوں کو جن میں سے داڑھی کا بڑھانا اور مونچھوں کا کترانا بھی فطرت بتلایا گیا ہے اور فطرت عرف شرع میں ان امور کو کہا جاتا ہے جوکہ تمام انبیاء اور رسل علیہم السّلام کی معمول بہ اور متفق علیہ سنت ہو اور امت کو ان پر عمل کرنے کا حکم ہو ۔

صاحب مجمع البحار اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں : ”عشر من ”الفطرة“ ای من السنة ای سنن الانبیاء علیہم السلام التی بالاقتداء بہم فیہا ای من السنة القدیمة التی اختارہا الانبیاء علیہم السلام‘ واتفقت علیہا الشرائع فکأنہا امر جبلی فطروا علیہ“۔ (مجمع البحار‘ ج:۴‘ ص:۱۵۵)
ترجمہ : دس چیزیں فطرت (سنت) میں سے ہیں یعنی انبیاء کرام علیہم الصلاة والسلام کی ان سنتوں میں سے ہیں جن کی اقتداء کا ہمیں حکم دیا گیا یعنی اس سنت قدیم میں سے ہے جس کو انبیاء کرام علیہم السلام نے اختیار فرمایا اور اس پر تمام شرائع متفق ہیں‘ گویا کہ وہ امر جبلی ہے جس پر تمام انبیاء علیہم السلام کو پیدا کیا گیا ہے ۔

امام نووی رحمۃ اللہ علیہ شرح مسلم میں فرماتے ہیں : ”قالوا: ومعناہ انہا من سنن الانبیاء صلوات اللہ وسلامہ علیہم“ ۔(نووی شرح مسلم‘ ج:۱‘ ص:۱۲۸)
ترجمہ : فطرت کے معنی یہ ہے کہ وہ تمام انبیاء کرام علیہم السلام کی سنتوں میں سے ہے ۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وَلَئِن سَأَلْتَهُمْ لَيَقُولُنَّ إِنَّمَا كُنَّا نَخُوضُ وَنَلْعَبُ قُلْ أَبِاللَّهِ وَآيَاتِهِ وَرَسُولِهِ كُنتُمْ تَسْتَهْزِؤُونَ -لاَ تَعْتَذِرُواْ قَدْ كَفَرْتُم بَعْدَ إِيمَانِكُمْ ۔ (سورہ توبہ ،آیت نمبر ، 65 ، 66 )

ترجمہ : (65) اور اے محبوب اگر تم ان سے پوچھو تو کہیں گے کہ ہم تو یونہی ہنسی کھیل میں تھے تم فرماؤ کیا اللہ اور اس کی آیتوں اور اس کے رسول سے ہنستے ہو،
(66) بہانے نہ بناؤ تم کافر ہو چکے مسلمان ہو کر اگر ہم تم میں سے کسی کو معاف کریں تو اوروں کو عذاب دیں گے اس لیے کہ وہ مجرم تھے ۔

عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ غزوہ تبوک میں ایک شخص نے ایک مجلس میں مذاق اڑاتے ہوئے کہا : '' ہم نے اپنے ان قاریوں سے بڑھ کر پیٹ کا پجاری ، زبان کا جھوٹا اور لڑائی کے میدان میں بزدل اور ڈرپوک نہیں دیکھا '' اس مجلس کے ایک دوسرے شخص نے کہا : '' تو جھوٹا ہے ، منافق ہے ، میں اس کی اطلاع نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ضرور دونگا '' جب نبی کریم علیہ السلام کو یہ خبر پہنچی تو اس بارے میں قرآن حکیم کی مذکورہ آیت نازل ہوئی ـ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ : '' میں نےاس منافق کو دیکھا کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی کا پالان پکڑا ہوا ہے اور پتھروں پر سے گھسٹتا ہوا جا رہا ہے اور کہ رہا ہے :'' ائے اللہ کے رسول ! ہم تو ہنسی مذاق اور تفریح کر رہے تھے '' ـ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ فرماتے جا رہے تھے : '' کیا تم اللہ ، اس کی آیتوں اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مذاق کر رہے تھے ـ"
(تفسیر طبری ، ابن ابی حاتم ، حسن لشواہدہ )ـ
محترم قارئین : مذکورہ آیت کریمہ اور حدیث پاک سے یہ معلوم ہوا کہ دین کا ، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کا ، یا اللہ تعالٰی کا ، یا شریعت کا ، یا دین کے کسی مسئلہ کا ، مذاق اڑانا کتنا بڑا اور خطر ناک گناہ ہے ، جس سے آدمی بسا اوقات دین سے خارج ہو جاتا ہے ـ

اس لیئے دین کا ، یا دین کے متعلق کسی بھی مسئلہ کا خواہ بطور تفریح ہی سہی ، مذاق اڑائیں ، کیونکہ جو شخص بھی دین سے متعلق کسی بھی چیز یا مسئلہ کا مذاق اڑائے ، مثلا :: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کا مذاق ، مسواک کا مذاق ، داڑھی کا مذاق ، یا شرعی پردے کا مذاق ، یا زنا کا مذاق ، شراب اور قتل کی سزا کا ، جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم نے مشروع کیا ہے ، یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہ اسلام کا حکم ہے ، یا وہ اللہ تعالی کو گالی دیتا ہے ،یا دین و شریعت کو بر بھلا کہتا ہے ، یا رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کی رسالت اور شخصیت پر حملہ کرتا ہے تو اس میں شک نہیں کہ ایسا آدمی ان باتوں سے دین سے خارج ہوجاتا ہے اور اس کے دل میں ذرہ برابر بھی ایمان نہیں ہے ـ

محترم قارئین : یاد رکھیں کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کے ساتھ استہزا و مذاق کے ضمن میں درج ذیل باتین بھی داخل ہیں : قرآن مجید کا، یا اللہ تعالٰی کی آیتوں کا ، یا اس کے اسما ء و صفات کا مذاق اڑانا ، یا رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث پاک اڑانا ، یا کسی صحیح حدیث کا انکار کرنا ، یا قرآن و حدیث لکھے ہوئے اوراق کو کوڑے یا نجاست کی جگہوں میں ڈالنا ، یا جس اخبار یا جریدہ میں اللہ تعالٰی کے اسماء و صفات لکھے ہوئے ہوں ، اس پر کھانا کھانا ، نیز مدارس کےنصاب و کورس کی کتابوں کو جن میں قرآن آیات یا حدیث رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم لکھے ہوئے ہوں ، قصدا پٹخنا یا بے حرمتی کے ساتھ پھینکنا وغیرہ تمام باتیں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کے مذاق میں داخل ہیں ـ

جولوگ داڑھی والوں کا مذاق اس لیے اڑاتے ہیں کہ داڑھی رکھنے والوں نے اپنے چہروںپرسنت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کوسجارکھا ہےاوروہ لوگ اسے ناپسند کرتے ہیں توایسے لوگوں کا صرف نکاح ہی نہیں ایمان بھی ختم ہوجاتاہے، ان پرلازم ہے کہ ایمان اورنکاح دونوں کی تجدید کریں اورآئندہ کے لیے سنت نبوی کی توہین سے باز رہیں۔ داڑھی رکھنے والوں پربھی لازم ہے کہ وہ خود بھی داڑھی کا احترام اورلحاظ رکھیں یعنی ایسی حرکات اور ایسے اعمال سے اجتناب کریں جن کی وجہ سے لوگ داڑھی کی توہین کے جرم میں مبتلاء ہوں ۔

جو داڑھی کٹواتا ہو اور اس کی داڑھی حدِ شرع سے کم ہو اس کو تراویح کی امامت کرانا ہر گر جائز نہیں، ایسا شخص فاسق معلن ہے۔ فتاوی رضویہ میں ہے: داڑھی ترشوانے والے کو امام بنانا گناہ ہے اس کے پیچھے نماز مکروہ تحریمی کہ پڑھنی گناہ اور پھیرنی واجب ہے ۔ (فتاوی رضویہ: 603/6)

کچھ حفاظ رمضان آنے سے پہلے داڑھی بڑھالیتے ہیں اور بعد میں کٹوادیتے ہیں، ہرگز ایسے حفاظ تراویح کی امامت کے قابل نہیں، جب متشرع ودین دار حافظ، قاری، عالم امام موجود ہیں تو ان کی موجودگی میں ایسے افراد کو نماز تراویح کا امام بنانا ہر گز جائز نہیں، اس مسئلہ کی مزید تفصیل تفہیم المسائل 475/4پر ملاحظہ کی جاسکتی ہے۔

داڈھی رکھنا واجب ہے مگر اس کا ثبوت سنت یعنی حدیث سے ہے ۔اسی لیے بعض لوگ سنت کہ دیتے ہیں ۔چناچہ شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃاللہ علیہ تحریر فر ماتے ہیں ۔یہ جو کہا جاتا ہے کہ داڈھی سنت ہے اسکا مطلب یہ ہے کہ یہ اسلامی طریقہ ہے یا اس کا واجب ہونا حدیث سے ثابت ہوا ہی۔بلکہ ہر واجب سنت ہی سے ثابت ہوتا ہی۔جیسے کہ در مختار باب وتر میں ہے یعنی نماز وتر کے واجب ہونے کا ثبوت سنت سے ثابت ہوا ہے نہ کہ قرآن سی(لمعات شرح مشکوۃ)
داڈھی کو سنت کہنا ایسا ہے جیسے کہ قربانی کوسنت ابراہیم علیہ اسلام کہا جاتا ہے ۔پس جب کہ قربانی کو سنت ابرہیمی کہنے سے یہ قربانی فرض ہونے سے نکل کر مستحب نہیں بن جاتی ۔اسی طرح داڈھی کو سنت رسول کہدینے سییہ واجب ہونے سے نہیں نکل جاتی بلکہ اس کا منڈوانا حرام ہی رہتا ہے ۔ خالقواالمشرکین ووفرواللحی واحفو الشوارب۔ مسلم۔ مشرکین کے طریق سے خلاف رہو اور بڑھاؤ داڑھیوں کو اور کم کرو مونچھوں کو ۔ جز الشوارب وارخو اللحی خالقوا المجوس ۔ بخاری ۔ کتراو مونچھوں کو اور بڑھاؤ داڑھیوں کو ۔خلاف کرو مجوسیوں کے ۔ من لم یا خذ من شاربہ فلیس منا ۔ترمذی۔ جو شخص مونچھیں کم نہ کرائے وہ ہم میں سے نہیں۔عشر من الفطرۃ قص الشارب واعفاء اللحیۃ ۔ابو داؤد وغیرہ ۔ دس چیزیں فطرت سے ہیں مونچھوں کا کٹوانا ،داڑھی کا بڑھانا ،مسواک کرنا وغیرہ۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما جب حج یا عمرہ سے فارغ ہوتے تھے تو اپنی داڑھی کو مٹھی سے پکڑ لیتے تھے جو حصہ زائد ہوتا تھا اس کو کتروا دیا کرتے تھے ۔

اگر غور کیا جائے تو اسی سے داڑھی رکھنے کا وجوب بھی ثابت ہوجاتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر مواظبت بلا ترک فر مائی ہے یعنی ہمیشگی کے ساتھ داڑھی رکھنے کے عمل کو جاری رکھا ہے جس میں کبھی تخلف نہیں ہوا جو اصولا وجوب کی علامت ہے اگر مواظبت مع الترک ہو یعنی کبھی کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عمل کو ترک بھی فر مادیا ہو تو وہ عمل سنت کہلاتا ہے ۔ لیکن داڑھی کا رکھنا کبھی ایک ساعت کے لئے بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ترک نہیں فر مایا اس لئے اس مواظبت بلا ترک سے ہم داڑھی رکھنے کے وجوب بھی استدلال کر سکتے ہیں ۔

حضرت حسان بن بلال رضی اللہ عنہ فر ماتے ہیں کہ میں حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ آپ نے وضو کی تو اپنی داڑھی میں خلال بھی کیا آپ سے عرض کیا گیا یہ کیا بات ہے آپ داڑھی میں خلال فر مارہے ہیں ۔حضرت عمار رضی اللہ عنہ نے جواب دیا جب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ چکا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ریش مبارک میں خلال فر مایا کرتے تھے ،تو مجھے اپنی داڑھی میں خلال کرنے سے کون سی بات روک سکتی ہے ۔حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے بھی یہی روایت کرتے تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ریش مبارک میں خلال فر مایا کرتے تھے ۔ابو عیسیٰ ترمذی فر ماتے ہیں کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے ۔
حضرت عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما راویت کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب وضو فر ماتے تھے تو رخسار مبارک کو کس قدرملا کرتے تھے پھر ''ریش مبارک'' میں انگلیاں نیچے کی طرف سے داخل کرکے جال سا بنا کر خلال کیا کرتے تھے ۔ابن سکن نے اس روایت کی تصحیح فر مائی ہے ۔ نوٹ یہ روایتیں متعدد صحابہ رضوان اللہ اجمعین سے ابوداؤد، ترمذی ، ابن ماجہ ، بیہقی، دار قطنی وغیرہ محدثین نے ذکر فر مائی ہیں ۔

جولوگ داڑھی والوں کا مذاق اس لیے اڑاتے ہیں کہ داڑھی رکھنے والوں نے اپنے چہروںپرسنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کوسجارکھا ہےاوروہ لوگ اسے ناپسند کرتے ہیں توایسے لوگوں کا صرف نکاح ہی نہیں ایمان بھی ختم ہوجاتاہے، ان پرلازم ہے کہ ایمان اورنکاح دونوں کی تجدید کریں اورآئندہ کے لیئے سنت نبوی کی توہین سے باز رہیں ۔

داڑھی رکھنے والوں پربھی لازم ہے کہ وہ خود بھی داڑھی کا احترام اورلحاظ رکھیں یعنی ایسی حرکات اور ایسے اعمال سے اجتناب کریں جن کی وجہ سے لوگ داڑھی کی توہین کے جرم میں مبتلاء ہوں ۔(طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

حضرت علی کرّم اللہ وجہہ الکریم کو مشکل کشاء کہنا

















حضرت علی کرّم اللہ وجہہ الکریم کو مشکل کشاء کہنا

ہر مسلمان کو مصیبت زدہ انسانوں کا مشکل کشا اور حاجت روا ہونا چاہیے بھوکے کو کھانا کھلانا، پیاسے کو پانی پلانا، بیمار کو دوا دینا، ننگے کو لباس دینا، بے گھر کو گھر مہیا کرنا، غریب کی ضرورت پوری کرنا، غریب، یتیم، مسکین، بچوں کی ضروریات پوری کرنا، ان کی اچھی تعلیم و تربیت کرنا، ان کی خوراک، پوشاک، تعلیم کا بندوبست کرنا، زخمی کو ہسپتال پہنچانا، حادثات، سیلاب، وباؤں، زلزلوں اور طوفانوں کے متاثرین کی مدد کرنا حسب توفیق ہر ایک پر فرض ہے۔ جب ہر مسلمان کو مشکل کشا اور حسب توفیق حاجت روا ہونا لازم ہے تو مولا علی کرم اللہ وجہہ الکریم کو مشکل کشا کہنا کیونکر غلط ہوگیا؟ جب ہم کسی بھی دنیا دار سے کچھ طلب کرتے ہیں تو معترضین اسے غلط نہیں کہتے مگر جونہی کوئی شخص اللہ کے نیک اور صالح بندوں سے مجازی طور پر مدد طلب کرتا ہے استعانت کرتا ہے تو اسے شرک قرار دیا جاتا ہے۔ یہ سوچ جہالت پر مبنی ہے۔
قرآن پاک کی روشنی میں : اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ وَمَا نَقَمُواْ إِلاَّ أَنْ أَغْنَاهُمُ اللّهُ وَرَسُولُهُ مِن فَضْلِهِ ۔ ( التوبة 9 : 74 )
ترجمہ :۔ اور کسی چیز کو ناپسند نہ کر سکے سوائے اس کے کہ انہیں اللہ اور اس کے رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے اپنے فضل سے غنی کر دیا تھا۔‘‘
ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا : وَلَوْ أَنَّهُمْ رَضُوْاْ مَا آتَاهُمُ اللّهُ وَرَسُولُهُ وَقَالُواْ حَسْبُنَا اللّهُ سَيُؤْتِينَا اللّهُ مِن فَضْلِهِ وَرَسُولُهُ إِنَّا إِلَى اللّهِ رَاغِبُونَo(التوبة 9 : 59)
ترجمہ : ۔ اور کیا ہی اچھا ہوتا اگر وہ لوگ اس پر راضی ہو جاتے جو ان کو اللہ اور اس کے رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے عطا فرمایا تھا اور کہتے کہ ہمیں اللہ کافی ہے۔ عنقریب ہمیں اللہ اپنے فضل سے اور اس کا رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مزید) عطا فرمائے گا۔ بے شک ہم اللہ ہی کی طرف راغب ہیں (اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسی کا واسطہ اور وسیلہ ہے، اس کا دینا بھی اللہ ہی کا دینا ہے۔ اگر یہ عقیدہ رکھتے اور طعنہ زنی نہ کرتے تو یہ بہتر ہوتاo)‘‘(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
قرآن پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔ تَعَاوَنُواْ عَلَى الْـبِـرِّ وَالتَّقْوَى وَلاَ تَعَاوَنُواْ عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ ۔ (المائدة 5 : 2)
ترجمہ : ۔ نیکی اور پرہیزگاری (کے کاموں) پر ایک دوسرے کی مدد کیا کرو اور گناہ اور ظلم (کے کاموں) پر ایک دوسرے کی مدد نہ کرو۔
یہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ اچھے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کرو اور برے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد نہ کرو۔
حضرت انس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں۔
من قضی لأحد من أمتی حاجة يريد أن يسره بها فقد سرني ومن سرني فقد سر اﷲ ومن سر اﷲ أدخله اﷲ الجنة.(ديلمی، مسند الفردوس، 3 : 546، رقم : 5702)
ترجمہ : ۔ جس کسی نے میرے کسی امتی کو خوش کرنے کے لیے اس کی حاجت پوری کی اس نے مجھے خوش کیا اور جس نے مجھے خوش کیا اس نے اللہ کو خوش کیا اور جس نے اللہ تعالیٰ کو خوش کیا اللہ اسے جنت میں داخل کرے گا۔
حضرت انس ہی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :من أغاث ملهوفا کتب اﷲ له ثلاثا وسبعين مغفرة واحدة فيها صلاح أمره کله وثنتان وسبعون له درجات يوم القيمه ۔ (بيهقی، شعب الايمان، 6 : 120، رقم : 7670)
’’جس نے کسی مظلوم و بے بس بیچارے کی فریادرسی کی اللہ تعالیٰ اس کے لیے 73 مغفرتیں لکھ دیتا ہے جن میں سے ایک کے عوض اس کے سارے معاملات درست ہوجائیں اور بہتر درجات اسے قیامت کے دن ملیں گے۔
حضرت ابو موسیٰ اشعری کی روایت ہے۔أنه إذا أتاه السائل أوصاحب الحاجة قال اشفعوا فلتؤجرو اوليقض اﷲ علی لسان رسوله ماشاء ۔ (بخاری، الصحيح، 5 : 2243، رقم : 5681)
ترجمہ : ۔ جب رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں جب کوئی منگتا یا حاجت مند آتا آپ فرماتے اس کی سفارش کرو اور ثواب حاصل کرو اللہ تعالیٰ اپنے رسول کی زبان پر جو چاہے فیصلہ کرے۔
حضرت فراس بن غنم سے روایت ہے : أسال يا رسول اﷲ، فقال النبی لا وإن کنت لا بد فسئل الصالحين ۔ ( بيهقی، شعب الايمان، 3 : 270، رقم : 3512 )
ترجمہ : میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کی یا رسول اللہ میں کسی سے سوال کرو ں ؟ فرمایا نہیں۔ اگر مانگے بغیر چارہ نہ ہو تو نیک لوگوں سے مانگ۔
پس اسلام دوسروں کی مدد کا حکم دیتا ہے دوسروں کی حاجت روائی کرنا ہر مسلمان کا مشن بتاتا ہے اور اس پر اجر عظیم اور ثواب دارین کا وعدہ بھی کرتا ہے، نیز نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی اپنے صحابہ کو نیک اور صالح افراد سے مانگنے کی ترغیب دیتے۔
’الفتاح‘ اللہ تعالیٰ کی ذاتی صفت ہے جیسے عالم، علیم، حلیم، روف، رحیم، سمیع، بصیر، شہید، حاکم، حکم، شکور، مالک، ملک، مولی، ولی، نور، ھادی، ذارع وغیرہ وغیرہ یہ تمام اسماء حسنی قرآن پاک میں ذات باری تعالیٰ کے لیے استعمال ہوئے ہیں۔ اس حقیقت میں کسی کو شک نہیں ہونا چاہیے۔
اب ذرا دیکھیے یہی اسماء حسنی بندوں کے لیے بھی قرآن کریم میں استعمال ہوئے ہیں مثلاً ۔ الْعَالِمُوْنَ ۔(العنکبوت، 29 : 43)’’علم والے بندے‘‘ ۔ آتَيْنَاهُ حُكْمًا وَعِلْمًا ۔ (يوسف 12 : 22)’’ہم نے اسے حکمِ (نبوت) اور علم (تعبیر)عطا فرمایا‘‘ ۔ قُلْنَا لَا تَخَفْ اِنَّـکَ اَنْتَ الْاَعْلٰی ۔ (طه 20 : 68) ’’ہم نے (موسیٰ علیہ السلام سے) فرمایا : خوف مت کرو بے شک تم ہی غالب رہوگے۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام قرآن کریم میں متعدد نام جہاں اپنے لیے استعمال فرمائے ہیں بعینہ وہی اسمائے وصفی اپنے بندوں کے لیے بھی استعمال فرمائے ہیں اللہ تعالیٰ سے بڑھ کر شرک کا دشمن اور توحید کا حامی کون ہو سکتا ہے ؟ ایسا کرنا ہرگز ہرگز شرک نہیں شرک برائی ہے اور اللہ تعالیٰ برائی کا نہ مرتکب ہو سکتا ہے نہ اپنے بندوں کو اس کی تعلیم دے سکتا ہے۔ إِنَّ اللّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَo(النحل، 16 : 90)
’’بے شک اللہ (ہر ایک کے ساتھ) عدل اور احسان کا حکم فرماتا ہے اور قرابت داروں کو دیتے رہنے کا اور بے حیائی اور برے کاموں اور سرکشی و نافرمانی سے منع فرماتا ہے، وہ تمہیں نصیحت فرماتا ہے تاکہ تم خوب یاد رکھوo‘‘
اللہ تعالیٰ حاکم ہے حاکموں کا حاکم ہے مگر اس نے اپنے بندوں کو بھی حکومت دی ہے وہ بھی حاکم ہیں بس اتنا فرق ملحوظ رکھیں کہ اللہ اپنی شان کے مطابق حاکم ہے بالذات و بالاستقلال۔ بندے اس کی عطا سے اور اس کے بنانے سے حاکم ہیں بندوں کے تمام کمالات اس کی عطا اور خیرات ہے جبکہ اس کے تمام کمالات ذاتی ہیں کسی کی عطا سے نہیں۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
مولا کا مطلب : اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا : فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ مَوْلَاهُ وَجِبْرِيلُ وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمَلَائِكَةُ بَعْدَ ذَلِكَ ظَهِيرٌo(التحريم 66 : 4)
’’سو بے شک اللہ ہی اُن کا دوست و مددگار ہے، اور جبریل اور صالح مومنین بھی اور اس کے بعد (سارے) فرشتے بھی (اُن کے) مددگار ہیں۔‘‘
یہاں پر مولا مدد گار کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔دیکھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مدد گار (مولا ) کون کون ہیں : اللہ تعالیٰ ، جبریل علیہ السلام ، نیک مسلمان ، تمام فرشتے ۔
یہ کہنا جہالت ہے کہ اللہ ہی مولا ہے جب صالح مومنین نبی پاک کے مدد گار ہیں جبریل علیہ السلام حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مدد گار ہیں تو یہ نیک مسلمان اور جبریل علیہ السلام اللہ تو نہیں اہل ایمان ہیں مسیح علیہ السلام فرماتے ہیں : مَنْ أَنصَارِي إِلَى اللّهِ. قَالَ الْحَوَارِيُّوْنَ نَحْنُ اَنْصَارُ اﷲِ ۔
اس نے کہا: اﷲ کی طرف کون لوگ میرے مددگار ہیں؟ تو اس کے مخلص ساتھیوں نے عرض کیا: ہم اﷲ (کے دین) کے مددگار ہیں،(آل عمران، 3 : 52)
اسی طرح النھایہ میں لفظ مولا کے مختلف معانی بیان کیے گئے ہیں۔
رب (پرورش کرنیوالا) ، مالک۔ سردار ، انعام کرنیوالا ، آزاد کرنیوالا ، مدد گار ، محبت کرنیوالا ، تابع (پیروی کرنے والا ، پڑوسی ،ابن العم (چچا زاد ، حلیف (دوستی کا معاہدہ کرنیوالا ) ، عقید (معاہدہ کرنے والا ) ، صھر (داماد، سسر ) ، غلام ، آزاد شدہ غلام ، جس پر انعام ہوا ۔
جو کسی چیز کا مختار ہو۔ کسی کام کا ذمہ دار ہو۔ اسے مولا اور ولی کہا جاتا ہے۔
جس کے ہاتھ پر کوئی اسلام قبول کرے وہ اس کا مولا ہے یعنی اس کا وارث ہوگا وغیرہ۔ (ابن اثير، النهايه، 5 : 228)
حضرت علی کرم اللہ وجہہ ہی نہیں ہر مسلمان کو مشکل کشا ہونا فرض ہے تاکہ بوقت ضرورت وہ مظلوم، مجبور، مسکین، مسافر، بیوہ، یتیم، فقیر کی حسب توفیق مشکل حل کرسکے کیا بھوکے پیاسے کو کھانا پانی نہ دو گے اور اسے بھوک و پیاس سے یہ کہہ کے مار و گے کہ کھلانے پلانے والا وہی رزاق ہے اسی سے مانگو۔ هُوَ يُطْعِمُنِي وَيَسْقِينِo(الشعراء، 26 : 79)’’جو مجھے کھلاتا اور پلاتا ہے‘‘
کیا مریض کی عیادت نہ کرو گے۔ ہسپتال نہ پہنچاؤگے دوا لے کر نہ دو گے یہ کہہ کر کہ :وَإِذَا مَرِضْتُ فَهُوَ يَشْفِينِo(الشعراء، 26 : 80)’’جب بیمار پڑتا ہوں وہی شفا دیتا ہے۔‘‘
مومن حاجت روا مشکل کشا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں : من قضی لأحد من أمتي حاجة يريد أن يسره بها فقد سرني ومن سرني فقد سر اﷲ ومن سر اﷲ أدخله اﷲ الجنه ۔ (ديلمی، مسند الفردوس بمأثور الخطاب، 3 : 546، رقم : 5702)
’’ جو میرے کسی امتی کو خوش کرنے کے لیے اس کی حاجت پوری کرے اس نے مجھے خوش کیا اور جس نے مجھے خوش کیا اس نے اللہ تعالیٰ کو خوش کیا اور جس نے اللہ تعالیٰ کو خوش کیا اللہ تعالیٰ اسے جنت میں داخل فرمائے گا ‘‘
پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں : ’’من أغاث ملهوفا کتب اﷲ له ثلاثا و سبعين مغفرة واحدة فيها صلاح أمره کله وثنتان وسبعون له درجات يوم القيمة‘‘(بيهقی، شعب الايمان، 6 : 120، رقم : 7670)
’’جس نے کسی بیچارے مظلوم کی فریاد رسی کی اللہ پاک اس کے لیے تہتر بخششیں لکھتا ہے جن میں ایک کے سبب اس کے تمام معاملات سدھر جاتے ہیں اور بہتر درجے اس کو قیامت کے دن ملیں گے۔‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں : ’’من نفس عن مؤمن کربة من کرب الدنيا نفس اﷲ عنه کربة من کرب يوم القيمة ومن يسر علی معسر يسر اﷲ عليه فی الدنيا والآخرة ومن ستر مسلما ستره اﷲ فی الدنيا والآخرة واﷲ فی عون العبد ما کان العبد في عون أخيه و من سلک طريقا يلتمس فيه علما سهل اﷲ له به طريقا إلی الجنة وما اجتمع قوم في بيت من بيوت اﷲ يتلون کتاب اﷲ ويتدا رسونه بينهم إلا نزلت عليهم السکينة وغشيتهم الرحمة وحفتهم الملآئکة و ذکر هم اﷲ فيمن عنده ومن بطأ به عمله لم يسرع به نسبه.‘‘(مسلم، الصحيح، 4 : 2074، رقم : 2699)
’’جس نے کسی مسلمان کی دنیاوی تکلیف دور کی اللہ تعالیٰ اس کی آخرت کی مشکل حل فرمائے گا اور جس نے تنگ دست پر آسانی کی اللہ تعالیٰ دنیا و آخرت میں اس پر آسانی کرے گا اور جس نے کسی مسلمان کی پردہ پوشی کی اللہ تعالیٰ دنیا و آخرت میں اس کی ستر پوشی فرمائے گا اور اللہ پاک اس وقت تک بندے کی مدد میں رہتا ہے جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد کرنے میں مصروف رہتا ہے اور جو علم حاصل کرنے کے رستے پر چل نکلتا ہے اللہ پاک اس کے لیے جنت کا راستہ آسان کردیتا ہے اور جب بھی کوئی قوم اللہ تعالیٰ کے گھروں میں سے کسی گھر میں اللہ تعالیٰ کی کتاب پڑھنے پڑھانے کے لیے جمع ہوتی ہے ان پر سکینہ (سکون و راحت) نازل ہوتی ہے رحمت اس کو ڈھانپ لیتی ہے فرشتے اس پر چھا جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اپنے حضور حاضر فرشتوں کی مجلس میں ان بندوں کا فخریہ انداز میں ذکر فرماتا ہے اور جس کو عمل نے بلند تر مقام و مرتبہ پر پہنچنے میں ڈھیلا و موخر رکھا اسے نام و نسب جلد نہیں پہنچا سکتا۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں : ’’من ولا ه اﷲ شيأ من أمر المسلمين فاحتجب دون حاجتهم وخلتهم وفقرهم احتجب اﷲ دون حاجته و خلته و فقره فجعل معاوية رجلا علی حوائج الناس‘‘(ابوداؤد، السنن، 3 : 135، رقم : 2948)
’’اللہ تعالیٰ نے جس آدمی کو مسلمانوں کے کسی عمل کا ولی (ذمہ دار، عہدیدار) بنایا اور اس نے ان کی حاجت و ضرورت و محتاجی کے آگے پردے لٹکادئیے (اور حاجت مندوں کو اپنے تک پہنچنے نہ دیا) اللہ پاک اس کی حاجت و ضرورت و محتاجی کے آگے پردے لٹکادے گا (اس کی مدد نہیں فرمائے گا) امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے لوگوں کی حاجت روائی کے لیے ایک شخص مقر ر فرمایا تھا۔‘‘
نبی کریم ﷺ نے فرمایا : ’’من ولي من امر الناس شيا ثم اغلق بابه دون المسکين اوالمظلوم أوذی الحاجة اغلق اﷲ دونه أبواب رحمته عند حاجته و فقره أفقر ما يکون إليها‘‘(احمد بن حنبل، المسند، 3 : 441، رقم : 15689)
’’جو لوگوں کے کسی درجہ کے معاملات کا حاکم بنایا گیا پھر اپنا دروازہ مسلمانوں کے آگے یا مظلوم یا حاجت مند کے آگے بند رکھا اللہ تعالیٰ اس کے سامنے اس کی حاجت اور طویل محتاجی کے وقت (قیامت کو) اپنی رحمت کے دروازے بند کردے گا۔‘‘
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ عامل بناتے وقت عامل (حاکم) پر شرط رکھتے کہ
1 : عمدہ ترکی نسل کے گھوڑے پر سواری نہیں کرے گا۔
2 : چھنے ہوئے آٹے کی روٹی نہیں کھائے گا۔
3 : باریک کپڑا نہیں پہنے گا۔

(ولا تغلقوا أبوابکم دون حوائج الناس فإن فعلتم شيئا من ذلک فقد حلت بکم العقوبة ثم يشيعهم ۔ (بيهقی، شعب الايمان، 6 : 24، رقم : 7394)
’’لوگوں کی حاجت برداری کے آگے اپنے دروازے بند نہ کرنا اگر تم نے ان میں سے کوئی کام کیا تو سزا پاؤ گے پھر ان کے ہمراہ چل کر انہیں رخصت فرماتے۔‘‘
خلاصہ کلام : اللہ تعالیٰ کے اکثر صفاتی نام در حقیقت اس کی صفات ہیں جو اس کی ذاتی مستقل اور دائمی ہیں کسی کی عطا کردہ نہیں۔ حادث نہیں۔ عارضی نہیں وقتی نہیں مگر وہ ذات با برکات کریم ہے جواد ہے، سخی ہے، عطا کرنے والی ہے اسی نے اپنے بندوں کو سننے دیکھنے، کرم، سخاوت، عطا، علم، قدرت اور حسن وغیرہ صفات عالیہ کا صدقہ عطا فرمایا ہے لہذا بندے صاحبان قدرت، صاحبان سمع و بصر، صاحبان کرم و سخاوت، عالم، حلیم، حکیم، علیم، رؤف، (شفیق) ہیں مگر سب کچھ اس کی عطاسے۔ اللہ تعالیٰ کی صفات مستقل اور ذاتی ہیں مخلوق کی صفات عارضی اور عطائی ہیں تمام صفات میں یہی اصول پیش رہے بادشاہی حکم (حاکم) گواہ وغیرہ وغیرہ۔ اللہ تعالیٰ اللہ ہے نبی ولی اور دیگر مخلوق اپنی حیثیت رکھتی ہیں ایک کی جگہ دوسرے کو بٹھانا ظلم ہے۔ بندہ کو بندہ کی حیثیت میں مانو اللہ تعالیٰ کو اس کی حیثیت و شان کے مطابق۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

غیر مقلد وھابیوں کا مشکل کشاء تمباکو ہے

غیر مقلد وھابیوں کا مشکل کشاء تمباکو ہے

یا نبی مشکل کشاء کہو تو شرک ، یاعلی مدد کہو تو شرک ، یا غوث اعظم مدد کہو تو شرک کیونکہ وھابی کہتے ہیں مشکل کشاء صرف اللہ ہے مگر حیرت کی بات ہے کہ یہی وھابی لکھ رہے ہیں کہ تمباکو بھی مشکل کشاء ہے پڑھیئے مولوی حکیم عبد اللہ غیر مقلد کی کتاب تمباکو اور اس میں صاف لکھا تمباکو کی مشکل کشائی یعنی تمباکو مشکل کشاء ہے ۔

اسلام اور عیسائیت کا مختصر تقابلی جائزہ

اسلام اور عیسائیت کا مختصر تقابلی جائزہ

محترم قارئین : آج کل عیسائی مسلم نام کی آئی ڈیوں سے اسلام کے خلاف سرگرم عمل ہیں اور مسلمان ان کے پھیلائے ہوئے فتنہ و شر میں بری طرح پھنستے اور دھنستے چلے جا رہے ہیں ۔ فقیر ڈاکٹر فیض احمد چشتی نے سوشل میڈیا اور اس سے باہر کے ممالک و دنیا میں یہی حال اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے اس کے سد باب کےلیئے فقیر نے مختلف لیکچر دیئے اپنے استاذہ کرام کے افادات سے خوب فائدہ اٹھایا انہیں مختلف لیکچرز کا کچھ خلاصہ پیش خدمت ہے ۔

اسلام اور عیسائیت کا تقابل کرنے سے پہلے اسلام اور عیسائیت کے معنی سمجھ لینا ضروری ہے ۔

عیسائیت کا مفہوم : یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ لفظ عیسائیت کا مفہوم ایک ایسے اضافی معنی کے سوا کچھ نہیں جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور مسیح ابن مریم کی ذات سے نسبت رکھنے پر دلالت کرتے ہیں ۔

اسلام کے معنی : اس کے برخلاف اسلام کے معنی ہیں ’’گردن نہادن بطاعت‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں اپنا سر جھکا دینا۔ سر جھکانا، خوف اور طمع و محبت کی وجہ سے ہوتا ہے۔ گویا لفظ اسلام یہ بتاتا ہے کہ ان تینوں حالتوں میں بندے کو صرف خدا کے سامنے جھکنا چاہئے ۔

یہاں اتنی بات اور ذہن نشین کر لی جائے کہ خوف، طمع اور محبت تینوں میں اصل محبت ہے کیونکہ محبت کی وجہ سے محبوب کی ناراضگی اور جدائی کا خوف پیدا ہوتا ہے اور اسی محبت کے باعث محبوب کے وصال اور اس کی خوشنودی کی طمع پیدا ہوتی ہے۔ محبت نہ ہو تو نہ خوف ہو نہ طمع ۔

اسلام کی روح محبت ہے جس کے باعث مسلم اپنے محبوبِ حقیقی کے سامنے جھک کر مسلم قرار پاتا ہے اور انسانیت کی اصل بھی انس و محبت ہے جس کا حامل ہو کر وہ انسان کہلاتا ہے۔

اسلام اور انسانیت کا تلازم : ان مختصر جملوں سے اہل فہم پر روشن ہو گیا ہو گا کہ اسلام انسانیت کے لئے لازم اور انسانیت اسلام کے لئے ملزوم ہے۔ مزید وضاحت کے لئے یوں کہیئے کہ بنی نوع آدم کے سلسلہ کو بہ نظر بصیرت دیکھنے سے معلوم ہو گا کہ انسانیت سے اسلام جدا نہیں ہوتا اور اسلام سے انسانیت علیحدہ نہیں ہوتی۔ ابھی معلوم ہو چکا ہے کہ محبت محبوب کے سامنے اہل محبت کا سر جھکا دیتی ہے۔ اسلام اس معنی کا آئینہ دار ہے جس طرح اسلام کے لفظ سے محبت کے معنی مفہوم ہوتے ہیں اسی طرح لفظ انسان بھی محبت کے معنی دیتا ہے ۔

لفظ انسان کی تحقیق : اہل لغت کا قول ہے کہ انسان ’’اَنَسَ‘‘ یا ’’نَسِیْ‘‘ سے مشتق ہے۔ انس کے معنی ہیں وہ مانوس ہوا اور نسی کے معنی ہیں وہ بھول گیا ۔

غور کرنے سے معلوم ہو گا کہ انسیت بھولنے کے بغیر نہیں ہوتی اور بھولنا انسیت کے بغیر نہیں پایا جاتا کیونکہ جب کسی کو کسی سے انسیت ہو گی تو اس کی پوری توجہ اور کامل التفات اسی کی طرف ہو گا جس سے وہ مانوس ہے۔ ایسی صورت میں اپنے مانوس یعنی محبوب کے غیر سے توجہ اور التفات کا زائل ہونا ضروری ہے اسی کو نسیان اور بھولنا کہتے ہیں۔ اسی طرح جب کوئی شخص کسی چیز کو بھولتا ہے تو اس کی پوری توجہ کسی دوسری چیز کی طرف ہوتی ہے اور کسی چیز کی طرف کامل توجہ اور التفات کا ہونا انس ہے۔ معلوم ہوا کہ انس بغیر نسیان کے نہیں ہوتا اور نسیان بغیر انس کے نہیں پایا جاتا۔ اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ انسان کی فطرت میں نسیان اور محبت ہے ۔

محبت اور انس کس کے لئے ہے : اب یہ معلوم کرنا چاہئے کہ محبت کس کی ہے اور نسیان کس کاہے۔ انسان حسن ازل کا آئینہ اور شانِ خالقیت کا نمونہ ہے تو گویا وہی احسن الخالقین اور رب کائنات اس کے لئے بمنزلہ اصل ہے اور یہ بمنزلہ فرع ۔

لہٰذا جس طرح فرع اپنی اصل کی طرف مائل اور اس سے مانوس ہوتی ہے اسی طرح انسان اللہ تعالیٰ سے مانوس ہے۔ جب اس کا محبوب اللہ تعالیٰ ہوا تو ضروری ہو گا کہ یہ ما سوی اللہ کو بھول جائے۔ کیونکہ ما سوائے محبوب سے نسیان کا ہونا انسیت کے لوازمات سے ہے۔ جیسا کہ میں ابھی تفصیل سے بیان کر چکا ہوں ۔

ایک سوال کا جواب : یہاں ایک سوال کا جواب دیتا جاؤں اور وہ یہ کہ اگر آپ فرمائیں کہ ماسوی اللہ کو بھول جانا انسانیت کے لوازمات سے ہے تو دنیا میں انسان کے لئے کوئی مقام نہ رہے گا نہ وہ کاروبار کر سکے گا نہ اپنی زندگی کے ضروریات و لوازمات مہیا کر سکے گا کیونکہ یہ سب چیزیں ما سوی اللہ ہیں۔ تو میں جواباً عرض کروں گا کہ جب کوئی کام خواہ وہ زندگی کے لوازمات سے ہو یا کوئی دوسرا کاروبار ہو محبوب کے حکم کو بجا لانے کے لئے کیا جائے گا تو وہ محبوب کے ما سویٰ کی یاد نہ ہو گی بلکہ محبوب ہی کی یاد قرار پائے گی کیونکہ محبوب کے حکم کا بجا لانا یہی لوازماتِ محبت سے ہے۔ ہاں جب محبوب کے احکام کو بھلا کر کوئی کام کیا جائے تو وہ ما سوائے محبوب کی یاد اور محبوب کا بھولنا قرار پائے گا۔ اہل محبت کی شان تو یہ ہے کہ ’’دل بہ یار ودست بہ کار‘‘ خلاصہ یہ کہ دنیا کا جو کام خدا کے حکم کی تعمیل میں ہو گا وہ خدا کی یاد ہو گی اور جو کام اس کے حکم کو پس پشت ڈال کر کیا جائے گا وہ اس کی طرف سے غافل ہونے اور اسکے بھولنے کے مترادف قرار پائے گا۔ معلوم ہوا کہ جس طرح اسلام کے معنی میں محبت پائی جاتی ہے اسی طرح لفظ انسان بھی محبت کے معنی دیتا ہے۔ رہا خوف و طمع تو وہ دونوں لوازمات محبت سے ہیں کیونکہ محبت ہوتی ہے تو محبوب کی ناراضگی کا خوف اور اس کی خوشنودی کی طمع ضرور ہوتی ہے۔ مختصر یہ ہے کہ اسلام کے پورے معنی انسانیت میں پائے جاتے ہیں اور انسانیت کے معنی مکمل طور پر اسلام میں موجود ہیں۔ اس لئے ایک دوسرے سے جدا ہونا ممکن نہیں ۔

اسلام اور انسانیت کی وسعت : اسلام کی وسعت کو سمجھنے کے لئے انسانیت کی وسعت معلوم کر لینا ضروری ہے۔ وسعت انسانیت کا یہ عالم ہے کہ ایک فرد انسان اٹھارہ ہزار عالم کی حقیقتوں کا اجمالی طور پر مجموعہ ہے۔ تمام عالم خلق کی حقیقتیں انسان کے جسم میں پائی جاتی ہیں اور عالم امر کے حقائق روح انسانی میں مضمر ہیں۔ یہ مجموعہ کائنات اور خلاصۂ موجودات جب اللہ تعالیٰ کے سامنے اپنا سر جھکائے گا تو اس کے دامن انسانیت سے لپٹے ہوئے اٹھارہ ہزار حقائق کائنات کے ذرے اللہ تعالیٰ کے سامنے جھک جائیں گے ۔

سر کا جھکنا ایک علامت ہے اور دل کا جھکنا حقیقت ہے ۔ کوئی علامت حقیقت کے بغیر قابل قبول نہیں ہوتی ۔ لہٰذا جس شخص کا دل اللہ تعالیٰ سے باغی ہو اس کا سر جھکنا بالکل بے معنی اور ناقابل اعتبار ہے۔ اسلام کے معنی اور اس کی وسعت کو انسانیت کے معنی اور اس کی وسعت کے سامنے لایا جائے تو میری بات اور زیادہ روشن ہو جائے گی کہ اسلام اور انسانیت چولی دامن کی طرح ایک دوسرے سے وابستہ ہیں ۔

صداقت اسلام کی دلیل : جب اسلام کے معنی رب تعالیٰ کے سامنے جھکنے کے ہوئے اور انسانیت کو اسلام نے اللہ تعالیٰ کے در پر جھکا دیا تو اس سے بڑھ کر صداقت اسلام کی اور کون سی دلیل ہو سکتی ہے۔ گویا ’’اسلام‘‘ اپنے سچا ہونے کی دلیل آپ ہے۔

آفتاب آمد دلیل آفتاب
گر دلیلت باید از وے رومتاب

اسلام کے بعد عیسائیت : اب عیسائیت کی طرف آیئے تو ہر شخص جانتا ہے کہ لفظ عیسائیت یا مسیحیت میں بجز ایک معنی اضافی کے اور کچھ نہیں رکھا۔ ایسی صورت میں اسلام کے ساتھ عیسائیت کے تقابل کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔

اسلام انسان کا پیدائشی دین ہے : لطیفہ کے طور پر میرا یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ اسلام بنی نوع انسان کا اصلی اور پیدائشی دین ہے کیونکہ اسلام کے معنی ہیں زمین پر سر رکھنا اور انسان جب پیدا ہوتا ہے تو وہ سر کے بل پر پیدا ہوتا ہے۔ گویا وہ زبانِ حال سے اعلان کرتا ہے کہ میں اسلام پر پیدا ہوا ہوں اور اپنا سر اپنے رب کے سامنے رگڑتا ہوا دنیا میں آیا ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم نے فرمایا : ’’کل مولود یولد علی الفطرۃ فابواہ یہودانہ او ینصرانہ او یمجسانہ‘‘ یعنی ہر بچہ اسلام پر پیدا ہوتا ہے اس کے ماں باپ اسے یہودی بنا لیں یا نصرانی یا مجوسی ۔

ایک اور سوال کا جواب : یہاں اور بھی ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ بعض بچے پاؤں کے بل پیدا ہوتے ہیں پھر یہ کہ سر کے بل پیدا ہونے والوں کے حق میں آپ کا یہ کہنا کہ یہ خدا کے سامنے سر جھکا کر پیدا ہوتے ہیں اور ان کا پیدائشی دین اسلام ہے ایک دعویٰ بلا دلیل ہے کیونکہ ہر شخص کہہ سکتا ہے کہ پیدا ہونے والے بچے کا سر میرے معبود کے سامنے ہے۔ آگ، پانی، چاند، سورج، پتھروں، درختوں اور لات و منات کے پجاری کہہ سکتے ہیں کہ پیدا ہونے والے بچے کا یہ سر ہمارے معبودوں کے سامنے ہے ۔

اس سوال کا جواب یہ ہے کہ شاذ و نادر کسی بچے کا پاؤں کے بل پیدا ہو جانا ولادت کے قانونِ عام کا مناقض نہیں ہو سکتا بلکہ وہ بجائے خود کالعدم ہے اور پیدا ہونے والے بچے کا سر معبودانِ باطلہ کے سامنے جھکا ہوا ہونا اس لئے باطل ہے کہ پیدا ہونے والے شب و روز، بحرو بر، کوہ بیاباں اور مختلف مقامات میں پیدا ہوتے ہیں مگر اس وقت وہاں پیدا ہونے والے بچے کے سامنے مشرکین کے معبودانِ باطلہ موجود نہیں ہوتے جن کے سامنے پیدا ہونے والے بچے کے سر کو تسلیم کیا جائے۔ مگر حق تعالیٰ معبودِ حقیقی زمان و مکان سے پاک اور مبرا ہونے کے باوجود ہر وقت اور ہر جگہ موجود ہے ’’اَیْنَمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْہُ اللّٰہِ‘‘ جہاں منہ کرو وہیں اللہ تعالیٰ موجود ہے۔ ’’وَہُوَ مَعَکُمْ اَیْنَمَا کُنْتُمْ‘‘ تم جہاں ہو اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ ہے۔ لہٰذا ماننا پڑے گا کہ پیدا ہونے والے بچے کا سر کسی معبود باطل کے سامنے جھکا ہوا نہیں بلکہ اسی معبودِ برحق کے سامنے جھکا ہے جو قید زمان و مکان سے پاک اور بے نیاز ہو کر ہر جگہ اور ہر وقت موجود ہے۔ معلوم ہوا کہ ہر بچہ اللہ تعالیٰ کو سجدہ کرتا ہوا اس کے سامنے سر جھکاتا ہوا پیدا ہوتا ہے اور یہی اسلام ہے ۔

اسلامی تعلیمات صداقت اسلام کی روشن دلیل ہیں

اس کے بعد اسلامی تعلیمات کی طرف آیئے تو صداقت اسلام کا آفتاب اور بھی زیادہ چمکتا ہوا نظر آئے گا۔ اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے۔ حدیث شریف میں ہے : ’’بنی الاسلام علٰی خمس شہادۃ ان لا الٰہ الا اللّٰہ وان محمدا عبدہٗ ورسولہٗ واقامۃ الصلٰوۃ وایتاء الزکٰوۃ وصوم رمضان وحج البیت من استطاع الیہ سبیلا۔‘‘ یعنی اسلام پانچ چیزوں پر قائم کیا گیا ہے (1) اس بات کی شہادت دینا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور حضرت محمد ﷺ اللہ تعالیٰ کے عبد مقدس اور اس کے رسول برحق ہیں (2) نماز قائم کرنا (3) زکوٰۃ دینا (4) رمضان کا روزہ رکھنا اور (5) استطاعت والے کے لئے کعبہ کا حج کرنا ۔

حقیقت شہادت : شہادت بظاہر زبان سے ادا کی جاتی ہے مگر اس کی حقیقت بڑی وزنی ہے۔ دیکھئے اگر کسی غریب آدمی سے کسی بڑے امیر آدمی یا کسی حاکم کے خلاف گواہی دلوائی جائے تو وہ گواہی دینے سے پہلو تہی کرے گا کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ یہ شہادت ان تمام طاغوتی طاقتوں کے خلاف ہے جو اللہ اور اس کے رسول کے خلاف اور باغی ہیں۔ اس کا پس منظر نہایت دہشت ناک ہے۔ عظیم ترین مصائب و آلام اس کے نتائج کے طور پر سامنے آنے والے ہیں۔ جس پر تاریخ اسلام گواہ ہے۔ اس وزنی حقیقت کو سامنے رکھ کر جو شخص کلمۂ شہادت پڑھے گا اس کے دل میں بہت بڑی قوت اور عظیم الشان طاقت موجود ہو گی۔ وہ اپنے دل میں یہ بات طے کر لے گا کہ اگر مصائب و آلام کے پہاڑ بھی مجھ پر گرا دئیے جائیں تو میں اپنی شہادت سے رو گردانی نہ کروں گا۔ دراصل یہی قوت کلمۂ شہادت کی حقیقت ہے ۔

ارکانِ اسلام کا نماز میں پایا جانا : نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ پر الگ الگ تبصرہ کیا جائے تو بہت زیادہ وقت کی ضرورت ہو گی۔ اجمالاً اتناعرض کیے دیتا ہوں کہ ان پانچوں کو اللہ تعالیٰ نے نماز میں رکھ دیا اور نماز کو پانچوں کا حسین مجموعہ قرار دے دیا۔ غور فرمایئے نماز میں تشہد موجود ہے۔ ہر نمازی قعدہ میں کہتا ہے ’’اَشْہَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاَشْہَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ‘‘ نماز خود نماز ہے، زکوٰۃ بھی نماز میں موجود ہے اس لئے کہ ستر عورت کے بغیر نماز نہیں ہوتی جس کپڑے سے بدن چھپایا جائے گا وہ مال ہے تو گویا مال خرچ کئے بغیر نماز نہ ہو گی یہ زکوٰۃ کی حقیقت ہے۔ روزہ بھی نماز میں ہے اور وہ اس طرح کہ نمازی جب نماز شروع کرتا ہے اور تکبیر تحریمہ کہہ کر ہاتھ باندھتا ہے تو وہ سلام پھیرنے تک نہ پانی پی سکتا ہے نہ کھانا کھا سکتا ہے نہ کوئی اور ایسا کام کر سکتا ہے جس سے روزہ جاتا رہے۔ معلوم ہوا کہ نمازی جتنی دیر تک نماز پڑھے گا اتنی دیر تک اسے روزہ دار رہنا بھی ضروری ہو گا۔ یہ روزہ کی اجمالی حقیقت نماز میں رکھ دی گئی۔ اسی طرح حج کی لطیف حقیقت کی چمک بھی نماز میں نظر آتی ہے جس کا مختصر بیان یہ ہے کہ گویا اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں سے فرمایا کہ اے میرے بندو! تمام اطراف زمین سے سمٹ کر ہر نماز کے وقت تم کعبہ تو نہیں جا سکتے مگر کعبہ کی طرف منہ کر کے تو کھڑے ہو سکتے ہو یعنی جس طرح کعبہ کے بغیر حج نہیں ہو سکتا اسی طرح بغیر کعبہ کے نماز بھی نہیں ہو سکتی۔ الغرض نماز میں کعبہ مطہرہ کی طرف منہ کر کے ارکانِ صلوٰۃ ادا کرنا حج کی جھلک ہے جو نماز میں پائی جاتی ہے ۔

ایک شبہ کا ازالہ : اس مقام پر یہ شبہ نہ کیا جائے کہ نماز میں جب تمام ارکانِ اسلام آ گئے تو بس نماز ہی کافی ہے۔ کلمۂ شہادت، زکوٰۃ، روزہ اور حج کی کیا ضرورت رہی۔ میں کہوں گا کہ نماز میں تمام ارکان و عبادات کی روح کا آ جانا اس لئے نہیں کہ نماز کے علاوہ اور سب عبادتیں ترک کر دی جائیں بلکہ اس لئے ہے کہ نماز کی روح اور اس کے دل کا رابطہ ہر عبادت کے ساتھ قائم ہو جائے تاکہ جب بھی کسی عبادت کا وقت آئے نمازی کو اس کے ادا کرنے میں تامل نہ ہو ۔

اسلام میں توحید کی تعلیم : اسلام نے خدا تعالیٰ کی توحید کی تعلیم اس حسن و خوبی کے ساتھ دی کہ عقل سلیم کی روشنی میں اس سے بہتر ذاتِ باری تعالیٰ کے متعلق کوئی تعلیم تصور میں نہیں آ سکتی۔ قرآن فرماتا ہے ’’قُلْ ہُوَ اللّٰہُ اَحَدٌo اَللّٰہُ الصَّمَدُo لَمْ یَلِدْ۵لا وَلَمْ یُوْلَدْo وَلَمْ یَکُنْ لَّہٗ کُفُوًا اَحَدٌo‘‘ اے نبی! فرما دو اللہ ایک ہے، اللہ بے نیاز ہے، اس نے کسی کو نہیں جنا، نہ وہ کسی سے جنا گیا، اس کا کوئی مثل نہیں، وہ اپنی شان الوہیت میں یکتا و بے نظیر ہے۔‘‘ عیسیٰ علیہ السلام کی حیثیت اسلام نے عبدہٗ ورسولہٗ سے زیادہ نہیں بتائی بلکہ ان کی الوہیت کا ابطال کیا ۔

اسلام میں رسالت کا پاکیزہ تصور : توحید کے بعد رسالت و نبوت کے بارے میں جو پاکیزہ نظریات پیش کئے ہیں وہ بھی اپنی نظیر آپ ہیں ۔

اسلام نے عقائد و اعمال اور مکمل دستور العمل قرآن میں پیش کیا : مقدس اسلام نے جزا و سزا، دوزخ و جنت، حسن و قبح، حرام و حلال، پاک و ناپاک حتیٰ کہ انسانی زندگی کے ہر شعبہ سے متعلق جزئیات تک کی تفصیلات اور مکمل ہدایات پیش کیں اور قرآن مجید ایک جامع کتاب ہمارے سامنے پیش کی جو انسانیت کے لئے مکمل دستور العمل اور حیات بعد الموت کے تمام مراحل میں مشعل راہ کا کام دیتی ہے۔ جس میںشک و شبہ اور تحریف و تبدیل کے لئے قطعاً کوئی گنجائش نہیں۔ یہ ایک ایسی حقیقت ثابتہ ہے کہ جس کا اعتراف کئے بغیر چارہ کار نہیں ۔

اسلام کے مقابلہ میں عیسائیت : اب اس کے مقابلہ میں عیسائیت کو دیکھا جائے تو اس کا کوئی ایک نظریہ بھی اسلام کے نظریات کے سامنے اس قابل نہیں کہ عقل سلیم کی روشنی میں اسے قبول کر لیا جائے ۔

لفظ عیسائیت یا مسیحیت سے جو معنی مفہوم ہوتے ہیں وہ خود بتا رہے ہیں کہ اس میں کوئی ٹھوس حقیقت موجود نہیں ہے ۔

جیسا کہ میں پہلے عرض کر چکا ہوں کہ اس لفظ کا مفاد محض ایک اضافی معنی ہیں جن کا تصور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے اقوال و اعمال اور ان کی سیرت طیبہ کے احوال اور تعلیمات کے موجود ہوئے بغیر قائم نہیں ہو سکتا اور ظاہر ہے کہ مدعیانِ مسیحیت کے پاس بھی حضرت مسیح کی کوئی ایسی سیرت موجود نہیں جو مسیحیت کے معنی کے صحیح ہونے کے لئے کافی ہو ۔

عیسائیت میں نہ کوئی علمی نظریہ ہے نہ عملی پروگرام : عیسائیت میں بنی نوع انسان کے لئے نہ کوئی علمی نظریہ ہے نہ عملی پروگرام۔ حیاتِ انسانی کے کسی شعبہ کے لئے کوئی ضابطہ عیسائی پیش نہیں کر سکتے ۔

عیسائیت کے بنیادی نظریات : مسیحیت یا عیسائیت کے نام سے آج تک جو بنیادی نظریات عیسائیوں نے پیش کئے ہیں وہ صرف دو ہیں ’’تثلیث‘‘ اور ’’کفارہ‘‘

تثلیث : تثلیث کے متعلق ان کا قول ہے کہ اب، ابن اور روح القدس۔ تینوں کا مجموعہ خدا ہے یہ تین بھی ہیں اور تینوں مل کر ایک بھی اس کی دلیل میں ’’بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ کو پیش کرتے ہیں کہ دیکھئے قرآن بھی تثلیث کی تعلیم دیتا ہے قرآن میں سب سے پہلے بسم اللہ ہے جس میں اللہ ’’رحمن‘‘ اور ’’رحیم‘‘ تین کا ذکر ہے۔ یہ تینوں مل کر ایک بھی ہیں اور تین بھی مگر اتنا نہیں سمجھتے کہ قرآن نے ایک ذات واجب الوجود کے تین نام بتائے ہیں ہر نام اس کی جداگانہ شان کا مظہر ہے کیونکہ وہ صفاتِ کمالیہ سے متصف ہے کوئی ذات اپنی شان یا صفت کے ساتھ مرکب نہیں ہوا کرتی نہ کوئی ذات اپنی صفات سے مل کر مجموعہ قرار پاتی ہے اور یہ ایسی کھلی ہوئی روشن بات ہے کہ جو معمولی سمجھ رکھنے والا انسان بھی بلا تامل سمجھ سکتا ہے مگر عیسائیوں کی سمجھ پر حیرت ہوتی ہے کہ ایسی واضح بات ان کی سمجھ میں نہیں آتی ۔

کفارہ : یہی حال کفارہ کے مسئلہ کا ہے۔ اس اجمال کا مختصر بیان یہ ہے کہ عیسائی آدم و حوا علیہما السلام اور ان کی نسل کے فرد کو گناہ گار مانتے ہیں۔ یہاں تک کہ نبیوں اور رسولوں کے بارے میں بھی ان کا اعتقاد ہے کہ کوئی نبی اور رسول گناہ سے پاک نہیں۔ لوط علیہ السلام، سلیمان علیہ السلام اور بڑے بڑے جلیل القدر انبیاء علیہم السلام پر انہوں نے بدترین گناہوں کا الزام لگایا۔ ان کا عقیدہ یہ ہے کہ گناہ کی ابتدا عورت سے ہوئی کیونکہ جنت میں خدا کے حکم کی خلاف ورزی کا پہلا گناہ حوا نے کیا۔ پھر آدم کو اس درخت سے کھانے کی ترغیب دی جس کے قریب جانے سے اللہ تعالیٰ نے انہیں روکا تھا۔ جب نسل آدم گناہ گار ٹھہری تو اب نسل انسانی کو گناہ سے نجات دلانے کے لئے ایک ایسی ہستی ہونی چاہئے کہ جو خود گنہگار نہ ہو اور ایسا شخص جو گناہوں سے پاک ہو سوائے مسیح کے دوسرا نہیں ہو سکتا کیونکہ سب آدم و حوا کے بیٹے ہیں۔ صرف مسیح علیہ السلام ابن اللہ ہیں جو خدا کا بیٹا ہونے کی وجہ سے گناہ اور معصیت سے پاک ہیں ۔

عدل اور رحم : خدا نے اپنے اکلوتے بیٹے مسیح سے کہا کہ میں عادل بھی ہوں اور رحیم بھی، عدل چاہتا ہے کہ گناہگاروں کو سزا دوں اور رحم کا تقاضا ہے کہ انہیں معاف کر دوں لیکن سزا دیتا ہوں تو میرا رحم جاتا ہے اور معاف کرتا ہوں تو عدل باقی نہیں رہتا۔ اب صرف یہی ہو سکتا ہے کہ اے پیارے بیٹے مسیح! گناہ گاروں کے گناہوں کا بوجھ تیرے سر پر رکھ کر صرف تجھ ہی کو سزا دے دوں۔ تو صلیب پر چڑھ جا اور تین دن تک (معاذ اللہ) لعنت کی موت مردہ رہ کر گناہ گاروں کے گناہوں کا کفارہ کر دے تاکہ میری صفت عدل و رحم دونوں قائم رہیں اور بنی نوع انسان کی نجات بھی ہو جائے ۔

اسلام اور کفارہ : اسلام نے اس نظریہ کو بھی مردود قرار دیا اور جس طرح تثلیث کے مقابلہ میں توحید کی ٹھوس حقیقت پیش کی تھی اسی طرح یہاں بھی کفارہ کے مقابلہ میں جزا و سزا کا ناقابل تردید نظریہ پیش فرمایا اور قرآن کریم میں واضح اعلان کر دیا کہ ’’وَلَا تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزْرَ اُخْـرٰی‘‘ کوئی شخص کسی کا بار قطعاً نہیں اٹھائے گا۔ یہ کیسی نامعقول بات ہے کہ گناہ گار گناہ کرے اور بے گناہ کو سزا دی جائے۔ رہا یہ امر کہ آدم و حوا اور ان کی پوری نسل گناہ گار ہے تو قرآن نے جا بجا اس کی بھی تردید فرمائی جس طرح ایک کے گناہ کی سزا دوسرے کو دینا سراسر ظلم ہے اسی طرح ماں باپ کا گناہ وراثت کے طور پر اولاد میں منتقل ہونابھی باطل اور نامعقول ہے۔ اسلام نے رسل و انبیاء علیہم السلام کو قرآن مجید میں عبادِ صالحین اور عبادِ مخلصین قرار دیا۔ عیسائیوں نے آیاتِ قرآنیہ سے انبیاء علیہم السلام کا گناہ گار ہونا ثابت کرنے کی سعی ناتمام کی ہے۔ وہ آیات ہرگز اس دعویٰ کی دلیل نہیں بلکہ عیسائیوں کی کج فہمی ہے کہ انہوں نے بغیر سوچے سمجھے آیاتِ قرآنیہ کو ایک صریح بطلان دعوے کے ثبوت میں پیش کر دیا۔ ان شاء اللہ دوسرے موقع پر ان آیات کی مکمل تشریح کی جائے گی ۔

سزا رحم کے اور معافی عدل کے منافی نہیں : رہا یہ امر کہ سزا رحم کے خلاف ہے اور معاف کرنا عدل کے منافی ہے تو یہ بھی نادانی و جہالت پر مبنی ہے۔ رحم سے عدل کو نقصان نہیں پہنچتا بلکہ ظلم سے عدل کا دامن داغدار ہوتا ہے پھر یہ کہ عدل کو رحم کے منافی قرار دے کر بھی عیسائیت کو سہارا نہیں ملتا کیونکہ جب سزا دینا رحم کے خلاف ہے تو دوسروں کے گناہوں کی سزا مسیح علیہ السلام کو دینا بھی رحم کے خلاف ہو گا بلکہ یہاں تو یہ خلاف اور زیادہ قوی ہو جائے گا کیونکہ جب گناہ گار کو سزا دینا رحم کے خلاف ہے تو بے گناہ کو سزا دینا سراسر ظلم ہو گا پھر سمجھ میں نہیں آتا عیسائی بے گناہ مسیح علیہ السلام کو سزا دینے کا اعتقاد کیوں رکھتے ہیں ؟

کفارہ صرف عیسائیوں کا ہوا یا تمام بنی آدم کا : اس کے علاوہ میں دریافت کروں گا کہ مسیح کا مصلوب ہو کر (معاذ اللہ) لعنت کی موت مرنا تمام بنی آدم کا کفارہ کہو تو سب کی نجات ہو گی۔ اب عیسائیت قبول کرنے کی کیا ضرورت رہی۔ کوئی مسیحی ہو یا یہودی، مجوسی ہو یا مسلمان، جب تمام بنی آدم کے گناہوں کا کفارہ ہو گیا تو مسیحیت بالکل بے معنی اور غیر ضروری ہو گئی۔ آپ بلا وجہ کروڑوں روپیہ صرف کر کے عیسائیت کی تبلیغ کرتے ہیں اور اس دردِ سر میں مبتلا ہیں اور اگر صرف عیسائیوں کے گناہوں کا کفارہ ہوا تو غیروں کے گناہوں کا کیا ہو گا۔ سزا ملے گی یا معافی؟ جس کو بھی اختیار کرو گے وہی اعتراض وارد ہو گا کہ سزا کی صورت میں رحم نہ رہے گا اور معافی کی صورت میں عدل کا خاتمہ ہو جائے گا اور حسب سابق دوبارہ کفارہ کے لئے یسوع مسیح کے بعد خدا کے دوسرے بیٹے کی ضرورت ہو گی پھر اس کفارہ پر بھی یہی اشکال وارد ہو گا جسکو حل کرنے کے لئے تیسرے کفارہ کا قول کرنا پڑے گا اور اس طرح نہ کفارے ختم ہوں گے نہ خدا کے بیٹے۔ ایسی صورت میں تمام بنی نوع انسان کے لئے یسوع مسیح کا نجات دہندہ ہونا باطل قرار پائے گا اور عیسائیت بالکل بے معنی ہو کر رہ جائے گی ۔

کفارہ کا نظریہ انتہائی خطرناک ہے : کفارہ کا نظریہ بجائے خود مضحکہ خیز ہونے کے علاوہ بنی نوع انسان کے لئے انتہائی خطرناک ہے۔ اس لئے کہ کفارہ پر ایمان لانے کے بعد انسان خواہ کتنے ہی بڑے جرم کا ارتکاب کرے اس کے دل میں سزایابی کا تصور نہیں آ سکتا کیونکہ اس قسم کا تصور کفارہ پر ایمان لانے کے قطعاً منافی ہے۔ جب گناہوں اور جرائم کی سزا کا تصور بھی جرم و گناہ قرار پایا تو بنی نوع انسان کا کسی قسم کے جرم و گناہ سے محفوظ رہنا ممکن نہیں رہا بلکہ دنیا کا کوئی گناہ اس صورت میں گناہ نہیں رہتا کیونکہ گناہ وہی کام ہو سکتا ہے جس پر کوئی سزا ہو سکے۔ جب سزا کا تصور نہ رہا تو گناہ اور معصیت کا وجود ہی ختم ہو گیا۔ چلو چھٹی ملی، نہ قتل و غارت پر کوئی پکڑ رہی، نہ ظلم و جور پر کوئی گرفت، زنا، چوری، حرام خوری سب کچھ کئے جایئے۔ کسی کو پوچھنے کا حق نہیں کہ تونے یہ کام کیوں کیا ؟

اس اعتقاد کے بعد عیسائیوں کا اپنی حدود مملکت میں جرائم کے لئے سزاؤں کے قوانین وضع کرنا عیسائیت کے ساتھ مذاق نہیں تو اور کیا ہے ؟

قرآن کا توراۃ و انجیل کی تصدیق کرنا موجودہ توراۃ و انجیل کے غیر محرف ہونے کی دلیل نہیں ، اسلام جس طرح انبیاء سابقین علیہم السلام کی عزت و عظمت کا ضامن ہے اسی طرح کتب سماویہ کا بھی مصدق ہے اور تورات و انجیل کا نام لے کر قرآن نے ان کی تصدیق کی ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہود و نصاریٰ کی تحریفات بھی اس تصدیق کے ماتحت ہیں کیونکہ قرآن کریم نے اہل کتاب کی تحریفات کا واشگاف الفاظ میں اعلان کیا ہے۔ قرآن کریم میں ہے ’’یُحَرِّفُوْنَ الْکَلِمَ عَنْ مَّوَاضِعِہٖ‘‘ (مائدہ: ۱۳) دوسری جگہ فرمایا ’’وَلَا تَلْبِسُوا الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَتَکْتُمُوا الْحَقَّ وَاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ‘‘ (بقرۃ: ۴۲) اس کے علاوہ دیگر آیاتِ قرآنیہ میں بھی یہ مضمون وارد ہے۔ یہودیوں اور عیسائیوں کی اس تحریف کے سامنے جب تورات و انجیل کی قرآنی تصدیق کو رکھا جائے تو صاف طور پر واضح ہو جاتا ہے کہ قرآن کریم نے اصل تورات و انجیل کی تصدیق کی ہے۔ یہود ونصاریٰ کی تحریفات کی ہرگز تصدیق نہیں کی۔ البتہ ان کی تحریفات کے واقعی تحریفات ہونے پر ضرور مہر تصدیق ثبت فرمائی ہے ۔

حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم اللہ تعالیٰ کا جزو نہیں بلکہ نورِ ذات کا جلوہ ہیں : آخر میں یہ مسئلہ بھی صاف کر دوں کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کو خدا کے نور سے مخلوق ماننے کا یہ مطلب نہیں کہ (معاذ اللہ) حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم اللہ تعالیٰ کا جزو ہیں بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم اللہ تعالیٰ کے نورِ ذات کا جلوہ ہیں بلا تشبیہ جس طرح آئینہ میں سورج کی روشنی اس کے انوار کا جزو نہیں ہوتی بلکہ ایک تجلی ہوتی ہے اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم نورِ ذات کی تجلی اور اس کا جلوہ ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے خود فرمایا ’’انا مراۃ جمال الحق‘‘ میں اللہ تعالیٰ کے جمال کا آئینہ ہوں ۔ البتہ عیسائی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اقانیم ثلاثہ میں سے ایک اقنوم مانتے ہیں اور ’’اب وابن وروح القدس‘‘ تینوں کو اجزاء قرار دے کر ان کے مجموعہ کو خدا کہتے ہیں ۔ مختصر یہ کہ خدائے قدوس کے لئے اس کے نورِ ذات کا جلوہ ماننا اسلام ہے اور اس کے لئے جز ثابت کرنا عیسائیت ہے ۔ (طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

مسئلہ رفع یدین مستند دلائل کی رشنی میں

مسئلہ رفع یدین مستند دلائل کی رشنی میں محترم قارئینِ کرام : علماء امت کا فیصلہ ہے کہ جن اختلافی مسائل میں ایک سے زائد صورتیں "سنّت&quo...