2. حافظ عماد الدين اسماعيل ابن کثير ’’تفسير القرآن العظيم (1 : 161) ميں بدعتِ لغوی اور بدعتِ شرعی کی تقسيم بيان کرتے ہوئے لکھتا ہے :
والبدعة علی قسمين تارة تکون بدعة شرعية کقوله صلی الله عليه وآله وسلم : (فإن کل محدثة بدعة وکل بدعة ضلالة) و تارة تکون بدعة لغوية کقول أمير المؤمنين عمر بن الخطاب رضی الله عنه عن جمعه إياهم علی صلاة التراويح واستمرارهم : (نعمت البدعة هذه).
’’بدعت کی دو قسمیں ہیں : بعض اوقات یہ بدعت شرعیہ ہوتی ہے جیسا کہ حضور
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے : ’’فإنّ کل محدثة بدعة وکل
بدعة ضلالة’’ اور بعض اوقات یہ بدعت لغویہ ہوتی ہے جیسا کہ امیر المؤمنین
سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا لوگوں کو نماز تراویح پر جمع کرتے اور
دوام کی ترغیب دیتے وقت فرمان ’’نعمت البدعة هذه’’ ہے۔’’
مذکورہ بحث میں حافظ ابنِ کثیر نے بدعت کو بدعتِ شرعیہ اور بدعتِ لغویہ میں تقسیم کر دیا۔ اِس میں بدعتِ ضلالہ کو بدعتِ شرعیہ کا نام دیا ہے ان کے نزدیک ہر بدعت ضلالت و گمراہی نہیں بلکہ صرف ’’کل بدعة سيئة ضلالة’’ ہے۔ بصورتِ دیگر وہ اُسے بدعت لغویہ کہتے ہیں۔ وہ اِس کی مثال دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے قول نعمت البدعة هذه(1) میں بدعت سے مراد بدعتِ لغوی ہے نہ کہ بدعت ضلالہ۔
(1) 1. مالک، المؤطا، باب ما جاء فی قيام رمضان، 1 : 114، رقم : 2500
2. بيهقی، شعب الايمان، 3 : 177، رقم : 3269
3. سيوطی، تنوير الحوالک شرح مؤطا مالک، 1 : 105، رقم : 250
اَہم نکتہ
اِبن تیمیہ اور حافظ ابنِ کثیر نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے فرمان نعمت البدعة هذه میں بدعت کو بدعتِ لغوی شمار کیا ہے حالانکہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے کہیں نہیں فرمایا کہ هذه بدعة لغوية بلکہ انہوں نے بدعت کے ساتھ لفظ ’’نعم’’ اِستعمال کیا ہے جس کا مطلب ہے کہ اُنہوں نے اِسے نعم البدعۃ یا بدعتِ حسنہ کہا ہے۔ اِس مفہوم کی شہادت قرآن میں بھی موجود ہے۔ سورہ ص میں اِرشادِ باری تعالیٰ ہے :
نِعْمَ الْعَبْدُ إِنَّهُ أَوَّابٌ ۔ القرآن، ص، 38 : 30
’’(حضرت سلیمان علیہ السلام ) کیا خوب بندہ تھا، بے شک وہ بڑی کثرت سے توبہ کرنے والا تھاo’’
اس آیت میں لفظ نِعْمَ اِستعمال ہوا ہے اس کا معنی لغوی نہیں ہوتا بلکہ اِس کا معنی ’’اَچھا’’ یعنی ’’حسنہ’’ ہوتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے جسے نعم البدعۃ ھذہ کہا ہے لغت ہی کی رُو سے اِس کا معنی بدعت حسنہ بنتا ہے۔ یعنی باعتبارِ لغت بدعتِ لغوی سے مراد بدعتِ حسنہ ہے۔
مذکورہ بحث میں حافظ ابنِ کثیر نے بدعت کو بدعتِ شرعیہ اور بدعتِ لغویہ میں تقسیم کر دیا۔ اِس میں بدعتِ ضلالہ کو بدعتِ شرعیہ کا نام دیا ہے ان کے نزدیک ہر بدعت ضلالت و گمراہی نہیں بلکہ صرف ’’کل بدعة سيئة ضلالة’’ ہے۔ بصورتِ دیگر وہ اُسے بدعت لغویہ کہتے ہیں۔ وہ اِس کی مثال دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے قول نعمت البدعة هذه(1) میں بدعت سے مراد بدعتِ لغوی ہے نہ کہ بدعت ضلالہ۔
(1) 1. مالک، المؤطا، باب ما جاء فی قيام رمضان، 1 : 114، رقم : 2500
2. بيهقی، شعب الايمان، 3 : 177، رقم : 3269
3. سيوطی، تنوير الحوالک شرح مؤطا مالک، 1 : 105، رقم : 250
اَہم نکتہ
اِبن تیمیہ اور حافظ ابنِ کثیر نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے فرمان نعمت البدعة هذه میں بدعت کو بدعتِ لغوی شمار کیا ہے حالانکہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے کہیں نہیں فرمایا کہ هذه بدعة لغوية بلکہ انہوں نے بدعت کے ساتھ لفظ ’’نعم’’ اِستعمال کیا ہے جس کا مطلب ہے کہ اُنہوں نے اِسے نعم البدعۃ یا بدعتِ حسنہ کہا ہے۔ اِس مفہوم کی شہادت قرآن میں بھی موجود ہے۔ سورہ ص میں اِرشادِ باری تعالیٰ ہے :
نِعْمَ الْعَبْدُ إِنَّهُ أَوَّابٌ ۔ القرآن، ص، 38 : 30
’’(حضرت سلیمان علیہ السلام ) کیا خوب بندہ تھا، بے شک وہ بڑی کثرت سے توبہ کرنے والا تھاo’’
اس آیت میں لفظ نِعْمَ اِستعمال ہوا ہے اس کا معنی لغوی نہیں ہوتا بلکہ اِس کا معنی ’’اَچھا’’ یعنی ’’حسنہ’’ ہوتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے جسے نعم البدعۃ ھذہ کہا ہے لغت ہی کی رُو سے اِس کا معنی بدعت حسنہ بنتا ہے۔ یعنی باعتبارِ لغت بدعتِ لغوی سے مراد بدعتِ حسنہ ہے۔
No comments:
Post a Comment