Wednesday, 24 June 2015

اسلام میں عورتوں کے حقوق 10

ریاستِ مدینہ میں حقِ رائے دہی

ریاستِ مدینہ کے مقام کے ساتھ ہی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی سنت مبارکہ سے عورت کے حق رائے دہی کو قانونی بنیاد فراہم فرمائی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اسی سنت مبارکہ پر عمل کرتے ہوئے خلفائے راشدین نے اپنے ادوار میں خواتین کی رائے کی ریاستی معاملات میں شمولیت یقینی بنائی۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسلام میں داخل ہونے والے مردوں سے جس طرح بیعت لیتے تھے اسی طرح عورتوں سے بھی بیعت لیتے تھے۔ قرآن حکیم عورتوں کی بیعت سے متعلق فرماتا ہے :
يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا جَاءَكَ الْمُؤْمِنَاتُ يُبَايِعْنَكَ عَلَى أَن لَّا يُشْرِكْنَ بِاللَّهِ شَيْئًا وَلَا يَسْرِقْنَ وَلَا يَزْنِينَ وَلَا يَقْتُلْنَ أَوْلَادَهُنَّ وَلَا يَأْتِينَ بِبُهْتَانٍ يَفْتَرِينَهُ بَيْنَ أَيْدِيهِنَّ وَأَرْجُلِهِنَّ وَلَا يَعْصِينَكَ فِي مَعْرُوفٍ فَبَايِعْهُنَّ وَاسْتَغْفِرْ لَهُنَّ اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌO
’’اے نبی! جب آپ کی خدمت میں مومن عورتیں اس بات پر بیعت کرنے کے لیے حاضر ہوں کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہیں ٹھہرائیں گی اور چوری نہیں کریں گی اور بدکاری نہیں کریں گی اور اپنی اولاد کو قتل نہیں کریں گی اور اپنے ہاتھوں اور پاؤں کے درمیان سے کوئی جھوٹا بہتان گھڑ کر نہیں لائیں گی (یعنی اپنے شوہر کو دھوکہ دیتے ہوئے کسی غیر کے بچے کو اپنے پیٹ سے جنا ہوا نہیں بتائیں گی) اور (کسی بھی) امرِ شریعت میں آپ کی نافرمانی نہیں کریں گی، تو آپ اُن سے بیعت لے لیا کریں اور اُن کے لیے اللہ سے بخشش طلب فرمائیں، بے شک اللہ بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہےo‘‘
القرآن، الممتحنه، 60 : 12
اسی طرح مختلف احادیث میں ہے کہ صحابیات حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت کرتیں :
1۔ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا روایت کرتی ہیں :
أن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم کان يمتحن من هاجر إليه من المؤمنات بهذه الآية بقول اﷲ : (يٰاَيُّهَا النَّبِیُّ اِذَا جَآءَکَ الْمُؤْمِنٰتُ يبَايِعْنَکَ). . . إلي قوله. . . (غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌo) قال عروة : قالت عائشة : فمن أقر بهذا الشرط من المؤمنات، قال لها رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : قد بايعتک. کلاما، ولا واﷲ ما مست يده يد امرأة قط في المبايعة، ما يبايعهن إلا بقوله : قد بايعتک علي ذلک.
’’جو مسلمان عورتیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف ہجرت کر کے آتیں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آیت (اے نبی! جب آپ کی خدمت میں مومن عورتیں اس بات پر بیعت کرنے کے لیے حاضر ہوں)۔ ۔ ۔ تا۔ ۔ ۔ (بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہے) کے مطابق اُن کا امتحان لیا کرتے۔ عروہ کا بیان ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ نے فرمایا کہ جو مسلمان عورتیں ان شرائط کا اقرار کرتیں تو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان عورتوں سے فرما دیا کرتے کہ میں نے تمہیں بیعت کر لیا۔ اور خدا کی قسم، بیعت کرتے وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دست مبارک نے کسی عورت کا ہاتھ قطعاً نہیں چھوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عورتوں کو بیعت کرنا صرف زبانی کلامی ہوتا کہ فرما دیتے کہ میں نے تمہیں فلاں بات پر بیعت کر لیا ہے۔‘‘
1. بخاري، الصحيح، کتاب تفسير القرآن، باب إذا جاء کم المؤمنات، 4 : 1856، رقم : 4609
2. بخاري، الصحيح، کتاب الطلاق، باب إذا اسلمت المشرکة، 5 : 2025، 2026، رقم : 4983
3. احمد بن حنبل، المسند، 6 : 270
4. طبراني، المعجم الاوسط، 4 : 272، رقم : 4173
5. طبراني، المعجم الصغير، 1 : 327، رقم : 541
6. ابن منده، الايمان، 2؛ 528، رقم : 494
7. ابن منده، الايمان، 2 : 528، رقم : 494
8. مبارک پوري، تحفة الاحوذي، 9 : 143، 144
2۔ حضرت ام عطیہ رضی اﷲ عنہا روایت کرتی ہیں :
بايعنا النبي صلي الله عليه وآله وسلم ، فقرأ علينا : (أَنْ لاَّ يشْرِکْنَ بِاﷲِ شَيْئًا) و نهانا عن النياحة، فقبضت امرأة منا يدها، فقالت : فلانة أسعدتني، و أنا أريد أن أجزيها، فلم يقل شيئا، فذهبت ثم رجعت، فما وفت امرأة إلا أم سليم، و أم العلاء، و ابنة أبي سبرة امرأة معاذ، أو ابنة أبي سبرة، و امرأة معاذ.
’’ہم نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بیعت کی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ آیت پڑھی : ’’اور تم اﷲ کا کسی کو شریک نہ ٹھہرانا‘‘ اور ہمیں نوحہ کرنے سے منع فرمایا۔ چنانچہ ہم میں سے ایک عورت نے اپنا ہاتھ روک لیا اور عرض گزار ہوئی کہ فلاں عورت نے نوحہ کرنے میں میری مدد کی تھی اور میں اس کا بدلہ اتارنا چاہتی ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کچھ نہ فرمایا، وہ چلی گئی اور پھر لوٹ کر آئی۔ یہ باتیں ام سلیم، ام العلاء، ابوسبرہ کی صاحبزادی اور معاذ کی بیوی کے سوا دیگر عورتوں سے پوری طرح نبھائی نہ جا سکیں۔‘‘
1. بخاري، الصحيح، کتاب الاحکام، باب بيعة النساء، 6 : 2637، رقم : 6789
2. بيهقي، السنن الکبريٰ، 4 : 62
3. عسقلاني، فتح الباري، 8 : 638
4. ابن کثير، تفسير القرآن العظيم، 4 : 354
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس سنت مبارکہ پر عمل خلافت راشدہ کے دور میں بھی جاری رہا اور رائے دہی کے معاملات میں خواتین کو بھرپور شمولیت دی گئی۔ حضرت مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ سے مروی روایت میں ہے کہ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے بعد جانشین کے انتخاب کے لئے چھ رکنی کمیٹی تشکیل دی تو حضرت عبدالرحمن بن عوفص کو چیف الیکشن کمشنر نامزد کر دیا گیا۔ انہوں نے استصواب عام کے ذریعے مسلسل تین دن گھر گھر جا کر لوگوں کی آراء معلوم کیں جن کے مطابق بھاری اکثریت نے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو خلیفہ بنائے جانے کے حق میں فیصلہ دیا۔ اس الیکشن میں خواتین بھی شامل ہوئیں اور تاریخ میں پہلی بار ایسی مثال قائم کی گئی(1)، جبکہ آج کے دور دور میں ہم سیاسی معاملات میں عورت کی شمولیت کا سہرا مغرب کے سر رکھتے ہیں حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ یہ اسلام ہی تھا جس نے آج سے چودہ سو سال قبل عورت کو رائے حق دہی کا حق عطا کیا۔
1. بخاري، الصحيح، کتاب الاحکام، باب کيف يبايع، 6 : 2634، 2635، رقم : 6781
2. بيهقي، السنن الکبريٰ، 8 : 147
3. طبري، تاريخ الامم و الملوک، 3 : 35. 37
4. ابن کثير، البدايه و النهايه، 5 : 226، 227

(3) مقننہ (parliament) میں نمائندگی کا حق

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عطا کردہ زریں جمہوری اصولوں پر خلفائے راشدین بھی کاربند رہے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے مختلف ریاستی معاملات میں خواتین سے مشاورت کی۔ ایک رات حضرت عمر رضی اللہ عنہ مدینہ منورہ میں لوگوں کے مسائل سے آگہی کے لئے گھوم رہے تھے کہ ایک گھرسے آپ رضی اللہ عنہ نے ایک عورت کے اشعار سنے جس میں وہ اپنے شوہر کی جدائی کا ذکر کر رہی تھی۔ جس کا شوہر جہاد پر جانے کی وجہ سے کافی عرصہ سے گھر سے دور تھا۔ اس معاملہ نے آپ کو پریشان کردیا اور آپ نے واپس آتے ہی ام المؤمنین حضرت حفصہ رضی اﷲ عنہا سے اس پر مشاورت کی اور ان کے مشورہ سے مجاہدین کے گھر سے دور رہنے کی زیادہ سے زیادہ مدت چار ماہ مقرر فرمائی۔
سيوطي، تاريخ الخلفاء : 139
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے نظام خلافت کی تفاصیل سے واضح ہوتا ہے کہ آپ کی مجلس شوریٰ میں خواتین کو بھی نمائندگی حاصل تھی۔ ایک موقع پر جب آپ نے مجلس شوریٰ سے عورتوں کے مہر کی مقدار متعین کرنے پر رائے لی تو مجلس شوریٰ میں موجود ایک عورت نے کہا آپ کو اس کا حق اور اختیار نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
وَإِنْ أَرَدتُّمُ اسْتِبْدَالَ زَوْجٍ مَّكَانَ زَوْجٍ وَآتَيْتُمْ إِحْدَاهُنَّ قِنطَارًا فَلاَ تَأْخُذُواْ مِنْهُ شَيْئًا أَتَأْخُذُونَهُ بُهْتَاناً وَإِثْماً مُّبِيناًO
’’اور اگر تم ایک بیوی کے بدلے دوسری بیوی بدلنا چاہو اور تم اسے ڈھیروں مال دے چکے ہو تب بھی اس میں سے کچھ واپس مت لو۔ کیا تم ظلم و دہشت کے ذریعے اور کھلا گناہ کرکے وہ مال (واپس) لوگےo‘‘
القرآن، النساء، 4 : 20
اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی تجویز واپس لے لی اور فرمایا :
امرأة خاصمت عمر فخصمته.
’’ایک عورت نے عمر سے بحث کی اور وہ اُس پر غالب آگئی۔‘‘
عبدالرزاق، المصنف، 6 : 180، رقم : 10420
دوسری روایت کے مطابق آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا :
امراة أصابت و رجل أخطاء.
’’عورت نے صحیح بات کی اور مرد نے غلطی۔‘‘
شوکاني، نيل الاوطار، 6 : 170
اس واقعہ کی رو سے یہ بات ملحوظ خاطر رہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کسی عوامی جگہ یعنی مارکیٹ، بازار وغیرہ میں ریاستی معاملہ discuss نہیں کر رہے تھے بلکہ یہ مسئلہ پارلیمنٹ میں زیر غور تھا جس کا مطلب ہے کہ عامۃ الناس کی بجائے منتخب افراد ہی اس عمل مشاورت میں شریک تھے۔ لہٰذا ایک خاتون کا کھڑے ہو کر بل پر اعتراض کرنے سے یہ مفہوم نمایاں طور پر اخذ ہوتا ہے کہ اس دور میں خواتین کو ریاستی معاملات میں شرکت کرنے، حکومت میں شامل ہونے اور اپنی رائے پیش کرنے کا اختیار حاصل تھا۔ مزید برآں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا بل واپس لے لینا اور اپنی غلطی کا اعتراف کر لینا اس بات کا بین ثبوت ہے کہ اسلام میں جنسی امتیاز کے لئے کوئی جگہ نہیں اور مرد و زن کو یکساں حقوق حاصل ہیں۔
ثانیاً اس واقعہ سے اسلامی ریاست کے آئینی و قانونی معاملات چلانے کے بارے میں بھی ہدایات ملتی ہیں، اسلامی ریاست میں بل پارلیمنٹ کے سامنے پیش کیا جاتا ہے اور پھر ہر رکن پارلیمنٹ اس کے بارے میں اپنی رائے دیتا ہے۔ اگر مخالفت میں دلائل ٹھوس اور مضبوط ہوں تو بل واپس بھی لیا جاتا ہے ورنہ باہمی اتفاق رائے سے وہ بل قانون بنا دیا جاتا ہے، اور دورِ جدید میں یہی طریقہ کار جمہوریت کہلاتا ہے۔

(4) عورت بطور سیاسی مشیر

اسلام سے قبل خواتین کو کسی بھی سماجی یا سیاسی کردار کا اہل نہیں سمجھا جاتا تھا۔ اسلام نے عورت کو سماجی و معاشرتی زندگی میں پر وقار عطا کیا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی سنت مبارکہ سے خواتین سے مشاورت کی تعلیم دی۔ آغازِ نبوت میں حضرت خدیجہ رضی اﷲ عنہا کا کردار اس کی واضح نظیر ہے۔ صلح حدیبیہ کے موقع پر صحابہ کرام ث کفار مکہ سے معاہدہ کے بعد ظاہری صورت حال کے پیش نظر مغموم تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب انہیں ارشاد فرمایا :
قوموا فانحروا ثم احلقوا.
’’کھڑے ہو جاؤ اور قربانی کرو اور بال کٹواؤ۔‘‘
1. بخاري، الصحيح، کتاب الشروط، باب الشروط في الجهاد، 2 : 978، رقم : 2581
2. ابوداؤد، السنن، کتاب الجهاد، باب في صلح العدو، 3 : 85، رقم : 2765
3. احمد بن حنبل، المسند، 4 : 330
4. عبدالرزاق، المصنف، 5 : 340، رقم : 9720
5. ابن ابي شيبه، المصنف، 7 : 389، رقم : 36855
6. ابن جارود، المنتقي : 133، رقم : 505
7. بيهقي، السنن الکبري، 5 : 215
8. بيهقي، السنن الکبري، 9 : 220
9. طبراني، المعجم، الکبير، 20 : 14، رقم : 13
تو صحابہ رضی اللہ عنہ میں سے کوئی بھی کھڑا نہ ہوا۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی قیام گاہ پر حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ کے پاس تشریف لائے اور ان سے مشورہ کیا تو حضرت ام سلمہ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مشورہ دیتے ہوئے فرمایا :
يا نبي اﷲ : اتحب ذلک. . . اخرج اليهم ثم لا تکلم احدا منهم کلمة حتي تنحر بدنک، و تدعو حالقک، فيحلقک فخرج، فلم يکلم احدا منهم حتي فعل ذلک. . . نحر بدنه و دعا حالقه فحلقه، فلما رأوا ذلک قاموا فنحروا، و جعل بعضهم يحلق بعض حتي کاد بعضهم يقتل بعض غما.
’’اے نبی اللہ! کیا آپ یہ چاہتے ہیں کہ وہ آپ کے حسب حکم قربانی کریں اور سرمنڈوائیں۔ ۔ ۔ (تو پھر) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کی طرف تشریف لے جائیں اور ان میں سے کسی سے بھی گفتگو نہ کریں بلکہ اپنی قربانی کا جانور ذبح فرمائیں۔ اور حجام کو بلائیں جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بال کاٹے گا۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم باہر تشریف لے گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کسی سے کلام نہ فرمایا بلکہ اسی طرح کیا یعنی قربانی کا جانور ذبح کیا اور حجام کو بلایا جس نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بال کاٹے جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے یہ دیکھا تو کھڑے ہوگئے اور قربانی کرنے لگے اور ایک دوسرے کے بال بنانے لگے۔ حالانکہ ان کی شدت غم کا یہ عالم تھا کہ گویا ایک دوسرے کو (اس غم سے) قتل کر دیتے۔‘‘
1. بخاري، الصحيح، کتاب الشروط، باب الشروط في الجهاد، 2 : 978، رقم : 2581
2. عبدالرزاق، المصنف، 5 : 340، رقم : 9720
3. طبري، تاريخ الامم و الملوک، 2 : 637
4. ابن حبان، الصحيح، 11 : 225، رقم : 4872
5. ابن حزم، الاحکام، 4 : 447
صلح حدیبیہ کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ام سلمہ رضی اﷲ عنہا سے مشورہ کرنا صائبۃ الرائے خواتین سے مشاورت کا اصول بیان کرتا ہے۔
ابن حجر عسقلاني، فتح الباري، 6 : 275
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس تعلیم پر خلفائے راشدین بھی عمل پیرا رہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عسکری خدمات انجام دینے والے افراد کے گھر سے باہر رہنے کی مدت کا تعین ام المؤمنین حضرت حفصہ رضی اﷲ عنہا کے مشورہ سے کیا۔

(5) اِنتظامی ذمہ داریوں پر تقرری کا حق

مسلم معاشرے میں خواتین کو صرف مجلس شوریٰ کی رکنیت کا حق ہی حاصل نہیں تھا بلکہ وہ مختلف انتظامی ذمہ داریوں پر بھی فائز رہیں مثلاًحضرت عمر رضی اللہ عنہ نے شفا بنت عبداللہ عدویہ کو بازار کا نگران مقرر کیا تھا۔ وہ قضاء الحسبہ (Accountability Court) اور قضاء سوق (Market Administration) کی ذمہ دار تھیں۔
شفاء بڑی سمجھ دار اور با صلاحیت خاتون تھیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ان کی رائے کو مقدم رکھتے تھے اور پسند فرمایا کرتے تھے اور دوسروں پر فضیلت دیتے تھے۔
1. ابن حزم، المحلي، 9 : 429
2. ابن عبدالبر، الاستيعاب بر حاشيه الاصابه، 4 : 341
حضرت سمراء بنت نہیک اسدیہ رضی اﷲ عنہا نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا زمانہ مبارک پایا تھا اور کافی عمر رسیدہ تھیں۔ وہ جب بازار میں سے گزرتیں تو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرتی تھیں۔ ان کے پاس ایک کوڑا تھا جس سے ان لوگوں کو مارتی تھیں جو کسی برے کام میں مشغول ہوتے۔
ابن عبدالبر، الاستيعاب بر حاشيه الاصابه، 4 : 335

(6) سفارتی مناصب پر فائز ہونے کا حق

ریاستی معاملات میں عورت کے کردار پر اسلام کے اعتماد کا نتیجہ تھا کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اپنے دورِ خلافت میں 28ھ میں حضرت اُم کلثوم بنت علی رضی اﷲ عنہما کو ملکہ روم کے دربار میں سفارتی مشن پر بھیجا۔
بعثت أم کلثوم بنت عليّ بن أبي طالب إلي ملکة الروم بطيب و مشارب واحفاش من احفاش النساء. . . وجاء ت امرأة هرقل و جمعت نساء ها و قالت : هذه هدية امرأة ملک العرب و بنت نبيهم.
’’حضرت اُم کلثوم بنت علی بن ابو طالب رضی اﷲ عنھما کو روم کی ملکہ کی طرف خوشبو، مشروبات اور عورتوں کے سامان رکھنے کے صندوقچے دے کر بھیجا گیا۔ ۔ ۔ ۔ آپ کے اِستقبال کے لیے ہرقل کی زوجہ آئی اور اس نے (روم کی) خواتین کو جمع کیا اور کہا : یہ تحفے عرب کے بادشاہ کی بیوی اور ان کے نبی کی بیٹی لے کر آئی ہیں۔‘‘
طبري، تاريخ الامم والملوک، 2 : 601
اس طرح آپ نے سفارتی مناصب پر عورتوں کی تقرری کی نظیر قائم فرمائی۔

(7) ریاست کی دفاعی ذمہ داریوں میں نمائندگی کا حق

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دور مبارک میں عورتیں جہاد میں برابر حصہ لیتی تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عورتوں کو جہاد میں حصہ لینے کی حوصلہ افزائی فرمائی، عورتو ں کی یہ حیثیت اسلامی معاشرے میں ان کے فعال کردار اور نمایاں مقام کا مظہر ہے :
عن انس قال : دخل رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم علي ابنة ملحان فاتکأ عندها، ثم ضحک، فقالت : لم تضحک يا رسول اﷲ؟ فقال : ناس من امتي يرکبون البحر الأخضر في سبيل اﷲ، مثلهم مثل الملوک علي الاسرة. فقالت : يا رسول اﷲ، ادع اﷲ ان يجعلني منهم. قال : اللهم اجعلها منهم، ثم عاد فضحک فقالت له مثل أو ممّ ذلک؟ فقال لها مثل ذلک، فقالت : ادع اﷲ ان يجعلني منهم. قال : انت من الاولين ولست من الاخرين. قال انس : فتروجت عبادة بن الصامت فرکبت البحر مع بنت قرظة، فلما قفلت، رکبت دآبتها فوقصت بها فسقطت عنها فماتت.
’’حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بنت ملحان رضی اﷲ عنہا کے گھر جلوہ افروز ہوئے تو ٹیک لگائی اور سو گئے پھر ہنسے تو انہوں نے دریافت کیا : یا رسول اﷲ! آپ کو کس چیز نے ہنسایا ہے؟ فرمایا، میری امت کے کچھ افراد راہ خدا میں اس سبز سمندر پر سواری کر رہے ہیں۔ ان کی مثال ایسی ہے جیسے بادشاہ اپنے تختوں پر بیٹھتے ہیں۔ عرض گزار ہوئیں : یا رسول اﷲ! دعا کیجئے کہ اللہ تعالیٰ مجھے ان میں شمار فرما لے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعا کی : اے اللہ! اسے ان میں شامل فرما لے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پھر سو گئے اور پھر ہنسے اور پھر اسی طرح پوچھا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پہلے کی طرح جواب دیا۔ انہوں نے التجا کی کہ اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئے، مجھے اس گروہ میں شامل فرما لے۔ فرمایا تمہارا شمار پہلے گروہ میں ہے نہ کہ دوسرے میں، حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اس کے بعد انہوں نے حضرت عبادہ بن صامت سے نکاح کر لیا پھر یہ (حضرت معاویہ کی بیوی) بنت قرظہ کے ہمراہ بحری سفر پر نکلیں جب واپس لوٹیں تو اپنے جانور پر سوار ہونے لگیں لیکن اس سے گر پڑیں اور جاں بحق ہو گئیں۔‘‘
بخاري، الصحيح، کتاب الجهاد والسير، باب غزو المرأة، 3 : 1055، رقم : 2722
عن انس قال : لما کان يوم احد انهزم الناس عن النبي صلي الله عليه وآله وسلم قال : ولقد رأيت عائشة بنت ابي بکر و ام سليم و انهما لمشمرتان، اري خدم سوقهما، تنقزان القرب و قال غيره : تنقلان القرب علي متونهما، ثم تفرغانه في أفواه القوم ثم ترجعان فتملآنها ثم تجيئان فتفرغانها في افواه القوم.
’’حضرت انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جب جنگ احد میں لوگ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دور ہو گئے تو میں نے حضرت عائشہ بنت ابوبکر اور حضرت اُم سلیم رضی اللہ عنہما کو دیکھا کہ دونوں نے اپنے دامن سمیٹے ہوئے ہیں اور میں ان کے پیروں کی پازیب دیکھ رہا تھا دونوں اپنی پیٹھ پر پانی کی مشکیں لاتیں اور پیاسے مسلمانوں کو پلاتی تھیں پھر لوٹ جاتیں اور مشکیزے بھر کر لاتیں اور پیاسے مسلمانوں کو پلاتیں۔‘‘
بخاري، الصحيح، کتاب الجهاد والسير، باب غزو المرأة، 3 : 1055، رقم : 2724
قال ثعلبة بن ابي مالک : ان عمر ابن الخطاب قسم مروطا بين نساء من نساء المدينة فبقي مرط جيد، فقال له بعض من عنده : يا أمير المومنين اعط هذا ابنة رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم التي عندک يريدون ام کلثوم بنت علي، فقال عمر : اُم سليط احق و ام سليط من نساء الانصار ممن بايع رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم قال عمر : فانها کانت تزفر لنا القرب يوم احد.
’’ثعلبہ بن ابو مالک روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے مدینہ منورہ کی مستورات میں کچھ چادریں تقسیم کی تھیں۔ ایک عمدہ چادر باقی بچی رہی۔ حاضرین میں سے کسی نے کہا اے امیرالمومنین! یہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس صاحبزادی کو دے دیجئے جو آپ کے حرم میں ہے۔ ان کی مراد ام کلثوم بنت علی رضی اللہ عنہما سے تھی۔ حضرت عمر نے فرمایا کہ ام سلیط زیادہ حقدار ہیں اور ام سلیط انصار کی ان عورتوں میں سے ہیں جنہوں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دست مبارک پر بیعت کی تھی اور یہ اس لئے بھی زیادہ حقدار ہیں کہ جنگ احد میں ہمارے لئے مشک بھر بھر کر لاتی تھیں۔‘‘
بخاري، الصحيح، کتاب الجهاد والسير، باب حمل النساء، 3 : 1056، رقم : 2725
عن انس قال کان رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يغزوبأم سليم و نسوة معها من الانصار يسقين المآء ويدا وين الجرحي.
’’حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُم سلیم اور کچھ انصاری خواتین کے ہمراہ جہاد فرماتے تھے یہ خواتین پانی پلاتی تھیں اور زخمیوں کی مرہم پٹی کرتی تھیں۔‘‘
1. ترمذي، السنن، کتاب السير، ماجاء في الخروج، 4 : 139، رقم : 1575
2. ابوداؤد، السنن، کتاب الجهاد، باب في النساء يغزون، 3 : 18، رقم : 2531
3. ابن حبان، الصحيح، 11 : 26، رقم : 4723
عن ام عطية قالت غزوت مع رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم سبع غزوات اخلفهم في رحالهم فاصنع لهم الطعام و اداوي الجرحي و اقوم علي المرضي.
’’حضرت اُم عطیہ فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ سات جہاد کیے میں غازیوں کی منزلوں میں ان کے پیچھے رہتی تھی ان کے لئے کھانا پکاتی تھی زخمیوں کی مرہم پٹی کرتی تھی اور بیماروں کے علاج کا انتظام کرتی تھی۔‘‘
مسلم، الصحيح، کتاب الجهاد والسير، باب النساء الغازيات، 3 : 1447، رقم : 1812
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دور مبارک میں ایسی خواتین کا تذکرہ ملتا ہے جنہوں نے بے مثال عسکری خدمات انجام دیں حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا اور حضرت نسیبہ بنت کعب نے غزوہ احد میں شرکت کی، صفیہ بنت عبدالمطلب نے غزوہ خیبر میں یہودی کو قتل کیا۔ ازرہ بنت الحارث نے اہل بیسان کے خلاف لڑائی میں حصہ لیا۔ ام عطیہ الانصاریہ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ سات غزوات میں شرکت کی۔ ام حکیم بنت الحارث روم کے خلاف معرکے میں شریک تھیں۔ یہی نہیں، کتب تاریخ بے شمار دیگر خواتین کے عسکری کردار کا تذکرہ بھی پیش کرتی ہیں۔
1. واقدي، المغازي، 2 : 574
2. بيهقي، دلائل النبوة، 2 : 712
3. بلازري، انساب الاشراف، 1 : 326

(8) عورت کا حقِ اَمان دہی

عورت کے ریاستی کردار کا نمایاں اظہار اسے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے عطا کردہ حق امان دہی سے بھی ہوتاہے۔
1۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صاحبزادی حضرت زینب رضی اﷲ عنہا نے اپنے شوہر ابوالعاص بن الربیع کو امان دی جسے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے برقرار رکھا۔
ابن هشام، السيرة النبوية، 1 : 657
2۔ حضرت ام ہانی بنت ابی طالب نے اپنے دیوروں میں سے دو اشخاص کو امان دی اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی امان کو بھی برقرار رکھتے ہوئے فرمایا :
قد أمّنا من أمّنت.
’’(اے اُم ہانی!) جس کو تم نے امان دی اس کو ہم نے بھی امان دی۔‘‘
1. ترمذي، السنن، کتاب السير، باب ما جاء في أمان العبد، 4 : 141، رقم : 1579
2. احمد بن حنبل، المسند، 6 : 341، رقم : 26936
3۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
إن المرأة تأخذ للقوم، يعني تجير علي المسلمين.
’’عورت پوری قوم کے لئے امان دے سکتی ہے یعنی مسلمانوں کی طرف سے امان دے سکتی ہے۔‘‘
1. ترمذي، السنن، کتاب السير، باب ما جاء في أمان العبد، 4 : 141، رقم : 1579
2. احمد بن حنبل، المسند، 2 : 365
4۔ عورت کی امان کا صحیح ہونا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام کے زمانہ میں ایک عام بات تھی۔ یہاں تک کہ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا نے فرمایا :
إن کانت المرأة لتجير علي المؤمنين فيجوز.
’’اگر کوئی عورت (مسلمانوں کی مصلحت کے خلاف بھی) کسی کو امان دے دے تو جائز ہے۔‘‘
ابوداؤد، السنن، کتاب الجهاد، باب في أمان المرأة، 3 : 84، رقم : 2764

No comments:

Post a Comment

مسئلہ رفع یدین مستند دلائل کی رشنی میں

مسئلہ رفع یدین مستند دلائل کی رشنی میں محترم قارئینِ کرام : علماء امت کا فیصلہ ہے کہ جن اختلافی مسائل میں ایک سے زائد صورتیں "سنّت&quo...