Wednesday 24 June 2015

اسلام میں عورتوں کے حقوق 2

0 comments

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اسلام سے قبل عورت کا معاشرتی مقام

اسلام کی آمد سے قبل عورت بہت مظلوم اور معاشرتی و سماجی عزت و احترام سے محروم تھی۔ اسے تمام برائیوں کا سبب اور قابل نفرت تصور کیا جاتا تھا۔ اہل عرب کے عورت سے اس بدترین رویے کو بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں ارشاد فرمایا :

وَيَجْعَلُونَ لِلّهِ مَا يَكْرَهُونَ.

’’اور وہ اللہ کے لیے وہ کچھ (یعنی بیٹیاں) ٹھہراتے ہیں جسے وہ خود ناپسند کرتے ہیںo‘‘

القرآن، النحل، 16 : 62

یعنی کفار مکہ اللہ کی بیٹیاں ہونے کا عقیدہ رکھتے تھے۔ دوسری آیت میں ہے :

وَيَجْعَلُونَ لِلّهِ الْبَنَاتِ سُبْحَانَهُ وَلَهُم مَّا يَشْتَهُونَO

’’اور یہ لوگ خدا کے لیے تو بیٹیاں تجویز کرتے ہیں (حالاں کہ) وہ ان سے پاک ہے اور اپنے لیے وہ جو چاہیں (یعنی بیٹے)o‘‘

القرآن، النحل، 16 : 57

یعنی یہ لوگ فرشتوں کے اللہ تعالی کی بیٹیاں ہونے کا عقیدہ رکھتے تھے جب کہ اُنہیں خود بیٹیاں پسند نہ تھیں بلکہ بیٹے پسند تھے۔

1. ابن کثير، تفسير القرآن العظيم، 2 : 573
2. طبري، جامع البيان في تفسير القرآن، 14 : 122، 123، 126
3. طبري، جامع البيان في تفسير القرآن، 27 : 61
4. قرطبي، الجامع لأحکام القرآن، 10 : 116
5. محلي، تفسير جلالين : 353

قرآن حکیم کی ان آیات سے واضح ہے کہ زمانۂ جاہلیت میں عورت کا مرتبہ ناپسندیدہ تھا وہ مظلوم اور ستائی ہوئی تھی اور ہر قسم کی بڑائی اور فضیلت مردوں کے لیے تھی اس میں عورتوں کا حصہ نہ تھا حتی کہ عام معاملات زندگی میں بھی مرد اچھی چیزیں خود رکھ لیتے اور بے کار چیزیں عورتوں کو دیتے۔ اہل عرب کے اس طرز عمل کو قرآن حکیم یوں بیان کرتا ہے :

وَقَالُواْ مَا فِي بُطُونِ هَـذِهِ الْأَنْعَامِ خَالِصَةٌ لِّذُكُورِنَا وَمُحَرَّمٌ عَلَى أَزْوَاجِنَا وَإِن يَكُن مَّيْتَةً فَهُمْ فِيهِ شُرَكَاءَ سَيَجْزِيهِمْ وَصْفَهُمْ إِنَّهُ حِكِيمٌ عَلِيمٌO

’’اور وہ کہتے کہ جو ان جانوروں کے پیٹ میں ہے وہ خالص ہمارے مردوں کے لیے ہے ہماری عورتوں پر حرام ہے اور اگر (پیدا ہونے والا) جانور مرا ہوا ہو تو وہ سب اس میں شریک ہوں گے عنقریب خدا ان کو ان کی (من گھڑت) باتوں کی سزا دے گا، بے شک وہ حکمت والا خوب جاننے والا ہےo‘‘

القرآن، الأنعام، 6 : 139

حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہما سے مروی ہے کہ اہلِ عرب مردوں کے لیے خاص چیز ’دودھ‘ ہے جو وہ اپنی عورتوں کے لیے حرام قرار دیتے تھے اور اُن کے مرد ہی اسے پیا کرتے تھے اسی طرح جب کوئی بکری نر بچہ جنتی تو وہ ان کے مردوں کا ہوتا اور اگر بکری پیدا ہوتی تو وہ اسے ذبح نہ کرتے، یونہی چھوڑ دیتے تھے۔ اور اگر مردہ جانور ہوتا تو سب شریک ہوتے۔ اللہ تعالی نے مسلمانوں کو ایسا کرنے سے منع فرما دیا۔

1. ابن کثير، تفسير القرآن العظيم، 2 : 242
2. طبري، جامع البيان في تفسير القرآن، 8 : 47، 48، 67
3. طبري، جامع البيان في تفسير القرآن، 11 : 128
4. قرطبي، الجامع لاحکام القرآن، 6 : 338
5. قرطبي، الجامع لاحکام القرآن، 7 : 95، 113
6. قرطبي، الجامع لاحکام القرآن، 8 : 74
7. شافعي، أحکام القرآن، 2 : 101

ابو جعفر طبری نے اس آیت کی تفسیر میں سدی سے نقل کیا ہے :

فهذه الانعام ما ولد منها من حي فهو خالص للرجال دون النساء و إماما ولد من ميت فيأکله الرجال و النساء.

’’ان جانوروں سے زندہ پیدا ہونے والا بچہ خالص ان کے مردوں کے کھانے کے لیے ہوتا اور عورتوں کے لیے حرام ہوتا اور مردہ پیدا ہونے والے بچے کو مرد و عورت سب کھاتے، (اس طرح وہ مردوں کو ترجیح دیا کرتے تھے)۔‘‘

1. طبري، جامع البيان في تفسير القرآن، 8 : 48
2. بخاري، التاريخ الکبير، 4 : 7، رقم : 1775
3. شافعي، الأم، 2 : 243
4. مالک، المدونة الکبريٰ، 15 : 106

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔