Saturday 27 June 2015

بدعت کی تعریف و اقسام ( 5 )

0 comments

2۔ بدعتِ شرعی : ۔
بدعتِ شرعی سے مراد اَیسے نئے اُمور ہیں جو نہ صرف کتاب و سنت سے متخالف و متناقض ہوں اور اَخیارِ اُمت کے اِجماع کے بھی مخالف ہوں۔ دوسرے لفظوں میں ہر وہ نیا کام جس کی کوئی شرعی دلیل، شرعی اَصل، مثال یا نظیر پہلے سے کتاب و سنت اور آثارِ صحابہ میں موجود نہ ہو، ’’بدعت شرعی’’ ہے۔ ذیل میں بدعتِ شرعی کی چند تعریفات ملاحظہ فرمائیں۔
1۔ابن تیمیہ (728ھ) بدعتِ شرعی کی تعریف کرتے ہوئے اپنے معروف فتاویٰ ’’مجموع الفتاویٰ (3 : 195)’’ میں لکھتا ہے :
والبدعة ما خالفت الکتاب والسنة أو اجماع سلف الأمّة من الاعتقادات والعبادات کأقوال الخوارج والروافض والقدرية والجهمية.
’’بدعت سے مراد ایسا کام ہے جو اعتقادات و عبادات میں کتاب و سنت اور اَخیارِ اُمت کے اِجماع کی مخالفت کرے جیسے خوارج، روافض، قدریۃ اور جہمیۃ کے عقائد۔’’
2۔ شیخ ابن رجب حنبلی (المتوفی 795ھ) بدعت شرعی کی تعریف کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں :
المراد بالبدعة ما أحدث مما لا اصل له فی الشريعة يدل عليه واما ما کان له اصل من الشرع يدل عليه فليس ببدعة شرعاً وان کان بدعة لغة.
ابن رجب حنبلی، جامع العلوم والحکم، 1 : 252
’’بدعت (شرعی) سے مراد ہر وہ نیا کام ہے جس کی شریعت میں کوئی اصل موجود نہ ہو جو اس پر دلالت کرے لیکن ہر وہ معاملہ جس کی اصل شریعت میں موجود ہو وہ شرعاً بدعت نہیں اگرچہ وہ لغوی اعتبار سے بدعت ہوگا۔’’
حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مَنْ أحْدَثَ فِی أمْرِنَا هَذا مَا لَيْسَ مِنْه فَهُوَ رَدٌّ کی تشریح کرتے ہوئے علامہ موصوف بدعتِ لغویہ اور بدعتِ شرعیہ کے حوالے سے رقم طراز ہیں :
من أحدث فی أمرنا هذا ما ليس منه فهو رد(1) فکلّ من أحدث شيئا و نسبه إلی الدين ولم يکن له أصل من الدين يرجع إليه فهو ضلالة والدين بريء منه، و سواء فی ذلک مسائل الاعتقادات أو الأعمال أو الأقوال الظاهرة والباطنة. و أما ما وقع فی کلام السلف من استحسان بعض البدع فإنما ذلک فی البدع اللغوية لا الشرعية.(2)
(1) 1. مسلم، الصحيح، کتاب الاقضية، باب نقض الاحکام الباطلة، 3 : 1343، رقم : 1718
2. ابن ماجه، السنن،المقدمه، باب تعظيم حديث رسول اﷲ، 1 : 7، رقم : 14
3. أحمد بن حنبل، المسند : 6 : 270، رقم : 26372
4. ابن حبان، الصحيح، 1 : 207، رقم : 26
5. دار قطنی، السنن، 4 : 224، رقم : 78
(2) ابن رجب حنبلی، جامع العلوم و الحکم فی شرح خمسين حديثا من جوامع الکلم : 252
’’(حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ) جس نے ہمارے دین میں کوئی نئی چیز ایجاد کی جو اس میں سے نہ ہو تو وہ (چیز) مردود ہے۔ پس جس کسی نے بھی کوئی نئی چیز ایجاد کی اور پھر اس کی نسبت دین کی طرف کر دی اور وہ چیز دین کی اصل میں سے نہ ہو تو وہ چیز اس کی طرف لوٹائی جائے گی اور وہی گمراہی ہوگی اور دین اس چیز سے بری ہوگا اور اس میں اعتقادی، عملی، قولی، ظاہری و باطنی تمام مسائل برابر ہیں۔ اور بعض اچھی چیزوں میں سے جو کچھ اسلاف کے کلام میں گزر چکا ہے پس وہ بدعت لغویہ میں سے ہے، بدعت شرعیہ میں سے نہیں ہے۔’’
3۔ اِسی مؤقف کی تائید کرتے ہوئے معروف غیر مقلد وھابی عالمِ نواب صدیق حسن خان بھوپالی (1307ھ) لکھتا ہے کہ ہر نئے کام کو بدعت کہہ کرمطعون نہیں کیا جائے گا بلکہ بدعت صرف اس کام کو کہا جائے گا جس کے نتیجے میں کوئی سنت متروک ہو جائے۔ جو نیا کام کسی امرِ شریعت سے متناقض نہ ہو وہ بدعت نہیں بلکہ مباح اور جائز ہے۔
ایک اور غیر مقلد وھابی نواب وحید الزماں اپنی کتاب ’’ہدیۃ المہدی’’ کے صفحہ 117 پر بدعت کے حوالے سے علامہ بھوپالی کا یہ قول نقل کرتا ہے :
البدعة الضلالة المحرمة هی التی ترفع السنة مثلها والتی لا ترفع شيئا منها فليست هی من البدعة بل هی مباح الاصل.
’’بدعت وہ ہے جس سے اس کے بدلہ میں کوئی سنت متروک ہو جائے۔ جس بدعت سے کسی سنت کا ترک نہ ہو وہ بدعت نہیں ہے بلکہ وہ اپنی اصل میں مباح ہے۔’’
وہ بدعت جو مستحسن اُمور کے تحت آتی ہے اور قرآن و حدیث کے کسی حکم سے متضاد بھی نہیں وہ مشروع، مباح اور جائز ہے۔ اسے محض بدعت یعنی نیا کام ہونے کی بنا پر مکروہ یا حرام قرار دینا کتاب و سنت کی روح کے منافی ہی نہیں بلکہ منشائے اِلٰہی کے خلاف بھی ہے۔

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔