Tuesday, 23 June 2015

استغاثہ و استعانت پر اعتراض نمبر 5 سوال اور اِستغاثہ صرف اﷲ سے جائز ہے اور باقی سب شرک و بدعت ھے ۔


٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
جواب : ۔ نفی اِستغاثہ میں سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنھم سے مروی حدیثِ مبارکہ سے ایک غلط اِستدلال بھی پیش کیا جاتا ہے، جس میں فقط اللہ تعالیٰ سے سوال کرنے اور اُسی سے مدد طلب کرنے کا حکم ہے۔ حدیثِ مبارکہ کے اَلفاظ یوں ہیں :

إذا سألتَ فاسْال اﷲ و إذا اسْتعنتَ فاستعِن باﷲ و اعلم أنَّ الأُمَّةَ لَوِ اجْتمعتْ علٰی أنْ يَّنْفعکَ بِشئ لم ينفعک إلا بشئ قد کتبه اﷲ لک، و لوِ اجتمعوا علی أن يضرّوک بشئ لم يضروک إلّا بشئ قد کتبه اﷲ عليک رُفعتِ الأقلامُ و جُفّتِ الصُّحُفُ.

جب تو سوال کرے تو اللہ ہی سے سوال کر اور جب مدد طلب کرے تو اللہ ہی سے کر اور آگاہ رہ کہ اگر ساری اُمت مل کر تجھے نفع دینا چاہے تو بھی تقدیر اِلٰہی کے خلاف ایسا نہیں کر سکتی (اِسی طرح) ساری اُمت مل کر تجھے نقصان پہنچانا چاہے تو بھی تقدیر اِلٰہی کے خلاف کامیاب نہیں ہو سکتی (کیونکہ کاتبِ تقدیر کے) قلم اُٹھا لئے گئے ہیں اور تحریریں خشک ہو چکی ہیں۔

(جامع الترمذی، اَبواب الزهد، 2 : 74)

ذیل میں ہم اِس بات کی وضاحت کریں گے کہ اِس حدیثِ مبارکہ سے یہ اِستنباط کرنا کہ سوال اور اِستغاثہ فقط اللہ ربّ العزّت ہی سے جائز ہے اور غیراللہ سے کیا جانے والا سوال و اِستغاثہ شِرک میں مبتلا کر دینے کا باعِث ہے، سراسر غلط ہے۔

سوال حکمِ باری تعالیٰ ہے

اِس اِستدلالِ باطل سے اَسباب کو اِختیار کرنے کی مکمل نفی ہو گئی اور سوال، اِستعانت و اِستغاثہ اور اِستمداد میں وارِد کتاب و سنت کی بہت سی نصوص یک قلم معطل ہو کر رہ گئیں۔ ایسا اِستدلال قرآن و حدیث سے عدم واقفیت، منشائے نزولِ قرآن سے عدم آگہی اور تعلیماتِ اِسلام کے سطحی مطالعہ کی وجہ سے ہی ممکن ہے، جس سے جمیع اُمتِ مسلمہ پر کفر و شِرک کا بہتان لگانا مقصود ہے۔ حقیقتِ حال یہ ہے کہ اِس حدیثِ مبارکہ سے مقصود سوال و اِستغاثہ اور اِستعانت و اِستمدادِ ماسویٰ اللہ سے روکنا نہیں ہے، جیسا کہ بادیء النظر میں معلوم ہو رہا ہے، بلکہ اِس حدیث کا منشاء بندے کی توجہ اَسباب سے ہٹا کر مسبّب کی طرف مبذول کرنا ہے تاکہ بندہ اَسبابِ اِستغاثہ (مستغاثِ مجازی) کے تصوّر میں اُلجھ کر مستعان و مستغاثِ حقیقی کو بھلا نہ بیٹھے۔ سو اِس حدیثِ مبارکہ کا مفہوم دیگر تعلیماتِ اِسلام کی روشنی میں یوں ہو گا کہ ’’اے بندے! جب تو مخلوقاتِ خداوندی میں سے کسی سے سوال اور اِستعانت و اِستغاثہ کرے تو اللہ ربّ العزت کی ذات اور قُدرتِ کاملہ پر کامل بھروسہ اور اِعتماد رکھ اور اُسی کو مستغاثِ حقیقی جان کر سوال کر، کہیں یہ مجازی اَسباب تجھے مسبّب الاسباب سے غافل نہ کر دیں اور تیرے لئے حجاب نہ بن جائیں‘‘۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اِس حدیثِ مبارکہ میں اِسلامی تصورِ اِستعانت و اِستغاثہ کی تحدید نہیں فرمائی بلکہ فرمایا کہ تقدیر اِلٰہی کے خلاف کوئی اِستغاثہ ممکن نہیں۔ اِس میں اللہ کی بارگاہ میں وسیلہ بن کر کسی کی حاجت روائی کرنے کا اِنکار کہاں ہے؟ اللہ کی مشیت کے خلاف کرنے اور اُس کی موافقت کرنے میں زمین و آسمان کا فرق ہے، آخر اِنہیں ایک دوسرے پر کس طرح قیاس کیا جا سکتا ہے؟ حدیثِ مبارکہ کے آخری اَلفاظ رُفعتِ الأقلامُ و جُفّتِ الصُّحُفُ ’’قلم اُٹھا لئے گئے اور تحریریں خشک ہو گئیں‘‘ اِس بات کو واضح کر رہے ہیں کہ اِستغاثہ بالغیر کی ممانعت فقط تقدیر اِلٰہی کے خلاف ہے۔ اِس حدیثِ مبارکہ کا وُرود تقدیر اِلٰہی کی حجت کے اِتمام کے لئے ہوا ہے نہ کہ سوال و اِستغاثہ سے منع کرنے کے لئے، کیونکہ ما سویٰ اﷲ سے سوال کا حکم تو خود اللہ ربّ العزّت نے جا بجا فرمایا ہے۔ مثال کے طور پر ملاحظہ ہو :

فَاسْئَلُوْا أهْلَ الذِّکْرِ إِنْ کُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَo

سو تم اہلِ ذِکر سے سوال کر لیا کرو اگر تمہیں خود (کچھ) معلوم نہ ہوo (النحل، 16 : 43)

مذکورہ آیتِ کریمہ میں مومنین کو اہلِ ذِکر سے سوال کرنے کا حکم دیا جا رہا ہے۔ اِس آیت کریمہ کے علاوہ اِسی مفہوم میں وارِد ہونے والی بے شمار اَحادیثِ نبویہ سے بھی یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ ’’وَ اِذَا سَألْتَ فَاسْئَلِ اﷲَ‘‘ کا مطلب و مفہوم سوال مِن الغیر سے مطلق ممانعت نہیں بلکہ اِس سے مُراد یہ ہے کہ بلاضرورت اُمراء سے طمع کر کے اُن سے طلبِ دولت اور صاحبانِ اِقتدار سے طلبِ جاہ و منصب نہ کی جائے اور اللہ تعالی سے ہی اُس کے فضل و کرم کا سوال کیا جائے۔ اِس حدیثِ مبارکہ سے سوال مِن الغیر کی ممانعت اَخذ کرنا قطعاً درست نہیں۔ ’’وَ اِذَا سَألْتَ فَاسْئَلِ اﷲَ‘‘ میں سوال مِن الغیر یا اِستغاثہ و توسل کے عدمِ جواز پر کوئی دلیل نہیں ہے۔ جبکہ دیگر بے شمار اَحادیثِ مبارکہ میں مذکور ہے کہ سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بارہا صحابہ کو خود سوال پر اُبھارا اور پھر اُن کے سوال کا جواب اِرشاد فرمایا۔ (جس کی تفصیل مع اَمثلہ گزشتہ صفحات میں گزر چکی ہے) اگر سوال مِن الغیر کو شِرک قرار دے دیا جائے تو طالبِ علم کا اُستاد سے سوال کرنا، بیمار کا ڈاکٹر سے علاج طلب کرنا، حاجت مند کا صاحبِِ اِستطاعت سے سوال کرنا اور کسی قرض خواہ کا قرض دی گئی رقم واپس طلب کرنا سب شِرک اور ممانعت کے زُمرے میں آ جائیں گے۔

اور بھی کچھ مانگ

سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایک خوش بخت صحابی سیدنا رَبیعہ بن کعب رضی اللہ عنھم ایک رات آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمتِ اَقدس میں موجود تھے۔ انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وُضو کیلئے پانی بھرا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو وُضو کروایا۔ اِس خدمت کے صلے میں مالکِ کون و مکاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خوش ہو کر حضرت ربیعہ رضی اللہ عنھم سے فرمایا : ’’سَلْ‘‘۔۔۔ یعنی مانگ، جو مانگنا چاہتا ہے۔ اِتنی بڑی پیشکش دیکھ کر صحابیءِ رسول نے صاحبِ لولاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اُن کی دائمی قربت کی نعمت مانگ لی، جسے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قبول فرما لیا۔ حضرت ربیعہ رضی اللہ عنھم خود بیان فرماتے ہیں :

کنت أبيت مع رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، فأتيه بوضوئه و حاجته، فقال لي : ’’سل‘‘ فقلت : ’’أسألک مرافقتک في الجنة‘‘ قال : ’’أو غيرک‘‘ قلت : ’’هو ذاک‘‘ قال : ’’فأعنّي علي نفسک بکثرة السجود‘‘.

میں نے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ایک شب گزاری (اور آخرِ شب) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وُضو اور رفع حاجت کیلئے پانی لایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’مانگ (جو چاہتا ہے)‘‘ میں نے عرض کی : ’’میں جنت میں آپ کی (دائمی) قُربت چاہتا ہوں‘‘۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’اِس کے علاوہ‘‘؟ میں نے عرض کی : ’’یہی کافی ہے‘‘۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’پھر کثرتِ سجود کے ساتھ میری مدد کرو‘‘۔ (الصحيح لمسلم، کتاب الصلوٰة، 1 : 193)
(سنن اَبو داؤد، کتاب الصلوٰة، 1 : 194)

اِس حدیثِ مبارکہ میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود اپنے صحابی رضی اللہ عنھم کو سوال کرنے کا حکم فرمایا۔ اگر غیر اللہ سے سوال ممنوع ہوتا تو مؤحّدِ اکبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہرگز ایسا نہ فرماتے۔ حدیث کے آخری اَلفاظ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود اپنے صحابی سے کثرتِ سجود کے ذریعے مدد مانگی جس سے ثابت ہوا کہ غیراللہ سے سوال اور طلبِ عون سنتِ مصطفیٰ ہونے کی بناء پر رَوا ہے اور اس کے خلاف فتویٰ زنی ہرگز کسی مؤحّد کا شیوہ نہیں ہوسکتا۔ اِس طرح کے مذہبی تصوّرات اِسلام کی عالمگیر تعلیمات سے عدم واقفیت کی بناء پر پیدا ہوتے ہیں۔

اِستغاثہ خود حکمِ باری تعالی ہے

اللہ تعالی کی بارگاہ میں حاجت رَوائی اور مدد طلبی کے لئے اللہ کی محبوب مخلوق اور اُس کے محبوب اَعمال و اَفعال کا اِستغاثہ کرنا حکمِ خداوندی میں شامل ہے۔ اَب ہم اِس کی چند مثالیں قرآن و حدیث سے پیش کرتے ہیں۔

1۔ کلامِ مجید میں ہے : وَ اسْتَعِيْنُوْا بِالصَّبْرِ وَ الصَّلٰوة.

اور صبر اور نماز کے ذریعے (اللہ سے) مدد چاہو۔ (البقره، 2 : 45)

یہاں صبر اور صلوٰۃ جیسے اَعمالِ صالحہ سے اِستعانت کا حکم باقاعدہ اَمرِ خداوندی ہے جس میں مؤمنین کو یہ حکم دیا جا رہا ہے کہ صبر اور صلوٰۃ جیسے اَعمالِ صالحہ کو وسیلہ اور مستعانِ مجازی بنا کر اللہ ربّ العزّت جو مُستعان و مُستغاثِ حقیقی ہے، کی بارگاہ سے مدد طلب کرو۔

2۔ اِسی طرح ایک اور آیتِ کریمہ ملاحظہ ہو جس میں جہاد کے لئے سامانِ حرب کا اِستغاثہ کرنے اور جہاد کی تیاری کا حکم ہے۔ اِرشاد ربانی ہے :

وَ أعِدُّوْا لَهُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّةٍ وَّ مِنْ رِّبَاطِ الْخَيْلِ.

اور (اے مسلمانو!) اُن کے (مقابلے) کے لئے تم سے جس قدر ہو سکے (ہتھیاروں اور آلات جنگ کی) قوت مہیا رکھو اور بندھے ہوئے گھوڑوں کی (کھیپ بھی)۔ (الانفال، 8 : 60)

3۔ علاوہ ازیں قرانِ مجید میں اللہ ربّ العزّت کے محبوب ومکرم بندے حضرت ذوالقرنین علیہ السلام کے بارے میں بھی قرآن گواہ ہے کہ اُنہوں نے دُشمن کے مقابلے میں اپنی قوم سے مدد طلب کی۔ اِرشاد قرآنی ہے :

فَأعِيْنُوْنِیْ بِقُوَّةٍ.

تم اپنے زورِ بازو (یعنی محنت و مشقت) سے میری مدد کرو۔

(الکهف، 18 : 95)

4۔ صلوۃ الخوف۔۔۔ جو قرآن و سنت کی نصوصِ قطعیہ سے ثابت ہے۔۔۔ بھی اِستغاثہ مجازی کی بہترین مثال ہے، کیونکہ اُس کی مشروعیت میں بعض مخلوق کی غیراﷲ سے اِستعانت کی مشروعیت ہے۔

5۔ حدیثِ مبارکہ میں سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بارہا مؤمنین کو ایک دوسرے کی مدد و اِستعانت کا حکم اور ترغیب دی ہے۔ اِرشاد فرمایا :

مَنْ کَانَ فِیْ حَاجَةِ أخِيْهِ کَانَ اﷲُ فِیْ حَاجَتِهِ.

جو اپنے بھائی کی تکمیلِ حاجت میں مصروف ہو، اللہ اُس کی حاجت رَوائی خود فرماتا ہے۔

(صحيح البخاری، کتاب المظالم، 1 : 330)
(الصحيح لمسلم، کتاب البر و الصله، 2 : 320)

6۔ ایک اور حدیثِ مبارکہ میں یہی مضمون کچھ اِس طرح سے آیا ہے :

وَ اﷲُ فِی عَونِ العَبدِ مَا کانَ العبدُ فِی عَونِ أخيهِ.

اللہ بندے کی مدد میں مصروف ہوتا ہے جب تک بندہ اپنے کسی بھائی کی مدد میں مصروف ہو۔

(الصحيح لمسلم، کتاب الذکر، 2 : 345)
(جامع الترمذی، اَبواب القرأت، 2 : 118)

7۔ اِمام حاکم رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی مُستدرک میں ایک حدیثِ مبارکہ ذِکر کی ہے جس میں حضور سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابۂ کرام کو ایک دُوسرے کی مدد اور قضائے حاجات کے لئے حکم دیتے ہوئے اِس مبارک عمل کی اہمیّت یوں واضح فرمائی :

لأنْ يمشي أحدُکم مع أخيهِ فی قضاءِ حاجةٍ أفضل مِن أن يعتکفَ فی مسجدِي هٰذا شَهرين.

تم میں سے کسی کا اپنے بھائی کے ساتھ اُس کی مدد کے لئے جانا میری اِس مسجد میں دو ماہ اِعتکاف کرنے سے بہتر ہے۔

(المستدرک، 4 : 270)
(الترغیب والترهيب، 3 : 391)

8۔ اللہ تعالی نے لوگوں کے مصائب و مشکلات کے اِزالے اور حاجات کے پورا کرنے کے لئے بطورِ خاص ایک ایسی مخلوق پیدا کر رکھی ہے جو دُکھی اِنسانیت کی خدمت اور اُن کی مدد و نصرت کے لئے ہمہ دم تیار رہتی ہے۔ حدیثِ مبارکہ میں ہے :

إنّّ ﷲِ خلقاً خلقهم لِحوائجِ الناسِ تفزع الناسُ إليهم فی حوائجِهم أولئکَ الأمِنونَ من عذابِ اﷲِ.

اللہ تعالی نے لوگوں کی حاجات و ضروریات کی تکمیل کے لئے ایک مخلوق پیدا کر رکھی ہے تاکہ لوگ اپنی ضروریات (کی تکمیل) کے لئے اُن سے رجوع کریں۔ یہ لوگ عذابِ اِلٰہی سے محفوظ و مامون ہیں۔

(مجمع الزوائد، 8 : 192)
(الترغيب و الترهيب، 3 : 390)

اِس حدیثِ مبارکہ میں سرورِ دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے یہ اَلفاظ کہ ’’لوگ اُن سے اپنی ضروریات کی تکمیل کے لئے رُجوع کریں‘‘۔۔۔ خاص طور پر قابلِ غور ہیں۔ لوگوں کا اِستعانت و اِستغاثہ کی نیت سے اُس مخلوقِ خدا کی طرف جانا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مستحسن بیان فرمایا ہے، چہ جائیکہ دین کے کامل فہم سے ناآشنائی کے باعث اِسے حرام بلکہ شِرک قرار دیا جائے۔

9۔ اِسی مفہوم میں وارِد ایک اور حدیثِ مبارکہ کے اَلفاظ کچھ یوں ہیں :

إنّ ﷲِ عندَ أقوام نعمّا يقرّها عندهم ما کانوا فی حوائجِ الناس ما لم يملّوا، فإذا ملّوا نقلها إلی غيرهم.

اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے پاس اپنی نعمتیں رکھی ہیں، وہ بندے اِنسانوں کی ضروریات پورا کرنے میں لگے رہتے ہیں، جب تک کہ وہ اکتا نہ جائیں۔ جب وہ اکتا جاتے ہیں تو (یہی ڈیوٹی) دُوسروں کے سپرد کر دی جاتی ہے۔ (المعجم الاوسط، 9 : 161)
(الترغيب والترهيب، 3 : 390)

مذکورہ بالا آیات و احادیث سے یہ ثابت ہوا کہ مخلوق سے مدد مانگنا اور اپنے مسلمان بھائیوں کی مدد طلبی اور اِستغاثہ پر اُن کی مدد کو پہنچنا منشائے ربانی اور منشائے رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔ جس عمل کا حکم خود اﷲ ربّ العزّت اور اُس کے محبوب نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دِیا ہو اور جمیع اُمتِ مسلمہ نے ہر دَور میں اُس حکم کی تعمیل میں لبیک کہا ہو وہ ہرگز شِرک و بِدعت نہیں ہو سکتا۔ قابلِ توجہ پہلو یہ ہے کہ مذکورہ آیات و احادیث اِستغاثہ کے لئے صرف جواز اور حلت کا نہیں بلکہ اَمرِ ربانی کا درجہ رکھتی ہیں۔

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...