Saturday 27 June 2015

بدعت کی تعریف و اقسام ( 1 )

0 comments

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اَکابر اَئمہ اِسلام نے کتاب و سنت اور آثارِ صحابہ کے ذریعے اس حقیقت کو واضح کیا ہے کہ ہر بدعت ناجائز اور حرام نہیں ہوتی۔ صرف وہ بدعت ناجائز اور ممنوع ہوتی ہے جس کی کوئی اصل، مثال، دلیل یا نظیر کتاب و سنت میں موجود نہ ہو۔ ایسی بدعت شریعت کے کسی نہ کسی حکم کے واضح طور پر مخالف اور متضاد ہوتی ہے۔ اس کے برعکس جو ’’نیا کام’’ احکامِ شریعت کے خلاف نہ ہو بلکہ ایسے اُمور میں داخل ہو جو اَصلًا حسنات و خیرات اور صالحات کے زمرے میں آتے ہیں تو ایسے جملہ نئے کام محض لغوی اِعتبار سے تو ’’بدعت’’ کہلائیں گے کیونکہ ’’بدعت’’ کا لغوی معنی ہی ’’نیا کام’’ ہے ورنہ وہ شرعًا نہ تو بدعت ہوں گے اور نہ ہی مذموم اور باعثِ ضلالت۔ یقینا ایسے اُمور مبنی بر خیر ’’اُمورِ حسنہ’’ متصور ہوں گے۔

تمام تر لفظی اور اِصطلاحی اِختلافات کے باوجود تمام مکاتبِ فکر اِس اَمر پر متفق ہیں کہ کسی بھی نئے عمل کی حلّت و حرمت یا جواز و عدمِ جواز کے تعیّن کے لیے بدعت کی تقسیم ناگزیر ہے۔ کیونکہ اگر بدعت کو بلا اِمتیاز و بلا تفریق صرف ایک ہی اکائی سمجھ کر، ہر نئے کام کو جو عہدِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یا عہدِ صحابہ رضی اللہ عنہم کے بعد اِیجاد ہوا حرام یا مردود قرار دے دیا جائے تو لامحالہ تعلیماتِ دین اور فقہ اِسلامی کا بیشتر حصہ ناجائز کے زمرے میں آ جائے گا۔ اِجتہاد کی ساری صورتیں، قیاس اور اِستنباط کی جملہ شکلیں ناجائز کہلائیں گی۔ اسی طرح دینی علوم و فنون اور ان کو سمجھنے کے لئے جملہ علومِ خادمہ جو فہمِ دین کے لئے ضروری اور عصری تقاضوں کے مطابق لابدی ہیں، اِن کا سیکھنا، سکھانا بھی حرام قرار پائے گا۔ کیونکہ یہ سب علوم و فنون اپنی موجودہ شکل میں نہ عہدِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں موجود تھے نہ ہی عہدِ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں۔ اِنہیں تو بعد میں ضرورت کے پیشِ نظر وضع اور مرتب کیا گیا۔ یہ تمام علوم و فنون اپنی ہیئت، اُصول، اِصطلاحات، تعریفات اور قواعد و ضوابط کے اِعتبار سے نئے ہیں، لہٰذا اگر بدعت کی حسنہ اور سیئہ میں تقسیم نہ کی جائے تو یہ سب اُمور حرام قرار پائیں گے۔

بدعت کی پہلی تقسیم

1 ۔ بدعتِ لغوی

2 ۔ بدعتِ شرعی

 1۔ بدعتِ لُغوی

بدعتِ لغوی سے مراد وہ نئے اُمور ہیں جو صراحتاً کتاب و سنت سے ثابت نہ ہوں لیکن ان کی اَصل، مثال یا نظیر شریعت میں موجود ہو اور یہ شریعت کے مستحسنات کے ذیل میں آتے ہوں جیسے نمازِ تراویح کی جماعت، قرآنی آیات پر اِعراب، دینی علوم کی تفہیم کے لئے صرف و نحو کی درس و تدریس، اُصولِ تفسیر، اُصولِ حدیث، فقہ و اُصولِ فقہ اور دیگر علومِ عقلیہ وغیرہ کی تعلیم کا اِہتمام وغیرہ۔ یہ سب اُمور بدعاتِ لغویہ میں شامل ہیں۔

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔