Saturday 27 June 2015

بدعت کی تعریف و اقسام ( 7 )

0 comments

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
بدعت کی دوسری تقسیم

1 ۔ بدعتِ حسنہ

1 ۔ بدعتِ سیّئۃ

1۔ بدعتِ حسنہ

بدعتِ حسنہ سے مراد وہ نیا عمل ہے جس کی اَصل، مثال یا نظیر کتاب و سنت میں موجود ہو اوروہ احکامِ شریعت سے متخالف و متناقض نہ ہو بلکہ شریعت کے مستحسنات کے تحت داخل ہو۔

1۔ اِمام بدرالدین عینی (855ھ) ’’عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری (11 : 126)’’ میں بدعت کی تعریف اور تقسیم کرتے ہوئے بدعتِ حسنہ اور بدعتِ قبیحہ کے بارے میں لکھتے ہیں :

البدعة علی نوعين : اِن کانت مما يندرج تحت مستحسن فی الشرع فهی بدعة حسنة واِن کانت مما يندرج تحت مستقبح فی الشرع فهی بدعة مستقبحة.

’’بدعت کی دوقسمیں ہیں، اگر یہ شریعت کے مستحسنات کے تحت آ جائے تو یہ بدعتِ حسنہ ہے اور اگر یہ شریعت کے مستقبحات کے تحت آ جائے تو یہ بدعتِ مستقبحۃ ہو گی۔’’

2۔ اِمام اَبو زکریا محی الدین بن شرف نووی بدعت کو بنیادی طور پر حسنہ اور سیّئہ میں تقسیم کرتے ہوئے اپنی کتاب ’’تہذیب الاسماء واللغات’’ میں فرماتے ہیں :

البدعة منقسمة الی حسنة و قبيحة وقال الشيخ الامام المجمع علی امامته و جلالته و تمکنه فی انواع العلوم و براعته ابو محمد عبدالعزيز بن عبدالسلام فی آخر ’’کتاب القواعد’’ البدعة منقسمة إلی واجبة و محرمة و مندوبة و مکروهة و مباحة قال والطريق فی ذلک أن تعرض البدعة علی قواعد الشريعة فان دخلت فی قواعد الايجاب فهی واجبة و إن دخلت فی قواعد التحريم فهی محرمة و إن دخلت فی قواعد المندوب فهی مندوبه و ان دخلت فی قواعد المکروه فهی مکروهة و ان دخلت فی قواعد المباح فهی مباحة.

    تهذيب الأسماء واللغات، 3 : 22

    نووی، شرح صحيح مسلم، 1 : 286

    سيوطی، حسن المقصد فی عمل المولد : 51

’’بدعت کو بدعت حسنہ اور بدعت قبیحہ میں تقسیم کیا گیا ہے اور شیخ عبدالعزیز بن عبدالسلام ’’کتاب القواعد’’ میں فرماتے ہیں۔ بدعت کو بدعت واجبہ، محرمہ، مندوبہ، مکروھہ اور مباحہ میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ اس کے جاننے کا طریقہ یہ ہے کہ بدعت کا قواعدِ شرعیہ سے موازنہ کیا جائے، اگر وہ بدعت قواعد ایجاب کے تحت داخل ہے تو واجب ہے اور اگر قواعدِ تحریم کے تحت داخل ہے تو حرام ہے اور اگر قواعدِ استحباب کے تحت داخل ہے تو مستحب ہے اور اگر کراھت کے قاعدہ کے تحت داخل ہے تو مکروہ اور اگر اباحت کے قاعدہ میں داخل ہے تو مباح ہے۔’’

3۔ ابن تیمیہ ’’بدعت حسنہ’’ اور ’’بدعت ضلالہ’’ کے مفہوم کو مزید واضح کرتے ہوئے بیان کرتا ہے :

قال الشافعي رحمه اﷲ : البدعة بدعتان بدعة خالفت کتابا و سنة و إجماعا و أثرا عن بعض أصحاب رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم فهذه بدعه ضلاله و بدعه لم تخالف شيئا من ذلک فهذه قد تکون حسنة لقول عمر نعمت البدعة هذه.(1) هذا الکلام أو نحوه رواه البيهقي بإسناده الصحيح فی المدخل.(2)

(1) 1. مالک، المؤطا، باب ما جاء فی قيام رمضان، 1 : 114، رقم : 250

2. بيهقی، شعب الايمان، 3 : 177، رقم : 3269

3. سيوطی، تنوير الحوالک شرح مؤطا مالک، 1 : 105، رقم : 250

(2) ابن تيمية، کتب ورسائل و فتاوی ابن تيمية فی الفقه، 20 : 16

’’امام شافعی نے بدعت کی دو قسمیں بیان کی ہیں : ایک وہ بدعت جو قرآن و سنت، اجماع اور بعض اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اقوال کے خلاف ہو تو وہ بدعت ضلالہ ہے۔ اور جو بدعت ان تمام چیزوں (یعنی قرآن و سنت، اجماع اور آثارِ صحابہ) میں سے کسی کے مخالف نہ ہو تو وہی بدعت حسنہ ہے۔ جیسے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قول ہے ’’نعمت البدعة هذه’’ یہ یا اس جیسا دوسرا بیان اسے امام بیہقی نے اپنی صحیح اسناد کے ساتھ ’’المدخل’’ میں روایت کیا ہے۔’’

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔