Sunday, 30 September 2018

دیوبندیوں کے شیخ المشائخ خواجہ محمد فضل قریشی کہتے ہیں میں کالا کُتّا ہوں

دیوبندیوں کے شیخ المشائخ خواجہ محمد فضل قریشی کہتے ہیں میں کالا کُتّا ہوں

آئینہ جو دیکھایا تو بُرا مان گئے

دیوبندیوں کے شیخ المشائخ خواجہ محمد فضل قریشی کہتے ہیں میں کالا کُتّا اِس دیس کو کیسے ناپاک کروں ۔ (اکابر کا مقام تواضع صفحہ نمبر 192)

سگ مدینہ پر اعتراض کرنے والو سوچو ؟

مکتبہ فکر دیوبند کے لوگ بطور عاجزی سگِ مدینہ کہنے پر اعتراض کرتے ہیں اور بریلوی کتے کتے اور بریلوی کتا مذھب کے جملے کستے اور پوسٹیں بناتے ہیں کیا خیال ہے ان لوگوں کا اب یہ کہنا درست ہوگا کہ دیوبندیوں کے شیخ المشائخ کالے کتے ہیں اور دیوبندی کالے کتے اور دیوبندی مذھب کالے کتوں کا مذھب ہے ؟

یقیننا جواب ہوگا کہ یہ عاجزی کے طور پر کہا گیا ہے جیسا کہ کتاب میں بھی لکھا ہے جب آپ کے الفاظ عاجزی کے طور پر ہیں تو پھر اہلسنت پر گھٹیا جملے بازی پوسٹر بازی کیوں جناب ؟ جواب کا منتظر : ڈاکٹر فیض احمد چشتی ۔

حکیم الامت دیوبند فرماتے ہیں میں کُتوں اور سُوروں سے بھی بَد تَرہو ں

حکیم الامت دیوبند فرماتے ہیں میں کُتوں اور سُوروں سے بھی بَد تَرہو ں

آئینہ جو دیکھایا تو بُرا مان گئے

حکیم الامت دیوبند فرماتے ہیں : میں تو اپنے کو کُتوں اور سُوروں سے بھی بَد تَر سمجھتا ہو ں ، اگر کسی کو یقین نہ ہو تو اِس پر قسم اُتھا سکتا ہوں۔ (تتمہ اشرف السّوانح جلد 4 صفحہ 58 )

حکیم الامت دیوبند فرماتے ہیں : میں تو اپنے کو کُتوں اور سُوروں سے بھی بَد تَر سمجھتا ہو ں اگر کسی کو یقین نہ ہو تو حلف اٹھا سکتا ہوں ۔ (اکابر کا مقام تواضع صفحہ نمبر 201)

سگ مدینہ پر اعتراض کرنے والو سوچو ؟

مکتبہ فکر دیوبند کے لوگ بطور عاجزی سگِ مدینہ کہنے پر اعتراض کرتے ہیں اور بریلوی کتے کتے اور بریلوی کتا مذھب کے جملے کستے اور پوسٹیں بناتے ہیں کیا خیال ہے ان لوگوں کا اب یہ کہنا درست ہوگا تھانوی صاحب کتوں اور سوروں سے بد تر ہیں اور دیوبندی کتوں اور سوروں کا مذھب ہے اور دیوبندی کتے اور سور ہیں ؟

یقیننا جواب ہوگا کہ یہ عاجزی کے طور پر کہا گیا ہے جیسا کہ کتاب میں بھی لکھا ہے جب آپ کے الفاظ عاجزی کے طور پر ہیں تو پھر اہلسنت پر گھٹیا جملے بازی پوسٹر بازی کیوں جناب ؟ جواب کا منتظر : ڈاکٹر فیض احمد چشتی ۔

امام احمد رضا محدث بریلوی رحمۃ اللہ علیہ اور ذکر اہلبیت رضی اللہ عنہم


امام احمد رضا محدث بریلوی رحمۃ اللہ علیہ اور ذکر اہلبیت رضی اللہ عنہم

اہل بیت عظام و سادات کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کی محبت، ان سے نسبت و وابستگی بلا شبہ ایک گنج گراں مایہ ہے،بیش بہا ذخیرہ ہے، صحابہ کرام نے اس نسبت کا احترام کیا، عظمت دی، سروں پر رکھا، دلوںمیں بٹھایا، مصنفین و مولفین نے جن کو موضوع سخن و عنوان باب منتخب کیا، مقررین و خطبا نے ان کی عظمتوں کو سراہا، ادبا و شعرا نے جن کی ارادت کو باعث فخر اور تو شۂ آخرت مانا، اپنے اپنے انداز میں انہیں خراج تحسین و تبریک پیش کیا، بندگان خدا نے بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے لیے ا نہیں وسیلہ بنایا، دعائیں کیں، التجائیں کیں، دینی محافل میں ان کے تذکرے ہوئے، ان کے محاسن و کمالات بیان کیے گئے، قرآن و حدیث میں ان کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا، کیا قرآن مجید نے اعلان نہیں کیا، اللہ عزوجل نے ارشاد نہیں فرمایا؟سنو!

’’تم فرمائو میں اس پر تم سے کچھ اجرت نہیں مانگتا، مگر قرابت کی محبت‘‘ (۱)

اور حضور اقدس نور مجسم سر ور کائنات صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم بھی تو ارشاد فرماتے ہیں:

’’خدا کی قسم! میری قرابت دنیا و آخرت میں پیوستہ ہے‘‘(۲)

ایک دوسری روایت میں حضور رحمت عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’کیا حال ہے ان لوگوں کا کہ زعم کرتے ہیں کہ میری قرابت نفع نہ دے گی، ہرعلاقہ و رشتہ قیامت میں قطع ہوجائے گا ،مگر میرا رشتہ و علاقہ کہ دنیا و آخرت میںجڑا ہوا ہے‘‘(۳)

ہر دور میں ان کی محبت و عقیدت کو دلوں میں بٹھانے کی جد و جہد ہوئی، نسبت رسول مقبول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے حصول اور اس میں استحکام و پائیداری کے لیے عابد بھی کوشاں نظر آئے، زاہد بھی، غلام بھی، آقا بھی، بادشاہ بھی، رعایا بھی، استادبھی، شاگرد بھی، پیر بھی، مرید بھی۔ در اصل یہی نسبت و قرابت دخول جناں کا سبب ہے، ذریعہ ہے، وسیلہ ہے، رسول اعظم علیہ التحیۃ و الثنا کی بارگاہ میں برگزیدگی و تقرب کا موثر اور قابل اعتماد واسطہ ہے، خوب صورت ہتھیار ہے، جبھی تو کہنا پڑا، ماننا پڑا، اس حقیقت کا اعتراف کرنا پڑا ؎

لے کے جائے گی جناں میں پاک نسبت آپ کی
کہہ رہی ہے خود غلاموں سے یہ جنت آپ کی

شاعر نے یہ بات دلیل کے بغیر نہ کہی، رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے خود ارشاد فرمایا اور اہل بیت اطہار کی نسبت والفت کو واشگاف کیا :’’ہم اہل بیت کی محبت لازم پکڑو کہ جو اللہ تعالیٰ سے ہماری دوستی کے ساتھ ملے گا وہ ہماری شفاعت سے جنت میں جائے گا‘‘(۴)

چودہویں صدی کے مجدد اعظم، امام اہل سنت، اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قادری برکاتی علیہ الرحمۃ و الرضوان واقعی سچے عاشق رسول تھے، مومن کامل تھے، محبت رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کومعمولی ٹھیس پہنچے،جان ایمان کو ذرہ برابر ضرب لگے، وہ ایمان و ایقان کے لیے زہر قاتل ہے، ضرر رساں ہے۔

امام احمد رضا قدس سرہ کے لیے رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی شان میں ادنیٰ گستاخی ناقابل برداشت تھی، جس کا علمی مظاہرہ آپ کی تصنیف کردہ کتب و رسائل و فتاویٰ و خطوط و مکتوبات میں ملاحظہ کیا جاسکتا ہے ۔

امام احمد رضا قدس سرہ نے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی مبارک نسبت و ارادت کو اپنی زندگی کی سب سے بڑی معراج جانا، حیات سرمدی کا عظیم سرمایہ تسلیم کیا، اعلان کیا، پھیلایا، لوگوں کو بتایا، سمجھایا، جبھی تو سب پکار اٹھے ؎

ڈال دی قلب میں عظمت مصطفی
سیدی اعلیٰ حضرت پہ لاکھوں سلام

امام احمد رضا قدس سرہ نے اپنے ملفوظ وصایا میں ارشاد فرمایا:جس سے اللہ و رسول کی شان میں ادنیٰ توہین پائو پھر وہ تمہارا کیسا ہی پیار کیوں نہ ہو فوراً اس سے جدا ہو جائو، جس کو بارگاہ رسالت میں ذرا بھی گستاخ دیکھو پھر وہ تمہارا کیسا ہی بزرگ معظم کیوں نہ ہو اپنے اندر سے اسے دودھ سے مکھی کی طرح نکال پھینک دو‘‘(۵)

امام احمد رضا قادری برکاتی کو اہل بیت و سادات سے بڑی محبت تھی، عقیدت تھی، لگائو تھا، ان کی جوتیوں کو اپنے سر کا تاج سمجھتے تھے، ان کی دل جوئی کو باعث فخر و ایمان کا لازمہ گردانتے، ان کی محبت کو شفاعت کا ذریعہ تسلیم کرتے تھے، کیا انہوں نے نہیں فرمایا:’’یہ فقیر ذلیل بحمدہ تعالیٰ حضرات سادات کرام کا ادنی غلام و خاک پا ہے، ان کی محبت ذریعہ نجات وشفاعت جانتا ہے ،اپنی کتابوں میں چھاپ چکا ہے کہ سید اگر بدمذہب بھی ہو جائے اس کی تعظیم نہیں جاتی ،جب تک بدمذہبی حد کفر تک نہ پہونچے ۔ہاں بعد کفر سیادت نہیں رہتی ،پھر اس کی تعظیم حرام ہوجاتی ہے اور یہ بھی فقیر بارہا فتویٰ دے چکا ہے کہ کسی کو سید سمجھنے اور اس کی تعظیم کرنے کے لیے ہمیں اپنے ذاتی علم سے اسے سید جاننا ضروری نہیں ،جو لوگ سید کہلائے جاتے ہیں ہم ان کی تعظیم کریں گے ۔ہمیں تحقیقات کی حاجت نہیں ،نہ سیادت کی سند مانگنے کاہم کو حکم دیا گیا ہے اور خواہی نہ خواہی سند دکھانے پر مجبور کرنا اور نہ دکھائیں تو برا کہنا ،مطعون کرنا ہرگز جائز نہیں ‘‘(۶)

اپنے فتاویٰ میں متعدد مقامات پر سادات کرام کی عزت و تکریم کی تلقین فرمائی، حکم دیا اور ان کی ناقدری کو حرام قرار دیا، اپنے ایک فتویٰ میں یوں رقم طراز ہیں: ’’سادات کرام کی تعظیم فرض ہے‘‘(۷)

ایک دوسری جگہ ارشاد فرماتے ہیں:’’سنی سید کی بے توقیری سخت حرام ہے اور اس میں شک نہیں کہ جو سید کی تحقیر بوجہ سیادت کرے وہ مطلقاً کافر ہے‘‘(۸)

امام احمد رضا قدس سرہ شاعری میں امام، اقلیم سخن کے تاج دار نظر آتے ہیں، تحدیث نعمت کے بطور جبھی تو ارشاد فرمایا:

ملک سخن کی شاہی تم کو رضا مسلم
جس سمت آگئے ہو سکے بٹھا دئے ہیں(۹)

نعتیہ کلام کے ساتھ ساتھ حمد، منقبت، رباعی وغیرہا اصناف سخن میں خامہ فرسائی کی اور خوب لکھا، اپنے قصیدۂ سلامیہ کے اندر سیرت رسول، سراپائے رسول کا اس انداز سے نقشہ کھینچا کہ دل باغ باغ ہو جاتا ہے، مولانا کوثرؔ نیازی نے جس کے بارے میں کہا:’’میں بلا خوف تردید کہتا ہوں کہ تمام زبانوںاور زمانوں کا پورا نعتیہ کلام ایک طرف اور شاہ احمد رضا کا سلام ’’مصطفی جان رحمت پہ لاکھوں سلام‘‘ ایک طرف، دونوںکو ایک ترازو میں رکھا جائے تو احمد رضا کے سلام کا پلڑا پھر بھی جھکا رہے گا‘‘(۱۰)

حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے اہل بیت اطہار و سادات کرام کی شان والا صفات میں بڑے اچھے انداز و اسلوب میں گلہائے عقیدت پیش کیا، انوکھے لب و لہجے میں ان کا ذکر جمیل کیا، ارشاد فرماتے ہیں:

تیری نسل پاک میں ہے بچہ بچہ نور کا
تو ہے عین نور تیرا سب گھرانہ نور کا (۱۱)

امام احمد رضا قدس سرہ کو سادات کرام سے بے پناہ محبت و عقیدت تھی، آپ کا دل حب اہل بیت سے سرشار رہتا، اپنے اشعار میںبے شمار جگہوں پر ان نفوس قدسیہ کا تذکرہ فرمایا۔

نبی محترم علیہ الصلوٰۃ و التسلیم کی لخت جگر،نور نظر خاتون جنت حضرت فاطمہ زہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا جن کی عظمت و بزرگی کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا، جن کے مقام و مرتبہ کو ناپا نہیں جا سکتا، ان کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے خود ارشاد فرمایا:’’ان کا نام فاطمہ اس لیے ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو اور ان کی تمام ذریت کو نار پر حرام فرما دیا‘‘(۱۲)

دوسری حدیث میں ارشاد فرمایا:’’اللہ عزوجل نے اس کا نام فاطمہ اس لیے رکھا کہ اسے اور اس سے محبت کرنے والوں کو آتش دوزخ سے آزاد فرما دیا‘‘(۱۳)

امام احمد رضا نے آپ کی شان اقدس میں یوں نذرانہ عقیدت پیش کیا:

جس کا آنچل نہ دیکھا مہ و مہر نے
اس ردائے نزاہت پہ لاکھوں سلام (۱۴)

سیدہ ، زاہرہ ، طیبہ ، طاہرہ
جان احمد کی راحت پہ لاکھوں سلام (۱۵)

اسی طرح اور کئی اشعار آپ کے مناقب میں پیش فرمائے، طوالت کے خوف سے بطور نمونہ دو پر اکتفا کیا گیا ، مولائے کائنات حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شان و عظمت کیا کہنا؟ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’اے علی! سب سے پہلے وہ چار کہ جنت میں داخل ہوں گے میں ہوں اور تم اور حسن و حسین اور ہماری ذریت ہماری پس پشت ہوگی‘‘ (۱۶)

حضرت علی مرتضیٰ کو حسنین کریمین کے والد ہونے، جگر گوشۂ بتول کا خاوند ہونے اور حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا داماد ہونے کا شرف حاصل ہے، شجاعت و بہادری میں آپ کی مثال پیش کی جاتی ہے، آپ کے بارے میں حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

’’حضرت علی کے مقابل کوئی جوان نہیں اور ان کی تلوار ذوالفقار کے سامنے کوئی تلوار نہیں‘‘(۱۷)

مولائے کائنات کی شان عالی میں امام اہل سنت یوں لب کشائی فرماتے ہیں ؎

مرتضیٰ شیر حق اشجع الاشجعیں
ساقی شیر وشربت پہ لاکھوں سلام (۱۸)

اصل نسل صفا ، وجہ وصل خدا
باب فضل ولایت پہ لاکھوں سلام (۱۹)

امام احمد رضا نہایت عجز و انکسار کے ساتھ اہل بیت کی شان میں مدح سرائی کرتے ہیں ؎

پارہ ہائے صحف غنچہ ہائے قدس
اہل بیت نبوت پہ لاکھوں سلام(۲۰)

آب تطہیر سے جس میں پورے جمے
اس ریاض نجابت پہ لاکھوں سلام(۲۱)

جنتی جوانوں کے سردار حضرات حسنین کریمین رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے فضائل و مناقب میں بے شمار اقوال رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم موجود ہیں، ارشاد رسالت ہے:’’حسن و حسین جوانان جنت کے سردار ہیں اور ان کے والد ان سے افضل ہیں‘‘(۲۲)

مزید فرماتے ہیں ’’حسن و حسین دونوں میرے دنیاوی پھول ہیں‘‘(۲۳)

امام احمد رضا قدس سرہ نے احادیث کی ترجمانی کرتے ہوئے کس خوب صورت انداز میں خراج عقیدت پیش کیا اور میدان حشر میں ان کا صدقہ مانگا، فرماتے ہیں ؎

ان دو کا صدقہ جن کو کہا میرے پھول ہیں
کیجئے رضاؔ کو حشر میں خنداں مثال گل(۲۴)

کیا بات رضا اس چمنستان کرم کی
زہراہے کلی جس میں حسین اورحسن پھول (۲۵)

ان کے علاوہ الگ الگ کئی مقام پر شہید کربلا امام حسین اور حسن مجتبیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی جناب میں نذرانۂ عقیدت نچھاور کیا اور ان پر سلام کا گلدستہ پیش کیا۔

فخر السادات حضور غوث اعظم سید شاہ عبدالقادر جیلانی علیہ الرحمہ کی بارگاہ میں آپ نے کئی منقبتیں تحریر فرمائیں، کئی قصائد لکھے، ہاشمی گھرانے کے ا س عظیم چشم و چراغ سے التجائیں کیں، استعانت و استمداد کی، ارقام فرماتے ہیں ؎

واہ کیا مرتبہ اے غوث ہے بالا تیرا
اونچے اونچوں کے سروں سے قدم اعلیٰ تیرا(۲۶)

اس نشانی کے جو سگ ہیں نہیں مارے جاتے
حشر تک میرے گلے میں رہے پٹہ تیرا(۲۷)

نسبت قادری پر آپ کو بے حد ناز تھا، جبھی تو ارشاد فرماتے ہیں:

قادری کر، قادری رکھ، قادریوں میں اٹھا
قدر عبدالقادر قدرت نما کے واسطے(۲۸)

قصیدہ سلامیہ میں بھی حضور غوث کا ذکر جمیل کیا اور سلام محبت پیش فرمایا۔ مارہرہ مقدسہ کے بزرگ سادات، اپنے آقائوں کی بارگاہ میں، پیر و مرشد کی جناب میں قصیدہ سلامیہ میں، شجرۂ عالیہ قادریہ برکاتیہ میں خراج تحسین و محبت پیش کیا، فرماتے ہیں اور بارگاہ الٰہی میں عرض گزار ہیں:

دوجہاں میں خادم آل رسول اللہ کر
حضرت آل رسول مقتدیٰ کے واسطے

کیسے آقائوں کا بندہ ہوں رضاؔ
بول بالے میرے سرکاروں کے

کلام رضاؔ میں ذکر سادات،اور احترام سادات کے جابجا نمونے ملتے ہیں، چند کا یہاں تذکرہ کیا گیا،قارئین بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں ۔

مأ خذ ومراجع

(۱)القرآن الکریم ، شوریٰ ۴۲، آیت ۲۳

(۲)امام احمد بن حنبل ،مسند احمد بن حنبل، ص۱۸؍۳

(۳) البدایۃ و النہایۃ لابن کثیر، ص۸۱؍۷

(۴) امام احمد رضا قادری ،جامع الاحادیث، ص۵۹۴؍۴

(۵)مولانا ظفرالدین رضوی ،حیات اعلیٰ حضرت، ممبئی، ص۲۸۴؍۳

(۶)امام احمد رضا قادری،فتاویٰ رضویہ، ممبئی، ص۱۲۵؍۱۲

(۷) امام احمد رضا قادری ،فتاویٰ رضویہ، ممبئی، ص۱۶۶؍۹

(۸)امام احمد رضا قادری ،فتاویٰ رضویہ، ممبئی، ۱۳۱؍۹

(۹)امام احمد رضا قادری ،حدائق بخشش، دہلی، ص۴۴؍۱

(۱۰) مولانا کوثر نیازی ،امام احمد رضا ایک ہمہ جہت شخصیت، ص۲۳

(۱۱)امام احمد رضا قادری ،حدائق بخشش، دہلی، ص۱۱۴؍۲

(۱۲) امام احمد رضا قادری ،جامع الاحادیث، ص۵۹۵؍۴

(۱۳)امااحمد رضا قادری ،جامع الاحادیث ص۵۹۷؍۴

(۱۴)امام احمد رضا قادری ،حدائق بخشش، دہلی، ص۱۴۵؍۲

(۱۵)امام احمد رضا قادری ، حدائق بخشش، دہلی، ص۱۴۵؍۲

(۱۶)امام احمد رضا قادری ، جامع الاحادیث، ص۵۹۲؍۴

(۱۷)امام احمد رضا قادری ،جامع الاحادیث، ص ۵۸۳؍۴

(۱۸)امام احمد رضا قادری ،حدائق بخشش دہلی، ص۱۴۷؍۲

(۱۹)امام احمد رضا قادری ،حدائق بخشش ص۱۴۷؍۲

(۲۰)امام احمد رضا قادری حدائق بخشش ص ۱۴۵؍۲

(۲۱)امام احمد رضا قادری ،حدائق بخشش ص۱۴۵؍۲

(۲۲)امام ابو عیسیٰ، محمد بن عیسیٰ ،ترمذی شریف ص۲۱۸؍۲

(۲۳)امام محمد بن اسماعیل ،بخاری شریف، ص۵۳۰؍۱

(۲۴)امام احمد رضا قادری ،حدائق بخشش، دہلی، ص۳۳؍۱

(۲۵)امام احمد رضا قادری ،حدائق بخشش، ص۳۴؍۱

امام احمد رضا قادری ،حدائق بخشش ص ۷؍۱(۲۶)

امام احمد رضا قادری ، حدائق بخشش ص۸؍۱ (۲۷)

امام احمد رضا قادری حدائق بخشش ص۶۶؍۱(۲۸)

امام احمد رضا قادری ،حدائق بخشش ص۶۷؍۱(۲۹)

امام احمد رضا قادری ،حدائق بخشش ص۱۶۹؍۲(۳۰)

ترتیب و پیشکش : درِ اہلبیت رضی اللہ عنہم کا ادنیٰ گدا ڈاکٹر فیض احمد چشتی ۔

Friday, 28 September 2018

يزيد شرابی تھا اور شرابی کا شرعی حکم

يزيد شرابی تھا اور شرابی کا شرعی حکم

اسلام میں شراب کا حرام ہونا ایسی بات ہے کہ اس پر تمام مکاتب فکر کا اس پر اجماع ہے۔ شراب کے حرام ہونے کو قرآن اور احادیث میں جگہ جگہ پر بیان کیا گیا ہے: يَسْـئَلُونَكَ عَنِ الْخَمْرِ وَ الْمَيْسِرِ قُلْ فِيهِمَآ إِثْمٌ كَبِيرٌ وَ مَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَ إِثْمهمَآ أَكْبَرُ مِن نَّفْعِهِمَا۔
شراب اور جوئے کے بارے میں آپ سے پوچھتے ہیں تو آپ کہہ دو کہ: ان دونوں میں لوگوں کے لیے بہت بڑا گناہ اور فائدے بھی ہیں لیکن ان کا گناہ ان کے فائدے سے زیادہ اور بڑا ہے۔(سورہ بقرة آيه 219)

يَـأَيُّهَا الَّذِينَ ءَامَنُواْ إِنَّمَا الْخَمْرُ وَ الْمَيْسِرُ وَ الاْنصَابُ وَ الاْزْلَـمُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطَـنِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ۔
اے ایمان والو، شراب اور جوا بازی اور بت اور پانسے(قرعے کے تیر) سب شیطانی عمل ہیں، پس تم ان سے دور رہو تا کہ تم کامیاب ہو جاؤ۔(سورہ مائدہ آيه 90)

إِنَّمَا يُرِيدُ الشَّيْطَـنُ أَن يُوقِعَ بَيْنَكُمُ الْعَدَوَةَ وَ الْبَغْضَآءَ فِى الْخَمْرِ وَ الْمَيْسِرِ وَ يَصُدَّكُمْ عَن ذِكْرِ اللَّهِ وَ عَنِ الصَّلَوةِ فَهَلْ أَنتُم مُّنتَهُونَ۔
بے شک شیطان شراب اور جوئے کے ذریعے سے تمہارے درمیان دشمنی ایجاد کرنا چاہتا ہے اور تم کو ذکر خدا اور نماز سے منع کرنا چاہتا ہے پس کیا تم اس کے روکنے سے منع ہو جاؤ گے ؟(سورہ مائدہ آيه 91)

ان آیات کے علاوہ علماء اسلام نے بھی شراب کے نجس و حرام ہونے کے بارے میں فتوئے دئیے ہیں اور شراب پینے کے عادی بندوں کو شراب کے گناہ اور اس کے عذاب کے بارے میں بتایا ہے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وصحبہ وسلّم نے شراب کے شدید حرام ہونے کے بارے میں آگاہ کرتے ہوئے فرمایا:لعن اللّه الخمر و شاربها و ساقيها و بائعها و مبتاعها و عاصرها و معتصرها و حاملها و المحمولة إليه و آكل ثمنها۔
اللہ عز و جل نے شراب کو اور اس کے پینے والے اور اس کے پلانے والے اور بیچنے والے اور اس کے خریدنے والے اور اس کے نچوڑنے والے اور اس کے تیار کرنے والے اور اس کے اٹھانے والے اور اس کے اٹھوانے والے اور اس کی کمائی کھانے والے پر لعنت کی ہے۔(سنن أبی داود، ج 3، ص324، حدیث 3674 )( المستدرک على الصحيحين، ج 2، ص 37، حدیث 2235)

اسلامی معاشرے میں بھی حقیقی و واقعی مسلمان شراب پینے والوں سے نفرت کرتے ہیں اور انکو بے دین اور گناہ گار انسان سمجھتے ہیں۔

یزید شرابی تھا، فحاشی و عریانی کا دلدادہ تھا اور نشے میں رہنے کے باعث تارک الصلوٰۃ بھی تھا۔ اُس کی انہی خصوصیات کی بناء پر اہل مدینہ نے اس کی بیعت توڑ دی تھی، وہابیوں کے معتمد مصنف علامہ ابن کثیر البدایہ والنھایہ میں لکھتے : ذکروا عن يزيد ما کان يقع منه من القبائح في شربة الخمر وما يتبع ذلک من الفواحش التي من اکبرها ترک الصلوة عن وقتها بسبب السکر فاجتمعوا علي خلعه فخلعوه. عند المنبر النبوي ۔
ترجمہ:یزید کے کردار میں جو برائیاں تھیں ان کے بارے میں بیان کیا جاتا ہے کہ وہ شراب پیتا تھا، فواحش کی اتباع کرتا تھا اور نشے میں غرق ہونے کی وجہ سے وقت پر نماز نہ پڑھتا تھا۔ اسی وجہ سے اہل مدینہ نے اس کی بیعت سے انکار پر اتفاق کر لیا اور منبر نبوی کے قریب اس کی بیعت توڑ دی ۔ (البدايہ و النہايہ، 6 : 234،چشتی)

حضرت عبداﷲ بن حنظلہ رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی قسم! ہم یزید کے خلاف اس وقت اٹھ کھڑے ہوئے جبکہ ہمیں یہ خوف لاحق ہوگیا کہ اس کی بدکاریوں کی وجہ سے ہم پر آسمان سے پتھر نہ برس پڑیں کیونکہ یہ شخص (یزید) مائوں‘ بیٹیوں اور بہنوں کے ساتھ نکاح جائز قرار دیتا اور شراب پیتا اور نمازیں چھوڑ دیتا تھا (تاریخ الخلفاء ص 207‘ الصواعق المحرقہ ص 134‘ طبقات ابن سعد جلد 5ص 66)

حضرت منذر بن زبیر رضی اﷲ عنہ نے علی الاعلان لوگوں کے سامنے کہا ’’بے شک یزید نے مجھے ایک لاکھ درہم انعام دیا مگر اس کا یہ سلوک مجھے اس امر سے باز نہیں رکھ سکتا کہ میں تمہیں اس کا حال نہ سنائوں۔ خدا کی قسم وہ شراب پیتا ہے اور اسے اس قدر نشہ ہوجاتا ہے کہ وہ نماز ترک کردیتا ہے (ابن اثیر جلد چہارم ص 42‘ وفاء الوفاء جلد اول ص 189)

حضرت عبداﷲ بن زبیر رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں خدا کی قسم! بلاشبہ انہوں نے ایسے شخص کو قتل کیا جو قائم اللیل اور صائم النہار تھے جو ان سے ان امور کے زیادہ حقدار تھے اور اپنے دین و فضیلت و بزرگی میں ان سے بہتر تھے۔ خدا کی قسم! وہ قرآن مجید کے بدلے گمراہی پھیلانے والے نہ تھے۔ اﷲ تعالیٰ کے خوف سے ان کی مجلسوں میں ذکر الٰہی کے بجائے شکاری کتوں کا ذکر ہوتا تھا۔ یہ باتیں انہوں نے یزید کے متعلق کہی تھیں۔ پس عنقریب یہ لوگ جہنم کی وادی غیّ میں جائیں گے (ابن اثیر جلد چہارم ص 40،چشتی)

مؤرخین نے لکھا ہے کہ یزید نوجوانی کے زمانے سے لے کر مرتے دم تک بہت شراب پیتا تھا اور بعض نے تو لکھا ہے یزید شراب پینے میں مبالغہ آرائی ( یعنی بہت ہی زیادہ شراب پینا ) سے کام لیتا تھا۔

یزید کا نوجوانی سے شراب پینا

علامہ ابن كثير یزید کے حامیوں کے ممدوح اور دیگر ائمہ نے اس روایت کو ذکر کیا ہے کہ:كان يزيد بن معاوية في حداثته صاحب شرب.یزید نوجوانی سے ہی شراب کا دوست اور عاشق مشہور تھا۔(البداية و النهاية، ج 8، ص228 )(تاريخ مدينة دمشق، ابن عساكر، ج 65، ص 403)

یزید کا مدینہ منورہ میں سب کے سامنے سر عام شراب پینا

عمر بن شيبة قال: لمّا حجّ الناس في خلافة معاوية جلس يزيد بالمدينة على شراب، فاستأذن عليه ابن عبّاس و الحسين بن عليّ، فأمر بشرابه فرفع.
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی خلافت کے دور میں اور سفر حج میں اور شہر مدینہ رسول ﷺ کے حرم میں اور گھر کے نزدیک بھی اس نے اسلامی احکام کا مذاق اڑانا نہ چھوڑا اور سب لوگوں کے سامنے اس نے شراب پینا شروع کی لیکن جب اسے بتایا گیا کہ ابن عباس اور حسین ابن علی رضی اللہ عنہم آ رہے ہیں تو اس نے شراب پینا بند کر دیا۔(تاريخ مدينة دمشق، ابن عساكر، ج 65، ص 406)

یزید شراب کا اتنا عاشق اور عادی تھا کہ جب دوسرے شہروں سے بزرگان وفد کی صورت میں اسے ملنے آتے تو یہ تخت پر بیٹھ کر ان سب کے سامنے بھی شراب پیتا تھا۔

کتب تاریخ میں نقل ہوا ہے کہ:بعث (عثمان بن محمّد بن أبي سفيان، والي مدينة) إلى يزيد منها وفداً فيهم عبد اللّه بن حنظلة الغسيل الأنصاري، و عبد اللّه بن أبي عمرو بن حفص بن المغيرة الحضرمي، و المنذر بن الزبير، و رجال كثير من أشراف أهل المدينة، فقدموا على يزيد، فأكرمهم و أحسن إليهم، و عظّم جوائزهم، ثمّ انصرفوا راجعين إلى المدينة، إلاّ المنذر بن الزبير، فإنّه سار إلى صاحبه عبيد اللّه بن زياد بالبصرة، و كان يزيد قد أجازه بمائة ألف نظير أصحابه من أولئك الوفد، و لمّا رجع وفد المدينة إليها، أظهروا شتم يزيد، و عيبه، وقالوا: قدمنا من عند رجل ليس له دين، يشرب الخمر، و تعزف عنده القينات بالمعازف.و إنّا نشهدكم أنّا قد خلعناه، فتابعهم الناس على خلعه، و بايعوا عبد اللّه بن حنظلة الغسيل على الموت.
کچھ بزرگان اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا ایک وفد کہ ان میں جنگ احد میں شھید ہونے والے عبد اللہ بن حنظلہ غسیل الملائکہ رضی اللہ عنہ کا بیٹا تھا، یزید سے بعنوان حاکم اسلامی ملنے کے لیے شام میں آئے۔ جب وہ یزید کے دربار میں گئے تو یزید نے ان کا بہت احترام کیا اور ملاقات کے بعد واپس جاتے ہوئے ان سب کو بہت تحفے اور ھدیئے دے کر روانہ کیا لیکن انھوں نے پھر بھی مدینہ کے لوگوں کو یزید کی حقیقت کے بارے میں سب کچھ بتا دیا، انھوں نے کہا کہ ہم ایسے شخص سے مل کر آ رہے ہیں کہ جو بے دین ہے، شراب پیتا ہے، ساز و آواز اس کے دربار میں بجایا اور رقص کیا جاتا ہے تم مدینہ کے سب لوگ گواہ رہو کہ ہم اس کو خلافت سے عزل کرتے ہیں۔ لوگوں نے بھی بزرگان مدینہ کی اس کام میں اطاعت اور حمایت کی اور عبد اللہ بن حنظلہ کی بیعت پر سب جمع ہو گئے۔ (البداية و النهاية، ج 8، ص 235 و 236 ) (الكامل، ابن أثير، ج 4، ص103 )( تاريخ طبرى، ج 7، ص4،چشتی)

یزید شراب کا اتنا دلدادہ تھا کہ حکم دیا کرتا تھا کہ اس کے لیے دربار میں بہترین قسم کی شراب کو لایا کرو۔

امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے زیاد حارثی سے نقل کیا ہے کہ:سقانى يزيد شراباً ما ذقت مثله، فقلت: يا أمير المؤمنين لم أُسلسل مثل هذا، قال: هذا رمّان حُلوان، بعسل اصبهان، بسكّر الأهواز، بزبيب الطائف، بماء بَرَدى.
یزید نے مجھے ایسی شراب پلائی ہے کہ آج تک میں نے ویسی شراب نہیں پی تھی۔ میں نے یزید سے کہا کہ میں نے آج تک ایسی شراب نہیں پی۔ یزید نے کہا: شہر حلوان کے انار، شہر اصفہان کی شھد، شہر اہواز کی شکر، شہر طائف کی کشمش اور بردی کے پانی سے یہ شراب خاص طور پر تیار کی گئی ہے۔(سير أعلام النبلاء، ج 4، ص37)

اسلام میں شراب پینے والے کے بارے میں فقہی و شرعی حکم

تمام مکاتب فکر آیات قرآن کی روشنی میں ہر قسم کی نشہ آور چیز کو نجس اور حرام کہتے ہیں اور شراب خوار کو فاسق اور جو بھی شراب کو حلال کہے اس کو کافر کہتے ہیں۔

شارح مسلم امام محى الدين نووى شافعی رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب روضۃ الطالبين میں شراب خوار کی حدّ کے بارے میں کہتا ہے کہ:شرب الخمر من كبائر المحرّمات....و يفسق شاربه، و يلزمه الحدّ، و من استحلّه كفر ۔
ابن نجیم مصری نے شراب خواری کو گناہ کبیرہ، شراب خوار کو فاسق، شراب پینے والے پر حد کے جاری کرنے کا کہا ہے اور جو بھی شراب کو حلال کہے اس کو کافر کہا ہے۔(روضة الطالبين، ج 7، ص374)

يكفّر مستحلّها، و سقوط العدالة إنّما هو سبب شربها.
جو شراب کو حلال کہے وہ کافر ہے اور شراب پینے سے انسان کی عدالت ساقط (ختم) ہو جاتی ہے ۔ (البحر الرائق، ج 7، ص 147)مزید تفصیل کتب احادیث شروح احادیث ، کتب تفاسیر اور کتب فقہ میں ملاحظہ فرمائیں ۔

کیا ملعون یزید کے شراب خوار ہونے کے با وجود بطی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کا جانشین اور خلیفہ بننے کے قابل تھا ؟

کیا اس کا صفت عدالت سے دور ہونا اور سر عام شراب پینا اس کے فاسق ہونے کے لیے کافی نہیں ہے ؟

اللہ تعالیٰ یزید جیسے فاسق و فاجر اور قاتل اہلبیت (رضی اللہ عنہم) کے حامیوں کو ہدایت عطاء فرمائے آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

بُغضِ اہلبیت اطہار علیہم السّلام کی سزاء و مبغضین کی پہچان

بُغضِ اہلبیت اطہار علیہم السّلام کی سزاء و مبغضین کی پہچان

محترم قارئین : آج کل کچھ لوگ محبِ یزید پلید میں مبتلا ہوکر اہلبیت رسول علیہم السّلام کے بغض میں مبتلا ہیں فقیر ڈاکٹر فیض احمد چشتی نے مختصر وقت میں احادیث مبارکہ سے کچھ پھول چنے ہیں پڑھیئے اور پہچانیئے ان اہلبیت رسول علیہم السّلام کے دشمنوں کو اور خود کو اور اپنی نسلوں کو ان یزیدیوں کے فتنہ و شر سے بچایئے فقیر اس کوشش میں کہاں تک کامیاب ہوا یہ آپ پڑھ کر فیصلہ کیجیئے گا اہل علم سے گزارش ہے اگر کہیں غلطی پائیں تو آگاہ فرمائیں شکریہ :

عَنْ عَلِيٍّ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : مَنْ لَمْ يَعْرِفْ حَقَّ عِتْرَتِي وَ الْأَنْصَارِ وَ الْعَرَبِ فَهُوَ لإِحْدَي ثَلاَثٍ : إِمَّا مُنَافِقٌ، وَ إِمَّا لِزِنْيَة، وَإِمَّا امْرَؤٌ حَمَلَتْ بِهِ أمُّهُ لِغَيْر طُهْرٍ. رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ وَالدَّيْلَمِيُّ ۔
ترجمہ : حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو شخض میرے اہل بیت اور انصار اور عرب کا حق نہیں پہچانتا تو اس میں تین چیزوں میں سے ایک پائی جاتی ہے : یا تو وہ منافق ہے یا وہ حرامی ہے یا وہ ایسا آدمی ہے جس کی ماں بغیر طہر کے اس سے حاملہ ہوئی ہو ۔‘‘ اس حدیث کو امام دیلمی نے اپنی مسند میں روایت کیا ہے ۔ (أخرجه البيهقي في شعب الإيمان، 2 / 232، الرقم؛ 1614، الديلمي في مسند الفردوس، 3 / 626، الرقم؛ 5955، و الذهبي في ميزان الإعتدال في نقد الرجال، 3 / 148)

عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : وَ الَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ : لاَ يُبْغِضُنَا أَهْلَ الْبَيْتِ رَجُلٌ إِلاَّ أَدْخَلَهُ اﷲُ النَّارَ.رَوَاهُ ابْنُ حِبَّانَ وَالْحَاکِمُ.
ترجمہ : حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! ہم اہل بیت سے کوئی آدمی نفرت نہیں کرتا مگر یہ کہ اﷲتعالیٰ اسے دوزخ میں ڈال کر دیتا ہے۔‘‘ اس حدیث کو امام ابن حبان اور حاکم نے روایت کیا ہے۔
(أخرجه ابن حبان في الصحيح، 15 / 435، الرقم : 6978، و الحاکم في المستدرک، 3 / 162، الرقم : 4717، و الذهبي في سير أعلام النبلاء، 2 / 123، والهيثمي في موارد الظمان، 1 / 555، الرقم : 2246)

عن سلمان رضی الله عنه قال سمعت رسول اﷲ صلیٰ الله عليه وآله وسلم يقول الحسن والحسين ابناي من أحبهما أحبني ومن أحبني أحبه اﷲ ومن أحبه اﷲ أدخله الجنة ومن أبغضهما أبغضني ومن أبغضني أبغضه اﷲ ومن أبغضه اﷲ أدخله النّار ۔
ترجمہ : حضرت سلمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: حسن اور حسین علیہما السلام میرے بیٹے ہیں۔ جس نے ان دونوں سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے مجھ سے محبت کی اس نے اللہ سے محبت کی اور جس نے اللہ سے محبت کی اللہ اسے جنت میں داخل کرے گا اور جس نے حسن وحسین علیہما السلام سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض رکھا اور جس نے مجھ سے بغض رکھا اور جس نے اللہ سے بغض رکھا اللہ اسے دوزخ میں داخل کرے گا ۔(المستدرک علی الصحيحين، 3: 181، رقم: 4776، بيروت، لبنان: دارالکتب العلمية،چشتی)

یہ بات قابل توجہ ہے کہ محبت رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وہ تصور جو آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات ظاہری میں تھا وہ بعد ازوصال بھی ہمیشہ سے اسی طرح قائم ودائم ہے اور یوں ہی بغض وعداوت اور دشمنی وعناد رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روش بھی قائم ہے ۔

عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ عَبَّاسٍ : أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم قَالَ : يَا بَنِي عَبْدِ الْمُطَّلِبِ إِنِّي سَأَلْتُ اﷲَ لَکُمْ ثَلَاثًا أَنْ يُّثْبِتَ قَائِمَکُمْ وَ أَنْ يَّهْدِيَ ضَالَّکُمْ، وَ أَنْ يُّعَلِّمَ جَاهِلَکُمَ، وَ سَأَلْتُ اﷲَ أَنْ يَجْعَلَکُمْ جُوَدَاءَ نُجَدَاءَ رُحَمَاءَ، فَلَوْ أَنَّ رَجُلًا صَفَنَ بَيْنَ الرُّکْنِ وَ الْمَقَامِ، فَصَلَّي وَ صَامَ ثُمَّ لَقِيَ اﷲَ وَ هُوَ مُبْغِضٌ لِأَهْلِ بَيْتِ مُحَمَّدٍ صلي الله عليه وآله وسلم دَخَلَ النَّارَ.رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَالطَّبَرَانِيُّ.وَقَالَ الْحَاکِمُ : هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ.
ترجمہ : حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے بنو عبدالمطلب بے شک میں نے تمہارے لئے اﷲتعالیٰ سے دس چیزیں مانگی ہیں پہلی یہ کہ وہ تمہارے قیام کرنے والے کو ثابت قدم رکھے اور دوسری یہ کہ وہ تمہارے گمراہ کو ہدایت دے اور تیسری یہ کہ وہ تمہارے جاہل کو علم عطاء کرے اور میں نے تمہارے لیے اﷲ تعالیٰ سے یہ بھی مانگا ہے کہ وہ تمہیں سخاوت کرنے والا اور دوسروں کی مدد کرنے والا اور دوسروں پر رحم کرنے والا بنائے پس اگر کوئی رکن اور مقام کے درمیان دونوں پاؤں قطار میں رکھ کر کھڑا ہوجائے اور نماز پڑھے اور روزہ رکھے اور پھر (وصال کی شکل میں) اﷲ سے ملے درآنحالیکہ وہ اہل بیت سے بغض رکھنے والا ہو تو وہ دوزخ میں داخل ہو گا۔‘‘ اس حدیث کو امام حاکم اور طبرانی نے روایت کیا ہے نیز امام حاکم نے فرمایا کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
(أخرجه الحاکم في المستدرک، 3 / 161، الرقم : 4712، و الطبراني في المعجم الکبير، 11 / 176، الرقم : 11412، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 171)

عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ : أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم قَالَ : الْزِمُوْا مَوَدَّتَنَا أَهْلَ الْبَيْتِ، فَإِنَّهُ مَنْ لَقِيَ اﷲَ عزوجل وَ ُهوَ يَوَدُّنَا دَخَلَ الْجَنَّةَ بِشَفَاعَتِنَا، وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ : لاَ يَنْفَعُ عَبْدًا عَمَلُهُ إِلاَّ بِمَعْرِفَةِ حَقِّنَا.رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ ۔
ترجمہ : حضرت حسن بن علی رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہم اہل بیت کی محبت کو لازم پکڑو پس بے شک وہ شخص جو اس حال میں اﷲ سے ملا کہ وہ ہمیں محبت کرتا تھا تو وہ ہماری شفاعت کے صدقے جنت میں داخل ہوگا اور اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے کسی شخص کو اس کا عمل فائدہ نہیں دے گا مگر ہمارے حق کی معرفت کے سبب۔‘‘ اس حدیث کو امام طبرانی نے بیان کیا ہے ۔(المعجم الأوسط طبرانی ، 2 / 360، الرقم : 2230، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 172)

عَنْ أَبِي رَافِعٍ رضي اﷲ عنه : أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم قَالَ لِعَلِيٍّ رضي اﷲ عنه : أَنْتَ وَشِيْعَتُکَ تَرِدُوْنَ عَلَيَّ الْحَوْضَ رُوَاءَ مُرَوَّييْنَ، مُبَيَّضَةً وُجُوْهُکُمْ. وَإِنَّ عَدُوَّکَ يَرِدُوْنَ عَلَيَّ ظُمَاءً مُقَبَّحِيْنَ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ ۔
ترجمہ : حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا : اے علی! تو اور تیرے (چاہنے والے) مددگار (قیامت کے روز) میرے پاس حوض کوثر پر چہرے کی شادابی اور سیراب ہو کر آئیں گے اور ان کے چہرے (نور کی وجہ سے) سفید ہوں گے اور بے شک تیرے دشمن (قیامت کے روز) میرے پاس حوض کوثر پر بدنما چہروں کے ساتھ اور سخت پیاس کی حالت میں آئیں گے۔‘‘ اس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا ہے ۔ (المعجم الکبير طبرانی ، 1 / 319، الرقم : 948، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 131،چشتی)

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : النُّجُوْمُ أَمَانٌ ِلأَهْلِ الْأَرْضِ مِنَ الْغَرْقِ وَ أَهْلُ بَيْتِي أَمَانٌ لِأمَّتِي مِنَ الإِخْتِلاَفِ، فَإِذَا خَالَفَتْهَا قَبِيْلَةٌ مِنَ الْعَرَبِ اخْتَلَفُوْا فَصَارُوْا حِزْبَ إِبْلِيْسَ. رَوَاهُ الْحَاکِمُ . وَقَالَ : هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِْسْنَادِ ۔
ترجمہ : حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ستارے اہل زمین کو غرق ہونے سے بچانے والے ہیں اور میرے اہل بیت میری امت کو اختلاف سے بچانے والے ہیں اور جب کوئی قبیلہ ان کی مخالفت کرتا ہے تو اس میں اختلاف پڑ جاتا ہے یہاں تک کہ وہ شیطان کی جماعت میں سے ہو جاتا ہے۔‘‘ اس حدیث کو امام حاکم نے روایت کیا اور کہا کہ یہ حدیث صحیح الاسناد ہے ۔ )المستدرک حاکم 3 / 162، الرقم : 4715)

عَنِ أَبِي ذَرٍّ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : مَثَلُ أَهْلِ بَيْتِي مَثَلُ سَفِيْنَةِ نُوْحٍ : مَنْ رَکِبَ فِيْهَا نَجَا، وَمَنْ تَخَلَّفَ عَنْهَا غَرِقَ، وَ مَنْ قَاتَلَنَا فِي آخِرِ الزَّمَانِ فَکَأَنَّمَا قَاتَلَ مَعَ الدَّجَّالِ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ ۔
ترجمہ : حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میرے اہل بیت کی مثال حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی کی سی ہے جو اس میں سوار ہو گیا نجات پاگیا اور جو اس سے پیچھے رہ گیا وہ غرق ہوگیا اور آخری زمانہ میں جو ہمیں (اہل بیت کو) قتل کرے گا گویا وہ دجال کے ساتھ مل کر قتال کرنے والا ہے۔‘‘ اس حدیث کو امام طبرانی نے بیان کیا ہے ۔ (معجم الکبير طبرانی ، 3 / 45، الرقم : 2637، و القضاعي في مسند الشهاب، 2 / 273، الحديث 1343، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 168)

عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ : أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم قَالَ : إِنَّ لِلّٰهِ حُرُمَاتٍ ثَلَاثًا مَنْ حَفِظَهُنَّ حَفِظَ اﷲُ لَهُ أَمْرَ دِيْنِهِ وَ دُنْيَاهُ، وَ مَنْ ضَيَّعَهُنَّ لَمْ يَحْفَظِ اﷲُ لَهُ شَيْئًا فَقِيْلَ : وَ مَا هُنَّ يَا رَسُوْلَ اﷲِ؟ قَالَ : حُرْمَةُ الإِسْلاَمِ، وَحُرْمَتِي، وَ حُرْمَةُ رَحِمِي. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.
ترجمہ : حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بے شک اﷲ تعالیٰ کی تین حرمات ہیں جو ان کی حفاظت کرتا ہے اﷲ تعالیٰ اس کے لئے اس کے دین و دنیا کے معاملات کی حفاظت فرماتا ہے اور جو ان تین کو ضائع کر دیتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ اس کی کسی چیز کی حفاظت نہیں فرماتا سو عرض کیا گیا : یا رسول اﷲ! وہ کون سی تین حرمات ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اسلام کی حرمت، میری حرمت اور میرے نسب کی حرمت۔‘‘ اس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا ہے ۔ (أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 1 / 72، الرقم : 203، و في المعجم الکبير، 3 / 126، الرقم : 2881، 1 / 88، و الذهبي في ميزان الإعتدال، 5 / 294،چشتی)

عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : سِتَّةٌ لَعَنْتُهُمْ، لَعَنَهُمُ اﷲُ، وَ کُلُّ نَبِيٍّ مُجَابٍ کَانَ : الزَّائِدُ فِي کِتَابِ اﷲ، وَ الْمُکَذِّبُ بِقَدْرِ اﷲِ وَ الْمُسَلِّطُ بِالْجَبَرُوْتِ لِيُعِزَّ بِذَلِکَ مَنْ أَذَلَّ اﷲُ، وَ يُذِلُّ مَنْ أَعَزَّ اﷲُ، وَ الْمُسْتَحِلُّ لِحُرُمِ اﷲِ، وَ الْمُسْتَحِلُّ مِنْ عِتْرَتِي مَا حَرَّمَ اﷲُ، وَ التَّارِکُ لِسُنَّتِي. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَابْنُ حِبَّانَ وَالْحَاکِمُ.
ترجمہ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا بیان کرتی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : چھ بندوں پر میں لعنت کرتا ہوں اور اﷲ بھی ان پر لعنت کرتا ہے اور ہر نبی مستجاب الدعوات ہے وہ بھی ان پر لعنت کرتا ہے : جو کتاب اﷲ میں زیادتی کرنے والا ہو اور اﷲ تعالیٰ کی قدر کو جھٹلانے والا ہو اور ظلم و جبر کے ساتھ تسلط حاصل کرنے والا ہو تاکہ اس کے ذریعے اے عزت دے سکے جسے اﷲ نے ذلیل کیا ہے اور اسے ذلیل کر سکے جسے اﷲ نے عزت دی ہے اور اﷲ تعالیٰ کی حرام کردہ چیزوں کو حلال کرنے والا اور میری عترت یعنی اہل بیت کی حرمت کو حلال کرنے والا اور میری سنت کا تارک۔‘‘ اس حدیث کو امام ترمذی، ابن حبان اور حاکم نے روایت کیا ہے ۔ )أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : القدر، باب : منه، (17)، 4 / 457، الرقم : 2154، و ابن حبان في الصحيح، 13 / 60، الرقم : 5749، و الحاکم في المستدرک، 2 / 572، الرقم : 3941، و الطبراني في المعجم الکبير، 17 / 43، الرقم : 89، و البيهقي في شعب الإيمان، 3 / 443، الرقم : 4010)

عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ : أَنَّهُ قَالَ لِمُعَاوِيَةَ بْنِ خُدَيْجٍ : يَا مُعَاوِيَةَ بْنَ خُدَيْجٍ، إِيَّاکَ وَ بُغْضَنَا فَإِنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم قَالَ : لاَ يُبْغِضُنَا أَحَدٌ، وَ لاَ يَحْسُدُنَا أَحَدٌ إِلاَّ ذِيْدَ عَنِ الْحَوْضِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِسَيَاطِ مِّنْ نَارٍ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.
ترجمہ : حضرت حسن بن علی رضی اﷲ عنھما روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے معاویہ بن خدیج سے کہا : اے معاویہ بن خدیج! ہمارے (اھلِ بیت کے) بغض سے بچو کیونکہ بے شک حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کہ ہم (اھلِ بیت) سے کوئی بغض نہیں رکھتا اور کوئی حسد نہیں کرتا مگر یہ کہ قیامت کے دن اسے آگ کے چابکوں سے حوض کوثر سے دھتکار دیا جائے گا ۔‘‘ اس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا ہے ۔ (أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 3 / 39، الرقم : 2405، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 172)

عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رضي الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : اللَّهُمَّ ارْزُقْ مَنْ أَبْغَضَنِي وَأَبْغَضَ أَهْلَ بَيْتِي، کَثْرَةَ الْمَالِ وَالْعَيَالِ. کَفَاهُمْ بِذَلِکَ غَيَّا أَنْ يَکْثُرَ مَالُهُمْ فَيَطُوْلَ حِسَابُهُمْ، وَ أَنْ يَکْثُرَ الْوِجْدَانِيَاتُ فَيَکْثُرَ شَيَاطِيْنُهُمْ. رَوَاهُ الدَّيْلَمِيُّ ۔
ترجمہ : حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے اللہ جو مجھ سے اور میرے اہل بیت سے بغض رکھتا ہے اسے کثرت مال اور کثرت اولاد سے نواز یہ ان کی گمراہی کے لئے کافی ہے کہ ان کا مال کثیر ہو جائے پس (اس کثرت مال کی وجہ سے) ان کا حساب طویل ہو جائے اور یہ کہ ان کی وجدانیات (جذباتی چیزیں) کثیر ہو جائیں تاکہ ان کے شیاطین کثرت سے ہو جائیں ۔‘‘ اس کو امام دیلمی نے روایت کیا ہے ۔۔
(أخرجه الديلمي في مسند الفردوس، 1 / 492، الرقم : 2007)

عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اﷲِ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : ثَلاَثٌ مَنْ کُنَّ فِيْهِ فَلَيْسَ مِنِّي وَلَا أَنَا مِنْهُ : بُغْضُ عَلِيٍّ، وَ نَصْبُ أَهْلِ بَيْتِي، وَ مَنْ قَالَ : الإِيْمَانُ کَلَامٌ. رَوَاهُ الدَّيْلَمِيُّ ۔
ترجمہ : حضرت جابر بن عبداللہ رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تین چیزیں ایسی ہیں وہ جس میں پائی جائیں گی نہ وہ مجھ سے ہے اور نہ میں اس سے ہوں (اور وہ تین چیزیں یہ ہیں) : علی رضی اللہ عنہ سے بغض رکھنا، میرے اہل بیت سے دشمنی رکھنا اور یہ کہنا کہ ایمان (فقط) کلام کا نام ہے۔‘‘ اس حدیث کو امام دیلمی نے روایت کیا ہے ۔ مسند الفردوس دیلمی ، 2 / 85، الرقم : 2459)۔(طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...