Saturday, 27 June 2015

بدعت کی تعریف و اقسام ( 8 )


٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
4۔ علامہ ابو اسحاق شاطبی بہت بڑے اُصولی، محدّث اور فقیہ گزرے ہیں۔ آپ کا شمار آٹھویں صدی ہجری کے جدید فکر کے حامل فقہاء میں ہوتا ہے۔ آپ اپنی معروف کتاب ’’الاعتصام (2 : 111)’’ میں بدعتِ حسنہ کا استناد و اِعتبار بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

فإن کان إعتبار المصالح المرسلة حقا فإعتبار البدع المستحسنة حق لأنهما يجريان من واد واحد. وإن لم يکن إعتبار البدع حقا، لم يصح إعتبار المصالح المرسلة.

’’مصالح مرسلہ اور بدعات حسنہ دونوں کا مآل ایک ہے اور دونوں برحق ہیں اور اگر بدعات حسنہ کا اعتبار صحیح نہ ہو تو مصالح مرسلہ کا اعتبار بھی صحیح نہیں ہو گا۔’’

5۔ علامہ ابن حجر عسقلانی نے اپنی مشہور و معروف تصنیف ’’فتح الباری شرح صحیح البخاری (4 : 253)’’ میں بدعت کی تعریف اور تقسیم پر بحث کرتے ہوئے لکھا ہے :

والبدعة أصلها ما أحدث علی غير مثال سابق، وتطلق فی الشرع فی مقابل السنة فتکون مذمومة، والتحقيق أنها إن کانت مما تندرج تحت مستحسن فی الشرع فهی حسنة، وإن کانت مما تندرج مستقبح فی الشرع فهی مستقبحة، وإلَّا فهی من قسم المباح وقد تنقسم إلی الأحکام الخمسة.

’’بدعت سے مراد ایسے نئے اُمور کا پیدا کیا جانا ہے جن کی مثال سابقہ دور میں نہ ملے اور ان اُمور کا اطلاق شریعت میں سنت کے خلاف ہو پس یہ ناپسندیدہ عمل ہے، اور بالتحقیق اگر وہ بدعت شریعت میں مستحسن ہو تو وہ بدعت حسنہ ہے اور اگر وہ بدعت شریعت میںناپسندیدہ ہو تو وہ بدعت مستقبحہ یعنی بری بدعت کہلائے گی اور اگر ایسی نہ ہو تو اس کا شمار بدعت مباحہ میں ہو گا۔ بدعت کو شریعت میں پانچ اقسام میں تقسیم کیا جاتا ہے (واجبہ، مندوبہ، محرمہ، مکروہہ اور مباحہ)۔’’

6۔ اِمام ابن حزم اُندلسی اپنی کتاب ’’الأحکام فی اُصول الاحکام (1 : 47)’’ میں بدعتِ حسنہ اور بدعتِ مذمومہ کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

والبدعة کل ما قيل أو فعل مما ليس له أصل فيما نسب إليه صلی الله عليه وآله وسلم و هو في الدين کل مالم يأت في القرآن ولا عن رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم إلا أن منها ما يؤجر عليه صاحبه و يعذر بما قصد إليه من الخير و منها ما يؤجر عليه صاحبه و يکون حسنا و هو ماکان أصله الإباحة کما روي عن عمر رضی الله عنه نعمت البدعة هذه(1) و هو ما کان فعل خير جاء النص بعموم استحبابه و إن لم يقرر عمله في النص و منها ما يکون مذموما ولا يعذر صاحبه و هو ما قامت به الحجة علی فساده فتمادی عليه القائل به.

(1) 1. مالک، المؤطا، 1 : 114، رقم : 250

2.بخاری، الصحيح، کتاب صلاة التراويح، باب فضل من قام رمضان، 2 : 707، رقم : 1906

3. ابن خزيمة، الصحيح، 2 : 155، رقم : 1100

4. بيهقی، السنن الکبریٰ، 2 : 493، رقم : 4379

5. بيهقی، شعب الايمان، 3 : 177، رقم : 3269

’’بدعت ہر اس قول اور فعل کو کہتے ہیں جس کی دین میں کوئی اصل یا دلیل نہ ہو اور اس کی نسبت حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف کی جائے لہٰذا دین میں ہر وہ بات بدعت ہے جس کی بنیاد کتاب و سنت پر نہ ہو مگر جس نئے کام کی بنیاد خیر پر ہو تو اس کے کرنے والے کو اس کے اِرادئہ خیر کی وجہ سے اَجر دیا جاتا ہے اور یہ بدعتِ حسنہ ہوتی ہے اور یہ ایسی بدعت ہے جس کی اصل اباحت ہے۔ جس طرح کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا نعمت البدعة هذه قول ہے۔ اور یہ وہی اچھا عمل تھا جس کے مستحب ہونے پر نص وارد ہوئی اگرچہ پہلے اس فعل پر صراحتاً نص نہیں تھی اور ان (بدعات) میں سے بعض افعال مذموم ہوتے ہیں لہٰذا اس کے عامل کو معذور نہیں سمجھا جاتا اور یہ ایسا فعل ہوتا ہے جس کے ناجائز ہونے پر دلیل قائم ہوتی ہے اور اس کا قائل اس پر سختی سے عامل ہوتا ہے۔’’

2۔ بدعتِ سیّئۃ : ۔

بدعتِ سیئہ سے مراد وہ نیا عمل ہے جو قرآن و حدیث کے مخالف ہو اور اس کی اصل مثال یا نظیر بھی کتاب و سنت میں نہ ہو دوسرے لفظوں میں بدعت سیئہ سے مراد وہ بدعت ہے جو کسی سنت کے ترک کا باعث بنے اور امرِ دین کو توڑے۔

1۔ علامہ اسماعیل حقی (1137ھ) بدعت کی تعریف بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ بدعت صرف اُس عمل کو کہا جائے گا جو سنتِ رسول یا عملِ صحابہ و تابعین کے خلاف ہو، فرماتے ہیں :

أن البدعة هی الفعلة المخترعة فی الدين علی خلاف ما کان عليه النبی صلی الله عليه وآله وسلم وکانت عليه الصحابة والتابعون.

اسماعيل حقی، تفسير روح البيان، 9 : 24

’’بدعت اس فعل کو کہا جاتا ہے جو نبی علیہ الصلوٰۃ و السلام کی سنت کے خلاف گھڑا جائے ایسے ہی وہ عمل صحابہ و تابعین رضی اللہ عنہم کے طریقے کے بھی مخالف ہو۔’’

2۔ اِمام ملا علی قاری حدیث مبارکہ کل بدعة ضلالة کی شرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

أی کل بدعة سيئة ضلالة، لقوله عليه الصلوة والسلام : من سنّ فی الاسلام سنّة حسنة فله اجرها و أجر من عمل بها(1) وجمع أبوبکر وعمر القرآن و کتبه زيد فی المصحف و جدد فی عهد عثمان.(2)

(1) 1. مسلم، الصحيح، کتاب الزکوٰة، باب الحث علی الصدقه، 2 : 705، رقم : 1017

2. نسائی، السنن، کتاب الزکاة، باب التحريض علی الصدقه، 5 : 55، 56، رقم : 2554

3. ابن ماجه، السنن، المقدمة، باب سن سنة حسنة أو سيئة، 1 : 74، رقم : 203

4. أحمد بن حنبل، المسند، 4 : 357.359

(2) ملا علی قاری، مرقاة المفاتيح شرح مشکاة المصابيح، 1 : 216

’’یعنی ہر بری بدعت گمراہی ہے کیوں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے : ’’جس نے اسلام میں کوئی اچھا طریقہ ایجاد کیا تو اس کو اس عمل کا اور اس پر عمل کرنے والے کا اجر ملے گا۔’’ اور یہ کہ حضرت شیخین ابوبکر رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ نے قرآن کریم کو جمع کیا اور حصرت زید رضی اللہ عنہ نے اس کو صحیفہ میں لکھا اور عہد عثمانی میں اس کی تجدید کی گئی۔’’

3۔ اِمام ابن حجر مکی (976ھ) اِسی حدیث کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

وفی الحديث کل بدعة ضلالة وکل ضلالة فی النار(1) وهو محمول علی المحرمة لا غير.(2)

(1) 1. أبو داود، السنن، کتاب السنة، باب فی لزوم السنة، 4 : 200، رقم : 4607

2. ترمذی، الجامع الصحيح، کتاب العلم، باب ما جاء فی الأخذ بالسنة، 5 : 44، رقم : 2676

3. ابن ماجه، السنن، مقدمه، باب اتباع السنة الخلفاء الراشدين، 1 : 15، رقم : 42

4. احمد بن حنبل، المسند، 4 : 126

5. ابن حبان، الصحيح، 1 : 178، رقم : 5

6. طبرانی، مسند الشاميين، 1 : 446، رقم : 786

7. طبرانی، المعجم الکبير، 18 : 249، رقم : 624

(2) ابن حجر مکی،الفتاوی الحديثيه : 130

’’اور جو حدیث میں ہے کہ ’’ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی جہنم میں لے جائے گی’’ اس حدیث کو بدعتِ محرمہ پر محمول کیا گیا ہے، اس کے علاوہ اور کسی پر نہیں۔’’

4۔ مشہور غیر مقلد نواب وحید الزمان بدعت کی اقسام بیان کرتے ہوئے بدعتِ سیئہ کے حوالے سے لکھتا ہے :

ومنها ما هی ترک المسنون و تحريف المشروع وهی الضلالة وقال السيد البدعة الضلالة المحرمة هی التی ترفع السنة مثلها والتی لا ترفع شيئا منها فليست هی من البدعة بل هی مباح الأصل.

وحيد الزمان، هدية المهدی : 117

’’اور بدعات میں سے ایک وہ بدعت ہے جس سے کوئی سنت ترک ہو رہی ہو اور حکم شرعی میں تبدیلی آئے اور یہی بدعت ضلالہ (سیئہ) ہے۔ نواب صاحب (نواب صدیق حسن بھوپالی) نے کہا ہے کہ بدعت وہ ہے جس سے اس کے بدلہ میں کوئی سنت متروک ہو جائے اور جس بدعت سے کسی سنت کا ترک نہ ہو وہ بدعت نہیں ہے بلکہ وہ اپنی اصل میں مباح ہے۔’’

5۔ شبیر احمد عثمانی دیوبندی ’’فتح الملهم شرح صحيح مسلم (2 : 406)’’ میں حدیث کل بدعة ضلالة کی شرح کرتے ہوئے بدعتِ سیئہ کے حوالے سے لکھتا ہے :

قال علي القاری قال فی الازهار أی کل بدعة سيئة ضلالة لقوله عليه الصلوة والسلام (من سن فی الإسلام سنة حسنة فله أجرها وأجر من عمل بها) (1) وجمع ابو بکر وعمر القرآن(2) و کتبه زيد فی المصحف و جُدد فی عهد عثمان رضی الله عنه قال النووی البدعة کل شئ عمل علی غير مثال سبق و فی الشرع إحداث مالم يکن فی عهد رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم وقوله : کل بدعة ضلالة (3) عام مخصوص.

(1) 1. مسلم، الصحيح، کتاب الزکوٰة، باب الحث علی الصدقه، 2 : 705، رقم : 1017

2. نسائی، السنن، کتاب الزکاة، باب التحريض علی الصدقه، 5 : 55، 56، رقم : 2554

3. ابن ماجه، السنن، المقدمة، باب سن سنة حسنة أو سيئة، 1 : 74، رقم : 203

4. احمد بن حنبل، المسند، 4 : 357.359

5. ابن حبان، الصحيح، 8 : 101، 102، رقم : 3308

(2) 1. بخاری، الصحيح، کتاب التفسير، باب قوله لقد جاء کم رسول، 4 : 1720، رقم : 4402

2. بخاری، الصحيح، کتاب الاحکام، باب يستحب للکاتب أن يکون اميناً عاقلاً، 6 : 2629، رقم : 6768

3. ترمذی، الجامع الصحيح، کتاب التفسير، باب من سورة التوبة، 5 : 283، رقم : 3103

4. نسائی، السنن الکبریٰ، 5 : 7، رقم : 2202

(3) 1. أبو داود، السنن، کتاب السنة، باب فی لزوم السنة، 4 : 200، رقم : 4607

2. ترمذی، الجامع الصحيح، کتاب العلم، باب ما جاء فی الأخذ بالسنة، 5 : 44، رقم : 2676

3. ابن ماجه، السنن، المقدمه، باب اتباع السنة الخلفاء الراشدين، 1 : 15، رقم : 42

4. طبرانی، المعجم الکبير، 18 : 249، رقم : 624

’’ملا علی قاری الازھار میں بیان کرتے ہیں کہ ’’کل بدعة ضلالة’’ سے ہر بدعت سیّئَہ کا گمراہی ہونا مراد ہے اس پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ قول دلیل ہے کہ ’’من سن فی الاسلام سنة حسنة فله أجرها و أجر من عمل بها’’ جیسا کہ حضرت ابوبکر و عمر رضی اﷲ عنہما نے قرآن کو جمع کیا۔ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے اسے مصحف میں لکھا اور عہد عثمان رضی اللہ عنہ میں اس کی تجدید کی گئی۔ امام نووی فرماتے ہیں کہ بدعت ہر اُس عمل کو کہتے ہیں جس کو مثالِ سابق کے بغیر عمل میں لایا جائے اور اِصطلاحِ شرع میں ہر وہ نیا کام جو عہدِ نبوی میں نہ ہوا ہو بدعت کہلاتا ہے اور حدیث کل بدعۃ ضلالۃ عام مخصوص ہے۔’’

بدعتِ حسنہ بدعتِ لُغوی ہے

بے شمار اُمورِ خیر اور اُمورِ صالحہ کو اُن کے ’’نئے پن’’ کی و جہ سے بعض علماء اور محدّثین بدعتِ لغوی اور بعض بدعتِ حسنہ کہتے ہیں۔ حقیقت میں دونوں اِصطلاحات کا مقصود و مفہوم ایک ہی ہے۔ صرف الفاظ کا فرق ہے۔ پیچھے بیان کیا جا چکا ہے کہ ہم بدعتِ حسنہ اور سیئہ کی تقسیم کے ساتھ ساتھ بدعتِ لغوی اور بدعتِ شرعی کی تقسیم کو بھی مانتے ہیں۔ ہم ان دونوں تقسیمات میں کوئی تضاد نہیں سمجھتے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ جس کو وہ بدعتِ شرعی کہتے ہیں ہم اسے بدعتِ سیئہ، بدعتِ ضلالہ یا بدعتِ قبیحہ کہتے ہیں اور جس کو وہ بدعتِ لغوی کہتے ہیں ہم اسے بدعتِ حسنہ، بدعتِ صالحہ اور بدعتِ خیر کہتے ہیں۔ ذیل میں چند اُن علماء اور محدّثین کا تذکرہ کیا جا رہا ہے جو بدعت کو حسنہ اور سیئہ کی بجائے بدعتِ لغوی اور بدعتِ شرعی میں تقسیم کرتے ہیں۔ ان کی اِس تقسیم پر تھوڑا سا غور کرنے سے یہ اَمر واضح ہو جاتا ہے کہ بدعتِ حسنہ ہی بدعتِ لغوی ہے اور بدعتِ سیئہ ہی بدعتِ شرعی ہے۔

1۔ ابن تیمیہ(728ھ) اپنی کتاب ’’منہاج السنۃ (4 : 224)’’ میں ’’نعمت البدعة هذه’’ کے ذیل میں نمازِ تراویح کو بدعتِ لغوی قرار دیتے ہوئے لکھتا ہے : ۔

إنما سماها بدعة لأن ما فعل ابتداء، بدعة لغة، وليس ذلک بدعة شرعية، فإن البدعة الشرعية التی هی ضلالة ما فعل بغير دليل شرعی.

’’اِسے(یعنی نمازِتراویح کو) بدعت اِس لیے کہا گیا کہ یہ عمل اس سے پہلے اِس انداز میں نہیں ہوا تھا لہٰذا یہ بدعتِ لغوی ہے بدعتِ شرعی نہیں ہے کیونکہ بدعت شرعی وہ گمراہی ہوتی ہے جو دلیلِ شرعی کے بغیر سر انجام دی جائے۔’’

2۔ اسی طرح حافظ ابن کثیر (774ھ) بھی ’’تفسير القرآن العظيم (ا : 161)’’ میں بدعت کی تقسیم بیان کرتے ہوئے نمازِ تراویح کو بدعتِ لغویہ قرار دیتے ہوئے لکھتا ہے :

والبدعة علی قسمين تارة تکون بدعة شرعية کقوله : فإن کل محدثة بدعة وکل بدعة ضلالة(1) و تارة تکون بدعة لغوية کقول أمير المؤمنين عمر بن الخطاب عن جمعه إياهم علی صلاة التراويح واستمرارهم : نعمت البدعة هذه.(2)

(1) 1. أبو داود، السنن، کتاب السنة، باب فی لزوم السنة،4 : 200، رقم : 4607

2. ترمذی، الجامع الصحيح، کتاب العلم، باب ما جاء فی الأخذ بالسنة، 5 : 44، رقم : 2676

3. ابن ماجه، السنن، المقدمه، باب اتباع السنة الخلفاء الراشدين، 1 : 15، رقم : 42

4. احمد بن حنبل، المسند، 4 : 126

5. ابن حبان، الصحيح، 1 : 178، رقم : 5

(2) 1. مالک، المؤطا، 1 : 114، رقم، 2 : 250

2.بخاری، الصحيح، کتاب صلاة التراويح، باب فضل من قام رمضان، 2 : 707، رقم : 1906

3. ابن خزيمة، الصحيح، 2 : 155، رقم : 1100

4. بيهقی، السنن الکبریٰ، 2 : 493، رقم : 4379

5. بيهقی، شعب الايمان، 3 : 177، رقم : 3269

’’بدعت کی دو قسمیں ہیں بعض اَوقات یہ بدعت شرعیہ ہوتی ہے جیسا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے : ’’فإن کل محدثة بدعة و کل بدعة ضلالة’’ اور بعض اَوقات یہ بدعت لغویہ ہوتی ہے جیسا کہ اَمیر المؤمنین سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا لوگوں کو نمازِ تراویح پر جمع کرتے اور دوام کی ترغیب دیتے وقت فرمان ’’نعمت البدعة هذه’’ ہے۔’’

جیسا کہ ہم اس سے قبل ذکر کر چکے ہیں کہ  اِبنِ تیمیہ اور حافظ ابنِ کثیر نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے فرمان : ’’نعمت البدعة هذه’’ میں بدعت کو بدعتِ لغوی شمار کیا ہے حالاں کہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے کہیں نہیں فرمایا کہ هذه بدعة لغوية بلکہ انہوں نے بدعت کے ساتھ لفظ ’’نعم’’ اِستعمال کیا ہے جس کا مطلب ہے کہ اُنہوں نے اِسے نعم البدعۃ یا بدعتِ حسنہ کہا ہے۔ اِس مفہوم کی شہادت قرآن میں بھی موجود ہے سورہ ص میں اِرشادِ باری تعالیٰ ہے :

نِعْمَ الْعَبْدُ إِنَّهُ أَوَّابٌ . ص، 38 : 30

’’(حضرت سلیمان علیہ السلام ) کیا خوب بندہ تھا، بے شک وہ بڑی کثرت سے توبہ کرنے والا تھاo’’

اس آیت میں لفظِ نعم اِستعمال ہوا ہے اس کا معنی لغوی نہیں ہوتا بلکہ اِس کا معنی ’’اَچھا’’ یعنی ’’حسنہ’’ ہوتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہم نے جسے نعم البدعة هذه کہا ہے لغت ہی کی رو سے اِس کا معنی بدعتِ حسنہ بنتا ہے یعنی باعتبارِ لغت بدعتِ لغوی سے مراد بدعتِ حسنہ ہے۔

3۔ علامہ ابن رجب حنبلی (795ھ) اپنی کتاب ’’جامع العلوم والحکم (1 : 252)’’ میں نئے اُمورِ صالحہ کو بدعتِ لغو ی قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں :

المراد بالبدعة ما أحدث مما لا أصل له فی الشريعة يدلّ عليه، وأما ما کان له أصل من الشرع يدلّ عليه فليس ببدعة شرعاً وإن کان بدعة لغة.

’’بدعت سے مراد ہر وہ نیا کام ہے جس کی شریعت میں کوئی اصل موجود نہ ہو جو اس پر دلالت کرے لیکن ہر وہ معاملہ جس کی اصل شریعت میں موجود ہو وہ شرعاً بدعت نہیں اگرچہ وہ لغوی اعتبار سے بدعت ہو گا۔’’

پس ثابت ہوا کہ بدعت کو لغوی اور شرعی میں تقسیم کرنے والوں کے نزدیک بھی بدعتِ حسنہ سے مراد بدعتِ لغوی ہے۔
بدعتِ سیّئۃ ہی بدعتِ شرعی ہے

جمہور ائمہ و محدّثین اور اَکابر فقہاء نے حدیث نعمت البدعة هذه (1) اور مَنْ سَنَّ فِيْ الْاِسْلاَمِ سُنَّةً حَسَنَة (2) اور اس جیسی دیگر احادیث کی روشنی میں بدعت کی تقسیم ’’حسنہ’’ اور ’’سیئہ’’ میں کی ہے جب کہ چند دیگر علماء نے بدعت لغوی اور بدعت شرعی میں تقسیم کی ہے۔ اگر ان دونوں تقسیمات پر تھوڑا سا تفکر و تدبر کیا جائے تو یہ امر واضح ہو جائے گا کہ نفسِ بدعت کا مفہوم اِن دونوں طبقات کے نزدیک ایک ہی ہے۔ دونوں کے نزدیک بدعتِ سیّئہ ہی بدعتِ شرعی ہے اور بدعتِ شرعی ہی بدعتِ سیئہ ہے۔ اِمام شافعی رحمۃ اللہ علیہ (204ھ)، امام قرطبی رحمۃ اللہ علیہ (671ھ)، امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ (458ھ)، امام ابن عبد السلام رحمۃ اللہ علیہ (660ھ) اور امام نووی رحمۃ اللہ علیہ (676ھ) وغیرہ بدعتِ حسنہ اور بدعتِ سیئہ کی اِصطلاح جبکہ علامہ ابن تیمیہ (728ھ)، حافظ ابن کثیر (774ھ)، علامہ ابن رجب حنبلی (795ھ) اور علامہ شوکانی (1255ھ) وغیرہ بدعتِ لغویہ اور بدعتِ شرعیہ کی اِصطلاح اِستعمال کرتے ہیں۔ مختصراً یہ کہ دونوں طبقات کی اِصطلاحات کا باہمی موازنہ کرنے اور دونوں کے مقصود و مطلوب پر غور کرنے سے یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ دونوں عملی طور پر بدعت کی تقسیم پر متفق ہیں۔ مزید برآں دونوں کے نزدیک بدعتِ حسنہ ہی بدعتِ لغوی ہے اور بدعتِ سیئہ ہی بدعتِ شرعی ہے۔

(1) 1. مالک، المؤطا، 1 : 114، رقم، 2 : 250

2.بخاری، الصحيح، کتاب صلاة التراويح، باب فضل من قام رمضان، 2 : 707، رقم : 1906

3. ابن خزيمة، الصحيح، 2 : 155، رقم : 1100

4. بيهقی، السنن الکبریٰ، 2 : 493، رقم : 4379

5. بيهقی، شعب الايمان، 3 : 177، رقم : 3269

(2) 1. مسلم، الصحيح، کتاب العلم، باب من سن سنة حسنة او سيئة، 4 : 2059، رقم : 2674

2. مسلم، الصحيح، 2 : 705، کتاب الزکوٰة، باب الحث علی الصدقه، رقم : 1017

3. نسائی، السنن، 5 : 55، 56، کتاب الزکاة، باب التحريض علی الصدقه، رقم : 2554

4. ابن ماجه، السنن، المقدمة، باب سن سنة حسنة أو سيئة، 1 : 74، رقم : 203

5. احمد بن حنبل، المسند، 4 : 357.359

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...