Wednesday 24 June 2015

اسلام میں عورتوں کے حقوق 4

0 comments

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
مغربی معاشرہ اور عورت

اسلام کی آمد سے قبل عورت الم ناک صورت حال سے دوچار تھی جس سے اسے اسلام نے آزادی عطا کی۔ یہ امر کہ عورت کے حقوق کا تحفظ اسلام کے عطا کردہ ضابطوں سے ہی ہوسکتا ہے، مغربی معاشرے میں عورت کی حالت کے مشاہدہ سے بھی پایہ ثبوت کو پہنچ جاتا ہے۔ عورت کے حقوق کے تحفظ کا مفہوم انفرادی، معاشرتی، خاندانی اور عائلی سطح پر عورت کو ایسا تقدس اور احترام فراہم کرنا ہے جس سے معاشرے میں اس کے حقوق کے حقیقی تحفظ کا اظہار بھی ہو اگر ہم حقائق اور اعداد و شمار کی روشنی میں مغربی معاشرے میں عورت کے حقوق کا جائزہ لیں تو انتہائی مایوس کن صورت حال سامنے آتی ہے۔ خاندان جو کسی بھی معاشرے میں انسان کے تحفظ و نشو و نما کی اکائی کی حیثیت رکھتا ہے عورت کے تقدس کے عدم احترام کے باعث مغربی معاشرے میں شکست و ریخت کا شکار ہے۔ جس کا لازمی شکار عورت ہی بنتی ہے۔ امریکہ کے صرف 1993ء کے اعداد و شمار کے مطابق :

    2.3 ملین ہونے والی شادیوں میں سے 1.3 ملین طلاق پر منتج ہوئیں۔
    ان حالات کے پیش نظر محکمہ مردم شماری (Bureau of Census) نے پیش گوئی کی کہ ہر 10 میں سے 4 شادیوں کا انجام طلاق ہو گا۔
    ملک میں ہونے والی 60فیصد طلاقیں 25 سے 39 سال کی عمر کے جوڑوں میں ہوتی ہیں۔
    صرف ایک سال میں ان طلاقوں سے ایک ملین بچے متاثر ہوئے
    عموماً طلاق کے بعد 75فیصد سے 80فیصد افراد دوبارہ شادی کرتے ہیں حتیٰ کہ ملک کے اکثر لوگ دوسری یا تیسری شادی کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں۔ جن کی طلاق کا امکان پہلے سے کہیں زیادہ ہوتا ہے۔ (1)

(1) www.divorcenter.org/faqs/stats.htm, 15 March 2002, 0200 PST.

مغربی معاشرے میں طلاق کی شرح کا کچھ اندازہ درج ذیل اعداد و شمار سے بھی کیا جاسکتا ہے۔

امریکہ کے مختلف علاقوں میں شرح طلاق(2)

(2) i. www.odh.state.oh.us/Data/whare/mardiv/MGlance.htm, 15 March 2002, 0200 PST.
ii. www.odh.state.oh.us/Data/whare/mardiv/MGlance/htm.
15 March 2002, 0200 PST.


علاقہ     98

شادی / طلاق
    97

شادی / طلاق
    96

شادی / طلاق
    95

شادی / طلاق
    94

شادی / طلاق
ohio     84928     84913     83851     88964     92151
46596     47427     44918     48226     50235
Franklin     7765     9164     9198     9479     8888
4569     4945     4727     4904     5194
Hamilton     5583     5968     5914     6359     6137
2975     2531     2504     2906     2954
Miami     813     461     725     903     889
459     517     518     530     589
Montgomery     4084     4168     4393     4598     4685
1766     2691     2823     2830     2854
Richland     1020     976     1033     1064     1052

648
    645     556     639     655
Washington     581     578     598     575     611
317     311     328     329     300
دیگر ممالک میں شرح طلاق (1996ء)

آسٹریلیا : 106,100 شادیوں سے 52,500 طلاق پر منتج ہوئیں۔

کیوبا : شرح طلاق 75فیصد ہے۔

فرانس : 117,716 طلاقیں ہوئیں جن میں سے 95فیصد کا مطالبہ عدم تحفظ حقوق کے سبب سے خود خواتین نے کیا۔

سکاٹ لینڈ : 29,611 شادیوں سے 12,222 طلاق کا شکار ہوئیں۔

سوئٹزرلینڈ : 38,500 شادیوں سے 17,800 طلاق کا شکار ہوئیں۔ (1)

(1) www.divorcemag.com/statistics/statsworld.shtml,15 March 2002 0200 PST.

Statistical Abstract of USA کے مطابق امریکہ کی مختلف ریاستوں میں شرح طلاق ہر آنے والے سال میں اضافہ پذیر رہی۔ طلاق کی اس اندوہ ناک صورت حال سے متاثر ہونے والے افراد کی اکثریت کا تعلق نوجوانوں سے ہے۔ مگر 1998 میں ہونے والی طلاقوں میں 11.8فیصد خواتین 20 سال سے کم، 55.7فیصد خواتین 20 سے 29 سال کے درمیان‘ 25.8فیصد خواتین 30 سے 44 سال کے درمیان اور 6.8فیصد خواتین 45 سال سے زائد عمر کی ہیں اور ہر آنے والے سال میں شرح طلاق اضافہ پذیر رہی :


سال     طلاقوں کی تعداد
1950     385,000
1960     393,000
1970     709,000
1980     1,189,000
1990     1,175,000(1)

 (1) www.ifas.org/fw/9607/statistics.html, 15 March 2002, 0200PST.

مغربی معاشرے کے خاندانی ڈھانچے کی شکست و ریخت کی اتنی ابتر صورت حال کو بیان کرتے ہوئے لاس اینجلس ٹائمز نے اپنی 27 مئی 1996 کی اشاعت (ص A16) میں لکھا کہ 1994 میں 1.2 ملین امریکی شادیاں طلاق کا شکار ہوئیں جو 1960 کی تعداد کا تین گنا ہیں۔ (2)

(2) calvarychapel.com/library/Reference/Social/ DivorceStatistics.htm, 15 March 2002,0200 PST.

طلاق کی اتنی بلند شرح کے اثرات صرف نوجوانوں پر ہی نہیں بلکہ بچوں پر بھی نمایاں ہیں۔ National Center for Health Statistics کے 1988 کے جائزے کے مطابق Single-Parents خاندانوں (طلاق یافتہ اور بغیر شادی کے بننے والے والدین) کے بچے عدم دلچسپی کے باعث سکول کی تعلیم سے محروم رہتے ہیں اور لڑکیاں زندگی کی دوسری دہائی میں ہی حاملہ ہوجاتی ہیں جبکہ اکثر منشیات کے عادی بھی ہیں۔ (1)

(1) calvarychapel.com/library/Reference/Social/ DivorceStatistics.htm, 15 March 2002,0200 PST.

معروف سماجی سائنسدان Nicholas Nill نے 1993ء میں ایک رپورٹ میں لکھا کہ طلاق یافتہ والدین کے بچے نہ صرف اقتصادی مشکلات کا شکار رہتے ہیں بلکہ تعلیم کی محرومی اور نفسیاتی پیچیدگیوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔ لاس اینجلس کے ایک عوامی سروے کے مطابق 69فیصد امریکی طلاق کے مضر اثرات کے ازالہ کی سبیل مستحکم خاندانی نظام کو قرار دیتے ہیں۔ (1)

(1) calvarychapel. com/library/Reference/Social/ DivorceStatistics.htm, 15 March 2002,0200 PST.

بچوں پر طلاق کے اثرات صرف تعلیمی، نفسیاتی یا اقتصادی ہی نہیں۔ سماجی سائنسدان Sara S. McLanahan کے مطابق وہ لڑکیاں جو اپنا بچپن اور لڑکپن طلاق یافتہ والدہ کے ساتھ گزارتی ہیں مستقبل میں ان کے اسی منہج پر زندگی گزارنے کے 100فیصد سے 150فیصد تک امکانات دیکھے گئے ہیں۔ (1)

(1) www.divorcereform.org/black.html, 15 march 2002, 0200 PST.

مغربی معاشرے کی عورت صرف سماجی یا معاشرتی سطح پر ہی انحطاط کا شکار نہیں بلکہ ظاہراً معاشی و اقتصادی آزادی کی حامل ہوتے ہوئے بھی استحصال سے دوچار ہے۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں مغربی عورت کی معاشی و اقتصادی حالت کا جائزہ یوں پیش کیا گیا :

Women constitute half the world's population, perform nearly two third of its work hours, recieve 1/10th of the world's income, & own less than one hundredth of the world's property.(1)

’’دنیا کی آدھی آبادی عورتوں پر مشتمل ہے، دنیا کے دوتہائی کام کے گھنٹوں میں عورت کام کرتی ہے مگر اسے دنیا کی آمدنی کا دسواں حصہ ملتا ہے۔ اور وہ دنیا کی املاک کے سوویں حصہ سے بھی کم کی مالک ہے۔‘‘

(1) UN Report 1980 quoted in Contemporary Political Ideologies : Roger Eatwell & Anthony Wright, Westview Press, San Francisco, 1993.

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔