نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کی داڑھی مبارک کا حُسین تذکرہ
آج کے پر فتن دور میں جہاں اور فتنے ہیں وہاں ایک فتنہ نبی کریم صلي الله عليه وآله وسلم محبوب سنت داڑھی مبارک کی مختلف انداز میں توہین کرنے کا فتنہ بھی موجود ہے کبھی خشخشی داڑھی رکھ کر توہین کرتے ہیں ، کبھی داڑھی کے توہین آمیز ڈیزائن بنا کر توہین کرتے ہیں ان حالات میں فقیر ڈاکٹر فیض احمد چشتی نے اپنے تئیں مختصر سی کوشش کی ہے کہ ایسی احادیث مبارکہ جمع کردوں جن میں نبی کریم صلي الله عليه وآله وسلم ریش مبارک کا حُسین و جمیل تذکرہ موجود ہے سو یہ گلدستہ پیش خدمت ہے پڑھیئے پیارے نبی صلي الله عليه وآله وسلم کی مبارک داڑھی کا تذکرہ اور اس فقیر پُر تقصیر کو دعاؤں میں یاد رکھیئے گا ۔
نبی کریم رؤف الرّحیم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ریش مبارک گھنی اور گنجان ہوتے ہوئے بھی باریک اور خوبصورت تھی، ایسی بھری ہوئی نہ تھی کہ پورے چہرے کو ڈھانپ لے اور نیچے گردن تک چلی جائے۔ بالوں کا رنگ سیاہ تھا، سرخ و سفید چہرے کی خوبصورتی میں ریشِ مبارک مزید اِضافہ کرتی ۔ عمر مبارک کے آخری حصہ میں کل سترہ یا بیس سفید بال ریش مبارک میں آگئے تھے لیکن یہ سفید بال عموماً سیاہ بالوں کے ہالے میں چھپے رہتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ریش مبارک کے بالوں کو طول و عرض سے برابر کٹوا دیا کرتے تھے تاکہ بالوں کی بے ترتیبی سے شخصی وقار اور مردانہ وجاہت پر حرف نہ آئے ۔
حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ - رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کے سر کے اگلے بال اور داڑھی کے ( کچھ) بال سفید ہوگئے تھے،جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم تیل لگاتے تو وہ سفیدی معلوم نہیں ہوتی تھی اور جب بال بکھرے ہوئے ہوتے تھے تو سفیدی ظاہر ہوتی تھی ، وَكَانَ كَثِيرَ شَعْرِ اللِّحْيَةِ ۔ آپکی داڑھی مبارک بہت گھنی تھی ،ایک شخص نے کہا کہ آپ کا چہرہ تلوار کی طرح تھا؟انہوں نے کہا، نہیں!بلکہ سورج اور چاند کی طرح تھا ،آپ کا چہرہ گول تھا،میں نے آپ کے کندھے کے پاس کبوتر کے انڈے کے برابر مہرِ نبوت دیکھی، جس کا رنگ جسم مبارک کے رنگ کے مشابہ تھا۔ (صحیح مسلم:۲۳۴۴)
حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے : كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْسَ بِالطَّوِيلِ وَلا بِالْقَصِيرِ، ضَخْمُ الرَّأْسِ وَاللِّحْيَةِ ۔
ترجمہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کا قد مبارک نہ بڑا تھا نہ چھوٹا ، آپ کا سر مبارک بڑا اور داڑھی مبارک بھی بڑی تھی ۔ (مسند الامام احمد :۱؍ ۹۶،۱۲۷، وسندہ حسن) اس حدیث کو امام حاکم رحمہ اللہ (۲؍۶۰۲) نے ’’صحیح الاسناد‘‘ اور حافظ ذہبی نے ’’صحیح‘‘ کہا ہے ۔
حضرت ہشام بن حبیش بن خویلد سے روایت ہے کہ : حضرت امِّ معبد رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : وفي لحيته كثاثة : ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کی داڑھی مبارک گھنی تھی ۔ (المستدرک للحاکم :۳؍۹،۱۱،وسندہ حسن) اس حدیث کو امام حاکم رحمہ اللہ نے ’’صحیح الاسناد‘‘ اور حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔
یزید الفارسی کہتے ہیں کہ :میں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے زمانہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کو خواب میں دیکھا تو اس کا ذکر حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کیا ، آپ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم فرمایا : شیطان میری مشابہت اختیار کرنے کی طاقت نہیں رکھتا ، جس شخص نے مجھے خواب میں دیکھا ، اس نے مجھے ہی دیکھا ، تو اس شخص کی صفت بیان کرسکتا ہے ، جس کو تو نے خواب میں دیکھا ہے ؟ کہا ، ہاں درمیانے قد والا ، گندمی رنگ سفیدی کی طرف مائل ، آنکھیں بڑی بڑی گویا کہ سرمہ ڈالا ہوا ہو ، خوبصو رت مسکراہٹ اور شکل ، گول چہرہ قَدْ مَلَأَتْ لِحْيَتُهُ، مِنْ هَذِهِ إِلَى هَذِهِ قَدْ مَلَأَتْ نحرہ داڑھی جو سینے کو بھرے ہوئے تھی ، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرمانے لگے ، اگر تو جاگتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کو دیکھتا تو ان صفات کے سوا اور صفات بیان نہیں کر سکتا تھا ۔
(طبقات ابن سعد:۱؍۴۱۷،مصنف ابن ابی شیبہ:۱۱؍۵۱۵،۵۶،مسند ابن ابی شیبہ: (الاتحاف:۸۵۰۷)،مسند الامام احمد:۱؍۳۶۲۔۳۶۱،مسند ابی یعلیٰ: (الاتحاف:۵۸۰۸) الشمائل للترمذی:۳۹۳،ابن عساکر(السیرۃ النبویۃ:۱؍۲۳۰۔۲۲۹)،وسندہ حسن)
اس کا روای یزید الفارسی ’حسن الحدیث‘ ہے،اس کے بارے میں امام ابو حاتم الرازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:لا بأس به ’’ اس میں کوئی حرج نہیں۔‘‘ (الجرح والتعدیل:۹؍۲۹۴(
امام ترمذی رحمہ اللہ (۳۰۸۶) ،امام ابن حبان رحمہ اللہ (۴۳) اور امام حاکم رحمہ اللہ ۲؍۲۲۱،۳۳۰) نے اس کی ایک حدیث کو ’’صحیح‘‘ کہا ہے ،یہ اس کی ’’توثیق‘‘ ہے۔ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے۔ حافظ ہیثمی اس روایت کے بارے میں لکھتے ہیں :رجاله ثقات .اس کے راوی ثقہ ہیں۔‘‘(مجمع الزوائد:۸؍۲۷۲)
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے : کان رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ضخم الرأس و اللحية.
ترجمہ : حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اِعتدال کے ساتھ بڑے سر اور بڑی داڑھی والے تھے ۔
(حاکم، المستدرک، 2 : 626، رقم : 4194)(احمد بن حنبل، المسند، 1 : 96)(بيهقي، دلائل النبوه، 1 : 216)(ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 1 : 411)(طبري، تاريخ الامم والملوک، 2 : 221)(ابن کثير، البدايه و النهايه (السيرة)، 6 : 17)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے : کان رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم أسود اللحية.
ترجمہ : حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ریش مبارک سیاہ رنگ کی تھی ۔
(بيهقي، دلائل النبوه، 1 : 217)(ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 1 : 433)(سيوطي، الخصائص الکبريٰ، 1 : 125، رقم : 4194)
حضرت اُمِ معبد رضی اللّٰہ عنھا جنہیں سفرِ ہجرت میں والی کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی میزبانی کا شرفِ لازوال حاصل ہوا، اپنے تاثرات اِن الفاظ میں بیان کرتی ہیں : کان رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم کثيف اللحية.
ترجمہ : رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ریشِ اقدس گھنی تھی ۔
(ابن جوزي، الوفا : 397)(حاکم، المستدرک، 3 : 10)(ابن عساکر، السيرة النبويه، 3 : 184)(سيوطي، الجامع الصغير، 1 : 38)(مناوي، فيض القدير، 5 : 77)
حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت ہند بن ابی ہالہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صفت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : کان رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم کث اللحية ۔
ترجمہ : حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی داڑھی مبارک گھنی تھی ۔
(نسائي، السنن، 8 : 183، کتاب الزينه، رقم : 5232)(ترمذي، الشمائل المحمديه1 : 36، رقم : 8)(احمد بن حنبل، المسند، 1 : 101، رقم : 796)(بزار، المسند، 2 : 253، 660
5. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 1 : 422)
حضرت سعید بن مسیب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعریف میں یوں گویا ہوئے : کان . . . أسود اللحية حسن الشعر . . . مفاض اللحيين.
ترجمہ : (حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی) ریش مبارک سیاہ، بال مبارک خوبصورت، (اور ریش مبارک) دونوں طرف سے برابر تھی ۔
(ابن عساکر، تهذيب تاريخ دمشق الکبير، 1 : 320)(هيثمي، مجمع الزوائد، 8 : 280)
عمر مبارک میں اضافے کے ساتھ ریش مبارک کے بالوں میں کچھ سفیدی آ گئی تھی۔ حضرت وہب بن ابوجحیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : رأيتُ النبي صلي الله عليه وآله وسلم، و رأيتُ بياضاً من تحت شفته السفلٰي العنفقة.
ترجمہ : میں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کی اور میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لبِ اقدس کے نیچے کچھ بال سفید تھے ۔
(بخاري، الصحيح، 3 : 1302، کتاب المناقب، رقم : 3352)(احمد بن حنبل، المسند، 3 : 216)(ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 1 : 434)
صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اپنے کریم آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہر ادا پر قربان ہو ہو جاتے تھے، حیاتِ مقدسہ کی جزئیات تک کا ریکارڈ رکھا جا رہا تھا۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے : و ليس في رأسه و لحيته عشرون شعرة بيضآءَ ۔
ترجمہ : حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ریش مبارک اور سر مبارک میں سفید بالوں کی تعداد بیس سے زائد نہ تھی ۔
(بخاري، الصحيح، 3 : 1302، کتاب المناقب، رقم : 3354)(مسلم، الصحيح، 4 : 1824، کتاب الفضائل، رقم : 3347)(ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 592، کتاب المناقب، رقم : 3623)(امام مالک، الموطا، 2 : 919، رقم : 1639)(احمد بن حنبل، المسند، 3 : 130)(عبدالرزاق، المصنف، 3 : 599، رقم : 6886)(ابن حبان، الصحيح، 14 : 298، رقم : 6378)(ابو يعلي، المعجم، 1 : 55، رقم : 25)(طبراني، المعجم الصغير، 1 : 205، رقم : 328)(شعب الايمان، 2 : 148، رقم : 1412)(ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 2 : 308)
کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ریش مبارک میں لب اقدس کے نیچے اور گوش مبارک کے ساتھ گنتی کے چند بال سفید تھے جنہیں خضاب لگانے کی کبھی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوئی یہی وجہ ہے کہ آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خضاب وغیرہ استعمال نہیں کیا اس حوالے سے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے : و لم يختضب رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ، إنما کان البياض في عنفقته و في الصَّدغين وفي الرأس نبذ ۔
ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کبھی خضاب نہیں لگایا، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نچلے ہونٹ کے نیچے، کنپٹیوں اور سر مبارک میں چند بال سفید تھے ۔ (مسلم، الصحيح، 4 : 1821، کتاب الفضائل، رقم : 2341)(بيهقي، السنن الکبريٰ، 7 : 310، رقم : 14593)(بيهقي، دلائل النبوه، 1 : 232)
ریشِ اقدس طویل تھی نہ چھوٹی ، بلکہ اِعتدال ، توازُن اور تناسب کا اِنتہائی دلکش نمونہ اور موزونیت لئے ہوئے تھی ۔
کان النبي صلي الله عليه وآله وسلم کان يأخذ من لحيته من عرضها وطولها ۔
ترجمہ : حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ریش مبارک کے طول و عرض کو برابر طور پر تراشا کرتے تھے ۔
(ترمذي، الجامع الصحيح، 2 : 100، ابواب الادب، رقم : 2762)(عسقلاني، فتح الباري، 10 : 350)(زرقاني، شرح المؤطا، 4 : 426)(سيوطي، الجامع الصغير، 1 : 263) (محمد بن عبدالرحمن مباکفوري، تحفة الاحوذي، 8 : 38)(قرطبي، تفسير، الجامع الأحکام القرآن، 2 : 105)(ابن جوزي، الوفا : 609)(مقريزي، امتاع الاسماع، 2 : 161) (نبهاني، الانوار المحمديه : 214)( شوکاني، نيل الاوطار، 1 : 142)