Wednesday 24 June 2015

اسلام میں عورتوں کے حقوق 6

0 comments

(2) خیارِ بلوغ کا حق

نابالغ لڑکی یا لڑکے کا بلوغت سے قبل ولی کے کیے ہوئے نکاح کو بالغ ہونے پر رد کر دینے کا اختیار ’خیارِ بلوغ‘ کہلاتا ہے۔ اسلام نے خواتین کو ازدواجی حقوق عطا کرتے ہوئے خیارِ بلوغ کا حق عطا کیا جو اسلام کے نزدیک انفرادی حقوق کے باب میں ذاتی اختیار کی حیثیت رکھتا ہے۔ احناف کے نزدیک اگر کسی ولی نے نابالغ لڑکے یا لڑکی کا نکاح کیا ہو تو وہ لڑکا یا لڑکی بالغ ہونے پر خیارِ بلوغ کا حق استعمال کرکے نکاح ختم کرسکتے ہیں۔
جس طرح بالغ خاتون کو یہ اختیار حاصل ہے کہ اگر ولی نے اس کی اجازت کے بغیر اس کا نکاح کیا ہو تو عدم رضا کی بناء پر اسے اس نکاح کو تسلیم نہ کرنے اور باطل قرار دینے کا اختیار حاصل ہے، اسی طرح ایک نابالغہ کو بھی جس کا نکاح نا بالغی کے زمانہ میں کسی ولی نے کیا ہو، بلوغ کے بعد عدم رضا کی بناء پر خیار بلوغ حاصل ہے۔
خیارِ بلوغ کے حق کی بناء پر حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما سے مروی ایک حدیث مبارکہ ہے جس میں قدامہ بن مظعون نے اپنی بھتیجی اور حضرت عثمان بن مظعون کی صاحب زادی کا نکاح حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما سے کر دیا تھا اور وہ لڑکی بوقت نکاح نابالغ تھی۔ بلوغت کے بعد اُس لڑکی نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر اس نکاح کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا :
عن عبداﷲ بن عمر، قال : توفي عثمان بن مظعون، و ترک ابنة له من خويلة بنت حکيم بن أمية بن حارثة بن الأوقص، قال : و أوصي إلي أخيه قدامة بن مظعون، قال عبداﷲ : و هما خالاي، قال : فخطبت إلي قدامة بن مظعون ابنة عثمان بن مظعون، فزوجنيها، ودخل المغيرة بن شعبة. يعني إلي أمها. فأرغبها في المال، فحطت إليه، و حطت الجارية إلي هوي أمها، فأبتا، حتي ارتفع أمرهما إلي رسول اﷲ صلد الله عليه وآله وسلم، فقال قدامة بن مظعون : يا رسول اﷲ! ابنة أخي، أوصي بها إلي، فزوجتها ابن عمتها عبداﷲ بن عمر، فلم أقصر بها في الصلاح ولا في الکفاءة، و لکنها امرأة، و إنما حطت إلي هوي أمها. قال : فقال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : هي يتيمة، ولا تنکح إلا باذنها. قال : فانتزعت واﷲ مني بعد أن ملکتها، فزوجوها المغيرة.
’’عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما سے مروی ہے کہ عثمان بن مظعون فوت ہوئے اور پسماندگان میں خویلہ بنت حکیم بن امیہ بن حارثہ بن اوقص سے ایک بیٹی چھوڑی اور اپنے بھائی قدامہ بن مظعون کو وصیت کی۔ راوی عبداﷲ کہتے ہیں : یہ دونوں میرے خالو تھے۔ میں نے قدامہ بن مظعون کو عثمان بن مظعون کی بیٹی سے نکاح کا پیغام بھیجا تو اس نے میرا نکاح اس سے کرا دیا اس کے بعد مغیرہ بن شعبہ اس لڑکی کی ماں کے پاس آیا اور اسے مال کا لالچ دیا۔ وہ عورت اس کی طرف مائل ہو گئی اور لڑکی بھی اپنی ماں کی خواہش کی طرف راغب ہو گئی پھر ان دونوں نے انکار کر دیا یہاں تک کہ ان کا معاملہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں پیش ہوا۔ قدامہ بن مظعون نے عرض کیا : یا رسول اﷲ! یہ میرے بھائی کی بیٹی ہے اور میرے بھائی نے مجھے اس کے متعلق وصیت کی تھی پس میں اس کی شادی اس کے ماموں زاد عبداﷲ بن عمر سے کر دی۔ میں نے اس کی بھلائی اور کفو میں کوئی کمی نہ کی لیکن یہ عورت اپنی ماں کی خواہش کی طرف مائل ہو گئی اس پر رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : وہ یتیم ہے، لہٰذا اس کا نکاح اس کی اجازت کے بغیر نہیں کیا جا سکتا۔ راوی کہتے ہیں : اس کے بعد میرا اس کے مالک بننے کا جھگڑا ہی ختم ہو گیا اور اس نے مغیرہ سے شادی کر لی۔‘‘
1. احمد بن حنبل، المسند، 2 : 130، رقم : 6136
2. دارقطني، السنن، 3 : 230
3. بيهقي، السنن الکبريٰ، 7 : 113، 120، رقم : 13434، 13470
4. هيثمي، مجمع الزوائد، 4 : 280
ایک دوسری سند کے ساتھ مروی حدیث مبارکہ میں ان الفاظ کا اضافہ ہے :
فأمره النبي صلي الله عليه وآله وسلم أن يفارقها، وقال : لا تنکحوا اليتامٰي حتي تستأمروهن فإن سکتن فهو إذنهن.
’’پس حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کی علیحدگی کا حکم دیا اور فرمایا : یتیم بچیوں کا نکاح ان کے اجازت کے بغیر نہ کیا جائے پس اگر وہ خاموش رہیں تو وہی ان کی اجازت ہے۔‘‘
بيهقي، السنن الکبري، 7 : 121

(3) مہر کا حق

اسلام نے عورت کو ملکیت کا حق عطا کیا۔ عورت کے حق ملکیت میں جہیز اور مہر کا حق بھی شامل ہے۔ قرآن حکیم نے مردوں کو نہ صرف عورت کی ضروریات کا کفیل بنایا بلکہ اُنہیں تلقین کی کہ اگر وہ مہر کی شکل میں ڈھیروں مال بھی دے چکے ہوں تو واپس نہ لیں، کیونکہ وہ عورت کی ملکیت بن چکا ہے :
وَإِنْ أَرَدتُّمُ اسْتِبْدَالَ زَوْجٍ مَّكَانَ زَوْجٍ وَآتَيْتُمْ إِحْدَاهُنَّ قِنطَارًا فَلاَ تَأْخُذُواْ مِنْهُ شَيْئًا أَتَأْخُذُونَهُ بُهْتَاناً وَإِثْماً مُّبِيناًO
’’اور اگر تم ایک بیوی کے بدلے دوسری بیوی بدلنا چاہو اور تم اسے ڈھیروں مال دے چکے ہو تب بھی اس میں سے کچھ واپس مت لو، کیا تم بہتان تراشی کے ذریعے اور کھلا گناہ کر کے وہ مال واپس لو گےo‘‘
القرآن، النساء، 4 : 20
لاَّ جُنَاحَ عَلَيْكُمْ إِن طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ مَا لَمْ تَمَسُّوهُنُّ أَوْ تَفْرِضُواْ لَهُنَّ فَرِيضَةً وَمَتِّعُوهُنَّ عَلَى الْمُوسِعِ قَدَرُهُ وَعَلَى الْمُقْتِرِ قَدَرُهُ مَتَاعًا بِالْمَعْرُوفِ حَقًّا عَلَى الْمُحْسِنِينَO
’’تم پر اس بات میں (بھی) کوئی گناہ نہیں کہ اگر تم نے (اپنی منکوحہ) عورتوں کو ان کے چھونے یا ان کے مہر مقرر کرنے سے بھی پہلے طلاق دے دی ہے تو انہیں (ایسی صورت میں) مناسب خرچہ دیدو، وسعت والے پر اس کی حیثیت کے مطابق (لازم) ہے اور تنگدست پر اس کی حیثیت کے مطابق (بہرطور) یہ خرچ مناسب طریق پر دیا جائے، یہ بھلائی کرنے والوں پر واجب ہےo‘‘
القرآن، البقره، 2 : 236

(4) حقوقِ زوجیت

مرد پر یہ ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے کہ وہ حتی الوسع حقوق زوجیت ادا کرنے سے دریغ نہ کرے۔ جاہلیت میں یہ رواج تھا کہ اگر خاوند بیوی کو دق کرنا چاہتا تو قسم کھا لیتا کہ میں بیوی سے مقاربت نہیں کروں گا اسے اصطلاح میں ایلاء کہتے ہیں۔ اس طرح عورت معلقہ ہو کر رہ جاتی ہے، نہ مطلقہ نہ بیوہ (کہ اور شادی ہی کر سکے) اور نہ شوہر والی۔ کیونکہ شوہر نے اس سے قطع تعلق کر لیا ہے۔ یہ رویہ درست نہیں کیونکہ جو چیز اللہ تعالیٰ نے انسان کے لیے حلال ٹھہرائی ہے، انسان کا کوئی حق نہیں کہ اسے اپنے اُوپر حرام قرار دے لے۔ قرآن کہتا ہے :
لِّلَّذِينَ يُؤْلُونَ مِن نِّسَآئِهِمْ تَرَبُّصُ أَرْبَعَةِ أَشْهُرٍ فَإِنْ فَآؤُوا فَإِنَّ اللّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌO
’’جو لوگ اپنی بیویوں کے قریب نہ جانے کی قسم کھالیں تو ان کے لیے چار ماہ کی مہلت ہے۔ پھر اگر وہ اس مدت کے اندر رجوع کر لیں اور آپس میں ملاپ کر لیں تو اللہ رحمت سے بخشنے والا ہےo‘‘
القرآن، البقره، 2 : 226
یعنی اگر بیوی کی کسی غلطی کی وجہ سے تم نے یہ قسم کھائی ہے تو عفو و درگزر کرتے ہوئے اسے معاف کر دو، اور اگر کسی معقول سبب کے بغیر تم نے یوں ہی قسم کھالی تھی تو قسم کا کفارہ دے کر رجوع کر لو۔ اللہ تعالیٰ تمہاری غلطیوں کو بخش دے گا۔ اگر خاوند چار ماہ تک رجوع نہ کرے، تو پھر بعض فقہاء کے نزدیک خود بخود طلاق واقع ہو جائے گی۔
حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
قال النبي : صلي الله عليه وآله وسلم إنک لتصوم الدهر و تقوم اليل. فقلت : نعم، قال : انک اذا فعلت ذلک هجمت له العين، و نفهت له النفس، لا صام من صام الدهر، صوم ثلاثة أيام صوم الدهر کله. قلت : فاني أطيق أکثر من ذلک، قال فصم صوم داؤد عليه السلام، کان يصوم يوما و يفطر يوما.
’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم ہمیشہ روزہ رکھتے اور ہمیشہ قیام کرتے ہو؟ میں عرض گزار ہوا : جی۔ فرمایا : اگر ایسا کرتے رہو گے تو تمہاری آنکھوں میں گڑھے پڑ جائیں گے اور تمہارا جسم بے جان ہو جائے گا، نیز ہر مہینے میں تین روزے رکھنا گویا ہمیشہ روزہ رکھنا ہے۔ میں نے عرض کیا : میں اس سے زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں۔ فرمایا : داؤد علیہ السلام والے روزے رکھ لیا کرو جو ایک دن روزہ رکھتے اور ایک دن نہیں رکھتے تھے اور جب دشمن سے مقابلہ ہوتا تو پیٹھ نہیں دکھاتے تھے۔‘‘
1. بخاري، الصحيح، کتاب الصوم، باب صوم داود، 2 : 698، رقم : 1878
2. مسلم، الصحيح، کتاب الصوم، باب نهي عن صوم الدهر، 2 : 813، رقم : 1159
3. ترمذي، السنن، کتاب الصوم عن رسول اﷲ، باب ما جاء في سرد الصوم، 3 : 140، رقم : 770
4. دارمي، السنن، 2 : 33، رقم : 1752
5. ابن حبان، الصحيح، 6 : 325، رقم : 2590، 14 : 118، رقم : 6226
6. ابن خزيمه، الصحيح، 2 : 181، رقم : 1145
7. بيهقي، السنن الصغري، 1 : 477، رقم : 838
8. هيثمي، مجمع الزوائد، 3 : 193
9. ابن کثير، تفسير القرآن العظيم، 3 : 530
عبادت میں زیادہ شغف بھی بیوی سے بے توجہی کا باعث ہوسکتا ہے۔ اگر خاوند دن بھر روزہ رکھے اور راتوں کو نمازیں پڑھتا رہے تو ظاہر ہے کہ وہ بیوی کے حقوق ادا کرنے سے قاصر رہے گا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسی لیے صوم وصال یعنی روزے پر روزہ رکھنے سے منع فرمایا ہے اور زیادہ سے زیادہ صوم داؤدی کی اجازت دی ہے کہ ایک دن روزہ رکھو، ایک دن نہ رکھو۔
اسی طرح عبادت میں بھی اعتدال کا حکم فرمایا :
عن عون بن ابي حجيفه، عن ابيه قال : اخي النبي صلي الله عليه وآله وسلم بين سلمان و ابي الدرداء فزار سلمان ابا الدرداء فرأي ام الدرداء متبذلة، فقال لها : ماشانک؟ قالت : اخوک ابوالدرداء ليس له حاجة في الدنيا، فجاء ابوالدرداء فصنع له طعاما، فقال : کل. قال : فاني صائم، قال : ما انا باٰکل حتي تاکل، قال : فاکل، فلما کان الليل ذهب ابوالدرداء يقوم. قال : نم، فنام ثم ذهب يقوم. فقال : نم، فلما کان من اخر الليل قال سلمان، قم الان فصليا. فقال له سلمان : ان لربک عليک حقا ولنفسک عليک حقا ولاهلک عليک حقا فاعط کل ذي حق حقه. فاتي النبي صلي الله عليه وآله وسلم فذکر ذلک له فقال النبي صلي الله عليه وآله وسلم : صدق سلمان.
’’حضرت ابوجحیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت سلمان فارسی اور حضرت ابودرداء رضی اﷲ عنہما کے درمیان بھائی چارہ کرا دیا تھا۔ حضرت سلمان ایک روز حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ کے مکان پر گئے۔ اُم درداء کو غمگین دیکھا تو حضرت سلمان رضی اللہ عنہ نے ان سے پوچھا : کہو، یہ کیا حال کر رکھا ہے؟ اُم درداء کہنے لگیں : تمہارے بھائی ابودرداء کو دُنیا کی ضرورت نہیں ہے۔ اتنے میں ابودرداء آ گئے، کھانا تیار کروایا گیا اور کہا کہ آپ کھائیں۔ سلمان بولے میرا روزہ ہے۔ ابودرداء نے کہا جب تک تم نہیں کھاؤ گے میں بھی نہیں کھاؤں گا۔ جب رات ہوئی (اور دونوں نے کھانا کھا لیا) تو ابودرداء نماز کے لیے اُٹھنے لگے۔ سلمان بولے سو جاؤ۔ اس پر ابودرداء سو گئے۔ (رات گئے پھر کسی وقت) اُٹھے اور (نماز کے لیے) جانے لگے تو سلمان نے پھر کہا سو جاؤ۔ ابودرداء پھر سو گئے۔ اخیر رات میں سلمان نے کہا، اب اُٹھو۔ چنانچہ دونوں نے اُٹھ کر نماز ادا کی۔ پھر سلمان کہنے لگے، تمہارے رب کا بھی تم پر حق ہے، اور نفس کا بھی، اور گھر والوں کا بھی۔ لہٰذا ہر ایک حقدار کا حق ادا کرو۔ دن میں جب ابودرداء حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس کا تذکرہ کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : سلمان نے سچ کہا۔‘‘
1. بخاري، الصحيح، کتاب الصوم، باب من أقسم علي أخيه، 2 : 694، رقم : 1867
2. ترمذي، السنن، کتاب الزهد، باب منه، 4 : 608، رقم : 2413
3. ابويعليٰ، المسند، 2 : 193، رقم : 898
4. واسطي، تاريخ واسط، 1 : 233
5. ابن عبدالبر، الاستيعاب، 2 : 637
6. زيلعي، نصب الراية، 2 : 465
اسی طرح کا واقعہ حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ سے متعلق بیان ہوا ہے۔ حضرت عثمان بہت عبادت گزار اور راہبانہ زندگی بسر کرنے والے تھے۔ ایک دن ان کی بیوی خولہ بنت حکیم حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کے پاس آئیں، تو اُنہوں نے دیکھا کہ وہ ہر طرح کے زنانہ بناؤ سنگھار سے عاری ہیں۔ پوچھا کہ کیا سبب ہے؟ بولیں کہ میرے میاں دن بھر روزہ رکھتے ہیں، رات بھر نمازیں پڑھتے ہیں۔ میں سنگھار کس کے لیے کروں؟ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے تو حضرت عائشہ نے قصہ بیان کیا۔ اس پر حضور علیہ السلام عثمان کے پاس گئے اور اُن سے فرمایا :
يا عثمان! ان الرهبانية لم تکتب علينا، أفمالک في أسوة؟
’’عثمان ہمیں رہبانیت کا حکم نہیں ہوا ہے۔ کیا تمہارے لیے میرا طرزِ زندگی پیروی کے لائق نہیں؟‘‘
1. احمد بن حنبل، المسند، 6 : 226، رقم : 25935
2. ابن حبان، الصحيح، 1 : 185، رقم : 9
3. عبدالرزاق، المصنف، 6 : 168، رقم : 10375
4. عبدالرزاق، المصنف، 7 : 150، رقم : 12591
5. طبراني، المعجم الکبير، 9 : 38، رقم : 8319
6. هيثمي، موارد الظمآن، 1 : 313، رقم : 1288
7. ابن جوزي، صفوة الصفوه، 1 : 452
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس بارے میں صحابہ سے خاص طور پر فرمایا :
واﷲ! اني لأخشاکم ﷲ و اتقاکم له لکني أصوم وأفطر وأصلي وأرقد، واتزوج النساء فمن رغب عن سنتي فليس مني.
’’خدا کی قسم، میں تمہاری نسبت خدا سے بہت زیادہ ڈرتا ہوں اور بہت متقی ہوں۔ اس کے باوجود روزہ بھی رکھتا ہوں، اور افطار بھی کرتا ہوں۔ نماز بھی پڑھتا ہوں، سوتا بھی ہوں اور عورتوں سے نکاح بھی کرتا ہوں۔ پس جو میری سنت سے روگردانی کرے گا، وہ میرے طریقے پر نہیں۔‘‘
1. بخاري، الصحيح، کتاب النکاح، باب ترغيب النکاح، 5 : 1949، رقم : 4776
2. مسلم، الصحيح، کتاب النکاح، باب استحباب النکاح، 2 : 1020، رقم : 1401
3. نسائي، السنن، کتاب النکاح، باب النهي عن التبتل، 6 : 60، رقم : 3217
4. ابن حبان، الصحيح، 1 : 190، رقم : 14
5. ابن حبان، الصحيح، 2 : 20، رقم : 317
6. بيهقي، السنن الکبريٰ، 7 : 77، رقم : 13226
7. احمد بن حنبل، مسند، 2 : 158، رقم : 6478
8. عبد بن حميد، مسند، 1 : 392، رقم : 1318
9. بيهقي، شعب الايمان، 4 : 381، رقم : 5377
10. منذري، الترغيب و الترهيب، 3 : 30، رقم : 2953
11. ديلمي، الفردوس بماثور الخطاب، 4 : 358، رقم : 7030
12. عسقلاني، فتح الباري، 9 : 105
اس کے مقابلے میں عورت کو بھی یہ حکم دیا کہ وہ شوہر کی اجازت کے بغیر نفلی روزہ نہ رکھے۔ ارشاد فرمایا :
لا تصوم المرأة وبعلها شاهد إلا باذنه.
’’اپنے خاوند کی موجودگی میں عورت (نفلی) روزہ نہ رکھے مگر اس کی اجازت سے۔‘‘
1. بخاري، الصحيح، کتاب الصوم، باب صوم المرأة، 5 : 1993، رقم : 4896
2. ترمذي، الجامع الصحيح، کتاب الصوم، باب ما جاء في کراهية، 3 : 151، رقم : 782
3. ابوداؤد، السنن، کتاب الصوم، باب المرأة تصوم، 2 : 230، رقم : 2458
4. نسائي، السنن الکبريٰ، 2 : 247، رقم : 3289
5. دارمي، السنن، 2 : 21، رقم : 1720
6. ابن حبان، الصحيح، 8 : 339، رقم : 3572
7. ابن خزيمه، الصحيح، 3 : 319، رقم : 2168
8. حاکم، المستدرک، 4 : 191، رقم : 7329
9. بيهقي، السنن الکبريٰ، 4 : 192، رقم : 7639
10. هيثمي، مجمع الزوائد، 3 : 200
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیوی کے حق کی اہمیت کو اپنی سنت مبارکہ سے واضح فرمایا۔ آپ کا طریقہ مبارک یہ تھا کہ کسی سفر یا غزوہ پر تشریف لے جاتے تو بیویوں میں قرعہ ڈالتے اور جس کے نام قرعہ نکل آتا، اُسے ساتھ لے جاتے۔
بخاري، الصحيح، کتاب النکاح، باب القرعة بين النساء، 5 : 1999، رقم : 4913
ایک رات حضرت عمر رضی اللہ عنہ حسبِ معمول شہر میں گشت کر رہے تھے کہ اُنہوں نے ایک عورت کی زبان سے یہ شعر سنے :
تطاول هذا الليل تسري کواکبه
وارَّقني ان لاضجيع ألاعبه

فواﷲ لولا اﷲ تخشي عواقبه
لَزُحزِحَ من هذا السرير جوانبه
(یہ رات کس قدر لمبی ہو گئی ہے۔ اور اس کے کنارے کس قدر چھوٹے ہو گئے ہیں اور میں رو رہی ہوں کہ میرا شوہر میرے پاس نہیں ہے کہ اس کے ساتھ ہنس کھیل کر اس رات کو گزار دوں۔ خدا کی قسم خدا کا ڈرنہ ہوتا تو اس تخت کے پائے ہلا دیئے جاتے۔ )
سيوطي، تاريخ الخلفاء : 139
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ سُن کر افسوس کیا اور فوراً اپنی صاحبزادی اُم المؤمنین حضرت حفصہ رضی اﷲ عنہا کے پاس گئے اور پوچھا بیٹی! ایک عورت شوہر کے بغیر کتنے دن گزار سکتی ہے؟ اُنہوں نے جواب دیا : ’’چار ماہ۔‘‘ اس کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ حکم جاری کر دیا کہ کوئی شخص چار ماہ سے زیادہ فوج کے ساتھ باہر نہ رہے۔ خود قرآن حکیم نے یہ معیاد مقرر کی ہے :
لِّلَّذِينَ يُؤْلُونَ مِن نِّسَآئِهِمْ تَرَبُّصُ أَرْبَعَةِ أَشْهُرٍ فَإِنْ فَآؤُوا فَإِنَّ اللّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌO
’’جو لوگ اپنی بیویوں کے قریب نہ جانے کی قسم کھالیں، ان کے لیے چار مہینے کی مہلت ہے۔ پھر اگر وہ (اس مدت کے اندر) رجوع کر لیں (اور آپس میں میل ملاپ کرلیں) تو اللہ رحمت سے بخشنے والاہےo‘‘
القرآن، البقره، 2 : 226
گویا یہاں قرآن حکیم نے اس امر کو واضح کر دیا کہ خاوند اور بیوی زیادہ سے زیادہ چار ماہ تک علیحدہ رہ سکتے ہیں، اس سے تجاوز نہیں کرسکتے۔ اگر وہ اس دوران صلح کر لیں تو درست ہے۔ اس سے زیادہ بیوی اور شوہر کا الگ الگ رہنا دونوں کے لیے جسمانی، روحانی اور اخلاقی لحاظ سے مضر ہے۔ یہی حضرت حفصہ رضی اﷲ عنہا کے جواب کا مقصود تھا اور اسی کے مطابق حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حکم نافذ کیا۔

(5) کفالت کا حق

مرد کو عورت کی جملہ ضروریات کا کفیل بنایا گیا ہے۔ اس میں اُس کی خوراک، سکونت، لباس، زیورات وغیرہ شامل ہیں :
الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ بِمَا فَضَّلَ اللّهُ بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ وَبِمَا أَنفَقُواْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ.
’’مرد عورتوں پر محافظ و منتظم ہیں اس لیے کہ اللہ نے ان میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے، اور اس وجہ سے (بھی) کہ مرد (ان پر) اپنے مال خرچ کرتے ہیں۔‘‘
القرآن، النساء، 4 : 34
وَالْوَالِدَاتُ يُرْضِعْنَ أَوْلاَدَهُنَّ حَوْلَيْنِ كَامِلَيْنِ لِمَنْ أَرَادَ أَن يُتِمَّ الرَّضَاعَةَ وَعَلََى الْمَوْلُودِ لَهُ رِزْقُهُنَّ وَكِسْوَتُهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ لاَ تُكَلَّفُ نَفْسٌ إِلاَّ وُسْعَهَا لاَ تُضَآرَّ وَالِدَةٌ بِوَلَدِهَا وَلاَ مَوْلُودٌ لَّهُ بِوَلَدِهِ وَعَلَى الْوَارِثِ مِثْلُ ذَلِكَ فَإِنْ أَرَادَا فِصَالاً عَن تَرَاضٍ مِّنْهُمَا وَتَشَاوُرٍ فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْهِمَا وَإِنْ أَرَدتُّمْ أَن تَسْتَرْضِعُواْ أَوْلاَدَكُمْ فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْكُمْ إِذَا سَلَّمْتُم مَّآ آتَيْتُم بِالْمَعْرُوفِ وَاتَّقُواْ اللّهَ وَاعْلَمُواْ أَنَّ اللّهَ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌO
’’اور مائیں اپنے بچوں کو دو برس تک دودھ پلائیں یہ (حکم) اس کے لیے ہے جو دودھ پلانے کی مدت پوری کرنا چاہے، اور دودھ پلانے والی ماؤں کا کھانا اور پہننا دستور کے مطابق بچے کے باپ کے ذمہ ہے، کسی جان کو اس کی طاقت سے بڑھ کر تکلیف نہ دی جائے (اور) نہ ماں کو اس کے بچے کے باعث نقصان پہنچایا جائے اور نہ باپ کو اس کی اولاد کے سبب سے، اور وارثوں پر بھی یہی حکم عائد ہوگا، پھر اگر ماں باپ دونوں باہمی رضامندی اور مشورے سے (دو برس سے پہلے ہی) دودھ چھڑانا چاہیں تو ان پر کوئی گناہ نہیں، اور پھر اگر تم اپنی اولاد کو (دایہ سے) دودھ پلانے کا ارادہ رکھتے ہو تب بھی تم پر کوئی گناہ نہیں جبکہ جو تم دستور کے مطابق دیتے ہو انہیں ادا کر دو، اور اللہ سے ڈرتے رہو اور یہ جان لو کہ بے شک جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اُسے خوب دیکھنے والا ہےo‘‘
القرآن، البقره، 2 : 233
وَلِلْمُطَلَّقَاتِ مَتَاعٌ بِالْمَعْرُوفِ حَقًّا عَلَى الْمُتَّقِينَO
’’اور طلاق یافتہ عورتوں کو بھی مناسب طریقے سے خرچ دیا جائے، یہ پرہیزگاروں پر واجب ہےo‘‘
القرآن، البقره، 2 : 241
يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ وَأَحْصُوا الْعِدَّةَ وَاتَّقُوا اللَّهَ رَبَّكُمْ لَا تُخْرِجُوهُنَّ مِن بُيُوتِهِنَّ وَلَا يَخْرُجْنَ إِلَّا أَن يَأْتِينَ بِفَاحِشَةٍ مُّبَيِّنَةٍ.
’’اے نبی! (مسلمانوں سے فرما دیں) جب تم عورتوں کو طلاق دینا چاہو تو اُن کے طُہر کے زمانہ میں انہیں طلاق دو اور عِدّت کو شمار کرو، اور اللہ سے ڈرتے رہو جو تمہارا رب ہے، اور انہیں اُن کے گھروں سے باہر مت نکالو اور نہ وہ خود باہر نکلیں سوائے اس کے کہ وہ کھلی بے حیائی کر بیٹھیں۔‘‘
القرآن، الطلاق، 65 : 1
أَسْكِنُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ سَكَنتُم مِّن وُجْدِكُمْ وَلَا تُضَارُّوهُنَّ لِتُضَيِّقُوا عَلَيْهِنَّ وَإِن كُنَّ أُولَاتِ حَمْلٍ فَأَنفِقُوا عَلَيْهِنَّ حَتَّى يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ فَإِنْ أَرْضَعْنَ لَكُمْ فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ وَأْتَمِرُوا بَيْنَكُم بِمَعْرُوفٍ وَإِن تَعَاسَرْتُمْ فَسَتُرْضِعُ لَهُ أُخْرَىO لِيُنفِقْ ذُو سَعَةٍ مِّن سَعَتِهِ وَمَن قُدِرَ عَلَيْهِ رِزْقُهُ فَلْيُنفِقْ مِمَّا آتَاهُ اللَّهُ لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا مَا آتَاهَا سَيَجْعَلُ اللَّهُ بَعْدَ عُسْرٍ يُسْرًاO
’’تم اُن (مطلّقہ) عورتوں کو وہیں رکھو جہاں تم اپنی وسعت کے مطابق رہتے ہو اور انہیں تکلیف مت پہنچاؤ کہ اُن پر (رہنے کا ٹھکانا) تنگ کردو، اور اگر وہ حاملہ ہوں تو اُن پر خرچ کرتے رہو یہاں تک کہ وہ اپنا بچہ جَن لیں، پھر اگر وہ تمہاری خاطر (بچے کو) دودھ پلائیں تو انہیں اُن کا معاوضہ ادا کرتے رہو، اور آپس میں (ایک دوسرے سے) نیک بات کا مشورہ (حسبِ دستور) کر لیا کرو، اور اگر تم باہم دشواری محسوس کرو تو اسے (اب کوئی) دوسری عورت دودھ پلائے گیo صاحبِ وسعت کو اپنی وسعت (کے لحاظ) سے خرچ کرنا چاہیے، اور جس شخص پر اُس کا رِزق تنگ کردیا گیا ہو تو وہ اُسی (روزی) میں سے (بطورِ نفقہ) خرچ کرے جو اُسے اللہ نے عطا فرمائی ہے۔ اللہ کسی شخص کو مکلف نہیں ٹھہراتا مگر اسی قدر جتنا کہ اُس نے اسے عطا فرما رکھا ہے، اللہ عنقریب تنگی کے بعد کشائش پیدا فرما دے گاo‘‘
القرآن، الطلاق، 65 : 6، 7
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے احادیث مبارکہ میں عورت کے اس حق کی پاسداری کی تلقین فرمائی :
1. فاتقو اﷲ في النساء فإنکم اخذتموهن بامان اﷲ واستحللتم فروجهن بکلمة اﷲ، ولکم عليهن ان لا يوطئن فرشکم احدا تکرهونه، فان فعلن ذلک فاضربوهن ضربا غير مبرح، ولهن عليکم رزقهن و کسوتهن بالمعروف.
’’عورتوں کے معاملے میں اللہ سے ڈرتے رہو کیونکہ تم نے انہیں اللہ کی امانت کے طور پر اپنے ماتحت کیا ہے اور اللہ کے کلمہ (نکاح) سے انہیں اپنے لیے حلال کیا ہے۔ ان پر تمہارا حق یہ ہے کہ وہ کسی آدمی کو تمہارا بستر نہ روندنے دیں جسے تم ناپسند کرتے ہو۔ اگر وہ ایسا کریں تو تم اُن کو ایسی سزا دو جس سے چوٹ نہ لگے اور ان کا تمہارے اوپر یہ حق ہے کہ تم انہیں دستور (شرعی) کے موافق خوراک اور لباس فراہم کرو۔‘‘
1. مسلم، الصحيح، کتاب الحج، باب حجة النبي صلي الله عليه وآله وسلم ، 2 : 889، رقم : 1218
2. ابن ماجه، السنن، کتاب المناسک، باب حجة رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ، 2 : 1025، رقم : 3074
3. ابن حبان، الصحيح، 4 : 311، 9 : 257
4. دارمي، السنن، 2 : 69، رقم : 1850
5. ابن ابي شيبه، المصنف، 3 : 336، رقم : 14706
6. عبد بن حميد، المسند، 1 : 343، رقم : 1135
7. بيهقي، السنن الکبريٰ، 7 : 144، رقم : 13601
8. بيهقي، السنن الکبريٰ، 7 : 295، رقم : 14502
9. ابن کثير، تفسير القرآن العظيم، 1 : 272
10. ابن حزم، المحلي، 9 : 510، 10 : 72
11. ابن قدامه، المغني، 3 : 203
12. اندلسي، حجة الوداع، 1 : 169، رقم : 92
13. محمد بن اسحاق، اخبار مکة، 3 : 127، رقم : 1891
14. ابونعيم، المسند، 3 : 318، رقم : 2828
15. ابوطيب، عون المعبود، 5 : 263
16. ابن حبان، الثقات، 2 : 128
17. اندلسي، تحفة المحتاج، 2 : 161
2۔ حکیم بن معاویہ رضی اللہ عنہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں :
أن رجلا سأل النبي صلي الله عليه وآله وسلم : ما حق المرأة علي الزوج؟ قال : أن يطعمها إذا طعم، و أن يکسوها إذا اکتسي، ولا يضرب الوجه، ولا يقبح، ولا يهجر إلا في البيت.
’’ایک آدمی نے بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں عرض کیا : عورت کا خاوند پر کیا حق ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جب خود کھائے تو اسے بھی کھلائے، جب خود پہنے تو اسے بھی پہنائے، اس کے منہ پر نہ مارے، اُسے برا نہ کہے اور گھر کے علاوہ تنہا کہیں نہ چھوڑے۔‘‘
1. ابن ماجه، السنن، کتاب النکاه، باب حق المرأة، 1 : 593، رقم : 1850
2. ابو داؤد، السنن، کتاب النکاح، باب في حق المرأة، 2 : 244، رقم : 2142
3. ترمذي، الجامع الصحيح، کتاب الرضاع، باب ماجاء في حق المرأة، 3 : 466، رقم : 1162
4. نسائي، السنن الکبري، 5 : 373، رقم : 1971
5. نسائي، السنن الکبري، 6 : 323، رقم : 11104
6. ابن حبان، الصحيح، 9 : 482، رقم : 4175
7. بيهقي، السنن الکبري، 7 : 295
8. هيثمي، موارد الظمآن : 313، رقم : 1286
3۔ حضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ کی بیوی ہندہ کے اپنے خاوند کی کنجوسی کی شکایت کرنے پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
خذي ما يکفيک و ولدک بالمعروف.
’’تو (ابوسفیان کے مال سے) اتنا مال لے سکتی ہے جو تجھے اور تیرے بچوں کے لیے باعزت طور پر کافی ہو۔‘‘
1. بخاري، الصحيح، کتاب النفقات، باب إذا لم ينفق الرجل، 5 : 2052، رقم : 5049
2. ابن ماجه، السنن، کتاب التجارات، باب التغليظ في الرباء 2 : 769، رقم : 2293
3. دارمي، السنن، 2 : 211، رقم : 2259
4. ابن راهويه، المسند، 2 : 224، رقم : 732
5. ابويعليٰ، المسند، 8 : 98، رقم : 4636
6. بيهقي، السنن الکبريٰ، 10 : 270، رقم : 2187
7. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 8 : 237
8. ابن قدامه، المغني، 8 : 156، 161؛ 10 : 276
9. شوکاني، نيل الاوطار، 7 : 131
اگر نفقہ واجب نہ ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسے ابوسفیان کی اجازت کے بغیر مال لینے کی اجازت نہ فرماتے۔
مسلم فقہاء نے عورت کے اس حق کو نہ صرف قرآن و سنت بلکہ اجماع و عقلی طور پر بھی ثابت قرار دیا۔ الکاسانی کے مطابق :
’’جہاں تک اجماع سے وجوبِ نفقہ کا معاملہ ہے تو اس سلسلے میں پوری امت کا اجماع ہے کہ خاوند پر بیوی کا نفقہ واجب ہے۔
’’عقلی طور پر شوہر پر بیوی کا نفقہ واجب ہونا اس طرح ہے کہ وہ خاوند کے حق کے طور پر اس کی قید نکاح میں ہے۔ دوسرے یہ کہ اس کی قید نکاح کا نفع بھی خاوند ہی کو لوٹ رہا ہے لہٰذا اس کی کفالت بھی خاوند کے ذمہ ہی ہونی چاہئے۔ اگر اس کی کفالت کی ذمہ داری خاوند پر نہ ڈالی جائے اور نہ وہ خود خاوند کے حق کے باعث باہر نکل کر کما سکے تو اس طرح وہ ہلاک ہو جائے گی لہٰذا اس کا نفقہ خاوند کے ذمہ ہے چنانچہ یہی وجہ ہے کہ قاضی کا خرچہ مسلمانوں کے بیت المال سے مقرر کیا گیا ہے کیونکہ وہ انہی کے کام میں محبوس (روکا گیا) ہے اور کسی دوسرے ذریعے سے کمائی نہیں کرسکتا لہٰذا اس کے اخراجات ان کے مال یعنی بیت المال سے وضع کیے جائیں گے۔ اسی طرح یہاں (عورت کے نفقہ میں) ہے۔‘‘
کاساني، بدائع الصنائع، 4 : 46

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔