Tuesday, 23 June 2015

حیات بعد از وفات کا ثبوت قرآن و حدیث کی روشنی میں


٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
حیات بعداَز موت یا قبر کی زِندگی کی حقیقت قرآن و حدیث کی تعلیمات سے اُسی طرح ثابت ہے جیسے قیامت کے روز جی اُٹھنا۔ قرآنِ حکیم میں اﷲ ربّ العزت کا ارشادِ گرامی ہے :

كَيْفَ تَكْفُرُونَ بِاللَّهِ وَكُنتُمْ أَمْوَاتاً فَأَحْيَاكُمْ ثُمَّ يُمِيتُكُمْ ثُمَّ يُحْيِيكُمْ ثُمَّ إِلَيْهِ تُرْجَعُونَO

تم کس طرح اللہ کا انکار کرتے ہو حالانکہ تم بے جان تھے اس نے تمہیں زندگی بخشی، پھر تمہیں موت سے ہمکنار کرے گا اور پھر تمہیں زندہ کرے گا، پھر تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گےo

(البقره، 2 : 28)

اِس آیتِ کریمہ میں دو اَموات، دو زندگیوں اور بالآخر یومِ آخرت کو تمام اِنسانیت کو اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں لوٹائے جانے کا صراحتاً ذِکر ہے۔ آیتِ کریمہ کی روشنی میں پہلی موت تو ہمارا عدم تھا، جب ہم ابھی عالمِ وُجود میں نہ آئے تھے۔ اُس کے بعد کی زندگی ہماری یہ دُینوی حیات ہے۔ پھر اُس کے بعد موت آئے گی اور لوگ حسبِ حال ہمارا کفن دفن کریں گے۔ اس موت کے بعد کی زِندگی حیاتِ برزخی کہلاتی ہے جو ہر اِنسان کو قبر (یا حالتِ قبر) میں میسر آتی ہے اور فرشتے سوالات پوچھنے آتے ہیں اور جنت یا جہنم کی طرف سے ایک کھڑکی قبر میں کھول جاتے ہیں۔ اُس دُوسری زِندگی کے بعد ہمیں روزِ محشر اللہ ربّ العزّت کی طرف لوٹایا جائے گا۔ یوں حیاتِ برزخی کا دَورانیہ قبر میں سوالات کیلئے فرشتوں کی آمد سے لے کر روزِ محشر پھونکے جانے والے صورِ اِسرافیل تک طویل ہے۔

یہ تو ایک عام اِنسان (خواہ وہ مسلمان ہو یا کافر) کی حیاتِ برزخی کا معاملہ تھا، آئیے اَب حیاتِ شہداء کے سلسلے میں سورۂ بقرہ ہی کی ایک اور آیتِ مبارکہ ملاحظہ کرتے ہیں :

وَلاَ تَقُولُواْ لِمَنْ يُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللّهِ أَمْوَاتٌ بَلْ أَحْيَاءٌ وَلَكِن لاَّ تَشْعُرُونَO

اور جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے جائیں اُنہیں مت کہا کرو کہ یہ مردہ ہیں، (وہ مردہ نہیں) بلکہ زندہ ہیں لیکن تمہیں (اُن کی زندگی کا) شعور نہیںo

(البقره، 2 : 154)

اِسی مضمون کو سورۂ آل عمران میں کچھ مختلف اَلفاظ کے ساتھ یوں اِرشاد فرمایا گیا :

وَلاَ تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُواْ فِي سَبِيلِ اللّهِ أَمْوَاتًا بَلْ أَحْيَاءٌ عِندَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَO

اور جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل کئے جائیں اُنہیں ہرگز مردہ خیال (بھی) نہ کرنا بلکہ وہ اپنے ربّ کے حضور زندہ ہیں، اُنہیں (جنت کی نعمتوں کا) رِزق دیا جاتا ہےo

(آل عمران، 3 : 169)

شہداء کی حیات پر تو ہر مسلک کے پیروکار قائل ہیں تاہم مذکورہ بالا آیاتِ کریمہ کے علاوہ متعدّد اَحادیثِ مبارکہ میں بھی کفار و مشرکین کی موت کے بعد حیات اور زِندہ لوگوں کے کلام کو مرنے کے بعد سننے پر قدرت کا ثبوت پایا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر غزوۂ بدر کے بعد سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود کفار و مشرکین میں سے قتل ہو جانے والوں کو نام لے لے کر پکارا اور اُن سے پوچھا :

فَإِنَّا قَدْ وَجَدْنَا مَا وَعَدَنَا رَبُّنَا حَقًّا فَهَلْ وَجَدْتُّمْ مَّا وَعَدَ رَبُّکُمْ حَقًّا؟

تحقیق ہم نے اپنے ربّ کے وعدے کوبالکل درست پایا، سو (اے کفار و مشرکین) کیا تم نے بھی اپنے ربّ کا وعدہ سچا پایا؟

اِس موقع پر سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنھم بارگاہِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں یوں عرض گزار ہوئے : ’’حضور آپ ﷺ ایسے جسموں سے خطاب فرما رہے ہیں جن میں روح ہی نہیں‘‘۔ اِس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابۂ کرام سے مخاطب ہو کر فرمایا :

وَ الَّذِيْ نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ! مَا أَنْتُمْ بِأَسْمَع لِمَا أَقُوْلُ مِنْهُمْ.

اُس ذات کی قسم جس کے قبضے میں محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جان ہے، میں اُن (کفار و مشرکین) سے جو باتیں کر رہا ہوں وہ اُنہیں تم سے بڑھ کر سننے پر قادر ہیں۔

(صحيح البخاری، کتاب المغازی، 2 : 566)

صحیح بخاری کی اِس حدیثِ مبارکہ سے تو کفار و مشرکین تک کی بعد از موت برزخی زِندگی میں میسر قوتِ سماعت نہ صرف عام زِندہ اِنسانوں بلکہ زِندہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم کی سماعت سے بھی بڑھ کر قرار پا رہی ہے۔

اِسی طرح محسنِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسلمانوں کے قبرستان کے پاس سے گزرنے والے ہر شخص کو یہ تعلیم دی کہ وہ اہلِ قبور کو نہ صرف حرفِ نداء ’’یَا‘‘ کے ذریعے مخاطب کرے بلکہ اُن پر سلام بھی بھیجے۔ یہی سبب ہے کہ مسلمان اپنے بچوں کو یہ تعلیم دیتے ہیں کہ قبر ستان کے پاس گزرتے وقت ’’السَّلَامُ عَلَیْکُمْ یَا اَھْلَ الْقُبُوْرِ‘‘ ضرور کہا کریں۔

جب کفار و مشرکین کی حیات، عامۃ المؤمنین کی حیات اور شہداء و صالحین کی حیات اپنے اپنے حسبِ حال قرآن و حدیث کی نصوص سے ثابت ہے تو یہ کس طرح ممکن ہے کہ انبیاء علیھم السلام اور بالخصوص تاجدارِ انبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات کا اِنکار کیا جائے؟ باوجود یہ کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم واشگاف اَلفاظ میں بار ہا یہ اِعلان فرما چکے ہیں کہ :

إِنَّ اﷲَ حَرَّمَ عَلَی الْأَرْضِ أَنْ تَأْکُلَ أجْسَادَ الْأنْبِيَآءِ، فَنَبِیُّ اﷲِ حَیٌّ يُّرْزَقُ.

اللہ تعالی نے زمین پر حرام قرار دیا ہے کہ وہ انبیاء کے اجسام کو کھائے۔ پس اَنبیاء علیھم السلام زندہ ہیں اور اُنہیں رِزق بہم پہنچایا جاتا ہے۔

(سنن النسائی، کتاب الجمعه، 1 : 204)
(سنن اَبوداؤد، کتاب الصلوٰة، 1 : 157)
(سنن اِبن ماجه، کتاب الجنائز : 119)

اِس حدیث مبارکہ سے بالصراحت یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اللہ تعالی کی قدرتِ کاملہ سے انبیاء علیھم السلام اپنی قبور میں زِندہ ہوتے ہیں۔ ایک حدیثِ مبارکہ میں تو یہاں تک وارِد ہے کہ سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے اُمت کے اَعمال پیش کئے جاتے ہیں، نیک اَعمال پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں جبکہ بداَعمالیوں پر اللہ کے حضور اُمت کی مغفرت کے لئے دُعا فرماتے ہیں۔ حدیثِ مبارکہ کے اَلفاظ یہ ہیں :

تُعرضُ علیّ أعمالُکم فما رأيتُ مِن خيرٍ حمدتُ اﷲَ عليهِ وَ ما رأيتُ مِن شرِّ نِاسْتغفرتُ اﷲَ لکُم.

مجھ پر تمہارے اَعمال پیش کئے جاتے ہیں اگر وہ اچھے ہوں تو میں اللہ کا شکر بجا لاتا ہوں اگر اَعمال اچھے نہ ہوں تو اللہ کے حضور تمہاری مغفرت کے لئے دُعا کرتا ہوں۔

(مجمع الزوائد، 9 : 24)

وہ خدائے ذوالجلال جو اِس دنیا میں اور آخرت میں جمیع اِنسانیت کو زِندگی عطا کرنے اور رِزق مہیا کرنے پر قادِر ہے وُہی انبیائے کرام علیھم السلام کو قبروں میں بھی زِندہ رکھنے اور رِزق بہم پہنچانے پر قادِر ہے۔ اِسلامی لٹریچر میں دَر آنے والی یونانی فلاسفہ کی رُوح کی برزخی حیات پراُلجھا کر رکھ دینے والی غیر فطری و غیرسائنسی بحثیں اِسلام کے غیر متغیر اور اٹل فطری اُصولوں کے سامنے کوئی حیثیت نہیں رکھتیں۔ اَحکامِ اِسلام صاف اور کھرے اَنداز میں اقسامِ حیات اور حیاتِ برزخی کے حامل افراد کو پکارنے کے بارے میں اﷲ ربّ العزّت کی تعلیمات کو واضح کر رہے ہیں اور اِس بات کا واشگاف اَلفاظ میں اِعلان کر رہے ہیں کہ اَنبیاء علیھم السلام، شُہداء، صلحاء، عام مسلمان حتی کہ کفّار و مشرکین بھی اپنی قبروں میں زِندہ ہوتے ہیں۔ شہداء کو تو اَسبابِ برزخی کے تحت رِزق بہم پہنچائے جانے پر قرآنِ مجید خود شاہدِ عادل ہے۔ سو جو لوگ ظاہری حیات میں اِستغاثہ کو جائز مان کر موت کے بعد اِستغاثہ کو حرام بلکہ شِرک کا موجب قرار دے رہے ہیں اُن کے لئے اِتنی بات واضح ہوگئی کہ موت ایک لمحے کے ذائقے کا نام ہے جو آکر چلی جاتی ہے۔

بقول حکیم الامت رحمۃ اللہ علیہ :

موت تجدیدِ مذاقِ زِندگی کا نام ہے
خواب کے پردے میں بیداری کا اِک پیغام ہے

حیاتِ دُنیوی اور قیامت کے روز عطا ہونے والی اُخروی حیات کے مابین حیاتِ برزخی کا زمانہ موجود ہوتا ہے۔ پس جیسے دُنیوی اور اُخروی حیات کے حامل فردِبشر سے اِستمداد و اِستعانت اور اِستغاثہ کرنا جائز ہے بعینہ حیاتِ برزخی کے دَوران بھی اِستغاثہ رَوا ہے، اِس میں شِرک تو درکنار اُس کاذرا سا شائبہ بھی موجود نہیں۔ کیونکہ دُنیوی، برزخی اور اُخروی، تینوں زندگیوں میں اللہ تعالی کو مستعانِ حقیقی اور بندے کو مستغاثِ مجازی مان کر اِستغاثہ کیا جاتا ہے جو کہ جائز ہے۔ مذکورہ تینوں اقسامِ حیات میں سے کسی بھی زِندگی میں بندے کو مستغاثِ حقیقی سمجھ لینا یقیناً شِرک ہے۔ واضح رہے کہ شِرک کا سبب اَقسامِ حیات نہیں بلکہ حقیقت و مجاز کی تفریق ہے۔

No comments:

Post a Comment

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرمائیں مجھ سے مانگو نجدی کہیں شرک ہے ؟

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرمائیں مجھ سے مانگو نجدی کہیں شرک ہے ؟ محترم قارئینِ کرام : حَدَّثَنَا ہَشَّامُ بْنُ عَمَّارٍنَا الْھَقْل...