Monday, 30 April 2018

خارجیوں کے عقائد نظریات اور احادیث مبارکہ کی روشنی میں خوارج کی نشانیاں

خارجیوں کے عقائد نظریات اور احادیث مبارکہ کی روشنی میں خوارج کی نشانیاں

خارجیت دراصل منتشرالخیالی اور منتشرالعملی کا ابلیسی فتنہ ہے جس کی کوکھ سے جہالت ، درندگی ، وحشت و دہشتگردی جنم لیتی ہے ۔ یہ تاریخ اسلام میں یہ فتنہ ابتدائی زمانے میں ہی پیدا ہوگیا تھا جس نے پہلا منظم حملہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم کی مقدس جماعت پر کیا اور (نعوذباللہ) امیر المومنین سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کو کافر و مشرک قرار دیتے ہوئے ان کے قتل کا فتویٰ جاری کردیا ۔ یہ ایک انتہا تھی ۔ قانونِ فطرت کے تحت اس کا رد عمل دوسرے بڑے فتنہ روافض کی صورت میں سامنے آیا جو کہ ایک دوسری انتہا تھی ۔ تاریخ کے مختلف ادوار میں اعتقادی ، فکری ، کلامی فسادات رونما ہونے میں یہی دو فتنے (خوارج و روافض) کارفرما رہے ۔ البتہ فتنہ خوارج سے آگہی و پہچان قرآن و سنت میں واضح کروا دی گئی ہے ۔ آئمہ تاریخ کی تحقیقات کے مطابق خوارج کے تقریبا بیس مختلف فرقے ہیں لیکن احادیث مبارکہ کی روشنی میں انکے دو گروہ نمایاں ہیں ۔ پہلا نجدیہ دوسرا حروریہ ۔

البتہ تاریخ اسلام میں اہل حق طبقہ ہمیشہ اعتدال، سنت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ، صبر ، قربانی ، باہمی رواداری اور جمعیت کا دامن تھامے نظر آتا ہے ۔ جسے عام اصطلاح یں ’’اہلسنت و جماعت‘‘کہا جاتا ہے ۔

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما خارجی لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی بدترین مخلوق سمجھتے تھے ، کیونکہ انہوں نے یہ کام کیا کہ جو آیات کافروں کے باب میں اتری تھیں ، ان کو مسلمانوں پر چسپاں کر دیا ۔ (صحيح بخاري ، كتاب استتابة المرتدين والمعاندين وقتالهم ، باب : قتل الخوارج والملحدين بعد اقامة الحجة عليهم)

صحیح بخاری کی کتاب ’استتابة المرتدين والمعاندين وقتالهم (باغیوں اور مرتدوں سے توبہ کرانے اور ان کے قتل کا بیان)‘ کے باب ’قتل الخوارج والملحدين بعد اقامة الحجة عليهم (خارجیوں اور بےدینوں سے ان پر دلیل قائم کر کے لڑنا)‘ کے تحت امام بخاری سب سے پہلے سورہ التوبہ (9) کی آیت نمبر 115 تحریر کرتے ہیں ، وقول الله تعالى ‏: ‏وما كان الله ليضل قوما بعد إذ هداهم حتى يبين لهم ما يتقون‏ ۔ ترجمہ : اور اللہ کی شان نہیں کہ وہ کسی قوم کو گمراہ کر دے اس کے بعد کہ اس نے انہیں ہدایت سے نواز دیا ہو، یہاں تک کہ وہ ان کے لئے وہ چیزیں واضح فرما دے جن سے انہیں پرہیزکرنا چاہئے، بیشک اﷲ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے ۔ (سُورة الْتوبہ 9 ، آیت : 115)

پھر اس آیت کے فوراََ بعد امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کوئی حدیث بیان کرنے کے بجائے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا وہ قول درج کرتے ہیں جو یوں ہے : وكان ابن عمر يراهم شرار خلق الله وقال إنهم انطلقوا إلى آيات نزلت في الكفار فجعلوها على المؤمنين‏ ۔ شارحینِ حدیث کے مطابق اس قول میں گمراہ گروہ خوارج کا ذکر ہے ۔

خوارج ہی وہ طبقہ ہے جو کافروں کے بارے میں نازل ہونے والی آیات کو مسلمانوں پر چسپاں کرتا ہے ۔

خوارج کون ہیں اور ان کے عقائد کیا ہیں ؟ اس کے بارے میں امام ابن جوزی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ‫: نافع بن الازرق خارجی اور اس کے ساتھی یہ اعتقاد رکھتے تھے کہ جب تک ہم شرک کے ملک میں ہیں تب تک مشرک ہیں اور جب ملک شرک سے نکل جائیں گے تو مومن ہوں گے ان کا کہنا تھا کہ جس کسی سے گناہ کبیرہ سرزد ہوا وہ مشرک ہے اور جو ہمارے اس عقیدے کا مخالف ہوا وہ بھی مشرک ہے جو لڑائی میں ہمارے ساتھ نہ ہو وہ کافر ہے ‫۔ ابراہیم الخارجی کا عقیدہ تھا کہ دیگر تمام مسلمان قوم کفار ہیں اور ہم کو اُن کے ساتھ سلام و دُعا کرنا اور نکاح ورشتہ داری جائز نہیں اور نہ ہی میراث میں اُن کا حصہ بانٹ کر دینا درست ہے ۔ ان کے نزدیک مسلمانوں کے بچے اور عورتوں کا قتل بھی جائز تھا کیونکہ اللہ تعالٰی نے یتیم کا مال کھانے پر آتش جہنم کی وعید سنائی ہے لیکن اگر کوئی شخص یتیم کو قتل کر دے یا اس کے ہاتھ پاؤں کاٹ ڈالے یا اس کا پیٹ پھاڑ ڈالے تو جہنم واجب نہیں ۔ (تلبس ابلیس علامہ ابن جوزی رحمۃ اللہ صفحہ 126 ، 127،چشتی)


احادیث مبارکہ کی روشنی میں خارجیوں کی نشانیاں

(1) أَحْدَاثُ الْأَسْنَانِ. ’’وہ کم سن لڑکے ہوں گے ۔
(بخاری، الصحيح، کتاب ، 6 : 2539، رقم : 6531۔۔مسلم، الصحيح، باب التحريض علی قتل الخوارج، 2 : 746، رقم : 1066،چشتی)

(2)  سُفَهَاءُ الْأَحْلَامِ. ’’دماغی طور پر ناپختہ ہوں گے ۔

(3) کَثُّ اللِّحْيَةِ. ’’ گھنی ڈاڑھی رکھیں گے ۔

(4) مُشَمَّرُ الْإِزَارِ. ’’بہت اونچا تہ بند باندھنے والے ہوں گے ۔

(5) يَخْرُجُ نَاسٌ مِنْ قِبَلِ الْمَشْرِقِ. ’’یہ خارجی لوگ (حرمین شریفین سے) مشرق کی جانب سے نکلیں گے ۔

(6) لَا يَزَالُوْنَ يَخْرُجُوْنَ حَتّٰی يَخْرُجَ آخِرُهُمْ مَعَ الْمَسِيْحِ الدَّجَّالِ.۔۔ ’’یہ ہمیشہ نکلتے رہیں گے یہاں تک کہ ان کا آخری گروہ دجال کے ساتھ نکلے گا ۔

(7) لَا يُجَاوِزُ إِيْمَانُهُمْ حَنَاجِرَهُمْ. ’’ایمان ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا ۔

(8) يَتَعَمَّقُوْنَ وَيَتَشَدَّدُوْنَ فِی الْعِبَادَةِ. ’’وہ عبادت اور دین میں بہت متشدد اور انتہاء پسند ہوں گے ۔ (عبد الرزاق، المصنف، 10 : 155، رقم : 18673،چشتی)

(9) يَحْقِرُ أَحَدُکُمْ صَلَاتَهُ مَعَ صَلَاتِهِمْ، وَصِيَامَهُ مَعَ صِيَامِهِمْ. (بخاری) تم میں سے ہر ایک ان کی نمازوں کے مقابلے میں اپنی نمازوں کو حقیر جانے گا اور ان کے روزوں کے مقابلہ میں اپنے روزوں کو حقیر جانے گا ۔

(10) لَا تُجَاوِزُ صَلَاتُهُمْ تَرَاقِيَهُمْ. ’’نماز ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گی۔‘‘ (مسلم، الصحيح، کتاب الزکاة، باب التحريض علی قتل الخوارج، 2 : 748، رقم : 1066)

(11) يَقْرَئُوْنَ الْقُرْآنَ لَيْسَ قِرائَتُکُمْ إِلَی قِرَاءَ تِهِمْ بِشَيءٍ . وہ قرآن مجید کی ایسے تلاوت کریں گے کہ ان کی تلاوتِ قرآن کے سامنے تمہیں اپنی تلاوت کی کوئی حیثیت دکھائی نہ دے گی ۔

(12)  يَقْرَئُوْنَ الْقُرْآنَ لَا يُجَاوِزُ حُلُوْقَهُمْ. ’’ان کی تلاوت ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گی ۔

(13) يَقْرَئُوْنَ الْقُرْآنَ يَحْسِبُوْنَ أَنَّهُ لَهُمْ، وَهُوَ عَلَيْهِمْ. ’’وہ یہ سمجھ کر قرآن پڑھیں گے کہ اس کے احکام ان کے حق میں ہیں لیکن درحقیقت وہ قرآن ان کے خلاف حجت ہوگا ۔

(14) يَدْعُونَ إِلَی کِتَابِ اﷲِ وَلَيْسُوا مِنْهُ فِي شَيْئٍ. (ابوداود باب فی قتل الخوارج) وہ لوگوں کو کتاب اﷲ کی طرف بلائیں گے لیکن قرآن کے ساتھ ان کا تعلق کوئی نہیں ہوگا ۔

(15) يَقُوْلُوْنَ مِنْ خَيْرِ قَوْلِ الْبَرِيَّةِ. ’’وہ (بظاہر) بڑی اچھی باتیں کریں گے ۔ (بخاری)

(16) يَقُوْلُوْنَ مِنْ أَحْسَنِ النَّاسِ قَوْلًا. ’’ان کے نعرے (slogans) اور ظاہری باتیں دوسرے لوگوں سے اچھی ہوں گی اور متاثر کرنے والی ہوں گی ۔ (طبرانی)

(17) يُسِيْئُوْنَ الْفِعْلَ. ’’مگر وہ کردار کے لحاظ سے بڑے ظالم، خونخوار اور گھناؤنے لوگ ہوں گے۔‘‘ (أبوداود، السنن، کتاب السنة، باب في قتال الخوارج، 4 : 243، رقم : 4765،چشتی)

(18) هُمْ شَرُّ الْخَلْقِ وَالْخَلِيْقَةِ. ’’وہ تمام مخلوق سے بدترین لوگ ہوں گے ۔ (مسلم)

(19) يَطْعَنُوْنَ عَلٰی أُمَرَائِهِمْ وَيَشْهَدُوْنَ عَلَيْهِمْ بِالضَّلَالَةِ. ’’وہ حکومت وقت یا حکمرانوں کے خلاف خوب طعنہ زنی کریں گے اور ان پر گمراہی و ضلالت کا فتويٰ لگائیں گے ۔
هيثمي، مجمع الزوائد، 6 : 228، وقال : رجاله رجال الصحيح.

(20) يَخْرُجُوْنَ عَلٰی حِيْنِ فُرْقَةٍ مِنَ النَّاسِ . وہ اس وقت منظرِ عام پر آئیں گے جب لوگوں میں تفرقہ اور اختلاف پیدا ہو جائے گا ۔ (متفق علیہ)

(21) يَقْتُلُوْنَ أَهْلَ الإِسْلَامِ وَيَدْعُوْنَ أَهْلَ الْأَوْثَانِ . وہ مسلمانوں کو قتل کریں گے اور بت پرستوں کو چھوڑ دیں گے ۔ (متفق علیہ)

(22) يَسْفِکُوْنَ الدَّمَ الْحَرَامَ. ’’وہ ناحق خون بہائیں گے ۔ (مسلم)

(23) يَقْطَعُوْنَ السَّبِيْلَ وَيَسْفِکُوْنَ الدِّمَاءَ بِغَيْرِ حَقٍّ مِنَ اﷲِ وَيَسْتَحِلُّوْنَ أَهْلَ الذِّمَّةِ . (من کلام عائشة رضي اﷲ عنها) ۔ وہ راہزن ہوں گے، ناحق خون بہائیں گے جس کا اﷲ تعاليٰ نے حکم نہیں دیا اور غیر مسلم اقلیتوں کے قتل کو حلال سمجھیں گے۔‘‘ (یہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا فرمان ہے۔) (حاکم، المستدرک، 2 : 166، رقم : 2657)

(24) يُؤْمِنُونَ بِمُحْکَمِهِ وَيَهْلِکُونَ عِنْد مُتَشَابِهه. (قول ابن عباس رضی الله عنه) . وہ قرآن کی محکم آیات پر ایمان لائیں گے جبکہ اس کی متشابہات کے سبب سے ہلاک ہوں گے ۔ (قولِ ابنِ عباس رضی اللہ عنہما) (امام طبری۔عسقلانی)

(25) يَقُوْلُوْنَ الْحَقَّ بِأَلْسِنَتِهِمْ لَا يُجَاوِزُ حُلُوْقَهُمْ. (قول علي رضی الله عنه) ’’وہ زبانی کلامی حق بات کہیں گے، مگر وہ ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گی ۔ (قولِ علی رضی اللہ عنہ) (مسلم)

(26) ينْطَلِقُوْنَ إِلَی آيَاتٍ نَزَلَتْ فِي الْکُفَّارِ فَيَجْعَلُوْهَا عَلَی الْمُؤْمِنِيْنَ . (من قول ابن عمر رضی الله عنهما) (بخاری) ۔ وہ کفار کے حق میں نازل ہونے والی آیات کا اطلاق مسلمانوں پر کریں گے۔ اس طرح وہ دوسرے مسلمانوں کو گمراہ، کافر اور مشرک قرار دیں گے تاکہ ان کا ناجائز قتل کر سکیں ۔ (قولِ ابنِ عمر رضی اللہ عنہ سے مستفاد)

(27) يَمْرُقُوْنَ مِنَ الدِّيْنِ کَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ . وہ دین سے یوں خارج ہو چکے ہوں گے جیسے تیر شکار سے خارج ہو جاتا ہے ۔

(28) اَلْأَجْرُ الْعَظِيْمُ لِمَنْ قَتَلَهُمْ. ’’ان کے قتل کرنے والے کو اجرِ عظیم ملے گا ۔ مسلم، الصحيح، کتاب الزکاة، باب التحريض علی قتل الخوارج، 2 : 748، رقم : 1066،چشتی)

(29) وہ شخص بہترین مقتول (شہید) ہوگا جسے وہ قتل کر دیں گے ۔ (ترمذی)

(30) کلاب النار ۔۔ خوارج جہنم کے کتے ہیں ۔ (السنن ابن ماجہ۔ باب فی الذکر الخوارج ۔ ۱: ۶۲، رقم۔۱۷۶

متعدد احادیث مبارکہ میں فرامین رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ہیں کہ خوارج دہشت گردوں کے گروہ امت مسلمہ کے اندر یکے بعد دیگرے نکلتے رہیں گے۔ حتی کہ ان کا آخری گروہ دجال کے ساتھ جا کر ملے گا ۔

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : یخرج قوم من قبل المشر یقروون القرآن ، لایجاوز تراقیم کلما قطع قرن نشا قرن، حتی یخرج فی بقیتھم الدجال ۔

ترجمہ : مشرق کی طرف سے کئی لوگ نکلیں گے ۔ وہ قرآن پڑھیں گے مگر قرآن انکے حلق سے نیچے نہ اترے گا، جب ایک شیطانی سینگ یعنی دہشت گرد گروہ کو کاٹ دیا جائے گا تو دوسرا نکلے گا ، یعنی گروہ در گروہ پیدا ہوتے رہیں گے ۔ حتی کہ ان کے آخری گروہ دجال کے ساتھ نکلے گا ۔ (احمد بن حنبل المسند۔ ۲، ۲۰۹، رقم ۶۹۵۲)(طبرانی المعجم الاوسط۔ ۷: ۴۱، رقم ۶۷۹۱)(امام حاکم المستدرک ۔ ۴: ۵۵۶، رقم ۸۵۵۸)۔(طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

خارجی دنیا کی بدترین مخلوق ہیں بتوں کی مذمت میں نازل ہونے والی آیات اہل ایمان پر چسپاں کرتے ہیں

خارجی دنیا کی بدترین مخلوق ہیں بتوں کی مذمت میں نازل ہونے والی آیات اہل ایمان پر چسپاں کرتے ہیں

خارجی دنیا کی بدترین مخلوق ہیں بتوں کی مذمت میں نازل ہونے والی آیات اہل ایمان پر چسپاں کرتے ہیں : کچھ نادان لوگ جہاں کہیں ’’مِن دُونِ اللّهِ‘‘ کے الفاظ دیکھتے ہیں قطع نظر اس سے کہ وہاں کیا بیان کیا گیا ہے اس کا اطلاق بلا استثناء انبیاء و رسل عظام علیھم السلام اور اولیاء و صلحاء علیہم الرّحمہ پر بھی کر دیتے ہیں ۔ ان کی اس جاہلانہ روش سے قرآنی احکام کے بیان کی طرف سے اصل توجہ نہ صرف ہٹ جاتی ہے بلکہ خدا کے محبوب اور مقرب بندوں کی تنقیصِ شان بھی واقع ہوتی ہے جو نہ شارعِ اسلام علیہ الصلوٰۃ والسلام کا منشا ہے اور نہ خود ذاتِ باری تعالیٰ کا منشا و مقصود ۔ قرآنی الفاظ کا عموم ہو یا خصوص ، ضروری ہے کہ ان کے استعمال کا اصول اور اسلوب ہمیشہ پیشِ نظر رکھا جائے۔ اگر یہ بنیادی پہلو ہی نظر انداز ہو گیا تو اس غلط تفسیرِ قرآن سے گمراہی کے دروازے کھل جائیں گے۔ خوارج کا طریق بھی یہی تھا کہ اصل مدعا کو سمجھے بغیر الفاظ کے ظاہری عموم کی بناء پر قرآنی حکم کا ہر جگہ اطلاق کرتے تھے خواہ وہ اطلاق قطعاً غیر موزوں اور غلط ہی کیوں نہ ہوتا ۔

خوارج کے بارے میں منقول ہے : کَانَ ابْنُ عُمَرَ يرَاهُمْ شِرَارَ خَلْقِ اﷲِ، وَ قَالَ : اِنَّهُمُ انْطَلَقُوْا إِلٰی آيَاتٍ نَزَلَتْ فِی الْکُفَّارِ فَجَعَلُوْهَا عَلَی الْمُؤْمِنِيْنَ.ترجمہ:حضرت عبداللہ بن عمر رضی اﷲ عنہما انہیں بدترین مخلوق سمجھتے تھے اور فرماتے تھے : یہ وہ لوگ ہیں جو کفار کے حق میں نازل ہونے والی آیات کا اطلاق اہلِ ایمان پر کرتے ہیں ۔ (صحیح البخاری صفحہ 1714 کتاب استتابۃ المرتدین مطبوعہ دار ابن کثیر بیروت)( بخاري، الصحيح، کتاب استتابة المرتدين و المعاندين و قتالهم، باب قتل الخوارج والملحدين، 6 : 2539)(ابن عبد البر، التمهيد، 23 : 335)(ابن حجر عسقلاني، تغليق التعليق، باب قتل الخوارج والملحدين، 5 : 259)
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما خوارج کو اس لئے اللہ تعالیٰ کی بدترین مخلوق سمجھتے تھے کہ وہ ان آیات کو جو کفار و مشرکین کے حق میں نازل ہوئی تھیں ، اہلِ ایمان پر منطبق و چسپاں کرکے انہیں کافر و مشرک ٹھہراتے تھے ۔ اس لئے آیات اور الفاظِ قرآنی کا اصل مورد و محل جانے بغیر انہیں اس طرح بے باکی کے ساتھ ہر جگہ استعمال کرنا بذاتِ خود ایک بہت بڑی گمراہی ہے۔ قرآن کے ہر طالب علم کا اس گمراہی سے بچنا ضروری ہے ۔

سوال پیدا ہوتا ہے کیا آج بھی اوثان اور اصنام والی آیاتِ قرآنیہ کو مقبولانِ الٰہی اور اُن کے محبین اور اُن کا احترام بجا لانے والوں پر چسپاں کرنا اسی طرح قابلِ مذمت نہیں ؟ قابلِ مذمت ہے، خوارج نے تو حضرت سیدنا علی المرتضی کرم اﷲ وجہہ جیسی شخصیت کو بھی مشرک کہا جو سرچشمۂ ولایت و روحانیت ہیں ۔ انہوں نے آپ کی صداقت کا بھی انکار کر دیا تھا اور بغاوت اختیار کرتے ہوئے وہ تاریخِ اسلام کے پہلے بڑے اعتقادی فتنے کا سبب بنے تھے ۔ خوارج نے باقاعدہ طور پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو شرک کا مرتکب ٹھہرایا اور بزعمِ خویش اِس شرک کو قرآن حکیم کی آیت : إِنِ الْحُكْمُ إِلاَّ لِلّهِ. (یوسف، 12 : 40) ’’حکم کا اختیار صرف اﷲ کو ہے۔‘‘) سے ثابت کرکے تحکیم کا انکار کیا۔ اور ہر جگہ یہ نعرہ لگانا شروع کر دیا : لَا حُکْمَ إِلَّاِﷲ. ’’حکم کا اختیار صرف اﷲ کو ہے۔‘‘ ان کا اپنے خلاف پراپیگنڈہ دیکھ کر سیدنا علی المرتضی رضی اللہ عنہ نے واضح فرمایا تھا :کَلِمَةُ حَقٍّ أُرِيْدَ بِهَا بَاطِلٌ.ترجمہ:کلمہ تو برحق ہے مگر اِس سے مراد لیا جانے والا معنی باطل ہے ۔ (مسلم، الصحيح ، کتاب الزکاة، باب التحريض علي قتل الخوارج، 2 : 749، رقم : 1066)(ابن حبان، الصحيح، 15 : 387، رقم : 6939)(بيهقی، السنن الکبری، 8 : 171) ۔ اِسی طرح اہلِ ایمان کو آیات کی غلط تعبیر اور اطلاق کے ذریعے مشرک قرار دینے والا موجودہ طبقۂ فکر بھی خوارج ہی کی روش اختیار کئے ہوئے ہے ۔ (طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

خوارج کی نشانیاں احادیث مبارکہ کی روشنی میں اور خارجی واجب القتل ہیں










خوارج جہنمی کتے کیوں ہیں ؟

خوارج جہنمی کتے کیوں ہیں ؟

خوارج وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے گندے اور قبیح اعمال و عقائد کو دین سے منسوب کر کے رب کائنات کے پسندیدہ دین کے اسلامی چہرے کو بگاڑنے کی ناکام کوشش کی ہے ۔

تاریخ میں کبھی ایسی مثال نہیں ملتی کہ ان خوارج نے مسلمانوں کی حق میں کوئی قدام کیا ہو ہمیشہ سے انہوں نے ایسے ہی کام کیئے ہیں جن سے کفار کے منصوبے پورے ہوئے ان خوارج نے کفارٍ کے سینے ٹھنڈے کیئے ہیں ۔ افغانستان میں امریکہ و روس کو مار پڑنے کے بعد اب یہی خوارج ان کے عزائم کو مزید آگے لے کر چل رہے ہیں ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے تو اس دین کو ایسے پیش ہی نہیں کیا ۔۔۔۔ وہ اپنو ں تو کجا غیروں سے بھی نرمی ، پیار ، اچھے اخلاق اور رویے اپنا نے کا درس دیتے رہے ۔۔۔ساری زندگی لوگوں کو اسلام کی دعوت دیتے اور اصلاح کرتے ، ایمان کو پختہ کرتے رہے ۔۔۔۔کئی مصائب و تکالیف کا سامنا کیا لیکن دنیا کو نمونہ دکھایا کہ کسی کا دل کیسے جیتا جا سکتا ، اسے اپنا کیسے بنایا جا سکتا ہے ، اسے اپنے قریب کیسے کیا جا سکتا ہے ۔

امام آجری رحمہ اللہ اپنی کتاب ” الشریعۃ” میں رقمطراز ہیں : حضرت ابو غالب بیان کرتے ہیں کہ میں شام تھا اور میرے ساتھ صحابی رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم صدی بن عجلان ابو امامہ رضی اللہ عنہما میرے دوست بھی تھے ، تو حروریہ (یعنی خوارج ) کے سرداروں کے پاس آئے ابو امامہ رضی اللہ عنہ نے دو رکعت نماز پڑھی ، پھر خوارج کے سرداروں کی طرف متوجہ ہوئے تو یہ تابعی کہتے ہیں : میں ضرور اس (صحابی رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ) کی ضرور پیچھے چلوں گا حتی کہ میں سن لوں جو وہ کہتے ہیں ، کہتے ہیں پھر میں ان کے پیچھے چلا حتی کہ وہ ایک جگہ ٹھہر کر رونے لگے اور فرمایا : جہنمی کے کتے ، جہنمی کتے ، جہنمی کتے تین مرتبہ کہا ۔
پھر فرمایا : یہ بدترین مقتول ہیں جو آسمان کے سائے تلے قتل ہوتے ہیں اور وہ بہترین مقتول ہیں جو ان خوارج کے ہاتھوں شہید ہوتے ہیں ۔ پھر یہ آیت تلاوت فرمائی : هو الذي أنزل عليك الكتاب منه آيات محكمات هن أم الكتاب وأخر متشابهات فأما الذين في قلوبهم زيغ فيتبعون ما تشابه منه ابتغاء الفتنة وابتغاء تأويله وما يعلم تأويله إلا الله ۔ (آل عمران: ٧) ترجمہ : وہی ہے جس نے تجھ پر یہ کتاب اتاری ، جس میں سے کچھ آیات محکم ہیں ، ہی کتا ب کی اصل ہیں اور کچھ دوسری کئی معنوں میں ملتی جلتی ہیں ، پھر جن لوگوں کے دولوں تو کجی ہے وہ اس میں سے ان کی پیروی کرتے ہیں جو کئی معنوں میں ملتی جلتی ہیں ، فتنے کی تلاش کے لئے اور ان کی اصل مراد کی تلاش کے لئے اور ان کی اصل مراد نہیں جانتا مگر اللہ اور جو علم میں پختہ ہیں وہ کہتے ہیں ہم اس پر ایمان لائے ، سب ہمارے رب کی طرف سے ہے اور نصیحت قبول نہیں کرتے مگر جو عقلوں والے ہیں ۔ اور امت کو یہ درس دیا کہ یہ خوارج ٹیڑھی سوچ کے مالک مسلمانوں میں فساد پیدا کرتے ہیں ، کس قدر انہوں نے امت کا نقصان کیا ہے۔
(الشريعة للآجري: 1/٣٦٨ (٥٩)،چشتی)

انہی خوارج کے قبیح اور اسلامی چہرے کو مسخ کرنے والے عقائد و اعمال کی وجہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ان کے بارے میں ارشاد فرمایا ہے : خوارج جہنم کے کتے ہیں ۔ پہلے ہم اس حدیث مبارکہ کو بحوالہ ذکر کریں گے پھر اس کے معنی و مفہوم پر بات کریں گے ۔ ان شاء اللہ

عَنْ ابْنِ أَبِي أَوْفَى : قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ( الْخَوَارِجُ كِلَابُ النَّارِ )
ترجمہ : حضرت ابن ابی اوفی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ” خوارج جہنم کے کتے ہیں ۔ (ابن ماجة (173) ، ومسند أحمد (19130) والترمذي (3000) من حديث أبي أمامة رضي الله عنه اور علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسے “صحيح ابن ماجة” میں “صحیح ” اور اسی طرح صحيح الترمذي میں ” حسن صحیح ” کہا ہے ۔)

اس میں کچھ مزید الفاظ بھی ملتے جو کہ درج ذیل ہیں : عن أبي أمامة رضي الله عنه: كلاب أهل النار ۔ ترجمہ : ابو امامہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : یہ جہنمیوں کے کتے ہیں . (وأخرج ابن ماجة أيضًا وغيره ( 176) ترقيم الألباني وحسنه ، أخرج الحاكم وغيره(2654) ( 2/147) وصححه على شرط الشيخين،چشتی)

امام ابن الجوزی رحمہ اللہ خوارج کی شدید مذمت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں : عن عبدالله بن أبي أوفى قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: “الخوارج كلاب أهل النار ۔ (تلبيس إبليس: ص96 )
ترجمہ : عبد اللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کو یہ بیان کرتے ہوئے سنا : ” خوارج جہنم والوں کے کتے ہیں ۔

معنی و مفہوم : جیسا کہ حدیث کے الفاظ سے واضح ہے کہ رب کائنات خوارج کو بطور سزا جہنم کے کتے بنا دے گا، اب اس کے ظاہری الفاظ کو دیکھتے ہوئے مطلب یہ ہے کہ کتے کی شکل و صورت میں بنا دیے جائیں اور یہ بھی ممکن ہے کہ کتے کی بعض صفات پر بن جائیں یا انہیں اس جانور سے مشابہ بنا دیا جائے ۔ اور بلا شبہ یہ خوارج دنیا میں بھی کفار کے عزائم کو پورا کرتے ہوئے ان کی نوکری کرتے ہیں لہٰذا روز قیامت بھی ان کو یہی سزا دی جائے گی ۔

جیسا کہ ملاعلی قاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : قال القاري رحمه الله : أَيْ هُمْ كِلَابُ أَهْلِهَا، أَوْ عَلَى صُورَةِ كِلَابٍ فِيهَا ” انتهى ۔ ترجمہ : یہ جہنمیوں کے کتے ہوں گے ، یا اس میں کتے کی شکل و صورت پر ہوں گے ۔ (مرقاة المفاتيح 6/ 2323،چشتی)

امام مناوی رحمۃ اللہ علیہ رقمطراز ہیں : وقال المناوي رحمه الله : أي أنهم يتعاوون فيها عواء الكلاب ، أو أنهم أخس أهلها ، وأحقرهم ، كما أن الكلاب أخس الحيوانات وأحقرها ” انتهى ۔ ترجمہ : وہ کتوں کے بھونکنے کی طرح اس میں بھونکیں گے ، یا وہ اس میں ذلیل اور حقیر ترین ہوں گے ، جیسا کہ کتا جانوروں میں ذلیل اور حقیر ترین جانور ہے ۔
(فيض القدير 1/ 528،چشتی)

خوارج کو اس نوعیت کی سزا دینے میں حکمت

امام مناوی رحمۃ اللہ علیہ مزید فرماتے ہیں : والحكمة من عقابهم بهذا العقاب : أنهم كانوا في الدنيا كلابا على المسلمين ، فيكفرونهم ويعتدون عليهم ويقتلونهم ، فعوقبوا من جنس أعمالهم ، فصاروا كلابا في الآخرة ۔
ترجمہ : خوارج کو اس نوعیت کی سزا اس لئے دی گئی ہے کیونکہ یہ دنیا میں مسلمانوں پر کتے بن کر حملہ آور ہوتے ہیں ، مسلمانوں کی تکفیر کرتے ہیں ، ان پر زیادتیاں کرتے ہیں اور انہیں قتل کرتے ہیں ۔ سو ان خوارج کو ان کے کام جیسی ہی سزا دی گئی ہے اور وہ آخرت میں کتے بنا دیے گئے ہیں ۔ (فيض القدير 3/ 509،چشتی)

ایک جہنمی کتا : امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے فرزند عبد اللہ رحمہ اللہ اپنی کتاب ” السنۃ ” میں اسی سے متعلقہ ایک واقعہ ذکر کرتے ہوئے رقمطراز ہیں : عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُمْهَانَ، قَالَ: ” كَانَتِ الْخَوَارِجُ تَدْعُونِي حَتَّى كِدْتُ أَنْ أَدْخُلَ مَعَهُمْ فَرَأَتْ أُخْتُ أَبِي بِلَالٍ فِي النَّوْمِ أَنَّ أَبَا بِلَالٍ كَلْبٌ أَهْلَبُ أَسْوَدُ عَيْنَاهُ تَذْرِفَانِ قَالَ: فَقَالَتْ بِأَبِي أَنْتَ يَا أَبَا بِلَالٍ مَا شَأْنُكَ أَرَاكَ هَكَذَا؟ قَالَ: جُعِلْنَا بَعْدَكُمْ كِلَابَ النَّارِ، وَكَانَ أَبُو بِلَالٍ مِنْ رُءُوسِ الْخَوَارِجِ ۔
ترجمہ : حضرت سعید بن جمھان تابعی فرماتے ہیں کہ خوارج مجھے اپنے ساتھ شامل ہونے کی دعوت دیا کرتے تھے حتی کہ قریب تھا کہ میں ان میں شامل ہو جاتا ۔ سو ابو بلال کی بہن نے ایک خواب دیکھا کہ ابو بلال ایک گھنے بالوں والا کالا سیاہ کتا بنا ہوا ہے ، اس کی آنکھیں بہہ رہی ہیں ۔ بہن نے ابو بلال سے کہا : اے ابو بلال تجھ پہ قربان جاؤں تمہیں کیا ہو گیا ہے ۔۔۔ ؟ میں نے تمہیں خواب میں ایسے دیکھا ہے ۔ تو اس نے جواب دیا : مرنے کے بعد ہمیں آگ کے کتے بنا دیا جاتا ہے ۔ (السنه لعبدالله بن أحمد بن حنبل الشيباني : ١٥٠٩،چشتی)
نوٹ : ابو بلال کا نام مرداس بن حدیر ہے ، یہ خوارج کے بڑے بڑے لیڈروں میں سے ایک تھا اہل النہروان میں شامل تھا اس کے مزید تعارف کے لئے میں آگے ایک حدیث ذکر کرتا ہوں ۔

عن زياد ابن كسيب العدوي قال كنت مع أبي بكرة تحت منبر ابن عامر وهو يخطب وعليه ثياب رقاق فقال أبو بلال انظروا إلى أميرنا يلبس ثياب الفساق فقال أبو بكرة اسكت سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول من أهان سلطان الله في الأرض أهانه الله قال أبو عيسى هذا حديث حسن غريب . ترجمہ : حضرت زیاد ابن کسیب العدوی بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت ابو بکرہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ ابن عامر کے پاس بیٹھے تھے اور ابن عامر منبر پر خطبہ دے رہا تھا تو یہ ابو بلال آیا اور آ کر کہنے لگا : دیکھو ہمارے امیر کی طرف فاسقوں والا لباس پہنتا ہے ۔(شیخ ناصر الألباني: صحيح، الصحيحة (٢٢٩٦)،چشتی)

اس وقت ابو بکرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : خاموش ہو جاؤ میں نے رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے کہ : جس نے اللہ کے سلطان کی توہین کی اس کو اللہ رسوا کرے گا ۔
سو یہ تھا وہ ابو بلال خارجی جس کا انجام اللہ رب العزت نے اسے دنیا میں ہی دکھا دیا اور عبرت کا نشان بنا دیا ۔ لہٰذا خوارج کو کئی گندے عقائد کے وجوہات کی بناء پر ان کو یہ سزا سنائی گئی ہے جیسا کہ درج ذیل ہے :

(1) وہ مسلمانوں کو قتل کرتے ہیں

(2) یہ اس امت کے منافق ہیں

(3) امت کی وحدت کو پھارتےاور تفرقہ بازی کو ابھارتے ہیں

(4) مسلمانوں سے قتال کو افضل سمجھتے ہوئے بت پرستوں کو چھوڑ دیتے ہیں

(5) خوارج اس امت کے متعصب لوگ ہیں

اللہ رب العزت تمام مسلمانوں کو ان قاتلوں اور فسادیوں سے محفوظ فرمائے ، اللہ ہمیں دین اسلام کو صحیح جگہ سے لیتے ہوئے اسے بطریق احسن سمجھ کر اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ۔(طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

ناصبی کون ؟ اور موجودہ دور کے ناصبیوں کو پہچانیئے

ناصبی کون ؟ اور موجودہ دور کے ناصبیوں کو پہچانیئے

ناصبی جس کی جمع نواصب ہے اور اس کے لیئے ناصبہ اور ناصبیہ بھی استعمال کیا جاتا ہے (القاموس المحیط ص177) (فتح الباری 7:437)

اس کی اصطلاحی تعریفات ایک سے زائد ہیں جن میں سے معروف درج ذیل ہیں

(1) علامہ زمخشری و علامہ آلوسی علیہما لعّحمہ لکھتے ہیں : بغض علی و عداوتہ ۔ ترجمہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بغض و عداوت کا نام ناصبیت ہے ۔ (الکشاف 4:777) (روح المعانی 30:172)

(2) علامہ حافظ ابن حجر العسقلانی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : بغض علی و تقدیم غیرہ علیہ (ھدی الساری ص 459)۔(ترجمہ مفہوم اوپر گزر چکا ہے)

(3) سیرت نگار ابن اسید الناس رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : النواصب قوم یتدینون ببغضۃ علی (المحکم والمحیط الاعظم 8:345) اور اس قول کو معروف لغوی ابن منظور اور فیروزاآبادی نےبھی اختیار کیا ہے ۔

(4) علامہ ابن تیمیہ ممدوح غیر مقلد وہابی حضرت لکھتے ہیں : النواصب : الذین یوذون اہل البیت بقول و عمل (مجموع الفتاوی 3:154)

محترم قارئین : ان تعریفات کے پڑھنے کے بعد آیئے موجودہ دور کے ناصبیوں کے بارے میں جانتے ہیں :

ممبئی انڈیا سے شائع ہونے والا روزنامہ اردو ٹائمز میں جناب فاروق انصاری صاحب یزید اور کربلا کی جنگ کے تعلق سے ڈاکٹر ذاکر نائیک کا بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں ’’واضح رہے کہ اسلامک ریسرچ فائونڈیشن کی جانب سے سائن سمیہ میدان میں منعقدہ امن کانفرنس میں ڈاکٹر ذاکر نائیک صاحب نے سوال وجواب کے سیشن میں یزید کو ’’رضی اﷲ عنہ‘‘ کہا اور کربلاکی جنگ کو سیاسی جنگ بتایا‘‘ (اردو ٹائمز 9 جنوری 2008)
تعجب ہے کہ ڈاکٹر صاحب کو امام اعظم، امام مالک، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل کی تقلید راس نہیں آتی ہے مگر ناصبی مزاج رکھنے والے چند دیوبندیوں کی تقلید اس قدر خوشگوار لگی کہ ایسے بدبخت شخص کو ’’رضی اﷲ عنہ‘‘ کہنے کے لئے تڑپ گئے، جس کے ہاتھ نواسہ رسولﷺ کے خون سے رنگے ہیں، جس نے کعبہ معظمہ کا تقدس پامال کیا اور مدینہ منورہ کی حرمت لوٹی۔ جس کا زمانہ پانے سے حضرت ابوہریرہ جیسے جلیل القدر صحابی رسول نے اﷲ کی پناہ مانگی ہو جس کو ’’امیر المومنین‘‘ کہنے والے شخص پر حضرت عمر بن عبدالعزیز نے بیس کوڑے لگانے کا فیصلہ صادر فرمایا ہو، امام احمد بن حنبل نے جسے خارج از اسلام قرار دیا ہو، علماء سلف و خلف نے جس پر لعن و تشنیع کو جائز قرار دیا ہو، ناصبیوں کے سوا جس کو کبھی کسی نے ایک اچھا آدمی نہ بتایا ہو۔ اسے آج کے محققین ’’رضی اﷲ عنہ‘‘ سے نوازیں، تعجب بالائے تعجب! علماء حق کے متفقہ موقف سے متصادم ڈاکٹر صاحب کا یہ بیان درحقیقت عصر حاضر میں ناصبی تحریک کی احیاء وتجدید کی کوشش بے جا ہے۔
خیر چھوڑیئے! ڈاکٹر صاحب اور ان کے فکری ہم نوائوں کو صحابہ، ائمہ، علمائ، مشائخ اور بزرگوں سے کیا لینا دینا، سلف و خلف کے آراء و مواقف سے ان کا کیا واسطہ؟ امام اعظم یزید کے اسلام و کفر پر احتیاطا خاموشی اختیار کرتے ہیں۔ امام احمد بن حنبل اسے کافر کہتے ہیں۔ یہ لوگ کہتے رہیں! آج کے غیر مقلد محققوں کے سامنے یہ کون ہوتے ہیں جن کی بات میں دم ہو۔ آج کے یہ محققین تو خود دو کتابیں لکھ کر سب سے بڑے حدیث داں اور قرآن فہم بن چکے ہیں۔ یہ تو ترقی یافتہ دور کے محققین ہیں۔ یہ سائنس داں ہیں، کمپیوٹر والے ہیں۔ احادیث کے ذخائر ان کے فنگر کے اشارے پر ہیں۔ کل کے علماء کمپیوٹر کچھ تھوڑی جانتے تھے کہ ان سے بڑے محقق بن جاتے! یہ سب ڈاکٹر صاحب اور ان جیسے محققوں کے ریمارکس ہیں جو توفیق الٰہی کی حکمتوں سے لاعلم اور روحانیت سے پرے ہیں
یزید کے بھیانک جرائم کی تاریخی جھلکیاں
یزیدکی بداطواری، شراب نوشی، ترک صلاۃ کے علاوہ واقعہ کربلا، واقعہ حرۃ اور واقعہ مکہ جس میں کعبہ کے پردے جل گئے تھے، یہ چند ایسے تاریخی حقائق ہیں جو یزید کے ماتھے پر بدنما داغ ہیں۔ یہ ایسے بھیانک جرائم ہیں جن کے سامنے کوئی بھی صاحب عقل و فراست یزید کو ایک اچھا آدمی نہیں کہہ سکتا ہے چہ جائیکہ ’’رضی اﷲ عنہ‘‘ جیسا دعائیہ تعریفی جملہ ایسے بدبخت کے حق میں استعمال کیا جائے ملاحظہ ہو اس کے گھنائونے کارناموں کی ایک مختصر تاریخی روداد۔
واقعہ کربلا
سانحہ کربلا ایک مشہور واقع ہے جس کے وقوع پر تمام مورخین کا اتفاق ہے۔ جس واقعہ میں یزید کے حکم سے حضرت امام حسین رضی اﷲ عنہ کو ان کے نوجوان بیٹے، کم سن بچے، بھتیجے، بھانجے اور جاں نثاروں کے ساتھ کربلا میں بھوکے پیاسے بروز جمعہ دس محرم الحرام 61ھ میں نہایت دردناکی کے ساتھ شہید کردیا گیا۔
اسلامی تاریخی کا کوئی ایسا مورخ نہیں ہے جس نے سانحہ کربلا کا خونی منظر بیان نہ کیا ہو۔ طبری ہوں کہ ابن اثیریا پھر ابن کثیر، سیوطی ہوں یا پھر اور کوئی، سب نے اس واقعہ کا تذکرہ کیا ہے۔ سلف و خلف سبکا یزید کی بدبختی پر اتفاق ہے۔ سوائے ناصبیوں کے جن کے دلوں میں اہل بیت کے تعلق سے بغض و عناد بھرا ہے، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ کسی اہل ایمان و محبت کے پاس ایسا دل ہی نہیں کہ جس میں نواسہ رسول جگر گوشہ بتول کے قاتلوں کے لئے کوئی جگہ ہو جن کے قتل پر آسمان سے خون برسے ہوں۔ سات دنوں تک آسمان کے کناروں پر اندھیرا پھیلا رہا ہو۔ انسان تو انسان جناتوں نے بھی جن کی شہادت پر مرثیہ خوانی کی ہو۔ (دیکھئے تاریخ الخلفاء ص 209،چشتی)
واقعہ حرۃ
حضرت امام حسین رضی اﷲ عنہ کو شہید کروانے کے بعد یزید نے 63ھ میں مدینہ طیبہ پر فوج کشی کردی جس کے نتیجے میں مستورات کی عزت بھی سلامت نہ رہ سکی۔ سینکڑوں صحابہ و تابعین شہید کردیئے گئے۔ مسجد نبوی کی مبینہ بے حرمتی کی گئی۔ ابن کثیر حضرت امام احمد بن حنبل کے مسند کی ایک روایت کا خلاصہ بیان کرتے ہوئے رقم طراز ہیں : حادثہ حرۃ کا سبب یہ تھا کہ اہل مدینہ کا ایک وفد یزید کے پاس دمشق پہنچا، چنانچہ یزید نے اہل وفد کی تعظیم و تکریم کی، انعام و اکرام سے نوازا اور امیر وفد حضرت عبداﷲ بن حنظلہ کے لئے قریبا ایک لاکھ بخشش دی، مگر جب یہ وفد مدینہ پہنچا تو اہل مدینہ کو یزید کی شراب خوری اور اس کے نتیجہ میں اس سے سرزد ہونے والی بری عادتوں سے باخبر کردیا جس میں بالخصوص نشہ کی وجہ سے وقت مقررہ پر نماز کی عدم ادائیگی تھی۔ یہ سنکر اہل مدینہ نے یزید کی رداء بیعت اتار پھینکنے کا فیصلہ کرلیا اور منبر نبوی کے پاس سب نے یزید کی بیعت توڑ دی۔ یزید کو جب اس کی خبر ملی تو اس نے مسلم بن عقبہ، کی قیادت میں مدینہ ایک فوجی دستہ روانہ کردیا۔ یہ دستہ جب مدینہ پہنچا تو تین دنوں تک مدینہ کی حرمت کو پامال کرتا رہا اس دوران بہت سے لوگ لقمہ اجل بن گئے۔ مدینہ کا کوئی بھی شخص یزیدیوں کے دست غضب سے بچ کر نہیں نکل پایا (البدایہ النہایہ، 228:6،چشتی)
علامہ سیوطی واقدی کی متعدد طرق سے روایت ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ حضرت عبداﷲ بن حنظلہ نے فرمایا:
واﷲ ماخرجنا علی یزید حتی خفنا ان نرمی بالحجارۃ فی السمائ، انہ رجل ینکح امہات الاولاد،والبنات والاخوات ویشرب الخمر، ویدع الصلوٰۃ ۔
واﷲ ہم نے یزید کی مخالفت اس وقت کی جب ہمیں یقین ہوگیا کہ اب ہم پر آسمان سے پتھروں کی بارش ہوگی کیونکہ یزید محرمات سے نکاح کرتا ہے،شراب پیتا ہے اور نمازیں ترک کرتا ہے (تاریخ الخلفاء ص 209،چشتی)

واقعہ مکہ

نواسہ رسول اور ان کے جاں نثاروں کے خون سے ہولی کھیلنے اور مدینتہ الرسول کی دامان عفت کو چاک کرنے کے بعد یزیدیوں نے ایک شرمناک تاریخ اور رقم کی۔ ان کے ناپاک عزائم کی زد سے حرمت کعبہ بھی نہ محفوظ رہ سکی۔ علامہ سیوطی نے ذہبی کے حوالے سے لکھا ہے کہ یزیدی فوج مدینہ طیبہ کی حرمت کو تار تار کرنے کے بعد حضرت عبداﷲ ابن زبیر سے معرکہ آرائی کے لئے مکہ شریف روانہ ہوئی۔ مکہ پہنچ کر حضرت ابن زبیر کا محاصرہ کرلیا اور منجنیق برسایا جس کی وجہ سے کعبہ کے پردے، اس کی چھت اور حضرت اسماعیل کی جگہ قربان ہونے والے مینڈھے کے دو سینگ جل گئے۔ یہ حادثہ صفر المظفر 64ھ میں رونما ہوا ۔ (تاریخ الخلفاء ص 209،چشتی)

یزید قرآن و حدیث کی کسوٹی پر

حضرت ابراہیم علیہ وعلی نبینا وعلیہ الصلاۃ والسلام کو جب اﷲ نے زمیں پر لوگوں کا امام بنایا تو آپ نے بارگاہ الٰہی میں دعا کی یااﷲ کیا میری ذریت میں سے بھی کوئی امام ہوگا تو جوابا اﷲ نے ارشاد فرمایا کہ ضرور بشرطیکہ ظالم نہ ہو۔ اﷲ تعالی ارشاد فرماتا ہے۔ واذا ابتلی ابراہیم ربہ بکلمات فاتمھن قال انی جاعلک للناس اماما، قال ومن ذریتی، قال لاینال عہدی الظالمین ۔
ترجمہ : اور جب ابراہیم کو اس کے رب نے کچھ باتوں سے آزمایا تو اس نے وہ پوری کر دکھائیں ۔ فرمایا میں تمہیں لوگوں کا پیشوا بنانے والا ہوں۔ عرض کی اور میری اولاد سے؟ فرمایا امیر عہد ظالموں کو نہیں پہنچتا (سورۂ بقرہ 124)
دیکھئے اس آیت میں صاف طور پر کہا گیا کہ ظالم پیشوا نہیں بن سکتا۔ پیشوا وہی ہوگا جو خدا ترس ہو۔ بااخلاق اور لوگوں کا خادم ہو۔ ایک ظالم شخص جس کی نظر میں لوگوں کی عزت و آبرو اور نفس و مال کی کوئی قدروقیمت نہ ہو، جو بدکردار، شرابی اور خدائی احکام کا پابند نہ ہو۔ اسلام اسے خلافت و قیادت اور امامت کا اہل نہیں سمجھتا ہے۔ کیونکہ اسلام میں حاکم لوگوں کا خادم ہوتا ہے، جو لوگوں کے عیش و آرام پر اپنی عیش و آرام قربان کردینے کا جذبہ رکھتا ہو۔ جس کی نظر اپنی جاہ و ثروت، مال ودولت اور کرسی سلطنت پر نہیں بلکہ عام انسانوں کے سکون و آرام اور فلاح و بہبود پر ہوتی ہے۔ جو تکبر و عناد سے خالی، متواضع منکسر المزاج اور خدا ترس ہوتا ہے۔ واضح رہے کہ اسلامی مجاہدین نے ایسے کتنے ظالم بادشاہوںکے خلاف محاذ آرائی کی جن کی رعایا ان کے ظلم و استبداد سے بلک رہی تھی۔ عراق، مصر، تیونس، جزائر اور دنیا کے بیشتر ممالک اسی نقطہ نظر کے تحت فتح کئے گئے تاکہ عام انسانوں کو اسلام کے شہزادے عزت و نفس کی حفاظت کا پروانہ دے سکیں جس کے لئے اسلامی مجاہدین کی قربانیاں ناقابل فراموش ہیں ۔
اس آیت کے علاوہ بیشمار نصوص قرآن و احادیث سے یہ بات روز روشن کی طرح ثابت ہے کہ اسلام میں خلافت و امامت کا مستحق صرف وہی شخص ہوگا جو عدل پرست، خدا ترس اور احکام ربانی کا پابند ہو، اور خلافت سازی کا یہ عمل بذریعہ مجلس شوریٰ ہی انجام پائے گا۔ مجلس شوری ہی نے باتفاق رائے حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ کو خلیفہ منتخب کیا۔ حضرت ابوبکر صدیق نے حضرت عمر رضی اﷲ عنہم کے اندر خلافت کی تمام صلاحیتیں دیکھ کر انہیں خلافت کے لئے نامزد کیا جس پر صحابہ کرام نے رضا کی مہر ثبت کی۔ پھر حضرت عثمان بن عفان اور حضرت علی بن ابی طالب کی خلافتیں بھی صحابہ کی مجلس شوریٰ کے ذریعہ عمل میں آئیں۔ حضرت علی کرم اﷲ وجہ الکریم کے بعد مجلس شوریٰ نے حضرت حسن کو خلیفہ بنایا مگر آپ نے چھ ماہ کے بعد خلافت حضرت امیر معاویہ کے حوالے کردی۔ تقریبا بیس سال حضرت امیر معاویہ نے خلافت کی ذمہ داری نبھائی اور رجب المرجب 60ھ میں آپ کا انتقال ہوگیا ۔
یہ ساٹھ سالہ اسلامی خلافت کا درخشندہ دور تھا۔ اسی کے بعد امت میں ظلم و فساد کا دور شروع ہوگیا۔ جیسا کہ حدیث صحیح سے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے پیشین گوئی ثابت ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا ’’ہلکتہ امتی علی یدی غلمۃ‘‘ ’’میری امت کی ہلاکت بچوںکے ہاتھ پر ہوگی‘‘ مروان نے حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ سے پوچھا یہ بچے کون ہیں؟ تو آپ نے فرمایا اگر چاہو تو میں نام بنام بتادوں (البدایہ والنہایہ 223/6،چشتی)
اسی لئے حضرت ابوبریرہ رضی اﷲ عنہ یہ دعا مانگا کرتے تھے ’’ اللھم انی اعوذبک من سنۃ الستین وامارۃ الصبیان‘‘ اے اﷲ میں ساٹھ سال کے بعد کے زمانے سے اور بچوں کی حکومت سے تیری پناہ مانگتا ہوں‘‘ ابویعلی نے اپنی مسند میں حضرت ابو عبیدہ سے روایت کی ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا ’’لایزال امر امتی قائما بالقسط حتی یکون اول من یثلمہ رجل من بنی امیۃ یقال لہ یزید‘‘ میری امت ہمیشہ عدل و انصاف پر قائم رہے گی یہاں تک کہ بنو امیہ میں یزید نامی شخص ہوگا جو اس عدل میں رخنہ اندازی کرے گا‘‘ ایک اور روایت میں ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا ’’اول من یبدل سنتی رجل من بنی امیۃ، یقال لہ یزید‘‘ میری سنتوں کا بدلنے والا پہلا شخص بنو امیہ سے ہوگا جس کا نام یزید ہوگا‘‘ ابن کثیر کہتے ہیں کہ بیہقی کی اس روایت میں ابو العالیہ اور ابوذر کے درمیان انقطاع ہے مگر بیہقی نے ابوعبیدہ کی دوسری روایت سے اس کی ترجیح کی ہے (دیکھئے، البدایۃ والنہایۃ 223/6) ابن کثیر بیہقی کے حوالے سے مزید کہتے ہیں کہ شاید وہ شخص یزید ہی ہو۔
سید الکائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی مدح کو شرک بتانے والے لوگ یزید کی مدح اس لئے بھی کرتے ہیں کہ اس نے قسطنطنیہ کی جنگ میں شرکت کی ہے۔ مگر یہ تسلیم کرتے ہوئے کہ قسطنطنیہ کی جنگ میں کوئی اور یزید نامی شخص نہیں بلکہ یزید بن معاویہ بن ابی سفیان ہی شریک تھا تو اس سے یہ کہاں لازم آتا ہے کہ اس کا یہ ایک عمل قتل حسین رضی اﷲ عنہ اور کعبہ معظمہ و مدینہ منورہ کی بے حرمتی پر بھاری ہے۔ یزید کی تمام خطائوں سے قطع نظر صرف قتل امام حسین رضی اﷲ عنہ ہی ایک ایسا خطرناک جرم ہے جس کی تعویض ممکن ہی نہیں۔ کیونکہ قرآن نے عام مومن کے قاتل کو ہمیشہ ہمیشہ جہنم میں رہنے والا بتایا ہے۔ دیکھئے اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے
من یقتل مومنا متعمدا فجزائوہ جہنم خالدا فیہا وغضب اﷲ علیہ واعد لہ عذاب عظیما
جو کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کا بدلہ جہنم ہے کہ مدتوں اس میں رہے۔ اور اﷲ نے اس پر غضب اور لعنت کی اور اس کے لئے تیار رکھا ہے بڑا عذاب (سورہ نساء 93)
اب ذرا غور فرمائیں یہ عام مسلمان کے قتل کا معاملہ ہے تو نواسہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے قاتل کا کیا حال ہوگا؟ ایک ایسا عظیم انسان جو اس وقت سے لے کر قیامت تک روئے زمین کا سب سے بہتر انسان ہے۔ ابن کثیر کہتے ہیں:
لانہ السید الکبیر وابن بنت رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم فلیس علی وجہ الارض یومئذ احد یسامیہ ولایساویہ، ولکن الدولۃ الیزیدیۃ کانت کلا تناوئہ ۔
کیونکہ وہ سید کبیر اور نواسہ رسول ہیں۔ ان جیسا پورے روئے زمین پر کوئی نہیں، ان کا کوئی ہمسر اور ہم پلہ نہیں، لیکن اس کے باوجود یزیدی حکومت ان سے خار کھاتی تھی (البدایۃ والنہایۃ 144:8،چشتی)
یہ اس عظیم ہستی کا قتل تھا جسے مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اپنے لئے دنیا کی خوشبو بتایا۔ جس کی محبت کو اپنی محبت قرار دیا۔ چنانچہ ترمذی نے حضرت اسامہ بن زید سے روایت کی ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا
اللھم انی احبھما فاحبھما واحب من یحبھما
اے اﷲ میں ان دونوں (حسن اور حسین) سے محبت کرتا ہوں تو بھی ان سے محبت فرما اور اس سے محبت فرما جو ان دونوں سے محبت کرے
ترمذی کی ایک دوسری روایت ہے کہ اﷲ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ارشاد فرمایا
ان الحسن والحسین ہما ریحانتی من الدنیا
حسن و حسین میری دنیا کے دو پھول ہیں
ترمذی نے اس حدیث کے بارے میں حسن صحیح فرمایا ہے۔
کاش ڈاکٹر صاحب اور ان کے فکری ہم نوا ایمان و محبت کی ایک نظر ام سلمہ اور ابن عباس کی ان روایتوں پر بھی ڈال لئے ہوتے جن میں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے بے انتہا دکھ درد کا احساس ہے۔ چنانچہ بیہقی دلائل میں حضرت عبداﷲ ابن عباس فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو دوپہر خواب میں دیکھا آپ کا چہرہ انور غبار آلود ہے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے ہاتھوں میں خون سے بھری ایک شیشی ہے، میں نے پوچھا یا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم آپ پر میرے ماں باپ قربان ہوں۔ یہ کیا ہے؟ تو آپ نے فرمایا یہ حسین اور ان کے ساتھیوں کا خون ہے جسے آج میں دن بھر اکھٹا کرتا رہا ہوں۔ جب حساب لگایا گیا تو یہ وہی دن تھا جس دن حضرت حسین اور ان کے ساتھیوں کو شہید کیا گیا۔ (البدایہ والنہایہ 225:6، تاریخ الخلفاء ص 209،چشتی)
تاریخی حقیقت سے چشم پوشی کرنے والے لوگ کہتے ہیں کہ امام کے قتل کے ذمہ دار صرف ابن زیاد اور ابن سعد ہی ہیں۔ یزید اس بات سے راضی نہیں تھا۔ مگر آپ ذرا یزید کے پہلے خط کا تیور ملاحظہ کریں جسے اس نے اپنے مدینہ کے گورنر کو لکھا تھا:
اما بعد، فخذ حسینا وعبداﷲ بن عمر وعبداﷲ بن الزبیر بالبیعۃ اخذا شدیدا لیست فیہ الرخصہ حتی یبایعوا والسلام
اما بعد، تم حسین، عبداﷲ بن عمر اور عبداﷲ بن زبیر سے سختی کے ساتھ بیعت لو، ان کے ساتھ کسی طرح کی نرمی نہ برتو، یہاں تک یہ لوگ بیعت کرلیں، والسلام (البدایہ والنہایہ 139:8،چشتی)
یزید کے اس خطرناک تیور کے بعد بھی اگر لوگ اسے بری الذمہ سمجھتے ہیں تو یہ بتائیں کہ یزید نے امام اور ان کے رفقاء کے قاتلوں کو سزا کیوں نہیں دی؟ یا کم سے کم ان لوگوں کو معزول ہی کردیتا؟ اور بفرض محال اگر ہم یزید کو امام حسین کے خون سے بری ہی سمجھ لیں تو بھی واقعہ حرہ میں مدینہ شریف کے ساتھ سو قراء صحابہ کا خون کس کے گردن پر ہے؟ مدینۃ الرسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی بے حرمتی کرنے کا سہرہ کس کے سر پر ہے؟ کاش ڈاکٹر صاحب اپنی حدیث دانی پر اعتماد کرتے ہوئے مندرجہ ذیل صحیح حدیثوں پر نظر ڈال لیتے تو شاید یزید کو ’’رضی اﷲ عنہ‘‘ کہنے کی جرات نہ کرتے۔
رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ارشاد فرماتے ہیں : من اخاف اہل المدینۃ اخافہ اﷲ، وعلیہ لعنۃ اﷲ والملائکۃ والناس اجمعین ۔
جس نے اہل مدینہ کو ڈرایا دھمکایا اﷲ اسے خوف میں مبتلا کرے گا۔ اس پر اﷲ، فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہے۔ رواہ مسلم
حضرت سعد رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : لایکید اہل المدینۃ احد الا انماع، کما ینماع الملح ۔
اہل مدینہ کے ساتھ سازش کرنے والا نمک کی طرح پگھل جائے گا (رواہ البخاری)
حضرت سعد بن ابی وقاص سے مروی ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : یایرید احد اہل المدینۃ بسوء الا اذابہ اﷲ فی النار ذوب الرصاص (رواہ مسلم)
جو بھی اہل مدینہ کے ساتھ برائی کا ارادہ کرے گا اﷲ اسے آگ میں پگھلائے گا جیسے رانگا پگھلتا ہے ۔ مذکورہ بالا تاریخی حقائق کے پیش نظر اور قرآن و حدیث کے پیش منظر میں یہ بات واضح ہے کہ یزید خلافت کا مستحق نہیں تھا۔ خلافت پر اس کا قبضہ جابرانہ تھا اور ظلم و جبر کے خلاف آواز اٹھانا جہاد ہے۔ اس لئے کربلا کی جنگ سیاسی نہیں بلکہ اسلام کی راہ میں پیش کی جانے والی وہ عظیم قربانی ہے جس سے بلاشبہ اسلام کی حفاظت ہوئی ہے۔ قیامت تک لوگوں کو باطل کے سامنے سر نہ جھکانے کا حوصلہ ملا ہے۔ عملی تحریف و تصحیف سے اسلام کی حفاظت ہوئی ہے۔ کیا آپ کو معلوم نہیں ہے کہ دین عیسوی و موسوی میں کوئی حسین نہیں تھا۔ اس لئے وہ ادیان پہلے قولی پھر عملی تحریف و تصحیف سے نہ بچ سکے۔ واضح رہے کہ الناس علی دین ملوکھم کے بموجب خلیفہ وامیر کا عمل باعث تقلید ہوتا ہے۔ کہیں ایسا نہ ہوکہ یزید کی بدعملی لوگوں کے لئے قابل نمونہ بنے، اس لئے یزید کی مخالفت ضروری تھی۔ جس کے لئے صبر وعزیمت کے شہنشاہ، خانوادہ نبوت کے چشم وچراغ حضرت امام حسین رضی اﷲ عنہ کو یزید کی بیعت سے انکار پر مصر ہونا پڑا اور عملی تحریف و تصحیف سے اسلام کی حفاظت کرتے ہوئے آپ نے کربلا کی دھرتی پر اپنا سب کچھ قربان کردیا ۔ مذکورہ بالا تاریخی حقائق کے پیش نظر اور قرآن و حدیث کے پس منظر میں یزید لعنت و ملامت کا مستحق ہے یا ’’رضی اﷲ عنہ‘‘ کا ؟ یہ فیصلہ قارئین خود کرلیں ۔ (طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

عبداللہ بن سبا یہودی اور رافضی فرقہ کتب شیعہ کی روشنی میں


عبداللہ بن سبا یہودی اور رافضی فرقہ کتب شیعہ کی روشنی میں

محترم قارئیں : عبداللہ بن سبا کے بارے میں شیعہ و سنی تواریخ میں بہت کچھ پایا جاتا ہے جو کہ ایک تواتر کی حد سےبھی زیادہ ہے جس کا مطلب ہے کہ یہ شخص واقعی میں حقیقت ہے نہ کہ افسانہ جیسے آجکل کے شیعہ اس افسانہ بنانے کی کوشش کرتے ہیں پر اس سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ اس شخص کو ہی آخر شیعہ عقائد کا موجد کیوں کہا جاتا ہے ۔

فرقہ رافضہ کا ظہور اس وقت ہوا جب ایک یہودی شخص عبداللہ بن سبا نے اسلام لانے کا دعوٰی کیا اور ساتھ میں آل بیت کی محبت کا بھی دعوٰی کر ڈالا ، حقیقت یہ ہے کہ محتب کا دعویٰ دعوی کر کے علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں انتہائی غلو کا شکار ہوا یہاں تک کہ انکی خلافت کی وصیت کا دعوی کر بیٹھا اور پھر انہیں رتبہ الواہیت تک پہنچا دیا ـ یہ وہ حقائق ہیں جنکی شیعہ کی کتابیں خود اعتراف کر رہی ہیں ـ

شیعہ عالم القمی اپنی کتاب المقالات والفرق (دیکھئے المقالات و الفرق للقمی ص / 10-21) میں عبداللہ بن سبا کے وجود کو تسلیم کرتے ہوئے رقمطراز ہے کہ وہ (عبداللہ بن سبا) پہلا شخص ہے جس نے علی رضی اللہ عنہ کی امامت و رجعت کا دعوی کیا اور ابوبکرو عمر و عثمان اور بقیہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پر طعن و تشنیع کی '' جیسا کہ نو بختی نے اپنی کتاب '' فرق الشیعہ ''(فرق الشیعہ للنوبختی ص/ 19-30) میں اور الکشی نے اپنی کتاب '' رجال الکشی ''(دیکھئے ما اوردہ الکشی عن ابن رباء و عقائدہ ـ روایت نمبر ـ 120 سے 124 تک صفحہ 106 سے 108 تک ) میں اس کا ذکر کیا ہے اور اعتراف تمام دلائل و براہین کی اساس ہے اور یہ تمام اشخاص رافضہ کے بڑے علماء اور مشائخ میں سے ہیں ـ

ملا باقر مجلسی شیعہ عالم بحار الانوار میں لکهتا ہے : وذكر بعض أهل العلم أن عبد الله بن سبا كان يهوديا فأسلم ووالى عليا عليه السلام وكان يقول وهو على يهوديته في يوشع بن نون وصي موسى بالغلو فقال في إسلامه بعد وفاة رسول الله صلى الله عليه وآله في علي عليه السلام مثل ذلك. وكان أول من أشهر بالقول بفرض إمامة علي عليه السلام وأظهر البراءة من أعدائه وكاشف مخالفيه وأكفرهم ۔
ترجمہ : بعض اہل علم نے ذکر کیا ہے کہ عبداللہ ابن سبا یہودی تھا اسلام لے آیا اور پھر حضرت علی کی ولایت کا قائل ہوا۔ اس پہلے جب یہ یہودی تھا تو حضرت یوشع کے بارے میں غلو کرتا تھا کہ وہ موسی کے وصی ہیں۔ اسلام لانے کے بعد اس قسم کی بات حضرت علی کے بارے میں کی۔ یہ سب سے پہلا شخص ہے جس نے حضرت علی کی امامت کا قائل ہونا فرض ہے اور ان کی دشمنوں پر اعلانیہ تبرا کیا۔ اور مخالفوں کو کافر کہا - (بحار الانوار صفحہ 287 جلد 25)

ملا باقر مجلسی شیعہ عالم بحار الانوار میں لکهتا ہے : عبداللہ بن سبا سے پہلے کے لوگ تقیہ سے کام لیتے تھے اور ان امور کو (وصایت ، امامت ، افضلیت علی رضہ) کو اعلانیہ نہیں کہتے تھے لیکن اس نے تقیہ چھوڑ دیا اور ان باتوں کو اعلانیہ ذکر کرنا شروع کر دیا ۔ مخالفین امامت کو کافر کہنا بھی پہلے اس نے شروع کیا - (بحار الانوارص 287 جلد 25 حاشیہ)

ملا باقر مجلسی شیعہ عالم بحار الانوار میں لکهتا ہے : حضرت صادق رح اس کے بارے میں فرماتے ہیں : رجال الكشي : محمد بن قولويه عن سعد عن ابن يزيد ومحمد بن عيسى عن علي بن مهزيار عن فضالة بن أيوب الأزدي عن أبان بن عثمان قال: سمعت أبا عبد الله عليه السلام يقول: لعن الله عبد الله بن سبا إنه ادعى الربوبية في أمير المؤمنين،
"عبداللہ بن سبا پر اللہ کی لعنت ہو اس نے امیر المومنین کے بارے میں ربوبیت کا دعوی کیا - (بحارالانوار جلد 25 ص 287)

بغداری کا بیان ہے کہ سبائی فرقہ کا تعلق عبداللہ بن سبا کے اتباع سے ہے جنہوں نے علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں غلو کر کے انکے نبی ہونے کا دعوی کیا ، پھر مزید غلو کا ارتکاب کرتے ہوئے انکے اللہ ہونے کا دعوی کیا ـ اور بغداری کہتے ہیں کہ ابن سوداء یعنی ابن سبا دراصل اہل حیرہ میں ایک یہودی تھا جس نے بظاہراسلام قبول کر لیا تھا اور چاہتا تھا کہ وہ اہل کوفہ کا قائد اور سردار بن جائے یہی وجہ تھی کہ اس نے لوگوں کو بتایا کہ تورات میں ہے کہ ہر نبی کا ایک وصی ہوتا ہے اور علی رضی اللہ عنہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے وصی ہیں ـ

شیعہ عالم شہرستانی کا بیان ابن سبا کے بارے میں یہ ہے کہ '' وہ پہلا شخص ہے جس نے علی رضی اللہ عنہ کی امامت کے صراحت اور تعیین و تحدید کی '' اور وہ سبئیہ فرقہ کے بارے میں رقمطراز ہے کہ وہ پہلا فرق ہے جس نے غیبوبیت اور رجعت کا مسئہ کھڑا کیا پھر یہ چیز شیعہ کو اس کے بعد انکے اختلافات اور متعدد گروپوں میں منقسم ہونے کے باوجود وراثت میں مل گئی '' یعنی تمام شیعہ نص ووصیت دونوں طور پر علی رضی اللہ عنہ کی امامت و خلافت کے قائل ہیں جو کہ ابن سباء کا بقیہ ترکہ ہے ـ بعدازاں شیعہ دسیوں فرقوں میں منقسم ہو گئے اور ان کے دسیوں مختلف اقوا ور آراء بھی ہو گئے اس طرح شیعہ نے وصیت اور رجعت و غیبوبیت کی بدعت کو ایجاد کیا بلکہ ابن سباء کی اتباع کرتے ہوئے وہ آئمہ کی الوہیت کے بھی قائل ہو گئے (اصول اعتقاد اھل السنہ والجماعہ / الکلینی 23،22/1)

شیعہ کا نام رافضہ کیوں کر ہوا ، رافضہ '' انکار کرنے والی جماعت ''اس کی وجہ تسمیہ شیعوں کے شیخ مجلسی نے اپنی کتاب '' البحار'' میں ذکر کی ہے ، ساتھ ان کی چار حدیثوں کا بھی ذکر ہے (دیکھئے کتاب '' البحار للمجلسی ص 68-96-92 یہ انکی موجودہ مراجع و مصادر میں سے ایک ہے )
کہا جاتا ہے کہ انکا نام رافضہ اس لئے ہوا کہ وہ سب زید بن علی بن حسین کے پاس آئے اور کہا کہ ابوبکر و عمر سے براءت کرو تو ہم تمہارے ساتھ رہیں گئے ، انہوں نے جوابا کہا کہ وہ دونوں ہمارے نانا کے ساتھی ہیں ہم ان سے برات نہیں محبت کرتے ہیں ـ شیعوں نے کہ '' اذا نرفضک '' تب ہم تمہارا انکار کرتے ہیں ، اس لئے ان کا نام رافضہ ہو گیا اور جن لوگوں نے زید کی موافقت و بیعت کی انکا نام زیدیہ قرار پایا ۔ (التعلیقات علی متن لمعتہ الاعتقاد / للشخ عبدالرحمن جبرین رحمہ اللہ / ص-108)
اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہم کی امامت کے انکار کیوجہ سے انکام نام رافضہ پڑا (دیکھئے ـ حاشیہ مقالات الاسلامیین /محی الدین عبدالحمید / ص – 108)
ایک اور قول یہ بھی ہے کہ وہ دین کا انکار کرنے کی وجہ سے رافضہ سے موسوم ہوئے ـ (مقالات الاسلامیین / محی الدین عبدالحمید / ص 1- 89)
فرق رافضہ کے بارے میں کتاب دائرہ المعارف میں مذکور ہے کہ شیعی فرقہ اپنے فروغ کے اعتبار سے تہتر 73 مشہور فرقوں میں منقسم ہو چکے ہیں ـ (دائرتہ المعارف / 4/62)
بلکہ میرباقر الداماد (یہ محمد باقر بن محمد الاسد شیعہ کے مشائخ میں سے ہیں ) رافضی سے منقول ہے کہ حدیث میں مذکور تمام کے تمام فرقہ شیعہ ہیں اور ان میں فرقہ ناجیہ وہ فرقہ امامیہ ہے ـ المقریزی کا بیان ہے کہ شیعہ کے فرقے تین سو تک پہنچ چکے ہیں ( المقریزی فی الخطط/2/351)
شہرستانی کا کہنا ہے کہ رافضہ پانچ قسموں میں منقسم ہو چکے ہیں ـ کیسانیہ ـ زیدیہ ـ امامیہ ،ـ غالبہ ـ اسماعیلیہ(الملل والنحل للشہرستانی ص 142)
اور بغدادی کہتے ہیں علی کے زمانہ کے بعد رافضہ کے چار فرقے ہو گئے ـ زیدیہ ، امامیہ ، کیسانیہ اور غلاتہ ـ (الفرق بین الفرق للبغدادی ص /41 ) ۔ یہاں یہ بات واضح رہے کہ جارودیہ چھوڑ کر باقی زیدیہ روافض میں سے نہیں ہیں ۔ ان روایات کتب شیعہ سے جو بات ثابت ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ شیعوں کے تینوں ہی فرقوں کی بنیاد اسی ایک شخص کے عقائد پر ہے تفضلیوں نے اس کی افضلیت علی رضی اللہ عنہ کا عقیدہ اپنایا، امامی شیعوں نے افضلیت علی رضی اللہ عنہ ، امامت، تبرہ بازی کے عقائد کو مل کر اپنایا پھر غالیوں نے اس کے الہویت علی کے عقیدہ کو اپنایا چناچہ مجموعی طرح سب شیعہ عقائد کا موجد یہی ہے. اور ہہاں یہ بهی ثابت ہوتا ہے کہ عبداللہ ابن سبا کوئی دیو مالائی افسانہ نہیں بلکہ حقیقت ہے ۔ (طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

شعبان المعظم کی فضیلت و اہمیت اور نوافل و عبادات شب برات


شعبان المعظم کی فضیلت و اہمیت اور نوافل و عبادات شب برات

اسلامی سال کا آٹھواں مہینہ شعبان ہے ۔ اس کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ شعبان تشعب سے ماخوذ ہے اور تشعب کے معنیٰ تفرق کے ہیں۔ چونکہ اس ماہ میں بھی خیر کثیر متفرق ہوتی ہے۔ نیز بندوں کو رزق اس مہینہ میں متفرق اور تقسیم ہوتے ہیں ۔

حدیث شریف میں ہے کہ شعبان کو اس لئے شعبان کہا جاتا ہے کہ اس میں روزہ دار کے لئے خیر کثیر تقسیم ہوتی ہے، یہاں تک کہ وہ جنت میں داخل ہوتا ہے (بحوالہ : ماثبت من السنۃ، ص 141، فضائل الایام والشہور، ص 404، مطبوعہ مکتبہ نوریہ رضویہ، فیصل آباد پنجاب)

شعبان المعظّم میں مندرجہ ذیل مشہور واقعات ہوئے

(1) اس مہینہ کی پانچ تاریخ کو سیدنا حضرت امام حسین رضی اﷲ عنہ کی ولادت مبارک ہوئی ۔

(3) اسی مہینہ کی پندرہویں تاریخ کو شب برأت یعنی لیلۂ مبارک ہے جس میں اُمّت مسلمہ کے بہت افراد کی مغفرت ہوتی ہے ۔

(3) اسی ماہ کی سولہویں تاریخ کو تحویل قبلہ کا حکم ہوا۔ ابتداء اسلام میں کچھ عرصہ بیت المقدس قبلہ رہا اور پھر اﷲ تعالیٰ نے سید عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی مرضی کے مطابق کعبۂ معظمہ کو مسلمانوں کا قبلہ بنادیا۔ اس وقت سے ہمیشہ تک مسلمان کعبۃ اﷲ کی طرف منہ کرکے نماز ادا کرتے تھے ۔ (عجائب المخلوقات ص 47، فضائل الایام والشہور ، ص405، مطبوعہ مکتبہ نوریہ رضویہ فیصل آباد، پنجاب)

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا شعبان میرا مہینہ ہے اور رمضان المبارک اﷲ تعالیٰ کا مہینہ ہے ۔ (لجامع الصغیر حدیث 4889، ص 301)

شب برأت کی فضیلت و اہمیت

ماہ شعبان کی پندرہویں رات کو شب برأت کہا جاتا ہے۔ شب کے معنی ’’رات‘‘ اور برأت کے معنی نجات کے ہیں۔ یعنی اس رات کو ’’نجات کی رات‘‘ کہا جاتا ہے چونکہ اس رات کو مسلمان عبادت و ریاضت میں گزار کر جہنم سے نجات حاصل کرتے ہیں۔ اس لئے اس رات کو شب برأت کہا جاتا ہے ۔

القرآن: ترجمہ : قسم ہے اس روشن کتاب کی بے شک ہم نے اسے برکت والی رات میں اتارا ہے، بے شک ہم ڈر سنانے والے ہیں، اس میں بانٹ دیا جاتا ہے ہر حکمت والا کام (سورۃ الدخان 2/4)

ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ سید عالم نور مجسم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا کیا تم جانتی ہو کہ شعبان کی پندرہویں شب میں کیا ہوتا ہے؟ میں نے عرض کی یارسول اﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم آپ فرمایئے ۔ ارشاد ہوا آئندہ سال میں جتنے بھی پیدا ہونے والے ہوتے ہیں ۔ وہ سب اس شب میں لکھ دیئے جاتے ہیں اور جتنے لوگ آئندہ سال مرنے والے ہوتے ہیں، وہ بھی اس رات میں لکھ دیئے جاتے ہیں اور رات میں لوگوں کے (سال بھر کے) اعمال اٹھا لئے جاتے ہیں اور اس میں لوگوں کا مقررہ رزق اتارا جاتا ہے ۔ (مشکوٰۃ شریف، جلد اول، ص 277،چشتی)

مغرب کے بعد چھ نوافل

مغرب کے فرض و سنت وغیرہ کے بعد چھ رکعت خصوصی نوافل ادا کرنا معمولاتِ اولیائے کرام رحمہم اﷲ تعالیٰ سے ہے۔ مغرب کے فرض و سُنّت وغیرہ ادا کرکے چھ رکعت نفل دو دو رکعت کرکے ادا کیجئے۔ پہلی دو رکعتیں شروع کرنے سے قبل یہ عرض کیجئے: اﷲ عزوجل ان دو رکعتوں کی برکت سے مجھے درازیٔ عمر بالخیر عطا فرما۔ دوسری دو رکعتیں شروع کرنے سے قبل عرض کیجئے۔ اﷲ عزوجل ان دو رکعتوں کی برکت سے بلائوں سے میری حفاظت فرما۔ تیسری دو رکعتیں شروع کرنے سے قبل اس طرح عرض کیجئے۔ اﷲ عزوجل ان دو رکعتوں کی برکت سے مجھے صرف اپنا محتاج رکھ اور غیروں کی محتاجی سے بچا۔ ہر دو رکعت کے بعد اکیس بار قل ہوا اﷲ یا ایک بار سوۂ یاسین پڑھئے بلکہ ہوسکے تو دونوں ہی پڑھ لیجئے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ایک اسلامی بھائی یاسین شریف بلند آواز سے پڑھے اور دوسرے خاموشی سے سنیں، اس میں یہ خیال رکھئے کہ دوسر ااس دوران زبان سے یاسین شریف نہ پڑھے۔ ان شاء اﷲ عزوجل رات شروع ہوتے ہی ثواب کا انبار لگ جائے گا۔ ہر بار یاسین شریف کے بعد دعائے نصف شعبان بھی پڑھئے ۔
ترجمہ : اﷲ عزوجل کے نام سے شروع جو بہت مہربان رحمت والا۔ اے اﷲ عزوجل اے احسان کرنے والے کہ جس پر احسان نہیں کیا جاتا۔ اے بڑی شان و شوکت والے! اے فضل و انعام والے! تیرے سوا کوئی معبود نہیں۔ تو پریشان حالوں کا مددگار، پناہ مانگنے والوں کو پناہ اور خوفزدوں کو امان دینے والا ہے۔ اے اﷲ عزوجل! اگر تو اپنے یہاں ام الکتاب (لوح محفوظ) میں مجھے شقی (بدبخت)، محروم، دھتکارا ہوا اور رزق میں تنگی دیا ہوا لکھ چکا ہو تو اے اﷲ عزوجل! اپنے فضل سے میری بدبختی، محرومی، ذلت اور رزق کی تنگی کو مٹادے اور اپنے پاس ام الکتاب میں مجھے خوش بخت، رزق دیا ہوا اور بھلائیوںکی توثیق دیا ہوا ثبت (تحریر) فرمادے۔ کہ تونے ہی فرمایا اور تیرا (یہ) فرمانا حق ہے کہ ’’اﷲ عزوجل جو چاہے مٹاتا ہے اور ثابت کرتا (لکھتا) ہے اور اصل لکھا ہوا اسی کے پاس ہے‘‘ (کنزالایمان پ ۱۳، الرعد ۳۹،چشتی)
خدایا اﷲ عزوجل! تجلی اعظم کے وسیلے سے جو نصف شعبان المکرم کی رات میں ہے کہ جس میں بانٹ دیا جاتا ہے جو حکمت والا کام اور اٹل کردیا جاتا ہے (یااﷲ!) مصیبتوں اور رنجشوں کو ہم سے دور رفرما کہ جنہیں ہم جانتے اور نہیں بھی جانتے جبکہ تو انہیں سب سے زیادہ جاننے والا ہے۔ بے شک تو سب سے بڑھ کر عزیز اور عزت والا ہے۔ اﷲ تعالیٰ ہمارے سردار محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم پر اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے آل و اصحاب رضی اﷲ تعالیٰ عنہم پر درود و سلام بھیجے۔ سب خوبیاں سب جہانوں کے پالنے والے اﷲ عزوجل کے لئے ہے ۔

قبرستان جانا سنت ہے

ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک رات میں نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو اپنے پاس نہ پایا تو میں آپ کی تلاش میں نکلی ۔ میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم جنت البقیع میں تشریف فرما ہیں۔ آپ نے فرمایا کیا تمہیں یہ خوف ہے کہ اﷲ تعالیٰ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم تمہارے ساتھ زیادتی کریں گے ۔ میں نے عرض کی یارسول اﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم مجھے یہ خیال ہوا کہ شاید آپ کسی دوسری اہلیہ کے پاس تشریف لے گئے ہیں ۔ آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا۔ بے شک اﷲ تعالیٰ شعبان کی پندرہویں شب آسمان دنیا پر (اپنی شان کے مطابق) جلوہ گر ہوتا ہے اور قبیلہ بنو کلب کی بکریوں کے بالوں سے زیادہ لوگوں کی مغفرت فرماتا ہے (ابن ماجہ، جلد اول، حدیث 1447، ص 398، مطبوعہ فرید بک لاہور،چشتی)
اس حدیث پاک سے شعبان کی پندرہویں شب کی فضیلت بھی ثابت ہوئی اور اس شب میں قبرستان جانا سُنّت ثابت ہوا۔ اسی لئے اہل اسلام اور خوش عقیدہ مسلمان اس رات کو عبادت اور دن کو روزوں میں گزارتے ہیں اور خاص طور پر قبرستان میں اپنے عزیزو رشتہ دار کی قبروں پر جاتے ہیں اور ایصالِ ثواب کا اہتمام کرتے ہیں ۔

قبرستان کے آداب

قبر پر بیٹھنا، سونا، چلنا، پاخانہ اور پیشاب کرنا حرام ہے۔ قبرستان میں جو نیا راستہ نکالا گیا، اس سے گزرنا ناجائز ہے۔ خواہ نیا ہونا اسے معلوم ہو یا اس کا گمان ہو (عالمگیری در مختار،چشتی)
اپنے کسی رشتہ دار کی قبر تک جانا چاہتا ہے مگر قبروں پر گزرنا پڑے تو وہاں تک جانا منع ہے۔ دور ہی سے فاتحہ پڑھ لے۔ قبرستان میں جوتیاں پہن کر نہ جائے (اگر راستے میں کنکر وغیرہ ہوں تو جوتیاں پہن سکتا ہے) کسی قبر پر پائوں نہ رکھے اور نہ ہی قبر پر بیٹھ کر تلاوت کرے ۔

زیارت قبور کا طریقہ

(1) زیارت قبور کا طریقہ یہ ہے کہ پائینتی کی جانب سے جاکر میت کے منہ کے سامنے کھڑا ہو۔ سرہانے سے نہ آئے کہ میت کے لئے باعث تکلیف ہے اور کہے اَلْسَّلاَمُ عَلَیْکُمْ یَااَہْلَ اْلقُبُوْرِ یَغْفِرُ اﷲُ لَنَا وَلَکُمْ اَنْتُمْ سَلَفُنَا وَنَحْنُ بِاْلاََثر ۔

(3) قبرستان میں جائے تو الحمد شریف اور الم سے مفلحون تک اور آیۃ الکرسی اور آمن الرسول آخر تک اور سورۂ یسٰین، سورۂ ملک اور سورۂ تکاثر ایک مرتبہ اور سورۂ اخلاص بارہ مرتبہ، گیارہ سات یا تین مرتبہ پڑھے۔ ان سب کا ثواب مرحومین کو ایصال کرے۔ حدیث پاک میں ہے جو گیارہ مرتبہ سورۂ اخلاص پڑھ کر اس کا ثواب مرنے والوں کو پہنچائے تو مرنے والوں کی گنتی کے برابر ثواب ملے گا ۔ (در مختار، ردالمحتار)

(3) نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ اور ہر قسم کی عبادت اور عمل نیک فرض و نفل کا ثواب مرحومین کو پہنچا سکتا ہے۔ ان سب کو پہنچے گا اور پڑھنے والے کے ثواب میں کوئی کمی نہیں ہوگی (ردالمحتار)

آتش بازی سے بچیں

کچھ لوگ ہمارے معاشرے میں ایسے بھی ہیں جو شعبان کے مہینے میں خصوصا شب برأت میں خوب آتش بازی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ شعبان کا بابرکت مہینہ شروع ہوتے ہی گلی کوچوں میں پٹاخوں کی آوازیں گونجنا شروع ہوجاتی ہیں۔ لوگوں کی جہالت و نادانی کا یہ عالم ہے کہ وہ آتش بازی کو شب برأت کا حصہ تصور کرتے ہیں۔ یاد رکھئے! آتش بازی حرام ہے اور ان مبارک ایام میں تو بہت سخت گناہ ہے ۔
آتش بازی کرنے والے ذرا سوچیں کہ ہمارے اس کام سے مال کا ضیاع ، وقت کا ضیاع اور ضعیف اور مریضوں کو سخت تکلیف کا سامنا ہوتا ہے ، شب بیداری کرنے والے مسلمانوں کی عبادت میں خلل واقع ہوتا ہے ۔ اﷲ تعالیٰ ایسے لوگوں کو نیک توفیق عطاء فرمائے ۔ آمین

شب بیداری کا اہتمام

شب برأت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے خود بھی شب بیداری کی اور دوسروں کو بھی شب بیداری کی تلقین فرمائی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا فرمان عالی شان اوپر مذکور ہوا کہ ’’جب شعبان کی پندرہویں رات ہو تو شب بیداری کرو اور دن کو روزہ رکھو‘‘ اس فرمان جلیل کی تعمیل میں اکابر علماء اور مسلمانوں کا ہمیشہ سے یہ معمول رہا ہے کہ اس رات میں شب بیداری کا اہتمام کرتے چلے آئے ہیں ۔

گیارہویں صدی کے مجدد شیخ محقق حضرت شاہ عبدالحق محدث دہلوی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں ۔ تابعین میں سے جلیل القدر حضرات مثلا حضرت خالد بن معدان، حضرت مکحول، حضرت لقمان بن عامر اور حضرت اسحق بن راہویہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہم مسجد میں جمع ہوکر شعبان کی پندرہویں شب میں شب بیداری کرتے تھے اور رات بھر مسجد میں عبادات میں مصروف رہتے تھے (ماثبت من السنۃ، ص 202، لطائف المعارف)

شب برأت کے نوافل

اس رات کو سو رکعت نفل پڑھے۔ ہر رکعت میں سورۂ فاتحہ کے بعد دس مرتبہ سورۂ اخلاص پڑھے۔ اس نماز کو صلوٰۃ الخیر کہتے ہیں۔ جو شخص یہ نماز پڑھے گا تو اﷲ تعالیٰ اس کی طرف ستر مرتبہ نگاہ رحمت فرمائے گا اور ہر نگاہ میں اس کی ستر حاجتیں پوری فرمائے گا۔ ادنیٰ حاجت اس کی بخشش ہے (غنیۃ الطالبین، جلد اول، ص 192، فضائل الایام، والشہور ص 413، مطبوعہ مکتبہ نوریہ رضویہ فیصل آباد)

نبی پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا کہ جو میرا نیاز مند اُمّتی شب برأت میں دس رکعت نفل اس طرح پڑھے کہ ہر رکعت میں سورۂ فاتحہ کے بعد سورۂ اخلاص گیارہ مرتبہ پڑھے تو اس کے گناہ معاف ہوں گے اور اس کی عمر میں برکت ہوگی ۔ (نزہۃ المجالس، جلد اول، ص 192)۔(طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...