تہجد اور تراویح الگ الگ نمازیں ھیں ضرور پڑھیئے
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اگر نمازِ تہجد اور نمازِ تراویح ایک ہی نماز ہے اور تراویح کے آٹھ رکعات ہونے کی یہی حدیث دلیل ہے تو چاہیے کہ اس حدیث کے تمام اجزا پر عمل کیا جائے اور اس میں بیان کردہ پوری کیفیت کے ساتھ نماز تراویح ادا کی جائے یا کم از کم اس کے مسنون ہونے کو بیان کیا جائے۔مگر اس حدیث سے صرف آٹھ کا لفظ تو لے لیا مگر آٹھ رکعات نماز کی کیفیت کو چھوڑ دیا، کیوں کہ اس میں لمبی لمبی چار چار رکعات پڑھنے کاذکر ہے اور تین رکعات وتر کا ذکر ہے، نیز وتر کے لیے تین کے لفظ کو چھوڑ کر صرف ایک ہی رکعت وتر کو اپنی سہولت کے لیے اختیار کرلیا۔ اس حدیث میں ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم آٹھ رکعات پڑھنے کے بعد سوجاتے، پھر وتر پڑھتے تھے، حالاں کہ ماہِ رمضان میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت سے سارے حضرات نماز عشاء کے ساتھ تراویح پڑھنے کے فوراً بعد وتر جماعت کے ساتھ پڑھتے ہیں۔ بخاری کی اس حدیث کے صرف آٹھ کے لفظ کو لے کر باقی تمام امور چھوڑ نا یہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث پر عمل کرنا نہیں ہوا، حالانکہ بخاری میں ہی حضرت عائشہ کی دوسری حدیث ہے : کَانَ رَسُولُ اللّٰہِ صلی الله علیہ وسلم یُصَلِّی بِالَّیْلِ ثَلَاثَ عَشَرَةَ رَکْعَةً، ثُمَّ یُصَلِّیْ اِذَا سَمِعَ النِّدَاء بِالصُّبْحِ رَکْعَتَیْنِ خَفِیْفَتَیْنِ․ (باب ما یقرأ فی رکعتی الفجر) یعنی اللہ کے رسول صلی الله علیہ وسلم تہجد کی نماز تیرہ رکعات پڑھتے تھے اور جب فجر کی اذان سنتے تو دو ہلکی رکعات ادا کرتے (یعنی فجر کی سنت)۔غور فرمائیں کہ گیارہ رکعات والی حدیث بھی بخاری میں ہے اور تیرہ رکعات والی حدیث بھی بخاری میں اور دونوں حدیثیں حضرت عائشہ سے ہی مروی ہیں تو سمجھ میں نہیں آتا کہ گیارہ رکعات والی حدیث میں سے لفظ آٹھ کو تو لے لیا اور تیرہ رکعات والی حدیث کو بالکل ہی چھوڑدیا، حالاں کہ تیرہ رکعات والی حدیث میں کان کالفظ استعمال کیا گیا ہے، جو عربی زبان میں ماضی استمراری کے لیے ہے یعنی آپ صلی الله علیہ وسلم کا تیرہ رکعات پڑھنے کا معمول تھا۔ نمازِ تہجد اور نماز تراویح کو ایک کہنے والے حضرات قرآن وحدیث کی روشنی میں دونوں احادیث میں تطبیق دینے سے قاصر ہیں۔ جب پوچھا جاتا ہے کہ حضرت عائشہ کی آٹھ رکعات والی حدیث میں تو چار چار رکعات پڑھنے کا تذکرہ ہے، لیکن عمل دو دو رکعات پڑھنے کا ہے تو جواب میں دوسری حدیث کا حوالہ دیا جاتا ہے، جس میں نماز تہجد کو دو دو رکعات پڑھنے کا تذکرہ ہے اور وہ حضرت عبد اللہ بن عباس کی حدیث ہے جو بخاری ہی (کتاب الوتر) میں ہے: ثُمَّ صَلّٰی رَکْعَتَیْنِ، ثُمَّ رَکْعَتَیْنِ، ثُمَّ رَکْعَتَیْنِ، ثُمَّ رَکْعَتَیْنِ، ثُمَّ رَکْعَتَیْنِ، ثُمَّ رَکْعَتَیْنِ، ثُمَّ اَوْتَرَ۔حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے وضو وغیرہ سے فارغ ہوکر نماز تہجد پہلے دو رکعات ادا کی، پھر دو رکعات ادا کی،پھر دورکعات ادا کی،پھر دورکعات ادا کی،پھر دورکعات ادا کی،پھر دورکعات ادا کی،پھر وتر پڑھے۔ بخاری کی اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نمازِ وتر کے علاوہ دو دو رکعات کرکے تہجد کی کل بارہ رکعتیں ادا فرماتے۔ آٹھ رکعات تراویح کا موقف رکھنے والے حضرات کے نزدیک تراویح اور تہجد ایک ہی نماز ہے تو ان احادیث میں تطبیق کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ غرضیکہ حضرت عائشہ کی پہلی حدیث سے آٹھ کا لفظ لیا اور حضرت عبد اللہ بن عباس کی اس حدیث سے دو دو رکعات پڑھنے کو لیا تو نہ تو حضرت عائشہ کی حدیث پر عمل ہوا اور نہ حضرت عبداللہ بن عباس کی حدیث پرعمل ہوا، بلکہ اپنے اسلاف کی تقلید ہوئی، حالانکہ یہ تینوں احادیث صحیح بخاری کی ہی ہیں۔ معلوم ہوا کہ نمازِ تراویح اور نمازِ تہجد کو ایک قرار دینا ہی غلط ہے، کیوں کہ اس کا ثبوت دلائل شرعیہ سے نہیں دیا جاسکتا ہے۔ چاروں آئمہ میں سے کوئی بھی دونوں نمازوں کو ایک قرار دینے کا قائل نہیں ہے۔ امام بخاری تو تراویح کے بعد تہجد بھی پڑھا کرتے تھے، امام بخاری تراویح باجماعت پڑھا کرتے تھے اور ہر رکعت میں بیس آیتیں پڑھا کرتے تھے اور پورے رمضان میں تراویح میں صرف ایک ختم کرتے تھے، جب کہ تہجد کی نماز امام بخاری تنہا پڑھا کرتے تھے اور تہجد میں ہر تین رات میں ایک قرآن کریم ختم کیا کرتے تھے۔ (امام بخاری کے اس عمل کی تفصیلات پڑھنے کے لیے صحیح بخاری کی سب سے مشہور و معروف شرح ”فتح الباری“ کے مقدمہ کا مطالعہ فرمائیں)۔
بس بات صحیح یہی ہے کہ نماز تراویح اور نماز تہجد دو الگ الگ نمازیں ہیں، تہجد کی نماز تو اللہ تعالیٰ کے حکم سے متعین ہوئی ہے، سورہٴ المزمل کی ابتدائی آیات (یَااَیَّہَا الْمُزَمِّلُ قُمِ اللَّیْلَ اِلَّا قَلِیْلا......) پڑھ لیں ۔ جب کہ تراویح کا عمل حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کے فرمان سے مشروع ہوا ہے، جیساکہ آپ صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے : سَنَنْتُ لَہ قِیَامَہ (نسائی، ابن ماجہ )
نوٹ یاد رھے غیر مقلدین نبی کریم ﷺ کی ذات گرامی پر ایک بھت بڑا الزام لگاتے ھیں کہ نبی ﷺ نے رمضان المبارک میں تہجد نہیں پڑھی حالانکہ تہجد نبی ﷺ پر فرض تھی اور تراویح نفلی عبادت بھلا ان گستاخوں کو کون سمجھائے کہ اس طرح کے جاھلانہ فتوؤں سے تم نبی کریم ﷺ کو تارک فرض قرار دے رھے ھو اور یہ اتنی بڑی گستاخی ھے نبی کریم ﷺ کی ذات گرامی کی کاش تمہارے ھی لوگوں کو سمجھ آجائے جو اندھے مقلد ھیں اپنی مساجد کے ملاّؤں کے اور خود کو غیر مقلد کہتے وہی تمہیں مساجد و بازروں میں گھسیٹیں گے کہ نعوذ بااللہ تم نبی ﷺ کو تارک فرض قرار دیتے ھو اور شرم پھر بھی نہیں آتی ؟
آخری میں ایک سوال اے گروہ آل نجد غیر مقلدین کیا نبی ﷺ تہجد فرض چھوڑ دیتے تھے یا نفلی عبادت تراویح نبی ﷺ نے نہیں پڑھی اس سوال کا جواب علمی دلائل سے دو ؟
اور ھاں تہجد اور تراویح نبی ﷺ کےلیئے کس حیثیت میں مانتے ھو ؟
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
مسئلہ رفع یدین مستند دلائل کی رشنی میں
مسئلہ رفع یدین مستند دلائل کی رشنی میں محترم قارئینِ کرام : علماء امت کا فیصلہ ہے کہ جن اختلافی مسائل میں ایک سے زائد صورتیں "سنّت&quo...
-
شوہر اور بیوی ایک دوسرے کے اعضاء تناسلیہ کا بوسہ لینا اور مرد کو اپنا آلۂ مردمی اپنی بیوی کے منہ میں ڈالنا اور ہمبستری سے قبل شوہر اور...
-
شانِ حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ قرآن و حدیث کی روشنی میں محترم قارئینِ کرام : قرآن پاک میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے : وَ یُطْعِمُوْ...
-
درس قرآن موضوع آیت : قُلۡ ہَلۡ یَسۡتَوِی الَّذِیۡنَ یَعۡلَمُوۡنَ وَ الَّذِیۡنَ لَا یَعۡلَمُوۡنَ قُلْ هَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَ...
No comments:
Post a Comment