Monday, 30 November 2015

حضورصلی اللہ علیہ وسلّم کے والدین رضی اللہ عنہما کو مشرک کہنے والوں کو جواب

حضورصلی اللہ علیہ وسلّم کے والدین رضی اللہ عنہما کو مشرک کہنے والوں کو جواب

حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم اپنے جن جن آباؤ اجداد کی پشتوں سے منتقل ہوکر دنیا میں تشریف لائے وہ سب کے سب سجدہ کرنے والے مومن اورتوحید پرست تھے اُن میں سے کوئی کافر ومُشرک نہ تھا۔ القرآن:… الَّذِیْ یَرَاکَ حِیْنَ تَقُوْمُo وَتَقَلُّبَکَ فِی السّٰجِدِیْنَo اِنَّہٗ ھُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ o ترجمہ: جو آپ کو دیکھتا رہتا ہے جب آپ کھڑے ہوتے ہیں اورہم تمہارا نور پاک سجدہ کرنے والوں میں دیکھ رہے ہیں بیشک وہی سب کچھ سُننے والا جاننے والا ہے ۔ (سورئہ شعراء ،آیت 218تا220، پارہ19)

فائدہ : ابو نعیم نے حضرت ابن عباس ص سے ان آیات کا مفہوم اس طرح نقل کیا ہے کہ ’’تقلب‘‘ سے مُراد ’’تنقل فی الاصلاب‘‘ یعنی جب آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کا نور یکے بعد دیگرے آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے آباؤ اجداد کی پشتوں سے منتقل ہوتاہوا حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا کے پاکیزہ بطنِ مبارک اورحضرت عبداللہ ص کی نورانی پیشانی میں چمکا۔ لہٰذا اس آیت سے ثابت ہوا کہ سرکارِ اعظم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم جن جن آباؤ اجداد کی پشتوں سے منتقل ہوکر دنیا میں تشریف لائے وہ سب کے سب (اللہ تعالیٰ) کو سجدہ کرنے والے مومن اور توحید پر ست تھے اُن میں سے کوئی بھی کافر ومشرک نہ تھا۔ الحدیث:… مسلم ، ترمذی اورمشکوٰۃ میں ہے کہ حضرت وائلہ بن الاسقعص فرماتے ہیں کہ میں نے سرکارِ اعظم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم سے سُنا آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم فرماتے ہیں کہ بے شک اللہ تعالیٰ نے حضرت اسماعیل ں کی اولاد سے کنانہ کو برگذیدہ (منتخب ) فرمایا اورکنانہ میں قریش کو اور قریش میں سے بنی ھاشم اوراس میں سے مجھ کو برگزیدہ فرمایا۔ (دلائل النبوت، بیہقی جلد اوّل صفحہ65، سیرت حلبیہ ، جلد اوّل صفحہ43)

فائدہ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حضرت اسماعیل ں سے لے کر سیّدہ آمنہ رضی اللہ عنہا اورحضرت عبداللہ ص تک سرکارِ اعظم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم جن جن آباؤ اجداد سے منتقل ہوکر دنیا میں تشریف لائے وہ تمام برگذیدہ اور صاحبِ ایمان تھے ۔ دلیل:… حضرت ابراہیم ں کی دعا قرآن میں یوں نقل ہے ۔ القرآن:… رَبَّنَا وَابْعَثْ فِیْھِمْ رَسُوْلًا مِّنْھُمْ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰتِکَ وَیُعَلِّمُھُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَۃَ وَیُزَکِّیْھِمْ ط (سورئہ بقرہ ، پارہ 1آیت129) ترجمہ: اے ہمارے رب اُمّت مسلمہ میں سے آخری رسول بھیج کہ ان پر تیری آیت تلاوت فرمائے اورانہیں کتاب اور پختہ علم سکھائے اوراُنہیں خوب صاف ستھرا فرمادے

فائدہ : معلوم ہوا کہ سرکارِ اعظم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے لئے حضرت ابراہیم ں نے دعا فرمائی کہ اُمّتِ مسلمہ میں رسول بھیج جو گمراہ لوگوں کو خوب صاف ستھرا کر دے جونبی صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم لوگوں کو پاک صاف کردیں کیا وہ خود (معاذ اللہ) کسی مشرک کے بطن میں رہ سکتے ہیں لہٰذا معلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم اُمِّت مسلمہ میں سے تشریف لائے ۔ سرکارِ اعظم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے والدین کریمین کے مومن ہونے پر علمائے اُمَّت کا اتفاق: اعلیٰ حضرت امام احمد رضا فاضلِ بریلوی علیہ الرحمہ اپنی کتاب شمول الاسلام میں ان علمائے اُمَّت کے نام تحریر فرمائے ہیں جنہوں نے سرکارِ اعظم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے والدین کریمین کے مومن ہونے پر تحریریں لکھی ہیں۔
1 : امام ابو حفصل عمر ابن احمد بن شاہین بغدادی علیہ الرحمہ (المتوفی 358ھ)
2 : شیخ احمد بن علی بن ثابت بن احمد بن مہدی خطیب علی البغدادی علیہ الرحمہ (المتوفی 463ھ)
3 : حافظ الشان محدث امام ابو القاسم علی بن حسن عساکر علیہ الرحمہ (المتوفی 571ھ)
4 : امام اجل ابو القاسم عبدالرحمن بن عبدلالہ بن احمد سہیلی علیہ الرحمہ (المتوفی 581ھ)
5 : علامہ امام صالح الدین صفوی علیہ الرحمہ (المتوفی 764ھ)
6 : امام علامہ شر ف الدین مناوی علیہ الرحمہ (المتوفی 757ھ)
7 : امام فخر الدین رازی علیہ الرحمہ (مصنّف تفسیرِ کبیر) (المتوفی 606ھ)
8 : اما م جلا ل الدین سیوطی الشافعی علیہ الرحمہ (المتوفی 911ھ)
9 : امام عبدالوہاب شعرانی علیہ الرحمہ (المتوفی 1122ھ)
10 : شیخ محقق شاہ عبدالحق محدث دہلوی علیہ الرحمہ (المتوفی 1052ھ)

ان تمام علمائے اُمّت کا ایمان ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے والدین کریمین رضی اللہ عنہما مومن ، موحد اورجنتی ہیں۔

اعتراض: مسلم شریف کی روایت کے الفاظ ’’ان ابی واباک فی النار‘‘ یعنی میرا اور تمہارا باپ دونوں جہنم میں ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے اس فرمان کا کیا مطلب ہے؟
جواب: اس کا جواب حضرت امام جلال الدین سیوطی علیہ الرحمہ نے اپنے مقبول زمانہ رسالے ’’نشر العلمین المنیفین فی احیاء الابوین الشریفین‘‘ میں دیاہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ یہاں باپ سے مراد ابو طالب ہیں، کیونکہ اہل عرب چچا کو (ابا یعنی باپ) كهتے تھے اور یہ تمام عرب ممالک میں معمول تھا۔ قرآن مجید میں ہے: قَالُوا نَعْبُدُ إِلَـٰهَكَ وَإِلَـٰهَ آبَائِكَ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ إِلَـٰهًا وَاحِدًا (سورۂ بقرہ، آیت 133، پارہ 1) ترجمہ: وہ بولے ہم پوجیں گے اسے جو خدا ہے آپ کا اور آپ کے آباء ابراہیم و اسمعیل و اسحاق کا ایک خدا۔ اس آیت میں حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کو حضرت یعقوب علیہ السلام کے والد میں ذکر کیا گیا ہے یعنی ’’آباء‘‘ کہا گیا حالانکہ حضرت اسمٰعیل علیہ السلام، حضرت یعقوب علیہ السلام کے چچا تھے۔ امام رازی علیہ الرحمہ تفسیر کبیر جلد سوم صفحہ نمبر 37 پر فرماتے ہیں۔ آج کل بھی بعض قوموں میں چچا کو بڑے ابا کہا جاتا ہے حالانکہ وہ والد نہیں، چچا ہوتے ہیں۔ (طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

Sunday, 29 November 2015

اعتراض : کیا نبی علیہ السلام کا مقام ولادت مقدس جگہ ہے ؟ کیا اس کی تعظیم هم پر لازم هے ؟

اعتراض : کیا نبی علیہ السلام کا مقام ولادت مقدس جگہ ہے ؟ کیا اس کی تعظیم هم پر لازم هے ؟
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
جواب : انبیاء کرام کا مقام ولادت بابرکت اور مقدس جگہ ہے اور ہم سب مسلمانوں پر لازم ہے کہ ہم ایسی متبرک جگہ کا احترام کریں۔ مقام ولادت عیسٰی علیہ السلام کی اہمیت و فضیلت: حضرت انس بن مالک رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ نبی پاکﷺ نے اپنا سفر معراج بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ جبرائیل علیہ السلام نے بیت اللحم کے مقام پر مجھ سے کہا : آپ براق سے اتریئے اور نماز پڑھیئے، میں نے اتر کر نماز ادا کی، پس اس نے کہا: ’’اتدری این صلیت؟ صلیت بیت لحم حیث ولد عیسٰی‘‘ پس اس نے کہا، کیا آپ جانتے ہیں کہ آپ نے کہاں نماز اد اکی ہے؟ آپ نے بیت اللحم میں نماز ادا کی ہے جہاں عیسٰی علیہ السلام کی پیدائش ہوئی تھی (سنن نسائی شریف، کتاب الصلوٰۃ، باب فرض الصلوٰۃ، جلد اوّل ، ص 222، حدیث 480) اس حدیث سے نبی کی جائے ولادت کی اہمیت اور فضیلت ثابت ہوتی ہے، جب حضرت عیسٰی علیہ السلام کے مقام ولادت کا یہ عالم ہے تو محبوب خداﷺ کی جس جگہ ولادت باسعادت ہوئی، اس مکان کی برکتوں کا کون اندازہ لگا سکتا ہے۔ اس لئے عاشقان رسول عرصۂ دراز سے مکۃ المکرمہ میں واقع ولادت گاہ مصطفیﷺ پر ادب و احترام کے ساتھ درود وسلام کے پھول نچھاور کرتے ہیں۔

اعتراض : ۔ دن مقرر کرکے میلاد کیوں مناتے ہو؟ دن مقرر کرکے عبادت کرنا ناجائز ہے

اعتراض : ۔ دن مقرر کرکے میلاد کیوں مناتے ہو؟ دن مقرر کرکے عبادت کرنا ناجائز ہے
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
جواب : ۔ عقل کا تقاضا یہ ہے کہ جس کی یاد منانی ہو تو اسی دن منائی جائے جس دن کو، جس تاریخ کو اس شخصیت سے نسبت ہو۔ اعمال صالح کے لئے دن مقرر کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ ٭ سید عالمﷺ نے شہدائے احد کی زیارت کے لئے سرسال کا وقت مقرر فرمایا تھا (صحیح مسلم، باب فضل مسجد قباء، جلد اول،  448، مطبوعہ قدیمی کتب خانہ، کراچی) ٭ حضور اکرمﷺ کا سنیچر (ہفتہ) کے دن مسجد قباء میں تشریف لانا (بخاری شریف، مسلم شریف) ٭ حضور اکرمﷺ کا ہر پیر کو اپنی ولادت کا روزہ رکھنا (مسلم، باب استحباب صیام ثلاثہ ایام، جلد اول، ص 368، مطبوعہ قدیمی کتب خانہ، کراچی) ٭ حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ سے دینی مشاورت کے لئے وقت صبح و شام کا تعین (بخاری، باب ہجرۃ النبی و اصحابہ الی المدینہ جلد اول، ص 552، مطبوعہ قدیمی کتب خانہ، کراچی) ٭ سفر جہاد شروع کرنے کے لئے پنج شنبہ (جمعرات) کا تعین (بخاری، باب ہجرۃ النبی و اصحابہ الی المدینہ، جلد اول، ص 414، مطبوعہ قدیمی کتب خانہ) ٭ طلب علم کے لئے دو شنبہ (پیر) کا تعین (الفردوس بماء ثور الخطاب، جلد اول، ص 78، حدیث 237، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت) ٭ حضرت عبداﷲ ابن مسعود رضی اﷲ عنہ نے وعظ و تذکیر کے لئے پنج شنبہ (جمعرات) کا دن مقرر کیا (بخاری، باب من جعل لاہل ایاما معلومۃ، جلد اول، ص 16، قدیمی کتب خانہ، کراچی) ٭ علماء نے سبق شروع کرنے کے لئے بدھ کا دن رکھا (تعلیم المتعلم، فصل فی بدایۃ السبق، ص 93، مطبوعہ مطیع علیمی دہلی)

اعتراض : ۔ کیا جشن عید میلاد النبی ﷺ منانا فرض یا واجب ہے، جس کے منانے پر اتنا زور دیتے ہو اور نہ منانے والوں کو برا بھلا کہتے ہو

اعتراض : ۔ کیا جشن عید میلاد النبی ﷺ منانا فرض یا واجب ہے، جس کے منانے پر اتنا زور دیتے ہو اور نہ منانے والوں کو برا بھلا کہتے ہو
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
جواب : ۔ ہمارے علماء نے جشن عید میلاد النبیﷺ منانے کو اپنی کسی بھی کتاب اور بیان میں فرض یا واجب قرار نہیں دیا بلکہ ایک مستحب عمل قرار دیا ہے۔ مطلب یہ کہ اگر كسي مسلمان نے اپنی پوری زندگی میں کبھی جشن عید میلاد النبیﷺ نہیں منایا، نہ اپنے گھروں پر جھنڈے لگائے، نہ چراغاں کیا، نہ جلوس میں شرکت کی، نہ شب میلاد شب بیداری کی ، مگر میلاد منانے کو ناجائز اور بدعت قرار نہیں دیتا اور نہ ہی بدعت سمجھتا ہے، تو ایسا شخص ہرگز ہرگز گناہ گار نہیں ہوگا ۔ اس لئے جشن ولادت منانا ایسا عمل ہے جو اس کا انعقاد کرے وہ ثواب پاتا ہے اور جو نہیں مناتا، اس پر کوئی گناہ نہیں۔ ہاں البتہ اگر کوئی جشن ولادت منانے کو بدعت، ناجائز کہے یا سمجھے ایسا شخص ضرور گناہ گار ہوگا ، اس کو توبہ کرنی ہوگی کیونکہ اس نے ایک مستحب عمل کو بدعت و ناجائز کہا۔ لہذا جشن ولادت کے متعلق اپنی زبانوں کو غلط استعمال کرنے والے ہوش کے ناخن لیں۔ ہم اہلسنت جشن عید میلاد النبی ﷺ نہ منانے والوں کو برا بھلا نہیں کہتے بلکہ جو اس مستحب عمل کو بدعت و ناجائز کہتے ہیں ، ان کے اعتراضات کے جوابات دیتے ہیں ۔

اعتراض ؛ کیا کبھی صحابہ کرام علیہم الرضوان نے آمد رسولﷺ کا جلوس نکالا تھا

اعتراض ؛ کیا کبھی صحابہ کرام علیہم الرضوان نے آمد رسولﷺ کا جلوس نکالا تھا
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
جواب : ۔ جشن آمد رسولﷺ کا جلوس نکالنا اب تقریبات میلاد کا ضروری حصہ بن چکا ہے اور سرکار کریمﷺ کی محبت میں مسلمانان عالم جشن عید میلاد النبیﷺ کا جلوس نکالتے ہیں۔ مسلمانان عالم کا یہ عمل یعنی جلوس نکالناصحابہ کرام علیہم الرضوان کی سنت ہے۔ حدیث شریف: فی ابلک فقدمنا المدینۃ لیلا فتنازعوا ایہم ینزل علیہ رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم فقال انزل علی بنی النجار اخوال عبدالمطلب اکرمہم بذلک فصعد الرجال والنساء فوق البیوت و تفرق الغلمان والخدم فی الطرق ینادون یا محمد یا رسول ﷲ یا محمد یا رسول ﷲ (ﷺ) (مسلم شریف، کتاب الزہد والرقائق، باب فی حدیث الہجرۃ ویقال لہ حدیث الرحل باالحاء، حدیث7480، جلد سوم، ص 744، مطبوعہ شبیر برادرز لاہور) ترجمہ: (حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں) پھر ہم رات کے وقت مدینہ منورہ پہنچے تو ان کے درمیان یہ اختلاف ہوگیا کہ نبی کریمﷺ کس کے ہاں قیام کریں گے تو نبی پاکﷺ نے فرمایا: میں (اپنے دادا) عبدالمطلب کی ننھیال ’’بنو نجار‘‘ کے ہاں قیام کرکے ان کی عزت افزائی کروں گا (مدینہ میں ہمارے داخل کے وقت) عورتیں چھتوں پر چڑھی ہوئی تھیں، لڑکے اور خادم گلیوں میں تھے اور وہ سب یہ نعرہ لگا رہے تھے یا محمد(ﷺ) یا رسول اﷲ (ﷺ)! یا محمد (ﷺ)! یا رسول اﷲ (ﷺ) ٭ امام رویانی علیہ الرحمہ کے مطابق اہالیان مدینہ جلوس کی شکل میں یہ نعرہ لگا رہے تھے ’’جاء محمد رسول اﷲﷺ‘‘ یعنی اﷲ تعالیٰ کے رسول حضرت محمد مصطفیﷺ تشریف لے آئے ہیں (مسند الصحابہ جلد اول، ص 138) حدیث شریف: کان النبی ﷺ اذا قدم من سفر استقبل بنا فاینا استقبل اولا جعلہ امامہ فاستقبل بی فعملنی امامہ ثم استقبل بحسن او حسین فجعلہ خلفہ فدخلنا المدینۃ وانا لکذلک (ابو دائود، کتاب الجہاد، حدیث 794، ص 300، مطبوعہ فرید بک لاہور) ترجمہ: جب نبی کریمﷺ سفر سے تشریف لاتے تو ہ لوگ آپ کے استقبال کے لئے جاتے، ایک بار میں اور حسن اور حسین رضی اﷲ عنہما آپﷺ کے استقبال کے لئے چلے۔ آپﷺ نے ہم میں سے ایک کو آگے بٹھایا اور ایک کو پیچھے، حتی کہ ہم مدینہ پہنچے۔ فائدہ: جب تاجدار مدینہﷺ کی مکہ سے مدینہ آمد ہو، غزوہ یا سفر سے آمد ہو یا فتح مکہ کے موقع پر مکۃ المکرمہ میں آمد ہو تو جلوس نکالا جائے، نعرۂ رسالت یارسول اﷲﷺ لگائے جائیں تو اس پر سرکارﷺ منع بھی نہ فرمائیں۔ ثابت ہوا کہ آمد رسولﷺ کی خوشی میں جلوس نکالنا جائز ہے۔ جلوس میلاد پر اعتراضات کرنے والے چاروں خلفائے راشدین کے ایام میں جلوس نکالتے ہیں، تحفظ ناموس رسالت، تحفظ حرمین، تحفظ پاکستان، یوم کشمیر، ملین مارچ اور یوم تکبیر پر جلوس نکالتے ہیں۔

ميلاد النبيﷺ كے جلوس كو بدعت كهنے والے سعودي عرب كي حمايت ميں جلوس نكال رهے هيں آخر کیوں ؟

اس جلوس ميں ملك پاكستان كے سارے وهابي، ديوبندي قائدين اور تمام تنظيميں شامل هيںِ كيا كبھي دورِ رسالت اور دور صحابه ميں كبھي كسي نے تحفظ حرمين ريلي نكالي ؟

ميلاد النبيﷺ كے جلوس كو كينسل كرنے كي بات كرنےوالے سعودي عرب كي حمايت ميں جلوس نكال رهے هيں ۔

اعتراض : ۔ عید میلاد النبیﷺ کے موقع پر چراغاں کرنے کا کوئ ثبوت نہیں ہے

اعتراض : ۔ عید میلاد النبیﷺ کے موقع پر چراغاں کرنے کا کوئ ثبوت نہیں ہے
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
جواب : ۔ خوشی کے مواقع پر خوشی کا اظہار چراغاں کے ذریعے کرنا جائز ہے، ہر دور میں اس دور کے مطابق موجود سامان مسرت کے ذریعے خوشی کا اظہار کیاجاتا تھا۔ کسی دور میں چراغ روشن ہوتے تھے، کسی دور میں فانوس روشن کئے جاتے تھے، کسی دور میں قندیلیں روشن کی جاتی تھیں، کسی دور میں مشعلیں روشن کی جاتی تھیں، کسی دور میں شمعیں روشن کی جاتی تھیں اور موجودہ دور میں بجلی موجود ہے لہذا ہر مقام پر چراغاں کے ذریعہ خوشی کا اظہار کیا جاتا ہے۔ لیلۃ القدر میں مساجد پر لائٹنگ کی جاتی ہے، ختم قرآن کی محافلوں میں بڑی بڑی لائٹیں لگائی جاتی ہیں، مذہبی، سیاسی اور سماجی اجتماعات کے مواقع پر لائٹیں لگائی جاتی ہیں، اولاد کی منگنی کے موقع پر گھر کو برقی قمقموں سے سجایا جاتا ہے، ختنہ اور عقیقہ کے مواقع پر خوب روشنی کی جاتی ہے۔ اولاد کی شادی کے موقع پر شادی ہال، شادی لانز اور گلیوں اور عمارتوں کو برقی قمقموں سے سجایا جاتا ہے اور یہ سب خوشی کے اظہار کے لئے کیاجاتا ہے۔ یاد رہے! یہ ساری خوشیاں جو اﷲ تعالیٰ کی نعمت ہیں اور اس نعمت کی آمد پر چراغاں کیاجاتا ہے تو پھر جو نعمت عظمیٰ و نعمت کبریٰ (سب سے بڑی نعمت) یعنی سرکار کائناتﷺ کی ذات ہیں، اس نعمت کبریٰ کی آمد کی خوشی اور یاد میں کس قدر چراغاں کرنا چاہئے۔ 1: حضور نبی اکرمﷺ کی ولادت باسعادت کے حوالہ سے حضرت عثمان بن ابی العاص رضی اﷲ عنہ کی والدہ ماجدہ حضرت فاطمہ بنت عبداﷲ ثقفیہ رضی اﷲ عنہا حضورﷺ کی ولادت کے وقت حضرت آمنہ رضی اﷲ عنہا کے پاس تھیں۔ آپ شب ولادت کی بابت فرماتی ہیں۔ فما ولدتہ خرج منہا نور اضاء لہ البیت الذی نحن فیہ والدار، فما شیٔ انظر الیہ الانور (المعجم الکبیر جلد 25، رقم 457-355 ص 186-147) ’’پس جب آپﷺ کی ولادت باسعادت ہوئی تو سیدہ آمنہ کے جسم اطہر سے ایسا نور نکلا جس سے پورا گھر اور حویلی جگمگ کرنے لگی اور مجھے ہر ایک شے میں نور ہی نور نظر آیا‘‘ 2۔ حضرت آمنہ رضی اﷲ عنہا سے ایک روایت یوں مروی ہے: انی رأیت حین ولدتہ انہ خرج منی نور اضاء ت منہ قصور بصری من ارض الشام (المعجم الکبیر، جلد 24، رقم 545، ص 214) ’’جب میں نے آپﷺ کو جنم دیا تو میں نے دیکھا کہ بے شک مجھ سے ایسا نور نکلا جس کی ضیاء پاشیوں سے سرزمین شام میں بصرہ کے محلات روشن ہوگئے‘‘ اتر آئے ستارے قمقمے بن کر انسان جب جشن مناتے ہیں تو اپنی بساط کے مطابق روشنیوں کا اہتمام کرتے ہیں، قمقمے جلاتے ہیں، اپنے گھروں، محلوں اور بازاروں کو ان روشن قمقموں اور چراغوں سے مزین و منور کرتے ہیں، لیکن وہ خالق کائنات جس کی بساط میں شرق و غرب ہے، اس نے جب چاہا کہ اپنے حبیبﷺ کے میلاد پر چراغاں کروں تو نہ صرف شرق تا غرب زمین کو منور کردیا بلکہ آسمانی کائنات کو بھی اس خوشی میں شامل کرتے ہوئے ستاروں کو قمقمے بناکر زمین کے قریب کردیا۔ حضرت عثمان بن ابی العاص رضی اﷲ عنہ کی والدہ فاطمہ بنت عبداﷲ ثقیفہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں: حضرت ولادۃ رسول ﷲﷺ فرأیت البیت حین وضع قد امتلاً نوراً، ورأیت النجوم تدنو حتی ظننت انہا ستقع علی (الروض الانف فی تفسیر السیرۃ النبویۃ لابن ہشام، جلد اول، ص 279-278) ’’جب آپﷺ کی ولادت ہوئی تو (میں خانہ کعبہ کے پاس تھی) میں نے دیکھا کہ خانہ کعبہ نور سے منور ہوگیا ہے اور ستارے زمین کے اتنے قریب آگئے کہ مجھے گمان ہونے لگا کہ کہیں مجھ پر نہ گر پڑیں‘‘ جشن میلاد النبیﷺ کے موقع پر مکہ مکرمہ میں چراغاں عید میلاد النبیﷺ کے موقع پر اہل مکہ ہمیشہ جشن مناتے اور چراغاں کا خاص اہتمام کرتے۔ ائمہ نے اس کا تذکرہ اپنی کتب میں کیا ہے۔ نمونے کے طور پر چند روایات درج ذیل ہیں: حضرت امام محمد جار اﷲ بن ظہیرہ حنفی علیہ الرحمہ (متوفیٰ 986ھ) اہل مکہ کے جشن میلاد کے بارے میں لکھتے ہیں: وجرت العادۃ بمکۃ لیلۃ الشانی عشر من ربیع الاول فی کل عام ان قاضی مکۃ الشافعی یتھیا لزیارۃ ہذا المحل الشریف بعد صلاۃ المغرب فی جمع عظیم، منہم الثلاثۃ القضاۃ واکثر الاعیان من الفقہاء والفضلائ، وذوی البیوت بفوانیس کثیرۃ وشموع عظیمۃ وزحام عظیم، ویدعی فیہ للسلطان ولامیر مکۃ، وللقاضی الشافعی بعد تقدم خطبۃ مناسبۃ للمقام، ثم یعود منہ الی المسجد الحرام قبیل العشائ، ویجلس خلف مقام الخلیل علیہ السلام بازاء قبۃ الفراشین، ویدعو الداعی لمن ذکر آنفاً بحضور القضاۃ واکثر الفقہاء ثم یصلون العشاء وینصرفون، ولم اقف علی اول من سن ذالک، سألت مورخی العصر فلم اجد عندہم علماً بذلک (الجامع اللطیف فی فضل مکۃ واہلہا وبناء البیت الشریف، ص 202-201) ’’ہر سال مکہ مکرمہ میں بارہ ربیع الاول کی رات اہل مکہ کا یہ معمول ہے کہ قاضی مکہ۔ جوکہ شافعی ہیں۔ مغرب کی نماز کے بعد لوگوں کے ایک جم غفیر کے ساتھ مولود شریف کی زیارت کے لئے جاتے ہیں۔ ان لوگوں میں تینوں مذاہب فقہ کے قاضی، اکثر فقہاء، فضلاء اور اہل شہر ہوتے ہیں جن کے ہاتھوں میں فانوس اور بڑی بڑی شمعیں ہوتی ہیں۔ وہاں جاکر مولد شریف کے موضوع پر خطبہ دینے کے بعد بادشاہ وقت، امیر مکہ اور شافعی قاضی کے لئے (منتظم ہونے کی وجہ سے) دعا کی جاتی ہے۔ پھر وہ وہاں سے عشاء سے تھوڑا پہلے مسجد حرام میں آجاتے ہیں اور صفائی کرنے والوں کے قبہ کے مقابل مقام ابراہیم کے پیچھے بیٹھتے ہیں۔ بعد ازاں دعا کرنے والا کثیر فقہاء اور قضاۃ کی موجودگی میں دعا کہنے والوں کے لئے خصوصی دعا کرتا ہے اور پھر عشاء کی نماز ادا کرنے کے بعد سارے الوداع ہوجاتے ہیں۔ (مصنف فرماتے ہیں کہ) مجھے علم نہیں کہ یہ سلسلہ کس نے شروع کیا تھا اور بہت سے اہم عصر مورخین سے پوچھنے کے باوجود اس کا پتہ نہیں چل سکا‘‘ حضرت علامہ قطب الدین حنفی علیہ الرحمہ (متوفیٰ 988ھ) نے کتاب الاعلام باعلام بیت اﷲ الحرام فی تاریخ مکۃ المشرفۃ میں اہل مکہ کی محافل میلاد کی بابت تفصیل سے لکھا ہے۔ وہ فرماتے ہیں: يزار مولد النبي صلي الله عليه وآله وسلم المکاني في الليلة الثانية عشر من شهر ربيع الأول في کل عام، فيجتمع الفقهاء والأعيان علي نظام المسجد الحرام والقضاة الأربعة بمکة المشرفة بعد صلاة المغرب بالشموع الکثيرة والمفرغات والفوانيس والمشاغل وجميع المشائخ مع طوائفهم بالأعلام الکثيرة ويخرجون من المسجد إلي سوق الليل ويمشون فيه إلي محل المولد الشريف بازدحام ويخطب فيه شخص ويدعو للسلطنة الشريفة، ثم يعودون إلي المسجد الحرام ويجلسون صفوفا في وسط المسجد من جهة الباب الشريف خلف مقام الشافعية ويقف رئيس زمزم بين يدي ناظر الحرم الشريف والقضاة ويدعو للسلطان ويلبسه الناظر خلعة ويلبس شيخ الفراشين خلعة. ثم يؤذن للعشاء ويصلي الناس علي عادتهم، ثم يمشي الفقهاء مع ناظر الحرم إلي الباب الذي يخرج منه من المسجد، ثم يتفرقون. وهذه من أعظم مواکب ناظر الحرم الشريف بمکة المشرفة ويأتي الناس من البدو والحضر وأهل جدة، وسکان الأودية في تلک الليلة ويفرحون بها. )كتاب الاعلام باعلام بيت اﷲ الحرام في تاريخ مكة المشرفة ص 355) ’’ہر سال باقاعدگی سے بارہ ربیع الاول کی رات حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جائے ولادت کی زیارت کی جاتی ہے۔ (تمام علاقوں سے) فقہاء، گورنر اور چاروں مذاہب کے قاضی مغرب کی نماز کے بعد مسجد حرام میں اکٹھے ہوتے ہیں اور ان کے ہاتھوں میں کثیر تعداد میں شمعیں، فانوس اور مشعلیں ہوتیں ہیں۔ یہ (مشعل بردار) جلوس کی شکل میں مسجد سے نکل کر سوق اللیل سے گزرتے ہوئے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جائے ولادت کی زیارت کے لیے جاتے ہیں۔ پھر ایک عالم دین وہاں خطاب کرتا ہے اور اس سلطنتِ شریفہ کے لیے دعا کرتا ہے۔ پھر تمام لوگ دوبارہ مسجد حرام میں آنے کے بعد باب شریف کی طرف رُخ کرکے مقامِ شافعیہ کے پیچھے مسجد کے وسط میں بیٹھ جاتے ہیں اور رئیسِ زَم زَم حرم شریف کے نگران کے سامنے کھڑا ہوتا ہے۔ بعد ازاں قاضی بادشاہِ وقت کو بلاتے ہیں، حرم شریف کا نگران اس کی دستار بندی کرتا ہے اور صاحبانِ فراش کے شیخ کو بھی خلعت سے نوازتا ہے۔ پھر عشاء کی اذان ہوتی اور لوگ اپنے طریقہ کے مطابق نماز ادا کرتے ہیں۔ پھر حرم پاک کے نگران کی معیت میں مسجد سے باہر جانے والے دروازے کی طرف فقہاء آتے اور اپنے اپنے گھروں کو چلے جاتے ہیں۔ یہ اتنا بڑا اجتماع ہوتا کہ دور دراز دیہاتوں، شہروں حتیٰ کہ جدہ کے لوگ بھی اس محفل میں شریک ہوتے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت پر خوشی کا اِظہار کرتے تھے۔

اعتراض : ۔ آپ لوگ شب میلاد النبیﷺ کوشب قدر سے بھی افضل کہتے ہیں اور اس رات کو شب بیداری بھی کرتے ہیں اس کا کوئ ثبوت نہیں ہے ؟

اعتراض : ۔ آپ لوگ شب میلاد النبیﷺ کوشب قدر سے بھی افضل کہتے ہیں اور اس رات کو شب بیداری بھی کرتے ہیں اس کا کوئ ثبوت نہیں ہے ؟
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
جواب : ۔ صرف ہم لوگ شب میلاد النبیﷺ کو شب قدر سے افضل نہیں کہتے بلکہ علمائے اُمّت کا متفقہ فتویٰ ہے کہ شب میلاد، شب قدر سے بھی افضل ہے۔ اکابر محدثین حضرت امام قسطلانی علیہ الرحمہ، شیخ محقق شاہ عبدالحق محدث دہلوی علیہ الرحمہ، امام زرقانی علیہ الرحمہ اور حضرت امام نبہانی علیہ الرحمہ نے اپنی اپنی کتابوں میں شب میلاد کو شب قدر سے افضل قرار دیا ہے۔ 1: حضرت امام قسطلانی علیہ الرحمہ (متوفیٰ 923ھ) اپنی کتاب میں لکھتے ہیں۔ إذا قلنا بأنه عليه الصلاة والسلام ولد ليلاً، فأيما أفضل : ليلة القدر أو ليلة مولده صلي الله عليه وآله وسلم ؟ أجيب : بأن ليلة مولده عليه الصلاة والسلام أفضل من ليلة القدر من وجوه ثلاثة : أحدها : أن ليلة المولد ليلة ظهوره صلي الله عليه وآله وسلم ، وليلة القدر معطاة له، وما شرف بظهور ذات المشرف من أجله أشرف مما شرف بسبب ما أعطيه، ولا نزاع في ذلک، فکانت ليلة المولد. بهذا الاعتبار. أفضل. الثاني : أن ليلة القدر شرفت بنزول الملائکة فيها، و ليلة المولد شرفت بظهوره صلي الله عليه وآله وسلم فيها. وممن شرفت به ليلة المولد أفضل ممن شرفت به ليلة القدر، علي الأصح المرتضي (أي عند جمهور أهل السنة) فتکون ليلة المولد أفضل. الثالث : ليلة القدر وقع التفضل فيها علي أمة محمد صلي الله عليه وآله وسلم ، وليلة المولد الشريف وقع التفضل فيها علي سائر الموجودات، فهو الذي بعثه ﷲ تعالٰي رحمة للعالمين، فعمّت به النعمة علي جميع الخلائق، فکانت ليلة المولد أعم نفعاً، فکانت أفضل من ليلة القدر بهذا الاعتبار. (المواهب اللدنيه بالمنح المحمدية جلد اول، ص (145 ’’جب ہم یہ کہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رات کے وقت پیدا ہوئے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ شبِ میلادِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم افضل ہے یا لیلۃ القدر؟ میں اس کے جواب میں کہتا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی میلاد کی رات تین وجوہ کی بناء پر شبِ قدر سے اَفضل ہے : (1) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ظہور شبِ میلاد میں ہوا جب کہ لیلۃ القدر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عطا کی گئی، لہٰذا وہ رات جس کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ظہور کا شرف ملا اُس رات سے زیاده شرف والی ہوگی جسے اِس رات میں تشریف لانے والی ہستی کے سبب سے شرف ملا، اور اِس میں کوئی نزاع نہیں۔ لہٰذا اِس اِعتبار سے شبِ میلاد شبِ قدر سے افضل ہوئی۔ (2)اگر لیلۃ القدر کی عظمت اِس بناء پر ہے کہ اِس میں فرشتوں کا نزول ہوتا ہے تو شبِ ولادت کو یہ شرف حاصل ہے کہ اس میں اللہ تعالیٰ کے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کائنات میں جلوہ فرما ہوئے۔ جمہور اہلِ سنت کے قول کے مطابق شبِ میلاد کو جس ہستی (یعنی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے شرف بخشا وہ شبِ قدر کو شرف بخشنے والی ہستیوں (یعنی فرشتوں) سے کہیں زیادہ بلند و برتر اور عظمت والی ہے۔ لہٰذا شبِ ولادت ہی افضل ہے۔ (3) شبِ قدر کے باعث اُمتِ محمدیہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فضیلت بخشی گئی اور شبِ میلاد کے ذریعے جمیع موجودات کو فضیلت سے نوازا گیا۔ پس حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے رحمۃً للعالمین بنا کر بھیجا، اور اِس طرح نعمتِ رحمت جمیع کائنات کے لیے عام کر دی گئی۔ لہٰذا شبِ ولادت نفع رسانی میں کہیں زیادہ ہے، اور اِس اعتبار سے بھی یہ لیلۃ القدر سے افضل ٹھہری۔‘‘ 2۔ امام طحاوی رحمۃ اللہ علیہ (متوفيٰ 321ھ( بعض شوافع سے نقل کرتے ہیں : أن أفضل الليالي ليلة مولده صلي الله عليه وآله وسلم ، ثم ليلة القدر، ثم ليلة الإسراء والمعراج، ثم ليلة عرفة، ثم ليلة الجمعة، ثم ليلة النصف من شعبان، ثم ليلة العيد. (رد المحتار علي در المختار علي تنوير الابصار، جلد دوم، ص 511) ’’راتوں میں سے افضل ترین شبِ میلادِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے، پھر شبِ قدر، پھر شبِ اِسراء و معراج، پھر شبِ عرفہ، پھر شبِ جمعہ، پھر شعبان کی پندرہویں شب اور پھر شبِ عید ہے۔‘‘ 3۔ امام نبہانی عليه الرحمه(متوفيٰ1350ھ) اپنی مشہور تصنیف ’’الانوار المحمدیۃ من المواہب اللدنیۃ (ص : 28 میں لکھتے ہیں :) وليلة مولده صلي الله عليه وآله وسلم أفضل من ليلة القدر. ’’اور شبِ میلادِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شبِ قدر سے افضل ہے۔‘‘ 4۔ مولانا محمد عبد الحئ فرنگی محلی لکھنوی عليه الرحمه (متوفيٰ 1304ھ) شبِ قدر اور شبِ میلاد میں سے زیادہ فضیلت کی حامل رات کے بارے میں پوچھے جانے والے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’تمام راتوں پر شبِ قدر کی بزرگی منصوص اور کئی طرح سے ثابت ہے : 1۔ اِس رات میں اَرواح اور ملائکہ کا نزول زمین پر ہوتا ہے۔ 2۔ شام سے صبح تک تجلی باری تعالیٰ آسمانِ اَوّل پر ہوتی ہے۔ 3۔ لوحِ محفوظ سے آسمانِ اَوّل پر نزولِ قرآن اِسی رات میں ہوا ہے۔ اور انہی بزرگیوں کی وجہ سے تسکین اور تسلی اُمتِ محمدیہ کے لیے اس ایک رات کی عبادت ثواب میں ہزار مہینوں کی عبادت سے زائد ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا ہے : لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِّنْ أَلْفِ شَهْرٍO ’’شبِ قدر (فضیلت و برکت اور اَجر و ثواب میں) ہزار مہینوں سے بہتر ہے‘‘ )سورة القدر پاره 30، آيت 3) اور حدیث میں بھی اِس رات کے جاگنے کی تاکید آئی ہے اور بعض محدثین نے جو شبِ میلاد کو شبِ قدر پر فضیلت دی ہے تو اُن کا یہ منشا نہیں کہ شبِ میلاد کی عبادت ثواب میں شبِ قدر کی عبادت کے برابر ہے کیوں کہ ثواب اور عقاب کی حالت یہ ہے کہ جب تک نصِ قطعی نہ پائی جائے کسی کام کو باعثِ ثواب نہیں قرار دے سکتے۔ مگر شبِ میلاد کو شبِ قدر پر اپنے اِفتخارِ ذاتی سے خدا کے سامنے فضیلت حاصل ہے۔‘‘
(مجموعه فتاويٰ، جلد اول، ص 86)

اعتراض : ۔ کیا رحمت کائناتﷺ کی صورت میں اﷲ تعالیٰ نے ہمیں جو عظیم نعمت عطا فرمائی ہے اس نعمت پر اﷲ کی شکر گزاری کرنے کا طریقہ اس رسولﷺ کے اسوہ کو اور اس کی لائی ہوئی شریعت کو اختیار کرنا نہیں ہے ؟

اعتراض : ۔ کیا رحمت کائناتﷺ کی صورت میں اﷲ تعالیٰ نے ہمیں جو عظیم نعمت عطا فرمائی ہے اس نعمت پر اﷲ کی شکر گزاری کرنے کا طریقہ اس رسولﷺ کے اسوہ کو اور اس کی لائی ہوئی شریعت کو اختیار کرنا نہیں ہے ؟
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
جواب : ۔ میلاد منانا ہی اﷲ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا ہے۔ عید میلاد النبیﷺ میں اﷲ تعالیٰ کی نعمت رسولﷺ کا شکر ادا کرتے ہیں۔ ذکر رسولﷺ کرکے محفلیں منعقد کرکے اﷲ تعالیٰ کی نعمت کا چرچہ کرتے ہیں۔ رسول اﷲﷺ نعمت ہیں، اس نعمت کا ذکر کرتے ہیں، نئے کپڑے پہن کر، چراغاں کرکے صدقہ و خیرات کرکے اﷲ تعالیٰ کی نعمت پر خوشی

مناتے ہیں۔ اس کا حکم قرآن مجید میں خود اﷲ تعالیٰ دیتا ہے۔ ترجمہ: تم فرمائو اﷲ ہی کے فضل اور اسی کی رحمت اور اسی پر چاہئے کہ خوشی کریں ۔ (سورہ یونس آیت 58 پارہ11)

اعتراض : ۔ جو نبیﷺ بہتے دریا سے وضو کرنے والوں کو بھی پانی کے اسراف سے بچنے کی تعلیم دے کر گئے ، آپﷺ کا نام ليکر وسائل کا اسراف (چراغاں) کہ اگر اس خرچ کو جمع کیا جائے تو ہزاروں، بیروزگاروں کوکاروبار کرایا جاسکتاہے، جائز ہے؟

اعتراض : ۔ جو نبیﷺ بہتے دریا سے وضو کرنے والوں کو بھی پانی کے اسراف سے بچنے کی تعلیم دے کر گئے ، آپﷺ کا نام ليکر وسائل کا اسراف (چراغاں) کہ اگر اس خرچ کو جمع کیا جائے تو ہزاروں، بیروزگاروں کوکاروبار کرایا جاسکتاہے، جائز ہے؟
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
جواب : ۔ محسن انسانیتﷺ کی ذات اور آپﷺ کا مرتبہ و مقام اس قدر بلند ہے کہ جس قدر ان کی ولادت کی خوشی میں چراغاں کیا جائے، کم ہے جہاں تک اسراف (فضول خرچی) کا تعلق ہے تو یاد رکھئے جو کام کسی نیک مقصد کے لئے کیا جائے وہ اسراف (فضول خرچی) نہیں ہوتا۔ سال کے بارہ مہینوں میں صرف ایک ربیع الاول کے مہینے کے بارہ دن غریبوں کا خیال آنے والے مالداروں سے ہمارے سوالات: پوری دنیا کے یتیم، مسکین، بیوہ، نادار، بے روزگار اور غریبوں کا خیال صرف ربیع الاول میں ہی آتا ہے؟ ٭ اپنے بیٹے یا بیٹی کی منگنی میں لاکھوں روپے خرچ کرتے وقت یہ خیال نہیں آتا؟ ٭ اپنے بیٹے یا بیٹی کی شادی کے موقع پر لاکھوں روپے خرچ کرتے وقت یہ خیال نہیں آتا؟ ٭ روزانہ ہوٹلوںپر اور اپنے دفاتر میں ہزاروں روپے لنچ اور ڈنر پر خرچ کرتے وقت یہ خیال نہیں آتا؟ ٭ اپنی اولاد کی سالگرہ کے موقع پر لاکھوں روپے خرچ کرتے وقت یہ خیال نہیں آتا؟ ٭ اپنے محلات، بنگلوں، کوٹھیوں اور گھروں پر کروڑوں روپے خرچ کرتے وقت یہ خیال نہیں آتا؟ اپنے گھر کے ہر فرد کے لئے علیحدہ علیحدہ گاڑیاں رکھتے وقت یہ خیال نہیں آتا؟ ٭ اپنے گھروں میں پارٹیوں کے انعقاد پر لاکھوں روپے خرچ کرتے وقت یہ خیال نہیں آتا؟ ٭ اپنے جلسوں پر لاکھوں روپے خرچ کرتے وقت یہ خیال نہیں آتا؟ ٭ ہر سال گرمیوں کی چھٹیوں میں بیرون ملک پکنک پر جانے کی غرض سے لاکھوں روپے خرچ کرتے وقت یہ خیال نہیں آتا؟ کیسے آئے گا؟ اور کیوں کر آئے گا؟ اس لئے کہ وہاں واہ واہ ہوتی ہے۔ نادانو! ذرا سوچو! جس محسن انسانیت کے صدقے تمہیں سب کچھ ملا، اس کی ولادت کی خوشی میں خرچ تمہیں اسراف نظر آتا ہے، یقینا یہ تمہاری بدبختی ہے۔

اعتراض : ۔ عید میلاد النبیﷺ کے موقع پر آپ لوگ جو جھنڈے لگاتے ہیں اس کی کیا کوئ ثبوت نہیں ھے ؟

اعتراض : ۔ عید میلاد النبیﷺ کے موقع پر آپ لوگ جو جھنڈے لگاتے ہیں اس کی کیا کوئ ثبوت نہیں ھے ؟
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
جواب: عید میلاد النبیﷺ کے موقع پر جھنڈے لگانا ملائکہ (فرشتوں) کا طریقہ ہے۔ عید میلاد النبیﷺ پر جھنڈے لگانے کی اصل دلیل: سیدتنا آمنہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے تین جھنڈے بھی دیکھے، ایک مشرق میں گاڑا گیا تھا، دوسرا مغرب میں اور تیسرا جھنڈا خانہ کعبہ کی چھت پر لہرا رہا تھا (بحوالہ: سیرت حلبیہ جلد اول ص 109) دلیل: آپﷺ کی ولادت باسعادت کی خوشی میں جھنڈے لہرائے گئے۔ ایک مشرق میں، دوسرا مغرب میں اور تیسرا کعبتہ اﷲ کی چھت پر ۔
(بحوالہ: بیان المیلاد النبی، محدث ابن جوزی ص 51، خصائص الکبریٰ جلد اول ص 48، مولد العروس ص 71، معارج النبوت جلد دوم ص 16)

اعتراض : ۔ جس طرح عیسائی حضرت عیسٰی علیہ السلام کی پیدائش کا دن مناتے ہیں، اسی طرح آپ لوگ بارہ ربیع الاول کے دن حضورﷺ کا یوم ولادت مناتے ہیں، لہذا یہ عیسائیوں کی رسم ہے؟

اعتراض : ۔ جس طرح عیسائی حضرت عیسٰی علیہ السلام کی پیدائش کا دن مناتے ہیں، اسی طرح آپ لوگ بارہ ربیع الاول کے دن حضورﷺ کا یوم ولادت مناتے ہیں، لہذا یہ عیسائیوں کی رسم ہے؟
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
جواب : ۔ مسلمانوں پر اتنا بڑا بہتان لگانے والوں کو شرم آنی چاہئے۔ چنانچہ مالکی فقہاء اور شافعی فقہاء مثلا زین العراقی، امام جلال الدین سیوطی، ابن حجر الہیتمی، علامہ سخاوی، ابن جوزی، حنبلیوں میں سے حضورﷺ کی ولادت کی تقریب منانے اور اس میں جمع ہونے کو بہتر عمل قرر دیتے ہیں لیکن جو لوگ اس میں غلو کرتے ہیں اور اس کو نصرانیوں کی طرح عیسٰی علیہ السلام کی ولادت کی تقریب سے مشابہہ قرار دیتے ہیں۔ وہ قیاس مع الفارق کرتے ہیں (اور غلط مثال دیتے ہیں) کیونکہ (عیسائی) حضرت عیسٰی علیہ السلام کا یوم (نعوذ باﷲ) ان کے خدا ہونے یا خدا کا بیٹا ہونے یا تیسرا خدا ہونے کے لحاظ سے مناتے ہیں جیسا کہ اﷲ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے ’’بے شک کفر کیا ان لوگوں نے جنہوں نے کہا کہ اﷲ تعالیٰ تین میں تیسرا ہے‘‘ اﷲ تعالیٰ وہ جو کچھ کہتے ہیں اس سے اعلیٰ و ارفع ہے۔ لیکن مسلمان اپنے آقا و مولیٰﷺ کی ولادت پر خوشی مناتے ہیں اور مسرت کا اظہار کرتے ہیں کہ وہ اﷲ تعالیٰ کے بندے اور اس کے رسول ہیں اور اﷲ تعالیٰ نے آپﷺ کو تمام انسانوں میں افضل بنایا اور آپﷺ کو وہ سب کچھ عطا فرمایا جو کسی اور کو نہیں عطا فرمایا۔ محترم حضرات! کتنا بڑا فرق ہے مسلمانوں کا اپنے مولیٰﷺ کا یوم ولادت منانے اور عیسائیوں کا حضرت عیسٰی علیہ السلام کی پیدائش کا دن منانے میں۔ وہ خدا کا بیٹا مان کر مناتے ہیں اور ہم مسلمان اﷲ تعالیٰ کا بندہ، رسول اور محبوب مان کر مناتے ہیں۔

اعتراض : ۔ آپ لوگوں کا یہ عقیدہ ہے کہ محافل میلاد میں حضورﷺ کی آمد ہوتی ہے، اس لئے کھڑے ہوکر صلوٰۃ وسلام پڑھتے ہیں؟

اعتراض : ۔ آپ لوگوں کا یہ عقیدہ ہے کہ محافل میلاد میں حضورﷺ کی آمد ہوتی ہے، اس لئے کھڑے ہوکر صلوٰۃ وسلام پڑھتے ہیں؟
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
جواب : ۔ ہم حضورﷺ کی آمد کے لئے نہیں بلکہ ذکر رسول ﷺ کے ادب کے لئے کھڑے ہوکر صلوٰۃ وسلام پڑھتے ہیں القرآن: والصفت صفاہ (سورۂ الصفت، آیت 1 پارہ 23) ترجمہ: قسم صف بستہ جماعتوں کی کہ صف باندھیں۔ تفسیر: اس آیت کے تحت مفسرین فرماتے ہیں کہ اس آیت میں ان فرشتوں کا ذکر ہے جو سرکار اعظمﷺ کی بارگاہ میں کھڑے ہوکر صلوٰۃ و سلام پیش کرتے ہیں۔ حدیث شریف: جب آپﷺ کا وصال ہوا تو آپﷺ کے جسم اطہر کو کفنا کر تخت پر لٹادیا گیا تو اس موقع پر حضرت جبرائیل، میکائیل اور اسرافیل علیہم السلام نے فرشتوں کے لشکروں کے ساتھ (کھڑے ہوکر) صلوٰۃ وسلام پیش کیا (بحوالہ، بیہقی، حاکم، طبرانی شریف) دلیل: ہر مسلمان مرد، عورت اور بچیوں نے باری باری کھڑے ہوکر صلوٰۃ و سلام پیش کیا (بحوالہ: مدارج النبوت جلد دوم ص 440) دلیل: حضرت امام تقی الدین سبکی علیہ الرحمہ کی محفل میں کسی نے یہ شعر پڑھا ’’بے شک عزت و شرف والے لوگ سرکار اعظمﷺ کا ذکر سن کر کھڑے ہوجاتے ہیں۔ یہ سن کر حضرت امام سبکی علیہ الرحمہ اور تمام علماء و مشائخ کھڑے ہوگئے۔ اس وقت بہت سرور اور سکون حاصل ہوا (بحوالہ: سیرت حلبیہ ، جلد اول ص 80) دلیل: برصغیر کے معروف محدث اور گیارہویں صدی کے مجدد شاہ عبدالحق محدث دہلوی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ میں محفل میلاد میں کھڑے ہوکر سلام پڑھتا ہوں۔ میرا یہ عمل شاندار ہے (بحوالہ: اخبار الاخیار ص 624) معلوم ہوا کہ کھڑے ہوکر صلوٰۃ و سلام پڑھنا حضورﷺ کی ذکر کی تعظیم و ادب ہے۔ اہل حق یعنی اہلسنت و جماعت کا متفقہ عقیدہ ہے کہ تمام انبیائے کرام علیہم السلام آج بھی دنیاوی حیات کی طرح زندہ ہیں، ان کی دنیاوی اور موجودہ زندگی میں یہی فرق ہے کہ ذمہ داری کا دور ختم ہوگیا تو وہ اپنے پروردگار جل جلالہ کی بارگاہ میں حاضر ہوگئے اور دنیا والوں کی نگاہوں سے پوشیدہ ہیں۔ مسلمانوں کا ہمیشہ سے یہی اجماعی عقیدہ رہا ہے۔ جس میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ الحدیث: حضرت سلمیٰ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے فرماتی ہیں، میں حضرت ام سلمیٰ رضی اﷲ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوئی۔ وہ رو رہی تھیں۔ میں نے پوچھا آپ کیوں رو رہی ہیں۔ انہوں نے فرمایا کہ حضور اکرمﷺ کو خواب میں دیکھا۔آپﷺ کی داڑھی مبارک اور سرانور گرد آلود تھے۔ میں نے عرض کیا یارسول اﷲﷺ کیا بات ہے؟ آپﷺ نے فرمایا میں ابھی حسین رضی اﷲ عنہ کی شہادت میں شریک ہوا ہوں (بحوالہ: ترمذی ابواب المناقب، حدیث 1706، ص 731، مطبوعہ فرید بک لاہور) فائدہ: حضورﷺ کا ارشاد ہے کہ جس نے خواب میں مجھے دیکھا بلاشبہ اس نے مجھے ہی دیکھا، شیطان میری صورت نہیں بنا سکتا لہذا حضرت ام سلمیٰ رضی اﷲ عنہا نے یقینا حضورﷺ کو ہی دیکھا۔ دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ حضورﷺ بعد از وصال بھی اپنے غلاموں پر ہونے والے ظلم سے آگاہ ہیں۔ تیسری بات یہ معلوم ہوئی کہ حضورﷺ بعد از وصال بھی جسم و جسمانیت کے ساتھ حیات ہیں اور جب چاہیں، جہاں چاہیں اپنے رب جل جلالہ کی عطا کی ہوئی طاقت سے تشریف لے جاسکتے ہیں ورنہ مقتل حسین (کربلا) میں کیسے تشریف لاتے۔

اعتراض : ۔ اسلام میں یادگار منانے کی کوئی حیثیت نہیں لہذا یادگار منانا ناجائز ہے ؟

اعتراض : ۔ اسلام میں یادگار منانے کی کوئی حیثیت نہیں لہذا یادگار منانا ناجائز ہے ؟
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
جواب : ۔ یہ سوال سائل کی کم علمی کی دلیل ہے۔ اگر وہ قرآن و سنت کا مطالعہ کرتے تو کبھی ایسا سوال نہ کرتے۔ اﷲ تعالیٰ کے نیک بندوں کی یاد منانا جائز بلکہ ثواب ہے۔ القرآن: وذکرہم بایم ﷲ ترجمہ: اور انہیں اﷲ کے دن یاد دلائو (سورۂ ابراہیم، آیت 5، پارہ 13) اﷲ تعالیٰ کے دن سے مراد وہ ایام ہیں جن ایام میں اﷲ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر انعام و اکرام کیا، یعنی جس دن کو اہل اﷲ سے نسبت ہوجائے، وہ ’’ایام اﷲ‘‘ بن جاتے ہیں۔ ٭ سرور کونینﷺ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی یاد منانے کا حکم دیا: حدیث شریف: کان یوم عاشوراء تعدہ الیہود عیداً، قال النبیﷺ: فصوموہ انتم (بخاری، کتاب الصوم، حدیث 1901، جلد 2، ص 704) ترجمہ: یوم عاشورہ کو یہود یوم عید شمار کرتے تھے، حضور اکرمﷺ نے (مسلمانوں کو حکم دیتے ہوئے) فرمایا تم ضرور اس دن روزہ رکھا کرو۔ ٭ حضرت نوح علیہ السلام کی یاد: حضرت امام احمد ابن حنبل علیہ الرحمہ نے حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ سے ایک حدیث روایت کی ہے جسے حافظ ابن حجر عسقلانی علیہ الرحمہ نے فتح الباری میں نقل کیا ہے۔ اس میں یوم عاشورہ منانے کا یہ پہلو بھی بیان ہوا کہ عاشورہ حضرت نوح علیہ السلام اور آپ کے ساتھیوں پر اﷲ تعالیٰ کے فضل و انعام کا دن تھا۔ اس روز وہ بہ حفاظت جودی پہاڑ پر لنگر انداز ہوئے تھے۔ اس پر حضرت نوح علیہ السلام کی جماعت اس دن کو یوم تشکر کے طور پر منانے لگی، اور یہ دن بعد میں آنے والوں کے لئے باعث احترام بن گیا۔ ٭ غلاف کعبہ کا دن حضورﷺ نے منایا: حدیث شریف: کانوایصومون عاشوراء قبل ان یفرض رمضان، وکان یوما تسترفیہ الکعبۃ، فلما فرض ﷲ رمضان، قال رسول ﷲﷺ من شاء ان یصومہ فلیصمہہ، ومن شاء ان یترکہ فلیترکہ (بخاری، کتاب الحج، حدیث 1515، جلد 2، ص 578) ترجمہ: اہل عرب رمضان کے روزے فرض ہونے سے قبل یوم عاشورہ کا روزہ رکھتے تھے اور (اس کی وجہ یہ ہے کہ) اس دن کعبہ پر غلاف چڑھایا جاتا تھا۔ پھر جب اﷲ تعالیٰ نے رمضان کے روزے فرض کردیئے تو رسول اکرمﷺ نے فرمایا تم میں سے جو اس دن روزہ رکھنا چاہے وہ روزہ رکھ لے اور جو ترک کرنا چاہے، وہ ترک کردے۔ امام ابن حجر عسقلانی علیہ الرحمہ درج بالا حدیث پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: فانہ یفید ان جاہلیۃ کانوا یعظمون الکعبۃ قدیما بالستورویقومون بہا (فتح الباری، جلد 3، ص 455) اس سے ثابت ہوتا ہے کہ زمانہ جاہلیت سے ہی وہ کعبہ پر غلاف چڑھا کر اس کی تعظیم کرتے تھے اور یہ معمول وہ قائم رکھے ہوئے تھے۔ ٭ جمعہ کا دن، ولادت آدم علیہ السلام کي یاد: حدیث شریف: حضرت اوس بن اوس رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول پاکﷺ سے فرمایا۔ ان من افضل ایامکم یوم الجمعۃ، فیہ خلق آدم، وفیہ قبض، وفیہ النفخۃ، وفیہ الصعقۃ فاکثروا علی من الصلاۃ فیہ، فان صلاتکم معروضۃ علی (ابو دائود، کتاب الصلاۃ، حدیث 1047، جلد اول، ص 275) ترجمہ: تمہارے دنوں میں سب سے افضل دن جمعہ کا ہے، اس دن حضرت آدم علیہ السلام کی ولادت ہوئی (یعنی اس دن حضرت آدم علیہ السلام کی خلافت ہوئی اور آپ کو لباس بشریت سے سرفراز کیا گیا) اس روز ان کی روح قبض کی گئی اور اسی روز صور پھونکا جائے گا۔ پس اس روز کثرت سے مجھ پر درود شریف بھیجا کرو، بے شک تمہارا درود مجھ پر پیش کیا جاتا ہے۔ ٭ ہر پیر کو روزہ رکھ کر رسول اﷲﷺ اپنی ولادت کی یاد مناتے تھے (مسلم شریف، جلد دوم، کتاب الصیام، باب استحباب صیام ثلثۃ ایام من کل شہر، حدیث 2646، ص 88، مطبوعہ شبیر برادرز لاہور) ٭ بکرے ذبح کرکے رسول پاکﷺ نے اپنا میلاد منایا (حسن المقصد فی عمل المولد ص 64) معلوم ہوا کہ یادگار منانا جائز بلکہ حضورﷺ کی سنت ہے۔

جشن عید میلاد النبی ﷺ آئمہ و محدثین کرام علیہم الرّحمہ کی نظر میں

جشن عید میلاد النبی ﷺ آئمہ و محدثین کرام علیہم الرّحمہ کی نظر میں
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اس اُمّت کے بڑے بڑے مفتیان کرام، علمائے کرام، مفسرین، محدثین، شارحین اور فقہاء نے اپنی اپنی کتابوں میں جشن عید میلاد النبیﷺ منانے کو باعث اجر وثواب لکھا ہے چنانچہ اس ضمن میں علمائے اُمّت کے اقوال ملاحظہ ہوں: جشن عید میلاد النبیﷺ کے متعلق محدثین کے نظریات 1: حجۃ الدین امام محمد بن ظفر المکی علیہ الرحمہ کا نظریہ: حجۃ الدین امام ابو عبداﷲ محمد بن عبداﷲ بن ظفر المکی علیہ الرحمہ (متوفیٰ 568ھ) کہتے ہیں کہ الدر المنتظم میں ہے: وقد عمل المحبون للنبیﷺ فرحاً بمولدہ الولائم، فمن ذلک ماعملہ بالقاہرۃ المعزیۃ من الولائم الکبار الشیخ ابو الحسن المعروف بابن قفل قدس اﷲ تعالیٰ سرہ، شیخ شیخنا ابی عبدﷲ محمد بن النعمان، وعمل ذلک قبل جمال الدین العجمی الھمذانی، وممن عمل ذلک علی قدر وسعہ یوسف الحجار بمصر، وقد رأی النبیﷺ وہو یحرض یوسف المذکور علی عمل ذلک (سبل الہدیٰ الرشاد فی سیرۃ خیر العباد جلد اول، ص 363) ’’اہل محبت حضورﷺ کے میلاد کی خوشی میں دعوت طعام منعقد کرتے آئے ہیں۔ قاہرہ کے جن اصحاب محبت نے بڑی بڑی ضیافتوں کا انعقاد کیا، ان میں شیخ ابوالحسن بھی ہیں جوکہ ابن قفل قدس اﷲ تعالیٰ سرہ کے نام سے مشہور ہیں اور ہمارے شیخ ابو عبداﷲ محمد بن نعمان کے شیخ ہیں۔ یہ عمل مبارک جمال الدین عجمی ہمذانی نے بھی کیا اور مصر میں سے یوسف حجار نے اسے بہ قدر وسعت منعقد کیا اور پھر انہوں نے حضور نبی اکرمﷺ کو (خواب میں) دیکھا کہ آپﷺ یوسف حجار کو عمل مذکور کی ترغیب دے رہے تھے‘‘ 2: شیخ معین الدین عمر بن محمد المَلاَّ علیہ الرحمہ (متوفیٰ 570ھ) کا نظریہ شیخ معین الدین ابو حفص عمر بن محمد بن خضر اربلی موصلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: وکان اول من فعل ذلک بالموصل الشیخ عمر بن محمد الملا احد الصالحین المشہورین و بہ اقتدی فی ذلک صاحب اربل وغیرہ رحمہم ﷲ تعالیٰ (ابو شامۃ، الباعت علی انکار البدع والحوادث، ص 24) ’’اور شہر موصل میں سب سے پہلے میلاد شریف کا اجتماع منعقد کرنے والے شیخ عمر بن محمد ملا تھے جن کا شمار مشہور صالحین میں ہوتا تھا اور شاہ اربل و دیگر لوگوں نے انہی کی اقتداء کی ہے۔ اﷲ ان پر رحم فرمائے۔ 3: علامہ ابن جوزی علیہ الرحمہ (متوفی 579ھ) کا نظریہ علامہ ابن جوزی بیان المیلاد النبویﷺ میں فرماتے ہیں: لازال اہل الحرمین الشریفین والمصر والیمن والشام وسائر بلاد العرب من المشرق والمغرب یحتفلون بمجلس مولد النبیﷺ، ویفرحون بقدوم ہلال شہر ربیع الاول ویہتمون اہتماماً بلیغاً علی السماع والقراۃ لمولد النبیﷺ، ویتالون بذالک اجراً جزیلاً وفوزاً عظیماً (بیان المیلاد النبی، ص 85) ’’مکہ مکرمہ، مدینہ طیبہ، مصر، شام، یمن الغرض شرق تا غرب تمام بلادِ عرب کے باشندے ہمیشہ سے میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محفلیں منعقد کرتے آئے ہیں۔ وہ ربیع الاول کا چاند دیکھتے تو ان کی خوشی کی انتہا نہ رہتی۔ چنانچہ ذکرِ میلاد پڑھنے اور سننے کا خصوصی اہتمام کرتے اور اس کے باعث بے پناہ اَجر و کامیابی حاصل کرتے رہے ہیں۔‘‘ 4: امام کمال الدین الادفوی علیہ الرحمہ (متوفیٰ 748ھ) کا نظریہ اِمام کمال الدین ابو الفضل جعفر بن ثعلب بن جعفر الادفوی ’’الطالع السعید الجامع لاسماء نجباء الصعید‘‘ میں فرماتے ہیں : حکی لنا صاحبنا العدل ناصر الدین محمود بن العماد ان ابا الطیب محمد بن ابراہیم السبتی المالکی نزیل قوص، احد العلماء العاملین، کان یجوز بالمکتب فی الیوم الذی ولد فیہ النبیﷺ فیقول: یافقیہ! ہذا یوم سرور، اصرف الصبیان، فیصرفنا وہذا منہ دلیل علی تقریرہ وعدم انکارہ، وہذا الرجل کان فقیہاً مالکیاً متفنناً فی علوم، متورعاً، اخذ عنہ ابو حیان وغیرہ، مات سنۃ خمس وتسعین وستمائۃ (حسن المقصد فی عمل المولد، ص 67,66) ’’ہمارے ایک مہربان دوست ناصر الدین محمود بن عماد حکایت کرتے ہیں کہ بے شک ابو طیب محمد بن ابراہیم سبتی مالکی۔ جو قوص کے رہنے والے تھے اور صاحبِ عمل علماء میں سے تھے۔ اپنے دارا لعلوم میں حضور نبی اکرمﷺ کی ولادت کے دن محفل منعقد کرتے اور مدرسے میں چھٹی کرتے۔ وہ (اساتذہ سے) کہتے : اے فقیہ! آج خوشی و مسرت کا دن ہے، بچوں کو چھوڑ دو۔ پس ہمیں چھوڑ دیا جاتا۔ ’’ان کا یہ عمل ان کے نزدیک میلاد کے اِثبات و جواز اور اِس کے عدم کے اِنکار پر دلیل و تائید ہے۔ یہ شخص (محمد بن ابراہیم) مالکیوں کے بہت بڑے فقیہ اور ماہرِ فن ہو گزرے ہیں جو بڑے زْہد و ورع کے مالک تھے۔ علامہ ابوحیان اور دیگر علماء نے ان سے اِکتسابِ فیض کیا ہے اور انہوں نے 695ھ میں وفات پائی۔‘‘ 5: امام برہان الدین بن جماعہ علیہ الرحمہ (متوفی 790ھ) کا نظریہ اِمام برہان الدین ابو اِسحاق اِبراہیم بن عبد الرحیم بن اِبراہیم بن جماعہ الشافعی ایک نام وَر قاضی و مفسر تھے۔ آپ نے دس جلدوں پر مشتمل قرآن حکیم کی تفسیر لکھی۔ ملا علی قاری (م 1014ھ) ’’المورد الروی فی مولد النبوی ونسبہ الطاھر‘‘ میں آپ کے معمولاتِ میلاد شریف کی بابت لکھتے ہیں : فقد اتصل بنا ان الزاہد القدوۃ المعمر ابا اسحاق ابراہیم بن عبدالرحیم بن ابراہیم جماعۃ لماکان بالمدینۃ النبویۃ، علی ساکنہا افضل الصلاۃ واکمل التحیۃ، کان یعمل طعاماً فی المولد النبوی، ویطعم الناس، ویقول: لوتمکنت عملت بطول الشہر کل یوم مولداً (المورد الروی فی مولد النبیﷺ و نسبہ الطاہر، ص 17) ’’ہمیں یہ بات پہنچی ہے کہ زاہد و قدوہ معمر ابو اِسحاق بن اِبراہیم بن عبد الرحیم جب مدینۃ النبی۔ اْس کے ساکن پر افضل ترین درود اور کامل ترین سلام ہو۔ میں تھے تو میلاد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موقع پر کھانا تیار کرکے لوگوں کو کھلاتے تھے، اور فرماتے تھے : اگر میرے بس میں ہوتا تو پورا مہینہ ہر روز محفلِ میلاد کا اہتمام کرتا۔‘‘ 6: حضرت مجدد الف ثانی علیہ الرحمہ (متوفیٰ 1034ھ) گيارهويں صدي كے مجدد امام ربانی شیخ احمد سرہندی حضرت مجدد الف ثانی (1624-1564) اپنے ’’مکتوبات‘‘ میں فرماتے ہیں: نفس قرآں خواندن بصوت حسن و در قصائد نعمت و منقبت خواندن چہ مضائقہ است؟ ممنوع تحریف و تغیير حروف قرآن است، والتزام رعایۃ مقامات نغمہ و تردید صوت بآں، بہ طریق الحان با تصفیق مناسبآن کہ در شعر نیز غیر مباح است۔ اگر بہ نہجے خوانند کہ تحریف کلمات قرآنی نشود… چہ مانع است؟ (مکتوبات دفتر سوم، مکتوب نمبر 72) ’’اچھی آواز میں قرآن حکیم کی تلاوت کرنے، قصیدے اور منقبتیں پڑھنے میں کیا حرج ہے؟ ممنوع تو صرف یہ ہے کہ قرآن مجید کے حروف کو تبدیل و تحریف کیا جائے اور اِلحان کے طریق سے آواز پھیرنا اور اس کے مناسب تالیاں بجانا جو کہ شعر میں بھی ناجائز ہے۔ اگر ایسے طریقہ سے مولود پڑھیں کہ قرآنی کلمات میں تحریف واقع نہ ہو اور قصائد پڑھنے میں مذکورہ (ممنوعہ) اَوامر نہ پائے جائیں تو پھر کون سا اَمر مانع ہے؟‘‘ 7: شیخ عبدالحق محدث دہلوی علیہ الرحمہ (متوفیٰ 1052ھ) کا نظریہ گیارہویں صدی کے مجدد شیخ عبدالحق محدث دہلوی علیہ الرحمہ نے اپنی اپنی کتاب ما ثَبَت مِن السّْنّۃ فی ایّام السَّنَۃ میں ہر مہینہ اور اس میں خاص خاص شب و روز کے فضائل اور ان میں کیے جانے والے اَعمال مفصل بیان کیے ہیں۔ اْنہوں نے ماہِ ربیع الاول کے ذیل میں میلاد شریف منانے اور شبِ قدر پر شبِ ولادت کی فضیلت ثابت کی ہے۔ اور بارہ (12) ربیع الاول کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کا جشن منانا بہ طورِ خاص ثابت کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں : وقد رؤي أبولهب بعد موته في النوم، فقيل له : ما حالک؟ قال : في النار، إلا أنه خُفّف کل ليلة اثنتين، وأمص من بين أصبعي هاتين ماء. وأشار إلي رأس إصبعيه. وإن ذلک بإعتاقي لثويبة عند ما بشرتني بولادة النبي صلي الله عليه وآله وسلم وبإرضاعها له. قال ابن الجوزي : فإذا کان أبولهب الکافر الذي نزل القران بذمّه جُوزيَ في النار بفرحه ليلة مولد النبي صلي الله عليه وآله وسلم ، فما حال المسلم من أمته يسر بمولده، ويبذل ما تَصل إليه قدرته في محبته صلي الله عليه وآله وسلم ؟ لعمري! إنما کان جزاؤه من ﷲ الکريم أن يدخله بفضله جنات النعيم. ولا يزال أهل الاسلام يحتفلون بشهر مولده صلي الله عليه وآله وسلم ويعملون الولايم ويتصدقون في لياليه بأنواع الصدقات ويظهرون السرور ويزيدون في المبرّات ويعتنون بقراءة مولده الکريم ويظهر عليهم من مکانه کل فضل عميم. ومما جرّب من خواصه أنه أمان في ذلک العام وبشري عاجل بنيل البغية والمرام، فرحم ﷲ امرأ اتخذ ليالي شهر مولده المبارک أعياداً ليکون أشد غلبة علي من في قلبه مرض وعناد. (ماثبت من السنة في ايام السنة ص (60 ’’ابولہب کو مرنے کے بعد خواب میں دیکھا گیا تو اس سے پوچھا گیا : اب تیرا کیا حال ہے؟ کہنے لگا : آگ میں جل رہا ہوں، تاہم ہر پیر کے دن (میرے عذاب میں) تخفیف کر دی جاتی ہے اور. اُنگلیوں سے اشارہ کرتے ہوئے کہنے لگا کہ: میری ان دو انگلیوں کے درمیان سے پانی (کا چشمہ) نکلتا ہے (جسے میں پی لیتا ہوں) اور یہ (تخفیفِ عذاب میرے لیے) اس وجہ سے ہے کہ میں نے ثویبہ کو آزاد کیا تھا جب اس نے مجھے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ولادت کی خوش خبری دی اور اس نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دودھ بھی پلایا تھا۔ ’’ابن جوزی (متوفي 579ھ( کہتے ہیں : حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادتِ باسعادت کے موقع پر خوشی منانے کے اَجر میں ابولہب کے عذاب میں بھی تخفیف کر دی جاتی ہے جس کی مذمت (میں) قرآن حکیم میں (ایک مکمل) سورت نازل ہوئی ہے۔ تو اُمتِ محمدیہ کے اُس مسلمان کو ملنے والے اَجر و ثواب کا کیا عالم ہوگا جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد کی خوشی مناتا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت و عشق میں حسبِ اِستطاعت خرچ کرتا ہے؟ خدا کی قسم! میرے نزدیک اﷲ تعالیٰ ایسے مسلمان کو (اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشی منانے کے طفیل) اپنے فضل کے ساتھ اپنی نعمتوں بھری جنت عطا فرمائے گا۔ ’’اور ہمیشہ سے مسلمانوں کا یہ دستور رہا ہے کہ ربیع الاول کے مہینے میں میلاد کی محفلیں منعقد کرتے ہیں، دعوتیں کرتے ہیں، اس کی راتوں میں صدقات و خیرات اور خوشی کے اِظہار کا اہتمام کرتے ہیں۔ ان کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ ان دنوں میں زیادہ سے زیادہ نیک کام کریں۔ اس موقع پر وہ ولادت باسعادت کے واقعات بھی بیان کرتے ہیں۔ ’’میلاد شریف منانے کے خصوصی تجربات میں محفلِ میلاد منعقد کرنے والے سال بھر امن و عافیت میں رہتے ہیں اور یہ مبارک عمل ہر نیک مقصد میں جلد کامیابی کی بشارت کا سبب بنتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ اُس پر رحمتیں نازل فرماتا ہے جو میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شب بہ طور عید مناتا ہے، اور جس (بدبخت) کے دل میں عناد اور دشمنی کی بیماری ہے وہ اپنی دشمنی میں اور زیادہ سخت ہوجاتا ہے۔‘‘ :8امام محمد الزرقاني عليه الرحمه (متوفيٰ 1122ھ) كا نظريه بارهويں صدي كے مجدداِمام ابو عبد اللہ محمد بن عبد الباقی بن یوسف المالکی الزرقانی عليه الرحمه سیرتِ طیبہ کی معروف کتاب المواہب اللدنیۃ بالمنح المحمدیۃ کی شرح میں فرماتے ہیں : استمرّ أهل الإسلام بعد القرون الثلاثة التي شهد المصطفي صلي الله عليه وآله وسلم بخيريتها، فهو بدعة. وفي أنها حسنة، قال السيوطي : وهو مقتضي کلام ابن الحاج في مدخله فإنه إنما ذم ما احتوي عليه من المحرمات مع تصريحه قبل بأنه ينبغي تخصيص هذا الشهر بزيادة فعل البرّ وکثرة الصدقات والخيرات وغير ذلک من وجوه القربات. وهذا هو عمل المولد مستحسن والحافظ أبي الخطاب بن دحية ألف في ذالک ’’التنوير في مولد البشير النذير‘‘ فأجازه الملک المظفر صاحب إربل بألف دينار، واختاره أبو الطيب السبتي نزيل قوص وهؤلاء من أجلّة المالکية أو مذمومة وعليه التاج الفاکهاني وتکفل السيوطي، لردّ ما استند إليه حرفاً حرفاً والأول أظهر، لما اشتمل عليه من الخير الکثير. يحتفلون : يهتمون بشهر مولده عليه الصلوة والسلام ويعملون الولائم ويتصدقون في لياليه بأنواع الصدقات ويظهرون السرور به، ويزيدون في المبرات ويعتنون بقراء ة قصة مولده الکريم ويظهر عليهم من برکاته کل فضل عميم. )زرقاني شريف، شرح مواهب اللدنيه بالمنح المحمدية جلد اول، ص 262-261) ’’اہلِ اِسلام ان ابتدائی تین اَدوار (جنہیں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خیرالقرون فرمایا ہے) کے بعد سے ہمیشہ ماہِ میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں محافل میلاد منعقد کرتے چلے آ رہے ہیں۔ یہ عمل (اگرچہ) بدعت ہے مگر ’’بدعتِ حسنہ‘‘ ہے (جیسا کہ) امام سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے، اور ’’المدخل‘‘ میں ابن الحاج کے کلام سے بھی یہی مراد ہے اگرچہ انہوں نے ان محافل میں دَر آنے والی ممنوعات (محرمات) کی مذمت کی ہے، لیکن اس سے پہلے تصریح فرما دی ہے کہ اس ماہِ مبارک کو اَعمالِ صالحہ اور صدقہ و خیرات کی کثرت اور دیگر اچھے کاموں کے لیے خاص کر دینا چاہیے۔ میلاد منانے کا یہی طریقہ پسندیدہ ہے۔ حافظ ابو خطاب بن دحیہ کا بھی یہی مؤقف ہے جنہوں نے اس موضوع پر ایک مستقل کتاب التنویر فی المولد البشیر والنذیر تالیف فرمائی جس پر مظفر شاہِ اِربل نے انہیں ایک ہزار دینار (بطور انعام) پیش کیے۔ اور یہی رائے ابوطیب سبتی کی ہے جو قوص کے رہنے والے تھے۔ یہ تمام علماء جلیل القدر مالکی ائمہ میں سے ہیں۔ یا پھر یہ (عمل مذکور) بدعتِ مذمومہ ہے جیسا کہ تاج فاکہانی کی رائے ہے۔ لیکن امام سیوطی نے ان کی طرف منسوب عبارات کا حرف بہ حرف رَدّ فرمایا ہے۔ (بہرحال) پہلا قول ہی زیادہ راجح اور واضح تر ہے۔ بایں وجہ یہ اپنے دامن میں خیر کثیر رکھتا ہے۔ ’’لوگ (آج بھی) ماہِ میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں اجتماعات کا خصوصی اہتمام کرتے ہیں اور اس کی راتوں میں طرح طرح کے صدقات و خیرات دیتے ہیں اور خوشی و مسرت کا اظہار کرتے ہیں۔ کثرت کے ساتھ نیکیاں کرتے ہیں اور مولود شریف کے واقعات پڑھنے کا اِہتمام کرتے ہیں جس کے نتیجے میں اس کی خصوصی برکات اور بے پناہ فضل و کرم اُن پر ظاہر ہوتا ہے۔‘‘ :9حضرت شاه عبدالرحيم محدث دهلوي عليه الرحمه (متوفيٰ 1131ھ) كا نظريه حضرت شاه ولي اﷲ محدث دهلوي عليه الرحمه كے والد گرامي شاه عبدالرحيم دهلوي عليه الرحمه فرماتے هيں: کنت أصنع في أيام المولد طعاماً صلة بالنبي صلي الله عليه وآله وسلم ، فلم يفتح لي سنة من السنين شيء أصنع به طعاماً، فلم أجد إلا حمصًا مقليا فقسمته بين الناس، فرأيته صلي الله عليه وآله وسلم وبين يديه هذا الحمص متبهجاً بشاشا. (الدرالثمين في مبشرات النبي الامين ص 40) ’’میں ہر سال حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد کے موقع پر کھانے کا اہتمام کرتا تھا، لیکن ایک سال (بوجہ عسرت شاندار) کھانے کا اہتمام نہ کر سکا، تومیں نے کچھ بھنے ہوئے چنے لے کر میلاد کی خوشی میں لوگوں میں تقسیم کر دیئے۔ رات کو میں نے خواب میں دیکھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے وہی چنے رکھے ہوئے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خوش و خرم تشریف فرما ہیں۔‘‘ برصغیر میں ہر مسلک اور طبقہ فکر میں یکساں مقبول و مستند ہستی شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کا اپنے والد گرامی کا یہ عمل اور خواب بیان کرنا اِس کی صحت اور حسبِ اِستطاعت میلاد شریف منانے کا جواز ثابت کرتا ہے۔ :10مفسر قرآن شيخ اسماعيل حقّي عليه الرحمه (متوفيٰ 1137ھ( كا نظريه حضرت شيخ اسماعيل حقي عليه الرحمه ’’تفسير روح البيان‘‘ ميں لكھتے هيں: ومن تعظيمه عمل المولد إذا لم يکن فيه منکر. قال الإمام السيوطي قُدّس سره : يستحب لنا إظهار الشکر لمولده عليه السلام. (تفسير روح البيان جلد 9ص 56) ’’اور ميلاد شريف منانا آپﷺ كي تعظيم ميں سے هے جب كه وه منكرات سے پاك هو۔ امام سيوطي عليه الرحمه نے فرمايا هے۔ همارے لئے آپﷺ كي ولادت باسعادت پر اظهارِ تشكر كرنا مستحب هے۔ :11حضرت شاه ولي اﷲ محدث دهلوي عليه الرحمه (متوفيٰ 1174ھ( كا نظريه شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اپنے والد گرامی اور صلحاء و عاشقان کی راہ پر چلتے ہوئے میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محافل میں شریک ہوتے تھے۔ آپ مکہ مکرمہ میں اپنے قیام کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : وکنت قبل ذلک بمکة المعظمة في مولد النبي صلي الله عليه وآله وسلم في يوم ولادته، والناس يصلون علي النبي صلي الله عليه وآله وسلم ويذکرون إرهاصاته التي ظهرت في ولادته ومشاهدة قبل بعثته، فرأيت أنواراً سطعت دفعة وحداة لا أقول إني أدرکتها ببصر الجسد، ولا أقول أدرکتها ببصر الروح فقط، وﷲ أعلم کيف کان الأمر بين هذا وذلک، فتأملت تلک الأنوار فوجدتها من قبل الملائکة المؤکلين بأمثال هذه المشاهد وبأمثال هذه المجالس، ورأيت يخالطه أنوار الملائکة أنوار الرحمة. (فيوض الحرمين، ص 81-80) ’’اس سے پہلے میں مکہ مکرمہ میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت کے دن ایک ایسی میلاد کی محفل میں شریک ہوا جس میں لوگ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہِ اقدس میں ہدیۂ درود و سلام عرض کر رہے تھے اور وہ واقعات بیان کر رہے تھے جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کے موقعہ پر ظاہر ہوئے اور جن کا مشاہدہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت سے پہلے ہوا۔ اچانک میں نے دیکھا کہ اس محفل پر اَنوار و تجلیات کی برسات شروع ہوگئی۔ میں نہیں کہتا کہ میں نے یہ منظر صرف جسم کی آنکھ سے دیکھا تھا، نہ یہ کہتا ہوں کہ فقط روحانی نظر سے دیکھا تھا، اﷲ ہی بہتر جانتا ہے کہ ان دو میں سے کون سا معاملہ تھا۔ بہرحال میں نے ان اَنوار میں غور و خوض کیا تو مجھ پر یہ حقیقت منکشف ہوئی کہ یہ اَنوار اُن ملائکہ کے ہیں جو ایسی مجالس اور مشاہد میں شرکت پر مامور و مقرر ہوتے ہیں۔ میں نے دیکھا کہ اَنوارِ ملائکہ کے ساتھ ساتھ اَنوارِ رحمت کا نزول بھی ہو رہا تھا۔‘‘ :12حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی عليه الرحمه (متوفيٰ 1239ھ( كا نظريه تيرهويں صدي كے مجدّد شاہ عبد العزیز محدّث دہلوی عليه الرحمه اپنے فتاوٰی میں لکھتے ہیں : وبرکة ربيع الأول بمولد النبي صلي الله عليه وآله وسلم فيه ابتداء وبنشر برکاته صلي الله عليه وآله وسلم علي الأمة حسب ما يبلغ عليه من هدايا الصلٰوة والإطعامات معا. (فتاوٰي عزيزي، 1 : 163) ’’اور ماہِ ربیع الاول کی برکت حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی میلاد شریف کی وجہ سے ہے۔ جتنا اُمت کی طرف سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں ہدیۂ درود و سلام اور طعاموں کا نذرانہ پیش کیا جائے اُتنا ہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی برکتوں کا اُن پر نزول ہوتا ہے۔‘‘ ٭ میلاد کی خوشی منانے پر کافر کے عذاب میں تخفیف: ٭ حدیث شریف: فلما مات ابولہب اریہ اہلہ بشر حیبۃ، قال لہ ماذا القیت؟ قال ابو لہب لم الق بعدکم غیر انی سقیت فی ہذہ یعتاقتی ثویبۃ ترجمہ: جب ابولہب مرگیا تو اس کے اہل خانہ میں سے کسی کو اسے خواب میں دکھایا گیا۔ وہ برے حال میں تھا (دیکھنے والے نے) اس سے پوچھا ،کیسے ہو؟ ابولہب نے کہا میں بہت سخت عذاب میں ہوں۔ اس سے کبھی چھٹکارا نہیں ملتا۔ ہاں مجھے (اس عمل کی جزا کے طور پر) اس (انگلی) سے قدرے سیراب کردیا جاتا ہے جس سے میں نے (محمدﷺ کی ولادت کی خوشی میں) ثويبہ کو آزاد کیا تھا (بخاری، کتاب النکاح، باب وامہاتکم اللاتی ارضعنکم جلد 5، حدیث 4813، ص 1961) اس روایت کے تحت محدثین کے اقوال پیش کئے جارہے ہیں جنہوں نے اس روایت سے جشن میلاد النبیﷺ کو باعث اجروثواب لکھا ہے۔ 1: حضرت حافظ شمس الدین محمد بن عبداﷲ جزری علیہ الرحمہ (متوفیٰ 660ھ) اپنی تصنیف ’’عرف التعریف بالمولد الشریف‘‘ میں لکھتے ہیں: فاذا کان ابولہب الکافر الذی نزل القرآن بذمہ جوزی فی النار بفرحہ لیلۃ مولد النبیﷺ بہ، فما حال المسلم الموحد من امۃ النبیﷺ یسر بمولدہ، وبذل ماتصل الیہ قدرتہ فی محبتہﷺ؟ لعمری انما یکون جزاؤہ من ﷲ الکریم ان یدخلہ بفضلہ جنات النعیم ترجمہ: حضور اکرم نور مجسمﷺ کی ولادت باسعادت کے موقع پر خوشی منانے کے اجر میں اس ابولہب کے عذاب میں بھی تخفیف کردی جاتی ہے جس کی مذمت میں قرآن حکیم میں ایک مکمل سورت نازل ہوئی ہے تو اُمّت محمدیہ کے اس مسلمان کو ملنے والے اجروثواب کا کیا عالم ہوگا جو آپﷺ کے میلاد کی خوشی مناتا ہے اور آپﷺ کی محبت و عشق میں حسب استطاعت خرچ کرتا ہے؟ خدا کی قسم! میرے نزدیک اﷲ تعالیٰ ایسے مسلمان کو اپنے حبیب مکرمﷺ کی خوشی منانے کے طفیل اپنی نعمتوں بھری جنت عطا فرمائے گا۔ 2: حافظ شمس الدین محمد بن ناصر الدین دمشقی علیہ الرحمہ (متوفیٰ 842ھ) اپنی کتاب مورد الھادی فی مولد الھادی‘‘ میں فرماتے ہیں۔ قد صح ان ابالہب یخفف عنہ عذاب النار فی مثل یوم الاثنین لاعتاقۃ ثویبۃ بسروراً ابمیلاد النبیﷺ یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ میلاد النبیﷺ کی خوشی میں ثویبہ کو آزاد کرنے کے صلے میں ہر پیر کے روز ابولہب کے عذاب میں کمی کی جاتی ہے اذا کان ہذا کافر جاء ذمہ وتبت یداہ فی الجحیم مخلدا اتی انہ فی یوم الاثنین دائما یخفف عنہ للسرور باحمدا فما الظن بالعبد الذی طول عمرہ باحمد مسروراً و مات موحدا ’’جب ابولہب جیسے کافر کے لئے۔ جس کی مذمت قرآن حکیم میں کی گئی ہے اور ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جہنم میں اس کے ہاتھ ٹوٹتے رہیں گے۔ حضور اکرمﷺ کے میلاد کی خوشی منانے کی وجہ سے ہر سوموار کو اس کے عذاب میں تخفیف کردی جاتی ہے۔ تو کتنا خوش نصیب ہوگا وہ مسلمان جس کی ساری زندگی عبادت الٰہی میں میلاد کی خوشیوں میں بسر ہوئی اور وہ حالت ایمان پر فوت ہوا (الحاوی للفتاویٰ، ص 206) 3: گیارہویں صدی کے مجدد شاہ عبدالحق محدث دہلوی علیہ الرحمہ (متوفیٰ 1052ھ) ابولہب والی بخاری شریف کی روایت کا تذکرہ کرنے کے بعد لکھتے ہیں۔ در اینجاسند است مراہل موالبد راکہ در شب میلاد آنحضرتﷺ سرور کنند وبذل اموال نمایند یعنی ابولہب کہ کافر بود، و قرآن بمذمت ومے نازل شدہ، چوں بسرور میلاد آنحضرتﷺ جزادادہ شد تاحال مسلماں کہ مملوست بمحبت وسرور و بذل مال دروے چہ باشد۔ ولیکن بایدکہ ازبدعتہاکہ عوام احداث کردہ انداز تغنی وآلات محرمہ ومنکرات خالی باشد تاموجب حرمان از طریقہ اتباع نگردد (مدارج النبوت، جلد 2، ص 19) ترجمہ: یہ روایت موقع میلاد پر خوشی منانے اور مال صدقہ کرنے والوں کے لئے دلیل اور سند ہے۔ ابو لہب جس کی مذمت میں ایک مکمل سورت قرآنی نازل ہوئی جب وہ حضورﷺ کی ولادت کی خوشی میں لونڈی آزاد کرکے عذاب میں تخفیف حاصل کرلیتا ہے تو اس مسلمان کی خوش نصیبی کا کیا عالم ہوگا جو اپنے دل میں موجزن محبت رسولﷺ کی وجہ سے ولادت مصطفیﷺ کے دن مسرت اور عقیدت کا اظہار کرے۔ ہاں بدعات مثلا رقص اور غیر اسلامی اعمال وغیرہ سے اجتناب ضروری ہے کیونکہ انسان اس کے باعث میلاد کی برکات سے محروم ہوجاتا ہے۔

Saturday, 28 November 2015

اعتراض : ۔ جشن ولادت کو ’’عید‘‘ کیوں کہتے ہو۔ اسلام میں صرف دو عیدیں ہیں، ایک عیدالفطر اور دوسری عیدالاضحی، یہ تیسری عید، عید میلاد النبی کہاں سے آگئی ؟

اعتراض : ۔ جشن ولادت کو ’’عید‘‘ کیوں کہتے ہو۔ اسلام میں صرف دو عیدیں ہیں، ایک عیدالفطر اور دوسری عیدالاضحی، یہ تیسری عید، عید میلاد النبی کہاں سے آگئی ؟
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
جواب: اصل میں آپ لوگ ’’عید‘‘ کی تعریف سے ہی واقف نہیں اگر کچھ علم پڑھ لیاہوتا تو ایسی بات نہ کرتے۔
عید کی تعریف اور جشن میلاد کو عید کہنے کی وجہ
ابوالقاسم امام راغب اصفہانی رحمتہ اﷲ تعالیٰ علیہ (المتوفی 502ھ) عید کی تعریف بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’عید اسے کہتے ہیں جو بار بار لوٹ کر آئے، شریعت میں یہ لفظ یوم الفطر اور یوم النحر کے لئے خاص نہیں ہے۔ عید کا دن خوشی کے لئے مقرر کیا گیا ہے۔ رسول اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا ’’عید کے ایام کھانے پینے اور اپنے اہل و عیال کے ساتھ وقت گزارنے کے لئے ہیں‘‘ اس لئے ہر وہ دن جس میں خوشی حاصل ہو، اس دن کے لئے عید کا لفظ مستعمل ہوگیا ہے جیسا کہ اﷲ عزوجل کا حضرت عیسٰی علیہ السلام کی دعا سے متعلق ارشاد ہے کہ ’’ہم پر آسمان سے خوان (کھانا) اتار کہ وہ ہمارے (اگلوں پچھلوں کے لئے) عید ہو‘‘ اور عید انسان کی اس حالت خوشی کو کہتے ہیں جو بار بار لوٹ کر آئے اور ’’العائدۃ‘‘ ہر اس منفعت کو کہتے ہیں جو انسان کو کسی چیز سے حاصل ہو‘‘
علامہ راغب اصفہانی رحمتہ اﷲ علیہ کے مذکورہ بالا کلام سے معلوم ہوا کہ عید ہر اس دن کو کہتے ہیں
1: جس میں انسان کو کوئی خوشی حاصل ہو
2: جس میں اﷲ عزوجل کی طرف سے کوئی خصوصی رحمت و نعمت عطا ہوئی ہو۔
3: جسے کسی خوشی کے موقع سے کوئی خاص مناسبت ہو۔
الحمدﷲ عزوجل علی احسانہ! بارہ ربیع الاول کے موقع پر یہ تینوں صورتیں ہی جمع ہوتی ہیں۔ آپ خود ہی فیصلہ کیجئے کہ ایک مسلمان کے لئے حضور نبی کریمﷺ کے ولادت پاک کے دن سے بڑھ کر کیا خوشی ہوسکتی ہے؟ اس خوشی کے سبب بھی بارہ ربیع الاول کو عید کا دن قرار دیا جاتا ہے۔
آپﷺ جن کے صدقے ہمیں خدا کی پہچان ملی، ایمان کی لازوال دولت ملی، قرآن جیسا بابرکت تحفہ ملا جن کے صدقے زندگی گزارنے کا ڈھنگ آیا اور جن کی ذات اقدس ہمارے لئے سراپا رحمت ہے ان سے بڑھ کر کون سی رحمت اور کون سی نعمت ہے؟ اگر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے حواری خوان نعمت عطا ہونے والے دن کو عید کہہ سکتے ہیں اور وہ دن ان کے اگلوں پچھلوں کے لئے یوم عید ہوسکتا ہے تو ہم بدرجہ اولیٰ اس بات کے مستحق ہیں کہ امام الانبیاء علیہ الصلوٰۃ والسلام کے روز ولادت کو عید میلاد النبیﷺ کا نام دیں اور عید منائیں۔
کہتے ہیں کہ ’’کسی معتبر کتاب میں یوم میلاد کو عید نہیں لکھا گیا‘‘ فی الوقت میرے پاس موجود کتاب کے اعتبار کے لئے صرف اتنا ہی کہوں گا کہ اشرف علی تھانوی صاحب نے اور تمام علمائے دیوبند نے اس کتاب کو اپنی تحریروں کی وقعت ظاہر کرنے کے لئے حوالہ دے کر جگہ جگہ اس کا ذکر کیا ہے اور نشرالطیب تو اس کتاب کے حوالوں سے بھری ہوئی ہے اور معترضین کی مزید تسلی کے لئے عرض ہے کہ اس کتاب کے عربی متن کے اردو ترجمہ پر تعریفی تقاریظ علمائے دیوبند نے لکھی ہیں۔ اس کتاب کا نام ’’مواہب اللدنیہ‘‘ ہے ترجمہ کو ’’سیرۃ محمدیہ‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔
امام احمد بن محمد بن ابی بکر الخطیب قسطلانی رحمتہ اﷲ علیہ کی یہ کتاب پانچ سو برس پرانی ہے۔ اس کی شرح ’’زرقانی‘‘ آٹھ ضخیم جلدوں میں علامہ ابو عبداﷲ محمد زرقانی نے لکھی جو اہل علم میں بہت قدر کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہے۔ 1338 ہجری میں جن علمائے دیوبند نے اس کتاب پر تعریفی تقاریظ لکھیں ان کے نام بھی ملاحظہ فرمالیں۔
٭ جناب محمد احمد مہتمم دارالعلوم دیوبند و مفتی عالیہ عدالت ممالک سرکار آصفیہ نظامیہ ٭ جناب محمد حبیب الرحمن مددگار مہتمم دارالعلوم دیوبند ٭ جناب اعزاز علی مدرس ، مدرسہ دیوبند ٭ جناب سراج احمد رشیدی مدرس، مدرسہ دیوبند ٭ جناب محمد انور معلم، دارالعلوم دیوبند
اس کتاب کے صفحہ 75 پر امام قسطلانی رحمتہ اﷲ علیہ فرماتے ہیں ’’اﷲ تعالیٰ اس مرد پر رحم کرے جس نے آنحضرت ﷺ کی ولادت کے مبارک مہینہ کی راتوں کو ’’عیدین‘‘ اختیار کیا ہے تاکہ اس کا یہ (عید) اختیار کرنا ان لوگوں پر سخت تر بیماری ہو جن کے دلوں میں سخت مرض ہے اور عاجز کرنے والی لادوا بیماری، آپ کے مولد شریف کے سبب ہے۔

نویں صدی کے محدث حضرت امام قسطلانی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ اس پر رحمتیں نازل
فرماتا ہے جو میلاد النبیﷺ کی رات بہ طور عید مناتا ہے اور جس (بدبخت) کے دل میں عناد
اور دشمنی کی بیماری ہے، وہ اپنی دشمنی میں اور زیادہ سخت ہوجاتا ہے
نویں صدی کے محدث حضرت امام قسطلانی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ اس پر رحمتیں نازل فرماتا ہے جو میلاد النبیﷺ کی رات بہ طور عید مناتا ہے اور جس (بدبخت) کے دل میں عناد اور دشمنی کی بیماری ہے، وہ اپنی دشمنی میں اور زیادہ سخت ہوجاتا ہے اصل عبارت: وقد روعی ابولہب بعد موتہ فی النوم، فقیل لہ: ما حالک؟ قال: فی النار، الا انہ خفف کل لیلۃ اثنتین وامص من بین اصبعی ہاتین مائ، واشار الی راس اصبعیہ، وان ذلک باعتافی لثویبۃ عندما بشرتنی۔ بولادۃ النبی صلی اﷲ علیہ وسلم وبارضا عہالہ قال ابن الجوزی: فاذا کان ابولہب الکافر الذی نزل القرآن بذمہ جوزی فی النار بفرحۃ لیلۃ مولد النبی صلی اﷲ علیہ وسلم، فما حال المسلم من امتہ بسر بمولدہ، ویبذل ماتصل الیہ قدرتہ فی محبتہ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم؟ لعمری! انما کان جزاؤہ من اﷲ الکریم ان یدخلہ بفضلہ جنات النعیم ولایزال اہل الاسلام یحتفلون بشہر مولدہ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم ویعملون الولایم ویتصدقون فی لیلالیہ بانواع الصدقات ویظہرون السرور ویزیدون فی المبرات ویعتنون بقراء ۃ مولدہ الکریم ویظہر علیہم من مکانہ کل فضل عمیم ومماجرب من خواصہ انہ امان فی ذلک العام وبشری عاجل بنیل البغیۃ والمرام، فرحم اﷲ امرا اتخذلیالی شہر مولدہ المبارک اعیاد الیکون اشد غلبۃ علی من فی قلبہ مرض وعناد 4 ٭ امام قسطلانی فرماتے ہیں (م 943ھ) ابولہب کو مرنے کے بعد خواب میں دیکھا گیا تو اس سے پوچھا گیا۔ اب تیرا کیا حال ہے؟ کہنے لگا: آگ میں جل رہا ہوں، تاہم ہر پیر کے دن (میرے عذاب میں) تخفیف کردی جاتی ہے اور انگلیوں سے اشارہ کرتے ہوئے کہنے لگا کہ میری ان دو انگلیوں کے درمیان سے پانی (کا چشمہ) نکلتا ہے (جسے میں پی لیتا ہوں) اور یہ (تخفیفِ عذاب میرے لئے) اس وجہ سے ہے کہ میں نے ثوبیہ کو آزاد کیا تھا جب اس نے مجھے محمد(ﷺ) کی ولادت کی خبر دی اور اس نے آپﷺ کو دودھ بھی پلایا تھا۔ امام ابن جزری کہتے ہیں۔ حضور ﷺ کی ولادت باسعادت کے موقع پر خوشی منانے کے اجر میں ابولہب کے عذاب میں بھی تخفیف کردی جاتی ہے۔ جس کی مذمت (میں) قرآن حکیم میں (ایک مکمل) سورت نازل ہوئی ہے۔ تو اُمّت محمدیہ کے اس مسلمان کو ملنے والے اجر وثواب کا کیا عالم ہوگا جو آپ کے میلاد کی خوشی مناتا ہے اور آپﷺ کی محبت و عشق میں حسب استطاعت خرچ کرتا ہے؟ خدا کی قسم! میرے نزدیک اﷲ تعالیٰ ایسے مسلمان کو (اپنے محبوبﷺ کی خوشی منانے کے طفیل) اپنے فضل کے ساتھ اپنی نعمتوں بھری جنت عطا فرمائے گا۔ اور ہمیشہ سے مسلمانوں کا یہ دستور رہا ہے کہ ربیع الاول کے مہینے میں میلاد کی محفلیں منعقد کرتے ہیں، دعوتیں کرتے ہیں، اس کی راتوں میں صدقات و خیرات اور خوشی کے اظہار کا اہتمام کرتے ہیں۔ ان کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ ان دنوں میں زیادہ سے زیادہ نیک کام کریں۔ اس موقع پر وہ ولادت باسعادت کے واقعات بھی بیان کرتے ہیں۔ میلاد شریف منانے کے خصوصی تجربات میں محفل میلاد منعقد کرنے والے سال بھر امن و عافیت میں رہتے ہیں اور یہ مبارک عمل ہر نیک مقصد میں جلد کامیابی کی بشارت کا سبب بنتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ اس پر رحمتیں نازل فرماتا ہے جو میلاد النبیﷺ کی شب بطور عید مناتا ہے اور جس (بدبخت) کے دل میں عناد اور دشمنی ہے وہ اپنی دشمنی میں اور زیادہ سخت ہوتا ہے (المواہب اللدنیہ، جلد اول، ص 78، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ، بیروت)

الیوم اکملت لکم دینکم

کا یوم نزول عید کے طور پر منانا
جب سورۃ المائدہ کی تیسری آیت (الیوم اکملت لکم دینکم) نازل ہوئی تو یہودی اسے عام طور پر زیر بحث لاتے ہوئے مسلمانوں کے ساتھ مکالمہ کرتے تھے۔ درج ذیل حدیث میں اسی حوالہ سے حضرت عمر رضی اﷲ عنہ اور ایک یہودی کا مکالمہ بیان کیا گیا ہے اور اس سے میلاد النبیﷺ کا دن بہ طور عید منانے پر اتشہاد کیا گیا ہے۔
1۔ امام بخاری (256-194ھ) الصحیح میں روایت کرتے ہیں:
عن عمر بن الخطاب رضی ﷲ عنہ ان رجلا من الیہود قال لہ: یاامیر المومنین! آیۃ فی کتابکم تقرؤونہا، لو علینا معشر الیہود نزلت، لاتخذنا ذلک الیوم عیداً، قال: ای آیۃ؟ قال(الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دینا) قال عمر: قد عرفنا ذلک الیوم، والمکان الذی نزلت فیہ علی النبیﷺ، وہو قائم بعرفۃ یوم جمعۃ
(بخاری، کتاب الایمان، باب زیادۃ الایمان و نقصانہ، جلد1، حدیث 45، ص 25)
’’حضرت عمر بن خطاب رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے: ایک یہودی نے ان سے کہا: اے امیر المومنین! آپ اپنی کتاب میں ایک ایسی آیت پڑھتے ہیں کہ اگر وہ آیت ہم گروہ یہود پر اترتی تو ہم اس کے نزول کا دن عید بنالیتے۔ آپ نے پوچھا کون سی آیت؟ اس نے کہا (آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کردیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کردی اور تمہارے لئے اسلام کو (بہ طور) دین (یعنی مکمل نظام حیات کی حیثیت سے) پسند کرلیا حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے فرمایا: جس دن اور جس جگہ یہ آیت حضور نبی اکرمﷺ پر نازل ہوئی، ہم اس کو پہچانتے ہيں۔ آپﷺ اس وقت جمعہ کے دن عرفات کے مقام پر کھڑے تھے‘‘
اس حدیث میں قابل غور نکتہ یہ ہے کہ یہودی نے سوال کیا کہ اگر تکمیل دین کی یہ آیت ہم پر اترتی تو ہم اس کے نزول کا دن عید کے طور پر مناتے، آپ ایسا کیوں نہیں کرتے؟ انہیں مغالطہ تھا کہ شاید مسلمان اسے عام دن کے طور پر ہی لیتے ہیں۔ یہاں جواب بھی اسی نوعیت کا ہونا چاہئے تھا، مگر حضرت عمر رضی اﷲ عنہ فرمانے لگے۔
قد عرفنا ذلک الیوم، والمکان الذی نزلت فیہ
’’ہم اس دن اور مقام کو خوب پہچانتے ہیں جہاں یہ آیت کریمہ نازل ہوئی‘‘
وہ دن جمعہ اور حج کا تھا اور وہ جگہ جہاں آیت کا نزول ہوا، عرفات کا میدان تھا۔ ظاہراً سوال اور جواب کے مابین کوئی ربط اور مطابقت دکھائی نہیں دیتی لیکن درحقیقت حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کا جواب سوال کے عین مطابق ہے۔ آپ رضی اﷲ عنہ نے عرفہ اور یوم الجمعہ کے الفاظ سے ہی اس کا مکمل جواب دے دیا اور اشارۃً بتادیا کہ یوم حج اور یوم جمعہ دونوں ہمارے ہاں عید کے دن ہیں۔ ہم انہیں سالانہ اور ہفتہ وار عید کے طور پر مناتے ہیں۔ پس یہودی کا اس جواب سے خاموش رہنا اور دوبارہ سوال نہ کرنا بھی اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ وہ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کی وضاحت کے بعد لاجواب ہوکر رہ گیا تھا۔
حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کے جواب کو مکمل وضاحت قرار دیتے ہوئے حافظ ابن حجر عسقلانی (852-773ھ) تبصرہ کرتے ہیں۔
عندی ان ہذہ الروایۃ اکتفی فیہا بالاشارۃ
(فتح الباری، جلد اول، حدیث 45، ص 105)
’’میرے نزدیک اس روایت میں اشارہ کرنے پر ہی اکتفا کیا گیا ہے‘‘
2: حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کے جواب کی تصریح حضرت کعب احبار رضی اﷲ عنہ کی روایت سے بھی ہوتی ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ میں نے عمر بن خطاب رضی اﷲ عنہ سے کہا کہ میں ایسی قوم کو جانتا ہوں کہ اگر ان پر یہ آیت نازل ہوتی تو وہ اسے عید کے طور پر مناتے۔ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے فرمایا: کون سی آیت؟ میں نے کہا
الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دینا
(سورۃ المائدہ پارہ 5، آیت 3)
’’آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کردیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کردی اور تمہارے لئے اسلام کو (بہ طور) دین (یعنی مکمل نظام حیات کی حیثیت سے) پسند کرلیا‘‘
اس پر حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے فرمایا:
انی لاعرف فی ای یوم انزلت: (الیوم اکملت لکم دینکم) یوم جمعۃ ویوم عرفۃ، وہما لنا عیدان
(المعجم الاوسط، جلد اول، حدیث 830، ص 253)
’’میں پہچانتا ہوں کہ کس دن الیوم اکملت لکم دینکم نازل ہوئی، جمعہ اور عرفات کے دن، اور وہ دونوں دن (پہلے سے) ہی ہمارے عید کے دن ہیں‘‘
مذکورہ بالا روایات ثابت کرتی ہیں کہ یہودی کا نظریہ درست تھا۔ اسی لئے اس کی توثیق کی گئی ورنہ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ اس وقت اس کی تردید کردیتے اور فرماتے کہ شریعت نے ہمارے لئے عید کے دن مقرر کررکھے ہیں، لہذا ہم اس دن کو بہ طور عید نہیں مناسکتے۔ بہ الفاظ دیگر حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے یہودی کو باور کرایا کہ اگر یہ دن تمہارے نصیب میں ہوتا تو تم اس دن ایک عید مناتے مگر ہم تو یوم عرفہ اور یوم جمعہ دو عیدیں مناتے ہیں۔
3۔ اس معنی کی تائید کتب حدیث میں مذکور حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما کے اس واقعہ سے بھی ہوتی ہے جسے حضرت عمار بن ابی عمار رضی اﷲ عنہ نے روایت کیا ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما نے آیت:
الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دینا
تلاوت کی تو آپ کے پاس ایک یہودی کھڑا تھا۔ اس نے کہا:
لو انزلت ہذہ علینا لاتخذنا یومہا عیداً
’’اگر یہ آیت ہم پر نازل ہوتی تو ہم اس کے نزول کا دن عید کے طور پر مناتے‘‘
حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما نے فرمایا:
فانہا نزلت فی یوم عیدین: فی یوم الجمعۃ ویوم عرفۃ
(ترمذی شریف، کتاب تفسیر القرآن، باب من سورۃ المائدہ، حدیث 3044، جلد 5، ص 250)
’’بے شک یہ آیت دو عیدوں یعنی جمعہ اور عرفہ (حج) کے دن نازل ہوئی‘‘
حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما نے یہودی کا قول رد نہیں کیا بلکہ اس کی تائید کرتے ہوئے فرمایا کہ اس آیت کا نزول جمعہ اور عرفہ (حج) کے دن ہوا جنہیں مسلمان پہلے ہی عیدوں کے طور پر مناتے ہیں۔
ان احادیث سے اس امرکی تائید ہوتی ہے کہ نزول نعمت کے دن کو بطور عید منانا جائز ہے۔ جس طرح تکمیل دین کی آیت کا یوم نزول روز عید ٹھہرا، اِسی طرح وہ دن جب حضور رحمت عالمﷺ خود دنیا میں تشریف لائے اور جن کے صدقے ہمیں صرف یہ آیت نہیں بلکہ مکمل قرآن جیسی نعمت عطا ہوئی، اس دن کو بطور عید کیوں نہیں منایا جاسکتا؟
حقیقت تو یہ ہے کہ عید میلاد منانا اصل حلاوت ایمان ہے مگر اس کے لئے ضروری ہے کہ حُبّ رسولﷺ کو ایمان کی بنیاد تسلیم کیا جائے ورنہ یہ حقیقت سمجھ میں نہیں آسکتی۔ وہ ذات اقدس جن کے صدقے تمام عالم کو عیدیں نصیب ہوئیں، ان کا جشن میلاد منانے کے لئے دل میں گنجائش نہ ہونا کون سی کیفیت ایمان کی نشاندہی کرتا ہے؟ حضور نبی اکرمﷺ پر نازل ہونے والی سورۃ المائدۃ کی یہ آیت بہت بڑی خوش خبری اور بشارت کی آئینہ دار تھی۔ جس دن اس آیت کا نزول ہوا وہ دن عیدالجمعہ اور عید الحج کی خوشیاں لے کر طلوع ہوا۔ لہذا اہل ایمان کے لئے یہ نکتہ سمجھ لینا کچھ مشکل نہیں کہ جس مبارک دن نبی آخر الزماں حضور محمد مصطفیﷺ کی ولادت مبارکہ ہوئی، وہ سب عیدوں سے بڑی عید کا دن ہے۔ جمہور اہل اسلام محافل میلاد کے ذریعے اپنی دلی مسرت کا اظہار اور بارگاہ ایزدی میں اس نعمت ابدی کے حصول پر ہدیہ شکر بجالاتے ہیں۔ اس دن اظہار مسرت وانبساط عین ایمان ہے۔ جمہور امت مسلمہ مداومت سے اس معمول پر عمل پیرا ہے اور رسول محتشمﷺ کا یوم ولادت ’’12 ربیع الاول‘‘ ہر سال بڑے تزک و احتشام سے عید کے طور پر مناتی ہے۔
بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ عید الفطر اور عیدالاضحی کے سوا کسی دن کے لئے عید کا لفظ استعمال نہیں کیا جاسکتا۔ ہم یہی سوال حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما کی طرف لے جاتے ہیں کہ کیا عیدالفطر اور عیدالاضحی کے سوا کسی دن کے لئے عید کا لفظ استعمال کرسکتے ہیں یا نہیں؟ ان کی طرف سے جواب آتا ہے:
فانہما نزلت فی یوم عیدین: فی یوم الجمعۃ ویوم عرفۃ
’’بے شک یہ آیت دو عیدوں یعنی جمعہ اور عرفہ (حج) کے دن نازل ہوئی‘‘
اس جواب پر یہ اعتراض بھی کیا جاسکتا ہے کہ یوم عرفہ تو عیدالاضحی کا دن ہے۔ ہمارا جواب یہ ہے کہ حضرت عمر اور حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہ نے یوم جمعہ کو بھی یوم عید قرار دیا ہے۔ اور اگر ان اجل صحابہ کے قول کے مطابق جمعہ کا دن عید ہوسکتا ہے تو پھر میلاد مصطفیﷺ کا دن عید کیوں نہیں ہوسکتا؟ بلکہ وہ تو عید الاعیاد (عیدوں کی عید) ہے کہ ان صاحب لولاکﷺ کے صدقہ اور وسیلہ سے پوری نسل انسانی کو قرآن حکیم جیسے بے مثل صحیفہ آسمانی اور ہدایت ربانی سے فیض یاب ہونے کا موقع ملا۔

اعتراض : ۔ جشن عید میلاد النبیﷺ منانا بدعت ہے

اعتراض : ۔ جشن عید میلاد النبیﷺ منانا بدعت ہے
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
جواب: الحمدﷲ! ہم نے گذشتہ آرٹیکل میں جشن عید میلاد النبیﷺ منانے کو سنّت ثابت کردیا ہے لہذا اب کوئی شخص بھی میلاد منانے کو بدعت نہیں کہہ سکتا بلکہ محدثین اور علمائے اسلام نے جشن عید میلاد النبیﷺ کو بدعت کہنے کی نفی فرمائی ہے چنانچہ امام ابو شامہ علیہ الرحمہ (متوفی 665ھ) امام جلال الدین سیوطی علیہ الرحمہ (متوفی 911ھ) امام شمس الدین سخاوی علیہ الرحمہ (متوفیٰ 902ھ) اور حضرت امام ابن حجر ہیتمی المکی علیہ الرحمہ (متوفیٰ 973ھ) کے اقوال ملاحظہ ہوں:
1: شارح صحیح مسلم امام نووی علیہ الرحمہ (متوفیٰ 665ھ) کے شیخ امام ابو شامہ عبدالرحمن بن اسماعیل علیہ الرحمہ اپنی کتاب الباعث علی انکار البدع الحوادث میں لکھتے ہیں:
ومن احسن ماابتدع فی زمانتا من ہذا القبیل ما کان یفعل بمدینۃ اربل، جبرہا ﷲ تعالیٰ، کل عام فی الیوم الموافق لیوم مولد النبیﷺ من الصدقات والمعروف واظہار الزینۃ والسرور، فان ذالک مع ما فیہ من الاحسان الی الفقراء مشعر بمحبۃ النبیﷺ، وتعظیمہ وجلالتہ فی قلب فاعلہ وشکر ﷲ تعالیٰ علی ما من بہ من ایجاد رسولہ الذی ارسلہ رحمۃ للعالمینﷺ وعلی جمیع الانبیاء والمرسلین
(ابو شامہ، الباعث علی انکار البدع والحوادث ص 24-23)
’’اور اسی (بدعت حسنہ) کے قبیل پر ہمارے زمانے میں اچھی بدعت کا آغاز شہر ’’اربل‘‘ خدا تعالیٰ اسے حفظ و امان عطا کرے، میں کیا گیا۔ اس بابرکت شہر میں ہر سال میلاد النبیﷺ کے موقع پر اظہار فرحت و مسرت کے لئے صدقات و خیرات کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں۔ اس سے جہاں ایک طرف غرباء و مساکین کا بھلا ہوتا ہے، وہیں حضور نبی اکرمﷺ کی ذات گرامی کے ساتھ محبت کا پہلو بھی نکلتا ہے اور پتہ چلتا ہے کہ اظہار شادمانی کرنے والے کے دل میں اپنے نبیﷺ کی بے حد تعظیم پائی جاتی ہے اور ان کی جلالت و عظمت کا تصور موجود ہے۔ گویا وہ اپنے رب کا شکر ادا کررہا ہے کہ اس نے بے پایاں لطف و احسان فرمایا کہ اپنے محبوب رسولﷺ کو (ان کی طرف) بھیجا جو تمام جہانوں کے لئے رحمت مجسم ہیں اور جمیع انبیاء و رسل پر فضیلت رکھتے ہیں‘‘
شیخ ابو شامہ شاہ اربل مظفر ابو سعید کو کبری کی طرف سے بہت بڑے پیمانے پر میلاد شریف منائے جانے اور اس پر خطیر رقم خرچ کئے جانے کے بارے میں اس کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
مثل ہذا الحسن یندب الیہ و یشکر فاعلہ ويثنی علیہ
(سبل الہدی والرشاد فی سیرۃ خیر العباد، جلد اول، ص 363)
’’اس نیک عمل کو مستحب گردانا جائے گا اور اس کے کرنے والے کا شکریہ ادا کیا جائے اور اس پر اس کی تعریف کی جائے‘‘

نويں صدي كے مجدد امام جلال الدين سيوطي عليه الرحمه اپني كتاب ’’حسن المقصد في عمل المولد‘‘ كے
صفحه نمبر 3پر فرماتےهيں۔ رسول اللهﷺ كا ميلاد منانا، واقعات بيان كرنا، ضيافت كرنا يه آپﷺ كي
تعظيم ميں سے هے۔ اس اهتمام كرنے والے كو ميلاد پر اظهار فرحت و مسرت كي بناء پر ثواب سے نوازاجاتا هے۔
نويں صدي كے مجدد امام جلال الدين سيوطي عليه الرحمه اپني كتاب ’’حسن المقصد في عمل المولد‘‘ كے صفحه نمبر 3پر فرماتےهيں۔ رسول اللهﷺ كا ميلاد منانا، واقعات بيان كرنا، ضيافت كرنا يه آپﷺ كي تعظيم ميں سے هے۔ اس اهتمام كرنے والے كو ميلاد پر اظهار فرحت و مسرت كي بناء پر ثواب سے نوازاجاتا هے۔ ’’ان اصل عمل المولد الذی ہو اجتماع النّاس و قرأۃٌ ماتیسّر من القرآن وروایۃ الاخبار الواردۃ فی مبدا (امر) النبیﷺ وماوقع فی مولدہٖ من الایات ثمّ یمدّلہم سما طایا کلونہ، وینصرفون من غیر زیادۃٖ علٰی ذٰلک من البدع (الحسنۃٖ) الّتی یثاب علیہا صاحبہا لما فیہٖ من تعظیم قدرالنّبیﷺ واظہار الفرح والاستبشار بمولدہٖ الشریف‘‘ ترجمہ: رسول پاکﷺ کا میلاد منانا جوکہ اصل میں لوگوں کے جمع ہوکر بہ قدر سہولت قرآن خوانی کرنے اور ان روایات کا تذکرہ کرنے سے عبارت ہے جو آپﷺ کی ولادت مبارکہ کے معجزات اور خارق العادت واقعات کے بیان پر مشتمل ہوتا ہے پھر اس کے بعد ان کی ضیافت کا اہتمام کیا جاتا ہے اور وہ تناول ماحضر کرتے ہیں اور وہ اس بدعت حسنہ میں کسی اضافہ کے بغیر لوٹ جاتے ہیں اور اس اہتمام کرنے والے کو حضورﷺ کی تعظیم اور آپﷺ کے میلاد پر اظہار فرحت و مسرت کی بناء پر ثواب سے نوازا جاتا ہے۔ )ص 41)

امام جلال الدین سیوطی علیہ الرحمہ (متوفیٰ 911ھ) اپنی کتاب میں لکھتے ہیں:
ان اصل عمل المولد الذی ہو اجتماع الناس، وقرأۃ ما تیسر من القرآن، وروایۃ الاخبار الواردۃ فی مبدأ (امر) النبیﷺ وما وقع فی مولدہ من الآیات، ثم یمدلہم سماطا یاکلونہ، وینصرفون من غیر زیادۃ علی ذلک من البدع (الحسنۃ) التی یثاب علیہا صاحبہا لما فیہ من تعظیم قدر النبیﷺ واظہار الفرح والاستبشار بمولدہ ﷺ الشریف
(سیوطی، حسن المقصد عمل المولد 41، سیوطی الحاوی للفتاویٰ 199)
’’رسول معظمﷺ کا میلاد منانا جوکہ اصل میں لوگوں کے جمع ہوکر بہ قدر سہولت قرآن خوانی کرنے اور ان روایات کا تذکرہ کرنے سے عبارت ہے جو آپﷺ کے بارے میں منقول ہیں، آپﷺ کی ولادت مبارکہ کے معجزات اور خارق العادت واقعات کے بیان پر مشتمل ہوتا ہے۔ پھر اس کے بعد ان کی ضیافت کا اہتمام کیا جاتا ہے اور وہ تناول ماحضر کرتے ہیں اور وہ اس بدعت حسنہ میں کسی اضافہ کے بغیر لوٹ جاتے ہیں اور اس اہتمام کرنے والے کو حضورﷺ کی تعظیم اور آپﷺ کے میلاد پر اظہار فرحت و مسرت کی بناء پر ثواب سے نوازا جاتا ہے‘‘
3: امام شمس الدین السخاوی علیہ الرحمہ (متوفیٰ 902ھ)
امام شمس الدین محمد بن عبدالرحمن سخاوی اپنے فتاویٰ میں میلاد النبیﷺ منانے کے بارے میں فرماتے ہیں:
وانما حدث بعدہا بالمقاصد الحسنۃ، والنیۃ التی للاخلاص شاملۃ، ثم لازال اہل الاسلام فی سائر الاقطار والمدن العظام یحتفلون فی شہر مولدہﷺ و شرف وکرم بعمل الولائم البدیعۃ، والمطاعم المشتملۃ علی الامور البہیۃ والبدیعۃ، ویتصدقون فی لیالیہ بانواع الصدقات، ویظہرون المسرات ویزیدون فی المبرات، بل یعتنون بقرابۃ مولدہ الکریم، ویظہر علیہم من برکاتہ کل فضل عظیم عمیم، بحیث کان مما جرب کما قال الامام شمس الدین بن الجزری المقری، انہ امان تام فی ذالک العام وبشری تعجل بنیل ماینبغی ویرام
(المورد الروی فی مولد النبی ونسبہ الطاہر، ص 13,12)
’’(محفل میلاد النبیﷺ) قرون ثلاثہ کے بعد صرف نیک مقاصد کے لئے شروع ہوئی اور جہاں تک اس کے انعقاد میں نیت کا تعلق ہے تو وہ اخلاص پر مبنی تھی۔ پھر ہمیشہ سے جملہ اہل اسلام تمام ممالک اور بڑے بڑے شہروں میں آپﷺ کی ولادت باسعادت کے مہینے میں محافل میلاد منعقد کرتے چلے آرہے ہیں اور اس کے معیار اور عزت و شرف کو عمدہ ضیافتوں اور خوبصورت طعام گاہوں (دستر خوانوں) کے ذریعے برقرار رکھا۔ اب بھی ماہ میلاد کی راتوں میں طرح طرح کے صدقات و خیرات دیتے ہیں اور خوشیوں کا اظہار کرتے ہیںاور زیادہ سے زیادہ نیکیاں کرتے ہیں۔ بلکہ جونہی ماہ میلاد النبیﷺ قریب آتا ہے، خصوصی اہتمام شروع کردیتے ہیں اور نتیجتاً اس ماہ مقدس کی برکات اﷲ تعالیٰ کے بہت بڑے فضل عظیم کی صورت میں ان پر ظاہر ہوتی ہیں۔ یہ بات تجرباتی عمل سے ثابت ہے جیسا کہ امام شمس الدین بن جزری مقری نے بیان کیا ہے کہ ماہ میلاد کے اس سال مکمل طور پر حفظ و امان اور سلامتی رہتی ہے اور بہت جلد تمنائیں پوری ہونے کی بشارت ملتی ہے۔

نویں صدی کے محدث امام ابن حجر ہیتمی المکی علیہ الرحمہ اپنی کتاب ’’الفتاویٰ الحدیثیہ‘‘ میں فرماتے ہیں کہ ہمارے ہاں میلاد و اذکار کی جو محفلیں منعقد ہوتی ہیں، وہ زیادہ تر نیک کاموں پر مشتمل ہوتی ہیں
Imam Ibn Hajar al-Makki log ninth century. You divisions upon his book 'al alhdysyh' states that in our busy Milad gatherings that are held, they are mostly comprised of works اصل عبارت: وقد روعی ابولہب بعد موتہ فی النوم، فقیل لہ: ما حالک؟ قال: فی النار، الا انہ خفف کل لیلۃ اثنتین وامص من بین اصبعی ہاتین مائ، واشار الی راس اصبعیہ، وان ذلک باعتافی لثویبۃ عندما بشرتنی۔ بولادۃ النبی صلی اﷲ علیہ وسلم وبارضا عہالہ قال ابن الجوزی: فاذا کان ابولہب الکافر الذی نزل القرآن بذمہ جوزی فی النار بفرحۃ لیلۃ مولد النبی صلی اﷲ علیہ وسلم، فما حال المسلم من امتہ بسر بمولدہ، ویبذل ماتصل الیہ قدرتہ فی محبتہ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم؟ لعمری! انما کان جزاؤہ من اﷲ الکریم ان یدخلہ بفضلہ جنات النعیم ولایزال اہل الاسلام یحتفلون بشہر مولدہ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم ویعملون الولایم ویتصدقون فی لیلالیہ بانواع الصدقات ویظہرون السرور ویزیدون فی المبرات ویعتنون بقراء ۃ مولدہ الکریم ویظہر علیہم من مکانہ کل فضل عمیم ومماجرب من خواصہ انہ امان فی ذلک العام وبشری عاجل بنیل البغیۃ والمرام، فرحم اﷲ امرا اتخذلیالی شہر مولدہ المبارک اعیاد الیکون اشد غلبۃ علی من فی قلبہ مرض وعناد Imam Ahmad ibn Mohammad ibn Hajar Makki. You asked him divisions concerts held simultaneously at present and Sunni parties are busy or voluntary or innovation? So he replied: امام احمد بن محمد بن علی بن حجر ہیتمی مکی علیہ الرحمہ سے پوچھا کہ فی زمانہ منعقد ہونے والی محافل میلاد اور محافل اذکار سنت ہیں یا نفل یا بدعت؟ تو انہوں نے جواب دیا: اصل عبارت: الموالد والاذکار التی تفعل عندنا اکثرہا مشتمل علی خیر، کصدقۃ، وذکر، و صلا و سلام علی رسول اﷲ علیہ وسلم و مدحہ ترجمہ: ہمارے ہاں میلاد واذکار کی جو محفلیں منعقد ہوتی ہیں، وہ زیادہ تر نیک کاموں پر مشتمل ہوتی ہیں مثلا ان میں صدقات دیئے جاتے ہیں (یعنی غرباء کی امداد کی جاتی ہے) ذکر کیاجاتا ہے، حضورﷺ پر درود و سلام پڑھا جاتا ہے اور آپﷺ کی مدح کی جاتی ہے۔

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...